چند لوگوں کو سرخ گلاب اگانے سے دلچسپی ہے۔ چند لوگ بھی نہیں، صرف الف سرخ گلاب اگاتا ہے۔ الف کے سر کے بال سفید برف ہیں۔ چہرے پر صدیاں تک جھریوں کا نشان نہیں۔ اس کی چمکیلی آنکھیں سامنے کی چیز کو چیرتی، پار دیکھتی ہیں۔ اس کے سانس تک سے گلاب کی خوشبو آتی ہے۔ الف کہتا ہے کہ سرخ گلاب قبروں پر نچھاور کرنے کے لیے نہیں۔ وہ اپنے پھولوں سے شادی کے سہرے بھی نہیں بنانے دیتا۔ بوڑھے جھنجلاکر اس سے پوچھتے ہیں۔
تو پھر اتنے سارے گلابوں کافائدہ؟
الف کے سر کے بال اور بھی سفید برف ہوجاتے ہیں۔ وہ خاموش، سنجیدہ، افق سے پرے دیکھنے لگتا ہے۔ جب بوڑھے اپنے سروں کی سفیدی کاواسطہ دیتے ہیں تو الف کے چہرے پر جھریاں کئی صدیاں اور دور چلی جاتی ہیں۔ اس کی نظریں سرخ گلاب کی خوشبو کے پار ہوتی ہیں۔
جو ڈھونڈتے ہیں، راز پاتے ہیں۔
بوڑھوں میں اتنی سکت نہیں کہ الف کے ہاتھ سے قلمیں پکڑ کر ابتدا کی ابتدا کریں۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔
اس کے بال دھوپ میں سفید ہوئے۔
ایور ہنستے ہنستے دوسرے فرماں برداروں کو ساتھ لے کر تکیے کو چل دیتے ہیں جہاں گاف انہیں بڑی محنت سے چرس کے سگریٹ بناکے دیتا ہے۔ وہ دم لگاکر دمے میں اترتے ہوئے اپنی نیم وا آنکھوں سے تکیے پر جھکے سبز درخت کی کسی برہنہ شاخ پر پھندا ڈالتے ہیں اور الف الف کہتے ہوئے گاف سے ایک اور چرس بھرا سگریٹ لیتے ہیں۔
چند نوجوان جن کے پھیپھڑوں میں دمہ نہیں رچا جن کو سرخ گلاب میں چھپے الف کے راز سے دلچسپی ہے، وہ ان لوگوں سے چوری چھپے، رات کی روشنی میں، دن کی تاریکی میں آکر اس سے بھید جانتے ہیں۔ اس سے قلمیں لیتے ہیں۔ اس کی چمکیلی آنکھوں سے مناسب موسم کا انتظار لے کر سرخ گلاب کو سونگھتے اپنے پھیپھڑوں کو دمے سے بچاتے ہیں۔
سرخ گلاب کی جھاڑیوں کے پیروں میں بینڈوں کی آوازیں آسمان کو چیرتی ہیں لیکن پودوں کی نشوونما نہیں رکتی۔
روڑی میں ایک نوزائیدہ بچہ پایا گیا ہے بعض لوگوں کاخیال ہے کہ مرچکا ہے کہ بعض کو یقین ہے کہ ابھی کوئی سانس باقی ہے۔ کوئی نہیں مانتا کہ یہ اس کا بچہ ہے۔ سب کہتے ہیں ہمارا بچہ تو تندرست صحت مند آنگن میں کھیل رہا ہے۔ اس نوزائیدہ بچے کے جسم پر سیاہ نشان ہیں اور اس سے آتی بارود کی بو، ہر بو پر حاوی ہے۔ ہجوم کی ناک پر رومال ہیں۔ لوگ اس کی شناخت کے لیے دور دور سے آرہے ہیں۔ ہر نیا آنے والا نفی میں سرہلاتا ہے۔
نہیں میرا نہیں۔
اور چور آنکھوں سے دوسروں کو دیکھنے لگتا ہے۔
میں اتنے معصوم بچے کو اتنی نزدیک سے گولی نہیں مار سکتا۔ تکیے کے لوگ گاف سے پوچھتے ہیں، کہ معاملہ کیا ہے۔ گاف دھوئیں سے جھانک کر کہتا ہے۔
اب روڑی کی کھاد اچھی بنے گی۔
سرخ گلاب کی پھلواڑی میں لوگ بار بارالف سے پوچھتے ہیں۔ معاملہ کیا ہے۔ الف خوشبو کو گود میں لے کر باربارکہتا ہے۔
ابھی لوگ وہاں سے گئے نہیں؟
انیس سال کی کنواری انیس سال سے سہاگ کا جوڑا پہنے دروازے کے سامنے بیٹھی ہے۔ ہر نئے رشتے پر وہ اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر کہتی ہے۔
نہیں پہلے میرے لیے گلاب کے سرخ پھولوں کی مسہری بنواؤ۔
بڑی بوڑھیاں اسے سمجھاتی ہیں کہ الف پھول نہیں دیتا، صرف قلمیں دیتا ہے۔ کنواری کہتی ہے۔
تو پھر میں پہلی قلم سے پہلے گلاب کے پھوٹنے کا انتظار کروں گی۔
گاف نے تکیے کے خزانے کو سانپ کو بڑی مشکل سے پکڑ کر روسٹ کیا ہے۔ یہ سانپ ہمیشہ ایس کی شکل میں کنڈلی مار کے بیٹھتا تھا۔ گاف ڈرتا ڈرتا ہر روز چرس کے لیے اپنی ضرورت کی رقم اٹھا لیا کرتا تھا۔ لیکن آج اس سے رہا نہیں گیا تھا۔ اس نے چرس کی دھونی دے کر سانپ کو قابو میں کیا ہے اور روسٹ کرڈالا ہے۔ بڑی بے صبری سے جلدی جلدی کھانے کے بعد منہ پر آتے آتے اس کا ہاتھ رک گیا ہے۔ سانپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ گاف نے اتنا کھا لیا ہے کہ اس سے سانس نہیں لیا جاتا۔ بیٹھتے ہوئے دل دل اور سر میں بجتی شریانوں پر قابو پانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ گاف کے ہونٹوں پر سانپ کی مسکراہٹ پھیلنے لگی ہے۔
بینڈوں کے شور میں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، اس لیے کسی کو جیگر کاؤنٹر کی آواز نہیں آرہی۔ قریب کے جن لوگوں کو یہ آواز آسکتی تھی وہ سانپ والے خزانے سے آئی ہوئی چرس میں بے ہوش ہیں۔ اس لیے کسی کو پتا نہیں تکیے کے پاس غیر ملکی جو اپنے دھاری دار لباس پر ٹنکے ہوئے ستاروں کی وجہ سے مداری معلوم ہوتے ہیں، ہاتھ میں جیگر کاؤنٹر لیے کیا کر رہے ہیں۔ چند ایک بچے حیرت سے ان کے ہاتھ میں نئے کھلونے دیکھ رہے ہیں۔ ان دونوں مداریوں میں سے ایک نے بچوں میں ٹافیاں بانٹی ہیں۔ انہیں چپ رہنے کے اشارے کر رہا ہے اور دوسرا انہیں سمجھا جارہا ہے کہ یہ جیگر کاؤنٹر ہے جس سے ریڈئیشن کا پتہ چلتا ہے، یہاں یورینم بہت ہے۔ اس سے تمہیں بہت فائدہ پہنچے گا، مگر کسی کو بتانا نہیں۔ ننگے بچوں کی سمجھ میں نہیں آتا وہ ہاتھ میں ایک ایک ٹافی پکڑے حیرت سے نئے کھلونے کی آواز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بینڈوں کی آواز، جیگر کاؤنٹر کے اعلان اورسرخ گلاب کی جھاڑیوں میں سرسراتی ہوا کے درمیان دیوار ہے۔
اسی خبررساں ایجنسی کاکہنا ہے کہ کنواری کی ایک اور بہن بھی ہے جو اپنے سائے سے خوف کھانے لگی ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے ایک تاریک کمرے سے دوسرے تاریک کمرے میں لے جایا گیا ہے۔ پھر بھی پرچھائیں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ ہذیان میں کبھی بہن کو کوستی ہے، کبھی روڑی پر پڑے بچے کو اور کبھی الف کو فحش گالیاں دینے لگتی ہے۔ پھرتھک ہار کر وائرلیس کے کوڈ کے الفاظ بڑبڑانے لگتی ہے۔
باقی کے لوگ فائلوں کی گرد پھانکتے کینٹین سے چائے منگواکر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اور صفحوں پر بھاگتے لفظوں کا پیچھا کرتے ہیں کہ کنواری پیٹ پر ہاتھ جمائے دروازے میں بیٹھی ہے۔ اس کی بہن آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھے تاریک کمرے میں وائرلیس کوڈ بڑبڑاتی اپنے سائے سے گتھم گتھا ہو رہی ہے۔ روڑی کی چوٹی پر کوئی لاؤڈاسپیکر کے سامنے کھڑا تقریر کر رہا ہے۔ دو بوائے سکاوٹ سبز یونیفارم میں سرخ گلاب کے بلے لگائے نوزائیدہ بچے کو آرٹی فیشل ریسپریشن دے رہے ہیں۔ مداری اپنے جیگر کاؤنٹر کی آوازکا پیچھا کرتے تکیے کا دروازہ توڑ کے اندر داخل ہوگئے ہیں۔ چرس میں بے ہوش لوگوں کو پھلانگتے گاف تک آئے ہیں۔ گاف کے سر کی شریان پھٹ گئی ہے۔ اس کے چہرے پر سانپ کی مسکراہٹ ہے۔ یہ طے کرنے کی ضرورت سمجھے بغیر کہ سانپ نے گاف کو کھایا ہے یا گاف نے سانپ کو، ایک نے بڑھ کر سانپ کا سر جیب میں ڈال لیا ہے اور دوسرا کھدائی کرتا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی جیب سے یورینیم نکال نکال کر وہاں دفن کرتا جارہا ہے۔
گلاب کی جھاڑیوں کے پیروں میں بینڈے گنگ ہوگئے ہیں کہ ان تک پہلی مرتبہ الف کی آواز پہنچی ہے، الف جس کے سر کے بال برف ہیں، جس کے چہرے پر صدیاں پرے تک جھریوں کانشان نہیں اور جس کی چمکیلی آنکھیں چیزوں کے پار دیکھتی ہیں اور جو سرخ گلاب اگاتا ہے۔ ہاتھ میں قلیں پکڑے جوانوں کو بشارت دے رہا ہے کہ بس موسم آنے ہی والا ہے۔
لوگ، بہت سارے لوگ صفحوں پر بھاگتے لفظوں کا پیچھا کر رہے ہیں کہ۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.