شہ رگ
نہر کا پاٹ چوڑا تھا اور پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ کبھی مورنی سی پیلیں ڈالتا بھنور سا گھومتا، کبھی پنہاری سی گاگریں لڑھکاتا ،چھلیں اڑاتا، نہر کے ان عنابی رنگ پانیوں میں عورتیں نہاتیں تو امو کو اپنی گابھن بکریوں کی طرح رس بھری معلوم ہوتیں۔ ان بکریوں کی طرح جن کے تھن دودھ سے بھرے اور سلاخوں سے تنے ہوئے ہوتے، جیسے ابھی میٹھے شفاف چشمے پھوٹ پڑیں گے، تب وہ بے اختیار جھپٹا مار تھل تھل کرتا تھن منہ میں ڈال لیتا اور چپڑ چسر چوس ڈالتا اور پھر خالی لٹکتے ہوئے سیاہ چھیچھڑے سے دیکھ کر اسے عجب فتح مندی کا احساس ہوتا۔ نہر کنارے کھڑے بوڑھے ون اور اوکاں کے مہیب جھاڑ خمیدہ قد لگتے، ریمونٹ کے اصطبلوں میں واہیات حد تک جوان نر گھوڑے خچر معلوم ہونے لگتے، کناروں چھلکتے نہر کے لال پانی پایاب ہوتے جن میں رابو اترتی تو کریوں کے لالو لال ڈیلے جھڑنے لگتے۔ لسوڑیوں کا گودا ٹپکتا، اور وَن کی سلونی پھلیاں ٹوٹ ٹوٹ گرتیں۔ تب وہ اپنی کسی دودھل بکری کے تنے ہوئے تھن منہ میں ڈال ایک ہی سانس میں خالی کر دیتا، رابو کے گرداگرد لمبی گردنوں والے براق بگلے تیرتے گلابی عنابی پھولوں پر مدھو مکھیاں منڈلاتیں اور دریائی پانی نہر کے سینے میں سمٹنے لگتا جہاں رابو نہاتی تھی اور جہاں سے راجباہوں اور کھالوں کے سوتے نکلتے تھے۔ ایک روز بےاختیار وہ بھی نہر میں کود پڑا اور پانی میں تیرتے ہوئے ان بوجھوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، جو رابو کے بدن سے مَس ہوتے تھے تو پھولوں بھری لغریں بن جاتے تھے۔ سرسوں کی اِن گندلوں کو چھونے کی کوشش میں اُس کا ہاتھ رابو کی کمر پر جا پڑا۔ تو اک دھواں سا اس کے بدن کے بند مساموں میں سے چھٹا تو یکبارگی اس کے چہرے پر مونچھ داڑھی اُگ آئے جو بیس برس کی عمر تک نہ اگ سکے تھے۔
’’ابے امو تو‘‘
امو چرواہے کی جسارت پر رابو بے تحاشہ ہنسی، روپہلی مچھلی گلپھڑے کھولتی بند کرتی، دور تیر گئی۔ مچھلیوں کے سنہرے پرت اور پھولوں کے زردانوں سے نہر کی سطح بھر گئی اور امو کی ہتھیلیوں پر لسوڑیوں کی لیس، ڈیلوں کا گودا، کیکروں کے پھولوں کی مٹھاس ،پکے ہوئے چبڑوں کی کھٹاس اور پتہ نہیں کس کس ذائقے کا آمیزہ لتھڑا رہ گیا۔ چاٹتے چاٹتے اس کا جی چاہا کہ نہر کے پیٹ میں کہیں اتر جائے ایسا نہ ہو کہ وہ باہر نکلے اور اس کی سنہری ہتھیلیوں کے زردانے جھڑ جائیں۔ تب کپاس کے پودوں پر منہ جوڑے کھڑے ٹینڈوں کے تینوں جوڑ کھل گئے۔ سفید لیس دار ریشے باہر جھانکنے لگے، زمین کی کوکھ میں کرنڈ ہوئے سارے بیج پھوٹ پڑے اور کناروں چھلکتی، میلوں بہتی نہر کے میٹھے پانیوں میں سیراب ہو نے لگے۔ رابو نہر کنارے تھاپا مار مار کر کپڑے کوٹتی تھی تو اُس کی گیلی اوڑھنی کے اندر بھی جیسے اک ردھم سے کہیں تھاپے پڑ رہے ہوں، جن کی دھمک سے امو کا بدن بجتا تھا اور نہر کے پانیوں میں بھنور بنتے تھے جن میں لالیوں، گھگھیوں اور بگلوں کے ڈار گردنیں گھسیڑ گھسیڑ پر جھنکارتے اور جھن جھن پھواریں رابو کی اوڑھنی کو بھگوتیں، جس کے بدن میں نہری پانی کی رنگت گھلی تھی، نہ سرخ نہ پیلا نہ مٹیالا پتہ نہیں کیسا رنگ پکی ہوئی پیلوں جیسا، رس بھری نمولی ایسا، دودھ بھرے بکری کے تھنوں کی رنگت جیسا۔
عورتیں جب کپڑے دھو چکتیں تو گردن تک قمیصیں ہٹا کر اک دوجی کی کمر پر سے ناخن مار مار گرمی دانے پھوڑتیں تب امو کی بکریاں بھری فصلوں کو منہ مارنے لگتیں، لیکن وہ انھیں ہنکا نہ پاتا، کہ اس کے پیر تو نہر کی سنہری ریتل میں دھنسے ہوتے، جہاں روپہلی مچھلیاں قلابازیاں لگاتیں، اور نازک نازک شاخوں پر لہراتے شوخ رنگ پھول سنہری پانیوں میں منہ دھوتے۔ تب دریائی پانیوں میں گچا گچ نہر کی مینڈھوں پر بیٹھ کر عورتیں ٹپے اور ماہیے گاتی ہیں تو اسے باری دینے کو کہتیں کہ چرواہوں کے گیت راوی کے پانیوں جیسے بھیگے نتھرے اور میٹھے میٹھے ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کی عورتیں اسے کمر پر صابن ملنے اور پت کے دانے پھوڑنے کی دعوت بھی دے دیتی تھیں۔ تب اسے لگتا یہ مواد بھرے دانے نہیں ہیں بلکہ اس کی دودھل بکریوں کے بھرے ہوئے تھن ہیں۔ وہ پٹک پٹک ناخن مارتا چلا جاتا۔ ان میں سے نکلنے والا زرد مواد جیسے کہیں اُس کے اپنے اندر بھرا پڑا تھا، جو ناخن لگنے سے پھوٹ پڑا ہو۔ اس کا اپنا جسم ازخود پت کا اک بڑا سا دانہ بن جاتا جس کا منہ کھل گیا ہو اور جس میں سے زرد زرد پکا ہوا مواد پھوٹ پڑا ہو۔ وہ لذتِ درد میں کراہتا، تب کوئی مرد آتا دکھائی دیتا تو عورتیں خود کو ڈھکنے لگتیں لیکن اس سے کسی پردے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتیں جس کے چہرے پر بیس برس کی عمر تک کوئی بال تک نہ اگا تھا اور قد کنڈیاری کے بوٹے جتنا تھا تب وہ کانٹوں بھرے کیکروں کی ٹہنیوں پر چڑھ جاتا اور ریمونٹ کے اصطبلوں میں بھرے اُن نر گھوڑوں پر حقارت سے تھوکتا جن کا کام صرف مربع پال گھوڑیوں کی نسل کشی تھا، جن کی نس نس میں کچھ ابلتا کھولتا، جیسے ابھی پھٹ پڑیں گے۔ اس کے اندر بھی ایسا ہی کچھ ابلتا کھولتا ہوا باہر نکلنا چاہتا۔ نر گھوڑوں کی بےحیائی جیسا کہ پت کے مواد جیسا۔ تب وہ ان کورے کھیتوں میں لوٹنے لگتا، جن کی ابھی کور نہ ٹوٹی تھی، جو ابھی پچھلی رات دھرتی کو پھاڑ کر ذرا ذرا انگور سے باہر نکلے تھے اور جن کے سروں پر ابھی بیج کے خول دھرے تھے۔
نہر کناروں کناروں چھلکتی سروے کی چوڑی سڑک کو پایاب کرتی اوکاں اور ون کے کھکھلوں میں نہری پانی اچھال مارتا اور دونوں کناروں بچھے کھیتوں میں منہ زور ہو گھپ گھپ بھرتا، جس کی سطح پر مچھلیوں کے سنہرے پرت اور بگلے تیرتے تھے کہ یہ پانی رابو کو چھوکر کھیتوں میں بھر رہا تھا جس کے سنہرے کیچڑ سے اصغر کی پنڈلیاں لتھڑی تھیں۔ سفید لنگوٹ رانوں پر کسا تھا۔ دھواں چھوڑتی، تڑپتی پھڑکتی پنڈلیاں اور رانیں جن سے لہو رنگ نہری پانی نچڑتا تھا اور تنومند بدن کے مساموں سے زرخیز بھل جھڑتی تھی، جو بنجر گلزار بناتی تھی اور گلزار پھلدار، یکبارگی وہ ریمونٹ کے گھوڑوں سے مضبوط سم اٹھا کر پانی میں کودا اور ہنہناتا ہوا رابو تک گیا، رابو بدن کی نہر سے چھٹتی لہروں اور جھرتی ہوئی بھل میں منہ کے بل گری اور بھاپیں چھوڑنے لگی، اور فولاد چڑھے سموں سے چٹختی چنگاریوں میں بھسم ہو گئی تب گداز پھولوں کو چومتی ہوئی مدھو مکھیاں فضا میں بھڑ گئیں۔
امو کو لگا اس کی سب سے رسیلی بکری کے دودھ بھرے تھن کسی جنگلی بلے نے دبوچ رکھے ہیں۔ اس نے گلا پھاڑ پھاڑ ڈھولے اور ماہیے گائے جن میں ڈاروں وچھڑی کونج کی کرلاہٹ بھری تھی۔ اپنی دودھل بکریوں کو چھمکیں مار مار اِدھر ادھر بھری فصلوں میں بکھیرا، کیکروں کی ٹیشیوں پر چڑھ کر کوکیں اور واجیں ماریں، ٹہنوں سے لٹک کر لمبے لمبے جھونٹے لیے لیکن آج شاید ساری بستی کان لپیٹ کر سومر رہی تھی۔ وہ دھریک کی ٹیشی سے جھولتا ہوا نیچے بھیگی ہوئی ریت میں آن ٹپکا، اور جھپٹا مار کر اپنی سب سے دودھل بکری کی پچھلی ٹانگوں کو جکڑ لیا، جس کے جسم سے بھی بڑے حوا نے پر چڑھی بوجھی لیرولیر کر دی اور حلق کو کہیں پیٹ میں کھینچ کر اور زبان کو پھندہ بنا کر بھرے ہوئے تھن ایک ہی سانس میں خالی کر دیئے اور پھر دُودھ اور آنسوؤں کی میٹھی نمکین دھاریں باچھوں سے بہنے لگیں اور گیلی ریت میں وہ سارے کا سارا لتھڑ پتھڑ ہو گیا تب سرخ جھکر آسمانوں سے اترے اور سیاہ سیلابی آندھیاں زمین سے اُمڈیں اور آسمان اور زمین کے درمیان بھری ہر شئے کو لتاڑ دیا۔ نہر کے کنارے ٹوٹ گئے۔ کھیتیاں غرقاب ہو گئیں۔ تیار فصلیں اپنے ہی گھٹنوں پر دُوہری ہو گئیں۔ ون اور اوکاں کے تنے تڑخ گئے جن میں بھرے جنگلی چوہے، گلہریاں اور گوہ جھکڑوں میں اڑنے لگے۔ سیاہ چھال پانی کے بہاؤ میں تیرنے لگے اور گھونسلوں میں پناہ لیے ہوئے پرندے اور انڈے بچے روڑ گِیٹوں کی طرح ٹپکنے لگے۔ امو کی کئی بکریاں اندھی ہو کر نہر میں گریں اور بہہ گئیں۔ شوکریں مارتا لال آسمان زمین کے سیاہ داغدار چہرے سے ٹکریں مارنے اور لہولہان ہونے لگا۔ تب نہر کے سارے پانی بےمنہ سرزمینوں میں جذب ہو گئے۔
اس روز نہر میں پانی کی بندی ہو گئی کنارے پیندے میں اتر گئے اور مَری ہوئی مچھلیاں کناروں پر چپکی رہ گئیں، سر کے بل نہر میں غوطے لگانے والے لڑکوں کے بدن کیچڑ سے اَٹ گئے، پرندوں کے پروں سے جھپٹتی پھواروں میں بھیگنے والی رابو کی اوڑھنی خشک ہو گئی، جس پر کالے پیلے میل کے چٹاک ابھر آئے۔ ایسے ہی داغ جیسے زرد پتوں میں لپٹی لسوڑیاں سوکھ کر پیپ بھرے پھوڑے معلوم ہونے لگی تھیں۔ لال ڈیلے سیاہ چویاں بن کر جھڑ گئے۔ چراگاہیں پھونس ہو گئیں نہر سے نکلتے راجباہ اور کھالوں کے سوتے خشک ریت پھانکنے لگے اور بکریوں کے تھن سوکھ کر جنڈ کی جڑیں بن گئے، سروے کی چوڑی سڑک جس پر کبھی نہر کی اُچھال چھڑکاؤ کرتی، ڈکھن کی ہوائیں جھنڈوں میں سے ساڑ ساڑ گزرتی ہوئی جسموں پر پھولوں بھری چھمکیں برساتی تھیں۔ اب مویشیوں اور انسانوں کے ریوڑ اس ٹھنڈی سڑک سے گزرتے تو معلوم ہوتا، بگولے سٹاپو کھیل رہے ہیں۔ کپاس کے ٹینڈے ان کھلے ہی کرنڈ ہو گئے، جن کے سفید ریشے سنڈیاں بن گئے۔ خشک نہر کی قبر پر بیٹھی عورتیں بین الارنے لگیں، کماد اور نرمے کی اُن فصلوں کا ماتم جو آسمانوں چڑھی سیاہ آندھی معلوم ہوتے تھے۔ ان درختوں کا ماتم جن کی شاخیں اک دوجے میں منہ دھنسائے چھتریاں تان گئے تھے، جن کی گھپاؤں میں عورتیں بھٹک جاتیں تو کھیتوں کو پانی باندھتے مرد اُنھیں ڈھونڈنے کو نکلتے تو وہ بھی رستہ بھول جاتے تب نہری پانی پی پی کر ساوے کچر ہوئے جھنڈوں میں نرمادہ چونچیں لڑاتے۔ بند پپوٹوں اور زرد باچھوں والے بوٹ نہری پانی کے بلبلوں کے سے انڈے پھوڑتے۔ لال لال حلق چیر چیر چوگا لیتے۔
سورج ان جھنڈوں میں سو ا نیزہ اترتا چلا گیا۔ جامنی دھاریوں والے آک کے سفید پھولوں کے گچھے اور آموں کے ہم شکل سبز کڑوے پھل، دھول کی موٹی تہ میں لپٹ گئے۔ تھور اور کنڈیاریاں کھیتوں کی زرخیزی چاٹ گئیں۔ پرندے سوکھی نہر میں منہ کے بل غوطہ کھا کر گرتے اور سلگتی ریت میں چونچیں پھنسا دوبارہ اڑان نہ بھر پاتے۔ چرند پرند روڑ گیٹے کھا کھا مرنے لگے۔ اب انسان کیا کھائیں گے، اوندھی موندھی آندھیوں چڑھی فصلیں سوکھی نہر کی سولی چڑھ گئی تھیں۔ بکھرا، کنڈیاریاں اور آک پھل پھول گئے، زرخیز مٹی، روڑ اور ڈھیمیں بن کر بھاپ چھوڑنے لگے۔ دائی کی بھٹی اور تنور ٹھنڈے ہو گئے جہاں کچے سٹے مچھ کر اور دودھی بھٹے گھیر کر آبھو بھنوائے جاتے تھے اور مٹھ مٹھ بھر پیڑوں کی روٹیاں وارو وار لگتی تھیں۔ گیہوں کی ہم رنگ عورتیں سوکھ کر بھوسہ ہو گئیں اور مردوں کی کمریں کھجور کے سیلے پتوں سی دوہری ہو گئیں، پانی پانی پکارتی ٹٹیریاں پیاسی ہی سو گئیں۔ نہر کے پیندے میں چلو بھر پانی تعفن چھوڑ گیا، جس میں مرے ہوئے مچھلیاں پرندے اور مویشی راتوں رات کہیں غائب ہونے لگے۔ تب خبر آئی اوپر کہیں پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہے، جب تک زمینوں کی سیرابی کا سمجھوتہ نہیں ہو پاتا تب تک سارے پانی سمندروں میں غرق ہوتے رہیں گے۔ نہریں خشک ریت اڑاتی رہیں گی۔ زمینیں بنجر ہو کر بھکھرا اگائیں گی، جنھیں کھا کر جاندار مرتے رہیں گے، جس میں مرغابیاں، مچھلیاں، بگلے، لومڑ منہ کے بل ریت میں دفن ہوتے رہیں گے۔ اَمو کو بڑوں کی اس سوچ پر بڑی ہنسی آئی اور وہ سوکھی ہوئی نہر کی قبر پر جس کے سارے پانی سمندر برد ہو رہے تھے اور جس کی زمینیں پیاسے حلق کھولے مر رہی تھیں، تا دیر بیٹھا ہنستا رہا۔ زیادہ ہنسی تو اسے ریمونٹ کے اصطبلوں میں بندھے نہر کے پانیوں کی طرح چھلکتے امڈتے بھاپ چھوڑتے ان نر گھوڑوں پر آئی جو اپنے اندر ہی کہیں نہر کے پانیوں کی طرح اتر گئے تھے۔ اس سے زیادہ ہنسی تو اسے اصغر کو دیکھ کر آئی کہ یہ نر گھوڑا بھی خشک نہر میں بنے گھوروں اور غاروں کی طرح اپنی ہی گہرائیوں اور کھائیوں میں کہیںسمٹ گیا تھا اور پھر اسی روز اس نے نجانے کونسا بھکرا نگلا کہ ایک دن اور ایک رات جلاب نچوڑتا ہوا ایسے مر گیا جیسے کوئی چڑی گھگھی خشک نہر کی سوکھی ریت میں پر دھنسا اور چونچ گھسیڑ پیاس کی سولی پر چڑھ جاتی ہے تب امو نے اپنی سب سے دودھل بکری کے تھن منہ میں چوڈالے حلق ریتلا غار بن گیا اور زبان پر تھور اگ آیا لیکن دودھ کا قطرہ بھی نہ ٹپکا، جیسے وہ آک کی سوکھی جڑ چوستا ہو جس میں سے دودھ رنگ زہر نچڑتا ہو۔ تب نہر کی خشک پھوڑی پر عورتوں نے بین الارے، جن کے جسموں پر بچھے گرمی دانے پھس گئے تھے اور جلد کی اُوپر لی سیاہ پرت ادھڑ گئی تھی، جن کی قمیصوں میں چوسی ہوئی لسوڑیوں کی بوسیدہ کھالیں لٹکتی تھیں، پھولے ہوئے پیٹوں والے بچوں کے سَروں پر کوے آن بیٹھتے، ٹھونگتے مگر سوکھا ہوا چمڑا نہ ادھیڑ پاتے۔ گدھوں کی کر لاہٹیں، ٹٹیریوں کی پکاریں۔ عورتوں کے بین، بچوں کے حلق میں کھڑکھڑاتی چیخیں جنھیں باہر انڈیلنے کی طاقت تانت سے جسموں میں نہ رہی تھی۔ سامنے نہر کے خشک ملبے میں گدھ اور ڈھوڈر لمبے پر پھیلا سر کے بل دبے تھے اور سروے کی سڑک پر ریت اور دھول کے پہاڑی سلسلے رواں رہتے تھے۔ سرمہ سی مٹی ڈھیمیں اور روڑے بن کر تڑخ گئی اور کور تمے اور تھور اگلنے لگی۔ رابو تعفن بھری نہر کی بھاپ چھوڑتی بھوبھل میں پیر ڈال کر روتی تھی۔ اس کے گرد نہاتے سارے پھول راکھ ہو چکے تھے ۔مچھلیاں مر گئی تھیں اور بگلے کہیں ہجرت کر گئے تھے۔ امو اپنی مرتی ہوئی بکری کو اٹھا کر نہر پہ لایا، جس کا بدن دھونکنی کی طرح پھڑکتا تھا لیکن نہر سوکھ کر ہموار ہو چکی تھی، جس کی مینڈھوں پر سبزہ تھا، نہ پیندے میں پانی، بکری کے تھن تانت کی طرح بجتے تھے اور امو کا منہ گرد اور آنسوؤں سے اٹا تھا۔ رابو نے بانہیں پھیلا کر اسے سینے سے چمٹا لیا اور سوکھی نہر کی پھوڑی پر بین الارا۔
’’امو نہر سوکھ گئی۔ تیری بکریاں مَر گئیں میرا اصغر مر گیا۔ تو اپنی بکریوں کے بغیر نہ جی سکے گا میں اصغر بنا نہ جی پاؤں گی۔‘‘
امو کو لگا وہ اپنی مری ہوئی بکری کی ٹھنڈی لاش سے لپٹا ہے۔ سوکھی ہوئی نہر کی بھوبھل میں پڑنے والے کسی پیاسے گھورے میں اتر گیا ہے۔ اس نے اپنی ہتھیلیوں کو چاٹا لیکن ان پر کچھ تمے اور تھور کی سی کڑواہٹ ملی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے تھے لیکن بدن کی ریت کہیں روح کے گھوروں میں اڑ رہی تھی۔ لہروں سی اچھال مارنے والے ریمونٹ کے گھوڑے کہیں اندر ہی سمٹ گئے تھے اور بدن پر بچھے سارے گرمی دانے بنا ناخن مارے ہی پھٹ گئے تھے۔ امو نے منہ پر ہاتھ پھیرا اس کے چہرے پر اگنے والے دو چار بال بھی مسمار ہو چکے تھے۔ رابو کی نحیف گرفت میں وہ سوکھے ہوئے گوکھڑے کی طرح کرنڈ پڑا تھا، جس کی پھوٹیں، اس کے سیاہ ریشوں میں دھنس چکی تھیں۔ سارے آبی پرندے خشک نہر کی قبر کرید کرید کہیں اڑان بھر گئے تھے اور اوپر کہیں پانی کی سیرابی کی تقسیم پر فیصلہ ابھی بھی نہ ہو پایا تھا۔ سارے دریا سمندروں میں غرق ہو رہے تھے اور سامنے پڑی نہر کی شہ رگ کٹ چکی تھی۔
یا شاعر
’’پیاری طالب علمو!میرے اس کتاب گھر میں بجز کتابوں کے کوئی ساماں نہیں یہاں ہر علم کی ہر شاخ حرف، حرف پھولوں سے لدی ہے۔ ہر نوع ہر رنگ و باس کے کتب پھول کھلے ہیں۔ اپنی پسند کے شگوفے چن لیجیے اور اُن پر تشریف رکھیے۔ انہیں اپنے لمس مشکبار سے محروم مت کیجیے۔‘‘
طالب علم لڑکیاں مرعوبیت و ممنونیت کے بحر بے کراں میں ڈوب چلیں، کنارے کنارے بیچ منجدھار اتھاہ ساگر۔
کتابوں کے بندھے بنڈل جن کی بوباس مثل بند کلی انہی کا مقدر تھی۔ چہار جانب نشستوں کی مانند بکھرے تھے۔ لڑکیاں ایک ایک بنڈل پر سمٹ گئیں۔ یہ حرف پھول جن میں بدن پھول مہکتے ہیں۔ بدن پھول جو اپنی بوباس لٹا مرجھا جاتے ہیں۔ حرف پھول جو بدن مہک جذب کر سدا مشکبار رہتے ہیں۔ شاعر باکمال حرفوں کی تھالی تھامے عطرلوبان دھنکائے مشک مہکائے، مورتیوں کے چرنوں میں دو زانو ہو بیٹھا۔ حرفوں کی تھالی ہولے ہولے گردش کرنے لگی۔
عزیز از جاں متعلم مہر لقا لال جلد والی افسانوی ادب کی کتاب تیرے تخیل کے رومان پرور جزیروں کی مدہوش کن فضاؤں کی غماز ہے۔ نغمۂ جان ترنم، تیرا حسن انتخاب تیرے خدوخال متوازن کا عجب سنگم ہے۔ تو سراپا گیت ہے مجسم نغمہ ہے۔ راگ راگنیوں کے علم پر محیط یہ کتاب تیرے ذوق ترنم آفریں کی غماز ہے۔ ماہ طلعت تیری نگہ شیرانی و مجاز کے کلیات کو شرف انتخاب بخش گئی۔ تجھ میں عذرا و سلمیٰ کی ساری دلربائیاں مجسم ہیں تو شاعر کے تخیل کی تجسیم ہے۔ شاعر با کمال کی نیم وا آنکھوں میں نظاروں کی حشر سامانیاں گندھ گئی تھیں۔ چور چور چھلکتی امڈتی۔
دھند کے غباروں میں کہسار کے چناروں میں
برق کوندتی ہے حسن کے نظاروں میں!
اے حسینہ غنچہ دہن میری اگلی کتاب کا انتساب تیرے نام کہ تو اس کتاب کے ہر ہر حرف میں ہر خیال میں لہو کی گردش تیز ہے۔ تو کہ شاعر حرماں نصیب کے تخیل کی مہمیز ہے۔ لڑکیاں مرعوبیت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن سطح آب پر ابھرتی ڈوبتی رہیں، سورج دن اور رات کی درمیانی فصیل پہ بچھا حاضر غائب نہ پورا اجالا نہ پورا اندھیرا۔ شاعر باکمال کا کتاب گھر ڈوبتے سورج کی شفق میں ملگجا، نکھرا کچھ واضح، کچھ دھندلا، کچھ ظاہر، کچھ پوشیدہ عارضوں کی شفق لبوں کی دھنک، گیسوئے تابدار کی ملگجاہٹ، حرفوں کی مدھرتا، لہجوں کا ترنم شعروں کا رسیلا سحر۔
پیاری طالب علمو! ہر غزل کا ہر شعر ہر اقتباس کا ہر لفظ ابلاغ معنی میں کمال ایمائیت رکھتا ہے۔
’’یا شاعر وضاحت ہو۔‘‘
گدرائی ہوئی شفق کی کرنیں کتری ہوئی دھنک پھولا پھروا۔ شاعر باکمال کے وجود میں جھرجھری بڑھ کر پھیل گئی اور پھیل کر سمٹ گئی۔
اچھی طالب علمو! ایک ہی شعر کی شرح ایک مرد ثقیل کے لیے، نوجوان پر جوش کے لیے یا دوشیزہ ہو شربا کے لیے معنی کی مختلف پرتیں کھولتی ہے۔
’’یا شاعر مثال دی جائے۔‘‘
پیاری طالب علمو تشریح وہ جواز خود دل کے نہاں خانوں میں شرح ہو جائے غالب خرابات کا مصرع ہے۔
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
نوجوان، ناشکیب کے جذب و کیف پر یہ کچھ یوں عیاں ہوتا ہے کہ جذبے کی تڑپ اور نگہ کی حدت پیرہن کے تار و پود کو جھلسا کر بھسم کر دیتی ہے۔سراپا غزل شعر مجسم دوشیزہ خوش جمال کا پیرہن مانند ورق مہین ہے کہ شباب ہو شربا مانند سوزبرق سنگین ہے۔
لڑکیاں اپنے اپنے وجود میں کسمسائیں، دہکتے انگاروں پر ہلکے ہلکے سرد چھینٹے۔ ترمرا اٹھے اور بجھے۔ پور پور ٹھنڈک پور پور حدت۔ منتر دم حرف جل کی ست رنگی پھوار میں اشنان لیتی ہوئیں۔
یا شاعر ہم طبیعت موزوں رکھتی ہیں، چند اشعار موزوں نگہ اصلاح کے طلبگار ہیں۔
اے دوشیزہ خوش جمال تو خود شعر موزوں کی مثال بےمثال ہے۔ شعرحسن تخیل ہے۔ تو منبع تخیل۔ شعر موزوں کو زبان شیریں کی شیرینی سے تر کر کے سماعتوں میں قند گھل جائے۔ نو آموز شاعرہ نے شعر پڑھا۔
تیری یاد جی کو گدگداتی ہے
کہ چشم نم ڈبڈباتی ہے!!
آہ۔ واہ۔ کراہ شاعر باکمال کی نگاہ سحر ناک دوشیزہ خوش جمال کو شعر کے نازک نشیب و فراز سمجھانے لگی۔ شعری محاکات کی بلاغت واہ! داستان ہجر و فراق آہ کراہ عجب تمثیل ہے! کوزے میں دریا بند ہے۔
چشم آہو میں اشک تابدار، لرزتا امڈتا۔ واہ! آہ! کراہ! تیرا تکلم خوش ادا تیرا تغزل سحرالبیان، تو خوبصورت شاعرہ نہیں ساحرہ ہے، خوبصورت شاعرہ گلنار ہو گئی۔ سارے دھنک رنگ روم روم گل رنگ ہو بکھر گئے۔
اے دوشیزہ گل بدن! جہاں میں تجھے دیکھتا ہوں تیری پرواز شوخ کے پر جلتے ہیں۔ اقلیم شاعری میں تیرا ورود کسی تاجدار شہزادی کی مثل ہے۔ ناقدان ادب اپنی ہیچ مقدار انگلیاں قلم کر ڈالیں گے لیکن تیرے فن کی اتھاہ آنے والے ناقدین کی غواصی کے واسطے چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ میری زیر طبع کتاب کا انتساب تیرے نام۔ حرف جل میں ڈوبتی ابھرتی جل پریاں ہفت رنگ پر پھڑپھڑاتی سمٹتی،رنگ پہنتی خوشبو اوڑھتی، منتر جل پھوار میں اشنان لیتیں۔
یا شاعر! ایم۔ اے کے تھیسس کے چند صفحات قلم بند کیے ہیں۔ شام ملگجے دھندلکے میں پناہ لے چکی ہے۔ کل کلاس میں پیش نظر کر دیا جائےگا۔ اے متعلم ارسطو صفت کلاس میں نوجوانان نازیبا اور ناموزوں طبع ایسے کار معقول میں دخل درمعقولات کرتے ہیں۔ اسی کاروبار شوق کے واسطے یہ گوشہ علمی یہ گوشہ جمال مختص ہے۔
اے حسینہ خوش اندام تیرا پنجہ نازک بار قلم کا متحمل نہ ہو پائےگا یہ بار گراں تو میرے دست ناتواں پر چھوڑ دے۔ غالب عیش پسند نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا۔
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
مَیں کہاں اور یہ وبال کہاں
یا شاعر غالب کی زمیں میں طبع آزمائی کی ہے۔ لبوں کی بجلیاں تڑپیں رنگوں کی برکھا رت گھنگھور برسی۔
یونہی زور قلم آزماتی ہوں
میں کہاں اور یہ کمال کہاں
تجھ سے طالب جواب ہوتی ہوں
میں کہاں اور یہ سوال کہاں
واہ! آہ! کراہ! ہر ہر حرف شاعر باکمال پر ایک وجد انگیز کرب طاری کرتا چلا گیا۔
قسمت نے کس سے واسطہ بنا دیا
میں کہاں اور یہ جمال کہاں!!
تیری آنکھوں سے سیر ہو جاتا ہوتا
میں کہاں اور یہ کلال کہاں
گریز میں عجب قربت ہے
میں کہاں اور یہ غزال کہاں
شاعر باکمال دو زانو ہو بیٹھے۔ حرفوں کی تھالی تھامے جوں پجاری بیٹھا ہو دائرے میں بچھی کتابی نشستیں تھالی کی گردش میں گھومتی تھیں۔ گول گول اڑن طشتری۔
پیاری طالب علمو! حسن مطلق نے اظہار چاہا تو انسان کامل کو اپنا عاشق بنا خود کو جہاں تہاں کچھ پوشیدہ کچھ ظاہر کر دیا۔ دھرتی کی کوکھ میں دفن بیج کو ظاہر کی بے قراری نمو بخش گئی۔ کلی کی چٹک پھول کی بیداری ہے۔ شاعر بے قرار کی طلب حسن کی آبیاری ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
حسن سے تکمیل عشق عشق سے تکمیل حسن
اک کمی تیرے بغیر اک کمی میرے بغیر!!!
نیلگوں اندھیرا آفتاب کی نقاب ہو گیا برکھا رت کا سینہ بوجھل تھا کھل کر برسا، رتیں بدلتی رہیں، کتاب گھر کی کتابیں بڑھتی رہیں۔ نشستیں جامد تھیں نشستگاں تبدیل ہوتے رہے۔ پارسل گیم کا کھیل، میوزک بجتا رہا، سازندہ ایک تھا۔ پیک فرین جادو گرسا! یہ نشستیں اپنی خوش طلعی پر کیوں نہ ناز کریں۔ پچھلے کتنے عشروں سے اَن گنت مہر لقائیں، ماہ طلعتیں، اپنے لمس مشکبار سے انہیں مہکاتی رہیں ہیں۔ کسی دھائی کی سیاہ نقابوں میں چھپی، کبھی سفید چادروں میں ڈھکی، ڈھیلے ڈھالے ملبوسات چست لباسوں میں بدلتے۔ چست لباس ڈھیلے ڈھالے ملبوسات میں تبدیل ہوتے ہے۔ سحرالبیان کے بحر رواں میں بےسمت بےمقام تیرتی ہوئیں۔ حرف جل کی ہفت رنگ پھوار میں بھیگ جاتیں۔ سمندری جھاگ کے کہرے میں نظر دھند لاتی ہوئی۔ ڈولتا ہوا بحرا کچھ تہہ آب کچھ سطح آب، حرف جل میں تیرتی جل پریاں۔
باہر صدائے نامانوس و ناگوار سحر زدہ ماحول میں سنگ ریزے برساتی۔ کتب گھرکے دَر سے چند سراَندر برسا گئی لپکے۔ جن کے روئے سیاہ پر نظر پڑتے ہی شاعر باکمال کے چہرے پر ناگواری لیپ ہو گئی۔
شاعر صاحب ذرا مردانے میں تشریف لائیے۔ طنز کے سارے تیر حرف جل کو ہدف کر گئے۔ لفظوں کی گردش کرتی تھالی ٹھہرگئی۔
دوشیزگان خوش جمال! اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مردان نا تراشیدہ کے تکلم ناموزوں سے سمع خراشی کر لوں۔ باہر شور بڑھتا جا رہا تھا۔ جھوٹا، مکار، فریبی، دھوکے باز، لڑکیاں اپنے اپنے وجودوں میں کسمسائیں۔ جیسے پہلوؤں میں چیونٹیاں سی رینگ جائیں۔ دوشیزگان خوش جمال یہ آدم زاد نہیں تصور و تخیل کے تازیانے ہیں۔ تربیت ناموزوں انہیں درثت خصلت بنا گئی ہے۔ ان کے نامناسب رویے کے لیے حضورِ حسن منت خواہ ہوں کہ لاعلمی کا جہل انہیں گناہ کبیرہ کا مرتکب بنا رہا ہے۔
’’تم ان احمق لڑکیوں کو بے وقوف بناس کتے ہو۔ ہمیں نہیں، باہر نکلو ورنہ باہر نکال لیے جاؤ گے۔‘‘حرفوں کی سنگ باری بڑی شدید تھی۔
شاعر باکمال لڑھکتے پتھر کی مانند در سے باہر پھسلے۔
اے مردان نا تراشیدہ! مجھ شاعر ناچیز سے کس شئے کی طلب ہے جس کی سلطنت تخیلات کا گہوارہ ہے، جس کا سرمایہ الفاظ کا گنجینہ ہے۔
’’تو پھر یہ اَندر سبھاکیوں سجارکھی ہے۔‘‘ زبانوں کے لٹھ اوپر تلے برستے۔
اے احمقو یہی تو تخیلات کے گہوارے کی پریاں ہیں۔ یہی گنجینہ الفاظ کی معانی ہیں۔ یہی تو اقلیم شاعری کے عمال ہیں۔
لڑکیو! گھروں کو چلی جاؤ۔ ورنہ آگ لگا دی جائےگی۔ تم سمیت سب کچھ بھسم ہو جائےگا۔
مارو۔۔۔ مارو۔۔۔ بھسم کر دو۔۔۔ آگ لگا دو شور سماعتوں کو کند کرنے لگا۔
’’یہ قحبہ خانہ ہے اسے ڈھا دو۔ یہ کار ثواب ہے۔ بدعت کا خاتمہ کر دو۔‘‘
شور گراں سماعت تھا۔
اے کم ظرفو مجھے سولی پر لٹکا دو۔ فتویٰ لگا دو لیکن اپنی زبانوں کو غلیظ مت کرو۔ زبان کہ غلیظ ہو جائے تو کوئی آب مطاہر اسے باوضو نہیں کرتا۔ نطق کی غلاظت زبان کی دبازت میں رَچ رَچ رستی ہے۔ انگ انگ نجس کر دیتی ہے۔ جیسے زمین کے سینے سے سیم رس رس اسے بنجر بنا دیتی ہے۔
لڑکیاں ایک دوسرے میں چھپتی۔ جسموں کی گھڑیوں میں بندھی زینوں سے یکبارگی لڑکھیں۔ حرف جل کر جل پریاں، حرف پاتال میں غرق ہو گئیں۔
اے مردان ناتراشیدہ! مانو کہ تمہاری جس لطافت عالم گراں خوابی میں ہے۔ مانو کہ اس گراں خوابی کی سزا جمالی بےحسی کی صورت میں تمہیں ملنے والی ہے۔ جب حسن روٹھ جاتا ہے تو بدصورتیوں کا دیو روح و نظر کو نگل جاتا ہے۔ سڑک پر ٹائر جلتے تھے۔ جلے ربڑ کی بوسارے بازار میں پھیلی تھی۔ دکانوں کے شٹر گرا دئیے گئے تھے۔ جلوس منتشر ہو چکا تھا لیکن چند نوجوان طالب علم ابھی جلتے ٹائر فوں پر ایندھن پھینک رہے تھے اور ٹائروں بازی کر رہے تھے۔
’’اندر سبھا کو بند کرو بہروپیئے شاعر کو سنگسار کرو۔ یہ عالم نہیں علم کی بےحرمتی ہے۔‘‘
نعرے کتاب گھر کی خاموش جلدوں سے ٹکراتے تھے اور پلٹتے تھے۔
کتابوں کے منتشر بنڈل کتنے خالی خالی تھے۔ سارے حرف سارے معنی گم روشنائی کے دھبے خندہ زن۔
مفاہیم کے چراغ گل۔ شاعر باکمال دو زانو بیٹھا تھا۔ گل چراغوں کی راکھ پورے کتاب گھر میں اڑتی اور سانسوں میں جمتی تھی۔
اس پر مہر لقا بیٹھی تھی۔ آہ پیاری مہر لقا۔ کیا تو اب کبھی نہ آئےگی! تیرا لمس مشکبار بےخبر حرفوں کو کیا کبھی خودشناسی نہ بخشےگا۔ کیا یہ حرف بےمعنی بےہیئت ہو جائیں گے۔ اس پر نغمہ نفر گو جلوہ افروز ہوتی تھی۔ اے نغمہ جاں تمہاری صدا میری گویائی ہے۔ تمہارے لفظ میری سماعت، بولو کہ میری گویائی، میری سماعت میری حسیات سب پتھر ہیں۔
میرے حرف کہ منجمد برف
تیرا لمس چنگاری کی حدت
برف کے گھور سینے کو کریدتی
چراغ انگلیاں دہکتی ہوئیں
میرے حرفوں کو موم ساخت بنائیں
تیری سانسوں کی دھوپ تمازت
بول کہ جامد گنگ اندھیرے
دفن کر دیں گے سرد سخت
زمینوں میں حرف جزیرے
گلاب حرف اپنی بو خود نگل جائیں گے
آدم خور
خون آشام
حرف
شاعر باکمال گھٹنے زمین پہ ٹیکے ناراض دیویوں کے چرنوں میں جھکا تھا۔ آخر وہ کیا دان کر ڈالے کہ روٹھی دیویاں مان جائیں۔ حرفوں کے چراغ گل تھے۔ معانی کے جزیرے برفیاب۔ حرفوں کی تھالی خاموش۔
گل رخ تو ہی بول۔ نغمہ نفر گو تو کیوں چپ ہے تیری خاموشی اقلیمِ حرف کی توہین ہے۔ تمہارے لب۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.