پلاسٹک کی میز پر چڑھ کر سونو نے نعمت خانے کی الماری کا چھوٹا سا کواڑ وا کیا تو اندر قسم قسم کے بسکٹ، نمک پارے، شکر پارے اور جانے کیا کیا نعمتیں رکھیں تھیں۔ پل بھر کو وہ ننھے سے دل پر کچوکے لگاتا ہوا غم بھول کر مسکرا دیا اور نائٹ سوٹ کی لمبی آستین سے سوکھے ہوئے آنسوؤں بھرے رخسار پر ایک اور تازہ بہا ہوا آنسو پونچھ کر اس نے بسکٹ کا ڈبّہ ہاتھ میں لے لیا اور اپنے پانچ سالہ وجود کا بوجھ سنبھالتا میز سے نیچے اتر آیا۔ اسے بھوک بھی بہت لگی تھی۔ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا، اس کی چھوٹی سی اڑھائی برس کی بہن ثوبیہ بھی صبح سے بھوکی تھی۔ سارا دن وہ مسہری پر لیٹی اپنی ممی کو پکار پکار کر تھک گئی تھی اور بہت زیادہ روتے رہنے کے باعث نڈھال سی ہوکر اس نے اپنا گھنگھریالے بالوں والا ننھا سا سر اپنی امی کے پھیلے ہوئے بازو پر رکھ چھوڑا تھا۔۔۔ دن بھر شاید وہ سوتی رہی تھی اور کچھ دیر پہلے ہی اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں آئی تھی۔
اس شہر میں آئے انھیں صرف ایک ہفتہ ہوا تھا۔
امان کو بہت عرصے سے اس شہر میں اپنی تبدیلی کروانے کی خواہش تھی لیکن اس میں بس ایک ہی پریشانی تھی کہ رہائش کا انتظام نہایت مشکل کام تھا۔ اس کے قصبے کے انوار صاحب بھی اس کمپنی میں کام کرتے تھے مگر وہ ہیڈ آفس سے وابستہ تھے اور شہر میں رہائش پذیر تھے۔ رہائش بھی کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی تھی کیونکہ وہ پچیس برس سے اسی دفتر میں تھے۔ اس کے بعد آنے والے ملازمین میں سے بہت کم کو فلیٹ میّسر آیا تھا۔ غیر شادی شدہ لوگ تو ایک کمرے والی رہائش میں دو، یا تین تین کے حساب سے ہوسٹل کی طرح کمرہ بانٹ لیتے تھے مگر فیملی والے ارکان کے لیے یہ مسئلہ سب سے پیچیدہ تھا۔
امان اپنے قصبے میں کمپنی کا برانچ منیجر تھا۔ انوار صاحب ہر تین ماہ کے بعد اپنی کمپنی کا کوئی کام نکال کر اپنے آبائی گھر آتے۔ بزرگ والدین سے ملاقات بھی ہو جاتی اور کمپنی کا کام بھی نمٹا لیتے۔
اس بار انوار صاحب اپنے ساتھ امان کے لیے کچھ سپنے بھی لے آئے تھے۔ بڑے شہر میں رہنے کے۔ بچوّں کو بڑے بڑے سکولوں میں تعلیم دلوانے کے اور ہیڈ آفس میں رہ کر ترقی کے نئے راستے وا ہونے کے۔
وہ ریٹائرمینٹ لے رہے تھے اور امان کے لیے ٹرانسفر کی بات بھی کر آئے تھے۔
امان اگر بر وقت نہ پہنچتا تو اسے اور کچھ برس انتظار کرنا پڑتا اور فیملی فلیٹ اسے جب ہی ملتا جب فیملی ساتھ ہوتی ورنہ اسے بیچلر رومز میں رہنا تھا۔ انوار صاحب نے فلیٹ کی چابی ابھی دفتر میں جمع نہیں کرائی تھی۔ وہ یہ کام امان کی موجودگی میں کرانا چاہتے تھے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ان کی عزّت کرتے تھے، انہیں یقین تھا کہ وہ ان کی بات مان لیں گے۔ اور اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا آنے کی کوشش کرتا، وہ کسی کی علمیت سے پیشتر امان کے حق میں فیصلہ چاہتے تھے۔
امان نے دو دن کے اندر ساری تیاریاں مکمل کر لیں اور مع بابرا اور بچوّں کے شہر روانہ ہو گیا۔
انوار صاحب کا فلیٹ ۱۴ منزلہ عمارت کا سب سے اوپری فلیٹ تھا۔ عمارت کی ہر منزل پر تین تین فلیٹ تھے مگر سب سے اوپر والی منزل میں یہی ایک فلیٹ تھا۔ کیونکہ ایک طرف ڈش انٹینا تھا اور دوسری طرف پانی کی ٹینکیاں۔ درمیان میں یہ ایک فلیٹ بن پایا تھا۔ اس کے اوپر بڑا سا کشادہ ٹیرس تھا جس میں تقریبات وغیرہ ہوا کرتیں۔ وہاں سے نیچے دیکھنے پر سارا شہر دلہن کے ستارے لگے آنچل کی طرح نظر آتا۔
اس سے نیچے کے تین فلیٹس میں سے دو آباد تھے اور ایک پر کچھ تنازعہ چل رہا تھا۔ ایک فلیٹ کے مکین کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور ایک میں امان کی ہی کمپنی میں کام کرنے والے وکرم بھسین رہتے تھے۔
بابرا کو فلیٹ اور امان کو شہر بہت پسند آیا۔ فلیٹ کشادہ تھا۔ تین خوابگاہوں ، ڈرائنگ روم اور باورچی خانے پر مشتمل۔ ہر کمرے کے ساتھ ملحقہ غسل خانہ، اور لباس بدلنے کے لے چھوٹا سا احاطہ۔ اونچی چھتیں، بڑی بڑی کھڑکیاں، لمبے لمبے دروازے۔ تین دن میں فلیٹ سج گیا۔ ضرورت کا سب سامان ا گیا سوائے ٹیلیفون کے۔ ٹیلیفون کی فیس پچھلے تین ماہ سے ادا نہیں ہوئی تھی اور ان مہربانیوں کے بدلے امان کو انوار صاحب کے لیے اتنا تو کرنا ہی تھا۔ ورنہ خواہ مخواہ انوار صاحب کی گریجوویٹی وغیرہ متاثر ہوتی۔ بلکہ امان کو تو کئی مہینے کا بجلی کا بل بھی بھرنا پڑا تھا جب جا کر بجلی کی سپلائی بحال ہوئی۔ ٹیلیفون کا بل ادا کرنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ امان نے پہلے دن آفس جوائن کرنے کے بعد دوبارہ آفس کا رخ تک نہیں کیا تھا کہ بغیر بجلی کے اس شہر میں ایک دن کے لیے بھی رہنا مشکل تھا اور سارا وقت اُسے ادھر اُدھر بھٹکنا پڑا تھا۔
کوئی پانچویں دن امان دفتر گیا کہ بھسین صاحب کے فلیٹ میں اس کے لیے فون آیا تھا۔ اسے سائٹ پر جانا تھا اور واپسی دوسرے دن کی تھی۔ وہاں کچھ ایسا کام پڑ گیا کہ امان دوسرے دن نہ آ سکا۔
صبح دروازے کی گھنٹی بجی تھی تو سونو کی آنکھ اسی آواز سے کھل گئی تھی۔ ممی اور ثوبیہ سو رہی تھیں۔ سونو دروازے تک گیا اور اس نے دروازے کی نچلی چٹخنی بھی کھولی تھی مگر میز پر کھڑے ہونے کے باوجود اس کا ہاتھ دروازے کے اوپر والی چٹخنی تک نہ پہنچ سکا۔
’’جی کون ہے؟‘‘ اس نے پکارا بھی تھا مگر باہر سے کوئی جواب نہ آیا۔ آنے والے نے شاید اُس کی آواز نہیں سنی تھی۔ اور دروازہ نہ کھلنے پر لوٹ گیا تھا۔
’’ممی۔ کوئی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ممی۔۔۔ ممی۔‘‘ اس نے کئی بار ممی کو پکارا تھا مگر ممی جانے آج کیسی نیند سو رہی تھیں۔ جاگ ہی نہیں رہی تھیں۔
’’ممی۔۔۔ ممی جی۔۔۔ کوئی دروازے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔‘‘ اس نے اونچی آواز میں پکارا تو ثوبیہ نے ابروؤں کے رخ پر خمیدہ پلکوں والی منی منی آنکھیں کھول دیں۔ اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں جھپک جھپک کر ادھر اُدھر دیکھا اور بھائی کو ممی پکارتے سن کر خود بھی ممی ممی پکارنا شروع کر دیا۔
مگر ممی بول ہی نہیں رہی تھیں۔ ممی کے دہانے کے چاروں طرف کوئی سفید سی چیز جمی ہوئی تھی۔ ہاتھ پاؤں بھی کچھ عجیب طرح سے پھیلے ہوئے تھے۔
ثوبیہ نے ماں کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر رونا شروع کر دیا۔
’’چپ ہو جانا۔ روتی کیوں ہے۔‘‘ سونو نے جھلا کر کہا تو ثوبیہ اور زور زور سے رونے لگی۔
’’ممی سو رہی ہیں ثوبی۔‘‘ وہ بہن کو سمجھانے کے انداز میں بولا۔
’’ممی۔ ممی اٹھئے نا۔‘‘ سونو نے پھر ماں کو جگانے کی کوشش کی۔ جب تک دروازے کی گھنٹی دوبارہ بجنے لگی تھی۔
’’کون ہے۔۔۔‘‘ وہ دروازے کے قریب جا کر اور اونچی آواز میں بولا۔ کوئی جواب نہ آیا۔
وہ واپس کمرے میں آیا۔ ثوبیہ باقاعدہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ سونو کچھ دیر ماں کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر روتی ہوئی بہن کو بغور دیکھنے لگا۔
’’ممی۔‘‘ اس نے ممی کو پوری طاقت سے جھنجھوڑا مگر ممی بے حس و حرکت پڑی رہیں۔
وہ کچھ دیر گم سم سا بیٹھا رہا۔ پھر ثوبیہ کے قریب جا کر اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونچھے۔
’’نہیں رونا ثوبی۔ ممی سو رہی ہیں۔‘‘ مگر ثوبی تھی کہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھی۔
’’چپ ہو جا۔‘‘ وہ چیخا اور ساتھ ہی دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
جانے کب تک دونوں بہن بھائی روتے رہے مگر امی نے چپ ہی کرایا نہ کچھ بولیں۔ ثوبیہ کوئی گھنٹہ بھر رونے کے بعد تھک کر سو گئی۔
وہ سو گئی تو سونو پھر ماں کے قریب گیا۔ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر دائیں بائیں ہلانے لگا۔
’’ممی۔‘‘ اس نے زور زور سے ممی کا سر ہلایا، ’’ممی۔۔۔ ممی جی۔‘‘ اس نے آنسوؤں میں بھیگی آواز میں محبت گھول کر پکارا۔ ممی نے کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر بعد اٹھ کر وہ ڈرائنگ روم چلا گیا۔ پردہ سرکا کر کھڑی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگا۔
سامنے ایک بڑاسا پارک تھا جس میں چھوٹے چھوٹے کھلونوں جیسے رنگ برنگے بچےّ کھیل رہے تھے۔ پارک میں کئی طرح کے چھوٹے بڑے جھولے لگے ہوئے تھے ادھر ادھر آئس کریم اور ویفرس کے پیکٹ والے اپنی چھوٹی چھوٹی ہاتھ گاڑیاں لیے ہوئے گھوم رہے تھے۔ ایک ریڑھی پر نہایت ننھی ننھی بوتلوں میں کولڈ ڈرنکس سجی ہوئی تھیں۔ پارک کی دوسری جانب لمبی سی سڑک پر چھوٹی چھوٹی بے شمار گاڑیاں بھاگ رہیں تھیں۔ سونو نے یہ ساری چیزیں اس قدر چھوٹی جسامت میں آج سے پہلے کبھی نہ دیکھیں تھیں۔ اس کے ذہن میں عجیب عجیب سوال اور خیال اُبھرنے لگے۔ وہ کمرے میں لوٹ آیا۔
’’ممی جی۔‘‘ اس کے سینے سے درد بھری کراہ نکلی اور اس نے اپنا چھوٹا سا سر ممی کے سینے پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔ آنسوؤں سے ممی کے شب خوابی کے لباس کا گریبان بھیگ بھیگ گیا مگر ممی نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ رو رو کر جب وہ ہلکان ہو گیا تو اسے نیند آ گئی۔
جانے کتنا وقت وہ سوتا رہا۔
’’چھو۔ چھو۔‘‘ نیند میں اس کے کانوں میں ثوبیہ کی آواز پڑی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔
’’چھوچھو۔‘‘ ثوبیہ نے ممی کی طرف سے نظر ہٹا کر بھائی کو دیکھ کر کہا۔
’’سو سو کرنا ہے؟‘‘ سونو نے پوچھا تو اس نے سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلایا۔ سونو نے غسل خانے کا ہینڈل گھما کر دروازہ کھول دیا۔
باہر شام ہو چکی تھی۔
ثوبیہ باتھ روم سے آ کر ماں کے پاس لیٹ گئی۔
’’ممی۔۔۔ مم۔۔۔ ممی۔‘‘ ثوبیہ نے اپنی شہادت کی انگلی سے ماں کی آنکھ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔ وہ ناکام ہو کر پھر رونے لگی۔
ممی ی ی۔۔۔‘‘ وہ ممی کو پکارتی ہوئی ہچکیاں لینے لگی۔
سونو بہن کو بے بسی سے دیکھتا رہا۔
’’ممی اٹھئے نا۔۔۔ ممی جی۔۔۔ ثوبی رو رہی ہے۔ اسے بھوک لگی ہے۔‘‘
وہ گلو گیر آواز میں ماں سے مخاطب ہوا۔۔۔ اسے خود بھی بھوک لگی تھی مگر جب تک اس نے ثوبیہ کی بھوک کا ذکر نہ کیا اس طرف اس کا خیال نہ گیا تھا۔
اب اسے بھوک کا احساس ہونے لگا۔
وہ ماں کے پاس سے اٹھ کر باورچی خانے میں چلا گیا۔ تمام برتن دھلے دھلائے رکھے تھے۔ کسی میں کچھ کھانے کو نہ تھا۔
اس نے ریفریجریٹر کھولا۔۔۔ اس میں سیب رکھے تھے۔۔۔ وہ دو سیب اٹھا کر کمرے میں آ گیا۔
ایک سیب کو خود کترنے لگا اور دوسرا ثوبیہ کو پکڑا دیا۔ ثوبیہ اسے کھانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر اس کے منھ میں اگے آٹھ دانت سیب کے سخت چھلکے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اور وہ محض سیب کی سطح پر ایک آدھ نشان لگا کر رہ گئی اور چپ چاپ بھائی کو دیکھنے لگی۔ سونو نے سیب کا ایک ٹکڑا توڑ کر دیا تو وہ اسے چبانے کی کوشش میں منھ کے اندر ادھر ادھر گھماتی رہی اور آخر کار نگل گئی۔
دونوں سیب ختم ہو گئے تو سونو ریفریجریٹر میں پڑا آخری سیب اٹھا لایا۔۔۔ کچھ دیر دونوں بہن بھائی سیب پر زور آزمائی کرتے رہے۔ اس سے فارغ ہو کر پھر ممی کو جگانے کی کوشش کرنے لگے۔
ممی کچھ نہ بولی تو وہ رو رو کر ممی کو ہلانے لگے۔ گھر میں اتنی گرمی تھی مگر ممی کا بدن ایک دم ٹھنڈا پڑا ہوا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔
پھر کسی وقت انھیں نیند آ گئی۔
دوسری صبح بھی ممی نہیں اٹھیں۔ دروازے کی گھنٹی دو بار بجی تھی۔ جس سے سونو جاگ گیا تھا۔
’’جی۔۔۔ ای ای۔۔۔ کون ہے۔‘‘ کوئی جواب نہ آیا۔ شاید مضبوط دیواروں اور بھاری دروازے کے اس پار اس کی کم سِن آواز پہنچ نہیں پائی تھی اور آنے والا پھر لوٹ گیا تھا۔
ثوبیہ نے جاگتے ہی رونا شروع کر دیا تھا۔ اور ممی کے پاس جا کر زور زور سے چیختے ہوئے رو رو کر جب مایوس ہو گئی تو ہچکیاں لیتی ہوئی باہر آ گئی۔۔۔
اس کا پھول سا چہرہ کمھلا گیا تھا۔
باورچی خانے میں سونو ریفریجریٹر کھولے بغور اندر دیکھ رہا تھا۔ پرسوں کا پڑا ہوا دودھ پھٹ چکا تھا۔ ثوبیہ کو قریب دیکھ کر اس نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’دوُدوُ پیئےگی۔‘‘ اس نے ممی کی طرح پوچھا تھا۔
’’ہوں۔‘‘ وہ زور زور سے سر ہلا کر بولی۔
اس نے پھٹا ہوا دودھ چمچ سے ثوبیہ کے فیڈر میں ڈالنے کی کوشش میں بہت سا دُودھ گرا کر تھوڑا سا ڈالنے میں کامیابی حاصل کی اور فیڈر بہن کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں تھما دیا۔
ثوبیہ وہیں فرش پر چت لیٹ کر دودھ پینے لگی۔ جب پھٹے ہوئے دودھ کا کوئی ٹکڑا ربر کے نپل کا چھید بند کرنے لگتا، وہ پیر پٹخ پٹخ کر پوری طاقت سے دودھ پینے کی کوشش کرنے لگتی اور رونے لگ جاتی پھر خود ہی چپ ہو جاتی۔
سونو نے دودھ کے کچھ بچے ہوئے چمچ خود بھی پئے اور ثوبیہ کے پاس جا بیٹھا۔۔۔ بوتل خالی ہوئی تو ثوبیہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ پھر کھڑی ہو کر ممی ممی پکارتی ہوئی خوابگاہ میں چلی گئی۔
سونو بھی کمرے میں آ گیا۔ اور کچھ دیر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر ماں کو دیکھنے لگا۔ ممی کی شکل آج اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
مسز بھسین کی جزوقتی ملازمہ صبح اوپر آئی تھی تو کسی نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔۔۔ دراصل امان نے اُن کے ہاں فون کیا تھا کہ بابرا کو بتا دیں کہ وہ ایک دن اور رک گیا ہے اور کل آ جائےگا۔ کیونکہ بابرا بہت جلد گھبرا جاتی ہے۔۔۔ ملازمہ سے دروازہ نہ کھُلنے کی خبر سن کر مسز بھسین نے سوچا تھا کہ پڑوسی کہیں گھومنے گئے ہوں گے۔ یا شاید سو رہے ہوں۔ یاجو بھی۔۔۔
’’ثوبی! آ جا اندر بیٹھیں۔‘‘ سونو نے ثوبیہ سے کہا۔
’’کھڑکی سے باہر دیکھیں گے۔‘‘ وہ سر اثبات میں ہلا کر بولا۔۔۔
’’نہیں۔۔۔ ممی پاش۔۔۔‘‘ اس نے جھٹکے سے سر نفی میں ہلایا۔
’’ممی تو بولتی ہیں نہیں۔۔۔ تو میرے پاس آ جا۔‘‘ وہ اداس ہو کر بولا۔ اس کا چہرہ آج پیلا نظر آ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔
’’آنا ثوبی۔۔۔ آ جا۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے سسکنے لگا۔۔۔ ثوبیہ ماں کے پھیلے ہوئے بازو پر سر رکھے اپنا انگوٹھا چوستی رہی اور سر نفی میں ہلا ہلا کر بھائی کو دیکھتی رہی۔۔۔
سونو اس کے قریب جا کر اسے اٹھانے لگا تو اسے محسوس ہوا کہ ممی کے پاس سے خراب سی بو آ رہی تھی۔ ممی نہائی نہیں نا کل سے۔۔۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔۔۔ ہم بھی نہیں نہائے۔۔۔ اس نے اپنا گریبان سونگھا۔۔۔ وہاں اُسے پرسوں کے لگائے ہوئے بے بی پاؤڈر کی ہلکی سی مہک آئی۔۔۔ اس نے پھر ممی کی طرف دیکھا۔۔۔ ممی کی شکل بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ ایک دو الٹے قدم اٹھاتا ہوا دیوار سے لگ گیا۔ اس کی نظریں ماں کے چہرے پر گڑھی تھیں۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا ہوا کمرے کے دوسرے کونے میں پہنچ گیا۔۔۔ اور دیوار سے پھسلتا ہوا فرش پر بیٹھ گیا۔ اس کے دل میں عجیب قسم کا خوف سا چھا رہا تھا۔ اسے نیند بھی آ رہی تھی۔ مگر وہ پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا۔ خود اس کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا تھا۔ آنکھ لگنے لگتی تو فوراً آنکھیں کھول کر ماں کے چہرے کو دیکھنے لگتا۔۔۔ دور بیٹھا ہوا۔ وہاں سے ماں کے تلوے نظر آ رہے تھے اور پھر ماں کا باقی جسم۔ بعد میں چہرہ۔ ٹھوڑی سے شروع ہوتا ہوا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں پر رکھ دیے۔ اور۔۔۔ پھر پتا نہیں کب وہ دیوار سے لگا لگا فرش پر آ گیا۔ اس کے گھٹنے اس کے سینے سے لگے ہوئے تھے اور وہ سو چکا تھا۔
صبح پھر دروازے کی کال بیل لگاتار کچھ پل بجی تو وہی بیدار ہوا۔ دروازے تک گیا اور بے چارگی سے اسے دیکھتا رہا۔ کچھ منٹ بعد لوٹ آیا۔۔۔ گھر میں ہوتا تو کھڑکی سے نانی کو آواز لگاتا۔ یہاں تو نہ وہ دروازہ کھول سکتا تھا نہ کھڑکی۔ کھڑکی کھول بھی لیتا تو اس کی آواز کون سن پاتا کہ کھڑکی سے نظر آنے والے لوگ اس کی آواز کی رسائی سے بہت دور تھے۔
آج ثوبیہ ابھی تک سو رہی تھی۔ وہ دروازے پر ٹھہر کر ماں کی طرف دیکھنے لگا۔ ماں کا چہرہ بغیر پانی کے گلدان میں پڑے کئی دن پرانے پھول سا لگ رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ ماں کے کچھ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا۔ ممی کی شکل بدل گئی تھی۔ یہ شکل کسی اور کی تھی۔ میلے سے مٹیالے چہرے والی۔۔۔ اس کی ممی تو گوری تھی۔۔۔ تو کیا یہ اس کی ممی نہیں تھی۔۔۔ تو کیا اس کی ممی کی شکل کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ یا۔۔۔ یا یہ کوئی اور ہے۔ کوئی عجیب سی شے۔۔۔ انسان جیسی کوئی شے۔۔۔
ذہن میں اس خیال کے آتے ہی وہ زور سے چیخ پڑا۔ ثوبیہ نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور رونے لگی۔ وہ چیختا ہوا کمرے سے باہر بھاگا اور ڈرائنگ روم کے لمبے صوفے کے عقب میں جا چھپا۔ اس کا چھوٹا سا وجود تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اور آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ رہے تھے۔ ثوبیہ کچھ دیر روتی رہی پھر اٹھ کر بھائی کو ڈھونڈنے لگی۔
’’بیا۔ بیا۔‘‘ وہ باورچی خانے میں گئی اور روتے روتے بھائی کو پکارنے لگی۔ وہاں اسے نہ پا کر ڈرائینگ روم میں آ گئی۔
’’بیا۔ آ۔ آ‘‘ اس نے نحیف سی آواز میں پکارا۔
سونو صوفے کے پیچھے سے نکل آیا۔ اس کے خوفزدہ دل میں احساسِ ذمہ داری نے قوت بھر دی۔ بہن کو دیکھ اس کے قریب چلا گیا اور دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لے کر اس کے آنسو پونچھنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی ثوبی کو بہت تیز بخار ہے۔
’’بیّا۔ پانی۔‘‘ وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔
’’تجھے بخار ہے۔۔۔ آ جا۔ ادھر لیٹ جا۔۔۔ میں پانی لاتا ہوں۔‘‘
اس نے صوفے پر چڑھنے میں بہن کی مدد کی اور باورچی خانے کی طرف گیا۔ خوابگاہ کے قریب سے گزرتے وقت اس نے ایک ادھوری سی نظر کمرے کی طرف تیزی سے ڈالی پھر ریفریجریٹر کے پاس چلا گیا اور بوتل نکال کر پانی گلاس میں انڈیلنے لگا۔ ساری بوتل خالی کر کے ہی کہیں گلاس بھر سکا تھا۔
گلاس اور چمچہ لیے وہ بہن کے پاس ا گیا اور اسے دھیرے دھیرے پانی پلانے لگا۔ بیچ بیچ میں ایک آدھ چمچ وہ خود بھی پیتا رہا۔
’’بھوکی لگی ہے؟‘‘ اس نے نہایت محبت سے ثوبیہ سے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
صبح جب دروازے کی گھنٹی سن کر سونو بےبسی سے پلٹ آیا تھا اس وقت مسٹر بھسین کے ہاں پھر امان نے ٹیلی فون کیا تھا۔ اور پھر مسز بھسین نے اپنی جزوقتی ملازمہ کو اوپر روانہ کیا تھا جو لگاتار تین چار گھنٹیاں بجا کر لوٹ آئی تھی۔
ثوبیہ ڈرائینگ روم کے صوفے پر نڈھال پڑی تھی۔
سونو ذمہ دار بھائی کی طرح اس کے قریب بیٹھا تھا۔ بیچ بیچ میں دونوں اونگھ لیتے۔ شاید مسلسل نقاہت یا رات بھر گھٹی ہوئی آلودہ فضا میں رہنے کے باعث ان کی ایسی حالت ہو گئی تھی۔
کبھی کبھی سونو سر گھما کر چور نظروں سے بیڈروم کی طرف دیکھتا اور جلدی سے چہرہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ وقفے وقفے سے اس کے آنسو بہہ نکلتے تھے۔
اس بار ثوبیہ جاگی تو پھر رونے لگی۔
’’دودھ پئےگی ثوبی۔؟‘‘ اس نے آواز میں پیار بھر کر کہا۔
’’مگر دودھ تو ہے ہی نہیں۔ اچھا ٹھہر جا میں کچھ اور دیکھتا ہوں۔‘‘ ثوبیہ نے کچھ نہ کہا۔ سونو کو خود بھی بہت بھوک لگ رہی تھی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باورچی خانے کی طرف گیا اور پلاسٹک کی میز کھینچ کر نعمت خانے کی الماری کے ٹھیک نیچے تک لے گیا۔
بسکٹ کا ڈبہ لے کر جب وہ خوابگاہ کے باہر سے گزرا تو اس نے بےاختیار سا ہو کر اندر نگاہ دوڑائی حالانکہ وہ وہاں سے سیدھا ڈرائینگ روم میں بھاگ آنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا اندر اس کی ممی نہیں۔ پتہ نہیں کون ہے اور کیا ہے۔ اس نے دیکھا کہ بیڈ پر پڑی ہوئی ممی جیسی کوئی چیز جیسے دب کر پھیل گئی تھی۔ بند آنکھیں جیسے بڑے بڑے ابھرے ہوئے دائروں میں دھنسی پڑی تھیں۔ اس چیز کے ہاتھ پاؤں اور چہرہ جانے کس رنگ کے تھے۔۔۔ دوسرے ہی پل ا س نے منھ دوسری طرف موڑا اور پوری طاقت لگا کر ڈرائینگ روم کی طرف بھاگا۔ اس کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔
شاید وہ ایک زوردار چیخ مارکر بے ہوش ہو جاتا مگر بخار میں چپ چاپ لیٹی ہوئی بہن نے اس کے حواس کو قابو میں رکھا۔ چیخ اس کے ننھے سے سینے میں گھٹ کر رہ گئی۔
وہ بہن کے قریب چلا گیا اور باچھیں کھول کر مسکرانے لگا تو اس کے سوکھے سوکھے لب سفید ہو رہے تھے۔
’’بِسکٹ۔ لایا ہوں۔‘‘ وہ تھرتھراتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’کھائےگی۔‘‘ وہ پیار سے پوچھنے لگا۔ اور ثوبیہ ٹکر ٹکر بھائی کو دیکھتی رہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.