شوکت پہ زوال
آج فرحان خان تذبذب میں تھے۔ وہ بڑے پریشان نظر آ رہے تھے۔ کوئی فکر ان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ گھر کے آنگن میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹہلتے جاتے تھے۔ کچھ دیر رکتے پھر بیٹھ جاتے۔ کبھی پانی پیتے اور پھر سے ٹہلنے لگتے۔ جب انھیں کسی طرح بھی سکون نہ حاصل ہوا تو اپنے دونوں بیٹوں کو بلایا اور نصیحت کرنے لگے ’’تمہارا ووٹ اس بات کی شہادت، گواہی اور سفارش ہے کہ وہ امیدوار اس کام کے قابل ہے اور اس منصب کا اہل ہے۔ تمہارا ووٹ صرف تمہاری ذات تک محدود نہیں، اس کا نفع اور نقصان معاشرے کے تمام افراد تک پہنچتا ہے۔ اس کا صحیح استعمال اجر و ثواب کا ذریعہ بنےگا اور غلط استعمال سے منتخب نا اہل، نا قابل امیدوار سے ہو نے والی تمام برائیوں میں تم بھی برابر کے شریک سمجھے جاؤگے اور آخرت میں اس کے جواب دہ ہوگے۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر قوم وملت کی بھلائی کی خاطر سچی گواہی دیں گے۔ یاد رکھو اتحاد زندگی اور انتشار موت ہے۔‘‘
دونوں لڑکے فیاض اور فیض اپنے ابو کی باتوں کو بڑی غور سے سن رہے تھے۔ بڑے لڑکے فیاض نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگریٹ کا پاکٹ باہر نکالا۔ پھر اس پاکٹ میں سے ایک سگریٹ نکال کر اپنے لبوں میں تھام لیا۔ اس کے بعد سگریٹ کا خالی پاکٹ درمیان میں رکھ کر بولا ’’جس طرح سگریٹ کے پاکٹ پر کینسر والی تصویر کے باوجود لوگ سگریٹ پینا نہیں چھوڑتے بالکل اسی طرح آ ج کل کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کونسا امیدوار اچھا ہے اور کونسا برا۔ہر کو ئی اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ تو ہم کیوں نہ اپنا فائدہ دیکھیں۔‘‘
فیاض کی بات ابھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ فیض بول پڑا ’’ہمارے خاندان کے لیے جو شادی خانہ بن رہا تھا اس کا کام ابھی آدھا باقی ہے۔ میں نے ایک امیدوار سے بات کی ہے کہ اگر وہ یہ کام مکمل کرا دیتا ہے تو ہمارے پورے خاندان کے ووٹ اس کو ہی ملیں گے۔‘‘ اس امیدوار نے مجھ سے وعدہ بھی کیا ہے کہ کل سے کام شروع ہو جائےگا۔
اپنے دونوں لڑکوں کی باتیں سن کر فرحان خان غصے میں آ گئے اور بول پڑے ’’تمہا رے سامنے سر پھوڑ نے کی بجائے اگر میں کسی پتھر پر اپنا سر پٹک لیتا تو وہ دیوتا بن جاتا اور یہ بات بھی ذہین نشین کر لو کہ الیکشن کے بعد اس شادی خانے کو غیر قانونی بتاکر اس پر بلڈوزر چلا دیا جائےگا۔‘‘ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولے ’’یا اللہ میرے گھر کا یہ منظر ہے تو پورے ملک کا کیا حال ہوگا۔‘‘ پھر ان کی زبان سے علامہ اقبال کا یہ شعر نکلا۔۔۔
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے۔
فرحان خان غصے سے گھر میں جاکر بیٹھ گئے۔ گھر میں بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ایک شیر ،ہرن اور بکری تینوں نے ایک ساتھ ایک ہی ندی پر پانی پیا اور اپنی پیاس بجھائی۔ اس کے بعد شیر کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے ہرن اور بکری کے پیروں میں بیٹھ گیا۔ ٹی۔ وی۔ پر جب یہ نظارہ بچوں نے دیکھا تو اپنے دادا جی فرحان خان سے سوال کیا ’’دادا جی یہ شیر، ہرن اور بکری کو کیوں نہیں کھا رہا ہے؟‘‘ فرحان خان نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے جواب دیا ’’بیٹا ہمارے ملک کی طرح جنگل میں بھی الیکشن ہو نے والا ہے۔‘‘
فیاض گھر سے کسی کام سے نکلا تھا۔ راستے میں دوستوں نے پکڑ لیا اور بتایا ’’آج بہت بڑی الیکشن سبھا ہونے والی ہے۔ تمہارے گھر کے جتنے ووٹ ہیں ان سب کے الیکشن کارڈ بھی ساتھ لے لو۔ آج ووٹ کی تعداد کے حساب سے پیسے مل جائیں گے۔۔۔ چلو چلتے ہیں۔‘‘ اور وہ الیکشن سبھا میں چل دیے۔ سبھا میں امیدوار بھاشن دے رہا تھا۔ ’’میرے پیارے دیش واسیوں آج پی ایچ ڈی والے بھی چپراسی کی نوکری مانگ رہے ہیں۔ امیر، امیر ہو رہا ہے اور غریب، غریب۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ دیش کا نوجوان بےروزگار ہے۔ میرے کسان بھائی آتم ہتیا کر رہے ہیں۔ عورتیں سرکشت نہیں۔کرپشن۔۔۔ رشوت لینا دینا یہ عام بات ہو گئی ہے۔‘‘
میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر آپ نے ہمیں الیکشن جیتا دیا تو ہم دوسرے ملکوں میں جمع کالے دھن کا ایک ایک روپیہ واپس اپنے دیش لاکر آپ کے بینک کھاتوں میں جمع کرا دیں گے۔ بچوں کو مفت اور اچھی شکشا دیں گے۔ بس ضرورت ہے کہ ایک بار آپ ہمیں اپنی سیوا کا موقع دیں۔ ‘‘یہ جذباتی تقریر سن کر لوگ بہت متاثر ہوئے اور عوام کو خوشی کی ایک نئی کرن نظر آنے لگی۔ تقریر پر تالیوں کے شور نے عوام کے اعتماد میں اور اضافہ کر دیا۔ فیاض بھی تقریر سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے اس امیدوار کے حق میں خوب نعرے لگائیں۔‘‘
سبھا ختم ہونے کے بعد فیاض حجام کی دوکان پر اپنے بال بنا رہا تھا۔ حجام نے فیاض سے کہا ’’کیا کہتے ہو فیاض میاں، کس کی جیت ہوگی؟‘‘
’’جیت تو اسی کی ہوگی بھائی جولوگوں کے بینک کھاتوں میں لاکھوں روپئے جمع کرائےگا اور پیسوں کے لیے سب ان کو جتا دیں گے تم دیکھ لینا‘‘
’’کیا لگتا ہے تمھیں، کیا سچ مچ لوگوں کے کھاتوں میں پیسے جمع ہوں گے؟۔‘‘
’’اب بھروسا تو کرنا ہی ہوگا بھائی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ،اور مہنگائی نے بھی ناک میں دم کر دیا ہے۔‘‘
’’ہاں! صحیح کہتے ہو فیاض ،کوئی بھی کام بنا رشوت اب نہیں ہوتا اور اوپر سے مہنگائی کا قہر‘‘
فیاض کو ووٹ کی تعداد کے حساب سے پیسے بھی مل گئے۔ اس نے اسی امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
ایک دن فیاض اور فیض کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر جا رہے تھے۔ راستے میں ان کی چند دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ دوستوں نے کہا ’’آج بہت بڑی الیکشن سبھا ہو نے والی ہے، چلو چلتے ہیں۔‘‘
دونوں نے کہا ’’نہیں یار آج کام ہے۔ چندضروری چیزیں خریدنے جا رہے ہیں۔‘‘
’’بھائی آج تو چلنا ہی پڑےگا اور زیادہ وقت بھی نہیں لگےگا اس کے بعد اپنا کام کر لینا۔‘‘
فیض نے کہا ’’پہلے ضروری سامان خرید کر گھر دے آتے ہیں اس کے بعد چلیں جائے گے۔‘‘
فیاض نے کہا ’’نہیں پہلے سبھا میں چلتے ہیں اس کے بعد گھر کا کام کریں گے۔‘‘
اور دونوں جلسے میں چلے گئے۔ وہاں امیدوار بھاشن دے رہا تھا۔ ملک کی ترقی کی باتیں کرتے کرتے وہ بھڑکاؤں بھاشن دینے لگا۔ ماحول خراب ہوتا دیکھ امیدوار کے پی۔ اے۔ نے ان کے کان میں کہا ’’صاحب ماحول بہت خراب ہو رہا ہے۔ تھوڑی سی چنگاری آگ لگا سکتی ہے۔ اگر فساد ہو گیا تو بےگناہ نوجوان مارے جا سکتے ہیں، بچے یتیم ہو سکتے ہیں، لوگ بےگھر ہو سکتے ہیں اور بھی بہت نقصانات ہو سکتے ہیں۔‘‘
امید وار نے کہا ’’کیا تمہارے بچے بھی اس سبھا میں شامل ہیں‘‘
’’نہیں صاحب میرے بچے تو امریکہ میں پڑھ رہے ہیں۔‘‘
’’تو پھر خاموش بیٹھ اور تماشہ دیکھ‘‘
اس کے بعد امیدوار نے ایسا بھڑکاؤں بھاشن دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے جلسے کا ماحول خراب ہو گیا۔ بھگدڈ مچ گئی اور لاٹھیاں چلنے لگیں۔ جو لوگ ایک دوسرے کے ہر کام میں شانہ بشانہ ہوتے تھے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ پورا علاقہ نذرآتش کر دیا گیا۔ انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو گئی۔ میدان میں ہر طرف خون میں لت پت لاشیں پڑی تھیں۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا تب پولس آئی اور گرفتاریاں ہونے لگیں۔ شک کی بنیاد پر بے گناہوں کوستایا جانے لگا۔ فیاض کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسے دہشت گرد قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ شر پسند عناصر کے دباؤ میں پولس تو ایک طرف عدلیہ بھی بے اثر ہو چکی تھی۔ تلاشی مہم جاری تھی۔ لا شوں کے انبار میں خون میں لت پت فیض کی لاش پڑی تھی۔ اس کے ہاتھ کی مٹھی بند تھی، بند مٹھی کھولی گئی۔ اس میں ایک کاغذ کا ٹکڑا نکلا جس میں لکھا تھا۔۔۔ اباکی دوائی، منے کا کھلونا، گڑیاں کا بستہ، ماں کی چپل، کھانے کا تیل اور سبزی لانا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.