Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیخ جی

MORE BYکوثر چاند پوری

    ہم اپنے حلقہ احباب میں چپراسی کی ضرورت کا اظہار کرکے بالکل ایسے مطمئن ہو گئے جیسے کوئی صاحب پانیر میں اشتہار دے کر بےفکر ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پانیر کے صفحات میں ’’ضرورت‘‘ دیکھ کر جو صاحب بھی خالی جگہ کے لیے درخواست بھیجیں گے وہ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع الشروط ہوں گے۔ اس اطمینان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ایک بےتکلف دوست شیخ جی کو لے کر ہمارے پاس پہنچ گئے۔ نیچا کرتا، لمبی داڑھی، گھٹا ہوا سر اور پائجامہ ٹخنوں سے کچھ اونچا۔ آنکھیں ضرورت سے زیادہ چھوٹی، جن میں سرمہ کی تحریر کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔

    ہم نے شیخ جی کو دیکھ کر خیال کیا کہ یہ کوئی مولوی ہیں جو کسی مسجد یا عرس کا چندہ وصول کرنے آ گئے ہیں یا پھر ان کے چند جوان بیٹیاں ہوں گی جن کی شادی کا مرحلہ مسلمانوں کے دست اعانت کا محتاج ہوگا اور غالباً ہمارے عزیز دوست ’’رشید‘‘ کی معیت محض سفارش کی وجہ سے حاصل کی گئی ہے۔ کیونکہ آج کل کے چندے باز مولویوں نے اس فلسفہ پر اچھی طرح غور کر لیا ہے کہ،

    چندہ وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے۔

    اسی لیے وہ کسی صاحب اثر کی آڑ لے کر مسلمانوں کی جیبوں پر حملہ آور ہوتے ہیں مگر رشید نے آتے ہی کہا، لیجیے جناب انجینئر صاحب! چپراسی حاضر ہے۔ نہایت ایماندار، مستعد، جفاکش اور خیرخواہ آدمی ہے۔ زمانہ کا انقلاب کہیے کہ ان کو بارہ روپیہ کی ملازمت پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ ورنہ یہ بہت شریف آدمی ہیں۔

    رشید تم نے میری ضرورت کا بہت غلط احساس کیا۔ مجھے کسی مسجد کے لیے امام کی یا بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کی غرض سے ’’ملاجی‘‘ کی ضرورت نہ تھی بلکہ مجھے ’’چپراسی‘‘ چاہیے۔

    جی ہاں شیخ جی اسی کے لیے آپ کے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔

    مگر تم نے یہ بھی کہہ دیا ہے شیخ جی سے اپنے کہ اس نوکری میں ہر قسم کے کام کرنا پڑیں گے۔ حقہ بھرنا، بازار سے سامان لانا اور دورے کی حالت میں کبھی کبھی کھانا پکانا۔ غرض سب کچھ کرنا پڑےگا اور ’’جبہ و دستار‘‘ کا احترام قطعاً نظر انداز کردیا جائےگا۔

    رشید تو خاموش رہے۔ شیخ جی نے اپنے تازہ منڈے ہوئے سرپر آگے سے پیچھے کو ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا، سب کریں گے جناب! نوکری چاکری میں تو یہی ہوتا ہے۔

    شیخ جی کو کسی کام کے کرنے میں عار نہیں ہے۔ رشید نے شیخ جی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔

    تنخواہ فی الحال بارہ روپے ملے گی، ترقی کے متعلق کوئی اطمینان دلانا نہیں چاہتا۔ ہم نے ذرا بلند آواز سے کہا۔

    منظور ہے۔ پیٹ پالنا ہے۔ یہ بھی بہت ہے۔ شیخ جی نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو جلد جلد کھولتے اور بند کرتے ہوئے کہا۔

    اگرچہ شیخ جی کی ایسی وضع قطع کے انسان کو چوبیس گھنٹے اپنے اوپر مسلط کرنا ہم پسند نہ کرتے تھے لیکن اول تو رشید کی سفارش، دوسرے خود شیخ جی کی پریشان حالی سے قلب پر ایسا اثر ہوا کہ صاف جواب دینے کی جگہ ہم نے ان کی تقرری کا پروانہ لکھ کر ان کو دے دیا اور کام کے متعلق مختصر طور پر شیخ جی کو ہدایات کر دیں۔

    شیخ جی کا تقرر کرنے کے بعد ہم نے اپنے اردلی قاسم کو بلاکر کہا، دیکھو یہ نیا چنڈول پھنسا ہے۔ ذرا اسے اپنے یہاں کے آداب و قواعد سے مطلع کر دو اور اچھی طرح سمجھا دو۔ نیا آدمی ہے، پہلے ہی درست کر لینا بہتر ہے۔ ہم تو یہ کہہ کر غسل خانہ میں چلے گئے اور قاسم اردلی نے اشارہ سے شیخ جی کو بلاکر باتیں کرنا شروع کیں۔

    کیوں شیخ جی تم تو پڑھے لکھے آدمی ہوگے؟

    اجی پڑھے وڑھے تو کیا ہیں، ہاں معمولی شدبد ہے۔

    تمہیں ہر وقت بنگلہ پر رہنا ہوگا اور دیکھو صاحب جس وقت گھنٹی بجایا کریں، فوراً دروازے پر آکر دریافت کر لیا کرو کیا کام ہے۔

    صاحب کے لفظ سے شیخ جی کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے تعجب سے پوچھا، صاحب کون؟

    صاحب کو نہیں جانتے؟ جو ابھی تم سے باتیں کر رہے تھے۔ مالک اپنے۔ قاسم نے جواب دیا۔

    کیا کرشٹان ہیں یہ؟ شیخ جی نے بڑی برجستگی اور سادگی سے سوال کیا۔

    نہیں جی کیسے بیوقوف آدمی ہو، ہیں تو مسلمان مگر بڑے آدمی ہیں، ان کو صاحب ہی کہنا چاہیے۔

    اچھا بھائی ہم تو اور ’’بہادر‘‘ کہہ دیا کریں گے۔

    ہم نے دوسرے دروازے سے نکل کر کپڑے پہنے اور شیخ جی کی ذہانت کا امتحان لینے کے لیے گھنٹی بجائی۔ شیخ جی دوڑ کر دروازے پر آئے اور بجائے اس کے کہ ہم سے کچھ پوچھتے، آنے کی اطلاع کے طور پر انہوں نے کھانسنا شروع کر دیا۔ کھوں۔ کھوں!

    کون؟ ہم نے زور سے کہا۔

    میں ہوں، شیخ جی۔ نرم آواز میں جواب دیا۔

    کون ہیں؟

    اجی میں ہوں صاحب، شیخ جی۔

    شیخ جی!

    جی۔

    چائے لاؤ اور قاسم کو بھیجو۔

    شیخ جی کے طور و طریق سے جلدی ہی ظاہر ہو گیا کہ آدمی تو کام کے ہیں مگر مذہب کے بے انتہا دلدادہ ہیں اور اپنے اوقات میں کس قیمت پر بھی تغیر کرنے کو آمادہ نہیں۔ چنانچہ جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ سب کام چھوڑ کر اپنا مذہبی فرض ادا کرنے میں مشغول ہو جاتے اور ضروری سے ضروری کام کی بھی پرواہ نہ کرتے۔

    ہمیں دورے پر جانے کی ضرورت ہوئی تو ہم نے شیخ جی بلا کر کہا کہ سامان درست کر لو، دورے پر چلنا ہوگا اور ہمارا بڑا چسٹر بھی رکھ لینا۔ شیخ جی بہت اچھا کہہ کر چلے گئے اور ہم اپنے کا غذات درست کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ایک گھنٹہ کے بعد شیخ جی نے اطلاع دی کہ گاڑی کا وقت قریب ہے۔

    سامان سب لے لیا؟

    جی سب رکھ لیا۔

    بستر باندھ لیا اور کمبل بھی رکھ لیا؟

    سب لے لیا سرکار۔

    اور چسٹر ہمارا؟

    رکھ لیا حضور وہ بھی۔

    جمعہ کا دن تھا۔ شیخ جی نے حسب معمول خوب جی لگا کر سر گھٹایا تھا اور تیل داڑھی کے ساتھ سر پر بھی چپڑ لیا تھا۔ تیل کی چکناہٹ سے ان کا سر مس خام کی طرح چمک رہا تھا۔ ہم دو بجے اسٹیشن پر پہنچے۔ گاڑی آنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے، اس لیے شیخ جی کو سامان کے متعلق ہدایت کر دی گئی تھی کہ گاڑی آتے ہی سکینڈ کلاس میں رکھ دیں اور خود سرونٹ کلاس میں رونق افروز ہو جائیں۔ اتفاق سے گاڑی بالکل خالی تھی۔ شیخ جی نے اطمینان سے سامان رکھ دیا اور خود بھی سوار ہو گئے لیکن بجائے سرونٹ کلاس کے وہ قریب کے تھرڈ میں بیٹھے۔ ہمارے معترض ہونے پر انہوں نے نہایت صفائی سے کہہ دیا کہ صاحب لوگوں کے بیرے آئیں گے، ہم ان کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ آپ جس وقت بلائیں گے، ہم وہیں سے آ جائیں گے اور اپنی نگاہ ہر وقت آپ کی طرف رکھیں گے۔

    دو تین اسٹیشن چلنے کے بعد گاڑی ایک بڑے اسٹیشن پر رکی اور دیرتک کھڑی رہی۔ ایک خوش پوش اور خوبصورت نوجوان شیخ جی کے پاس ٹہل رہے تھے اور بہت غور سے ان کو دیکھ رہے تھے۔

    شیخ جی کی یہ کیفیت تھی کہ ننگے سر بیٹھے ہوئے تھے اور کھڑکی سے سر نکال کر ہمیں بار بار دیکھتے جا رہے تھے اور بعض وقت تو آدھا جسم کھڑکی سے نکال کر جھانکنے لگتے تھے۔ گاڑی جس وقت اسٹیشن سے روانہ ہوئی، ہم بھی اپنے ڈبے سے جھانک رہے تھے اور اسٹیشن کے منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ نوجوان بڑے ستم ظریف نکلے۔ انہوں نے یہ حرکت کی کہ شیخ جی کے ڈبے سے بیس پچیس قدم کے فاصلہ پر گاڑی چھوٹنے سے پہلے ہی جا کھڑے ہوئے اور جب شیخ جی قریب پہنچے تو میرے یار نے ہاتھ بڑھاکر شیخ جی کے گھٹے ہوئے سر پر جو ایک چپت رسید کیا تو سارا اسٹیشن قہقہوں سے گونج اٹھا۔ پھر کمال یہ کہ چپت لگاتے ہی فوراً اپنا ہاتھ چوم لیا اور بلند آواز سے کہا، معاف کرنا مولانا، بڑی دیر سے آپ کی چندیا کو دیکھ کر ہاتھ میں خارش آ رہی تھی۔

    شیخ جی کی اس حادثہ کے بعد یہ کیفیت تھی کہ گاڑی سے باہر نکلے پڑتے تھے اور اپنا آدھا دھڑ کھڑکی سے نکال نکال کر گویا ان کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے اور مٹھیاں باندھ باندھ کر دانت کچکچا رہے تھے اور بجائے اس کے کہ ہمیں شیخ جی کے فرق مبارک سے اس حادثہ میں کوئی ہمدردی ہوتی، ہم بار بار اس نوجوان کی ذہانت، زندہ دلی اور چابک دستی کی داد دے رہے تھے۔ اگلے اسٹیشن پر گاڑی ٹھیرتے ہی شیخ جی نے ہماری خدمت میں استغاثہ پیش کیا اور خواہش کی کہ جلد تار دے دیا جائے۔ ابھی وہ بدمعاش اسٹیشن پر ہی موجود ہوگا اور گرفتاری میں آسانی ہوگی۔ ہمیں شیخ کی صورت دیکھتے ہی اپنی متانت اور سنجیدگی کی حفاظت دشوار ہو گئی کیونکہ ان کو دیکھتے ہی ہمارے عصبی نظام میں پھر تحریک ہو گئی تھی اور ہماری ہنسی خاموشی و ضبط کی حدود سے نکل کر قہقہہ کی صداؤں میں تبدیل ہو گئی تھی۔ باوجود یہ کہ ہم نے اپنے منہ کو دستی سے بند کر رکھا تھا مگر ہنسی ضبط ہونے میں نہ آتی تھی۔

    شیخ جی نے کہا، صاحب آپ تو ہنس رہے اور ہمارے ہی ساتھ الٹی مخول کرنے لگے، خدا پاک کی قسم میرا سر بھنا گیا۔ اتنے زور سے چپت لگایا تھا کمینے نے!

    اب سر چھپاکر بیٹھو۔ بڑی مشکل سے ہم نے یہ جملہ ادا کیا۔ منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے ڈاک بنگلہ میں قیام کیا۔ سردی زیادہ تھی اور ہمیں تھوڑی دیر بیٹھ کر کام کرنا تھا۔ ہم نے شیخ جی سے کہا، شیخ جی! چسٹر لاؤ۔

    بہت بہتر، ابھی لایا۔ یہ کہہ کر شیخ جی نے مثلوں کا بستہ میز سے اٹھاکر دھڑسے زمین پر دے پٹکا اور لگے جلدی جلدی اسے کھولنے۔ ہم حیران تھے کہ چسٹر انہوں نے بستہ میں کیوں باندھا؟

    شیخ جی ایک بہت بڑا رجسٹر بستر سے نکال لائے اور ہمارے سامنے ڈال دیا۔ یہ لیجیے سرکار!

    کیا ہے بھائی! میں اس کو کیا کروں گا۔ چسٹرلاؤ۔ چسٹر!

    چسٹر ہی تو ہے سرکار یہ بڑا!

    جزاک اللہ، مار دیا شیخ جی تم نے!

    کیوں سرکار؟

    تم آج تک یہی نہیں جانتے کہ چسٹر کس جانور کا نام ہے۔ میں نے رجسٹر نہیں کہا تھا۔ چسٹر کہا تھا۔ کوٹ کو کہتے ہیں۔ چسٹر کوٹ کو! اب بتاؤ میں کیا پہنوں؟

    غلطی ہوئی سرکار! میں تو اسی کو سمجھا تھا۔

    بہت مناسب ہے جناب! شامت اعمال ہماری۔ کیا کریں۔

    ہم جس بنگلہ میں رہتے تھے، اس کے قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ شیخ جی چونکہ بڑے پکے نمازی تھے اور پانچوں وقت کی نماز ٹھیک وقت ادا کرتے تھے۔ اس لیے وہاں کی امامت قدرتاً آپ کے سپرد ہو گئی اور سنا ہے کہ آپ بڑے شوق سے نماز پڑھاتے تھے۔

    ایک دن ہم نے شیخ جی کو بلاکر پوچھا، تمہیں قرآن شریف کی کچھ سورتیں بھی یاد ہیں؟ انہوں نے کہا، پہلا سپارہ تو پورا یاد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ رکوع بھی میں نے حفظ کر لیے ہیں۔ ہم نے کہا کوئی سورت سناؤ۔ شیخ جی نے قرأت اور خوش آوازی پیدا کرنے کی اتنی کوشش کی کہ ’’الف‘‘ کو ہر جگہ ’’ع‘‘ کے تلفظ سے اور ’’ہ‘‘ کو ’’ح‘‘ کے تلفظ سے ادا کیا۔ ہم نے کہا خیر یہ تو معمولی بات ہے۔ ممکن ہے ہمیں مرعوب کرنے کی نیت سے انہوں نے ایسی قرأت سے کام لیا ہو اور مسجد میں اصل تلفظ ادا کرتے ہوں۔ اتفاق سے اسی روز شام کو قاسم اردلی نے ہم سے کہا، صاحب! مسہل کی دو تین گولیاں دے دیجیے۔

    کیوں کیا کرےگا؟

    شیخ جی کو کئی دن سے قبض کی شکایت ہے۔ میں نے کہا صاحب کے پاس مسہل کی دوا ہے۔ میں لائے دیتا ہوں۔ الماری میں قریب ہی ’’قرصِ ملین‘‘ رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے تین ٹکیاں قاسم کو دے دیں اور کہہ دیا کہ رات کو سوتے وقت پانی سے کھلا دینا۔

    قاسم کو بھی شیخ جی سے عقیدت ہو گئی تھی اور وہ بھی ان کے ساتھ نماز کو جایا کرتا تھا۔ صبح کو اس نے آکر کہا کہ شیخ جی بہت سویرے اٹھ کر حسب معمول رفع حاجت کو گئے تھے پھر مجھے ساتھ لے کر نماز کو چلے گئے۔ شیخ جی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے اور اچھی طرح نماز پڑھاتے رہے۔ جب بہت دیر ہو گئی تو کسی نے دیکھا کہ شیخ جی غائب ہیں، خیر نماز تو دوسرے آدمی نے پڑھا دی، مگر مجھے شیخ جی کی تلاش ہوئی۔ دوڑا ہوا بنگلہ پر آیا۔ یہاں بھی شیخ جی نہ ملے۔ بہت تلاش کیا کہیں پتہ نہ چلا، آخر سورج نکلنے کے گھنٹہ بھر بعد ندی کی طرف سے آتے ہوئے دکھائی دیے۔ کہنے لگے نہ معلوم تم نے کیسی گولیاں کھلا دیں کہ مجھے نماز چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

    اس واقعہ کے بعد شیخ جی عرصہ تک مسجد نہ گئے۔ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

    اب تک شیخ جی کی ذات بابرکات سے اس قدر دلچسپ واقعات ظہور میں آ چکے تھے کہ ان کی شخصیت متفقہ طور پرآلہ تفریح تسلیم کر لی گئی تھی اور ہمارے احباب نے فیصلہ کر دیا تھا کہ شیخ جی پچاس روپیہ ماہوار پر بھی سستے ہیں۔ وہ تو بدقسمتی سے ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اگر یورپ میں ایسا شخص پیدا ہوتا تو اس کی بڑی توقیر ہوتی۔ یہاں غریب چلمیں بھرتے پھرتے ہیں۔ ہم نے یہ واقعہ سنا تو ٹیلیفون سے رشید کو سب حال سنایا۔ وہ بھی بہت محظوظ ہوئے۔ فرمانے لگے، بھائی اگلے وقتوں کے لوگ ہیں۔ ان کے کام پر نظر کرو۔ ان کی باتوں کو مت دیکھو، حالانکہ ان کی زندگی کا دلچسپ پہلو حقیقتاً یہی تھا اور اگر ان میں یہ اوصاف نہ ہوتے تو غالباً ہمیں جلد ہی ان کی علیحدگی پر مجبور ہونا پڑتا۔

    عید کے دن ہمارے ہاں ایک معزز دوست آئے ہوئے تھے اور ہم دونوں بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔ قاسم بازار گیا ہوا تھا۔ شیخ جی سے کہہ دیا تھا کہ باہر موجود رہیں۔ ہمارے دوست نے سگریٹ پھینکتے ہوئے کہا، بھائی حقہ منگواؤنا۔ تمہارے یہاں تو دیسی چیزیں بھی موجود رہتی ہیں۔ ہم نے گھنٹی بجائی اور کئی بار بجائی مگر شیخ جی تشریف نہ لائے۔ بہت غصہ آیا اور خود ہی اٹھ کر کھڑکی کے قریب آئے۔ دیکھا تو شیخ جی استنجے میں مصروف ہیں اور چونکہ گھنٹی بج چکی تھی اس لیے اضطراب کے ساتھ احکام کو جلد ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم نے اپنے مہمان کو بھی اس دلچسپ تماشہ میں شریک کر لیا۔ ان کی تو یہ حالت ہوئی کہ آپے سے باہر ہو گئے اور ہنستے ہنستے فرش پر گر پڑے۔

    شیخ جی سے جب کہا گیا کہ اتنی دیر کیوں ہوئی؟ ہم نے متعدد گھنٹیاں بجائیں مگر جواب ہی نہ ملا۔ شیخ جی نے کہا، کیا بتاؤں صاحب، میں تو جلدی ہی آ گیا۔

    جلدی آ گیا۔ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ پندرہ بیس منٹ ہو گئے گھنٹی بجاتے ہوئے اور کہتے ہو جلدی آ گیا۔

    صاحب ڈھیلا لے رہا تھا۔ ڈھیلا!

    شیخ جی نے کچھ اس انداز سے جواب دیا اور استنجے کا ایسا مہذب ترجمہ کیا کہ ہمارے دوست پھر بیتاب ہو گئے اور ان پر ہنسی کا ایسا سخت دورہ پڑا کہ وہ ازخود رفتہ ہو گئے۔

    شیخ جی تو حقہ لینے چلے گئے اور انہوں نے ہوش میں آتے ہی ہم سے کہا، میاں بڑا دلچسپ آدمی ہے۔ ہمارے اردلی سے بدل لو۔ خدا کی قسم تم مردہ دل آدمی ہو، اس سے لطف نہ اٹھا سکوگے۔ یہ تو میرے لائق ہے۔

    ہم نے اسی سلسلہ میں ان کو چپت اور مسجد کا واقعہ سنایا تو وہ اور زیادہ لطف اندوز ہوئے اور جب شیخ جی حقہ لے کر آئے تو انہوں نے سروقد کھڑے ہوکر شیخ جی سے مصافحہ کیا۔ ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور عقیدت مندانہ لہجے میں کہا، بھلا ایسے آدمی کہاں ملتے ہیں چودہوی صدی میں!

    شیخ جی کو قطعاً یقین آ گیا کہ ان کی بزرگی سے ہمارے مہمان متاثر ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے پیشانی پر شکن ڈال کر کہا، ناکارہ بندہ ہوں صاحب! خدا کا شکر ہے وہ پیٹ بھر رہا ہے۔

    سبحان اللہ کیسا انکسار ہے۔ قطب اور ابدال آج کل اسی بھیس میں رہتے ہیں۔ محنت کرکے کھاتے ہیں مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔

    پیشہ حبیب اللہ ہے۔ شیخ جی سے عارفانہ انداز میں کہا۔ اب شیخ جی اپنے تازہ عقیدت مند کی طرف بہت خلوص سے متوجہ ہوئے اور جب تک وہ ہمارے یہاں مقیم رہے بڑی دلسوزی سے ان کی خدمت کرتے رہے۔ چلتے وقت انہوں نے ہم سے کہا، دیکھو ہم نے اس ’’بزاخفش‘‘ کو کیسا شیشہ میں اتارا ہے کہو تو لے جاؤں ساتھ! خدا کی قسم بغیر ٹکٹ جائےگا۔

    واقعہ بھی اس کے خلاف نہ تھا، اس لیے ہم ہنس کر خاموش ہو گئے۔

    شیخ جی حقہ نوشی کے بڑے شائق تھے اور نہایت اہتمام کے ساتھ حقہ پیتے تھے، خصوصاً صبح کو ناشتہ کے بعد اور دونوں وقت کھانے سے فارغ ہوکر وہ حقہ کا بہت ہی اہتمام کرتے تھے۔ سویرے اٹھ کر حقہ تازہ کرتے اور پھر آگ سلگاکر کوئلے تیار کرتے اور چلم بھر کر اپنے سرہانے پیر لٹکاکر بیٹھ جاتے اور آہستہ آہستہ اطمینان سے حقہ پینا شروع کر دیتے۔

    ہندوستان کے دستور کے مطابق ان کے اکثر احباب اوقات حقہ نوشی میں جمع ہو جاتے تھے مگر شیخ جی جب تک جی بھر کر نہ پی لیتے، حقہ کا رخ کسی طرف نہ پھیرتے۔ بعض بےتکلف دوست ہاتھ بڑھا کر حقہ کی نے پردست درازی کرتے تو شیخ جی تیور بدل کر فوراً بول اٹھتے، بس جی بس! میں باز آیا ایسی دوستی سے۔ گھنٹہ بھر سرمارا ہے تب کہیں جاکر حقہ پینے کے لائق ہوا ہے۔ آ گئے کہیں سے تیار مال پے دانت لگانے، چلو الگ ہٹو، بڑے شوقین ہو حقہ کے تو پیسے خرچ کرو پیسے، میاں یہاں تو منہ کے ذائقہ میں گھر برباد کر دیا۔ قسم ایمان کی آدھی تنخواہ دھوئیں میں اڑا دیتا ہوں آدھی!

    رفتہ رفتہ لوگ شیخ جی کی اس عادت سے واقف ہو گئے اور ان اوقات خاص میں بعض تو واقعی حقہ کے لالچ میں اور بعض صرف شیخ جی کو بنانے کی نیت سے ان کے پاس جمع ہو جاتے۔ شیخ جی لوگوں کی اس حرکت سے زچ آ گئے مگر کرتے کیا، کسی کو زبردستی تو روکنے سے رہے اور کوئی ایسی پناہ کی جگہ تھی نہیں جہاں بیٹھ کر دم لگاتے۔ دو چار دفعہ غسل خانہ وغیرہ میں جاکر ایسا کیا بھی تو لطف نہ آیا۔ ایک دن شیخ جی خاص طور پر گورکھپور کا تمباکو خرید کر لائے اور بڑے اشتیاق سے انہوں نے صبح سویرے ہی اٹھ کر ڈھاک کے کوئلوں کی آگ تیار کی۔ حقہ تازہ کیا۔ پانی بدلا۔ فرشی کو بھی ذرا صاف کرکے چمکایا اور پلنگ پر پیر رکھ کر بڑی شان سے ڈٹ گئے۔

    اتفاق سے ہمارے محکمہ کا ایک امیدوار کم بختی کا مارا ہمارے بنگلہ کے چکر کاٹ رہا تھا۔ اس نے جو دور سے شیخ جی کو اس تزک و احتشام سے رونق افروز دیکھا، پس وہ لپکا تاکہ ان سے کچھ اور نہیں تو ہمارا پتہ معلوم ہو جائے۔ شیخ جی کے قریب آکر اس نے بلند آواز سے کہا،

    السلام علیکم

    شیخ جی نے سلام کا جواب دینے کی جگہ تیز تیز نگاہوں سے نووارد کو دیکھا۔ وہ غریب ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور ان کی پائنتی بیٹھ گیا۔ شیخ جی نے خیال کیا کہ بیٹھنے کے بعد حقہ ہی کا نمبر ہے۔ اب تک تو خیر جان پہچان ہی کے لوگ آتے تھے، اب اجنبیوں کا حملہ بھی ہونے لگا۔ حقہ نہ ہوا ایک تماشا ہو گیا۔ یہ سوچ کر شیخ جی کچھ ایسے غضب ناک ہوئے کہ انہوں نے چلم اٹھاکر تڑسے زمین پر دے پٹکی اور نیچا نکال کر زور سے گھماکر سڑک کی طرف پھینک دیا اور نووارد کی طرف دیکھ کر غصہ سے کہنا شروع کیا، پیو، پیو اب پیو بھتیجے حقہ! تمہارے ہی لیے تو بھرا تھا میں نے! آئے بڑے وہاں سے حقہ پینے والے!

    نووارد۔ کیا فرمایا جناب! حقہ، حقہ تو کبھی میرے باپ نے بھی نہیں پیا۔

    شیخ جی۔ باپ نے نہیں پیا تو کیا ہوا، تمہیں تو دوسروں کو دیکھ کر شوق چرایا حقہ کا۔۔۔!

    نووارد۔ جناب میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ واللہ مجھے حقہ کی بالکل عادت نہیں، اتنی عمر ہو گئی مگرمیں نے حقہ نہیں پیا۔

    شیخ جی۔ (خفیف ہوکر) پھر کیوں آئے یہاں آپ! پہلے کہہ دیا ہوتا بھلے مانس!

    نووارد۔ صاحب کے پاس آیا تھا، امیدوار ہوں۔ انجینئری کے دفتر میں۔

    شیخ جی۔ امیدوار دفتر میں ہو یا گھر پر۔

    نووارد۔ دفتر میں ہوں۔

    شیخ جی۔ پھر یہاں آنے کا کیا مطلب؟

    نووارد۔ ذرا تنہائی میں صاحب سے مل کر عرض معروض کر لیتا۔ آج کل ایک جگہ خالی ہے۔

    شیخ جی۔ چلو ہو چکی عرض معروض۔ دو ڈیڑھ روپے پر پانی پھیر دیا۔ تم نے صبح ہی صبح، سنیچر کہیں کا!

    شیخ جی امیدوار کا لفظ سن کر بہت تیز ہو گئے تھے اور جو کچھ ان کے منہ میں آ رہا تھا غریب امیدوار کو کہہ رہے تھے۔ وہ بھی انہیں سگِ لیلی سمجھ کر ان کی سخت کلامی کو برداشت کر رہا تھا۔ بالآخر تنگ آکر اس نے کہا، جناب آپ نے خود ہی تو عقل مندی کی اور حقہ توڑ ڈالا۔ اب غصہ اتارتے ہیں آپ مجھ پر۔

    ہاں جی اس میں کیا شک ہے، ہم تو بالکل گدھے ہیں گدھے۔ اچھا، آپ جائیے یہاں سے دفتر میں آئیے، یہاں کسی کے آنے کا حکم نہیں ہے۔۔۔ امیدوار شیخ جی کی اس بات سے ناامید ہوکر طیش میں آ گیا اور اس نے شیخ جی کو ڈانٹ کر کہا، نہ معلوم گدھے ہو یا الو! کون ہو، مگر آدمی تو نہیں معلوم ہوتے۔

    شیخ جی کو ایک امیدوار کی زبان سے ایسے الفاظ سننے کی کب تاب تھی۔ وہ آستین چڑھاکر اس کے قریب پہنچ گئے۔ اس بیچارے نے خیال کیا کہ آدمی ہے چلا ہوا، نہ معلوم کیا کر بیٹھے پہلے ہی سے انتظام کر لو۔ شیخ جی جیسے ہی اس کے پاس پہنچے اس نے ہاتھ بڑھاکر ان کی داڑھی پکڑ لی۔۔۔ شیخ جی بہت گھبرائے اور بدلگام گھوڑے کی طرح انہوں نے کودنا اچھلنا شروع کر دیا۔ مگر امیدوار بھی غضب کا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ شیخ جی زیادہ بیتاب ہیں تو داڑھی کی گرفت کو ذرا سخت کر دیا اور ایک دو جھٹکے بھی دے دیے۔ اسی دوران میں ہم نے گھنٹی بجائی۔ شیخ جی گھنٹی کو سن کر بہت سٹ پٹائے۔ امیدوار نے سمجھا چھوٹتے ہی حملہ کرےگا۔ اس نے پھر زور سے جھٹکا دیا۔۔۔ ہم نے مکرر گھنٹی بجائی۔ شیخ جی بہت گھبرائی آواز میں چلائے۔۔۔ یہ نہیں چھوڑتا صاحب بدمعاش۔

    ہم نے دریچہ سے سر نکال کر دیکھا تو واقعی شیخ جی امیدوار کے ہاتھ میں گرفتار تھے۔ دوسری طرف سے قاسم دوڑا اور اس نے بڑی کوشش سے بیچ بچاؤ کرایا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے