رات آدھی گزر چکی تھی۔
شہر کی رونق میں کمی آگئی تھی۔
گھروں اور سڑکوں کے بلب تھکے تھکے لگ رہے تھے جیسے جلتے جلتے اب اس میں جلنے کی سکت نہیں رہی تھی لیکن شالنی تھکے ہونے کے باوجود بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ کئی دنوں سے اس کی آنکھوں سے نیند ہجرت کر گئی تھی بلکہ اس دن سے جس دن محفوظ خاں کو مشتعل بھیڑ نے مارمار کر قتل کر دیا تھا۔ اس کے دونوں بیٹے نظیر اور ظفیرکو بھی اتنا مارا تھا کہ وہ لہو لہان ہو گئے تھے لیکن وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ شالنی کی بے چینی میں روز بروز اس لئے اضافہ ہوتا جا رہا تھا کیونکہ محفوظ خاں کے قتل میں اس کا شوہر گنیش بھارتی بھی ملوث تھا۔ اس دنگنیش بھارتی کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ اس کے موبائل پر کسی نے خبر دی کہ کچھ مسلمان گائے کو کاٹنے کے لئے لے جا رہے ہیں، بس پھر کیا تھا گنیش بھارتی نے اپنے چند ساتھیوں کو فون کرکے اس کی اطلاع دی اور فوراً باہر نکل گیا۔ پھر جو کچھ ہوا شالنی نے ٹی۔وی۔ پر دیکھا تو سکتے میں آ گئی۔ جب گنیش بھارتی گھر لوٹا تو بے حد خوش تھا جیسے کوئی جنگ جیت کر آیا ہو۔ شالنی نے کہا تھا۔۔۔
’’یہ آپ لوگوں نے اچھا نہیں کیا۔ اگر وہ لوگ گائے لے جا رہے تھے تو پولس کو خبر کرنی تھی۔ پولس گرفتار کرتی۔ انہیں سزا دیتی لیکن سر راہ کسی کو اس طرح مارنا نہ مذہب اجازت دیتا ہے نہ انسانیت۔۔۔‘‘
’’خبردار۔۔۔ اس معاملے میں کچھ بھی بولا۔ گائے ہماری ماتا ہے اور کوئی اس کا ودھ کرے گا تو ہم اس کا بھی ودھ کر دیں گے۔‘‘
شالنی خاموش ہو گئی۔ وہ مزید بحث کرنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ گنیش بھارتی ابھی تک غصے میں تھا۔ شالنی فوراً وہاں سے ہٹ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
اس حادثے کے بعد گنیش بھارتی اکثر گھر سے غائب رہتا۔ کیونکہ چینلس نے جو فوٹیج دیکھایا تھا۔ گنیش بھارتی اس میں پیش پیش تھا۔ اسے پتہ تھا کہ ریاست میں اس کی پارٹی کی سرکار ہے اور اس کی پہنچ منتری تک ہے۔ اس لئے اسے کچھ نہیں ہوگا لیکن اس کے اندر کہیں نہ کہیں یہ ڈر ضرور تھا کہ کوئی دوسرا بھی تو اس پر حملہ کر سکتا ہے۔
شالنی اس دن سے بے چین رہنے لگی تھی۔ دن بھر گھر کے کام میں مصروف رہتی لیکن جب رات کو بستر پر جاتی چینل والے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے اور وہ پریشان ہو اٹھتی۔ اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہو جاتی۔
ابھی وہ ان ہی مناظر سے دو چار تھی کہ اسے لگا دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے۔ وہ ڈر گئی۔۔۔ کون ہو سکتا ہے۔۔۔کہیں پولس تو نہیں یا کوئی آتنک وادی۔۔۔وہ خوف سے لرز گئی۔
’’کون ہے؟‘‘۔۔۔شالنی نے ڈرتے ہوئے پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر بستر پر دراز ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک آواز ابھری۔۔۔
’’میرے بچے کئی دن سے بھوکے ہیں۔۔۔ہماری گائے واپس کر دو بابو ۔۔۔ہماری گائے واپس کر دو۔۔۔‘‘
شالنی ڈر گئی۔۔۔یہ کس کی آواز ہے۔۔۔کہیں محفوظ خاں کی آتما تو نہیں بھٹک رہی ہے۔۔۔وہ اسی طرح بستر پر سہمی بیٹھی رہی لیکن آواز دوبارہ نہیں آئی۔ اس نے سوچا کیا واقعی محفوظ خاں کی آتما بھٹک رہی ہے یا میرا وہم ہے۔۔۔ وہ تذبذب میں تھی ۔ گھر میں کوئی اور نہیں تھا جس کو وہ یہ سب بتا سکے۔ اس کے گھر کے بغل میں ہی اس کاایک گؤشالہ تھا جہاں گائیوں کی دیکھ ریکھ کرنے والے کئی مزدور رہتے تھے۔ شالنی اٹھ کر گؤ شالہ کی طرف چلی گئی۔ اس نے دیکھا دونوں مزدور سو رہے ہیں۔ اس نے آواز دے کر انہیں جگایا۔
’’جگا ذرا باہر جا کر دیکھو۔ مجھے لگا کوئی آواز دے رہا ہے۔‘‘۔۔۔ جگا اور سوہن دروازہ کھول کر باہر آ گئے لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔
’’مالکن یہاں تو کوئی نہیں ہے۔‘‘ ۔۔۔جگا بولا۔
’’ہو سکتا ہے میرا وہم ہو۔۔۔ٹھیک ہے جاؤ سو جاؤ۔۔۔‘‘
جگا اور سوہن سونے کے لئے چلے گئے لیکن شالنی پوری رات جاگتی رہی اور وہی آواز بازگشت کرتی رہی۔
’’کئی دن سے میرے بچے بھوکے ہیں ۔ہماری گائے واپس کر دو بابو۔‘‘
اس دو جملے نے شالنی کو اندر تک جھنجوڑ دیا تھا۔ وہ محفوظ خاں کے اہل خانہ کو دیکھنا چاہتی تھی کہ کس حال میں ہے۔ کیا واقعی اس کے بچے بھوکے ہیں۔ کیونکہ میڈیا بار بار بتا رہا تھا کہ محفوظ خاں گائے کا دودھ بیچ کر ہی اپنے خاندان کی پرورش کر رہا تھا اور اسی لئے میلے سے گائے خرید کر لے جا رہا تھا لیکن اس حادثے نے اس کے پریوار کا پورا شیرازہ ہی بکھیر دیا تھا۔
جب شالنی کی بےچینی میں کسی طرح کی کمی نہ ہوئی تو ایک دن اپنے جسم پر ایک چادر ڈال کر اور چہرے پر اسکارف باندھ کر گھر سے نکل گئی اور محفوظ خاں کے گاؤں پہنچ گئی۔ گاؤں کا معمولی گھر تھا۔ کئی بچے گھر کے باہر کھیل رہے تھے۔ شالنی کو دیکھ کر بچے ٹھٹھک گئے۔ شالنی نے دروازے پر دستک دی۔ دو عورتیں ایک ساتھ باہر آئیں۔
’’کہئے کس سے ملنا ہے؟‘‘—— محفوظ خاں کی بڑی بہو صابرہ نے پوچھا۔
’’آپ ہی لوگوں سے ملنے آئی ہوں۔‘‘——شالنی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’لیکن میں نے آپ کو پہچانا نہیں!‘‘ —— صابرہ، شالنی کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’میرا نام سلطانہ ہے، میں پاس کے گاؤں میں رہتی ہوں۔ آپ لوگوں کے بارے میں جو خبر سنی تو رہا نہ گیا‘ ملنے چلی آئی۔‘‘
صابرہ کو لگا کہ کوئی ہمدرد عورت اس سے ملنے آئی ہے تو وہ پھٹ پڑی۔
’’کیا کہوں بہن، ہم لوگوں کا تو سب کچھ لٹ گیا‘ ہمارے سسر ہی ہمارے گھر کی پوری ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ ہمارے شوہر تو صرف ان کی مدد کرتے تھے۔ بڑے سکون سے زندگی گزر رہی تھی لیکن خدا ان لوگوں کو غارت کرے جن لوگوں نے ہمارے سسر کی جان لی اور میرے شوہر اور دیور کو زخمی کر دیا۔ جمع پونجی ان کے علاج میں چلی گئی۔ اب تو کھانے کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ بچوں کا اسکول جانا بند ہو گیا ہے۔ کوئی ہمدرد آتا ہے، کچھ روپیوں سے مدد کر جاتا ہے تو بچوں کی بھوک مٹتی ہے۔ اللہ کبھی ان ظالموں کو معاف نہیں کرےگا جن لوگوں نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔‘‘
’’بہن تمہارے حالات سن کر واقعی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن اللہ نے چاہا تو حالات جلد بدل جائیں گے۔ فی الحال یہ کچھ روپے رکھ لو ۔ یہ ایک بہن کی طرف سے ایک بہن کی مدد ہے۔‘‘—— شالنی نے اپنے چھوٹے سے پرس سے پانچ پانچ سو کے پانچ نوٹ نکال کر صابرہ کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور فوراً وہاں سے نکل گئی۔ بچے شالنی کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ محفوظ خاں کابڑا پوتا اکرم ماں کے پاس آیا اور پوچھا۔۔۔
’’یہ کون تھی ماں۔۔۔‘‘
’’چاچی تھیں۔۔۔‘‘
’’ماں مجھے بھوک لگی ہے ‘ کچھ کھانے کو دو نا۔۔۔‘‘
’’ہاں، چلو بیٹا چولہا گرم کرتی ہوں۔ اس ہمدرد بہن نے اتنے روپے دئیے ہیں کہ کچھ دنوں تک چولہا گرم ہو سکتا ہے۔‘‘۔۔۔یہ کہہ کر صابرہ اندر گئی اور تھیلا لے کر کھانے کا سامان لینے دکاندار کے پاس چلی گئی۔
شالنی گھر پہنچ کر خوب روئی۔ گھر کے حالات دیکھ کر اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ جب خوب رو چکی تو اٹھ کر کچن میں چلی گئی اور کھانے کا انتظام کرنے لگی۔
شالنی نے کچھ روپے دے کر محفوظ خاں کے اہل خانہ کی فوری مدد تو کر دی تھی لیکن اتنے روپے کتنے دن کام آئیں گے پھر بھوک اس کے دروازے پر دستک دےگی اور بچے بھوک سے بلکتے نظر آئیں گے۔ شالنی چاہتی تھی کہ وہ کوئی مستقل حل نکالے تاکہ ان کے گھر میں دو وقت کا چولہا تو جل سکے۔ وہ سوچتے سوچتے تھک گئی لیکن کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ کئی دن سوچنے کے بعد شالنی ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔ بار بار وہ اپنے فیصلے پر غور کرتی۔۔۔کبھی اس کا دل کہتا یہی ٹھیک رہےگا۔۔۔ کبھی اسے لگتا یہ غلط ہے۔ آخر ایک دن اس نے مستحکم ارادہ کر لیا۔ وہ اٹھی، گؤشالہ میں پہنچی اور ایک گائے کے پاس پہنچ کر جگا کو کہا۔۔۔’’اس گائے کو میرے ساتھ لے کر چلو۔‘‘
جگا گائے کو لے کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ شالنی محفوظ خاں کے گھر پہنچی اور صابرہ کو آواز دیا۔ دونوں بہوئیں باہر آئیں۔ شالنی نے گائے کی رسی صابرہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی۔۔۔
’’تمہارے لئے یہ گائے لائی ہوں بہن۔ آج سے یہ تمہاری ہے۔۔۔ تم لوگ اس کا دودھ بیچ کر کم از کم بچے کی بھوک تو مٹا ہی سکتی ہو۔۔۔ اچھا چلتی ہوں۔۔۔ خدا حاف۔۔۔‘‘
شالنی جیسے ہی پلٹی صابرہ نے کہا——
’’رکئے بہن‘‘——شالنی رک گئی۔
’’ہم یہ گائے نہیں لے سکتے، کل پھر کوئی اس گائے کو دیکھ کر ہمارے گھر آئےگا اور کہےگا کہ ذبح کرنے کے لئے گھر میں رکھا ہے اور میرے شوہر کا قتل کر دےگا۔ اپنے سسر کو کھو چکے ہیں۔ اپنے شوہر کو کھونا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر صابرہ نے گائے کی رسی شالنی کو پکڑا دی۔ شالنی نے بے بسی سے دونوں بہوؤں کو دیکھا اور گائے کی رسی جگا کے ہاتھ میں دے دی۔ جگا گائے کو لے کر آگے بڑھ گیا اور شالنی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ وہ اس طرح قدم بڑھا رہی تھی جیسے کوئی جنگ ہار کر آئی ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.