Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمشان گھاٹ

محمد عاطف علیم

شمشان گھاٹ

محمد عاطف علیم

MORE BYمحمد عاطف علیم

    لکڑی کا سال خوردہ دروازہ چر چرا کر کھلا اور وہ لمبا گھونگھٹ کاڑھے کفن ایسی سفید چادر میں لپٹی لپٹائی اندر داخل ہوئی اور دیوار کے ساتھ پشت ٹکاکر بیٹھ گئی۔

    فجر کی نماز کے بعد وہاں چڑیوں کی چہکار تلے درس چل رہا تھا۔ مسجد قرار دئیے گئے چار دیواروں کے بیچ اس ادھ کچے کشادہ صحن میں چند لوگ ہمہ تن گوش بیٹھے ایک ایک لفظ چن رہے تھے۔

    دیوار کے سائے میں آلتی پالتی مارے مکت مہانتا سے مدرس نے اس کے آنے کے بعد اضطراب بھرے لمحوں میں قدرے توقف کیا پھر خود کو یک جا کرکے آسمانی علم کی گرہ کشائی کرنے لگا۔

    حافظ ودود وہیں کا تھا۔ پشت ہاپشت سے اس کا ناطہ اسی گاؤں سے جڑا ہوا تھا۔ وہیں کی دھول مٹی پھانکتے اس کا بچپن گزرا تھا۔ تبھی علم کی لٹک لگی تو وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ علم کے ہیولا سے وجود کو گھیرنے کے چکر میں کئی ایک برس مہینے اسے چھو کر گزرگئے۔آخر ایک روز اس نے کوچہ گردی تمام کی اور بستر سمیٹ سیدھے اپنے گاؤں کی بےنام مسجد میں آکر دم لیا۔

    برس ہا برس کی دربدری کے بعد وہ لوٹا تو سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔ ٹھہری ہوئی زندگی کی یبوست میں البتہ بہت کچھ اضافہ ہو چکا تھا۔ مگر وہ اسی یبوست کو مٹانے کا نسخہ معلوم کرنے ہی تو گھر سے نکلا تھا سو اس نے ماں کی آشیرواد لی اور کتابیں ترتیب سے جما کر مسجد کے معاملات سنبھال لیے۔

    گاؤں میں کچی مسجد اور پکی مسجد دو متضاد استعارے تھے۔ پکی مسجد اپنے بلند میناروں، پرشکوہ گنبد، برقی قمقموں اور طرح طرح کے مذہبی طغروں کے ساتھ مذہبی جاہ و حشم کا کامل اظہار تھی جبکہ کچی مسجد اپنے نام جیسی مسکین اور عجز و انکسار کی تجسیم تھی۔ حافظ ودود کے بزرگوں نے اسے جان بوجھ کر کچا رہنے دیا تھا تاکہ ماس اور مٹی کا رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔ دونوں مسجدوں کے عبادت گزار بھی اپنی اپنی طرح کے تھے۔ زمیندار قسم کے خوشحال اور رعب داب والے سرکاری لوگ پکی مسجد کی روشن چھاؤں تلے اپنی طرح کے خوشحال اور پرشکوہ خدا کی عبادت کرتے تھے جبکہ دھول اور دھواں کھائے گاڈ فار سیکن لوگ کچی مسجد کے ٹمٹماتے دیوں کی اداس لو میں اپنے مشفق، دیالو اور پالن ہار خدا کو تلاشتے تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے حافظ عبدالودود نے اپنے سوچے ہوئے خاموش انقلاب کا آغاز کرنا تھا۔

    یبوست اور اس کے اوجھل سے جھانکتی بھیانکتا کے رنگوں میں لتھڑے ہوئے اس گاؤں میں جس نے ایک روز لہو کا کفن اوڑھنا تھا، گلاب شاہ بھی اپنے طنطنے کے ساتھ موجود تھا۔ ظل سبحانی قسم کی چیز گلاب شاہ جوکبھی مولوی گاٹا کہلاتا تھا اور پکی مسجد کا خادم تھا، اپنی موٹی گردن، گینڈے سے تنومند جسم اور سانپ سی بے قرار آنکھوں کے باعث نہایت ناپسندیدہ شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ وقت کی ایک کروٹ کے نتیجے میں وہ خادم سے ترقی پاکر مسجد کا مالک و مختار بن گیا تھا۔ امامت کے منبر اور پہلے والے نیک دل مولوی صاحب کی پر اسرار موت کے درمیان کوئی تعلق نہ ہو تب بھی بہت سے ناگفتنی راز ایسے تھے جو شکی مزاج لوگوں کی بیٹھکوں میں سرگوشیوں کی صورت زندہ تھے۔

    گلاب شاہ صفیں چیر کر آگے بڑھنے کا فن جانتا تھا۔ اپنی بادشاہی آباد ہونے سے پہلے بھی وہ مقتدر سرکاری اہلکاروں اور بڑے لوگوں کے درمیان ایک خاص نوع کی اہمیت رکھتا تھا۔ اپنی اسی اہمیت کے باعث وہ سائل اور مسؤل کے درمیان رابطے کا کار آمد وسیلہ بن چکا تھا۔ بھینس چوری سے زنا بالجبر تک سارے بکھیڑے اس کے آگے پانی تھے۔ وہ مناسب سے دام کے عوض اس خوبی سے انہیں نبیڑتا کہ سائل اور مسؤل دونوں مراد پا جاتے تھے۔

    پکی مسجد کا تخت جیتنے کے بعد اس نے تعویذ دھاگے اور نیلے کالے علموں کو خدمت خلق کا وسیلہ بنایا تو اس کی شہرت دور دور کے دیہات تک پھیل گئی۔یہ ہونا تھا کہ چٹا کورا مولوی گاٹا عالم بے بدل بن گیا اور درجہ ولایت بھی گھٹنوں گھٹنوں چلتا اس کی چوکھٹ پر آن بیٹھا۔

    مولوی گاٹا پہلے گلاب شاہ بنا اور اب خود کو درجہ ولایت پر فائز کرنے کے بعد سے سید بادشاہ تھا۔پیری فقیری کا دھندہ چل نکلنے پر اس نے اپنے حجرے کو دیوان خاص کی چیز بنادیا تھا جہاں دور دور کے شرفا مل بیٹھ کر عوام الناس کی تقدیر رقم کرنے کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ خاموش راتوں کے سناٹے میں جب چمگادڑوں کی خموش چیخیں گونجا کرتیں دربار خاص کیف آور دھوئیں کی چادر اوڑھ لیتا۔ تب کشف کی انمول ساعتوں کے دوران سرخ نشیلی آنکھوں والے دربار دار حق ہو پکارا کرتے اور عالم بالا کی خبر لایا کرتے تھے۔

    پکی مسجد کا ایک اور قدرے کھلا حجرہ گویا دیوان عام تھا جہاں سید بادشاہ دن بھر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے عورتوں کے گھیرے میں بیٹھا تعویذ لکھا کرتا تھا۔ سید بادشاہ آخر کو ایک نر بچہ تھا، طبقہ اناث کی تسخیر کے فن میں طاق سو ممکن نہ تھا کہ کوئی اس کے دل کو بھائے اور شاہی کا خراج دئیے بغیر بچ نکلے۔ یہ سب ہوا اور بہت ہوا لیکن پھولوں کے ساتھ کھلواڑ میں کوئی ایک کانٹا تو چبھنا تھا سو ایک بار ایسا چبھا کہ اپنے پیچھے لہو بھری لکیر چھوڑ گیا۔

    وہ کئی دنوں سے وہاں آ رہی تھی۔ بڑے بڑے پھولوں کی کڑھائی والا دوپٹہ سر پر سلیقے سے جمائے، موتی سی چھب والی یہ لڑکی پہلی ہی نظر میں سید بادشاہ کی آنکھوں میں کھب گئی۔ وہ جب بھی آئی ہجوم سے الگ تھلگ خاموشی سی بیٹھ رہی۔ وہاں اس کی باری کہاں آتی کہ قسما قسم کی عورتوں کا بھنبھناتا ہوا ہجوم سید بادشاہ پر گرا پڑتا تھا سو وہ اکتا کر روز یونہی چلی جایا کرتی تھی مگر اس پر شاید کوئی بھاری بپتا آن پڑی تھی کہ روز وہ پھر موجود ہوتی تھی۔ وہ آتی تو سید بادشاہ کے دل کو بھی قرار نصیب ہو جاتا۔ وہ بھی اک ذرا فرصت کا منتظر تھا کہ سہولت کے ساتھ اس کے ساتھ مابین من و تو والا تعلق استوار کر سکے۔

    ایک روز موقع ملا تو وہ دوپٹہ درست کرتی، جھجکتی ہوئی آگے بڑھ آئی۔ جب اس نے نیچی نظروں اور ٹوٹے لفظوں میں اپنی بات کہی تو شوق سے سلگتے گلاب شاہ کی بےترتیب دھڑکن ڈوب سی گئی۔ وہ پر اسرار لڑکی جس کے خیالوں میں گلاب شاہ کئی دنوں سے الجھا الجھا پھر رہا تھا وہاں کہاں تھی، وہ تو دور دیس میں بسنے والے کسی اور کے تعاقب میں سرگرداں تھی اور بہت کیے پر بھی جب کچھ نہ بن پایا تو وہ کامل مایوسی میں اس ناشناس کے دل کو تعویذ کی آنچ سے پگھلانے چلی آئی تھی۔

    گلاب شاہ کیلئے عشق بھی نیا، شکست عشق بھی نئی سو وہ اپنے بھاری وجود تلے دب کر رہ گیا۔ اس نے بے جان ہاتھوں سے کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر اسے تھمائیں اور وہ ناٹک شروع ہو گیا جس کے آخر میں بلاؤں کا نزول اور لہو کے گلاب رقم تھے۔

    گلاب شاہ کو لٹک لگ چکی تھی۔ اس نے کیا کچھ نہ کر دیکھا، تسخیر محبوب کے سارے نسخے اور عاشقی کے وہ سارے گر جو اسے کہیں سے بھی معلوم پڑے، آزما دیکھے مگر پتھر کی دیوار پر کوئی کونپل کھلنا تھی نہ کھلی۔ وہ تو گویا پہاڑ سی تھی جس کی طرف جتنا چلو وہ اتنا ہی دور ہٹتا جائے۔ مسئلہ جسم کا نہ تھا کہ وہ پدی سی چھوکری تو ایک جھپٹے کی مار تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ پہلی بار گلاب شاہ نے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھونا چاہا تھا مگر روح کہاں وہ تو جسم سے دور گاؤں کے باہر انتظار کی چوکھٹ بنی سوکھ رہی تھی۔

    گلاب شاہ آخر کو مولوی گاٹا تھا، روحوں کے کھیل سے ناآشنا، مفتوح ہونے کی سرشاری سے بیگانہ، عاشقی واشقی تو خیر ٹھیک مگر نارسائی کی مار کون سہے؟ عشق تو وہ جو بدن کی پھڑک سے شروع ہو اور عقد ثانی پر تمام ہو جائے۔ سو یوں ہوا کہ اس کے بھدے دماغ نے جب روح کے ساتھ جسم کو بھی ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو ایک روز تنگ آکر دل کو صاف پچھاڑ دیا۔یہ ہونا تھا کہ اس کے عشق کا کچا پن جوش غضب کا انگار بن کر دہک اٹھا۔

    ’’آج تو قصہ تمام ہو ہی جائے۔‘‘، اس نے شکست کے ایک قطعی لمحے میں فیصلہ کیا اور ایک را ت تاریکی میں جب چمگادڑوں کی چیخیں سارے میں سنسنا رہی تھیں وہ اس لڑکی کو پھسلا کر اپنے حجرہ خاص میں لے گیا اور پھر ارنا بھینسا سا اس پر ٹوٹ پڑا۔پہلی پہلی شکست کا گھاؤ اتنا گہرا تھا کہ گھٹی گھٹی چیخوں اور نازک ہڈیوں کی پر لذت کڑکڑاہٹ نے تلخیوں کو دو آتشہ کر دیا۔ جسم کی پکار نے آسودگی پائی تو گہری سانسوں کے بیچ اس نے اپنے رقیب کے تصوراتی ہیولے کی طرف نفرت سے تھوکا اور اپنے ساتھ لائی تیزاب کی بوتل ساری کی ساری اس نیم مردہ وجود پر خالی کر دی۔ اذیت اور تذلیل کی میخوں میں پروئی گئی اس چڑیا کا موتی سمان روپ یکایک بھٹی میں گرے خشک پتے کی طرح چر مرا کر رہ گیا۔ چیخیں جو بھنچے ہوئے ہونٹوں کی دیوار نہ چیر سکیں روح کے اندھے کنویں میں سر پٹختی دم توڑ گئیں۔

    حافظ عبدالودود اپنے کام میں مگن تھا اور خوش تھا کہ اس کے گرد ظلم اور فریب سے نفرت کرنے والوں کی چھوٹی سی جماعت اکٹھا ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سب کچھ بھی ہونا شروع ہو گیا جو ایسی صورت میں ہوتا آیا ہے۔ کچی مسجد کا متضاد سیاہ استعارہ راست بازوں کی راہ میں حائل ہو گیا تھا۔ پکی مسجد والوں نے واویلا کیا کہ کچی مسجد والے مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں اور مذہب کی ایسی تاویلیں گھڑ رہے ہیں جو اونچ نیچ کی خدائی تقسیم کو مٹانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ سو دھول سے اٹے پیروں کی راہ میں ببول بچھے تو بچھتے چلے گئے۔ زیر دستوں کو پہلے ہی قدم پر توہین، تحقیر اور خوف کی نئی سے نئی صورتوں کا سامنا تھا سو انہوں نے اسی کو رضا جانا اور چھوٹا سا قافلہ سرجھکائے اپنی راہ چل پڑا۔ ان کے پاس زاد راہ کے طور پر لے دے کر راستی کی قبا اور صبر کا بچھونا تھا سو اس روز کے درس کا بھی یہی موضوع تھا۔

    وہ فجر کے مقدس اجالے میں بولنا شروع ہوا تو عالم محویت میں دھوپ کے دیوار سے پھسلنے تک بولتا چلا گیا۔ آخر کو دعائیہ کلمات کے ساتھ درس تمام ہوا تو بیان سے مسحور حاضرین نے جنبش کی۔ ایک ایک کرکے سبھی رخصت ہو گئے مگر وہ دیوار کے ساتھ پشت جمائے بیٹھی رہی۔ وہ قدرے استعجاب سے سادھو سا بیٹھا منتظر رہا۔ تب وہ اٹھی، سفید گھونگھٹ کو تھوڑا آگے بڑھایا اور مضبوط قدموں چلتی اس کے سامنے پورے وجود سے کھڑی ہو گئی۔ وہ بھی جگہ چھوڑ اٹھا تو اس نے مضبوط اور ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں کہنا شروع کیا۔

    ’’صبر کیا ہوتا ہے حافظ جی؟ آپ دیر تک بولتے رہے اور میں سنتی رہی پر ایک لفظ نہ پلے پڑا اور سچائی؟ راستی؟ یہ سب کیا ہے؟ کبھی آپ نے جانا کہ ان مقدس لفظوں کی اصل کیا ہے؟ آپ کو دیکھ کر، سن کر میں نے تو یہی جانا کہ آپ خاک سواہ جانتے ہیں۔ مولوی جی، میں آپ کو بتاؤں؟ کتابوں سے لفظ چراکر اگلنے والا بندہ مولوی تو بن سکتا ہے جانکار نہیں۔‘‘، اس نے ایک ذرا دم لیا اور پھر بولی تو ا س کے الفاظ میں زہر کی آمیزش کچھ زیادہ ہوگئی تھی، ’’آپ نے صبر کا ڈھول بہت پیٹا مگر آپ نے کبھی صبر کا ذائقہ چکھا ہے؟ کبھی صبر کرنے والوں کو صبر کرتے دیکھا ہے؟ اور کبھی راستی پر چلنے والوں کو اپنے ہی لہو میں لتھڑتے دیکھا ہے؟ آپ نے صرف پڑھا ہے حافظ جی، خالی خولی لفظوں کی جگالی کی ہے اور اب دوسروں کو بھی گائے بھینس کی طرح جگالی کرنا سکھارہے ہیں۔ تعلیم دینا بہت آسان ہے حافظ جی، لکھے لکھائے کا رٹا لگایا اور ہو گئے شروع پر جان لینا اور چپ رہنا بہت کٹھن ہے۔ جاننے کیلئے تو ویلنے سے گنے کی طرح گزرنا پڑتا ہے تب کہیں دو لفظوں کا آسرا ہوتا ہے۔‘‘

    وہ آواز کی مانوسیت سے پتھرایا کھڑا تھا۔ ہر لفظ کدال کی ضرب تھا اور وہ لمحہ لمحہ ڈھے جا رہا تھا۔

    وہ کہے گئی، ’’میں بارہ جماعت پاس ان گھڑ سی لڑکی آپ کے کتابی علم کا کیا مقابلہ کروں گی لیکن ایک درس میرے ہاں بھی ہوتا ہے، میرے من کے اندر جو فجر سے اشراق اور اشراق سے تہجد تک چلتا رہتا ہے۔ کبھی آپ بھی آئیے اور سنئے اس علم کو جو روح کی راکھ اور ہڈیوں کے سرمے سے گوندھا گیا ہے۔۔۔ سنئے اور جانئے کہ صبر اور سچائی تو فقط محبت کی دہلیز کے دو پتھر ہیں اور محبت؟ ہا! آپ کیا جانیں محبت کیا ہے؟ کتابوں کا پردہ اوڑھنے والے بزدل بھگوڑے کیا جانیں کہ محبت کسی رات میں دم توڑتی چیخ ہے، تیزاب کی آگ اور جہنم کا وہ دہانہ ہے جو کھل جائے تو کوئی ہست رہتا ہے نہ بود، عدم رہتا ہے نہ وجود۔‘‘

    اس کی آواز میں ہیجان بڑھتا جا رہا تھا، شاید کسی پر اسرار ذریعے سے وہ جان چکی تھی کہ جو آج سے پہلے تک نہ بول پائی تھی وہ آج کے بعد بھی کبھی نہ بول پائےگی۔

    اس نے ایک سسکاری بھری اور تھکے تھکے لہجے میں کہنے لگی، ’’اور جانیں گے محبت کے بارے میں؟ محبت انتظار ہے اور انتظار وہ چراغ ہے جو پکار بن کر جلتا رہتا ہے۔ یہ چراغ محبت کرنے والے کی چربی سے جلتا ہے، نہ چربی ختم ہوتی ہے نہ چراغ بجھتا ہے اور محبت حافظ جی، محبت ملامت بھی توہے، گلیوں گلیوں ٹوکرے بھر بھر برستی ہوئی۔‘‘

    وہ سحر زدہ سی کہے گئی، ’’لیکن آپ شاید یوں نہ جان پائیں۔ کانوں سنی نہ مانیں، آنکھوں دیکھی تو مان لیں گے۔ آنکھیں کھولیے اوردیکھیے محبت صبر اور سچائی اپنے مکمل ترین روپ میں آپ کے سامنے کھڑی ہے۔‘‘

    اس نے یہ کہا اور ایک جھٹکے سے چادر نوچ پھینکی۔ حافظ عبدالودود نے کرب کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں۔ سامنے ایک بھیانک چہرہ اسے گھور رہا تھا، جلتی بجھتی غضبناک آنکھوں کے سوا چہرے کا سارا گوشت جلی ہوئی سیاہ سلوٹوں اور چھوٹے چھوٹے جھولتے سیاہ لوتھڑوں میں بدل چکا تھا۔

    اچانک بہت سے بھولے ہوئے منظر حافظ عبدالودود کی نظروں کے سامنے تیر گئے۔ وہ لہرئیے دار رنگین چنری، وہ چوڑیوں کی کھنک میں گھلتے دبے دبے شریر قہقہے، وہ رنگوں کی پھوار اور اس میں بھیگتے دو دھکتے بدن اور وہ سردیوں کی طویل راتوں میں دروازے پر جمی منتظر نگاہیں۔

    ’’زلیخا۔۔۔!‘‘، کہیں دور سے حافظ عبدالودود کی آواز سنائی دی۔

    ’’زلیخا مٹ گئی، فنا ہو گئی تمہارے لیے دو دے ، تمہاری زلیخا انتظار کے گھاٹ اترگئی اور تم اتنے بھلکڑ کہ تمہیں کچھ بھی یاد نہ رہا؟ موت اور محبت کے کھیل کو تم نے اتنا آسان لیا؟ تف ہے تم پر دودے!‘‘

    گلاب شاہ اپنے حجرہ خاص کے کیف آور دھوئیں میں کٹے شہتیر ایسا اوندھے منہ پڑا تھا۔ زلیخا اور عبدالودود، دو نام تھے جو بچھو بن کر اسے ڈنک مار رہے تھے۔ زلیخا تو خیر زلیخا لیکن ودود تو اس کے چلے چلائے دینی کاروبار پر بھی صاف ہاتھ صاف کر رہا تھا۔ اسے لگا کہ نفرت اور محبت کی سانپ سیڑھی چڑھتے اترتے وہ تھکن کے مارے دم توڑ دےگا۔

    ’’مگر گلاب شاہ نہیں مرےگا‘‘، حجرے کی تاریکی میں چکر کھاتی ایک چمگادڑ چیخی اور اس کے زخم مسکرا اٹھے۔

    تب مہلت تمام ہوئی اور صور اسرافیل پھونک دیا گیا۔

    پکی مسجد کا لاؤڈ اسپیکر یکایک دھاڑا، ’’لوگو، امتیو، خواب غفلت سے جاگو اور ہوش میں آؤ۔ تمہاری غیرت، تمہاری ناموس لٹ گئی۔مومنو، ایک کافر دیوث نے تمہارا رہبر، تمہارا قرآن جلا دیا ہے۔۔۔ لوگو، تم جہاں جہاں بھی ہو جس حال میں بھی ہو، جاؤ اور دشمن کے وجود کو جلا کر راکھ کردو۔۔۔‘‘

    اور جس جس نے جہاں جہاں یہ دہاڑ سنی، کچھ سوچا نہ سمجھا ایک سراسیمگی اور وحشت کے مارے اٹھ دوڑا۔ اس کے بعد جو ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے پرندے آج بھی گنگ ہو جاتے ہیں۔

    وہاں ایک سہل پنے سے سب سایہ سایہ تیر رہے تھے۔ یہ سب وہ تھے جو قرنوں سے وہاں مقیم تھے۔ تازہ واردان بھی قدامت میں مل کر قدیم ہو جاتے کہ وہاں کوئی ٹائم بیرئر نہ تھا کہ قدامت کو ناقدامت سے جدا کرتا۔ وہاں وجود عدم سے اور عدم وجود سے ماورا تھا۔ وہاں کوئی علامت موجود تھی کہ شناخت کا بکھیڑا ہوتا نہ تخصیص کہ فضیلت کا تعین ہوتا۔ وہاں سب سایہ تھے، سایوں میں جنمے تھے اور سایوں میں لوٹ آئے تھے۔

    تب ایک سائے نے شش جہات سجدہ تعظیم کیا اور کہنا شروع کیا۔

    ’’مالک، اذن گویائی چاہتا ہوں، کچھ کہنے کی لگن ہے، کہہ پاؤں تو چین ملے۔

    ’’مالک، جب غیظ بھرا ہجوم دیوانہ وار اندر گھسا تو ہم دونوں عالم قبولیت میں تھے۔ قیامت کے نزول سے ذرا پہلے ہم نے قبولیت کے شبد دہرائے اور مقدس رشتے میں پروئے گئے۔ ہمارے بیاہ پر سارے شگن ہوئے، وہ مایوں بیٹھی اور پھول کی پتیوں ایسی ہتھیلی پر مہندی جمائی۔ تب ہوا نے ڈھولک چھیڑی، پتوں نے سرخوشی سے لہراتے ہوئے بیاہ کے گیت گائے اور میں دولہا بنا دھنک کی راہ سے اس کی ڈولی کو گھر آنگن لے آیا۔ وہ دھرتی جہاں تیری مخلوق بسا کرتی ہے تب اتنی سندر تھی کہ تیری آسمانی جنت بھی اسے سلام کرتی۔۔۔ پھر یکایک یوں ہوا جیسے جنت میں کوئی ہزار پایہ وحشی دیو گھس آئے۔ اچانک سے ایک بھیانک آواز غرائی اور سارا طلسم بکھر گیا۔

    ’’ہم نے دیکھا کہ ہم غول بیابانی کے گھیرے میں تھے۔ان کے بال غضب اور غصے کی شدت سے خشک جھاڑیوں کی طرح ایستادہ تھے۔ غیظ بھری غراہٹ غراتے، نفرت سے مسخ چہروں کے ساتھ وہ لال انگار آنکھوں ہمیں گھور رہے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ایکا ایکی ہزاروں غیرانسانی پنجے بڑھے اور ہمارے جسموں پر لباس نام کی ایک دھجی نہ رہی۔

    ’’ہم دو برہنہ بدنوں کو جب ڈنڈا ڈولی کرکے لے جایا گیا تو دیکھا کہ ہر طرف کتاب مقدس کے جلے ہوئے اوراق بین کرتے اڑتے پھر رہے تھے۔ ہمیں غول بیابانی کی گرفت میں دیکھا تو ایک بھاری بدن داڑھی پوش کہ سید بادشاہ نام تھا آگے بڑھا اور جلے ہوئے مقدس اوراق لہرا کر ہجوم کا لہو گرمانے لگا۔ پھر اس نے کف دہن پونچھا اور ہاتھ بلند کرکے حد جاری کر دی۔یہ ہونا تھا کہ ہجوم ایک میکانکی پھرتی سے آگے بڑھا اور غیر انسانی آوازیں نکالتا ہمیں بیچ چوراہے لے آیا۔ اس غول بیابانی کے بدنوں میں جس قدر غیظ اور نفرت کی پیپ بھری تھی اذن وحشت ملتے ہی پھوٹ بہی۔ تب ہمارے کمزور برہنہ بدنوں پر پتھر اور اینٹیں جو برسنا شروع ہوئیں تو برستی چلی گئیں۔‘‘

    سائے نے ایک ذرا توقف کیا، عرش پر نور کو بوسہ دیا اور کہنے لگا:

    ’’خدایا، یہاں بھیانکتا کے جتنے روپ تصویر ہوئے، سب ہیچ۔ غیظ اور نفرت کے جتنے اسم تحریر ہوئے، سب بےمعنی۔ اذیت، دکھ اور کرب کے جتنے چہرے اس عالم امثال میں دکھلائی پڑے، سب ناقص۔ صرف ہمارے ہی بدن تھے جنہوں نے بھیانکتا، نفرت، اذیت، ذلت اور دکھ کو اپنی مطلق صورت میں جھیلا۔

    ’’میں جب اپنے بدن سے اچھل کر الگ ہوا تو دیکھا کہ زلیخا بھی دور کھڑی کانپ رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو تڑپ کر بڑھی اور میری بانہوں میں چھپ کر سسکنے لگی۔ ایک تماشہ تھا کہ ہوئے جا رہا تھا اور ہم تماشائی بنے دور کھڑے اپنے بدنوں کو لہو اور کیچڑ کی پوشاک میں ملبوس ہر ضرب پر جھٹکے کھاتے دیکھ رہے تھے۔

    ’’ابھی ایک اور دل چیر دینے والا منظر ہمارے دیکھنے کو باقی تھا مالک! ہماری مائیں، بہنیں، بھائی اور باپ پچھاڑیں کھارہے تھے۔ ہماری جانیں بخشوانے کیلئے بلک بلک کر ان کے قدموں میں لوٹ رہے تھے۔میں نے بے تاب ہوکر بڑھنا چاہا کہ اس غول بیابانی پر قہر برساؤں مگر زلیخا نے میرا بازو تھام لیا۔ پھر اس نے مجھے لپٹاکر طویل الوداعی بوسہ لیا اور اس کا دھواں سا بدن میری گرفت سے پھسل کرابدیت کے دھندلکے میں کھو گیا۔

    ’’مالک، وہ تو چلی گئی لیکن میرا بدن تھا کہ تنہا پامال ہو رہا تھا۔ میں نے اس کے سنگ ایک عمر بتائی تھی۔ وہاں یہی تو میرا سنگی تھا، میں کبھی اس کا نہ ہوا پر وہ تو ہمیش میرا رہا تھا۔ اس نے تو کبھی اپنا حق نہ ملنے پر شکوہ بھی نہ کیا تھا۔ مجھے اس صابر شاکر بدن پر بے اختیار پیار آ گیا۔ اس کا ساتھ دینے کا یہی ایک موقع تھاسو میں اپنے بدن میں لوٹ آیا۔

    ’’میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ بھی سلامت نہ بچا تھا۔ ملبے کا ایک ڈھیر تھا جو ہر طرف بکھرا پڑا تھا۔ میں ملبے پر سے کودتا پھاندتا ہر کمرے تک گیا لیکن ہر طرف ایک سی ہولناکی اور ویرانی ملی۔ دل دالان کا ایک گوشہ ہمیش ایک طلسمی دئیے سے روشن رہا کرتا تھا لیکن اب وہاں تاریکی اور سکوت کا بسیرا تھا۔میں ٹٹول ٹٹول چلتا، گرتا، سنبھلتا اندر داخل ہوا تو دکھ سے ڈھ گیا۔ دل کے سب سے اونچے طاق پر دھرا دیا اوندھا پڑا تھا مگر ایک معدم سی لو کہ ابھی باقی تھی۔ اس دئیے کا تیل جس کا رنگ صحرا کی ریت سے منعکس ہوتی روشنی سے چرایا گیا تھا، دھار سا بہہ کر لہو میں اپنا رنگ کھو رہا تھا۔

    ’’میں اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہو رہا تھا مالک، دئیے کی ننھی معدوم سی ٹمٹماہٹ بجھنے کی دیر تھی کہ میں شہادت پا جاتا۔

    ’’انہوں نے عیار آنکھوں سے جان لیا کہ ابھی ایک رمق باقی ہے۔ تب کسی کو اچھوتی سوجھی، ایک موٹر سائیکل منگوائی گئی جس کے پیچھے میرے دونوں ہاتھ باندھ دئیے گئے یوں کہ میرا گھائل بدن نیم معلق سا رہ گیا۔ تبھی ایک نے بڑھ کر میرے بدن پر تیل پھینکا اور دوسرے نے دیا سلائی جلا کر مجھ پر پھینک دی۔ دفعتاً ایک الاؤ بھڑکا اور میں وحشت زدہ ہوسامساموں کی راہ باہر نکل آیا۔‘‘

    سائے نے ایک سسکاری بھری اور دھیمی آواز میں کہا، ’’میں نے جس گاؤں کو جنت بنانے کا سپنا دیکھا تھا۔اسی گاؤں کے بے رحم راستوں پر میرے جلتے ہوئے بدن کو گھسیٹا جا رہا تھا سو میں نے اپنی چتا سے اٹھنے والے دھوئیں کا پہلا چھلا مٹھی میں دبایا اور اس شمشان گھاٹ سے ہمیشہ کیلئے نکل آیا۔

    ’’یہاں زلیخا نے کئی بار مجھ سے کہا کہ چلو یہ دھواں اس بستی میں دھمک دھمک کر چلنے والوں کی آنکھوں میں بھردیں لیکن میں سدا کا امید پرست اور انتقام سے عاری، کبھی اس کی باتوں میں نہ آیا۔ زہر ناک دھوئیں کا یہ چھلا تیری امانت ہے مالک، آج تجھی کو سونپتا ہوں لیکن چپ سادھنے سے پہلے ایک سوال۔ ایک کن کے بعد تیری لا انتہا خاموشی کوئی بھید ہو تو ہو پر جنگل میں دھڑکتی چیخوں، لہو کے تن آور درختوں اور شمشان گھاٹ میں جلتی ہڈیوں کے کڑکڑانے کی نہ ختم ہوتی صداؤں کے بعد بھی تیری چپ کا کوئی جواز ہے؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے