Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سراب اور سمندر

عرفانہ تزئین شبنم

سراب اور سمندر

عرفانہ تزئین شبنم

MORE BYعرفانہ تزئین شبنم

    وکٹرنے بے چینی کےعالم میں رسٹ واچ پر نظریں دوڑائیں، ماہی کو اب تک تو آجانا چاہئے تھا، اس نے خود کلامی کی، پہلی بار وہ اس کو موسیقی کی دھنوں پرتھرکتی نظر آئی تھی جب وہ بار میں بیٹھا سگار پی رہا تھا جیسے ہی وہ اس کے قریب گیا وہ جان کی بانہوں سے اچانک اس کی آغوش میں آ گری تھی وکٹر بھی اس کی سیاہ آنکھوں میں ڈوب گیا تھا صرف چھ ماہ کے اندر بہت تیزی کے ساتھ وہ ایک دوسرے کے قریب آ گئے ویسے ماہی کے نزدیک یہ عرصہ بھی زیادہ ہی تھا

    ہائے.. دور سے آتی ماہی نے ہاتھ ہلا کر اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ ڈالا

    کتنی دیر لگا دی تم..؟

    ہاں یار سوری اب چلو ماہی کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آگیا جب صبح صبح ممی پاپا کا زبردست جھگڑا ہوا تھا پاپا آفس جانے سے پہلے چائے مانگ رہے تھے اور ممی رات گئے کٹی پارٹی سے لوٹی تھیں تو نیند کے خمار میں ڈوبی ہوئی تھیں اور چائے دینے سے انکار کردیا تھا پھر طیش بھری آوازیں... تکرار.. اور تناؤ.....

    اسی عالم میں وہ گھر سے نکلی تھی پھر وہ دونوں سنیما ہال پہونچ گئے یہ تو بس بہانہ تھا وہ ہر طرح کے ماحول کا حظ لینا چاہتے تھے دونوں ایک دوسرے کے پہلو سے چپکے بیٹھے تھے اندھیرے میں ڈوبا ہال اور ہیجان انگیز مناظر ان کے اندر تلاطم پیدا کر رہے تھے

    ***

    سر سبز لان میں بچھی لان چیرز پر بیٹھے ابا میاں اخبار دیکھ رہے تھے ان کے منہ سے ایک لمبی ہوں نکلی

    پتہ نہیں یہ لوگ ملک کو کس طرف لئے جا رہے ہیں ، تباہی ہے تباہی، لوٹ مار، قتل و غارت گری، عورت کا استحصال اور غربت کا اندھیرا وہ تاسف سے بولے

    ہاں.. اب تو زیادہ تر یہی اخبار کی سرخیاں ہوتی ہیں لیجئے چائے امی نے نرمی کے ساتھ ابا میاں کے ہاتھوں سے اخبار لیکر چائے تھما دی، یہ روز کا معمول تھا فجر کی نماز اور تلاوتِ قرآن کے بعد ابا میاں لان میں اتر آتے اخبار دیکھتے امی وہیں چائے لے جاتیں پورے گھر میں صبح کی چہل پہل شروع ہو جاتی زویا کالج کے آخری سال میں تھی ہر روز تیار ہونے کے بعد داداجی کے کمرے میں ہلکا ناشتہ یاچائے کے ساتھ بسکٹ رکھنا زویا کی ذمہ داری تھی

    خلاف معمول رات ابا میاں کے سینے میں ہلکا درد اٹھا امی زویا نصر اور یاسر پوری رات ابا میاں کے پاس بیٹھے رہے جو ہاسپٹل جانے کے لئے قطعی تیار نہ تھے پھر صبح سویرے ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور تشفی بخش جواب دیا گیس کا مسئلہ تھا پھر بھی پورا دن رشتہ دار دوست واحباب سےگھر بھرا رہا دونوں ماموں اور چچا سویرے ہی آگئے تھےپھر خالہ پھوپھیاں اور ان کے بچے... خیر سے بھراپرا خاندان تھا زویا کو سانس لینے کی فرصت نہ ملی امی ہنس ہنس کر پورا دن مہمانوں کی خاطر مدارات میں لگی رہیں رات کو جب زویا ابا میاں کے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ کمرہ پھلوں خشک میوؤں اور انرجی بوسٹر پاؤڈر کے ڈبوں سے بھرا پڑا تھا جو پورا دن سب اپنے ساتھ لے کر آئے تھے ابا میاں کی طبعیت تو سب کی محبت واپنائیت سے ہی ٹھیک ہو گئ تھی وہ ہشاش بشاش اپنے بستر پر بیٹھے تھے

    ***

    بات کیا ہے بجھی بجھی سی ہو وکٹرنے وہسکی کا پیک بناتے ہوئے ماہی سے پوچھا

    کچھ نہیں.. بس ممی پاپا کی رنجشوں سے گھر کا ماحول آتش کدہ بن جاتا ہے وکٹر وہ اداسی سے بولی

    اس نے پیک آگے بڑھایا جسے وہ بلا ترّدد غٹاغٹ چڑھاگئی تاکہ اندر کا بوجھل پن کم ہو بہت دیر تک بار میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ دونوں باہر نکلے تو مایا کے قدم لڑکھڑا رہے تھے وکٹرنے نے بانہوں کا سہارا دیا اور گھر لے آیا انجانے بوجھ سے جھکتی پلکوں کے ساتھ وہ وکٹر کے بیڈ پر ڈھے گئی

    دن چڑھے وہ اٹھی تو سر میں ہلکا ہلکا درد تھا

    بیڈ ٹی وکٹر کی آواز پر وہ پلٹی

    نہیں ابھی میں چلوں گی کہتی وہ باہر نکل آئی گھر پہونچنے پر ممی نے تشویش کے ساتھ پوچھا

    ماہی...! کہاں تھیں رات بھر..؟

    وہ مما اپنی دوست کے ساتھ اس نے نظریں چرا لیں

    چلو کوئی بات نہیں فریش ہو جاؤ آج وکّی آرہا ہے ائیر پورٹ جانا ہے اسے لینے وہ مطمئن انداز میں کہتیں آگے بڑھ گئیں

    ****

    کالج کا آخری فنکشن تھا واپسی میں زویا کو دو گھنٹے کی تاخیر ہو گئی جیسے ہی گھر پہونچی امی کی تشویش ناک آواز آئی

    اوہ زویا اتنی دیر لگا دی تم نے میری تو جان نکل گئی انھوں نے آگے بڑھ کر اسے خود سے لپٹا لیا

    امی، آپ بھی نا.... آخری سال ہے سب بچھڑ جائیں گےپھر کہاں مل پائیں گے اس طرح وہ اداس ہو گئی

    دل چھوٹا نہ کرو آج کل ماحول کس قدر خراب ہے اس لئے ڈر گئی تھی تمھیں جس کی بھی یاد آئے اسے گھر بلا لینا یا پھر میں خود اس کے گھر لے چلوں گی انہوں نے چمکارا

    گھر میں شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے منگنی پچھلے سال ہی ہو چکی تھی ابا میاں چاہتے تھے کہ سادگی کے ساتھ نکاح ہو جائے لیکن سب نے مل کر وہ اودھم مچایا کہ الاماں.... آٹھ دن پہلے سے پورا گھر برقی قمقموں سے سج گیا رشتہ دار اور دوست احباب نے خوب خوب ارمان نکالے پھر نکاح کے آٹھ دنوں بعد تک گھر روشنیوں سے جگمگاتا رہا پھر جلد ہی دونوں ہنی مون پر نکل گئے

    ****

    وقار کو اپنا نام بالکل بھی پسند نہیں تھا اس لئے اس نے خود کو وکّی بنا لیا وکّی ہمہ وقت ماہی کے آگے پیچھے گھومتا رہتا دو ایک بار وہ اس کے ساتھ کیفے اور بار بھی جا چکا تھا وکٹر نے جس کا بالکل بھی برا نہیں مانا دراصل وہ خود اس یکسانیت سے اکتاگیا تھااور بدلاؤ چاہتا تھا بجھی بجھی سی ماہی میں اب کوئی چارم نہیں بچا تھا وہ خود الگ ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا ماہی اس کے بدلتے رویے سے حیران اور دکھی تھی اسے وکٹر سے ایسی امید نہیں تھی اس نے تو دل سے چاہا تھا اور تا عمر ساتھ نبھانے کے خواب دیکھے تھے لیکن وقت کے ساتھ وکٹر اس سے دور ہوتا چلا گیا جیسے کوئی سراب....

    کوئی چھلاوہ...

    مغرب کی دلدادہ ماہی کی ماں جب اپنا وطن چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے یہاں آئی تو نہیں جانتی تھی کہ یہاں کا بیمار معاشرہ اس کی زندگی پر تیرگی کی چادر تان دے گارشتے کسی ٹوٹی مالا کے موتیوں کی طرحبکھر جائیں گے اس نے تو اپنے ساتھ اپنی بیٹی کی زندگی بھی داؤ پر لگا دی تھی جائیں گے اس نے تو اپنے ساتھ اپنی بیٹی کی زندگی بھی داؤ پر لگا دی تھی

    ****

    زویا کی نئی زندگی بہت خوبصورت تھی ساس سسر میں اسے امی اور ابا میاں نظر آتےاور جن لوگوں نے اتنے پیارے شہزاد کو جنم دیا ایک اچھا اور پیارا انسان بنا کر اس کے حوالے کیا تھا ان پر سے تو پوری دنیا وار دینے کا من کرتا زندگی بہت مصروف ہو گئی تھی پھر وہ دن بھی آیا جب شہزاد میٹرنٹی ہوم کے باہر بے چین و ہراساں ٹہل رہا تھا تبھی ایک ننھی کلکاری گونجی دروازہ کھلتے ہی وہ لپک کر اندر چلا گیا اور نڈھال نڈھال سی زویا کی پیشانی چوم لی اور اس کا ہاتھ تھام کر وہیں بیٹھ گیا زویا نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں دائیں جانب کپڑے میں لپٹی مخملیں سی پری کو دیکھا اور اپنے کمزور ہاتھوں کو شہزاد کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں دیکھ کر طمانیت وتحفظ کی ایک گہری لہر من کے اندر سے اٹھی اور پورے بدن میں پھیل گئی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے