Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیشے کی کرچیں

طارق چھتاری

شیشے کی کرچیں

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    وارڈ کے سب مریض گہری نیند سوتے رہے اوروہ صبح کے انتظار میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح ہوتے ہی مریمؔ اپنی ٹیم کے ساتھ سفید ایپرن پہنے، گلے میں آلہ لٹکائے آہستہ سے آئے گی اور پوچھےگی۔

    ’’کوئی پرابلم ؟‘‘

    ’’جی نہیں ڈاکٹر۔۔۔‘‘وہ ہمیشہ یہی کہتا لیکن مریمؔ اس جواب سے کبھی مطمئن نہین ہوتی اور بیڈ سے لٹکی کیس شیٹ پڑھنے لگتی۔ انویسٹی گیشن رپورٹیں، ٹیمپریچر چارٹ اور ٹریٹمنٹ کارڈ دیکھتے وقت اس کے چہرے پر بے چینی کے آثار تھرمامیٹر کے پارے کی طرح بڑھنے گھٹنے لگتے۔ جس دن اپنا ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھ کر دھیرے سے آنکھوں پر لے آتی تو وہ سمجھ جاتا کہ آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ مریمؔ کے ہاتھ کی نرمی اور سختی سے اپنی حالت کا اچھی طرح اندازہ لگانے لگا تھا۔

    ’عجیب مرض ہے، جوں جوں بڑھتا ہے، تکلیف کا احساس مٹتا جاتا ہے۔ مریم بھی کچھ نہیں بتاتی۔۔۔ وہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے مگر ہر بار لگتا ہے کہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔

    سچ۔۔۔؟

    لیکن مجھ سے آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ میری ماں نے بھی نہیں۔ باپ کو تو خیر میں نے دیکھا ہی نہیں۔ اب ماں کی شکل بھی دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ کس کس طرح سے میں نے ان آنکھوں کو سلامت رکھا ہے۔ میں دنیا کو پہچانتا ہوں مگر دنیا مجھے نہیں پہچانتی، سوائے مریم کے۔ وہ مجھے دیکھتی ہے، ماتھے پر ہاتھ رکھتی اور کچھ کہنا بھی چاہتی ہے۔آخر کیا کہنا چاہتی ہے وہ۔۔۔؟‘

    ’’وہ۔۔۔ وہ‘‘۔ لگاتار ’’وہ۔۔۔ وہ ‘‘ اور پھر ایک ہی تال پر ’’وہ۔۔۔ وہ‘‘ کا طویل سلسلہ۔ گویا اس کے سینے میں دل نہیں ’’وہ‘‘ دھڑک رہی ہو۔

    ’’اگر اس نے کچھ کہہ دیا تو۔۔۔‘‘

    ’’تو کیا؟ یا تو میں ٹھیک ہو جائوں گا، یا پھر اسی وقت مر جائوں گا۔‘‘

    ’’تو میرے مرنے کے ساتھ ہی وہ بھی مر جائےگی؟ وہ جو ایک آواز ہے۔ وہ جو میرے سینے کے اندر ہے۔‘‘ اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔

    صبح ہو گئی تھی۔ وارڈ بوائے نے مریضوں کو ناشتہ دینا شروع کر دیا تھا۔ ماحول اداس اور فضا خاموش تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ سارے مریض اسی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی ناشتہ کر رہا تھا، کوئی ابھی تک چادر تانے سو رہا تھا تو کوئی وارڈ میں بےمقصد ادھر ادھر ٹہل رہا تھا کہ ایک زوردار چھناکا ہوا۔ آج پھر اس سرپھرے مریض نے چائے پی کر گلاس دیوار سے دے مارا تھا۔ چاروں طرف شیشے کی کرچیں بکھر گئی تھیں۔ وہ دور لیٹا یہ منظر دیکھتا رہا، پھر لیٹے لیٹے نظروںسے کرچوں کو سمیٹنا شروع کیا تو اسے لگا کہ وہ شیشے کی کرچوں کو نہیں اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹ رہا ہے۔۔۔ اتنے میں ڈاکٹر مریم کیبن سے نکل کر سرپھرے مریض کے پاس آن کھڑی ہوئی۔

    ’’ڈاکٹر مجھے کیا ہو جاتا ہے؟‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آرہے ہوں گے۔ شاید کوئی دو ابد لیں۔‘‘ڈاکٹر مریم نے مریض کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ وہ بھی سائڈ ریک پر رکھا گل دان دیوار سے دے مارے اور۔۔۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکا، کیونکہ اسی لمحے ڈاکٹر مریم کی نظر اس پر پڑ گئی اور وہ قریب آکر بولی۔

    ’’تم ٹھیک ہو جائوگے۔ مسٹر۔۔۔‘‘ نام دیکھنے کے لیے کیس شیٹ پر نظر ڈالی۔

    ’’مریم تو دوسرے ڈاکٹروں سے الگ ہے پھر بھی نام۔۔۔؟

    ’’ہاں تم بالکل ٹھیک ہو جائوگے۔‘‘ ڈاکٹر مریم نے پھر کہا اور خاموشی سے چلی گئی۔

    ’’میں اس کامطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔بالکل ٹھیک ہو جائوگے یعنی جلد ہی مر جائوگے، بس چند روز اور۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر رابرٹ رائونڈ پر آ گئے تھے ۔مریمؔ بھی ان کے ساتھ تھی۔

    ’’وہ کسی بھی مریض کو دیکھ رہی ہو ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈال لیتی ہے۔ اب وہ لوگ ادھر ہی آ رہے ہیں، مریم کی چال دھیمی کیوں ہونے لگی۔۔۔؟ ارے وہ تو اپنے کیبن میں جا رہی ہے۔ کیامیرے پاس نہیں آئےگی۔ جاتے جاتے ایک بار پھر اس نے مجھے دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں جس کے بچنے کی امید نہیں ہوتی، وہ اس کے پاس آنا کم کر دیتی ہے۔ ابھی تک اس کا دل ڈاکٹروں کے دل کی طرح سخت نہیں ہو پایا ہے۔‘‘

    ڈاکٹر رابرٹ ایک ایک کرکے مریضوں کو دیکھتے ہوئے اس کے بستر کی طر ف بڑھ رہے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ جب ڈاکٹر رابرٹ کسی مریض کی تمام رپورٹیں، ایکس رے پلیٹیں اور پوری کیس ہسٹری اپنی ٹیم کے سارے ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں، کچھ دیر سمجھاتے ہیں اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر اس مریض کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں تو سمجھیے کہ وہ دن اس مریض کی زندگی کا آخری دن ہے۔

    ’’آج کس کی باری ہے۔۔۔؟ اس سرپھرے مریض کی۔۔۔؟ نہیں، اسے تو آج دیکھا بھی نہیں، بس آگے بڑھ گئے۔ پھر کون ہے جو آج مرنے وا لا ہے۔ میں؟‘‘

    اور پھر اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر رابرٹ اپنے جونیرس کے ساتھ اس کے سرہانے آکر کھڑے ہو گئے۔ رپورٹیں دیکھیں، کیس ہسٹری پڑھ کر سب کو سنائی۔ وہ کانپنے لگا تو ڈاکٹر رابرٹ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ آواز اس کے اندر گھُٹ کر رہ گئی۔

    ’’نرس، ہیموگلوبن ٹیسٹ کرو۔ ڈرپ چڑھانے کا انتظام کرو اور آکسیجن سیلنڈر اسٹور سے نکال کر یہیں رکھ لو۔۔۔‘‘

    اس کے سینے میں درد کی لہر اٹھی اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں تو اس نے پورے بدن کو ڈھیلا چھوڑ دیا، جیسے مرنے کی تیاری کر رہا ہو۔

    رات میں کسی وقت درد کی شدت سے آنکھ کھل گئی۔ دم گھٹنے لگا، فضا میں ہوا جیسے تھی ہی نہیں۔ زخمی پرندے کی طرح ہاتھ پائوں پھڑ پھڑائے اور بہت مشکل سے بھاری پپوٹوں کوتھوڑا سا ہٹانے میں کامیاب ہو سکا۔ دیکھا کہ اس کے چاروں طرف ہرے پردے کا کیبن بنا ہوا ہے، ایک نرس اسٹول پر بیٹھی اونگھ رہی ہے اور پھ رنرس کی گردن نیند سے ایک طرف ڈھلک گئی۔ نرس کاچہرہ دھندلا پڑنے لگا اور ڈاکٹر مریمؔکا چہرا ابھر آیا۔

    ڈاکٹر مریمؔ۔۔۔ نہیں میری مریمؔ۔۔۔! ’’مریم اب سو جائو۔ مجھے بھی بہت نیند آ رہی ہے۔‘‘ پھردھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ لمحے بھر کو اندھیرا چھایا مگر پھر پتلیوں سے تیز روشنی پھوٹی اور اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ صبح ہو رہی ہے اور وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں ناشتے کی میز پر بیٹھا مریمؔ کا انتظار کر رہا ہے۔ مریم ؔآئی اور اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

    ’’تم اتنے تنہا کیوں رہتے ہو؟‘‘یہی سوال ایک بار اس کے ایک دوست نے کیا تھا۔

    ’’مجھے تنہائی پسند ہے۔ ابھی تک مجھے ایسا کچھ نہیں ملا جو۔۔۔‘‘

    ’’ملےگا۔‘‘

    اس نے کہا تھا ’’ملےگا‘‘ اور آج مل بھی گیا، مریمؔ کی شکل میں، اس طرح کے سوال کرنے والا ایک دوست۔

    دوست؟

    ’’لیکن وہ تو ایک ڈاکٹر ہے۔ مجھ سے نہیں میرے مرض سے اس کا رشتہ ہے۔‘‘

    اس نے ذہن سے مریمؔ کے خیال کو جھٹکنا چاہا۔ آنکھیں کھولیں تو نظر اسپتال کی بالکونی پر پڑی۔ بالکونی بالکل سونی اور خالی تھی۔ تھوڑی دیر یوں ہی گھورتا رہا پھر آنکھیں بند کیں تو ا س یتیم خانے کے ایک کونے سے، جہاں بچپن گزارا تھا، ایک چھوٹا سا خوبصورت فلیٹ ابھرتا نظر آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اور مریمؔ اس چھوٹے سے فلیٹ کی بالکونی میں آکر بیٹھ گئے ہیں۔

    ’’مریمؔ وہ کتنا حسین لمحہ ہوگا جب خدانے تمھیں بنانے کی پلاننگ کی ہوگی۔‘‘

    ’’اور وہ لمحہ؟ جب میری قسمت میں آپ کو لکھا ہوگا۔‘‘

    ’’پتا نہیں وہ لمحہ اچھا تھا یا برا۔‘‘

    ’’برا۔‘‘وہ جلدی سے بول پڑی اور دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔

    ’’میں اسپتال جارہی ہوں، لوٹتے میں ڈرائنگ روم کے لیے پردے لیتی آئوں گی۔‘‘

    ’’کلر؟‘‘

    ’’ہاں بھئی مجھے آپ کی پسند معلوم ہے۔‘‘

    ’’اوکے‘‘

    ’’ٹھیک ہے اب میں تیار ہوتی ہوں۔ جائوں؟ ‘‘مسکراتے ہوئے بولی۔

    جب مریمؔ بادامی رنگ کی ساڑی پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تو اس کادل دھک سے رہ گیا۔

    ’’اتنی خوبصورت ہے مریم؟ مریمؔ بھی خوب ہے کبھی تو دکھائی ہی نہیں دیتی اور جب دکھائی دیتی ہے تو اتنا کہ۔۔۔‘‘

    اس کی رگوں میں تنائو محسوس ہوا، جیسے بدن سے جان نکل رہی ہو۔ پوری طاقت سے خود کو سنبھالا۔ ڈرائنگ روم کے آسمانی پردے آنکھوں کے بہت قریب آکر لہرانے لگے۔ اب پردوں کا رنگ بدلنے لگا تھا اور اسپتال کے ہرے پردوں کا دائرہ تنگ ہو گیا تھا۔ وہ جاگ رہا تھا لیکن لگا کہ ایک طویل نیند کے بعد ابھی ابھی جاگا ہے۔ نرس اسٹول پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ گلوکوز قطرہ قطرہ اس کے جسم میں اتررہا تھا اورڈاکٹرمریمؔ اپنے کیبن میں سوچکی تھی۔ اسے یادآیا کہ آج ڈاکٹررابرٹ نے اپنی ٹیم کے ساتھ آکر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    سانسیں اکھڑنے لگیں۔ نرس نے آکسیجن کا سلینڈر سنبھالا۔ اس کی نظروں میں چھوٹا سا فلیٹ ہنڈولے کی طرح جھولنے لگا۔

    ’’نہیں۔۔۔ میں مریمؔ کو، اپنے گھر کو، اس ڈرائنگ روم کوجسے میں نے مریمؔ کے ساتھ مل کر، یا شاید اکیلے ہی سجایا ہے اور اس خوبصورت زندگی کو جس نے میرے اندر دھیرے دھیرے جنم لیا ہے، چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔

    آج رات سے پہلے جب مریم میری زندگی میں نہیں تھی تو کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ یہ گھر، نہ ڈرائنگ روم، نہ پردے اور نہ میں۔ مگر اب یہ دنیا میرے لیے ایک خوبصورت پینٹنگ کی طرح ہے، دیوار پر لگی ایک پنٹنگ۔ ابھی ایک لمحے پہلے یہ پنٹنگ خریدتے وقت مریمؔسے کتنا جھگڑا ہوا تھا۔

    ’’تم صرف ڈاکٹر ہو۔ سارا وقت اسپتال میں گزارتی ہو۔ تمہارا ٹیسٹ بالکل خراب ہو گیا ہے۔ تمھیں اچھی چیز پسند ہی نہیں آتی۔‘‘

    مریمؔ نے میری طرف کتنے پیار سے دیکھا تھا اور آنکھیں اس طرح جھپکی تھیں جیسے کہہ رہی ہو۔

    ’’میری پسند تو تم ہو ۔۔۔‘‘

    اور پھر ہم پینٹنگ کو دیوار پر لگاکر صوفے پربیٹھ گئے تھے۔

    ہرے پردوں کا دائرہ بہت تنگ ہو گیا تھا۔ فلیٹ اب بھی ہنڈولے کی طرح جھول رہا تھا، کھڑکی کے شیشے ٹوٹ چکے تھے اور کرچیں اس کی آنکھوں میں بھر گئی تھیں۔ کھڑکی سے دکھائی دینے والا صوفہ سکڑکر اسپتال کے تین پایوں والے اسٹول کی شکل اختیار کر چکا تھا، جس پر نرس بیٹھی اونگھ رہی تھی۔

    ’’صوفہ کہاں غائب ہو گیا؟ اس پر بیٹھی مریمؔ کہاں چلی گئی؟ یہ آنکھوں میں اندھیرا کیوں چھانے لگا ہے؟ میرا گھر کہاں گیا؟ تو کیا میں۔۔۔؟ نہیں میں ابھی مر نہیں سکتا۔ مریمؔ، میری مریمؔ، میرے بغیر۔۔۔! نہیں میں اسے اکیلے چھوڑکر کیسے جا سکتا ہوں، مجھے رکنا ہوگا۔ مریمؔ۔۔۔‘‘

    ’’یس سر۔۔۔ کیا بات ہے؟ ڈاکٹر مریمؔ کو بلائوں۔۔۔؟

    ’’نہیں۔۔۔ ڈاکٹر کو نہیں میری۔۔۔‘‘ نرس نے دیکھا کہ اس نے کچھ اور بھی کہنے کی کوشش کی مگرہونٹ محض پھڑپھڑا کر رہ گئے۔

    ’’کہیں سانس نکل نہ جائے۔‘‘ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے سانس روکنے لگا، نرس سمجھی کہ دم نکل رہا ہے۔ سانس رکتی رہی اورچلتی رہی اورجب دل کی دھڑکنیں کئی روز تک ’’مریمؔ مریم میری مریم‘‘ کی لے پر چلتے چلتے رواں ہو گئیں تو ڈاکٹروں کو اس کے زندہ بچ جانے پر شدید حیرت ہوئی۔

    ’’کرشمہ ہو گیا مریمؔ ! اس مریض کی حالت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹررابرٹ نے مریمؔ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

    کئی دنوں تک ڈاکٹروں نے اس پرخصوصی توجہ دی، مختلف انویسٹی گیشن ہوئے، ہرطرح کی جانچ کے بعد سبھی اس نتیجے پر پہنچے کہ مریض نے اپنے اندر غیرمعمولی ریزسٹینس پیدا کر لیا ہے۔ اب وہ غیرمعمولی طورپر خوش مزاج بھی ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی مریمؔ سے مذاق بھی کر لیتا۔ وہ بھی مسکراکر جواب دیتی۔ کئی روز تک دل ہی دل میں ان جملوں کو ترتیب دیتا رہتا جو اسے مریم سے کہنے ہوتے۔ وہ چاہتا کہ ایسی بات کہے جس سے اس کے دل کی حالت بھی بیان ہوجائے اور مریم برا بھی نہ مانے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی تھی۔ جب بھی مریم ؔڈاکٹر رابرٹ کے ساتھ ڈیوٹی پر ہوتی تو اسے سب سے بڑی دشمن نظر آتی، اس سے نفرت ہونے لگتی، جی چاہتا کہ وہ مریم کو قتل کر دے۔ وہ خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا مگر ایک روز جب اس نے دیکھا کہ مریم اس کے بستر کے پاس کھڑی رپورٹیں دیکھنے کے بجائے خودسپردگی کے انداز میں ڈاکٹر رابرٹ کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اور ڈاکٹر رابرٹ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے دبا دیا ہے، تو وہ خود کو قابو میں نہ رکھ سکا اور سرہانے رکھے گل دان کو دیوار پر اتنی زور سے دے مارا کہ کانچ کاایک بڑا ٹکڑا اچٹ کر مریم کے ماتھے پر جالگا اور چہرے پرخون کی ایک لکیر کھنچ گئی ۔ڈاکٹر رابرٹ نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’اس مریض کو ڈسچارج کر دینا چاہیے۔ اب یہ ہمارا کیس نہیں۔ کسی مینٹل۔۔۔‘‘

    ’’نہیں رابرٹ اسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ اسے اپنی پچھلی زندگی سے نئی زندگی کی کڑیاں ملانے میں دقّت ہو رہی ہے۔ اگر ہم بھی۔۔۔‘‘ اور پھر تم اچھی طرح جانتے ہو کہ علاج رکنے پر یہ بچ نہیں پائےگا۔‘‘

    ’’مریمؔ تم اسے کچھ زیادہ ہی۔۔۔‘‘

    ’’اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ہے رابرٹ اور جانتے ہو اس نے اپنی کہانی صرف مجھے سنائی ہے۔ جب میں نے کرسمس پر اسے ایک رومال لاکر دیا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔ اسی رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔‘‘

    ’’پہلی بار نکلے ہیں۔ اس میں بھی ایک مزہ ہوتا ہے، مجھے احساس ہی نہیں تھا۔‘‘

    رابرٹ نے جیب سے رومال نکال کر مریمؔ کے ماتھے کاخون پونچھا۔ ’’چلو پہلے ڈریسنگ کر والو۔‘‘ اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ کئی دن بعد جب مریم آئی تو وہ نظر یں جھکائے بستر پر بیٹھا تھا۔ مریمؔ قریب آکر کھڑی ہو گئی، وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ مریمؔ نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ‘‘ویری گڈ۔ مجھے یقین ہے اگر تم اسی طرح بیماری سے لڑتے رہے تو ایک دن بالکل ٹھیک ہو جائوگے۔‘‘

    اس نے مریم کی طرف دیکھا، دل میں خواہش جاگی کہ اس کے ماتھے پر بندھی پٹی کو سہلائے۔ ہاتھ اٹھا مگر کپکپا کر رہ گیا۔

    اس طرح بیماری سے لڑتے رہے تو ایک دن بالکل ٹھیک ہو جائوگے۔‘‘ مریم کا جملہ ذہن میں گونجنے لگا۔

    ’’کیا میں سچ مچ ٹھیک ہو جائوں گا!‘‘

    یہ خیال مزید پریشانی کا باعث بنا ۔وہ دن بھر بے چینی کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔

    شام ہونے کوتھی، ہوا تھمنے لگی تھی، مگر کبھی کبھی تازہ پھولوں کی خوشبو لیے ہوا کا جھونکا کھڑکی سے داخل ہوتا لیکن وارڈ کی بیمارفضا سے گزرکر اس کے بستر تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتا اوراسے احساس ہو جاتا کہ یہ اسپتال ہے، ہنڈولے کی طرح جھولتا کوئی خوبصورت فلیٹ نہیں۔ اس نے وارڈ میں چاروں طرف نظریں گھمائیں، اب پوری طرح شام ہو چکی تھی۔ مدھم روشنی کے بلب جل رہے تھے۔ کھڑکی کے باہر یوکلپٹس کے درخت کی شاخیں جھول رہی تھیں۔ وہ اٹھا اور ٹہلتا ہوا بالکونی میں چلا گیا۔ نیچے دور تک سیاہی مائل سبزہ پھیلا ہوا تھا۔

    ’’باہر زندگی کتنی خوبصورت ہے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی اسے اپنا جسم روح کا اندھیرا قیدخانہ محسوس ہوا۔ وارڈ کے نیچے ددر تک اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اندھیرے میں بنتے مٹتے سائے پھر اسی ہنڈولے کی طرح جھولتے فلیٹ کی سی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ مریم نے مہین نائٹی پہن رکھی ہے۔ بال شانوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اس نے اپنی انگلیاں مریم کے بالوں میں پروئیں۔

    ’’یا تو یہ مریم کے بال نہیں یا میری انگلیاں نہیں۔‘‘ غور سے دیکھا رابرٹ بڑے پیار سے مریمؔ کی زلفیں سہلارہا تھا۔ ڈرائنگ روم میں لٹکا فانوس اچانک گل ہو گیا۔ فانوس گل ہوتے ہی اندھیرا چھانے کے بجائے اس کی آنکھیں تیز روشنی سے چندھیا گئیں۔ دراصل نرس نے اسپتال کی بالکونی میں لگے بلب کو روشن کر دیا تھا اور بالکونی کا بلب روشن ہوتے ہی فلیٹ کا فانوس گل ہوگیا تھا۔

    ’’آپ یہاں۔۔۔؟ بہت رات ہو گئی ہے، اب آرام۔۔۔‘‘

    ’’نرس، ڈاکٹر مریم آج بھی رات کی ڈیوٹی پر نہیں ہیں نا۔‘‘

    ’’ہیں۔ بہت سی کتابیں لیے بیٹھی ہیں اور آپ کی فائل منگائی ہے۔‘‘

    ’’اکیلی ہیں؟‘‘

    ’’نہیں ڈاکٹر رابرٹ بھی ہیں۔‘‘

    ’’رابرٹ۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں، وہ اکثررات کو آدھے ایک گھنٹے کے لیے وارڈ میں آ جاتے ہیں، اگر ڈاکٹر مریمؔ ڈیوٹی پرہوں۔۔۔‘‘ نرس نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔ بالکونی میں لگا بلب خود بخود بجھ گیا یا اس نے سوئچ آف کر دیاتھا، نرس یہ نہیں دیکھ پائی اور مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

    اس کے بعد کئی دن تک اسے نیند نہیں آئی۔ دل کی رفتارمیں فرق آ گیا تھا۔ آج رات بھی وہ بستر پر لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا۔ ڈیوٹی روم میں مریم اور رابرٹ کافی پی رہے تھے۔ باہر موسم خراب تھا۔ ہوا کے تیز جھونکے وارڈ کی کھڑکیوں سے ٹکرا رہے تھے کہ ایک زوردار چھناکا ہوا۔ ایک کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کر بالکونی کے نیچے بکھر گئے، وہ اٹھا اور جھانک کر دیکھا، شیشے کی کرچیں منہ اٹھائے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ نہ فلیٹ ہے، نہ ڈرائنگ روم۔ نہ دیوار پر لگی پینٹنگ ہے، نہ مریمؔ اور نہ وہ خود۔ صرف شیشے کی کرچیں ہیں اور کچھ نہیں۔ وہ دیر تک شیشے کی بکھری کرچوں کو گھورتا رہا۔ رابرٹ اور مریم دونوں نے اسے بالکونی میں کھڑا دیکھا۔

    ’’رابرٹ چلو باہر چلتے ہیں۔‘‘

    اس موسم میں؟ کہاں؟‘‘

    ’’کہیں بھی۔ کینٹین۔‘‘

    ’’ابھی تو کافی پی ہے۔‘‘

    ’’چلو بھی، کہیں بھی چلتے ہیں۔ بس باہر۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    اور وہ دونوں وارڈ کی سیڑھیاں اترتے اسپتال سے باہر نکل آئے۔

    ’’مریم، ہوا کی سنسناہٹ میں بھی ایک رومانس ہوتا ہے۔ ‘‘

    ’’ہو سکتا ہے !‘‘

    ’’ہو سکتا ہے کیا مطلب، ہوتا ہے۔‘‘

    ’’رابرٹ جب ہوا تیز چلتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ ایک ہی رفتار سے چل رہا ہے۔ یعنی سب کچھ اپنی جگہ ٹھہر گیا ہے۔ دل پر چھائی اداسی کی طرح۔ ‘‘

    ’’پتا نہیں!‘‘ رابرٹ نے بےپروائی سے جواب دیا۔

    ‘‘رابرٹ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں اور وہ بھی اسپتال کے ایٹ موسفیئر سے دور۔‘‘

    ’’تو چلو نائٹ کلب چلتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں، وہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ کسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔‘‘

    ’’ریگل؟‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ اور وہ دونوں ریگل کے ایک کونے والی میز پر بیٹھ گئے۔ ریستوراں کے نیم تاریک ماحول میں دونوں تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے۔

    مریمؔ نے رابرٹ کے چہرے پر نظریں جمائیں۔ وہ بہت بیمار لگ رہا تھا۔ رابرٹ ہی کیوں آج تو اسے ہر شخص بیمار لگ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ بیماروں کے لیے ہمدردی اور خدمت کا جذبہ پہلی بار اس کے دل میں پیدا ہوا ہے۔ ہاتھ کپکپانے لگا اور دھیرے دھیرے کھسکتا ہوا رابرٹ کے ہاتھ کے اوپر جاکر ٹھہر گیا۔

    ’’کیا بات ہے مریم؟‘‘

    ’’میں بہت الجھن میں ہوں۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’رابرٹ۔۔۔ کیا تم۔۔۔ آئی مین۔۔۔‘‘

    ’’یس، میں۔۔۔ میں۔۔۔ آئی مین۔۔۔ آئی لو یو۔‘‘

    مریم کو لگا کہ رابرٹ کاہاتھ انگارے کی طرح دہک رہا ہے۔ میز پر رکھی کافی کی پیالیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا اور آہستہ آہستہ جھاگ بیٹھتے جا رہے تھے کہ مریم رابرٹ کی طرف جھکی اور اس کے کندھے پر سر ٹکاتے ہوئے بولی۔ ’’جتنا تم میرے قریب آرہے ہو، میں تم سے دور ہوتی جا رہی ہوں۔‘‘

    رابرٹ نے اپنی گرم ہتھیلی سے مریم کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے کیا کہا، یہ تو وہ سن نہیں سکی لیکن اب اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔

    ’’میں سمجھتا تھا تم مضبوط عورت ہو۔‘‘

    ’’اتنی کمزور بھی نہیں ہوں، لیکن سب اتنے مضبوط نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’سب کون؟‘‘ رابرٹ نے کافی کی پیالی اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’رابرٹ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ پیالی کوہونٹوں تک لے جاتے لے جاتے اس کا ہاتھ رک گیا۔ بغیر سِپ لیے ہی پیالی کو میز پر رکھ دیا اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔

    ’’تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘

    مریم نے اپنے ماتھے پر لگی چوٹ کے نشان کو چھوتے ہوئے کہا۔’’وہ بہت کمزور ہے۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔وہ کون؟ تم اس کا نام جانتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ایک مریض ہے۔‘‘

    ’’یہی تومیں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ صرف ایک مریض ہے۔ کچھ دن میں ٹھیک ہوکر چلا جائےگا۔‘‘

    ’’نہیں رابرٹ، وہ جب تک ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، تبھی تک زندہ ہے۔ جس دن ٹھیک ہو گیا، مر جائےگا۔ میں نے اس کے درد کو محسوس کیا ہے، اسے سمجھا ہے۔ وہ اپنی ایک دنیا بسا چکا ہے۔ اس کے ٹھیک ہوتے ہی شاید وہ دنیا اجڑ جائےگی اور۔۔۔‘‘

    ’’مریم اسے سمجھائو، وہ تمہاری بات سمجھتا ہے۔ وہ دنیا خوابوں کی دنیا ہے، اصل دنیا نہیں۔‘‘

    ’’بات اسے سمجھانے کی نہیں، تم سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘

    ’’میں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں رابرٹ۔ میری محبت اپنے آپ میں کچھ نہیں ہے۔ اس کا ہونا نہ ہونا کسی کی ضرورت پر ڈپینڈ کرتا ہے اور اسے میری ضرورت ہے۔‘‘

    ’’مریم تم نے زندگی کو سمجھاہی نہیں۔ جذباتی ہوکر زندگی کو سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔ ہم ڈاکٹر ضرور ہیں۔ مریضوں کے لیے بہت کچھ کرنا ہماری ڈیوٹی ہے مگر ہماری بھی زندگی ہے۔ ہم اسے اپنے ڈھنگ سے گزارتے ہیں۔‘‘

    ’’رابرٹ نہیں۔ شاید زندگی وہ نہیں جو ہم گزار رہے ہیں اصل زندگی وہی ہے جو وہ جی رہا ہے۔‘‘

    رابرٹ ہنس دیا اور مریم کو آغوش میں سمیٹتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’اس میں ایسا کیا ہے، جوہم میں نہیں۔۔۔؟‘‘یہ پوچھ کر شاید اس نے سنجیدگی کو توڑنے اور موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی لیکن مریم نے مزید سنجیدہ ہوکر جواب دیا۔

    ’’پتا نہیں؟ بس اتنا جانتی ہوں کہ جب وہ مجھے تمہارے ساتھ دیکھتا ہے تو اس کے اندرآگ سلگنے لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے نفرت جھلکتی ہے۔ اس وقت مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے وہ میرا گلا دبا دے۔‘‘ رابرٹ نے زور دار قہقہہ لگایا، دوسری میزوں پر بیٹھے لوگوں نے مڑکر اس طرف دیکھا اور وہ گھبراکر باہر لان کی طرف جھانکنے لگا۔

    ’’ہوا تھم گئی ہے، لان میں چلتے ہیں۔‘‘

    لان میں ایک چھوٹاسا سوئمنگ پول تھا۔ صاف شفاف پانی میں چاند کا عکس پڑ رہا تھا۔ جو چاند آسمان پر سفید تھا وہ پانی میں زرد دکھائی دے رہا تھا۔ آسمان کے چاند اور پانی کے چاند کے فرق سے مریمؔ اچھی طرح واقف ہو چکی تھی۔ رابرٹ مریمؔ کے دونوں کندھوں کو پکڑکر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ مریم کے ہونٹ کپکپائے، آنکھیں بند ہونے لگیں تو رابرٹ نے اپنے سخت ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ مریم نے آنکھیں کھولیں اور آسمان کی طر ف دیکھا۔ چاند کا رنگ اور زیادہ نکھر آیا تھا۔ مریمؔ نے رابرٹ کے بالوں کو مٹھی میں بھرا اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا لیے۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھے چاند کے زرد عکس کو گھور رہے تھے۔

    ’’پتا نہیں رابرٹ، سچ کیا ہے؟ وہ بھی سچ ہے۔‘‘ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’اور یہ بھی سچ ہے۔‘‘ پانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

    ’’تم جانتی ہو ہم جلدی ہی شادی کرنے والے ہیں۔ پھریہی سب۔۔۔؟‘‘

    ’’رابرٹ اگر میں تم سے شادی کر بھی لوں تویہ اسی طرح ہوگا جیسے ہم پانی کے چاند کو دیکھ کر سمجھیں کہ یہ ہماری دنیا میں روشنی بکھیر رہا ہے اور یہ بھول جائیں کہ اصل چاند تو آسمان میں ہے، ہم سے بہت دور۔‘‘

    ’’لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تم اس چاند کو پکڑنے کی کوشش کر رہی ہو جو ہے ہی نہیں۔‘‘

    اچھا مریم اب اس بات کو یہیں ختم کرو۔‘‘

    ’’میں بھی یہی کہتی ہوں، اس بات کو یہیں ختم کرو۔‘‘

    ’’مریمؔ۔۔۔‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ ’’تم خود کو دھوکا دے رہی ہو۔ وہ ایک مریض ہے۔ پتانہیں کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کیا تم اس کے ساتھ۔۔۔‘‘

    ’’معلوم نہیں۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ جب پتا چلا کہ دنیامیں اس کا کوئی نہیں۔ وہ تنہا ہے تو مجھے لگا کہ میں اس کے ساتھ ہوں ۔میں نہیں سمجھ پاتی کہ یہ کیا ہے۔؟‘‘

    ’’یہ کچھ نہیں ہے ۔تم ایک نرم دل عورت ہو، اس پر ترس کھانے لگی ہو۔ تم جانتی ہوکہ اس نے اپنے اندر جو ریزسٹینس پیدا کر لیا ہے اس کی وجہ تم ہوا اور اب اگر وہ مرا تو تمہاری ہی وجہ سے مرےگا اور تم یہی نہیں چاہتیں۔ لیکن تمہیں نہیں معلوم کہ اس کو بچانے کی کوشش میں تم ختم ہو رہی ہو۔‘‘

    مریم اٹھی، آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کرسمس کے درخت کے نیچے جاکر کھڑی ہو گئی اور سوچنے لگی کہ یہ درخت اپنی جڑیں گہرائی تک زمین میں اتارتے چلے جاتے ہیں اور خود آسمان کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ ان کا سفر دونوں سمتوں میں ہوتا ہے۔ مگر مجھے ایک، صرف ایک طرف بڑھنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس نے مڑکر دیکھا، رابرٹ تھکا ہارا سا ایک بینچ پر بیٹھا دکھائی دیا۔ دل بھر آیا، قدم خود بخود اس کی طرف بڑھنے لگے۔ آسمان پر نگاہ کی۔ بادل کے ایک سیاہ ٹکڑے نے چاند کو اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ چاروں طرف اندھیرا تھا، گہرا سناٹا تھا اور سناٹے میں بس ایک آواز گونج رہی تھی۔ ’’اسے بچانے کی کوشش میں تم ختم ہو رہی ہو مریم۔۔۔ تم ختم ہو رہی ہو۔‘‘

    ’’نہیں، میرا بچنا ضروری ہے۔ اسے بچانے کے لیے بھی میرا بچنا ضروری ہے۔‘‘

    مریم کی رفتارمیں تیزی آ گئی اور وہ چند لمحوں میں رابرٹ کے قریب جا پہنچی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔

    ’’چلو بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘

    رابرٹ نے بھی آہستہ سے مریم کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مریم نے محسوس کیا کہ اتنی نرمی اور اتنی مضبوطی سے رابرٹ نے پہلی بار اس کا ہاتھ پکڑا ہے۔ بیک وقت نرمی بھی اور سختی بھی۔ زندگی کے اس پہلو کی حقیقت اب اس پر رفتہ رفتہ کھل رہی تھی۔ وہ رابرٹ کے قریب آگئی اور دھیرے سے بولی۔

    ’’رابرٹ یہ ہاتھ اسی طرح زندگی بھر تھامے رہنا۔‘‘

    ’’تم بھی وعدہ کرو، کبھی چھڑانے کی کوشش نہیں کروگی۔‘‘

    ’’وعدہ کیا۔‘‘

    اب وہ دونوں زیادہ دیر سنجیدگی قائم نہیں رکھ سکے اور کھلکھلاکر ہنس پڑے۔

    سیاہ بادل کی اوٹ میں چاند کے چھپتے ہی بہت سے چھوٹے چھوٹے تارے اپنے وجود کا احساس کرانے لگے تھے۔ تارے آسمان پرچمک رہے تھے لیکن ان دونوں کو لگ رہا تھا کہ ان کی راہ میں بکھرے پڑے ہیں۔ گویا وہ زمین پر نہیں، آسمان پر چل رہے ہوں۔ اب وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سرکاری اسپتال کی طرف لوٹ رہے تھے۔ چاہتے تو تھے کہ سفر کبھی ختم نہ ہو مگر تھوڑی ہی دیر میں اسپتال کے گیٹ پر جاپہنچے۔ سیڑھیاں چڑھ کر وارڈ میں داخل ہوئے ۔مریض سو چکے تھے، ڈیوٹی روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ اندر چلے گئے۔

    میز پر اس مریض کی فائل کھلی پڑی تھی۔ کھڑکی سے آسمان پر چمکتا چاند صاف دکھائی دے رہا تھا۔ بادل کا سیاہ ٹکڑا کہیں اور جا پہنچا تھا۔ مریم ؔنے میز پر پڑی فائل کو اٹھایا اور مختلف رپورٹوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ رابرٹ نے بھی اپنی کرسی اس کے قریب کھینچ لی ۔چند لمحوں بعد دروازے پر آہٹ ہوئی۔ پھر یہ آہٹ باربار ہونے لگی۔ باہر اندھیرا تھا۔ جھانک کر دیکھا ایک سایہ نظر آیا، انھیں محسوس ہوا کہ کوئی شخص دروازے تک آتا ہے، سامنے سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس کے پائوں کپکپاتے ہیں اور واپس لوٹ جاتا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بہت دیر تک دیکھتے رہے۔ باہر وہی آنے اور لوٹ جانے کاسلسلہ جاری تھا کہ ایک زوردار آواز ہوئی، کھڑکی سے ٹوٹ کر شیشے کے گرنے کی سی آواز۔ مریم اور رابرٹ گھبراکر کیبن سے نکل آئے ۔مریمؔ کے ہاتھ میں اس کی فائل تھی۔

    ’’کیا ہوا؟ یہ کیسی آواز تھی۔۔۔ کون ہے وہاں؟‘‘

    مریم کی آواز کانپ رہی تھی۔ وارڈ کے کچھ مریض بھی جاگ گئے، نرس آ گئی۔ وارڈ میں سارے مریض موجود تھے، صرف وہ غائب تھا۔ ڈاکٹر رابرٹ اور مریم نے بالکونی سے جھانک کر دیکھا، زمین پر ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے پڑے تھے اور جگہ جگہ خون کے نشان تھے۔

    ’’مریم یہ خون کے نشان۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں رابرٹ وہ بالکونی سے کود کر بھاگا ہے، ننگے پائوں۔‘‘

    ’’لیکن کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’زینے کے راستے میں ہمارا کیبن تھا اور شاید اس کو پار کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اسی لیے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ بیچ میں علاج چھوڑ کر چلے جانا، موت کو بلانا ہے۔‘‘

    ’’جانتا تھا، اسی لیے چلا گیا۔‘‘

    مریم نے گہری سانس لی اور ایک بار پھر خون کے نشان دیکھنے کے لیے نیچے جھکی۔

    ’’وہ دیکھو رابرٹ۔۔۔ کچھ دور جاکریہ نشان غائب ہو گئے ہیں۔۔۔‘‘

    رابرٹ نے مریم کا ہاتھ تھام لیا۔ مریمؔ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولی۔ ’’زخمی پیروں پر مردہ کھال کے جوتوں کا خول چڑھا کر سمجھا ہوگا کہ شاید سفر آسان ہو جائے۔۔۔‘‘

    مریمؔ کیس ہسٹری کی فائل لیے بالکونی میں گم صم کھڑی تھی۔ رابرٹ نے مریم کے ہاتھ کو ،جسے اس نے پہلے تھام رکھا تھا، مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مریم کی گرفت فائل پر ڈھیلی پڑنے لگی کہ ہوا کا تیز جھونکا آیا۔ فائل کے کاغذ اڑے اور ایک ایک کرکے بالکونی کے نیچے پڑے خون سے سنے شیشے کی کرچوں کے ننگے بدن کو ڈھکنے لگے۔ مریمؔ نے آہستہ سے رابرٹ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور واپس وارڈ میں آنے لگی۔۔۔ رابرٹ جو سمجھا تھا کہ ہمیشہ کے لیے اس نے مریم کا ہاتھ تھام لیا ہے، تنہا بالکونی میں کھڑا رہ گیا۔

    وارڈ میں پہنچ کر مریمؔ نے دیکھا کہ وہ رومال جو اس نے کرسمس کے موقع پر اس مریض کو دیا تھا، بڑے سلیقے سے بستر پر رکھا ہوا ہے۔ وہ لمحے بھر کے لیے رکی اور پھر تیزی سے اپنے کیبن کی طرف چل پڑی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے