کہانی کی کہانی
گھر سے دور اپنے باپ کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرنے والے ایک بچے کی کہانی ہے، جو اپنی ماں کی یاد میں ہمیشہ اداس رہتا ہے۔ ایک دن ایک مسافر کا سامان اٹھاتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ وہ انہیں کے گاؤں جا رہے ہیں۔ بچہ ان کی باتیں سن کر مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے باپ سے ان کے ساتھ جانے کی ضد کرتا ہے۔ مگر باپ انکار کر دیتا ہے۔ بچہ رونے لگتا ہے اور جب گاڑی چلتی ہے تو وہ اس کے نیچے گر جاتا ہے۔ لیکن کسی طرح بچےکو بچا لیا جاتا ہے۔
’’میرا بچہ۔۔۔میرا بچہ۔۔۔‘‘ دفعتاً فضا میں چیخ بلند ہوئی۔
پلیٹ فارم پر یہاں سے وہاں تک ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ بے تحاشہ مغرب کی جانب لپکے۔ بھیڑ کے درمیان ایک ادھیڑ آدمی اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے، ’’میرا بچہ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھا۔ اس کی آنکھیں جن میں خوف و دہشت کا سایہ تھا، پلیٹ فارم کی بغل میں نیچے ریل لائن کی جانب لگی تھیں۔ گاڑی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ گزرتی ہوئی گاڑی کے اندر سب لوگ اپنے اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ اور انہیں کلیجے سے لگاکر اطمینان کی سانسیں لے رہے تھے۔
ابھی ابھی کچھ دیر پہلے اسٹیشن پر بے حد بھیڑ تھی۔
ٹرین کھلنے میں چند منٹوں کی دیر تھی۔ بیوی بچوں کو لیے ہوئے وہ ٹکٹ کھڑکی کی طرف بڑھا تو دور ہی سے لمبی لائن دیکھ کراس کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے بیوی کی طرف دیکھا وہ اس کی نظروں کا مطلب سمجھ گئی۔
’’لیجئے ۔ بچہ پکڑیے۔۔۔‘‘
اس نے بیوی کو روپے دیتے ہوئے بچے کو گود میں لے لیا۔ بیوی لیڈریز کاؤنٹر کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، ’’سامان پر نظر رکھیے گا۔‘‘
بیوی کی پرانی بات اسے یاد آئی۔۔۔ ایسے آپ عورت سمجھ کر لاکھ نظر انداز کیجئے، لیکن بھیڑ میں ٹکٹ کھڑی کی پرز ور آزمائی کے لئے میری ہی ضرورت پڑتی ہے۔
اس معاملے میں اس کی بیوی چاق و چوبند تھی۔ حالانکہ شادی سے پہلے اس نے کبھی ٹکٹ نہیں کٹایا تھا۔ بلکہ برقع تک نہیں اتارا تھا۔ لیکن شادی کے بعد اس نے بیوی کا برقع اٹھادیا۔ وقت گزرتا گیا۔ شروع میں اسے دقتیں پیش آئیں، لیکن بعد ازاں اس گھریلو خاتون نے شادی شدہ زندگی میں ایک متحرک شریکِ سفر ہونے کا بارہا ثبوت دیا تھا۔
’’کیوں بھائی، لیڈیز کاؤنٹر سے بھی آپ لوگ ٹکٹ لیں گے۔۔۔؟‘‘ بیوی کے یہ کہتے ہی اس کاؤنٹر کے قریب کھڑے ہوئے لوگ سٹ پٹاکر پیچھے ہٹ گئے۔
اس کا بڑا بچہ اس کی ٹانگوں کے پاس کھڑا کھڑا چیخا، ’’ممی، ہم لیں گے ٹکٹ۔۔۔‘‘
اس کا بچہ مچلنے لگا۔ اپنا ہی نہیں، بڑوں کے بھی وہ سارے کام خود کرنا چاہتا تھا۔ فقیر کو پیسہ دینا ہوا تو اپنے ہاتھوں سے ۔ سبزی والے کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو کیا مجال کہ اس کے سامنے براہِ راست سبزی والے کو اس کی ماں پیسے دے دے۔ ماں پیسہ اسے دیتی۔ وہ سبزی والے کو دیتا اور سبزی والا جو پیسہ واپس کرتا وہ بھی اس کی معرفت۔ غرض اسے نظر انداز کرنا مشکل ہوتا تھا۔
اس کی بیوی ٹکٹ لے کر آگئی۔ اب جلدی سے پلیٹ فارم پر پہنچنا تھا۔ تیوہار کی چھٹی کی وجہ سے یوں بھی ٹرینوں میں بھیڑ رہنے لگی تھی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے اسٹیشن کے لئے کوچ کرنے میں بھی تاخیر کردی تھی۔ اس نے بیوی سے کہا، ’’ٹرین میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کرنا۔‘‘
’’آپ تو ہیں ہی کاہل۔۔۔ کیا مجال جو آپ کہیں جانے کے وقت سے پہلے تیار ہوجائیں۔‘‘
’’دیکھو۔۔۔ غلط بات مت کرو۔۔۔ ا ٓدھا گھنٹہ تو تمہیں میک اپ میں لگ جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ ٹرین کا لمبا سفر ہے۔ بھیڑ بھاڑ ہے۔۔۔‘‘ شوہرنے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’ذرا دیکھے۔ آپ کی تقریر کے دوران قلی سامان لیے آگے نکلا جارہا ہے۔۔۔ ذرا تیز چلیے۔۔۔ لپکئے پلیز۔۔۔‘‘
وہ آگے کی طرف لپکا۔۔۔ ’’تم بابو کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑو۔۔۔ میں اسے دیکھتا ہوں۔۔۔‘‘
قلی تیز تیز قدموں سے لپکا جارہا تھا۔شام کا ڈھند لکا بڑھ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ قلی رفو چکر ہوجانا چاہتا تھا۔ تقریباً دوڑتے ہوئے اس نے قلی اور اپنے بیچ کے فاصلے کو کم کیا۔۔۔ اس کے قریب آگیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ پکڑ کر اسے ٹوکتا، قلی کو جھک کر ا تنا بھاری بوجھ اٹھاکر چلتے اور زور زور سے ہانپتے دیکھ کر اچانک وہ عجیب کیفیتوں میں مبتلا ہوگیا۔ جذبہ ترخم سے اس کا سینہ سرشار ہوگیا۔۔۔ قلی جان دیتے ہوئے کس کا بوجھ ڈھورہا ہے۔۔۔ ا س کی بیوی بچوں کا۔۔۔ یا خود اپنا۔۔۔ یا پورا سسٹم۔۔۔
اسے اپنی بیوی پر بے حد غصہ آیا۔۔۔
ساری روشن خیالی کے باوجود کبھی کبھی بالکل عام ہندوستانی عورت میں تبدیلی ہوجاتی تھی۔ عدمِ تحفظ کا احساس۔۔۔ سب کچھ چھین لیے جانے کا خوف۔ جس کا سب کچھ خود ہی چھینا جاچکا ہو۔ بلکہ جس کو شاید کچھ ملا ہی نہ ہو۔ اس سے ایسی گھبراہٹ۔ لٹ جانے کا ا ندیشہ۔
اس کے قدم دھیمے ہوگئے۔ تب تک اس کی بیوی اور بچے بھی اس کے بغل میں پہنچ چکے تھے۔
’’کیا ہوا۔۔۔ قلی تو ا ٓگے ہی آگے نکلا جارہا ہے۔۔۔‘‘
’’ارے میڈیم تو نکلنے دو۔۔۔ کون سی ہماری دولت ان بکسوں میں بند ہے۔۔۔ اور پھر ہمارے پاس دولت ہے ہی کیا۔۔۔ ایک آپ ہیں، سومرے ساتھ ہم قدم ہیں۔۔۔ میرا خیال ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہم لوگوں کے لیے سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔‘‘
’’آپ کی شرافت کی تھیوری میں میرا سارا سامان نکل جائے گا۔۔۔اس میں بھیا کے بچوں کا کپڑا بھی ہے۔۔۔‘‘
’’بس تمہیں اپنے بھیا اور بھیا کے بچوں کے کپڑوں کی پڑی ہے۔۔۔‘‘
’’آپ بڑھیے تو سہی۔۔۔ یہ سب بڑے چور ہواکرتے ہیں۔۔۔ موقع ملے گا اور سامان پار کردیں گے۔۔۔‘‘
’’میں کہتا ہوں وہ ایسا نہیں کرے گا۔میں بھی آج اپنے اندازے کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔۔۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ جن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں اور پانے کے لئے ساری دنیا۔ کیا چند معمولی سے بکسوں کے بدلے۔۔۔‘‘
’’اب چپ بھی رہو۔۔۔ یہ منچ نہیں ریلوے پلیٹ فارم ہے۔۔۔‘‘ بیوی نے اسے جھڑکی دی۔
سیڑھیاں طے کرتے ہوئے وہ لوگ پلیٹ فارم نمبر ۶ پر آگئے۔ سامنے ٹرین نظر آرہی تھی۔ ایک بوگی کے سامنے قلی کھڑا ہوکر ان لوگوں کا انتظار کر رہا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی وہ سامان سمیت بوگی میں داخل ہوگیا۔
’’آئیے حجور۔۔۔ آئیے میم صاحب۔۔۔ آپ لوگوں کے لئے ایک سیٹ کا انتجام ہے۔‘‘ اس نے آٹھ دس سال کے ایک میلے کچیلے بچے کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’چل اٹھ ، میم صاحب کو بیٹھنے دے۔‘‘
اس نے بیوی کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے اندازے کے صحیح ہونے کی اس نے داد طلب کی۔ بیوی نے دیکھتے ہوئے ان دیکھا کردیا۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی شکستوں کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔
’’میم صاحب۔۔۔ آپ یہاں بیٹھ جائیے ۔۔۔ صاحب۔۔۔ آپ بکس پر۔۔۔ اور بچے کو گود میں لے لیجئے۔۔۔ ایک دو اسٹیشن کے بعد کئی سیٹیں کھالی ہوجائیں گی۔۔۔‘‘ قلی نے انہیں بتایا۔ لیکن میلا کچیلا لاغر سات آٹھ سالہ بچہ وہاں سے اٹھنے کے لئے تیار نہ ہوا۔
’’نہیں بابو۔۔۔ ہم نہیں اٹھیں گے۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ اس تیوہار میں گھر جرور چلیں گے۔۔۔۔ تم برابر گھر چلنے کے نام پر مجھے ٹرین میں بٹھا دیتے ہو۔۔۔ لیکن کبھی۔۔۔‘‘
’’ابے چل۔۔۔‘‘ قلی نے تھپر مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا۔
اسے رحم آگیا۔
’’ارے بھائی اسے کیوں مارتے ہو! بچہ گھر جانا چاہتا ہے تو کون سا گناہ کرتا ہے۔‘‘
’’حجور! اگر جائے گا تو کمائی کیسے ہوگی۔۔۔ پیٹ کا نرک کیسے بھرے گا۔۔۔ جتنا کرائے میں کھرچ ہوگا، اتنے میں تو گھر پر بہت سارا کام ہوجائے گا۔۔۔‘‘
اب بیوی نے غور کیا تو اسے یاد آیا کہ وہ اس کے محلے کا باشندہ تھا۔ رامو۔ بھومی ہین کسان، جس کی ماں اور باپ دونوں بیمار رہتے تھے۔ کھیت مزدوروں کے روزانہ اجرت میں اضافے کے آندولن میں آگے آگے رہتا تھا۔ اسی لیے بڑے کسان، غنڈہ اور پولیس گٹھ جوڑ کے مشترکہ عتاب کا نشانہ بنا۔ اس علاقے میں دانہ پانی مشکل ہوگیا تو اس جنکشن پر آکر قلی کا کام کرنے لگا۔ بیوی نے اسے بتایا کہ وہ اس کا پڑوسی تھا۔
قلی بھی اسے پہچان چکا تھا، جہاں اسے اپنے علاقے کے آدمی سے ملنے کی خوشی ہورہی تھی، وہیں یہ قلق ہورہا تھا کہ ایسے نزدیکی پڑوسی سے اپنی محنت مزدوری لینے میں اچھا نہیں لگے گا۔ اسے پچھتاوا ہوا کہ سامان اٹھانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی سگا سمبندھی نہ ہو۔ کتنا گھاٹا ہوجاتا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا۔۔۔ لیکن یہ تو اپنے علاقے کی بیٹی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پیسے نہیں لے گا۔
اس نے بیوی سے مشورہ کیا کہ جب بچہ اس کے میکے کے علاقے کا ہے تو کیوں نہ اسے ساتھ لے جاکر اس کی ماں کے پاس پہنچا دیا جائے۔یوں بھی انہیں اس قلی اور بچے سے بے پناہ ہمدردی ہورہی تھی۔
اس نے قلی سے کہا، ’’سنو بھائی، میں اس بچے کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں، تمہارے گھر اسے حفاظت سے پہنچا کر ہی میں اپنی سسرال جاؤں گا۔‘‘
’’حجور! آپ کی بڑی مہربانی۔۔۔ لیکن یہ پرائیویٹ کام کرتا ہے۔ اس کو چھٹی کہاں ملے گی۔ تیوہار کے اَوسر پر کام اور بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے کہاں نصیب کہ ہم تیوہار میں اپنے گھر جائیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ کھوسیاں منائیں۔ جو بچے ہوٹل میں کام کرتے ہیں ، ان کی یونین بھی نہیں بن سکتی۔ کوئی مانگ نہیں کی جاسکتی۔ بچوں کا کام کرنا تو گیر کانونی (قانونی) ہے نا حجور۔ اسی لیے مالک لوگ من مانی کرتا ہے۔۔۔‘‘ غصے سے قلی کا چہرہ تمتمانے لگا تھا۔
اس بچے کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ ایسی بجھی بجھی اداس آنکھیں اس نے پہلی بار دیکھی تھیں جو ہلکی سی چمک اس کی تجویز پر اس کی آنکھوں میں نمودار ہوئی تھی، وہ کسی گہری کھائی میں کب کی غائب ہوچکی تھی۔
سینے پر پتھر رکھتے ہوئے قلی کا بچہ سیٹ سے اٹھ گیا تھا۔
ٹرین سیٹی دے چکی تھی۔ اب ٹرین چلنے والی تھی۔ قلی نے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ بار بار کے اصرار کے باوجود اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ شوہر نے سوچا کہ یہ لوگ کتنے عجیب ہیں۔ مفلسی کے باوجود بعض قدروں کو اب تک ڈھورہے ہیں۔ روانہ ہونے سے قبل دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے ہوئے قلی نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کے بہت سارے جلتے ہوئے سوالات کی وہ تاب نہ لاسکا۔ وہ اپنے بچے کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے جانے کن کن کیفیتیوں سے گزر رہا تھا۔
قلی کا بچہ اس کی طرف عجیب ویران نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ مجرمانہ نظر سے وہ کبھی قلی کے بچے کے تقریباً روتے ہوئے اور بجھے سے چہرے کو اور کبھی اپنے بچے کے بشاش اور پرامید چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ قلی اور ا سکا بچہ ٹرین کے نیچے اتر گئے۔
ٹرین اب کھلنے والی تھی۔ کھڑکی کی بغل میں بیٹھا ہوا وہ باہر جھانک رہا تھا۔ دور مغرب میں لال لال خون آلودہ سورج غروب ہورہا تھا۔ غروب ہوتے سورج کے پیچھے قلی اپنے سر پر بوجھ اٹھانے اور اس کی بغل میں تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا اس کا بچہ۔ کچھ عجیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔
وہ مضطرب ہوگیا۔ بھول گیا کہ قلی کے سر پر جو بکس نظر آرہا تھا اس وقت ۔۔۔ بوگی میں تھا اور اس پر وہ خود بیٹھا ہوا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے لال لال غروب ہوتا ہوا سورج، بکس اور بوجھ سے دبتا ہوا قلی اور اس کا تھکا ماندہ اداس بچہ تھا۔
وہ فراموش کر گیا کہ وہ ایک لمبے سفر پر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ روانہ ہورہا تھا۔ طویل سفر اور سفر کی صعوبتیں۔۔۔ اس کے سامنے منہ پھیلائے اسے اور اس کے بیوی بچوں کو نگلنے کے لئے کھڑی تھیں۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ چاروں طرف اپنی اپنی دنیاؤں میں گُم سفاک آدمیوں کی ریل پیل تھی۔ قیامت کی افراتفری کا عالم تھا۔
وہ صرف ایک سورج، بھاری بھرکم بوجھ، ایک قلی اور گھر کو جانے کے لئے ایک ترستے اور تڑپتے ہوئے بچے کو اپنے وجود میں گھلتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
ٹرین چلنے لگی اور سورج بجائے غروب ہونے کے اگنے لگا۔
دفعتاً وہ بچہ اپنے باپ کا ہاتھ چھڑا کر دوڑتے ہوئے اس کھڑکی کے پاس آیا۔ ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے وہ اکھڑی ہوئی آواز میں بولا، ’’میری ماں سے کہہ دیجئے گا کہ منا ملا تھا۔۔۔ اور میری ماں سے کہہ دیجئے گا صاحب کہ اسے اپنی ماں کی بہت یاد آتی ہے۔۔۔ وہ ماں سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔ وہ رات میں ڈر کر نیند سے اٹھ جاتا ہے اور صبح تک ماں کو۔۔۔‘‘
ٹرین کی رفتار بڑھ گئی۔ وہ بچہ پیچھے رہ گیا۔ ٹرین کے شور میں اس کی مزید باتیں گُم ہوگئیں۔
ناگاہ قلی کے بچے کا پیر پھسلا۔
چلتی ہوئی ریل گاڑی اور پلیٹ فارم کی درمیانی خلیج میں وہ گر گیا۔
وہ چیخ پڑا، ’’میرا بچہ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘
اس کی بیوی نے سراسمیگی سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کے اچھے بھلے شوہر کو اچانک کیا ہوگیا۔ اس کا شوہر کھڑکی کے باہر نگاہ ٹکائے ہوئے تھا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ پاگلوں کی طرح دہاڑیں مار مار کر رونے لگا، ’’کوئی بچاؤ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘
اس کی بیوی نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا، ’’کھڑکی کے باہر کیا دیکھ رہے ہو۔ تمہارا بچہ تو گاڑی میں بیٹھا ہے۔۔۔‘‘
شوہر نے دیوانگی کے عالم میں اپنے بچے کی طرف ایک نظر دیکھا، لیکن اس کی بدحواسی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کھڑکی کے باہر وہ مسلسل دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے بدبداتا رہا، ’’میرا بچہ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘
لائن کو روندتی ہوئی ٹرین گزر چکی تھی۔ ادھیڑ عمر کے قلی نے پلیٹ فارم کی دیوار سے چپکے ہوئے سہمے سہمے بیٹے کو صحیح سلامت دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی، ’’بچ گیا۔۔۔ بچ گیا۔۔۔‘‘ کہتا ہوا وہ دوڑا۔ ہاتھ نیچے بڑھاکر اس نے بیٹے کو کھینچا۔ اوپر آنے پر گلے لگایا۔ اس کا بدن ٹھنڈا تھا۔
پورا مجمع مسرت سے ہمکنار تھا۔ سب لوگ بیٹے کی جان بچ جانے پر خوش ہورہے تھے۔ باپ نے بیٹے کو دوبارہ گلے لگایا تو اسے گہری طمانیت اور سکون کا احساس ہوا۔ ساری دنیا جیسے اس کے چاروں طرف رقص کر رہی تھی۔ باپ نے طرح طرح کے رنگ برنگے چہچہاتے ہوئے پرندے اپنے آس پاس دیکھے۔ اس کے سر اور کندھوں پر پرندوں نے گیت گانا شروع کردیا۔ باپ ایسی کیفیت سے کبھی نہیں گزرا تھا۔ بیٹا خود متحیر تھا۔ اس کے باپ نے ایک مدت کے بعد اسے اس طرح بھرپور شفقت سے گلے لگایا تھا۔
اچانک باپ کو کچھ یاد آگیا۔
’’چل بیٹے۔۔۔ دیر مت کر۔۔۔ اگلی گاڑی یارڈ سے نکل کر پلیٹ فارم پر لگنے والی ہے۔ ۔۔۔ جلدی کر بیٹے۔۔۔ جلدی۔۔۔ اس بار ٹھیک سے دیکھ کر بوجھ اٹھاؤں گا کوئی ناطے دار نہ ہو۔۔۔‘‘
بیٹے کی آنکھوں کے آگے پھر وہی کثیف دھواں تھا۔ خوشنما پرندے کہیں غائب ہوچکے تھے۔ باپ کی نگاہوں کے سامنے بھاگتی دوڑتی ٹرین تھی جو سب کو منزل تک پہنچاتی تھی، لیکن جس کی اپنی کوئی منزل نہیں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.