شعبدہ باز
یہ میرے بچپن کی بات ہے اور مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔
میں خالہ کے ہاں جاوید کے ساتھ کھیل رہا تھاکہ خالوایک اشتہار پکڑے اندر آئے ۔
’’اری سنتی ہو فریدہ بیگم۔بنارس کا کوئی شعبدہ باز آرہاہے اب کی بار۔ نقوی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ تو اپنی آنکھیں اتنی باہر نکال لیتا ہے کہ پیچھے سے پپوٹے بھی بند کرلیتا ہے، ہے ناکمال کی بات؟‘‘
خالہ قریب کی عینک لگائے، سپارہ پڑھ رہی تھیں۔
’’ نئی کہانی گڑسے میٹھی‘‘
’’ارے سنا تم نے ؟ اور تو اور وہ تو اپنا سر بھی گھما کر پیچھے کر لیتا ہے، جادو گر ہے جادوگر‘‘
’’موا بنارس کا جو ہوا، ٹھگی میں، کرتبوں میں ان سے بھلا کون آگے ؟‘‘
’’تم نے یہ نہیں سنا فریدہ بیگم۔۔سب پرانے شعبدہ بازوں سے کہیں بڑھ کر۔۔ کہیں بڑھ کر۔۔وہ ایک کرتب ایسے بھی دکھائے گا جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں دکھایا اور یہ تو وہ اس دن ہی بتائے گا،اللہ جانے وہ کرتب کیا ہو گا؟‘‘
’’ارے مجھے تو لگتا ہے وہ موا اپنا سر دھڑ سے الگ کرے گا یا سارے مجمعے کو غائب کرے گا اور یہ کرے گا تو بہت ہی اچھا ہوگا۔۔قصہ ہی پاک ہوجائے۔۔جب دیکھو شعبدہ باز‘‘۔
یہ سب سنا تو مجھے جھرجھری سی آگئی۔خالو بڑبڑاتے ہوئے کمرے کے اندر چلے گئے۔
’’جاوید سنا تم نے؟ آنکھیں یوں نکال لیتا ہے‘‘
’’میں تو نہیں دیکھنے جاوں گا مجھے تو ڈر لگتا ہے‘‘
’’امی کہتی ہیں جب بھی ڈر لگے آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، میں تو جاوں گا‘‘
میں نے اسے اپنا ارادہ زور دے کر بتا دیا لیکن مجھے اس کی بات سے سخت کوفت ہوئی کہ اس نے اتنی ہی شدت سے نہ جانے کا عندیہ دیا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ اتنے تردد سے کیوں کام لے رہا تھا، شعبدہ ہی تو دیکھنا تھا۔دوسری بات یہ کہ شعبدہ باز نے اپنی آنکھیں بربادکرنی تھیں ہماری آنکھیں تھوڑا ہی نکال لینی تھیں۔
میں ناراض ہو کر گھر آگیا لیکن امی کو نہیں بتایا کہ میں شعبدہ بازکو دیکھنے جاوں گا۔ نظر بچا کر گلے میں دیکھا تو میرے پاس چارآنے تھے۔
میں نے تمام سِکوں کو اپنی مٹھی میں لیا، انہیں تولا
’’ایک سِکہ تو ان میں کھوٹا لگتا ہے۔۔ شعبدہ باز کے آنے میں ابھی بہت دن ہیں میں اس وقت تک کچھ اور سِکے بھی جوڑ لوں گا‘‘
میں اور جاوید سکول جاتے ہوئے قصبے کے قبرستان سے گزرتے تھے جہاں بڑی بڑی قبریں تھی۔ان میں کچھ قبروں پر بوٹے تھے جبکہ کچھ قبروں کے اندر سے پورے درخت نکل آئے تھے ۔۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے۔۔ جیسے ان مردوں کے لئے اللہ کے حضور مغفرت کی دعا کر رہے ہوں۔
ا ن قبروں میں ایک قبر بہت پرانی تھی جس کے پہلو میں بیری کا درخت تھاجس کا سایہ کئی قبروں پر محیط تھا ۔ اسے ہم شانکی باباکی قبر پتا نہیں کیوں کہتے تھے۔ قبرچٹان کو کاٹ کر بنائی گئی تھی اور کافی مضبوط تھی۔ وہاں ہم سستانے بیٹھ جایا کرتے تھے یا جھوٹ موٹ کا سو جایا کرتے تھے۔اس دن بھی ہم وہاں بیٹھ گئے۔
جاوید نے بستے سے سنگترہ نکالا
’’اب کی بار اس شعبدہ باز کو دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پچھلے چھ شعبدے بازبھی بس ایسے ہی تھے۔ تمہیں تو یاد ہی ہوگا پہلے والے نے کیا کیا تھا ؟‘‘
’’وہ ہری ٹوپی والا؟‘‘
’’نہیں نہیں ۔۔ایک تو تمہیں یاد ہی نہیں رہتا جبھی تو ماسٹر جی سے ہر وقت مار کھاتے ہو ۔ میں اس کی بات بتا رہا ہوں جس کا قد چھ گز لمبا تھا۔۔جس نے ناک پر جھوٹ موٹ کا چھوٹا پلاسٹک کا لال گولا چپکا رکھا تھا۔۔ اس کے گال گلابی تھے اور سر پر پھندنے والی ٹوپی تھی‘‘
’’ہاں ہاں یاد آیا، تو ؟‘‘
’’نعیم چاچا بتا رہے تھے کہ وہ اتنا لمبا نہیں تھا جتنا نظر آ رہاتھا‘‘
’’ہیں؟‘‘
’’اصل میں اس نے پاوں سے بانس باندھ رکھے تھے۔۔یہاں نیچے۔۔وہ بانسوں پر چل رہا تھا،سمجھے ؟‘‘
’’نہیں جاوید، مجھے تو کوئی بانس نظر نہیں آئے۔ اس نے کالی، سرخ اور سفید دھاریوں والی لمبی شلوار پہن رکھی تھی اور اس نے جوتے بھی پہن رکھے تھے تمھاری طرح، اس کے پیر تھے جبھی تو۔۔‘‘۔
’’شلوار اس نے اس لئے پہن رکھی تھی کیونکہ وہ بانسوں کوچھپانا چاہتا تھا اور وہ جوتے۔۔جھوٹ موٹ۔۔ دکھاوا تھا۔ جیسے یہ دیکھو میں نے لمبے جوتے پہن رکھے ہیں اور کسی کو بھی نہیں پتا کہ میں نے کس رنگ کے موزے پہن رکھے ہیں۔ ایسے چھپاتے ہیں‘‘۔
’’لیکن مجھے پتہ ہے تم نے کالے موزے پہن رکھے ہیں‘‘
’’وہ اس لئے کہ میں نے وہ آج صبح سکول جانے سے پہلے تمہارے سامنے پہنے تھے۔نعیم چاچا بتا رہے تھے کہ یہ شعبدہ با ز بہت مہارت سے اپنا کام کرتے ہیں۔۔کئی کئی مہینے یہ ایک ہی کام دن میں کئی کئی بار کرتے ہیں تو ہی کہیں جا کر اس میں اتنے ماہرہوجاتے ہیں کہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں، سمجھے؟‘‘۔
’’لیکن سرکس کا مالک تو یہ کہہ رہا تھا کہ شعبدہ باز پیدائشی لمبا تھا اور دوسری بات جب تم نے بانس دیکھے ہی نہیں تو تمھیں کیسے پتا کہ اس نے پاوں سے بانس باندھے تھے ؟‘‘۔
میں نے سانس روک کر آہستہ لہجہ اپنایا
’’مجھے تو ٹھیک ہی لگا سب کچھ اور لوگ بھی کتنے خوش تھے اس کے تماشے سے۔۔بانسوں والی بات تم نے ایسے ہی کہی ہے ؟ ہے نا؟‘‘
’’ہے نا؟‘‘
اس نے میری نقل اتارتے ہوئے میرا منہ چڑایا
’’ مالک کے کہنے سے کیا ہوتا ہے، نعیم چاچا بتا رہے تھے یہ مالک لوگ جھوٹی بات اتنی دفعہ کہتے ہیں کہ ان کو خود بھی یقین ہوجاتا ہے کہ سچ کہہ رہے ہیں۔تماشے میں ان کا پیسہ لگا ہے، کچھ نہ کچھ تو کہیں گے، ہے نا؟‘‘۔
’’نہیں جاوید مجھے تو وہ مالک سچا نظر آیا، اس نے صاف سِلے کپڑے پہنے تھے‘‘
’’صاف سلے کپڑے پہنے تھے۔۔ ہنہ۔۔اس سے کیا ہوتا ہے ؟ اس نے سرکس لگائی ہے، پیسہ بٹورنا ہے، کپڑے تو ہونگے اس کے صاف۔ویسے بھی صاف سلے کپڑوں کا شعبدے سے کیا تعلق ؟‘‘
اس نے سنگترہ چھیلا اور آدھا مجھے دے کر اپنی بات جاری رکھی
’’چلو مان لیتے ہیں وہ پیدائشی لمبا تھا لیکن اس نے لوگوں کی جیبیں بھی تو خالی کی تھیں‘‘
’’وہ تو نظر بندی والے نے کیں، جو بعد میں بھاگ گیا۔ یاد نہیں مالک نے کیاکہا تھا ؟وہ ان کا نہیں بلکہ دشمن کے سرکس کا آدمی تھا‘‘۔
میں نے رک کر ا س کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
’’ایک بات بتاو کیا تم واقعی اس شعبدے باز کو نہیں دیکھنا چاہتے ؟ کتنے شعبدے بازوں کو دیکھ چکے ہو۔۔۔ ایک بار اس کا تماشہ بھی دیکھ لو، اس میں ہرج ہی کیا ہے ؟‘‘
اس نے سنگترے کے چھلکے کو پاوں سے مسلا اور اپنا سر کھجایا۔
’’میں سوچ کر بتاوں گا‘‘
میں مخمصے میں گرفتار گھر آگیا۔
شام کو بارش ہوئی اور پھر پتہ نہیں کیوں امی اور ابو میں کسی بات پر لڑائی ہوئی۔ امی نے میکے جانے کی دھمکی دے دی جسے سن کر ابو کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔اسی شام ابو ہمیں پہلی بولتی فلم‘‘عالم آرا‘‘دکھانے بائیسکوپ لے گئے۔ امی ابھی تک روٹھی، دوسری طرف منہ کرکے بیٹھی ہوئی تھیں۔
مجھے نیند کے جھونکے آنے لگے۔۔ میں سو گیا۔
یکایک فلم میں کوئی گانااتنے زور سے بجنے لگا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے آنکھیں ملتے اندھیرے میں دیکھا کہ امی، جو اب ابو سے لگ کے بیٹھی تھیں، مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر جھٹ سے الگ ہو کر بیٹھ گئیں اور پھر ان کو کہنی مار کر ان کے کان میں کچھ کہا اور ساتھ ہی دونوں ہنسنے لگے۔ مجھے یوں لگا کہ ان کی ناراضگی مٹ چکی تھی۔
گھر آیا توابو نے مجھے پاس بلایا
’’تم ایسا کرو آج اپنی خالہ کے ہاں سو جاو۔ تیرے خالو دلی گئے ہوئے ہیں۔تم اور جاوید ساتھ کھیلو اور خالہ سے سچی پری اور ظالم بادشاہ کی پوری کہانی بھی سنو‘‘
’’وہ تو ہم نے سن رکھی ہے ابو جان‘‘
’’اچھا تو پھر ایسے کرو یہ دوآنے رکھ لو اور وہاں چلے جاو، اب ٹھیک ہے ؟‘‘
میرے گلے میں دو ہی آنے کم تھے۔ میں خوشی سے پھولا نہیں سمایا اور میں نے وہ رات خالو کے ہاں گزارنے میں اب کوئی قباحت نہیں دیکھی۔
اس رات میں اور جاوید بستر میں دبکے بیٹھے تھے اور وہ مجھے انتہائی رازدارنہ انداز میں ان شعبدہ بازوں کے کرتبوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔
’’ڈاکٹر خالہ بتا رہی تھیں کہ کچھ شعبدہ بازتو اپنی دونوں ٹانگیں موڑ کر سر کے پیچھے رکھ لیتے ہیں۔۔ ایسے جیسے میں نے یہ ہاتھ موڑ کر رکھے ہیں۔۔ یوں وہ بڑے مکڑے کی طرح بن جاتے ہیں۔۔ ایسے‘‘
’’واقعی!!‘‘
اسے مکڑا بنتے دیکھ کر حیرت سے میری آنکھیں نکل آئیں
’’لیکن ان کے اس طرح کرنے کے پیچھے ایک وجہ ہوتی ہے‘‘
’’اس طرح پیر گردن میں پھنسانے کے پیچھے بھلا کیا وجہ ہوگی، مجھے تو یہ جادو نظر آتا ہے‘‘
اس نے سر ہلایا اور استادوں کے لہجے میں بتایا
’’وجہ ہوتی ہے اور ڈاکٹر خالہ بتا رہی تھیں کہ ہوتا یوں ہے کہ ان کو کوئی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ پیرکھینچ کر لمبے ہوسکتے ہیں اور ان کے جوڑ ہر طرف مڑ سکتے ہیں جیسے بلبلے کو پھونک مارو تو وہ کھچ کر لمبا ہوجاتا ہے یا لمبے غبارے کو موڑ کر کچھ بھی بنا لو‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن ان شعبدہ بازوں کو بھلا کیا بیماری ہوگی جو پوری تلواریں نگل جاتے ہیں اور ان کے منہ سے پھونکتے وقت شعلے نکلتے ہیں؟‘‘
’’اس کا مجھے نہیں پتا، لیکن ڈاکٹر خالہ یہ بھی بتا رہی تھیں کہ کچھ شعبدے تو ڈاکٹرلوگ بھی کرتے ہیں کہ بندہ مر جائے تو اس کے منہ میں پھونک کر اسے زندہ کردیتے ہیں‘‘
’’جاوید پتا ہے ڈاکٹر خالہ کی یہ بات ٹھیک ہے۔ ایک دن نعیم خالو کمرے میں ڈاکٹر خالہ کے ساتھ کوئی شعبدہ کھیل رہے تھے، اور میں نے یہ شعبدہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا‘‘
’’تم نے ؟ کیسے ؟‘‘
اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’’بتاتا ہوں۔۔یہ دوپہرکا وقت تھا۔۔ مجھے ڈاکٹر خالہ کے کمرے سے کچھ کھٹ کھٹ کی آوازیں سنائی دیں۔۔ مجھے ایک شرارت سوجھی۔۔ میں دبے پاوں آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔۔ دروازہ یکدم زور سے ہلایا۔۔چٹخنی ہلی۔۔ گری۔۔کھٹاک۔۔دونوں پٹ کھل گئے‘‘۔
’’پھر؟‘‘
’’جاوید میں نے دیکھا کہ نعیم خالو نے نا ڈاکٹر خالہ کو زور سے پکڑ رکھا تھا لیکن مجھے دیکھ کر وہ فوراً الگ ہوگئے۔ میرے خیال میں خالہ مر چکی تھیں اور خالو نے انہیں پھونک کر زندہ کیا ہوگا، کیونکہ اس کے بعد وہ کھانسنے لگیں۔۔چہرہ لال سرخ۔۔زور زور سے سانس لینے لگیں۔۔ سر ڈھانپا ۔۔ جلدی سے کمرے سے نکل گئیں‘‘
’’نعیم چاچا کے پاس ایک بدبو دارجادوئی مشروب بھی ہے جو وہ چھپ کے پیتے۔۔۔‘‘
’’ یہ تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہے ہو سو جاو‘‘
فریدہ خالہ کی اس تنبیہ کی کے بعد ہم سوگئے اور چونکہ صبح سکو ل کی چھٹی تھی سو ہم دونوں دیر سے اٹھے۔ ہم نے ناشتہ کیا اور خالہ سے بریانی کی فرمائش کردی۔
ابھی خالہ سنگ شوئی کرکے گوشت کاٹ ہی رہی تھیں کہ خالو واپس آگئے۔
’’ارے آپ اتنی جلدی واپس آگئے ؟ آپ نے تو دو تین دن ٹھہرنا تھا، خیریت تو ہے ؟‘‘
’’ہاں ارادہ تو یہی تھا فریدہ بیگم لیکن کل لاہور میں بھگت سنگھ کو پھانسی دے رہے ہیںتو برٹش سرکارنے حفظ ماتقدم کے طور پر، کہ لوگ ہنگامے وغیرہ نہ کریں،ہر جگہ بندشیں اور ناکے لگا دئے ہیں اور ہمیں صبح ہی صبح لوٹا دیا گیا‘‘
پھر خالو شاید خود کلامی کرنے لگے
’’مجھے تو لگتا ہے یہ شعبدے باز بھی وہی کرے گا جو پہلے شعبدہ بازوں نے کیا تھا۔ لوگوں کو جھوٹ موٹ کا کوئی کھیل دکھائے گا اور پھر رفو چکر ہوجائے گا۔ سچ پوچھو تو شعبدہ باز وں کا کیا اعتبار، گندم نما جو فروش‘‘
’’ارے موا بھاڑ میں جائے یہ نگوڑاشعبدہ باز، جب دیکھو شعبدہ باز۔ ارے کچھ پتا ہے آٹے دال کا کیا بھاو ہے ؟ یہاں تو جینا اجیرن ہوگیا ہے‘‘۔
خالہ نے چاول نتھار کر رکھے۔
’’ یہ بھی سنیں،شمشاد بہن کے ہاں جو عورت کام کرتی ہے اس کا جوان بیٹا بیمار ہے۔۔ میعادی بخار ہے اسے۔۔حالت بہت بری ہے اس کی۔ اللہ آمین سے بڑا کیا اسے، ہائے دیکھو تو اب اتنا سا منہ نکل آیا ہے اس کا۔۔اللہ نہ کرے لگتا ہے یاسین کا وقت آگیا ہے اس کا۔
بھلا چنگا ہوجاتا لیکن کمبخت ڈاکٹر نے ہسپتال سے نکال دیاکیونکہ بیچاری کے پاس دوا کے پیسے نہیں تھے۔ ارے اب کوئی بتائے وہ غریب عورت کہاں سے لائے دواکے پیسے ؟ اس کے پاس تو دو وقت کی روٹی کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ ارے سارا دن ہڈیاں پیلتی ہے پھر بھی دانے دانے کو محتاج ہے بیچاری‘‘۔
پھر سرد آہ بھری
’’سنا ہے ڈاکٹردس روپے مانگ رہا تھا۔ ارے وہ تو یہ بیچاری دس سال میں بھی نہیں دے سکتی۔ دوسری طرف اس کا نکما شوہر۔۔کرم پھوٹ گئے بیچاری کے۔ ۔اس کا کوئی ایک دکھ ہو تو کہوں۔۔آٹھ پہر سولی پر رہتی ہے وہ تو‘‘۔
پھر دوبارہ سانس کے لئے رکیں
’’خدا لگتی کہوں اس کی مصیبتیں دیکھ کر میری تو چھاتی پھٹی جاتی ہے، یا الہی اس کی آڑی مشکلیں آسان کر‘‘۔
پھران کی آواز کا اتار چڑھاو تبدیل ہوا اور طیش میں آگئیں
’’اور ادھر آپ کو شعبدہ باز کی پڑی ہے۔ ملک کی حالت دیکھی ہے آپ نے ؟ پتا نہیں یہ موئے گورے کب ہمارا پیچھا چھوڑیں گے۔۔ ایک دھیلے کا نہیں چھوڑا یہ ملک۔۔بیوپاری حکمران‘‘
’’ دیکھنا فریدہ بیگم، دیکھ لینا۔۔اب کی بار شعبدہ باز ایسا کرتب دکھائے گاکہ دل خوش ہوجائے گا، پتہ نہیں وہ خاص کرتب کیا ہے جس کا واویلا مچا ہوا ہے، کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ‘‘
خالو اپنے خیالوں میں گم تھے اور خالہ نے اپنا ہاتھ ماتھے پر مارا
’’آپ سے تو بات ہی کرنا بے کار ہے،میں کیا کہ رہی ہوں اور آپ کہاں گم ہیں۔ایک بات بتائیں یہ مجھے ہر وقت ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں کسی بہرے سے مخاطب ہوں‘‘۔
خالہ نے چھری اور کٹی بوٹیاں ایک طرف رکھ کر، پسینہ پونچھا
’’ہو نہ ہو یہ موا بھی وہی کرے گا جو ہری ٹوپی والے نے کیا تھا۔۔آستین سے سانپ نکالنے کا کہہ کر سب کی جیب سے سکے نکال کے لے جائے گا، نحوست کا مارا‘‘
خالو چپ نہ رہ سکے
’’لیکن فریدہ بیگم تم نے دیکھا تھا کہ کتنے بڑے بڑے سانپ تھے جسے دیکھ کر سب لوگوں کی چیخیں نکل گئیں تھی اور سلمی بہن کے داماد کا تو پیشاب خطا ہوگیا تھا‘‘۔
اس پر خالہ بھڑک اٹھیں۔ ان کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ خالو نے بمشکل اپنی ہنسی روک کر بات بدلی
’’سانپ ادھر ادھر رینگتے رہے مجال ہے جو کسی کو کچھ کہا یا کاٹا، بڑے بے ضرر قسم کے سانپ تھے۔ وہ شام کیسے بھول سکتی ہے۔ کیا نظر بندی تھی، کیا جادو تھا۔۔ یہ بریانی کب بنے گی فریدہ بیگم، زوروں کی بھوک لگی ہے؟‘‘
’’پڑ جائے پٹکی، نام نہ لیں سلمی بہن کا۔ آپ کو تو سارے نقص میرے خاندان میں نظر آتے ہیں، ان سے دشمنی پر ادھار جو کھائے بیٹھے ہو‘‘
پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جھنجھلا کرماتھا تھاما۔
’’ارے وہ چھری کہاں گئی، یہیں تو رکھی تھی، آگ لگ جائے مجھے، کیا کرنے بیٹھی تھی اور کس بحث میں پڑ گئی میں‘‘
اگلے دن میں اور جاوید قبرستان میں بیٹھے اس بات کا فیصلہ کر رہے تھے کہ ہم جائیں یا نہ جائیں۔
’’جاوید میرے پاس کل ملا کر اب چھ آنے ہیں اگر تم چاہو تو میں تمھیں دوآنے دے سکتا ہوں جو تم مجھے بعد میں لوٹا دینا، منظور ہے ؟‘‘
اس نے پہلے تو کچھ ترد دسے کام لیا لیکن مجھے پتا تھا کہ اس کے نہ جانے کی وجہ ہی یہ تھی کہ اس کے پاس پیسے کم تھے کیونکہ اس نے ڈیڑھ آنے پٹاخوں والی ولایتی پستول خرید کر ضائع کر دئے تھے۔ میں نے ایک بار پھر اس کے جانے پر اصرار کیا تو اس نے ہونٹ سکیڑے۔
’’ دیکھ لو! میں تمھیں بڑی عید سے پہلے یہ پیسے نہیں دے سکتا‘‘
’’مجھے منظور ہے‘‘
میں نے اس کوسکوں میں کھوٹا سکہ نظر بچا کر تھمایا۔۔ فیصلہ ہوگیا ۔۔ ہم تماشہ دیکھنے جائیں گے۔
جمعے کے دن خالو اخبار پڑھ رہے تھے اور پھر صفحے پلٹتے پلٹتے یکایک اچھل پڑے
’’اری فریدہ بیگم ! اندر کی خبر چھپی ہے۔۔ پتہ چل گیا۔۔شعبدے باز نے کسی سے رازداری میں کہا ہے کہ وہ پرانے شعبدے بازوں سے سارے پیسے واپس دلوائے گا۔۔ آئندہ کسی بھی شعبدے باز کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ قصبے کو جھوٹ موٹ کا تماشہ دکھا کر پیسے اینٹھے۔ اور تو اور ہر شعبدہ باز جو جاتے ہوئے قصبے کی کتاب کے صفحے پھاڑکر چلا جاتا ہے یہ رواج تو یہ شعبدہ باز ختم کرا کے ہی چھوڑے گا‘‘
خالہ نے قمیض میں بٹن لگا کرپاس پڑی تِلے دانی سے قینچی نکالی اور دھاگے کو کاٹا
’’جھوٹ بولتا ہے موا، پھپٹ باز۔ ارے چھاج بولے تو بولے، چھلنی بھی بولی، جس میں بہتر چھید؟۔ارے میں کہتی ہوں اگریہ موا پرانے شعبدہ بازوں سے پیسے واپس دلوا سکتا ہے تو ان سے اپنے لئے کیوں نہیں نکلوا لیتا؟ خودتین آنے کے تماشے کے لئے ادھر کیوں آ رہاہے ؟۔
ارے کوئی میری سنے تو یہ بھی ان جیسا ہی ہے۔۔ ہمارے پیسے بٹور کر یہ بھی اس سرکٹے نٹ کی طرح غائب ہوجائے گا، زندگی حرام کردی ہے ان جانہاروں نے‘‘
’’فریدہ بیگم وہ سب صحیح ہے لیکن اس سرکٹے کا تماشہ کمال کا تھا۔ تم خود بھی تو بڑے چاو سے دیکھنے گئی تھیں۔ یاد ہے اس شام کیا ہوا؟ کیسے اجلے کپڑے پہنے وہ سٹیج پر آیا، کچھ لڑکھڑایا اور پھر اس کا سر یوں لگا ڈھلک گیا۔۔ دھڑ سے الگ۔۔مزہ آگیا تھا ویسے ؟‘‘
خالو نے اخبار ایک طرف رکھا
’’سر ڈھلکتا نظر آیا، ڈھلکا نہیں تھا اور یہ توسلمی کے داماد نے مجھے بتایا کہ مووں نے کندھوں میں سیخ اٹکائی ہوتی ہے جس کو یہ نگوڑے ترت پھرت سے ایسے گھماتے ہیں کہ پیچھے کوٹ کا کالر اوپر کو اٹھتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ سر نیچے ڈھلکا۔کھلا فریب ہے یہ۔۔توبہ توبہ۔۔ اللہ معاف کرے دمڑیوں کے لئے کیا کیا نہیں کرتے لوگ‘‘۔
پھر ایک دم جیسے انہیں کچھ یاد آگیا تو غصے سے بولیں
’’اور منہ مت کھلوائیے گا میرا، میں گئی ضرور تھی لیکن آپ کی بہن رشیدہ کے اصرار پر اور اب۔۔ اب میں ضرور گئی‘‘
خالہ نے غصے سے اپنے دانت پیسے
’’اری ناراض کاہے کو ہوتی ہو، ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ اچھا یہ بتاوجو دوسرے شعبدے باز نے ایک نارنگی کی دو اور دو کی چار نارنگیاں بنائی تھیں وہ کیسے کیا تھا بھلا اس نے؟ سلمی کے داماد نے کچھ بتایا؟‘‘
خالو نے بات بدلی
’’مجھے کیا پتا نظر بندی ہوگی، آنکھ کا دھوکہ ہوگا، ہاتھوں کی صفائی ہوگی۔ ارے یہ موئے تو اپنی ٹوپیوں سے خرگوش تک نکال لیتے ہیں، اوررومالوں سے پھڑپھڑاتے کبوتر۔۔ ان کا کیا اعتبار؟‘‘
پھر خالہ نے لمبی سانس بھری اور آواز مدھم کی
’’مجھے یہ نہیں پتہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ اللہ بخشے مولوی رحیم الدین لدھیانوی کہا کرتے تھے، پیشے کی قباحتیں اپنی جگہ لیکن جس دھندے سے پیٹ جڑ جائے اس پر شرعی اور غیرشرعی حد لگا نا قدرے مشکل ہوجاتا ہے‘‘
’’فریدہ بیگم کوئی ایک تو ہوگا جس کا شعبدہ تم نے جی سے پسند کیا ہوگا، کوئی ایک؟‘‘
’’ہاں وہ پشاور کاپیر اچھا تھا جو روحیں حاضر کرواتاتھا۔ یاد ہے اللہ بخشے میرے دادا مرحوم کی روح بلائی تھی انہوں نے اور وہیں ان کی روح نے اپنے لکھنو والے گھر میں دبی وصیت کا بتایا اور تبھی تو جا کر تایا جان نے ابو جان کو ان کا پورا حصہ وارثت میں دیا تھا ورنہ ابو جان تو نالش کرنے والے تھے۔خیر مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوگیا‘‘
’’اور وہ جس نے سب کو پیٹ بھر کر روٹی کھلانے کا کہا، سر ڈھانپنے کو چھت کا کہا اس کی بھی کیا بات تھی۔ مجھے یاد ہے، کیا اثر تھا اس کی تقریر میں، جوشیلا۔۔جذباتی۔۔ دلوں کو گرمانے والا۔ لوگ عش عش کر اٹھتے تھے۔۔لاکھوں کے مجمعے۔۔ ٹھٹ کے ٹھٹ۔۔ کمال کاشعبدہ باز تھا‘‘
’’ارے اس کی تو بات ہی نہ کریں، خدا کرے زمین کا پیوند ہو جائے وہ۔۔پیٹ کاٹنے پڑ گئے لوگوں کو اپنے۔ارے اسی ہی کی وجہ سے تو سراج الدین اور نسیم خاں میں آپس کا بیر اتنا بڑھا کہ ہانڈیاں الگ کر لیں۔ اللہ ان دونوں بھائیوں سے سمجھے ایک دوسرے کی بات تک نہیں سنی گھر میں بٹوارا کروا چھوڑا۔ ارے میں کل موئی کہتی ہوں، ایسی بھی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ گھر باورچی خانہ الگ کرو لیکن نندیں آپس میں خوش نہیں تھیں اور کیسے ہوتیں؟ گوپال گنج والی پتنگ چھری اور لاہور والی بِس کی گانٹھ۔۔ کیسے گذارہ کرتیں؟ہر وقت تو تو میں میں‘‘۔
پھر لمبی سانس لی
’’چلو ان کی روز روز کی کھٹ پٹ تو ختم ہوئی، پتہ نہیں اب دونوں نندیں خوش ہیں یا نہیں لیکن بڑا بھائی قرضے میں ڈوبا پڑا ہے نالش پہ نالش، لاٹ صاب کے دفتروں کے چکر لگاتا رہتا ہے، اللہ رحم کرے اس پر‘‘
عین اسی وقت موذن کی صداآئی۔ خالہ نے جھٹ سے دوپٹہ سر پر لیا
’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘
تماشے میں تین دن رہ گئے اور ہرجگہ پوسٹر لگ گئے۔ تصویر میں شعبدہ باز نے اپنا چہرہ آدھا ڈھکا ہوا تھااور پوسٹر میں اوپر ایک طلسمی چھڑی تھی اور ساتھ ہی ستاروں والا دھاری دار رومال ۔ سکول سے واپس آتے ہوئے میں نے پوسٹر کی طرف اشارہ کیا
’’سارا جادواس طلسمی چھڑی میں ہے۔ اس سے کالے ہیٹ کو ہلکا ماریں تو اس سے خرگوش نکلتے ہیں۔۔ اگر ذرا زور سے ماریں تو پھدکتے مینڈک، کلبلاتے کینچوے اور پھڑکتے کبوتر۔۔ اور اگر اورزیادہ زور سے ماریں تو بھالو نکلے‘‘۔
جاوید جو اب اس تماشے کو دیکھنے کے لئے بے چین تھا اس پوسٹر کے قریب گیا اور سر نفی میں ہلایا
’’میرے خیال میں سارا کمال رومال کا ہوتا ہے۔ یاد نہیں جب دس ہاتھوں والے شعبدے باز نے جیب سے نکالا تھا تو وہ بڑھتے بڑھتے اتنا چوڑا ہو گیا کہ پورے مجمعے کو ڈھانپ گیا‘‘
’’خالہ جان کہتی ہیں اسی وقت اس نے سارے مجمعے کے جیبوں سے سِکے بھی کھینچ نکالے تھے‘‘
’’وہ جو بھی ہو لیکن وہ رومال بہت چوڑا ہو گیا تھا آناً فاناً، اتنا کہ پورے مجمعے کو ڈھانپ گیا‘‘۔
شام کو بارش ہوئی۔ امی نئی ساڑھی پہنے، لجاتی باورچی خانے میں آئیں
’’میں کہتی ہوں آپ بھی چلے جائیں تماشہ دیکھنے، تین ساڑھے تین گھنٹے ہی تو ہیں۔مصروفیت سے وقت نکال لیں اپنی۔ بچے کا اور جاوید کا دل بہل جائے گا، نیا تماشہ ہے کیا پتہ پھر اس جیسا آئے یا نہ آئے‘‘
’’اری تم کہتی ہو تو میں تو ضرور جاوں گا۔ اب تمہاری بات ٹال تو نہیں سکتا تھا نا جان ِمن‘‘
ابو نے لہجے میں ہلکی شرارت اور ہلکی مٹھاس ڈال کر امی پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی جس سے امی نے ساڑھی کا پلو پھر سے اوڑھا۔ ابو نے یہ دیکھا تو آگے بڑھ کر امی کو تھامنا چاہا۔ امی ترنت، الماری سے کچھ تلاش کرنے لگیں۔
’’نوج، بچے کا دھیان۔۔آپ بھی نا ں۔ بچہ ہے ادھر‘‘
پھرہونٹ کاٹے اور ناخن کھرچتے ہوئے کہا
’’میرے خیال میں شعبدے باز کا تماشہ دیکھنے ضرور جائیں آپ بس۔۔ ہاں اس دن آتے ہوئے لونڈے کو اس کی خالہ کے ہاں چھوڑ آئیں‘‘
’’نزہت بیگم آپ کہتی ہیں تو چلا جاتا ہوں آپ کے لئے لیکن لگتا ہے یہ تماشے لگائے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ شعبدہ بازہماری جیبیں کاٹیں۔ لوگ انہیں بھلے سے شعبدے باز کہیں، اللہ بخشے، ہمارے ابا مرحوم انہیں نو سربازکہا کرتے تھے‘‘
تماشے کا دن آن پہنچا ، میں نے اور جاوید نے نئے کپڑے پہنے اور امی کو گلے کے پیسے دئیے۔ امی نے میرے جوتے چمکائے اور پیسے مجھے اور جاوید کو واپس دے کر گال پر ہلکی تھپکی دی
’’جوتے بالکل نئے لگ رہے ہیں، ہیں نا؟‘‘
میں نے منہ بسور ا
’’امی جاویدنے تو نئے جوتے پہنے ہیں اور میرے۔۔‘‘
’’بات بات پر منہ نہ بسورا کر۔جب د یکھو اترا منہ۔ اب چلو جلدی سے ناشتہ کر و۔۔ تیرے ابو تم دونوں کو لے جائیں۔۔ دھیان سے۔۔ یہ پھل دھیان سے کاٹو۔ چھری ہے کھیلنے کی چیز نہیں ہے‘‘
دن ڈھلے ہم تماشے کی قناتوں کے پاس پہنچے۔۔بڑی بڑی خیمہ نما قناتیں جن پر رنگ برنگی جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ خوانچے لگے ہوئے تھے۔۔ہر جگہ محرم کی طرح کی سبیلیں۔ ٹھنڈے مشروبات اور فالودے والی۔۔اسی اثنا میں کچھ انگریز میمیں کتے ٹہلاتے ہوئے وہاں سے گزریں۔۔ لوگوں نے انہیں دیکھ کر تالیاں بجائیں۔ وہ جھینپ سی گئیں اور وہاں سے جلدی جلدی چلی گئیں۔
قناتوں کے بالکل قریب بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا۔ لوگ رینگتی قطاروں میں کھڑے تھے اور آہستہ آہستہ قناتوں کے قریب پہنچ رہے تھے۔ یہ نہیں پتا تھا کہ اندر کیا تھا لیکن قناتوں سے عین پہلے ایک بڑاچوکھٹا سا بنا ہواتھا۔ ہر آدمی وہاں کسی منتظم کو دام دے کر ایک ٹکٹ لیتا تھا اور پھر آگے جا کر مالک کا آدمی اس ٹکٹ کو دیکھ کر اس میں سروتے قسم کے اوزار سے سوراخ کرتا لوگوں کو قناتوں کے اندر بھیج رہا تھا۔
اب مجھے تماشے سے زیادہ قنات کے اندر جانے میں دلچسپی تھی، پتا نہیں اندر کیا تھا۔
جب ہم ٹکٹ والے آدمی کے پاس پہنچے تو شیشے کے اس پار وہ ہمیں بہت گورا نظر آیا۔ وہ اتنا گورا تھا کہ اس کے سر کے بال اور بھنویں تک سفید تھیں۔ پسینے سے بھر پورچہرہ گرمی سے تمتما رہا تھا اور اس کے گورے چہرے کے پس منظر میں اس کے سرخ ہونٹ یوں لگ رہے تھے جیسے ٹماٹر کی دو تازہ کٹی قاشیں۔مجھے یاد آیا جب میں اور ابو لاٹ صاب کے دفتر دلی گئے تھے تو مجھے وہاں ایک گورا افسر ایسا ہی دکھائی دیا تھا۔
میں نے جاوید کو کہنی ماری
’’جاویدجاوید اسے دیکھو لگتا ہے یہ گورا صاحب بھی اس تماشے میں حصہ لیں گے‘‘
جاوید نے منہ بنایا اور اپنی علمیت جھاڑتے ہوئے شہادت کی انگلی ہلا کر مجھے سمجھایا
’’یہ گورا نہیں سورج مکھی ہے‘‘
’’سورج مکھی؟‘‘
’’ڈاکٹر خالہ بتا رہی تھیں ان کو کوئی پیدائشی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا چمڑا بے رنگ ہوجاتا ہے اور یہ ایسے نظر آتے ہیں‘‘
’’یہ تو کوئی بے رنگ نہیں، با لکل گورا ہے، لاٹ صاب کی طرح، یہ کتنی اچھی بیماری ہے جاوید بندہ گورا لگتا ہے‘‘
ابھی ہم یہی بات کر رہے تھے کہ اس آدمی نے، جسے جاوید نے سورج مکھی بتایا، ابو سے گن کر پیسے لئے اور ہم سب کو ایک چوڑا ٹکٹ تھما دیا۔ قنات کے قریب ایک لمبے آدمی نے ہمیں احتیاط سے گنا، ٹکٹ میں چار سوراخ کئے اور ہم اندر داخل ہوگئے۔اندر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔
تماشے کی سٹیج کہیں نیچے جا کر تھی کیونکہ سیڑھیاں بنا کر کرسیاں ایسی رکھی ہوئی تھیں کہ آدھے دائرے کی شکل میں وہ اوپر اٹھتی ہوئی نظر آتی تھیں جیسے کوئی کنوئیں کو آدھا کاٹ کر، ہلکا خم دے کر لٹا دے اور ڈھلوان پر کرسیاں رکھ دے۔
چھوٹے بچے لوگوں کی گود میں بلک بلک کر رو رہے تھے اور پس منظر میں تیزموسیقی بج رہی تھی۔ کوئی بار بار لائوڈ سپیکر میں ہدایات دے رہا تھا۔ ہم سب نے ایک اچٹتی ہوئی نظر کرسیوں کے کنوئیں پر ڈالی تو سب سے آگے بڑی بڑی خاص قسم کی کرسیاں لگی نظر آئیں۔
’’ابو ہم آگے بیٹھ سکتے ہیں؟‘‘
’’نہیں بیٹا یہ کرسیاں خاص لوگوں کے لئے ہیں۔۔ بڑے لوگوں کے لئے۔۔ لاٹ صاب کے ساتھ جو لوگ کام کرتے ہیں، ان کے لئے‘‘
خالو نے گھڑی دیکھی
’’رشید بھائی اب جہاں بھی جگہ مل جائے وہاں بیٹھ جائیں تماشہ شروع ہونے میں کم ہی وقت رہ گیا ہے‘‘
تماشہ شروع ہوا تو سب سے پہلے سٹیج پر ایک موٹا آدمی آیا جو شعبدے باز کا اسسٹنٹ تھا۔ وہ پہلے تنی رسی پر چلا، پھر نارنگیاں اچھالتا رہا اور آخر میں ہاتھوں پر الٹا کھڑا ہوگیا۔ اس کے بعد ایک چھڑی جیسا پتلا آدمی آیا جس نے سٹول پر بیٹھے بھالو کو ایک بڑی گیند دی جس کو وہ ہوا میں اچھالتا رہا۔ آخر میں شعبدے باز آیاا ور لوگوں نے تالیاں پیٹ کر اس کا استقبال کیا۔
سب سے پہلے اس نے اپنی آنکھیں باہر نکالیں اور پیچھے سے پپوٹے بند کر دئے۔ لوگ دم بخود رہ گئے۔ پھر اس نے گردن پیچھے موڑ لی اور پھر دوبارہ سیدھی کی۔۔لوگ حیرت سے بت بنے ابھی اسی شعبدے کے اثر میں تھے کہ دفعتاً شعبدے باز نے موٹے کو ایک کمبل میں ڈھک کر اسے چھڑی ماری۔۔ دھواں سا اٹھا۔۔اور پھر کمبل سے ایک بڑا مینڈک پھدکتا ، ٹراتا باہر آیا۔
لوگوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیاکیونکہ ایسا تماشہ کسی نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔
یکایک موسیقی اور زور سے بجنے لگی۔ یکایک کچھ سائکل والے اندر آئے جو دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میںسائکل چلانے لگے۔۔، لوگوں دم بخوہوگئے، ان کی حالت دیدنی تھی۔ پھر شعبدے باز نے کچھ لوگوں کو پتنگ کی طرح ہوا میں لہرایا اور کچھ کو ایسا اچھال کر پٹخ دیا کہ وہ کھڑے بھالوکے سامنے جا گرے اور پھر اس نے بھالو اور سائکل والے کو ایک کمبل میں ڈھک کر طلسمی چھڑی سے کبوتر بنا دیا۔ لوگ اٹھ اٹھ کر ناچنے لگے
سارا مجمع پاگل ہوگیا۔ میں نے جاوید کی طرف دیکھا
’’یہ تو با لکل جادو ہے، اس جیسا شعبدہ باز پہلے نہیں آیا تھا، ڈاکٹر خالہ سے پوچھ لو کہ یہ شعبدہ کیسے ہوتا ہے یا یہ بھی کوئی بیماری ہے‘‘
جاوید نے پتا نہیں میری بات سنی یا نہیں لیکن وہ اس پورے تماشے میں اتنا محو تھا کہ اس نے بس سر ہلا کے میری بات کا جواب اثبات میں دیا
آخر میں موسیقی ایک دم رک گئی اور شعبدے باز سٹیج کے بالکل درمیان میں آیا۔
’’خواتین و حضرات اب میں آج کے اس تاریخی دن سب سے اہم آئٹم کی طرف آتا ہوں۔دل تھام کے بیٹھیں۔ میں آپ کے سامنے اس پرانے شعبدے باز کو پھانسی دوں گا جس نے پچھلی بارآپ کی جیبیں خالی کی تھیں اور تماشہ بھی نہیں دکھایا تھا ، کتاب بھی پھاڑی تھی ۔ میں اس سے ساری رقم لے کر آپ کی جیبوں میں واپس ڈال دوں گا‘‘۔
لوگوں نے جب یہ سنا تو فرط جذبات سے چِلا اٹھے اور ہر طرف سے اٹھ اٹھ کر اسے داد دی۔
دفعتًا سٹیج پر ایک چھوٹا پنجرہ لایا گیا، جس میں ایک پرندہ بند تھا اور اس کو سٹیج پر موجود میز پر رکھا گیا۔ پھر کوئی زور سے لاوڈ سپیکر میں بولا
’’ایک۔۔ دو۔۔تین۔۔‘‘
پنجرے کے سامنے ایک پٹاخہ پھٹا،دھواں سا چھا گیا۔ جب دھواں ذرا چھٹ گیا تو سب نے دیکھا کہ ایک آدمی بڑے پنجرے میں بند تھا۔ لوگوں کی حیرت سے چیخیں نکل گئیں۔یہ وہی پرانا شعبدہ باز تھا۔
کسی نے چیخ کر کہا ۔
’’مار دو اسے۔۔ پھانسی دے دو۔۔ اس سے پورے پیسے واپس کرواو۔۔ ابھی‘‘
سب نے آسمان سر پر اٹھا لیا
اوپر سے ایک رسی اترنا شروع ہوئی۔۔ ہوا میں بالکل معلق۔۔ ہوتے ہوتے سانپ کی طرح بل کھا کروہ ایک پھندہ بن گئی اور پھر شعبدے باز کے ساتھ کام کرنے والے اسسٹنٹ نے پنجرے سے اس آدمی کو نکال کر اس کی گردن میں پھندہ ڈال کر کس دیا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ اب حساب چکتا کرکے ہی دم لے گا اور سب کی سانسیں رک گئیں۔
موسیقی رکی رہی۔۔شور بالکل تھم گیا۔۔ بالکل خاموشی، اتنی کہ لوگوں کواپنے دلوں کی دھڑکنیں اور اپنی تیز سانسیں سنائی دینے لگیں۔
دھک، دھک دھک۔
جیسے ہی وہ تنی رسی اور تنی، اس کے گردن کے گرد مزید لپٹی ۔۔ لگا کہ وہ گیا، اچانک پانسہ پلٹا۔
کیا ہوا کہ پرانا شعبدہ باز بھی ا اس کا ستاد نکلا۔ اس نے کچھ ایسے منتر پڑھے کہ پھندہ پھولوں کا ہار بن گیا۔ نیا شعبدہ باز سٹپٹایا اور اسے پکڑ کر شیشے کی ایک بڑی بوتل میں بند کیاجس کے اندر پانی بھرنے لگا۔ سب کو یوں لگا کہ اب کی بار پرانے شعبدے باز کا دم پانی میں گھٹ جائے گا اور اس کاقصہ پاک ہو ہی جائے گا۔
دفعتاً اس کے منہ سے بلبلے نکلے۔
اس نے کچھ پڑھا اور شیشہ چٹخ گیا۔۔ اس کوآزادی ملی۔۔وہ مسکرایا۔
اس ہجوم میں کچھ لوگ پرانے شعبدے باز کے شیدائی تھے۔ جب انہوں یہ دیکھا تو اٹھ کر اسے دادا دی اور اس کی حمایت میں نعرے بلند کئے۔ اس پر دوسرے لوگ بھڑک اٹھے اورہاتھا پائی تک نوبت آگئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ دست و گریباںہوں مستعد حوالداروں نے ان مشتعل لوگوں کو سمجھا بجھا کر بٹھادیا۔
اس کے بعد دو ایک اور تماشے ہوئے لیکن پرانا شعبدہ باز نئے شعبدے باز کے ہاتھ بالکل نہ آیا اور ہر بار اس کے ہاتھ سے پھسل پھسل جاتا تھا۔ آخر میں دوبارہ پرندہ بن کر اڑ گیا۔
تماشہ ختم ہوا اور ہم جھومتے جھومتے قناتوں سے باہر نکلے۔ سب کے چہرے ہشاش بشاش تھے اور میں اور جاوید تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے
’’فریدہ سن ہی نہیں رہی تھیں ورنہ میں نے تو کہا تھا مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔ رشید بھائی آپ نے دیکھا اس نے کس مہارت سے پھندہ بنایا اور ہم سمجھے پرانا شعبدے بازگیا لیکن پھر کس چالاکی سے وہ پھندے سے نکل گیا، کمال کیا اس نے۔لیکن نئے شعبدہ بازنے یہ کہا ہے وہ کل پرانے شعبدے باز کو لٹکا چھوڑے گا۔اب تو بس کل کا انتظار ہے، مزہ آئے گا‘‘
’’ہاں لگتا یہی ہے اور سارے لوگ بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ کل یہ پرانے شعبدے باز کو لٹکا چھوڑے گا ۔انتقام میں ڈوبے یہ احمق لوگ فرض کر بیٹھے ہیں کہ گویا اب یہ ان کا بدلہ لے کر رہے گا۔ سچ بات تو یہ ہے مجھے تو یہ لگا یہ شعبدے باز بھی پرانے سے ملا ہوا ہے۔ صرف دکھاوے کے لئے اس کو لٹکانے کا یہ ساراڈرامہ کیا، یہ بھی دوسروں کی طرح تماشہ دکھا کر، پیسے بٹورکر اور سٹیج پر پڑی کتاب کے صفحے پھاڑ کر رفو چکر ہوجائے گا ‘‘
’’یہی میرا بھی خیال ہے رشید بھائی لیکن اصل بات اس سے ذرا زیادہ گہری ہے‘‘
پیچھے سے نقوی صاحب کی آواز آئی
’’وہ کیسے ؟یہ بات سمجھ میں نہیں آئی نقوی صاحب‘‘
’’بتاتا ہوں، وہ اس طرح کہ آج جب میں رفع حاجت کے لئے بیچ تماشے سے اٹھ کر چلا گیا تو واپسی پر راستہ بھول کر قناتوں کے پیچھے جا پہنچا اور وہاں تماشہ ہی الگ تھا‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’رشید بھائی میں نے دیکھا کہ وہاں سرکس کا وہی مینیجر بیٹھا ہوا ہے جو یہاں ہری ٹوپی والا شعبدہ باز لے کے آیا تھا۔ اور تو اور لمبی ٹانگوں کے شعبدے باز، سر کٹے نٹ، چھت روٹی دینے والے، کبڑے جادوگر، دس ہاتھوں والے، لال پھندنے والے، ہری قمیض والے سب شعبدہ بازوں کا مینیجر بھی یہی آدمی تھا۔ مینیجر تو خیر ایک ہو سکتا ہے، یہ اس کی روزی روٹی ہے جو دوسری بات میں نے دیکھی وہ تو بتانے والی بھی نہیں‘‘۔
ابوکی حیرانی دیدنی تھی، مبہوت، منہ کھلا، ساکت جیسے مجسمہ۔
’’کونسی بات بتانے والی نہیں ؟‘‘
’’رشید بھائی آپ نے غور کیا ہے کہ شعبدے باز کے ساتھ جو یہ لونڈے مل کر کام کرتے ہیں۔۔ اس کے اسسٹنٹ۔۔یہ بڑی مونچھوں والا، یہ موٹا، یہ چھڑی جیسا، یہ ہکلا، یہ خواجہ سرا اور باقی لونڈے، پتا ہے یہ کون ہیں؟‘‘
ابو ابھی تک مبہوت تھے
’’کون ہیں؟‘‘
’’رشید بھائی یہ سارے وہی لوگ ہیں جو پرانے تمام شعبدے بازوں کے ساتھ تھے۔ یہ مجھے ایسے معلوم پڑا کہ میں نے دیکھا کہ ان سب کے پرانے لباس وہیں لٹکے ہوئے تھے، سٹیج کے پیچھے۔ یہ سارے اسسٹنٹ صرف لباس بدل کر ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پورا جھتہ ہی الگ آیا ہے‘‘۔
پھر رازداری سے ہلکی آواز میں کہا
’’جیسے دیکھیں وہ موٹا آدمی پہلے ہری ٹوپی والے کے ساتھ تھا تو تب اس کا حلیہ الگ تھا، پھر جب سرکٹے نٹ کے ساتھ تھا تو اس کی باتیں الگ تھیں لیکن اب اس کے ساتھ ہے تو اس کے لطیفے ہی الگ ہیں۔ اسی طرح چھڑی جیسا پتلا، مونچھوں والااور دوسرے سب۔۔ کہنا یہ چاہتا ہوں صرف شعبدے باز بدلتے ہیں باقی سب لوگ پرانے ہیں۔۔جیسے کوئی یہ کہے۔۔علی بابا نیا، چالیس چورپرانے۔۔ہے نا گہری بات‘‘
ابو نے ایک لمبی سانس لی اور بولے
’’ہوں! تو اصل شعبدے اس قنات کے پیچھے ہورہے ہیں۔۔کمال کے لوگ ہیں بھائی۔۔ کمال کے لوگ ہیں۔‘‘
ساتھ کھڑے ممدوچاچا نے، جو یہ باتیں غور سے سن رہے تھے، پان کی پیک تھوکی
’’رشید میاں ہمیں تو تماشے سے غرض ہے۔ تماشہ اچھا تھا۔۔ وقت کٹ گیا۔۔مزہ آگیا۔ اب کون کیا کرتا ہے یہ وہ جانے ہمیں کسی سے کیا لینا دینا؟ ہمارے تماشے کے پیسے کھرے ہوگئے بھائی،آگے جو بھی ہو ہمیں کیا‘‘
سارے لوگ خوشی سے تمتماتے چہرے لئے ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔
’’اب کی بار اصل شعبدہ باز آیا ہے، دیکھ لینا یہ سب شعبدہ بازوں کو مات دے کے رہے گا اور اس نے کہا ہے کہ آج تو وہ پرانا بددیانت شعبدہ بازنکل گیا لیکن کل وہ ایک اورخاص کرتب سے اس شعبدے باز کو جکڑ ے گا اور اس سے پیسے نکلوا کے دم لے گا۔۔ بس ہمیں گھبرانا نہیں چاہیئے‘‘۔
مولانا نجم الصبیح صاحب نے داڑھی پرہاتھ پھیرا
’’میری سنیں اس شعبدہ باز سے زیادہ ایماندار، کھرا، لائق، سچا، امید دلانے والا، معاملہ فہم، قوت ارادی والا، بہادر، فتح دلانے والا، دشمن کے دانت کھٹے کرنے والا، غریبوں کا خیر خواہ اور نیک کردار، شعبدے باز کہیں سے بھی نہیں ملے گا‘‘۔
سب لوگوں نے تائید میں سر ہلایا اور خوشی اور امید سے ان کے چہرے تمتما اٹھے۔
صبح سویرے البتہ سب کی رائے بدل گئی کیونکہ شعبدے باز تماشہ دکھا کر اور پیسہ اٹھا کر سٹیج پر پڑی پوری کتاب کو پھاڑ کر جا چکا تھا اور سورج مکھی کھڑا ان مزدوروں کو درشت لہجے میں کچھ احکامات دے رہا تھا جو مستعدی کے ساتھ قناتیں لپیٹ رہے تھے۔
اگلے سال جب سول نافرمانی کے ہنگامے زوروں پر تھے۔۔برٹش سرکار گاندھی جی کو جیل میں ڈال چکی تھی، خالو دلی سے واپسی پر ایک بڑا اشتہار لے کے آگئے۔
’’دیکھو تو فریدہ اس سال آگرہ سے ایسا شعبدہ باز آنے والا ہے جوآٹھ آنے میں مٹی سے سونا بنا نے کی ترکیب سب کو بتا دے گا۔۔ صرف آٹھ آنے میں۔۔ سنا تم نے۔۔۔ مجھے تو اب کی بار یہ لگتا ہے ہمارے سارے مسائل ختم ہوجائیں گے اور جو لوگ نوالے نوالے کو ترس رہے ہیں۔۔مفت علاج معالجہ۔۔ مفت تعلیم۔۔ مٹی سے سونا۔۔سنا تم نے ؟سب کے دن پھر جائیں گے۔۔ مٹی سے سونا‘‘
خالو اپنے خیالات میں گم بار بار مٹی اور سونا کہتے رہے
خالہ نے کتری ہوئی چھالیہ اور سروتا ایک طرف رکھا
’’ہاں ہاں سب کے مسائل ضرور ختم کئے اس نے آٹھ آنے میں، یہ بتے یہ کسی اور کو دے۔ ارے میں کل موئی کہتی ہوں اس کو کیا پڑی ہے کہ سب کو مالا مال کرے۔ ارے میں کہتی ہوں وہ خود کیوں آگرہ میں مٹی سے سونا نہیں بناتا جو ادھر آرہا ہے آٹھ آنے کے تماشے کے لئے ؟۔
ارے بھاڑ میں جائے یہ شعبدہ باز، پہلے پیاز کاٹتے آنکھیں سوجتی تھیں اور اب خریدتے ہوئے۔۔اس موئے سکے کو دیکھیں۔۔ شاہ کی مورت وہی ہے، وزن گھٹ گیا اس کا۔۔ ان شعبدہ بازوں سے اللہ سمجھے، غارت کرے انہیں‘‘۔
پھرایک لمبی سانس لی اور شہادت کی انگلی تیز تیزہلاتے خالو کو تنبیہ کی
’’ہاں ایک بات آپ بس اپنا دھیان رکھیئے مٹی، سونے اور اپنے دن پھرنے کے چکر میں کہیں آپ ریوڑی کے پھیرمیں نہ آجائیں‘‘
یہ سنا تو میں وہاں ایک منٹ بھی نہیں رکا اور گھر آکر ہانپتے ہانپتے امی کو مٹی سے سونا بنانے والے شعبدہ باز کی ساری بات تفصیل سے بتائی۔اسی شام زوروں کی بارش ہوئی اور پھر امی اور ابو کسی بات پر لڑ پڑے۔میں نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ میں خالہ کے گھر نہیں جاوں گا۔
یہ سن کر دونوں نے ایک دوسرے کو یوں دیکھا جیسے میں نے ان کا کوئی شعبدہ پکڑ لیا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.