شکوہ
”اے خدا تو کہاں ہے ؟ جاگتاہے یا سوتا ہے ؟ کیا تو اپنے بندوں کے شر سے عاجز آگیا ہے ؟؟؟ذرا آنکھیں کھول اور اس ناچیز پر ایک نظر کرم ڈال۔ تو نے مجھے کیوں بھلادیا؟ کیوں نظر انداز کردیا؟ یہ نہ سوچا کہ تونے جسے نظروں سے گرایا اس کا توبیڑا ہی غرق ہوگیا۔ آخر میری خطا کیا تھی؟ میں نے تجھے دیکھے بغیر تجھ پر یقین کرلیا۔ میں نے تجھے محسوس کیا، کائنات کے ذرّے ذرّے میں، پتے پتے میں، پیڑپودوں میں ، چشمے سےابلتے ہوئے آبشاروں میں، سمندر کی بپھرتی ہوئی لہروں میں، پہاڑوں کی بلندو بالا چوٹیوں پر ، ہواؤں میں فضاؤں میں ہر جگہ تجھے خود سے قریب پایا ۔ پھر بھلا میں کیوں کر تیری ذات سے منکر ہوسکتی تھی ؟
مجھے یہ شکوہ نہیں کہ تو نے مجھے ایک غریب گھرانے میں کیوں پیدا کیا۔ امیری غریبی کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں ۔ سب سے بڑی دولت تو سچی خوشی ہے ۔ اگر ہر انسان دولت مند ہو جائے تو پھر دنیا کا کارو بار کیسے چلے ؟ تیرا کوئی کام خالی از مصلحت نہیںہوتا۔ لیکن مجھے ایک ظالم اورجابر شخص کے حوالے کر نے میں تیری کون سی مصلحت پوشیدہ تھی ؟ مجھے تیری کرم فرمائیوں سے انکار نہیں۔میری صورت میں تو نے ایک خوبصورت نمونہ پیش کیا۔ میں تیر ی قدرت کا شاہکار ہوں۔ تیرا یہ احسان کیا مجھ پر کم ہے کہ تو نے مجھے صحیح سالم بنایا۔اگر میںلنگڑی لولی ہوتی ، اندھی کانی ہوتی تو تجھے کیا فرق پڑتا؟ میں تیرا کیا بگاڑ لیتی؟ تو میرا مقروض تو نہ تھا؟؟؟
تیری انھی نوازشوں نے میرے باپ کی مشکل آسان کر دی۔ ایک شخص مجھ پر مرمٹا۔ میری صورت کا دیوانہ ہوگیااور بڑی آسانی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ یہ اچھی صورت بھی کیا عجب شے ہے ، کبھی رحمت بن جاتی ہے اورکبھی زحمت ۔ بظاہر وہ ایک معقول اور خوش اخلاق شخص ہے مگر اندر کا حال سوائے تیرے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ تو پھر، اگر میںپوچھوں کہ تو نے مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا تو میں احسان فراموش ، ناشکر گزار اور نافرمان گردانی جاؤں گی۔ لیکن تیرے سوا اورکس سے کہوں؟ ایک توہی توہے جو بغیر کسی سفارش کے اپنے بندوں کی سنتاہے ۔ تجھ تک پہنچنے کے لیے کسی سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ تیرے اور تیرے بندوں کے درمیان کوئی تیسرا حائل نہیں، کوئی پردہ نہیں۔ تو تو سب کی سنتاہے۔ اپنے بندوں کے دکھوں کو دور کرنے والا ہے۔ تو سزا بھی دیتا ہے ، اورجزا بھی۔ اب صرف اتنا بتا دے کہ میری سزا کی معیاد کیاہے ۔ اس میں کسی ترمیم کی گنجائش ہے یا نہیں؟ میں تیری رحمت کی منتظر ہوں ۔ تو تو دلوں کا حال جاننے والا ہے ۔ تجھے ضرور یہ علم ہوگا کہ مجھے دولتِ دنیا کی ہوس نہیں ۔ میں نے کبھی محلوں کے خواب نہیں دیکھے۔ عیش و عشرت کی کبھی مجھے خواہش نہیں رہی ۔ میں تو صرف خلوص و محبت کی خواہاں ہوں۔ لیکن تیری یہ دنیا فریبی ، دھوکے باز، مکار، چالاک، دغاباز اور لالچی لوگوں سے بھری پڑی ہے جو دن رات زمین پرفساد پھیلاتے رہتے ہیں ۔ لوگوں کی مجبوری کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی نظروں میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہر طرف دہشت گردی کی حکمرانی ہے او رتو تماشائی بنا بیٹھا ہے ۔ آخر یہ چھوٹ کیوں؟میں مسلسل ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہوں ۔ مکروفریب کا شکار ہورہی ہوں ۔اپنے سسرال والوں کی ہوس کی بھٹی میں جل رہی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خالی ہاتھ آئی ہوں۔ اگر خالص ہڈی ہے تو کیا ہوا۔ خالی ہڈی کو تو کتا بھی نہیں پوچھتا۔ میرے میکے والوں کا کہنا ہے کہ شریف لڑکیوں کا ڈولہ جس گھر میں جاتاہے وہیں سے اس کا جنازہ بھی اٹھتاہے۔ میر اشوہر رات کے جانے کس حصّے میں نشے میں چورایک نئے مطالبے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتاہے اور مجھے تشدد کا نشانہ بنا نا شروع کردیتا ہے۔ میں تھرّاجاتی ہوں ۔ مجھے اپنے آس پاس موت کے سائے رقص کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ اب میں اس کے ظلم کی آگ میںجل کر راکھ ہوجاؤں گی۔ اڑوس پڑوس والے تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔حق کا ساتھ دینے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہے ۔وہ دنیا وی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھے بیٹھے ہیں ۔ اب تو ہی بتامیںکیا کروں؟توہی مجھے کوئی راستہ دکھا۔ تیری مہر بانیوں سے میں اب بھی مایوس نہیںکہ مایوسی کفر ہے ۔ آخر میں پھر اپنا سوال دہراتی ہوں........ مجھ غریب پر یہ ظلم کیوں؟“
اچانک دل سے ایک آواز آئی ....
”میں یہاں ہوں۔ مجھ سے شکوہ کر نے والے ، پہلے تو اپنے گریبان میں جھانک کردیکھ ۔تیرے ہر سوال کا جواب تجھے مل جائے گا۔“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.