شیری
کہانی کی کہانی
بے زبان جانور شیری کی وساطت سے انسان کی تنہائی اور جنسی نا آسودگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ شیری ایک اعلیٰ نسل کا کتا ہے جس کا برتاؤ اور سلوک انسانوں جیسا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ غیر شادی شدہ مالکن کی خالی خالی زندگی میں وہ نئی حرارت پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کی زندگی میں اس قدر دخیل ہو جاتا ہے کہ جب مالکن بیرون ملک چلی جاتی ہے تو شیری کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے جسکی وجہ سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔ مالکن کو واپسی پر جب اس کی موت کی اطلاع ملتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں تو بیوہ ہو گئی۔
مہر کا تار اماں کے نام آیا، ’’شیری کو برٹش ایرویز کی فلائٹ 32 سے لے لیجیے گا!‘‘
سخت غصہ آیا، میں نے اسے لکھا تھا، تم شیری کو یہاں کیوں بھجوا رہی ہو۔ اماں اپنا خیال تو ڈھنگ سے رکھ نہیں سکتیں۔ اس کا کیا کریں گی۔ تمیز سلیقے کا کوئی نوکر ان دنوں ملنا مشکل ہے اور جو ہیں وہ بھی بہتر جگہوں کی تلاش میں، یہاں ان منے دل سے رہ رہے ہیں۔ جب تک پاپا تھے تو سب کچھ تھا۔ اب تمہیں معلوم ہی نہیں ہوسکتا، میں اکیلے یہ گھر کی کشتی کیسے کھے رہی ہوں۔ پریشانی اور شدید مصروفیت کا شکار رہتی ہوں۔ امید ہے تم اپنے فیصلے پر نظرثانی کروگی اور ضدی ہونے کے باوجود میری بات میں تم کو وزن معلوم ہوگا۔
میری بہن ہمیشہ کی بدتمیز، بے مروت اور اپنے سامنے کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی تھی اور مختصر نویس ہونے کے باوجود اس نے مجھے صفحوں کا کوسنوں، طعنوں اور گالیوں سے بھرا خط لکھا تھا، یہ کہ، ’’گھر پر اس کا بھی اتنا ہی حق تھا جتنا کسی اور کا تھا۔ شادی کے بعد لڑکیوں کا میکے سے کوئی ناطہ ٹوٹ تو نہیں جاتا کہ اسے بھی اپنے لیے اتنی سہولت لینے میں کوئی مانع نہیں ہوسکتا تھا۔ اماں بھی سب کی تھیں اور اگر ضرورت پڑے تو مدد بھی کرسکتی تھیں اور یہ کہ میں نے کب سے اپنے آپ کو اس گھر کا مالک تصور کرنا شروع کردیا تھا۔ پاپا نہیں تھے تو کیا ہوا، مکان پر تو اب بھی انہیں کا روپیہ صرف ہوتا تھا۔ شیری یہاں رہ سکتا تھا اور اماں خود ہی اس کے لیے مناسب دیکھ بھال کا بندوبست کرلیں گی۔ پھر آخر میں یہ کہ میری تنہا اجاڑ زندگی اور ویران دنوں کی ذمہ داری سوائے میرے اپنے کسی پر نہ تھی۔
میری تیز مزاجی اور زبان درازی اور دوسروں سے ضرورت سے زیادہ توقع رکھنے اور نالائق دوستوں کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا تھا۔ ورنہ وہ کرنل کیا برا تھا جو تمہارے پیچھے پھرا کرتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے تم سے دوستی کے دوران دوچار اور لڑکیوں سے بھی تعلقات استوار کر رکھے تھے مگر تمہیں خود معلوم ہے تم پر تو مکمل بھروسہ آخر وقت تک نہیں کیا جا سکتا۔ تم تو بس خوب سے خوب تر کی تلاش میں سخت وفاداری کو کھوجتی رہی ہو، جو میری جان اس جہان میں معدوم ہے۔ بھلا مردوں کو غلام بناکر اور ان کاامتحان لے کر تم کبھی کسی نتیجے پر پہنچ سکی ہو! تم نےدنیا کے مردوں کو اپنے پاؤں میں رگیدا اور قدموں تلے دیکھنا چاہا ہے۔ تم کو اپنے موہوم حسن پرکیا کیا ناز رہے ہیں جس نے دوکوڑی کونہیں پوچھا۔ سمجھتی ہو تمہاری ان چمکتی ہوئی آنکھوں کے سحر میں کوئی گرفتار ہوگا۔ کبھی نہیں کبھی نہیں۔‘‘
خط پڑھ کر میں نے سوچا ہٹاؤ مارو گولی، اگر شیری کو وہ اماں کے پاس بھیجنا چاہتی ہے تو میری بلا سے۔ میں نے اس بے ہودہ تحریر کا بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جب وہ عقل کی بات سننے کی تاب ہی نہیں رکھتی تو کاہے سنائی جائے اور پھر مہر سےخط و کتابت کی اس لڑائی میں ہار ہمیشہ میری ہوتی تھی۔ وہ اماں کی لاڈلی، بہن بھائیوں کی چہیتی تھی۔ رستم نے اسے گھر کا سکون دیا تھا، جو اس کی طاقت اور اس کا مان تھا۔ پھر اس کی بیٹی نور تو اس کی دیوانی تھی اور اس لیے وہ میری ویران زندگی کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔
اس کا تار پڑھ کر میں جل بھن گئی۔ اماں خود جاتی پھریں۔ شیری کو بلانے کراچی۔ کم از کم اس واہیات خط کے بعد میرا تو اس سارے واقعے سے کوئی سروکار ہی نہیں رہا تھا۔ اماں جانیں اور مہر جانے۔ پھر ایک سہ پہر جب میں ابھی دفتر سےآئی تھی، اماں اپنے سوجے گھٹنے اور سخت ٹانگیں گھسیٹتی آئیں،’’ اے لڑکی سیٹ بک کروا لی ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’لو اور سنو، کیوں بھلا اس حالت میں مجھ سے کراچی جایا جائے گا۔ تمہارے والد کے بعد سے یوں بھی مجھے اکیلے جانا مصیبت لگتا ہے۔ سفر کرنے کا مزہ تو ان کے ساتھ تھا، پورا ڈبا اپنا ہے۔ بس چلے جارہے ہیں۔ کھاتے پیتے ہنستے ہنساتے جیسے اپنے گھر میں ہوں۔‘‘ وہ یادوں میں گم سی ہوگئیں۔گزرے زمانوں میں ریل کے ہچکولوں سے انہیں جیسے نیند آنے لگی ہو، چپ چاپ دور دیکھتی ہوئی بیٹھی رہیں۔ پھر اچانک کہنے لگیں، ’’آخر تجھے جانا ہی پڑے گا۔ خرچ کا فکر نہ کرو۔ تو میرے لیے اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتی؟‘‘ بنا کوئی اور سوال کیے میں نے اسٹیشن فون کیا۔
فلائٹ لیٹ تھی۔ میں انتظار گاہ میں لوگوں کے جم غفیر کے درمیان ٹہلتی رہی۔ دولت کی تلاش میں پرائے دیسوں کو جانے والوں کی آنکھوں میں آنسو اور خواب، بچے اور سامان، ٹرالیاں، قلی، گرجتے ہوئے، لینڈکرتے جہاز، گڑگڑاہٹ سے سروں کے اوپر سے گزر کر منزلوں کو روانہ ہوتے ہوئے طیارے، آواز میں رونا، ہنسی، بچھڑنا، وعدے، چاہتیں، مزید آرزوئیں، ایک گنگا جمنی بھیڑ۔ نئی روشنی کی تیز لڑکیاں عجیب تراش خراش کے لباس پہنے، خود آگاہ، بال جھلا جھلا کر سر کو گھما کر اپنے گردوپیش دیکھتی ہوئیں، کھنکتے قہقہے، گونجتی ہنسی تیز انگریزی، اونچی گفتگو، دکھاوا، بناوٹ، پسندیدہ نظروں کے حصار میں اپنے سحر سے آشنا، جنہیں دیکھ کر بے اختیار سیٹی بجانے کو جی چاہے۔لڑکے مضحکہ خیز چوہوں کی طرح فلموں کے ہیرو، لڑکیوں کے گروہوں کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اپنے باپوں کے ساتھ دلچسپی سے عریاں نگاہوں سےاپنے گرد و پیش نگاہ دوڑاتے نیچے سروں میں باتوں کے سیلاب میں بہتے ہوئے مگن مصروف، اوپر اوپر گھومتے پھرتے ہوئے گھاگ شکاریوں کے سارے داؤ پیچ سےآشنا۔
میں ٹہلتی ہوئی ذرا پرے جنگلے کے ساتھ دور چلی گئی اور اس سے سر لگا کر میلوں تک پھیلے ہوئے رن وے کی طرف دیکھنے لگی جہاں چھوٹے بڑے جہازوں کی بھیڑ تھی۔ سیڑھیاں گھسیٹی اور لگائی جارہی تھیں۔ ایک بھگدڑ مچی تھی۔ عملے کے لوگ، موٹریں،سامان اور جانے کیا کیا۔ اس منظر سے تھک کر میں نے اپنے اطراف دیکھا۔ لڑکی کے رخسار، گھڑی گھڑی گلابی ہو جاتے۔ کان سیبوں کی طرح سرخی سے چمکنے لگتے۔ وہ دونوں چپ تھے۔ ایک دوسرے سے بہت قریب بھی نہ تھے۔ لڑکا میری طرح اپنے سامنے دیکھ رہا تھا مگر جب وہ سرکو گھماکر اس کی طرف دیکھتا تو وہ یوں چھوئی موئی سی اپنے ہاتھوں تک، انگلیوں کی پوروں تک رنگین ہوجاتی۔ ہائے یہ نگاہ کی رنگینی تھی۔ بھیگی ہوئی چنری کی طرح کی یہ لڑکی رنگ میں ڈوبی تھی۔ سرشار، بے چین، پرسکون، وارفتہ۔
مجھے وقت گھسیٹ کر پیچھے لے گیا۔ اس جنگلے سے دور، ان برآمدوں میں جہاں میں اونچی ایڑی کا جوتا پہنے کھٹ کھٹ کرتی چلی تھی گویا زیبا اصفہانی کے دل پر چل رہی ہوں۔ زیبا کو اپنے حسن کا غرہ اور اپنے ایرانی ہونے پر ناز تھا۔ وہ ابھی نیا نیا آیا تھااور لیکچر دیتے وقت جب وہ سمجھاتا اور سیدھا تمہاری آنکھوں میں دیکھتا تو دل سینے میں ڈول جاتا تھا۔ میں، جسے اپنی شوخی پر اعتماد تھا سمجھتی رہی کہ وہ کہاں جائے گا۔ چند دنوں میں اس کاغرور نیاز میں اور اس کا سر میرے قدموں میں ہوگا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی فتوحات سے تو میرا دامن بھرا ہوا تھا۔ زیبا تو اسے درخور اعتناہی نہ سمجھتی تھی۔ چند دنوں بعد مجھے اور اچھا لگنے لگا۔ وہ کلاس میں جب بھی زیبا کی طرف دیکھتا میں محسوس کرتی کہ زیبا کی لمبی پلکیں رخساروں پر جھالر کی طرح جھک جاتیں اور وہ گلابی ہوجاتی۔ عجیب خود فراموشی سے وہ اس کی نگاہ کاجواب دینے کے بجائے اپنےسامنے دونوں ہاتھ رکھے ناخنوں کی طرف دیکھتی جس میں سرخی تیزی سے جھلکنےلگتی تھی۔
اچھا تو اس کھیل میں کہیں کوئی غلطی ہوگئی ہے۔ یہ عجیب بے قاعدہ مثلث تھی۔ درمیان میں وہ تھا اور اس کی نگاہوں کی ساری روشنیاں اس کے لیے تھیں اور میں تھی جو اس کے لیے کچھ نہ تھی اور جس کا دل کلاس میں آنے سے پہلے (اور) بعد میں سارا دن یونہی دھڑکا کرتا تھا۔ ایک دہکتی ہوئی گرمی میرے سارے وجود کو تڑپاتی رہتی۔ مگر میرا حسن جہاں سوز بیکار، میری آج تک کی فتوحات غلط تھیں۔ میں نے اتنی ذلت کبھی نہ اٹھائی تھی۔ میں اس کے پاس سے گزرتی بھی تو وہ میری طرف مڑکر نہ دیکھتا۔ روز میرے لیے ایک نیا مقابلہ ہوتا تھا۔ میں نے اپنا آپ آزمانا چاہا اور میں جہنم میں سے گزر گئی۔
میں نے اسے پیغام بھجوایا۔ رات کو دروازہ کھلا رکھنا۔ میں زیبا کا ایک خاص پیغام لے کر آؤں گی۔ وہ خوشی سے تقریباً دیوانہ ہوگیا تھا جیسے اس نے سرخ گلابوں کا عکس اندھیرے میں دیکھ لیا ہو۔ جیسے تاریک پانیوں پر ڈولتے کنول کے ہونٹوں کو سورج کی کرن چھوئے اور وہ ہولے ہولے کھلنے لگے۔ میرے سینے میں دل کو کوئی چپکے چپکے مسل رہاتھا۔ میں جیسے موت کے بند کواڑوں کو کھولنے جا رہی تھی۔ اپنے مقدر کے نوشتے کو پڑھنے کے لیے میں نے رو رو کر اسے اپنا حال دل سنایا۔ میں نے کہا تھا زیبا ایک خواب ہے۔ تم اسے کبھی حاصل نہ کر سکو گے۔ وہ پرائے دیس چلی جائے گی تو لو ٹ کر نہیں آئے گی، آنہ سکے گی۔ اس کا وطن کوئی اور تھا۔۔۔ میں تمہاری زندگی سنوار دوں گی۔ میرے پاس ذرائع تھے، خاندان تھا۔ وہ نگاہوں میں تمسخر لیے نہایت خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا۔ اس گھڑی مجھے لگتا تھا، میری روح ٹکڑے ٹکڑے ہوکر کرچیاں ہوکر میری آنکھوں سے بہہ رہی ہے۔ میں ٹوٹے ہوئے شیشے چبارہی ہوں اور ابھی گر کر بے ہوش ہوجاؤں گی۔
اس نے ہنس کر کہا تھا، ’’بی بی چاہت کو تم کیا سمجھتی ہو کہ جب چاہو قیمت چکا کر خرید لو۔ یا یہ چراغ ہے کہ جب تیلی دکھاؤ جلنےلگے، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اب تم جا سکتی ہو۔‘‘ جب وارڈن نے مجھے اس کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا تو میرا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا،آنکھیں دھندلائی ہوئی تھیں اور میں تقریباً گری جارہی تھی۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ اس نے دوباتوں میں سے ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ وہ مجھ سے شادی کرلے اور یہیں ٹھہرا رہے یا پھر خود استعفیٰ پیش کردےاور چلا جائے۔
ہائے کیسے اس نے انکار کردیا تھا او رچپ چاپ چلا گیا تھا۔ اس نےمیرے بدلے وہ ذلت قبول کرلی تھی۔ میری قیمت ذلت بھی کم تھی۔ ازاں ارزاں بے قیمت میں۔ اس کے جانے کے بعد سے مردوں پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا۔ اپنے حسن کی چمک بھی دھندلی اور بیکار کا فسانہ لگی۔ میرے چاروں طرف خلا تھا جس میں لڑکیوں کے قہقہے گونجتے اور ان کی نگاہیں تیروں کی طرح میرے آرپار ہوتی جاتیں، مگر میں سراونچا کیے زیبا اصفہانی کے دل پر چلتی رہتی۔ بے پناہ خود اعتمادی کے ساتھ کیونکہ میں آگ کی محراب تلے سے گزر گئی تھی اور میں نے اپنا سارا ماضی، سارا مستقبل جلا ڈالا تھا۔ میں نے محبت کی خوشبو کےبدلے انگارے سونگھے تھے اور دل جلنے کی بو ساری عمر میرے دماغ میں تیرتی رہی ہے۔ ہائے مجھے کسی نے کبھی ایسے کیو ں نہیں چاہا کہ میں رنگ سے بھیگی ہوئی چنری لگوں۔
برٹش ایرویز کی فلائٹ کے لینڈ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ طیارہ رن وے کے دوسرے سرے پر ایک بڑے پرندے کی طرح اترا۔ پھر وہ اسے اور قریب لائے۔ سیڑھیاں مسافروں کو لانے کے لیے، لاریاں سامان کے لیے، گاڑیاں، رونق اور چہل پہل ہوگئی، پھر لوگ اپنےسامان کے ساتھ باہر آنے لگے۔ سب سے آخر میں وہ اسے لائے۔ خوبصورت پنجرے میں چمکتے ہوئے سنہرے بالوں والا، روشن اور ذہین آنکھیں، تھوتھنی نہ بہت لمبی اور نہ ہی چھوٹی، صاف ستھرا دھلا دھلایا۔ بے حد اسمارٹ کالر پہنے بڑی بے پرواہی سے اپنے گرد و پیش دیکھتا ہوا، کبھی سر اپنی اگلی پھیلی ہوئی ٹانگوں پر رکھ لیتا اور آنکھیں بند کرلیتا۔ مجھے وہ بہت عمدہ لگا۔
میں نے پنجرے کے ساتھ ساتھ چلتے پکارا۔ شیری شیری۔اس نے ہوا میں ناک اٹھائی، کوئی مانوس سی بو سونگھی، غور سے مجھے دیکھا، عف عف کیا جیسے پکار کا جواب دے رہا ہو اور پھر منہ اپنی ٹانگ پر رکھ لیا۔ اس کا سر ہل رہا تھا، جیسے وہ ہانپ رہا ہو۔ چل چل کر تھکا ہوا بیٹھا ہو۔ ائرہوسٹس نے اس کی زنجیر مجھے تھمائی۔ اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔
’’کاش میں نے تمہاری بات مان لی ہوتی اور شیری کو نہ بھیجا ہوتا۔ اس سے جدا ہوتے وقت ہمارا دل کٹ کٹ گیا ہے۔ رستم اداس ہے۔ نور بہت روئی ہے اور میں تو باقاعدہ غم زدہ ہوں۔ جب وین اسے لینے آئی ہے تو یہ ان سے چھٹ کر گھر میں گھس گیا اور غسل خانے میں چھپ گیا۔ بڑی مشکل سے اسے گھسٹ کر نکالا گیا، یہ ہمیں بہت عزیز ہے۔ تقریباً ایک فرد کی حیثیت سے اس میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ یہ بہت محبت کرنے والا ہے۔ اور امید ہے تم اماں کے گھر میں ساری کوششوں کے باوجود اس سے نفرت نہیں کرسکوگی۔ تکلیف فرمائی کے لیے شکریہ۔ ہم لوگ کل جدہ روانہ ہوں گے۔ الوداع۔
ائرپورٹ سے باہر آکر میں نے وہ زنجیر اس کے کالر میں اٹکائی۔ اس نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میرے ہاتھوں کو سونگھا۔ مہر کی اور میری مہک ایک سی ہونا چاہیے۔ اس نے بنا مزاحمت کے زنجیر کے ساتھ مجھے اپنا مالک تسلیم کرلیا۔ میں نے اسے بسکٹ دیا جو اس نے کھا لیا اور پانی پی کر ہم دونوں اماں کی طرف روانہ ہوئے۔
ٹرین میں وہ سیٹ پر بیٹھا شیشے کے ساتھ منہ لگا کر باہر جھانکتا رہا۔ کھیتوں، ندی نالوں اور ان سب پر جھکا نیلا آسمان، دھوپ روشنی کی طرح بھری ہوئی اور بہت تیز۔ وہ اس نئی زمین سے واقفیت پیدا کر رہا تھا۔ جس کی عام آدمی کو ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اس کے رنگوں اور خوشبوؤں اور بدلتے مناظر درختوں اور ہواؤں کو زیر کر رہا تھا، جہاں ٹمٹماتی بتیوں پر اور دور جلتے چراغوں پر سیاہ ابر آلود رات چھائی ہوئی تھی اور چاند ستاروں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا پھرتا تھا۔شیری کی تنہائی اور غریب الوطنی نے میرے دل کو آنسوؤں سے بھر دیا۔
اماں بیماری کے بعد سےخواب آور گولیاں کھانے لگی تھیں اور اس لیے دن چڑھے تک سویا کرتیں، میں دفتر جانے کے تقریباً تیار ہوچکی ہوتی تو وہ شیری کہہ کر پکارتیں۔ نہایت تمیزداری سے میز کے قریب نیچے بیٹھ کر وہ اپنے پیالے میں کبھی دودھ اور ڈبل روٹی، کبھی گوشت کھاتا، نہایت چبا کر، آہستہ آہستہ، جیسے کوئی آہٹ بھی نہ کرنا چاہتا ہو۔ اماں کہتیں مہر نے اسے کیا عمدہ پالا ہے آدمی کے بچوں سے زیادہ تمیزدار ہے۔ انہیں خواہی نخواہی مہر کی تعریف کرنے کی عادت سی تھی۔
موسم بدلا۔ درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ گرمی میں تیزی آتی گئی اور شیری بہت گھبرایا ہوا رہنے لگا۔ ہانپتا ہوا، زبان لٹکتی ہوئی، تیز سانس لیتا ہوا۔ اماں اسے اپنے ساتھ کمرے میں بند رکھتیں۔ شام کو مجھے کہتیں ذرااسے ٹہلادیا کر، بے چارا پردیس میں آن پھنسا ہے۔ مہر نے ظلم ڈھایا ہے۔ بھلا سرد ملکوں سے تو آکر یہاں تو لوگ یہ گرمی برداشت نہیں کر سکتے، یہ تو ذرا سا بے زبان جانور ہے۔
اور یوں شاموں کو جب گرم ریت کی ٹھنڈک ملنے لگتی، ہوا نرم نرم جھونکوں سے قابل برداشت ہوجاتی، شیری کو ٹہلانے لے جانے لگی۔ وہ سایوں پر بھونکتا، ٹڈوں کی چرچر سن کر خاموش کھڑا ہوتا جیسے کسی دور کے سیارے کی سمفنی یا کسی دیس کی موسیقی ہو، پھر بھاگتا اور اس کی چھوٹی سی دم اٹھی ہوئی ہوتی، گھاس پر الٹا لیٹ کر لوٹ لگاتا اور جگنوؤں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔ پھر عف عف کرتا اور میرے قدموں میں جھکتا پھر چک پھیریاں لیتا اور میرے ساتھ چلتا رہتا۔ بیلوں کے پیچھے بھاگنے میں اس کے سنہری بال سیدھے کھڑے ہو جاتے اور وہ تیزی سے ان پر جھپٹتا۔ جب وہ دو بلیاں اکٹھی ہوتیں تو اس سے ذرا نہ ڈرتیں، اسے تھپڑ مارتیں۔ بیچارا چوں چوں کرتا اور دم دباکر میری ٹانگوں سے لگ کر کھڑا ہوتا گویا پناہ گاہ میں ہو۔ کبھی چڑیوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے سوتا بن جاتا، وہ اس کی گردن پر آ بیٹھتیں جیسے اس کی پرواہ ہی نہ کرتی ہوں۔ کبھی ایک آدھ کو پنجے میں دبوچ کر بیٹھا رہتا۔ جب وہ دل کی طرح خوف سے دھڑکنے لگتی تو یک بیک اسے اڑا کر تماشا دیکھتا۔
اس کی طبیعت میں ضرر رسانی نہ تھی، اس لیے گھر میں جو مہمان آتا، شیری سے اس کا تعارف کروایا جاتا۔ اماں اس کی نسل اور ملک اور اس کے انگریزی زبان سمجھنے سے بہت مرعوب تھیں پھر اور خوبیاں تمیزداری، عمدگی، کھیل اور کھانے کے آداب سب اس کی وقعت میں اضافہ تھے۔ اماں کے صبح دیر میں اٹھنے کی عادت نے مجھے شیری کی طرف زیادہ توجہ دینے پر مجبور کردیا۔ میں تیار ہو رہی ہوتی تو وہ پاس ہی ڈولتا رہتا۔ میرے جوتے لاکر قریب رکھ دیتا۔ میرے ہاتھ سے کوئی چیز چھٹ جاتی تو لپک کر منہ میں اٹھاکر مجھے پکڑادیتا اور اب میں اکثر اس کے بالوں میں کنگھی کردیتی اور ان کے سنہرے ملائم بہاؤ کو محسوس کرکے میرا جی خوش ہوتا۔ اگر کبھی میں مہر کی پسندیدہ خوشبو لگا لیتی، بس دیوانہ ہونےلگتا۔ میرے گرد گھومتا، میرے دامن پر اگلے دونوں پاؤں رکھ دیتا، مجھے سونگھتا، یوں ہمکتا جیسے گود میں آنا چاہتا ہو۔ مگر میں نے کسی بھی بات سے متاثر ہونے اور مہر کی کسی شے کو پسند نہ کرنے کی جی ہی جی میں قسم اٹھا رکھی تھی اور شیری کی یہ ساری حرکتیں مجھے چھو نہ سکتیں۔ البتہ جانور کی جو ممکن دیکھ بھال ہوسکتی تھی، اس میں میں اماں کا ہاتھ بٹاتی اور یوں میں نے ہولے ہولے اس کا زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا۔
شدید گرمی کے دن تھے۔ لو چل رہی تھی۔ جھلسائے دیتی تھی۔ دفتر سے آکر میں سخت ٹھنڈے پانی سے نہالی اورتقریباً بے ہوش ہوگئی پھر یکدم تیز بخار آگیا۔ اماں گھبرا ہی گئی ہوں گی کہ انہوں نے ادھر ادھر میری دوستوں کو فون کیے۔ کئی دنوں ہذیانی کیفیت رہی اور پھر لوٹ پوٹ کر میں تندرست ہوگئی۔ شیری مجھے دبلا لگا اور بہت ہی بے آسرا اداس بھی۔ اس دن میں نے پاس بلا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے پیالے میں گوشت ڈالا۔ اماں کہنے لگیں، ’’اسے دیکھو تم بیمار کیا ہوئیں اس کا تو کھانا پینا ہی چھوٹ گیا۔ دن رات تمہارے پلنگ کی پائنتی کے نیچے بیٹھا رہتا، جیسے اسے تمہاری بیماری کی بہت فکر ہو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر۔‘‘ ہنس کر میں نے شیری کی طرف دیکھا۔ ایک احساس تشکر، اس بھرے پرے گھر میں کوئی تو ہے جو میرے لیے پریشان ہوا۔
اماں پھر بولیں، ’’چلو آج اس کے منہ پر رونق تو آئی۔ مجھے تو سخت فکر لگ گئی تھی کہیں یہ مرہی جائے۔ عجیب جانور ہے، اپنے اصل مالکوں کو بھول کر تم سے اتنا ہل گیا ہے۔‘‘ میں نے چڑچڑاکر اماں سے کہا، ’’کیا مطلب ہے آپ کا! مجھ سے اگر ایک جانور بھی مانوس ہو توآپ کو اعتراض ہوتا ہے۔‘‘
’’ارےنہیں بدنصیب، مجھے کسی بات پر اعتراض نہیں ہے اگر تجھ سے کوئی انسان ایسے مانوس ہو تو میرا بوجھ نہ ٹل جائے مگر تیری سخت طبیعت کی وجہ سے کوئی تیرے قریب ہی کیوں آئے گا، ہر کسی کو تو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، لوگوں کو فرشتہ چاہتی ہے۔ ایسی عمر میں کون ایسا وفادار ملے گا۔‘‘
میری اور ا ماں کی خوب تو تو میں میں ہوئی۔ کسی نےکھانا نہ کھایا۔ ہم دونوں رقیبوں کی طرح ایک دوسرے پر چیختی رہیں۔ میرا جی چاہتا تھا خوب دھاڑیں مار مار کر روؤں اور دیواروں سے سر ٹکراؤں یا اس گھر کو آگ لگادوں جو میراقید خانہ بن گیا تھا۔ میں اس دن کو یاد کرکے اونچے اونچے بین کرکے روئی جب میں نے پاپا کی بیماری کی وجہ سے اماں کے مایوس کن خط پڑھ کر ایک دم امریکہ چھوڑنے کافیصلہ کیا تھا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ مستقبل کے سنہرے اور روپہلے خوابوں کو اپنے پیچھے کشتیوں کی طرح جلاکر گھر واپس آگئی تھی اور اب اماں مجھی کو الزام دے رہی تھیں۔ دشمن کی طرح میری طبیعت اور میری عادتوں میں سو سو کیڑے نکالتی تھیں۔ امریکہ میں کیا کچھ نہیں تھا، مواقع، آزادی، چاہنے والے لوگ،نباہ کرنے کو تیار، میری رفاقت میں مسرت محسوس کرنے والے اور وہ بھی تو تھا میرا جرمن دوست۔
چھٹی کے دن اپنے کمرے میں، جو اوپر کی منزل میں تھا، مجھے مدعو کرتا۔ وہ گٹار بجاتا، میں مشرقی کھانے پکاتی، پھر مل کر رائن وائن پیتے جرعہ جرعہ اور اپنے اپنے ملک کی کہانیاں لطیفے سناتے۔ کبھی بحث چل نکلتی موسیقی اور آرٹ اور خدا جانے کیا کیا۔ اس کے کمرے کی کھڑکیاں جھیل کی طرف کھلتی تھیں،جہاں لوگ کشتی رانی کرتے۔ سکیٹنگ رنگ تھے، فوارے تھے اور پارک میں لوگ نہایت پرانی دھنیں بجاتے تھے۔ کبھی کبھار ہم چپ چاپ بیٹھتے رہے۔ اتنی خوبصورتی اور تکمیل میں باتیں کرنا بے معنی لگتا۔ بس اس کمرے میں اس لمحے میں ہم دونوں زندہ ہیں یہ بہت تھا۔ اس نے کبھی مجھے نہیں کہا کہ وہ مجھے چاہتا ہے۔ چونکہ میں دوسروں سےمختلف تھی، اسے اچھی لگتی تھی۔ وہ بہت سیدھاتھا اور مجھے کہا کرتاتھا، ’’تم اپنے دیس میں جاکر جب کسی سے شادی کروگی تو وہ بہت خوش قسمت ہوگا۔ تم میں بہت خوبیاں ہیں مردوں کو سمجھنے کی، انہیں خوش رکھنے کی۔‘‘ ہم دونوں ہنستے رہتے، وقت گزرتا رہااور پھر وقت گزر گیا۔
آخری دن جب ہمارا امتحان ہوچکا تھا، ہم وطنوں کو لوٹ رہے تھے۔ چھٹیاں گزر چکی تھیں، گٹار میں رکے سب گیت گائے جاچکے تھے تو اس نے سیڑھیوں کے نیچے بڑی دوست داری سےمیرا ہاتھ پکڑ کر کہاتھا، ’’کیا مجھ سے شادی کروگی۔‘‘ ہنس کر میں نے کہا تھا، ’’میں ساری عمر کھانا پکاکر تمہارا جی خوش نہیں کرسکتی۔ تم ہمیشہ مشرقی کھانوں کے دلدادہ نہیں رہو گے۔ گزری ہوئی صحبتوں اور ساتھ گزارے دنوں اور محبتوں کا شکریہ۔‘‘ وہ دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتا رہا جہاں ہنسی ابل رہی تھی اور میرے رخسار انتہائی سردی کی وجہ سے گہرے گلابی ہو رہے تھے۔ پھر اس کارنگ پھیکا پڑا اور زرد ہوگیا اور وہ کچھ کہے بنا اوپر کی طرف بڑھ گیا اور میں بھاری قدموں سے لوٹ آئی۔
اب بہت دیر ہوگئی تھی، اس نے اتنے لمبے عرصے میں کبھی بھی تو اشارے سے، کسی لفظ سے، یہ تک نہیں کہا تھا کہ مجھے چاہتا ہے۔ ہم بہت اچھے دوستوں کی طرح تھے۔ یہ میرا وہم تھا کہ اس کارنگ اڑگیا تھا اور کچھ کہے بنا مڑجانے کاجواز یہ تھا کہ اسے جلدی تھی۔ میں نے ذہن میں بیکار کی تصویر کشی کبھی نہیں کی۔ سرکو جھٹک کر میں شام کی فلائٹ سے واپس وطن آگئی اور اس ڈر سے کہ مبادا مجھے کوئی لوٹا نہ دے میں نے اسے لوٹا ہی دیا۔ ہائے برباد شدہ میں۔ کچھ دن اماں اور میں روٹھے رہے۔ شیری اماں کے بلانے پر بھی ان کی طرف نہ جاتا۔ میرے سوا اسے کسی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اماں خوب جزبز ہوتیں، مجھے کوستیں ایک دو بار انہوں نے شیری کو ہلکے سے تھپڑ بھی مارے، وہ پٹ کر آتا اور میرے پاؤں کے قریب نہایت سعادت مندی سے بیٹھ جاتا۔ زبان نکالے سرہلاتا ہوا، ڈرا ہوا، بے بس سا اور مجھے اس کی غریب الوطنی پر پیار آتا، پھر میں اسے سمجھانے لگتی۔
’’دیکھو شیری! تمہیں گھبرانا نہیں چاہیے، تم تو بہت بہادر بچے ہو، یہ برا اور جدائی کا زمانہ ہے، گزر جائے گا پھر تم اپنے وطن لوٹ جاؤگے۔ جہاں ٹھنڈ ہوگی۔ تم اپنے نرم اور گرم بستر میں لیٹوگے۔ تمہارے ساتھ نور کھیلا کرے گی۔ وہ تمہیں نہلانے لے جایا کرے گی۔ وہ تم سے بہت پیار کرے گی، اصل محبت جس میں دل کا پھول کھلتا ہے اور کوئی تمہاری پٹائی نہیں کرسکے گا۔ تم نور کے پاس ہرجلنے والی آنکھ سے محفوظ ہوگے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے اور وہ میری ٹانگوں سے اپنا سرملتا میرے پاؤں کو سونگھتا۔
کیا وہ ابھی تک نور کا اور مہر کا اور رستم کا PET تھا؟ کیا اس کے جانے سے میں اداس نہیں ہوجاؤں گی۔ میں سر کو جھٹکتی۔ مجھے پرائے شیری سے جو محض وقت گزاری کے لیے یہاں بھیجا گیا تھا، اس لگاؤ کا کوئی حق نہیں۔ میں اٹھ کر اوپر کے کاموں لگ جاتی وہ میرا پیچھا کرتا۔ میں کہتی شیری میرے پیچھے مت آؤ، وہیں بیٹھو۔ وہ اپنی شفاف نگاہوں سے میری طرف تکتا رہتا۔ عجیب مخمصے میں پھنس گئی تھی میں۔ جب وہ نور کو دیکھے گا تو اس سے بھی یونہی چاہے گا۔ یہ انسیت کا چکر بھی کیا ہے بھلا۔
میں انسانی فرض سمجھ کر اس کی دیکھ بھال کرتی رہی، اسے نہلانے لے جاتی رہی، اس سےباتیں کرتی رہتی تاکہ وہ تنہائی محسوس نہ کرے۔ چند دنوں کے لیے مجھے کسی دوسرے شہر جانا پڑگیا۔ پھر دوستوں کی ضد کی وجہ سے دوچار دن اور رکی رہی۔ گھر میں میرا تھا ہی کیا؟ اماں جن سےاکثر بات بے بات میرا جھگڑا ہو جاتا تھا۔ وہ مجھ سے خواہی نخواہی الجھتی تھیں اور میں بھی ان کی بات برداشت نہیں کرتی تھی۔ رسہ کشی چلتی ہی رہتی۔ میں انہیں ایک بھاری بوجھ لگتی تھی، جسے محسوس کرکے ان کاجی دہلتا تھا۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مجھ میں کوتاہیاں اور خامیاں نکالتیں۔ میرے اکیلے پن کو میری بدنصیبی شمار کرتیں۔ اصل حساب تو آدمی کا اپنے سے ہوتا ہے اور اماں کے اپنےحساب میں کہیں گڑبڑ ضرور تھی۔ مجھے دیکھ کر آہیں بھرتیں۔ بہت اداس اداس رہتیں مجھے کچھ بھلانے ہی نہ دیتیں حالانکہ ان کی دوسری بیٹیاں ان کے بیٹے اور بہوئیں کوئی سال دوسال میں ایک آدھ بار ہی اس گھر میں جھانکتا تھا۔ وہ ان سب کو یاد کرکے روتی رہتیں۔ انہیں پکارتیں، خط لکھتیں، ان کے لیے دعائیں کرتیں اور میں غصے کے مارے اپنے کمرے میں ابلتی اور جلتی رہتی۔
آخر مجھے اسی قیدخانے میں واپس آنا ہوتا تھا۔ میری واحد پناہ گاہ تھا۔۔۔ بھونک بھونک کر شیری نے برا حال کرلیا۔ خوشی سے پاگل ہوگیا۔ میرا بیگ اپنے قبضے میں کرلیا۔ پرس کو مارے غصے کے قالین پر گھسیٹتا رہا۔ صوفے پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور مجھے کونےسے باہر جاتے دیکھ کر کود کر کندھوں پر دونوں اگلے پاؤں سے لٹک گیا۔ عجیب دیوانہ پن سے روتا رہا جیسے خوشی کے بوجھ تلے نہایت پریشان ہو۔ رات جب میں لیٹی ہوں، دن بھر کی دھول جھاڑ کر خیالوں کی یورش سےبچنےکے لیے میں نے کروٹ بدلی تو شیری آنکھیں بند کیے میرے ساتھ لیٹا تھا۔ میں ہولے ہولے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ طمانیت سکون اور راحت کے شدید احساس کے ساتھ۔ پھر وہ اور قریب آگیا اور اس نے سر میرے سینے کے ساتھ لگا دیا۔ مجھے وہ لڑکا یاد آیا جو بحری سفر کےدوران جہاز کے عرشے پر مجھے ملا تھا۔
آغاز شباب میں قدم رکھتا ہوا الہڑ سا شرمایا ہوا سا وہ ہوا خوری کے درمیان مجھ سے باتیں کیا کرتا۔ بچوں کی سی بے ضرر باتیں۔ سمندروں اور ہواؤں، طوفانوں اور لہروں کی، بادلوں اور آندھیوں کی، جھکڑوں اور سمندری مخلوق کی۔ دریاؤں اور پہاڑوں سےاسے عشق تھا۔ رنگ اسے بے حد پسند تھے۔ مجھے خوبصورت کپڑے پہنے دیکھ کر کھل اٹھتا۔ فرمائش کرتا کہ کل میں نیلے رنگ کی ساڑھی پہنوں۔ یہ بے ضرر سی خواہش مجھے بھی خوش کرتی۔ اسے پھول اچھے لگتے تھے۔ مجھے کہتا اس رنگ میں تم ڈیزی لگ رہی ہو۔ عجیب دیوانہ سا بچہ تھا۔ بیک وقت سمجھدار بھی اور سیدھا بھی۔ ایک شام اس نے فرمائش کی کہ میں اس کے ساتھ ناچوں۔ لہروں کی تیز موسیقی پر ہم قدم سے قدم ملائے اوپر بانہوں کے سہارے جھولتے رہے اور جب ہم ایک نسبتاً تاریک گوشےمیں گئے تو اس نے اپنا سر میرے سینے سے لگا دیا۔ مجھے اپنے کمزور بازوؤں کے حلقے میں لے لیا اور مجھ سے اسی طرح لگا کھڑا رہا۔ عجیب کیفیت تھی۔ سکون کی لہریں سرشاری کے ساتھ اس کے سر سے نکل کر میری ساری ہنسی کو ہلکورے دے رہی تھیں۔ سمندر کی طرح اس کی معصوم چاہت نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مجھ پر سے گزرنے لگی۔ سیپ میں بند موتی کی طرح وقت کی موجیں ہم پر سے بہتی رہیں۔
اور اب شیری میرے سینے سےلگا تھا۔ آنکھیں بند کیے۔۔۔ گھبراکر مجھ میں سکون ڈھونڈتا ہوا۔ یہ نور کا اور مہرکا اور رستم کا نہیں میرا شیری تھا اور میں نے تہیہ کرلیا کہ اب اسے کبھی نہیں لوٹاؤں گی، ہرگز نہیں۔
تعطیلات اور شدید گرمی کے دنوں میں وہ لوگ اماں سے ملنےآئے۔ شیری کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ اس ایک سال میں اس نےخوب قد نکالا تھا۔ اس کے ڈر کی وجہ سے کسی اجنبی کو گھر میں آنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ لوگوں نے آنا کم کردیا تھا۔ اماں سخت خفا تھیں۔ آخر سیزر بھی تو اس گھر میں رہاتھا۔ ان دنوں خان صاحب زندہ تھے اور اسے انہوں نے سر پر نہیں چڑھایا تھا۔ مہر سے کہنے لگیں عجیب جنگلی ہوگیا ہے۔ تم اب کے اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میں چپکے سے یہ سب سنتی رہی۔میری طرف مڑ کر کہا، ’’جب تم گھر نہیں ہوتی ہو اور میں اسے کھانے کو کوئی چیز دوں تو بالکل نہیں کھاتا، مجھ پر بھونکتا ہے اور برآمدے میں بیٹھا رہتا ہے۔ جب تم آتی ہو تو یہ دکھائی ہی نہیں دیتا چاہے بلیاں گھر میں بھری رہیں اور آوارہ کتے دوڑیں لگاتے رہیں۔
مگر اصلی مالکوں کے آنے پر بھی شیری نے کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ دم ہلاکر ان کے گرد نہیں گھوما۔ نور سے بھی بس واجبی سا اظہار محبت کیا۔ وہ کھینچ کر باہر لے جاتی تو چلا جاتا اور پھر فوراً آکر میرے پلنگ کے نیچے گھس جاتا۔ وہ چیختی ہوئی مہر سےکہتی، ’’مما شیری بہت بدل گیا ہے۔ بالکل جنگلی ہوگیا ہے۔‘‘ اور مہر کہتی، ’’تسلی رکھو بچے !اب ہم اسے ساتھ لے جائیں گے تو اس کی پرانی خوش طبعی عود کر آئے گی۔ یہ تمہارا پیارا شیری بن جائے گا۔ میں چپ رہتی۔ ان کے ارادوں پر جی ہی جی میں ہنستی اور کڑھتی۔
بھئی کیا میں نے مہر کو منع کیا تھا کہ وہ اسے یہاں نہ بھجوائے اور میں نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔ یہ ہمدردی کا ان دیکھا رشتہ جو اس کے اور میرے درمیان قائم ہوا تھا، اس میں حالات کا دخل نہ تھا شیری کا اور نہ میری مرضی کا۔ جیسے وقت کے سمندر پر بہتے دو تنکے کسی تند ہوا کے زور سےایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوجائیں۔ محبتیں جو مجھ سے کی گئیں، ان میں میری مرضی تو شامل نہ تھی۔ میرے لیے تو اب ہر شے بیکار تھی اور پھر کسی نے مجھے اتنا کب چاہا تھا کہ میں اس کے دامن سے لگ جاؤں۔ مجھے اس رات کی اپنی زرد روتی ہوئی صورت اکثر یاد آئی۔ وہ کون تھی؟ جس کے آنسوؤں میں اس کا دل بہہ گیا۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر احساس ذلت سےلوٹائے جانے کے درد سے اب بھی بیتاب ہوجاتی تھی۔
اس دن گرمی سخت تھی۔ نور اور رستم شیری کو ٹہلانے لے جاناچاہتے تھے۔ مجھے دخل دینے کا کوئی اختیار تو نہیں تھا مگر میں نے کہا تھا، ’’نور ابھی نہ لے جاؤ، دن کو ذرا ٹھہرنے دو، شام کو آنے دو، ہوا میں خنکی ہولے، پھرجانا۔‘‘ اس نے کندھے اچکائے باپ کی طرف دیکھا اور شیری کو میز کے نیچے سے نکالنے کے لیے اس کے کالر کو کھینچا۔ شیری نے زچ ہوکر اور کوئی راہ فرار نہ پاکر اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ مہر نے چیخ چیخ کر گھر کو سرپر اٹھالیا۔ سب ایک ساتھ چیخ رہے تھے۔ نور شکست اور تکلیف کے احساس سے زمین پر لیٹ رہی تھی۔ اماں نےجو ان کے جی میں آیا کہا۔ اگلی تمام تلخیاں انہیں یاد آگئیں۔ خوب خوب انہوں نے مجھے کوسا اور گھر میں فضا ایک دم سخت کشیدہ ہوگئی۔ رات شیری نے لیٹ کر سختی سے سرمیرے سینے کے ساتھ لگا دیا۔ وہ شاید اپنی غلطی پر نادم تھا اور اپنے آپ کو اتنے شور و غل کا قصور وار سمجھتا تھا۔
’’تم بےوقوف ہو بچے، وہ آخر چلے جاتے، نور نے بہرحال تم سے زیادتی کی ہے۔ تم بہت جلد باز ہو۔‘‘ وہ دم سادھے پڑا رہا۔ میرے ہاتھ کے نیچے بالکل ساکن اور سویا ہوا اور نہایت خوش۔
سرگوشیوں میں باتیں ہوتیں، مجھ سے ہر بات چھپائی جاتی، اماں کی اور میری بول چال بند تھی۔ ہم دونوں میں اور شیری، گویا ذات برداری باہر کردیے گئے تھے۔ کھانا دو مرحلوں میں کھایا جاتا یا پھر میں اپنے کمرے میں کھاتی اور شیری کو بھی وہیں کھلاتی۔ جب میں کام پر چلی جاتی تب بھی کوئی اس کو نہیں بلاتا تھا۔ آخر وہ کب تک میری پناہ میں رہے گا۔ آخر اسے ان کے ساتھ ہی تو جانا تھا۔ جیسے جیسے ان کی روانگی کے دن قریب آرہے تھے میرا ارادہ بھی پختہ ہوگیا تھا۔
میں نے اپنے شیری کے لیے ریل میں سیٹ بک کروائی۔ سامان اپنی ایک دوست کی معرفت اسٹیشن بجھوایا۔ اس دن شام کو معمول کے مطابق میں اسے ٹہلانے کے لیے باہر لے گئی اور ہم مخالف سمت میں اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ جب انہیں پتہ چلاتو کیا ہوا یہ ایک الگ داستان ہے۔ ان کی ہاؤ ہو کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہر نے عدالت میں حدود آرڈیننس کے تحت میرے خلاف ایک مقدمہ دائر کردیا جو اس کے چلے جانے اور عدم پیروی کی وجہ سے بالاخر خارج ہوگیا۔
شیری او رمیں مری سے لوٹ آئے۔ اماں کچھ دنوں سخت خفا رہیں پھر جب برف پگھلی اور شدید تنہائی نے انہیں ہراساں کیا تو کہنے لگیں، ’’اچھا ہوا شیری نہیں گیا، تھوڑی رونق رہتی ہے۔‘‘ میں اماں سے کیا کہتی کہ اماں اس ڈھنڈار بیکار زندگی میں اس خالی گھر میں میرے آنے پر کوئی تو ہوتا ہے جو محبت سے میری راہ دیکھتا ہے۔ اچھلتا کودتا، اظہار شوق کرتااور میرے پیچھے پھرتا ہے۔ میرے قدموں پر لوٹتا ہے۔ میرے سینے پر سر رکھ کر مجھے سکون دیتا ہے۔ ہمک کر میری بانہوں میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھ پر اتناحق سمجھتا ہے۔ بھلا ٹوٹ کر ایسا کسی نے مجھے کبھی چاہا ہے۔
ملنے والے کہتے ہیں جیسا تم شیری کو چاہتی ہو، ایسا تو بہت کم مائیں اپنے بچوں کو چاہتی ہیں۔ میں ان کی آواز میں چھپے طنز کو سمجھتی ہوں، مگر یہی محبت تو اب میری زندگی ہے۔ وہ میرا محبوب، میرا ہمدم میرا ساتھی ہے۔ جب سب طرف سناٹا ہوتا ہے تو اس سے اپنے دل کی باتیں کہتی ہوں، اس کو کھوئی ہوئی چاہتوں کے تذکرے سناتی ہوں۔ محبتیں جو مجھ تک پہنچ نہ پائیں اور چھن گئیں۔ لگاؤ جو میرا مقدر نہ بن سکے۔ وہ سارے گزرے نوحے جو جانے والوں کے لیے میرے دل میں بندھے، میں نے شیری کو سنائے۔ اس کے سینے میں میرے راز ہیں، وہ مکمل ساتھی ہے۔ چپ چاپ مجھے کام میں منہمک دیکھ کر تعرض نہ کرنے والا، میری کیفیات، میری خوشی غم سب اس پر عیاں، وہ نبض کی طرح میرے دل کے ساتھ دھڑکتا ہوا۔ انسانوں کی محبتوں میں یہ گرم جوشی اور خود سپردگی کہاں ہوتی ہے۔ شیری تو میرے لیے جان سے گزر سکتا ہے۔
مہر کے ساتھ مقدمہ کے سلسلے میں میں میری ایک مجسٹریٹ سے ملاقات ہوئی۔ میرے کاموں میں اس نے بہت دلچسپی لی۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری ملاقاتیں بڑھیں۔ میں اپنے دفتر سے آتے ہوئے یا ادھر سے گزرتے ہوئے اس کے پاس چلی جاتی۔ کافی کا پیالہ لے کر ادھر ادھر کی گپ ہوتی۔ شیری کی باتیں، اس کی ذہانت، اس کی چالاکیاں، گھر میں اس کی رونق، زندگی میں اس کا مقام، وہ سنتا اور دلچسپی سے یہ سب سنتا مگر اس نے کبھی یہ نہیں کہا وہ شیری کو دیکھنا چاہتا ہے۔ عجیب آدمی تھا۔ اب میں الجھنے لگی تھی۔ بھلا وہ کیوں نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہماری دوستی بڑھتی بھی رہی اور اس میں دراڑ بھی پڑتی گئی۔ میرا جی چاہتا وہ مجھ سے شیری کی باتیں پوچھے۔
پھر میں نے محسوس کیا جب میں شیری کی بات کرتی ہوں، وہ توجہ سے نہیں سنتا کوئی ادھر ادھر کی کہانی سنانے لگتا ہے۔ اپنی زندگی کے خلاؤں کا ذکر، اپنے دکھوں اور ارمانوں کا تذکرہ، اپنی دائم المریض بیوی کی بیماری کے عذاب کے قصے، اپنی تنہائی کے کرب کا افسانہ، اپنی خالی خولی بیکار (زندگی) کا المیہ جس میں پارسائی اور بے رنگی کے سوا کچھ نہ تھا۔ خدا کے ساتھ اپنےتعلقات کا کہتا جو کبھی استوار نہ ہوسکے تھے۔ خوابوں اور پرچھائیوں کی سی داستان۔ پتہ نہیں وہ مجھے کیا کہنا چاہتا تھا، کیا سمجھانا چاہتا تھا؟ میں جو خوش وقتی، گپ اور ذہنی آسودگی کے لے اس کے پاس چلی جاتی تھی، اس کی کیا مدد کرسکتی تھی بھلا۔ کیا ہلکی پھلکی دلچسپی کا دھارا کسی اور رخ پلٹنا چاہتا تھا۔
ایک دن اس نے پوچھا، ’’تم شیری سے ایک جانور سے اتنی شدید بے پناہ محبت کیوں کرنےلگی ہو جب کہ کئی اور انسان اس سے زیادہ توجہ کے مستحق اور متمنی ہیں۔‘‘ اس کی ہنسی بڑی معنی خیز تھی۔ پہلی بار مجھے شدید ذہنی دھچکا لگا۔
’’اور پتہ ہے لوگ کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں تمہارے متعلق؟‘‘ اس نے آنکھیں جھکا کر کہا۔
’’لوگ کس کس کی کہانیاں نہیں کہتے جناب۔‘‘میں کھڑی ہوگئی۔ میں کانپتی رہی۔ غصےاور رنج سے۔ دنوں میں ادھر سے نہیں گزری۔ پھر سنا اس کا تبادلہ ہوگیا۔ اس سال گرمی شدید پڑی، لگتا تھا قیامت اس سے زیادہ کیا ہوگی۔ ریت کے جھکڑ چلتے، آسمان زرد گرد کے بادلوں کے پیچھے چھپ گیا تھا جو نہ برستی تھی اور نہ ہٹتی تھی بس عجیب ریزہ ریزہ ہوکر وجود کو دہکاتی تھی اور گھٹن اتنی تھی کہ سانس رکتا ہوا لگتا تھا۔ کمروں میں بھی پناہ نہ ملتی، میں شیری کو دیکھتی کہ اس کی آنکھیں زرد ہوئی جاتی ہیں۔ وہ بہت کم جاگتا اور نہلائے جانے کے باوجود گرمی کی لپٹیں اس کی سانس سے نکلتی تھیں۔ برف کا بلاک منگوا کر میں کمرے میں رکھتی، آگ برساتا ہوا پنکھا اور کولر کچھ نہ کر سکتے۔ شیری دن بدن گھلتا جارہا تھا۔ میں اسے تسلی دیتی، جی سے لگاتی۔
’’شیری ہمت پکڑو، یہ ذرا سے سخت دن ہیں، نکل جائیں گے۔ موسم بدلے گا،گرد چھٹ جائے گی، مزیدار سردی آئے گی۔ اب کے دیکھنا خوب ہڈیوں کا گودا جمانے والی ٹھنڈ پڑے گی تمہارے وطن کی طرح، میرے لاڈلے! میں تمہارے لیے کڑھنے کے سوا اور کیا کرسکتی ہوں۔ اگر اماں کا بڑھاپا نہ ہوتا، گھر میں کوئی اور ہوتا، میرے وسائل ہوتے، تو میں تمہیں کسی ٹھنڈے پرسکون خطے میں لے جاتی، میرے چاند حوصلہ رکھو۔‘‘ میں اس کے سنہرے بالوں پر ہاتھ پھیرتی جو اس کی کھال کو چھوتے تو بخار کا احساس ہوتا۔ وہ ذرا سی عف عف کرتا۔ میں بے تاب ہوتی، میں کیا کر سکتی تھی۔ اپنے پیارے کے لیے اس اجنبی کے لیے اس پردیسی کے لیے۔
مہر کا تار آیا۔ رستم کی طبیعت سخت خراب تھی وہ ہسپتال میں تھا۔ نور اکیلی تھی اور پردیس میں تھی، اماں کو بلوایا تھا۔ اماں نے کہا تم چلی جاؤنا، آخر بہن ہو، مجھ سے تو ہلا بھی نہیں جاتا۔ میں اس کے کس کام کی ہوں گی۔ پچھلی باتیں بھول جاؤ۔ اسے معاف کردو۔ شیری کو اس حال میں چھوڑتے ہوئے میرا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا مگر مجبوری تھی ہائے میں کیا کروں۔ اماں نےکہا، تم فکر نہ کرو میں یہاں گھر پر اس کی خوب دیکھ بھال کر لوں گی۔ روانہ ہونے سے پہلے میں نے برف والے کو تاکید کی کہ وہ روز بلاک خود کمرے میں رکھ جایا کرے۔ الماری میں تقریباً سامنے میں نے دوائیاں، بسکٹ، ضروری سامان رکھ دیا تا کہ ضرورت پڑنے پر ڈھونڈنے میں تکلیف نہ ہو۔ جاتے ہوئے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ میں دروازے میں سے پلٹ آئی۔ شیری آنکھیں موندے لیٹا تھا اور گرمی کی شدت سے تپ رہا تھا۔ سینے سے لگاکر میں نے اس کے کان میں کہا شیری میں جلد لوٹ آؤں گی گھبرانا نہیں۔ بس یوں سمجھو میں گئی اور آئی۔
جدہ میں خلاف توقع مجھے زیادہ دن ٹھہرنا پڑا۔ رستم پر دل کا جان لیوا دورہ پڑا تھا اور وہ بہت آہستہ صحت یاب ہورہا تھا۔ اماں کا فون آتا، مہر نہایت دھیمے سروں میں بات کرتی، بڑی غم ناک ہوتی، مجھے بھی اس پر ترس آتا۔ کبھی کبھار کہتی اماں تمہارا پوچھ رہی تھیں، خیریت سے تھیں، رستم کے لیے نہایت فکر مند تھیں مگر اپنی صحت کی وجہ سے نہیں آسکتی۔ میں اس سے یہ نہ کہہ پاتی کہ اب کے جب اماں کا فون آئے تو شیری کا بھی پوچھ لینا۔ جس دن ڈاکٹروں نے اطمینان کا سانس لیا، اور رستم کی حالت کو خطرے سے باہر قرار دیا، مہر کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور اس کے چہرے پر رونق آئی۔ میں نے اس کے منع کرنے کے باوجود اپنی سیٹ بک کروا لی۔
’’آخر جلدی کیا ہے تمہیں، اماں کی خیریت تو معلوم ہو ہی جاتی ہے۔ یہاں سے تار دے کر چھٹی بڑھوائی جا سکتی ہے۔‘‘
بس اب میں جانا چاہتی ہوں، شیری بیمار تھا۔‘‘
اپنی ساری کمینگی کو آواز میں بھر کر اس نے کہا ’’اوہ!‘‘ اور پھر پلٹ کر تیزی سے کہنے لگی، ’’اگر وہ نہ رہا تو تم بیوہ تو نہیں ہوجاؤگی۔‘‘ میں اس کے گھر میں اس کے شوہر کی تیمارداری کے لیے مصیبت میں شریک ہونے کی خاطر اتنی دور سے آئی بیٹھی تھی اور وہ مجھے شیری کے طعنے دے رہی تھی۔ بنا اس سے مزید بات کیے میں سامان لے کر ائرپورٹ آگئی۔
گھر میں سب طرف عجیب سناٹا تھا، حالانکہ دن کے تقریباً دس بجے تھے۔ اماں ابھی تک سوئی ہوئی تھیں۔ کمروں میں ادھر ادھر دیکھتی شیری کو پکارتی میں اندرآئی۔ شیری اپنے وجود کا سایہ لگ رہا تھا۔ سہما ہوا گھلا ہوا۔ اس کے پاس جھک کر میں نے پکارا، شیری دیکھو میں آگئی ہوں۔ نقاہت کی وجہ سے اس کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ ہلکے سے عف کرکے رہ گیا۔ میں نے اس کے سر کو سہلایا، شیری۔شیری! میں نے زور سے پکارا۔ اماں کہنے لگیں تمہیں میں نے مہر سے کہلوایا تو تھا شیری سخت بیمار ہے، وہ بھی دکھی ہو رہی تھی۔میں بھاگی، ڈاکٹروں کو فون کیے، دعا کرتی رہی۔ خدا سے میں نے کہا، ’’دیکھ اگر تو نے مجھ سے شیری لے لیا تو میں تیری ہستی میں یقین کرنا چھوڑدوں گی۔ اگر تجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تو مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تیرا خیال ہے تیری اس دنیا میں محبت کی روشنی کے بناپر جیا جاسکتا ہے؟ اتنے گہرے اندھیرے تونے بنائے ہیں، کیا اجالے کی ایک کرن دینے کا بخل بھی نہیں کرناچاہتا۔ تو سنتا ہے کہ نہیں، یہ چاہنے والی آنکھیں ہیں، انہیں بے نور نہ کر، الفت بھرا دل ہے اسے دھڑکنےکے لیے چھوڑ دے۔‘‘
مگر وہ آسمانوں پر کہیں دور بیٹھا جانے کس تانے میں کون سا بانا پرونے میں مگن تھا کہ اس نے میری بات سنی ہی نہیں، پتہ نہیں وہ کیوں مجھ سے خفا تھا کہ اس نےمیری تڑپ کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ڈاکٹروں کی ساری بھاگ دوڑ بیکار گئی۔
مہرمیں بیوہ ہوگئی۔
اماں نے کہا، ’’وہ تو تمہارے جاتے ہی سخت بیمار ہوگیا تھا۔ میں بے آس تھی مگر پتہ نہیں کیسے اتنے دن تمہارے انتظار میں جی لیا۔ اپنےطور پر میں نےڈاکٹروں سے علاج کروایا تھا۔ تم سمجھتی نہیں ہو، مجھے بھی اس کی بہت پرواہ تھی، بڑی رونق رہتی تھی اس کی وجہ سے۔‘‘
میرا دل ایک ویرانہ تھا جس میں تیز غم ناک آندھیوں کے شور کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ اذیت اور بے چارگی نے میرے دل کو مسل کر رکھ دیا۔ یہ ایک جانکاہ عذاب تھا۔ جس کا اس سے پہلے میں نےکبھی تجربہ نہیں کیا تھا، تب بھی نہیں جب میں نے اس کا دل زیبا کی طرف سے اپنی طرف لگانا چاہا تھا۔ بے خواب راتیں ، تاریک دن، صرف ایک ہی خیال تھا، ہائے شیری نے میرے لیے کتنی اذیت برداشت کی، آخر کیوں کی؟
اور اب وہ سب مجھے یاد آتے ہیں۔۔۔ شیری کے پیچھے وہ سب۔
وہ جو کبھی میری راہوں سے گزرے۔۔۔ میں جو کبھی ان کی راہوں میں آئی۔
کیا آدمی اتنی بے ریا، بے لوث، بے پایاں محبت کرنے کا اہل ہے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.