Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سندباد

محمد ہمایوں

سندباد

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    سندباد کا آٹھواں سفر

    اگلی رات دنیا زاد نے شہر زاد سے التجا کی۔

    “اے میری ماں جائے، کچھ آج کا بیان بھی ہو جائے گی، کہ دل متمنی ہے کسی قصہ، حکایت یا روداد کا”

    “بسر و چشم میری جان !لیکن پہلے نیک بخت بادشاہ کا اذن میسر ہو تب”

    شہریار نے سر ہلا کر اجازت مرحمت فرمائی اور شہر زاد نے اس رات کا قصہ شروع کیا۔

    “اے شاہ نیک بخت !میں نے ایسا سنا کہ جب سندباد جہازی سے پوچھا گیا کہ اس کی زندگی کا مشکل ترین سفر کون سا تھا تو اسنے جواب دینے سے پہلو تہی برتی۔لوگ ملتجی ہوئے اور اگرچہ انہوں نے باربار اس بابت استفسار بصد اصرار کیا، سندباد نے منہ پھیر لیا اور کلام سے یکسر انکار کیا۔

    چمیگوئیاں ہوئیں۔

    کسی نے کہا کہ ہو نا ہو وہ سفر دشوار تھا جب وہ رخ کے پنجے سے بندھا سانپوں کی وادی میں جا پہنچا تھا اور موت کے خوف سے سانس لینا بھول گیا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ میرا گمان ہے وہ وقت کڑا تھا جب سندباد ایک آدم خور افریت کے قلعے میں قید تھا جو لوگوں کو سکھوں میں پرو کر کھایا کرتا تھا۔

    ایک بزرگ آدمی نے، جو بغداد کا قاضی تھا، مے کا پیالہ اٹھایا۔

    “میری تو سمجھ میں یہ آتا ہے جب اسے اپنی مردہ بیوی کے ساتھ غار میں زندہ دفن کیا گیا تھا وحی مقام سب سے مشکل تھا''۔

    یہ سنا تو سندباد نے چپ کا روزہ توڑا اور یوں گویا ہوا۔

    “نادانو!میرے سات سفر تو کچھ بھی نا تھے۔ میرا سب سے مشکل سفر تو میرا آٹھواں سفر تھا”

    اس پر کچھ لوگ جو پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے، فرط تحیر سے اکڑوں بیٹھ گئے۔

    “خدا تیرا بھلا کرے سندباد ہم نے تو تیرے سات ہی سفر سنے ہیں، یہ نا شنیدہ آٹھواں سفر کون سا ہے ؟ اس کی کیا حکایت ہے ؟ خدارا روداد اس سفر کی بیان کر،ہم بصد ہوش ہما تن گوش ہیں”

    تب سندباد نے ایک لمبی آہ بھری۔

    “جان لوں میں نے آٹھ ہی سفر کئے ہیں اور اس محفل میں جہاں میں نے اپنی سات رہلات کی حکایات سندباد حمال کے گوش گزار کیں تو مجھے یہ سفر بھی یاد آیا لیکن تب میں نے دیکھا کہ کثرت مشقت اور شکم سیری کے باعث اس پر نیند کا غلبہ ہے اور یوں اس باعث یہ حکایت بیان سے رہ گئی۔ اب جب اصرار اتنا بڑھ گیا ہے تو اس سفر کی روداد سنو اور لتف سے سر دھنوں''۔

    سندباد نے پیالہ نیچے رکھ کر بیان جاری رکھا۔

    “اے شہر بغداد کے مے خوار رفیقو جب مجھے پھڑپھڑاتے بادبانوں، سینا تان کے کھڑے مستولوں، سانپ کی طرح تاؤ کھاتی رسیوں، سمندر کا سینا چیرتے چوڑے شانوں والے پر ازم جہازوں،فضائیں میں چکر لگاتے چنگھاڑتے دیو قامت رخوں، سینگوں میں ہاتھی اٹکائے، ہانپتے کر کدنوں کی یادیں ستانے لگیں تو دل کی کسک میں اشتیاق کا رنگ بھرنا شروع ہوا”۔

    اس امر سے میرے شوق میں ابال آیا اور یوں میرا خیال عمل میں تبدیل ہوا۔تب تو میں نے دل میں تہیہ کیا کہ اپنی قسم توڑوں، اپنے اوپر جبر کروں اور ایک آخری سفر کروں۔۔اپنا آٹھواں سفر۔

    میں نے سامان بزائت کا خرید کر اونٹوں پر لادا اور بغداد سے بصرہ کی راہ لی۔ تھکا دینے والی مسافت کے بعد ایک دن علی ال صبح بصرہ کی بندرگاہ پر پہنچا تو ایک جہاز، نیا، ما تجار کرام تیار پایا۔ میں نے اس پر اپنا سامان لادا۔

    کچھ ہی دیر بعد لنگر اٹھا دیے، گئے، بادبان کھول دیے، گئے اور سفر شروع ہوا

    ابتداٴ سفر میں ہوا موافق تھی اور جہاز سرعت سے خلیج پھارس میں اتر گیا۔آگے سمندر نے جہاز کو لپک کر ایسے تھاما جیسے کوئی بےقرار ماں ایک عرصہ انتظار بیشمار کے بعد اپنی اکلوتی اولاد کو گود میں بھر لے۔۔بچہ کلکاریاں مارے، اچھلے، مچلے، لہرائے، ہاتھ پیر ہلائے لیکن گود کی گرفت سے پھسل نا پاے۔

    جب پھڑپھڑاتے بادبانوں کی تھرتھراہٹ اور سرد ہوا کے جھونکے میں نے اپنے گالوں پر محسوس کئے، نورسوں کی پر ہیجان آوازوں کی گونج سنی،زبان پر نمکین ذائقہ محسوس کیا اور سامنے پانی کی ایک چادر، لا متناہی،تنی دیکھی تو میں نے ہق الیقین جانا کہ میں عین سمندر کے قلب میں پہنچ چکا ہوں،۔

    جہاز دو منفرید حصوں پر مشتمل تھا اور اس میں بھانت بھانت کے تاجر تھے جن کی بولیاں الگ تھیں اور پنہاوے مختلف تھے۔ انمیں کچھ تاجر بڑے تھے اور کچھ چھوٹے اور اس تفاوت پر کچھ لوگ نا صرف اترائے بلکہ بے انتہا غرور پر اتر آئے۔۔ایک دوسرے کی زبان اور پنہاوے کا مذاق اڑایا۔

    جہاز کا پہلا ناخدا، نیک کردار، باصفا، بات کا کھرا، تبیتن سچا، امور جہاز رانی میں تاک، وقت کا پابند، دیانت دار ،امانتدار قربانی کے جذبے سے سرشار تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ سفر کے اگلے ہی دن اس مرد نیک سیرت کی روح قفس انسری سے پرواز کر گئی۔ جب یہ ہوا تو ایک اور ناخدا نے جہاز کا نزمنسق سنبھال لیا لیکن انجام کار کسی شقی القلب نے اس کو جان سے مار دیا اور قاتل کو لوگوں نے۔

    اس سے تفاوت بڑھی۔۔ اور ہر سو افراتفری پھیل گئی۔

    جہاز میں جو لوگ صاحب اختیار تھے انہوں نے باقی لوگوں سے کنارا کشی اختیار کی اور جہاز کے ارشے پر الگ تھلگ بیٹھ گئے اور مے نوشی میں مصروف ہو گئے۔ اس کے بعد پے در پے جو ناخدا آئے وہ لوگوں سے دور رہے اور کچھ کے گرد مصاحبوں کا جمگھٹا رہنے لگا جو سب کے سب انکے خونی رشتےدار تھے۔ وہ لوگوں کو بیجا تنگ کرنے لگے اور گل غپاڑا مچانے لگے اور اس باعث لوگوں کا جینا حرام ہو گیا۔

    کون زیادہ بڑا ہے اور کون چھوٹا ؟یہ فیصلہ نا ہو سکا۔

    اسی اثنا جہاز ایک سرد مقام سے گزرا تو جہاز میں کچھ تختے،جو زائد تھے اور واسطے مرمت کے پڑے تھے، ان مصاحبین نے سردی سے بچنے کے لیے الاؤ صورت جلانے شروع کئے اور آگ سینکنے لگے۔ لوگوں میں اس بات کا خوف پھیلا کہ اگر کوئی کڑا وقت آیا تو جہاز کو مرمت میں مشکل پیش آئیگی تو اسلئے انکو روکا۔ اس روک ٹوک سے وہ ہاتھ کیا کھینچتے، الٹا تمبیا کرنے والوں پر ہاتھ اٹھایا،مرنے مارنے پر اتر آئے۔ ناچار لوگ داد رسی کے لیے ناخدا کے پاس جا پہنچے لیکن اسنے انکی کوئی مدد نا کی کیونکہ ناخدا خود ہماوقت عیش وطرب میں مصروف تھا۔

    مایوس ہو کر جب لوگوں نے دیکھا کہ تختے جلانے والے نہیں رک رہے تو خود بھی جتنے زائد تختے اور بادبان جمع کر سکتے تھے، جمع کرنے میں مصروف ہو گئے اور اس سے آگ جلا کر سینکنے لگے۔ کس نے کم تختے اٹھائے کس نے زیادہ، اس سے قبائلی تفریق جاگ اٹھی اور ہم میں جو زنگی تھے وہ الگ کونے میں بیٹھ گئے۔جو عرب تھے وہ الگ کونے میں اور جو عجمی تھے وہ الگ کونے میں اپنے اپنے الاؤ کے گرد بیٹھ گئے، اپنی زبان اور پنہاوے کو برتر اور دوسرے کی تضحیک میں سر گرم ہو گئے۔

    اکیسویں روز ہمارا جہاز ہوا کے اثر سے ڈولنے لگا اور پھر جب ابھی سورج نسف النہار پر تھا یکایک ہر سو اندھیرا چھا گیا۔ ہم نے اس پر تعجب بیشمار کیا اور سب نے اس اندھیرے پر کسوف کا اعتبار کیا لیکن جو اوپر دیکھا تو ایک دیو قامت رخ کا نظارا کیا جس کے پروں نے پورے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کی ہییت پچھلے تمام رخوں سے زیادہ مہیب تھی، اس کا رنگ کالا سیاہ اور چونچ تین رنگی نوکدار تھی اور اس کے پنجوں میں فیل صورت ایک چٹان تھی۔

    ابھی ہم اسے دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ آنن فانن ہمارے جہاز کے عین اوپر آ گیا۔ مہیب آوازیں نکالتے ہوئے اسنے جہاز کے اوپر کئی چکر لگائے اور پھر تاک کر چٹان اپنے پنجوں کی گرفت سے آزاد کی اور وہ سنسناتی ہوئی جہاز کے قریب سمندر میں آ گری۔

    ہمالہ مانند لہریں سمندر کے سینہ سے باربار اٹھیں، ایک دوسرے سے لپٹ کر گلے ملیں اور انکے بیچ ہمارا جہاز جیسے پس گیا۔ اس قیامت خیز تلاطم میں جہاز ان لہروں کے زیر وبم کے رحم اوں کرم پر گاہے پھسلتا گاہے پلٹتا ایک حالت نا گفتہ بہہ پر جا پہنچا۔ قصہ مختصر اس قیامت صغریٰ کے سبب جہاز کے بادبان پھٹ گئے، رسیاں ٹوٹ گئیں، مستول اکھڑ گیا اور جہاز میں جا با جا شگاف پڑ گئے۔

    اس امر سے لوگوں کے چہرے خوف سے بگڑ گئے لیکن ناخدا نے سب کو تسلی دی کہ دور سے ایک جہاز آکر ہماری مدد کریگا اور اب تو بس اسی کا آسرا ہے

    لوگوں کی جان میں جان آئی اور مغرور لوگوں نے اللہ سے مدد نا مانگی بلکہ صرف اسی جہاز کے انتظار میں بیٹھے رہے۔

    بیت

    شاید کسی بھنور میں کھلے ناخدا کی آنکھ

    ساحل کے خواب دیکھ رہا ہے سفینے میں

    نا اس جہاز نے آنا تھا اور نا وہ آیا۔

    شگاف البتہ بڑھتے بڑھتے اتنے ہو گئے کہ ہمارے جہاز کا ایک حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا اور اس میں لوگ اور ملاح پھنس گئے۔ اس پر لوگوں نے رونا دھونا مچایا اور گڑگڑا کر اللہ سے دعا کی۔ معاف کرنے والے کو انکی حالت پر رحم آ گیا، اس کی نصرت آ پہنچی اور کچھ لوگ اس ٹکڑے میں پھنسے لوگوں کو چھڑا لائے۔

    اس امر سے جہاز میں جوش کی کیفیت آئی، مستعد ملاح حرکت میں آئے۔۔ مستول کو دوبارہ اپنے مقام پر نصب کیا، شگافوں کو بچھے کھچے زائد تختوں سے بھر دیا اور یوں جہاز میں ایک قیامت آتے آتے رک گئی۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ مستول ٹھیک ہیں اور بادبان پھڑپھڑاتے ہیں تو خوشی کے گیت گانے لگے۔

    ناخدا نے کچھ بھانڈ، زنخے، دو ربابئیے، ایک تبلچی اور ستار والے کو باہم جمع کیا اور ہیجڑوں کو ناچنے کا حکم دیا اور ان پر اشرفیاں نچھاور کیں۔ افسوس کسی نے معاف کرنے والے کا شکر ادا نا کیا اور نا ہی ان پر درود بھیجا جن پر درود بھیجنے کا حق برحق ہے۔

    سب نے سکھ کا سانس لیا اور اطمینان سے رقص وسرور کا تماشہ کرنے لگے لیکن ہمارے برے دن ابھی باقی تھے۔ اگلے دن یکایک ہوا کی گردش رک گئی اور دھند ایسی چھا گئی کہ ہاتھ کو ہاتھ نا سجھائی دے۔ بادبان مرجھائے پھولوں کی مانند سر جھکا کر پھڑپھڑاتے پھڑپھڑاتے ساکت ہو گئے اور جہاز بیچ سمندر غیر متحرک ایسے کھڑا ہو گیا جیسے لنگر انداز ہو۔

    ہوا کے اس غیر متوقع سکوت اور حبس سے لوگوں کے چہرے فق ہو گئے اور انکی سانسیں جیسے رک گئیں۔کچھ لوگوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سعی کی کہ اس جمود کا پتہ لگائیں تاکہ اس غیر متوقع عذاب کا سدباب ہو سکے اور چھٹکارا پاؤں۔

    زیرک ملاحوں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر سب کے سب ملکر چپو چلائیں تو شاید کچھ حرکت اتنی پیدا ہو کہ اس مقام جمود وسک سے راۂ فرار ملے لیکن لوگوں نے انکی سنی ان سنی کر دی،انکو بیوقوف اور نادان بتلاکر اپنے تئیں ان سے ماہر جہاز ران بتلایا۔

    ایک آدمی نے اس کو اللہ کے عذاب سے تعبیر کر کر تقریر کی کہ مقرر ہم میں کوئی گناہ گار ایسے ہیں جن کی بدولت سب پر کڑا عذاب پڑا ہے۔ سب نے اپنے زہد کی قسمیں کھائیں اور اپنی پوری زندگی میں ایک بھی گناۂ کبیرہ اور سگیرا سے انکاری ہوئے۔

    موصل کا ایک قاضی جو اس جہاز میں سوار تھا اس معاملے سے اتنا گھبرایا کہ اس کی سانس اکھڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جان بلب ہو گیا اور پھر دفعتاً مر گیا۔ دو تاجروں نے یہ ہولناک منظر دیکھا تو جہاز سے چھلانگ لگا دی اور سمندر میں غرق ہو گئے۔

    کچھ لوگوں نے شراب سے دل بہلانا شروع کیا اور کچھ نے سارا الزام ناخدا پر ڈال دیا جو ہیجڑوں کے تماشے میں مصروف، اپنے کام سے غافل تھا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ہمیں اس جہاز میں سوار ہی نہیں ہونا چاہیئے تھا اور بندرگاہ پر ہی رہتے تو اچھا ہوتا کہ یہ دن تو نا دیکھنے پڑتے۔ کچھ لوگوں کو شک تھا کہ وہ غلط جہاز میں بیٹھ گئے ہیں۔

    اسی اثنا میں دو اماموں میں اس بات پر لڑائی ہوئی کہ جوہری رکائت میں آمین جہری ہے یا سری اور رفع یدین ہے بھی یا نہیں اور عصر کی نماز کا سہی تعین کیونکر ہو۔ بحث وتکرار سے بات آگے بڑھی۔ اس اختلاف سے کچھ اور چھوٹے اماموں کو بھی حوصلا ہوا، کچھ نے شراب اور کچھ نے سود دینے تک کو حلال قرار دیا۔ اس سے آگے آپس میں لن تان کی، دشنام بازی کی اور دست وگریبان ہوتے ہوتے رہ گئے۔ انجام کار ہر جماعت نے الگ جماعت کروائی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

    ابھی ہم اسی حال پر تھے کہ جہاز میں تختوں کے پیندوں سے پانی رسنے لگا اور پھر وہ تختے ایک ایک کرکے اکھڑنے لگے اور یوں دوبارہ جا بہ جا شگاف پڑ گئے۔ یقینی تباہی کی یہ حالت دیکھی تو اسماعیل کوفی نے، جو سونے کا تاجر تھا،ایک پرندے کو شمال کی جانب سے بلا بھیجا اور سانیوں میں ناگہاں،دھندھ کی اوٹ سے ایک فلک، مانند کشتی نوح، سیاہ، جسامت میں ہزار فیلوں سے بڑی، آبی گھاس سے ڈھکی، سمندر کے خاموش سینہ سے یک بہ یک اچھل کر نموردار ہوئی اور ایک زینہ بطن سے اس کے ایسے برآمد ہوا جو ہمارے جہاز کے ساتھ آن لگا

    لوگوں نے فرط مسرت سے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا اور سعی کی کہ اس فلک میں سوار ہوں۔

    ناگہاں چار زنگی، درشت لہجے والے اس فلک سے اترے اور لوگوں کو وہاں جانے سے روکا۔ممانعت پر لوگوں نے اسماعیل کوفی کی منتیں کیں کہ انکو بھی اس جہاز میں جانے دیا جاوے لیکن وہ ویپار میں تاک تھا اور جس جس نے سونے سے بھری تھیلیاں اس کو دیں صرف انکو دوسرے جہاز میں بٹھانے کا وائدا کیا

    اس پر لوگ مشتعل ہو گئے اور سعی کی کہ جہاز میں بہرحال سوار ہوں۔ لوگوں میں بغاوت کا رجحان دیکھا تو اسماعیل کوفی نے ناخدا کے کان میں کچھ کہا اور اسے کچھ اشرفیاں دیں۔ وہ اٹھ کر اپنے حجرے میں گیا اور پنجرے میں بند اپنا طوطا باہر لے آیا۔

    بیان ناخدا کے طوطے کا اور لوگوں کا اشتعال سے باز آنا۔

    ناخدا کا طوطا،سبک پر،زمرد رنگ، گلے میں کنٹھیا، لعل چہچہا چونچ، پھیلتے سکڑتے چھوٹے نتھنے سرخ، نفیس پنجے، ٹانگ میں کڑا نقرئی، بازو پر سرخ پیسہ، زور سے پھڑ پھڑانے لگا اور پنجرے سے نکلنے کی سعی کی۔ لوگوں نے اسے پنجرے سے آزاد کرنے کی مخالفت کی تو طوطے نے، جو ہر بولی میں تاک تھا، کہا کہ میں ایسی ترکیب جانتا ہوں، جو جہاز میں شگافوں کو بھر دے اور اس جہاز کو یہاں سے نکال، بہ حفاظت بصرہ لے جائے۔ لوگوں کو یقین نہیں آیا اور کسی نے اسے جھوٹھا اور کسی نے بڑبولا بتلایا۔ سب نے اسے پنجرے میں رکھنے پر اصرار کیا

    یکایک طوطے نے ایک گیت سریلی آواز میں گانا شروع کیا۔

    گیت کے ساتھ ہی جہاز میں موجود کچھ شریف زادوں کی بیٹیاں رک نا سکیں اور انہوں نے حجاب اتار کر ناچنا شروع کیا۔وہ طویل قامت تھیں، حسن میں یکتا تھیں، جوانی انکی جوبن پر اور قوسیں کاسیں سب برابر تھیں۔ لباس وہ زیب تن کیا ہوا تھا کہ ڈھونڈھتی نظروں کو سب کچھ مل جاتا تھا۔ اس پر لوگوں نے انگلیاں اٹھائیں اور اس کام کو خلاف اسلام بتایا لیکن ایک عالم نے جس نے سود دینے کو حلال بتلایا تھا موسیقی اور اس عمل کو جائز قرار دیا۔

    شرعی قباحت دور ہو گئی تو لوگوں نے طوطے کو داد دی اور اس کو پنجرے سے آزاد کیا گیا۔ طوطا اڑ کر مستول کے سب سے اونچے مقام پر جا پہنچا۔ گاہے سریلا گیت گاتا اور گاہے یہ بتاتا تھا کہ پانی کتنا چڑھ آیا ہے اور ڈوبنے میں کتنے دن رہ گئے ہیں اور لوگ خوف سے لرزنے لگے۔

    یکایک ان نیم عریاں شریف زادیوں نے اوڑھنیاں پہن لیں، تسبیح ہاتھ میں پکڑ، لوگوں کو نماز کی تلقین کی اور قرآن کی آیات کی تفسیر ایسے بتلائی جو بالرائے تھی، مضموم تھی اور تجوید کے اصولوں سے نابلد قرآن کی تلاوت کرتی رہیں اور خوشالہانی سے نعتیں پڑھنے لگیں۔ یکایک دوبارہ نیم برہنا ہو کر ناچنے لگیں اور لوگوں کی تشنہ آنکھیں انہیں دیکھتی رہیں۔ لمحہ لمحہ تغیر کھاتے یہ منازر دیکھ کر لوگ عش عش کر اٹھے، دین بھی کامل اور دنیا بھی سالم۔۔ ہم خرماہم ثواب۔

    افسوس کہ اس تماشے میں محو انکی نظروں سے ڈوبتا جہاز یکسر اوجھل ہو گیا۔

    اس جہاز میں مقئی کا ایک تاجر تھا۔ اسنے کچھ دانے طوطے کو دیے، تو طوطا اس کی مدح سرائی میں مشغول ہو گیا۔ یہ دیکھا تو لوگ متحیر ہوئے اور پھر تو جسکو طوطے سے جو کہلوانا ہوا، اسی تاجر کی منت خوشامد کر کر یا اس کو کچھ اشرفیاں دیکر، اپنی بات لوگوں کو سنائی اور یا اپنی سامان بزائت کی تشہیر کی۔ سامان کی تشہیر سے ڈوبتے جہاز میں خرید فروخت بڑھی اور اس غرق ہوتے جہاز پر اسفہان کہ نسف جہان ہے،کے بازار کا سا گماں ہونے لگا، تونگر مزید تونگر اور مفلوک الہال اور بدحال ہو گئے

    اسی جہاز میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس جہاز کے بارے میں فکرمند تھے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی ناخدا کو دے دی کہ اس سے جہاز کو مرمت کرے۔ انکی قربانی کو ناخدا نے البتہ بالکل نہیں سراہا بلکہ الٹا انکا مال ہڑپ کر کر ہیجڑوں اور تبلچیوں پر نچھاور کیا۔

    کچھ لوگ،عقل والے، کسی ایسے حیلے کی تلاش میں تھے کہ اگر جہاز کے شگاف بھر نہیں سکتے،پانی تو باہر پھینکیں۔ یکایک انکی نظر کچھ بالٹیوں پر پڑی جو اس تاجر کی تھیں جو جہاز سے کود کے مر چکا تھا۔ ان عاقبت اندیشوں نے بالٹیاں پکڑیں اور پانی باہر پھینکنا شروع کیا جس پر کچھ لوگوں نے انکو ٹوکا اور کچھ نے مدح سرائی کی۔ انمیں جو ذرا زیادہ مایوس تبئیت اور تنک مزاج تھے کہنے لگے

    ’’یہ کہاں سے بالٹیاں لے آئے ہو؟۔ ان سے کتنا پانی نکال باہر کروگے ؟ ان سے کچھ بھی نہیں ہونے والا اب ہم سب ڈوب کر مچھلیوں کی خوراک بنینگے، یہی ہمارا مکدر ہے'

    ایک فقیہہ نے کتاب کھولی

    ’’فقہ میں ایک چیز جو دوسرے کی ملکیت ہے، چاہے اس کے قبزے میں ہے یا نہیں، آپکے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی اذن، بلکہ خوش دلی کے بغیر وہ چیز استعمال میں بہ لائینگے یا اس کو قبزا میں لیں کہ نا تو سنجیدگی میں ایسا کرنا جائز ہے اور نا ہی مذاق میں

    آپ لوگوں کو اس تاجر سے پوچھ کر انکی بالٹیاں استعمال کرنی چاہیئے تھیں، یہ سارا کام بغیر اجازت کے ہے،غیر شرعی ہے، اسے خیانت اور سرکا تعبیر کیا جاتا ہے، قابل سرزنش ہے اور سزا جسکی قطع ید ہے اور روز قیامت بھی کابل گرفت ہے نیز موجب شرمساری بھی ہے''

    دوسرے فقیہہ نے استدا کی

    ’’حضرت یہ بھی دیکھیں کہ انکا استعمال نیک مقصد کے لیے ہے، اور مالک سے، جو مر چکا، اجازت کے تمام شرعی راستے مسدود ہیں۔میرا قیاس ہے کہ یہ استعمال جائز ہے'

    ’’فقہ اسلامی میں قیاس کا درجہ قران اور سنت سے کمتر ہے، اے نادان شخص'

    اس پر دونوں لڑ پڑے اور ایک دوسرے کو کافر اور خارج از اسلام بتلایا۔ انہوں نے خود تو کچھ نا کیا لیکن انکی اتباع کرنے والے ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوئے اور اس باعث کئی لوگوں کے سر کھلے اور دو لوگ تو جان سے بھی گئے

    جو تخمین وظن کے میدان میں ذرا زیادہ مشاقی تیراک تھے، انہوں نے کہا

    ’’اگر آپ سب ملکر یہ ساری بالٹیاں دن میں تین ہزار مرتبہ تیس دن بغیر سوئے کھائے پیئے نکالتے رہیں تو ہی کہیں جاکر جہاز سے اتنا پانی نکل جائیگا کہ پھر روزانا سو بالٹیاں نکال کر جہاز میں پانی آمد ورفت کا تناسب اس طور اعتدال میں آجائےگا کہ توازن قائم رہیگا

    اس ناقابل یقین حد تک درست حساب پر انکا بڑا چرچا ہوا، لوگ عش عش کر اٹھے اؤر انکو داد بے حساب دی۔ مستول پر بیٹھے طوطے نے انکو شاباش دی اور انکی بصیرت، عقلمندی، مواملاپھہمی کو بیحد سراہا

    مرکب کے ناخدا نے انکو ارشے پر بلایا اور ستایش ایسے کی گویا نجات دہندے ہوں، اور پھر سب کو تیس اشرفیاں فی کس دیں

    بیت

    واں شہر ڈوبتے ہیں، یہاں بیہس کہ انہیں

    خم لے گیا ہے یا خم مہراب لے گیا

    کچھ لوگ ناخدا سے شاکی تھے۔ انہوں نے بغاوت کی اور اسے ہٹا کر اس کے نائب کو ناخدا بنا دیا لیکن پھر اس سے بھی ناراض ہو گئے اور اسے سولی پر لٹکا دیا۔ انمیں ایک ناخدا بولا کہ میں ان سب کو جس جس نے جہاز کے تختے جلائے، پکڑ کر سمندر میں غرق کروا چھوڑوں گا لیکن وہ بھی اپنی انا، نائہل مساہبینمساہبات اور لسانی مغلزات میں ایسے پھنسا کہ کچھ نا کر سکا

    جہاز میں ہیجڑوں کا تماشہ جاری رہا

    انہی میں کچھ لوگ ان حالات سے اتنے غصے میں آئے کہ جہاز میں جتنی تلواریں تھیں انہیں اٹھا کر پہلے رسوں کو کاٹا اور پھر ملاحوں اور دوسرے بیگناہوں پر ٹوٹ پڑے۔ کئی بیچارے ملاحوں کے خون سے جہاز کا عرشہ سرخ ہوا اور بہت سارے بےگناہ مرد،عورتیں اور بچہ بھی مارے گئے لیکن آخرکار ان پر قابو پایا گیا اور انہیں ایک ایک کرکے سمندر میں پھینک دیا گیا

    انمیں ایک آدمی، فقیر منش، سامنے آیا اور کہا جب تک مطلوبہ تعداد نا ہو ان ناخداؤں سے لڑنا جان کا اور وقت کا ضیاع ہے۔ ہاں البتہ اجتماعی توبا کرکے، ایمان مضبوط کرکے پھر آہستہ آہستہ،ایک منظم جماعت بنا کے پہلے دل سے، پھر زبان سے اور پھر ہاتھ سے انکو روکا جائے تو جہاز سالہ لوگوں کے پاس واپس آ سکتا ہے اس کی حالت اللہ کی نصرت سے بہتر ہو سکتی ہے

    لوگوں نے اس نیک مرد کو برا بھلا کہا اور اسے دقیانوسی قرار دیا

    اسی جہاز کے کونے میں ہندوستان کا ایک قساگو بھی بیٹھا تھا۔ اسنے لوگوں کو با آواز بلند مخاطب کیا

    ’’جہاز کے ڈوبنے کی فکر نا کرو، جہاز تو ڈوبتے رہتے ہیں، اور یہ پہلا جہاز نہیں جو ڈوب رہا ہے۔ میں آپ لوگوں کو ایک دلچسپ قصہ سناتا ہوں، آپ لوگ وہ سنیں

    یہ ایک ایسے جزیرے کا قصہ ہے جسمیں سنان بن راحل کا صندوق تھا جسمیں جو کچھ تھا کیا بتاؤں

    جان لو

    یہ قصہ دلوں کو گرما دے، تحیر سے اس قصہ کے لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں'

    لوگ اس بیان سے بیچین ہوئے

    ’’ صندوق کہاں ہے، اس میں کیا ہے، خدا را یہ حکایت بیان کرو، ہم ہما تن گوش ہیں'

    ’’اس کا صندوق بحیرہ ترش کے عین بیچ ایک جزیرے پر ہے۔ اور بحیرہ ترش تیزاب کی ایسی سمندر نما جھیل ہے جسمیں کوئی مرکب سفر نہیں کر سکتا اور نا ہی کوئی پرندہ اس کے اوپر پرواز کر سکتا ہے لیکن یہ میں ہی ہوں، جو نا صرف اس صندوق تک پہنچ گیا بلکہ یہ بھی جانتا ہوں، کہ اس صندوق میں کیا راز پنہاں ہے''

    سب ڈوبتے جہاز کو بھول کر بیشمار توجہ سے اس کا قصہ سننے لگے

    قصہ بحیرہ ترش کا اور اس میں سنان بن راحل کے صندوق کا بیان

    اے محفل پر ہوش یہ داستان پر جوش ہما تن گوش ہو کر سنو اور لتف سے سر دھنو۔ اے ازیزان باسفا بعد از ہم دو ثنا ودرود بر مصطفیﷺ، کہ دم سے جن کے یہ کارخانہ حیات ہے اور سفارش جن کی روز جزہ بہہ منشا واذن الہی موجب نجات ہے، اور سلام اہل بیت مطہر ین پر جن کی محبت میں میں مرتا ہوں، اب دھیان قصہ کی طرف کرو کہ اہتمام اس کے آغاز کا کرتا ہوں،

    یہ قصہ تب شروع ہوا جب بنارس کی ایک گلی میں کہیں سے ایک فقیر آیا۔۔ بیکس، آشفتہ خاطر، رہ نشین، آزردہ جبین، بدون کفشکلاہ، بغل میں عصا، روبہ گریے، ند اپر بقا، گریبان تار، چشم اشک بار، تنگ دست ولاچار، نحیف ونزار، ژولیدہ مو، لباس میلہ کچیلا، گرسنہ وتشنہ کام، آنکھیں بے خواب، چہرہ پریشاں، پیر گھسیٹتا گلیوں میں سرگرداں ہمیشہ ایک ہی سدا دیتا تھا

    ’’مجھے کھانا کھلا دو دس دمڑیاں دے دو اور قسمت کی چابیاں لے لو'

    لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اسے دیوانہ بتلایا لیکن اس کی باتوں سے میرا ماتھا ٹھنکا اور اسے گھر بلایا، غسل کروایا اور پوشاک صاف پہنا کے دیوان خانے میں بٹھایا اور واسطے اس کے مرغ مسلم، بریانی، حلیم اور گاجر کا حلوہ پکوا کے ساتھ روغنی نان کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ اسنے کھانا کھایا اور دمڑیاں گن کر مجھے ستانوے کلیدیں گن کر دیں جن میں سواے ایک کے باقی سب بلوری تھیں

    ’’انیک مرد یہ چابیاں ایک ایسے صندوق کی ہیں جسمیں پتہ نہیں کیا ہے لیکن بغداد کے تین تاجر اس صندوق کو پانے کی جستجو میں اپنا سارا دھن دولت دینے کو تیار ہیں۔ اس صندوق پر سو تالے ہیں اور اس کی عجب حکایت ہے

    اس صندوق میں ایک راز پنہاں ہے جس کا علم صرف اس راز داں کے علم کے احاطے میں ہے جس نے اس میں یہ راز پوشیدہ رکھا اور یا اس ذات کے علم میں جس نے یہ دنیا بنائی۔ یہ راز کیا ہے یہ تو جب صندوق کھلے تب آشکارہ ہوئے لیکن صندوق تک پہنچنا قیامت سے کم نہیں

    اب غور سے دیکھو!تمہارے پاس جو ایک آہنی کلید ہے وہ شاہ کلید ہے اور باقی بلوری کلیدیں دختر کلیدیں

    جان لو

    یہ صندوق تب کھلے جب اس کے قلب میں سو کنجیاں بشمول شاہ کلید کے اس طور اتر جاویں کہ اتارنے والا الگ الگ شخص ہو

    اب تجھ پر لازم ہے کہ باقی تین کلیدیں ان تاجروں سے لو جو بغداد کے ایک محلے میں ایک مے خانے میں ہر جمعے کی شام مل بیٹھتے ہیں۔ جب سو کلیدیں پوری کر چکو تو نناوے آدمی اعتبار کے لیکر، بحیرہ ترش میں جزیرے پر پہنچ کے وہ صندوق کھولو اور دل کی مراد پاو''

    یہ کہہ کر وہ میرے گھر سے یہ سدا دیتے نکل گیا

    ’’ مجھے کھانا کھلا دو دس دمڑیاں دے دو اور گیدڑ سنگھی لے لو اور کامل جوگی بن جائ'

    میں نے کلیدوں کا مشاہدہ کیا

    ہر کلید استخواں صورت تھی اور اس کا دستہ انگوٹھے سے قدرے بڑا تھاجس پر سامنے ستارا اور پشت پر ایک ہندسا واسطے شمار کے کندہ تھا۔ ہر کلید کی لمبائی ڈیڑھ انگلی تھی اور اس کے داہنی طرف تین اور باہنی طرف چار دانت تھے جبکہ آخری دانت داہنی طرف کو نکلا قدرے لمبا اور منقار نما تھا۔ کلید کی آنکھ بیضوی تھی اور دستے کے عین بیچ میں نا تھی بلکہ مرکز سے بس ذرا ہی خارج تھی۔ میں نے تمام چابیاں ایک تھیلی میں ڈال، نیفے میں اڑس کر بغداد کا سفر شروع کیا اور ہرج مرج کھینچتا تین ماہ کی مسافت کے بعد بالآخر مذکورہ میخانے میں پہنچا

    دن ڈھلا، شام کو وہاں تین تاجر آئے اور انہوں نے تین بلوری کلیدیں اپنے سامنے رکھیں اور مے نوشی سے دل بہلاتے رہے۔ مجھ سے صبر نا ہو سکا اور انکی محفل میں مخل ہونے کی اجازت مانگی جو انہوں نے بہہ تردد مرحمت فرما دی۔ میں نے جب انکو اپنی طرف متوجہ پایا تو انکو اپنا مدعا بیان کیا اور کلیدیں بہ دکھائینگے

    جب انہوں نے میرے پاس کلیدیں دیکھیں تو ہی میرے صداقت کا یقین کیا

    لوہا گرم دیکھ کر جب میں نے ان سے کلیدیں دینے کی استدا کی تو انہوں نے اپنی اپنی کلید مضبوطی سے پکڑ کر اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے

    پہلا تاجر، جو قدرے جوان تھا، یوں گویا ہوا

    ’’اے ہندوستانی تاجر میرا نام محمد بن موسی بغدادی ہے، میں سونے کا تاجر اور بغداد کے ملککزجار کا بیٹا ہوں،۔ ہم تینوں تاجروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر تم ہمیں اس صندوق تک لے جائ تو تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہیں، کلیدیں البتہ تمہیں نہیں دینگے

    میں نے اس تردد کی وجہ جاننے کی سعی کی تو اسنے کہا

    ’’اس صندوق کے بارے میں عجیب روایات ہیں۔ مجھے میرے دادہ نے، جو کیمیا گر تھے، بتایا کہ اس صندوق میں ایسا نسخہ پنہاں ہے جس سے پارے اور گندھک کی اس نسبت اور مقدار کا سہی پتہ چلتا ہے کہ جب ان دونوں کو باہم ملایا جائے تو سونا بنے نا کہ شنگرف۔ اب اگر تم وائدا کرو کہ یہ ترکیب مجھے ہی ملے تو میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں،۔میں نے استفسار کیا

    ’’سونا تو تیرے پاس بے انتہا ہے، اور سونے کا کیا کرنا ہے تم نے

    ’’میں اس مخفی ترکیب سے اور سونا بنا کر اس سے سو کمروں کا عالیشان محل بنائینگا اس میں سو خدام رکھونگا کیونکہ میرا یہ گھر دس کمروں کا ہے اور میرے پاس دس خدام ہیں۔ پھر شادی کرونگا اور یوں اپنی زندگی آرام سے بتاؤنگا، اس سے زیادہ کی بخدا مجھے طلب نہیں'

    دوسرے تاجر نے مے کا پیالہ نوش کرکے رکھا

    ’’میرا نام جواد بن حسان مغربی ہے اور میری عمر ایک سو دس برس ہے، ضعیف ہوں،۔ مجھے میرے دادہ نے یہ بتایا کہ اس صندوق میں آب حیات ہے جو حضرت خضر نے چشمہ حیات سے لا کر وہاں چھپا رکھا ہے۔ جو اس آب حیات کو پی لے، اس کی تاثیر سے جوان ہو جائیگی اور تا ابد زندہ رہے۔ اگر مجھ سے یہ دینے کا وائدا کیا جائے تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں،'

    میں نے کہا

    ’’ساری عمر جی کر کیا کرنا چاہتے ہو کہ بے شک تیری عمر تو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔'

    ’’میں جوان رہ کرتا ابد زندہ رہنا چاہتا ہوں،۔ میں نے دل میں یہ باندھا ہے کہ محنت کرونگا اور چار شادیاں اور ہزار کنیزیں رکھونگا۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں، کہ ہزار کمروں کا محل بنائیں اور میں اس میں ہزار خدام رکھونگا۔ میرا یہ محل چھوٹا ہے، سو کمروں کا ہے اور اب میرے پاس سو خدام ہیں۔ یوں اپنی زندگی آرام سے بتاؤنگا، اس سے زیادہ کی بخدا مجھے طلب نہیں'

    تیسرا تاجر دیر تک میری طرف دیکھتا رہا پھر لب کھولے

    ’’میرا نام خلیل بن عمران عباسی ہے اور میں بغداد کے وزیر کا نواسا ہوں،۔ مجھے میری والدہ نے یہ بتایا کہ اس صندوق میں اسم اعظم ہے جسکو جان کر لوگوں کو اپنے امر کا تابع ومطیع بنا یا جا سکتا ہے۔ اگر یہ مجھے دینے کا وائدا کیا جائے تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں،''

    ’’لوگوں کو تابع بنا کر کیا کروگے ؟ تم تو پہلے سے صاحب اقتدار خاندان میں ہو'

    ’’میں آہستہ آہستہ پوری دینا پر خلافت کرنا چاہتا ہوں،۔ نیز ایک لاکھ کمروں کا محل بنانا چاہتا ہوں، اور اس میں لاکھوں خدام رکھونگا کہ میرا محل صرف ہزار کمروں کا ہے اور اس میں خدام ہیں۔۔تو یوں اپنی زندگی آرام سے بتاؤنگا، اس سے زیادہ کی بخدا مجھے طلب نہیں'

    یہ سب سن کر ہم نے تمام کلیدیں ایک ساتھ زمین پر رکھیں تو اس کی تاثیر سے سامنے دیوار پر ایک نقشا نموردار ہوا جس سے پتہ چلا کہ بحیرہ ترش شمال کی طرف دس دن کی مسافت پر ہے۔ ہم نے سفر شروع کیا اور انجام کار دسویں روز بحیرہ ترش کے کنارے تک پہنچ گئے

    ذکر بحیرہ ترش کا اور پھنسنا مشکل میں

    ہد نگاہ تلک ایک جھیل نما سمندر، وسعت میں جسکے چہار جہان سما جاویں، ایسے ساکت جیسے تصویر آب اور دیکھ کر جسے یوں لگا جیسے سونے کا باریک ورق تنا ہو اور حلقے زردی مائل سرخ اس جھیل کا پیندا مانند آئینا نظر آتا تھا۔ پانی اس جھیل کا ، جیسے سنا، کھٹا تھا اور اس سے دھواں اس صورت اٹھتا تھا کہ آنکھوں میں جلن ہو۔ اس پانی میں البتہ کمال حد تک ایک قوت تیزابی پنہاں تھی کہ واسطے ہر ذی روح کے پیغام اجل تھی۔ اس جل میں مچھلی، نہنگ، مینڈک، مار ماہی ، کوسہ ماہی، سرطان، جھینگے، کرش، سنگ پشت، غرض کوئی آبی جانور نا دکھائی دیتے تھے

    یہ دیکھ کر ہم نے جان لیا کہ کوئی شتی اس جل میں کسی صورت سفر نا کر سکتی تھی کہ یکسر تیزاب میں گھل جائے۔سونے کے تاجر نے کہا کہ سونے پر تیزاب کا اثر نہیں ہوتا۔ اگر ہم سونے کی شتی بنائیں تو ممکن ہے تیزاب کے اثر سے محفوظ ہو۔ یہ دیکھنے واسطے اسنے سونے کا ایک سکہ طلائی بحیرہ ترش میں اچھال دیا جو سانیوں میں اس میں ہل ہو گیا

    ہم سب پر پژمردنی چھا گئی اور ہم نے جان لیا کہ یہ جھیل مائلملوک سے پر ہے۔ ہم نے بہت سوچ بچار کیا، سب عقل دوڑانے لگے پر کسو صورت تدبیر سفر کی اس جھیل میں سجھائی نا دی اور ہم اس غم میں ہر لحظہ غرق رہنے لگے۔ منزل اتنی قریب تھی کہ اس کو انگلیوں سے مس تو کیا جا سکتا تھا لیکن اسے دیکھ کر بس کڑاہی جا سکتا تھا کہ پہنچ سے بہت دور تھی

    اس رات خواب میں دیکھا کہ میں ایک کیمیا گر ہوں، اور تیزاب کو قریٰ المبیک میں ڈال کر اس میں سونا ملا رہا ہوں،۔ صبح اٹھا تو دفعتاً خیال اپنے خواب کی طرف گیا اور اسے اپنے لیے بشارت سمجھا۔تیزاب کو شیشے کے قریٰ المبیک میں دیکھ کر اس خواب کی سمجھ یہ آئی اگرچہ یہ جھیل سونے کو تو ہل کرتی ہے پر شیشے کو نہیں۔ یہ اپنے رفیقوں کو بتایا اور پھر ہم نے اس جھیل میں ایک مے کا پیالہ ڈبویا تو دیکھا کہ وہ اس کے گلانے کے اثر سے محفوظ رہی

    یہ دیکھ کر تینوں تاجر خوشی سے جھومنے لگے اور سب نے فرط جذبات سے مجھے چوم لیا اور یہاں مجھے ایسے لگا کہ وزیر کا نواسا مرد نہیں عورت ہے جو بھیس بدل کے ہمارے ساتھ اس مہم میں شریک ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ کل صبح جب وہ غسل کے واسطے جائیگا تو اس راز سے پردا اٹھاؤنگا

    اگلے دن میرے تمام شک سہی ثابت ہوئے

    دیکھا کہ جو روبرو تھی بغائیت خوب رو تھی، عربدہ جو تھی، غالیامو تھی، دلربا تھی، قسمت کشا تھی۔ اس کا حسن دیکھ کر اس پر سو جان سے فدا ہو گیا اور فیصلہ یہ کیا کہ میں اس نازنین زہرہ جبین سے شادی کر کر، واسطے اس کے لاکھ کمروں کا محل بنا کے آرام سے اپنی زندگی گزارونگا۔ اس سے زیادہ کی بخدا مجھے طلب نہیں۔یہ سوچا تو اپنے اندر حرارت محسوس کی

    بحیرہ ترش کے اندر جانے کا مسلا طے ہوا تو ہم نے قریب کی بستی سے ایک ہوشیار شیشاگر، شہرہ آفاق، اپنے کام میں تاک، کو شتی بنانے کو کہا اور اگلے روز ساتھ والی بستی میں منادی کروا دی کہ ہمیں ایک سفر کے واسطے چار کم سو آدمی درکار ہیں جو بطور ملاح ہمارے کام آسکیں اور تنکھوا معقول پاؤں

    اس پر کہیں سے یہ بات اڑ گئی کہ ہم کسی جزیرے پر ایک گنجینے کی تلاش میں ہیں اور شام تک ہوتے ہوتے ایک کاروان آدمیوں کا جمع ہو گیا۔ ہمارے خواب خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب آدمی مجوسی قزاق ہیں جو معمولی مزدوروں کا بھیس بدل کر گرانمایا دفینے کے لالچ میں ہماری جان کے در پے ہیں

    انکا سردار یک چشم ، نیتن کھوٹا، تبئیتن جھوٹا اور سماعت وگفتارسے آری تھا اور اشاروں کی زبان میں کلام کرتا تھا جسکی سب تقلید کرتے تھے۔ اس کے ایک کان میں نقرئی بالی لٹکتے لنگر کی طرح آویزاں تھی۔ دندان شکستہ،اس کی باہنی آنکھ پر کالا غلاف تھا اور چہرے پر لاتعداد زخم اور سر پر سرخ رومال تھا۔ اس انبوہ کثیر میں ایک طوطا بھی تھا جو اگر کتب کی طرف منہ کرے تو بولے ورنہ چپ رہے۔ میں نے انکو اپنی طرف متوجہ کیا

    اے ازیزان گرامی میرا نام فیروز ہے اور یہ تین میرے بھائی ہیں۔ ہم ایک صندوق کی تلاش میں ہیں جسمیں ہمارے والدین کی نشانیاں ہیں۔ جس وقت ہم اس صندوق کے قریب پہنچینگے تو میں سب کو ایک ایک کلید شیشے کی دونگا۔ جب وہ کلید اس صندوق میں لگاو تو وہ صندوق کھلے اور وہاں آپ سب کا کام ختم۔ اس مہم کے لیے تم میں سے ہر آدمی کو سو اشرفیاں اجرت ملے''

    سب مشترکا آواز میں بولے

    ’’ ہمیں پتہ ہے کہ اس صندوق میں کوئی خزانا نہیں بس آپ ہمیں لے چلیں''

    ایک کشتی شیشے کی، گویا شفاف پانی، بال رخنہ ندارد اور نا کوئی بلبلہ، شیشاگر نے بنائی اور وہ اس صورت کہ اس کے چپو، مستول، ڈول، عرشہ، لنگر غرض سواے بادبان اور رسوں کے سب ساز وسامان شیشے کا تھا۔ کام ترتیب سب ملاحوں کو سمجھا بجھا کر، طوطے کو قتبنما مان کر شمال کی طرف سفر بحیرہ ترش میں شروع کیا۔ ابھی ہم کچھ ہی دیر چلے تھے کہ رسیاں تیزاب کے اثر سے گل گئیں اور بادیان لیر لیر لیکن ملاحوں کا حکم دیا گیا کہ چپو سے شتی کو چلائیں

    آدھے دن بعد ملاحوں نے کام بند کیا اور انکا ناہنجار سردار میرے پاس آیا اور اشاروں سے جان سے مارنے کی دھمکی دے، مجھ سے تمام کنجیاں طلب کیں اور انتظام اس کشتی کا اپنے ہاتھ میں لیکر، ایک ایک کنجی سب ملاحوں میں بانٹی، اور زائد خود رکھ لیں۔ پھر میری اور تاجروں کی مشکیں کسیں اور ہمیں مستول کے ساتھ باندھ دیا

    اس امر سے فارغ ہوئے تو ان سب نے ملکر کشتی چلانی شروع کی اور یوں مجھ پر انکی مکاری کا اقدا کھلا۔ تیسرے دن دو ملاحوں میں لڑائی ہوئی اور بات تو تو میں میں سے اتنی بڑھی کہ وہ دست وگریباں ہوئے اور پھر ایک نے دوسرے کو اٹھا کر سمندر میں پھینکا۔ ایک لمحے میں دیکھتے ہی دیکھتے سواے اس کنجی کے وہ اس جل میں گھل ، ختم ہوا

    اس سے سب پر بے انتہا مایوسی چھا گئی کہ اب صندوق کھولنا ناممکن تھا کہ کنجی جل کے پیندے میں پڑی سب کامنا چڑا رہی تھی

    بہت سوچ وبچار کیا پر کوئی ترکیب کسو کے ذہن میں نا آئی اور شتی کو واپس موڑنے کا ارادہ کیا۔ میں نے کراہتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں، کیسے اس کلید کو وہاں سے نکالا جاوے لیکن میری شرط یہ ہے مجھے رہا کیا جاوے

    انہوں نے ہیلہجت کی پر انجام کار مجھے آزاد کیا۔ میں نے انکو ہدایت کی کہ تمام کنجیاں باہم جمع کرو جسکی سب نے فیل فور تعمیل کی اور میں نے سواے شاہ کلید کے سب کنجیوں کو ایک دوسرے میں پرویا اور ایک تار صورت بنا کر پیندے تلک پہنچایا اور سب سے نچلی چابی کے منقار نما دانت سے جھیل کے پیندے میں پڑی چابی اٹکا کر باہر نکالی

    اس ذکاوت سے سب اتنے متاثر ہوئے کہ ملکر میرے ہاتھ پر بیعت کی اور راہزنی، لوٹ مار، جیب کترنے، سرکا گری، صبح خیزی، چوری چکاری، بٹ ماری،دوروغ گوئی، نوسربازی، ڈاکہ زنی، اٹھائی گیری، دھوکہ دہی، ایذا رسانی، غارتگری اور قزاقی سے تائب، ارکان مسلمانی سیکھ کر مشرف بہہ اسلام ہوئے۔ رسولﷺ اور انکی آل پر درود پڑھی، بارہ اماموں اور ہما اہل بیت کی وفاداری کا وائدا کر کر سومسلو کے پابند ہوئے

    پھر ہم سب سفر کی صعوبتیں سہ کر بحیرہ ترش کے جزیرے جا پہنچے

    جزیرے کا ساحل کٹا پھٹا تھا اور ہر سو درخت ہی درخت تھے جسمیں جا بہ جا استخوان ہائے انسان آویزاں تھے۔ ابھی میں کشتی سے اترا ہی چاہتا تھا کہ طوطا میرے شانے سے ایک سمت کو اڑا،اور ایک درخت پر بیٹھ گیا۔ سفر سے نالاں سب ملاح بہت خوش ہوئے، تری سے خشکی پرائے تو کودتے پھاندتے ساحل پر چلنے لگے

    دن چڑھا تو اصل کام کی طرف توجہ کی کہ اس صندوق کی کھوج کریں جسکے واسطے یہ مشکلیں کاٹیں تھیں۔ ابھی ہم اسی جستجو میں زار زار پھر رہے تھے کہ یکایک طوطا شاخ سے اترا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اسنے وہ تھیلا، جسمیں تمام چابیاں تھیں، اچک لیا اور اڑ کر ایک درخت کی شاخ پر انسان کے جون میں آکر سب کا منہ چڑھانے لگا

    اس کو ہزار واسطے خدا کے دئیے پر اسنے ایک نا سنی اور کہا

    ’’زرتشت کی قسم میں تم شیطان صورت لوگوں کا ساتھ کبھی نا دیتا لیکن میں خود ایک طلسم کا شکار تھاجس کا توڑ یہ تھا کہ کسی صورت اس جزیرے میں پہنچوں تو انسان کے قالب میں واپس آؤں اور اس واسطے ایک ہزار سال اور دس دن انتظار کھینچا

    میں ہرگز اس جزیرے پر نا پہنچتا کہ کوئی مخلوق پروں والی اس جھیل پر پرواز نہیں کر سکتی کہ آنن فانن نیست ونابود ہو جاوے۔ اب اس صندوق سے سلیمانی قلم اور مقدس پاجھند لیکر واپس اپنے وطن جانا چاہتا ہوں،۔ اگر مجھے یہ دینے کا وائدا کیا جاوے تو میں وہ جگہ بتا سکتا ہوں، جہاں وہ صندوق پڑا ہے'

    ہم نے اس کی ساری شرطیں مان لیں تو وہ اتر آیا۔ اس کے بعد اس سے صندوق کی طرف جانے کا راستا پوچھا گیا تو تمام کلیدیں ترتیب سے زمین پر پھیلائیں اور پھر شاہ کلید ایک ایک کلید کے پاس لیکر گیا۔ اٹھائیسویں کلید میں حرکت ہوئی تو اسنے اس کو الگ رکھا اور پھر یہ عمل دوبارہ کیا اور اس طرح اسنے تمام کلیدیں ایک نئی ترتیب سے زمین پر رکھیں

    جب وہ اپنے تئیں یہ کام مکمل کر چکا تو پھر اسنے مجھ عاجز سے استدا کی کہ اب میں ان سب میں سے اس کا بوسہ لوں جس سے دل میں گرمی آوے اور اس کو پہلی کلید دوں اور پھر وہ تمام کلیدیں سب میں بانٹے

    میں نے تردد کیا اور پوچھا میں ہی کیوں؟ تو کہا تم جانتے ہو کہ انمیں شاہ کلید کونسی ہے

    میں نے یہ سنا تو مۂ جبین کا بوسہ لیا اور پہلی کلید اسے تھما دی۔ وہ آنکھوں کے اشارے سے سمجھ گئی کہ میں اس کی حقیقت جانتا ہوں، اور اپنی التفات کا اظہار آنکھیں بند کر کے کیا۔ عاجز کا دل دھڑکنے لگا اور ارادہ کیا کہ اس کے واسطے ایک نہیں دو محل بنائینگا، اس سے زیادہ کو البتہ تبزیر جانا

    پھر بموجب اس ترتیب سے جو طوطے نے بتائی، سب میں چابیاں بانٹی گئیں اور خود میرے پاس شاہ کلید اور طوطے کے ہاتھ میں بارہویں کلید آئی۔ طوطے نے اپنی چابی ہوا میں پھینکی اور جب زمین پر گری تو جس طرف اس کا منہ تھا اسی سمت چلنا شروع کیا اور ہم سب کو ساتھ آنے کو کہا۔ ننا نویں قدم جا کر ایک جگہ رقعہ اور سب کو کھدائی کا حکم دیا

    تھوڑی دیر بعد ایک صندوق، بڑا مہیب، بھاری بھرکم، بےڈھنگا، طول ایک سو دس بالشت، عرض اس کا اسی بالشت، کالا سیاہ، زنگالود، آہنی صندوق کھینچ نکالا گیا جسمیں کوئی سوراخ واسطے چابی کے نا تھا۔ سب لوگوں نے چابیوں اور پھر طوطے کی طرف دیکھا

    ’’گھبرانا نہیں اے میرے رفیقو اصل صندوق اس آہنی صندوق کے اندر ہے اور اس کو تیزاب سے گلا کر وہ صندوق نکالنا ہے۔ اب ہر آدمی جاکر کچھ تیزاب بحیرہ ترش سے لے آئے'

    ہم نے بموجب فرمانے کے شیشے کے پیالے میں جھیل سے پانی لا لا کر اس صندوق پر ڈالا تو سارا لوہا گل گیا اور اندر سے ایک اور صندوق بلوری مگر غیر شفاف نکلا جس میں صرف ایک سوراخ سرخ رنگ کا تھا جسکے گرد سنہری دائرہ تھا

    طوطے نے مجھے اشارہ کیا کہ شاہ کلید اس سوراخ کے قلب میں اتار دوں، جب میں یہ کر چکا تو اچانک صندوق میں نناوے اور سورخ نموردار ہو گئے۔ اسنے ایک ایک کرکے سب سے کہا کہ اپنی کنجیاں ان سوراخوں میں لگا دیں۔ کانچ کی کنجیوں کا لگنا تھا

    کہ اس صندوق میں سے ایک آواز مہیب آئی اور وہ ایک لحظے کو ہلنے لگا پھر طوطے میاں مجھے کنجی گھمانے کو کہا اور کچھ سہریوں پڑھا

    سحر

    ارد بند ورد کش بند شودر وا کن

    نشط کن انکی بر لجھ بند پروا کن

    ارد بند ورد کش بند کش تروا کن

    در کہ بس تز زمان کش شود دروہ کن

    اس عمل سے تمام کی تمام بلوری چابیاں ٹوٹ گئیں اور آہنی چابی گویا موم کی طرح ملائم گھومتی گئی۔ صندوق ایک جھٹکے سے بس ایک درز جتنا خلا، اس سے دھواں سا نکلا اور طوطے میاں نے سب کو پیچھے ہٹنے کو کہا

    یہ کہہ کر قساگو رک گیا ۔داستان میں ڈوبے غافل اور بےقرار لوگ مچلے

    ’’خدا را بیان کریں اس صندوق سے کیا نکلا'

    اس پر قصہ گونے سب لوگوں کو ایک ایک آہنی کلید دی اور سب کے سامنے، چادر میں ڈھکا ایک بلوری صندوق لا کے رکھ دیا

    ’’یہ ہے وہ صندوق اب آپ خود دیکھیں کہ اس میں کیا ہے۔ پہلے آپ یوں کریں کہ اپنی آنکھیں بند کریں اور سو تک گنیں۔ پھر گھنٹی کی آواز سنائی دے تو آنکھیں کھولیں۔ اب آپکے سامنے ماسوائے ایک کے باقی سب کی کلیدیں سونے کی ہوجائینگی۔ پھر جسکی کلید سونے کی نہیں ہے وہ کلید صندوق کے بڑے سوراخ میں گھمایے۔۔ صندوق پورا کھل جائیگا۔۔ آپ سب خود دیکھیں کہ اس صندوق میں ہے''

    لوگوں نے سونے کا سنا تو انکی باچھیں کھل گئیں

    لالچ میں اندھے انہوں نے قساگو کی ہدایت پر حرف بہہ حرف عمل کیا

    میں نے البتہ دس تک گننے کے بعد آنکھیں کھولیں اور پیچھے دیکھا

    کیا نظارا کرتا ہوں، کہ دوران داستان پر ہیجان اسماعیل کوفی اپنا تمام سامان ڈوبتے جہاز سے اپنے نئے جہاز منتقل کر چکا ہے اور وہ سارے لوگ جنہوں نے اسے اشرفیاں دی تھیں بشمول قساگو کے اس کے ساتھ وہاں جا چکے ہیں

    میری آنکھیں کھلی دیکھ کر قساگو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرے جہاز کو طرف بلایا۔میں نے اس کی فیل فور تعمیل کی اور وہاں چلا آیا اور اس کے ارشے سے میں نے لوگوں کو سونے کی چابی کے انتظار میں آنکھیں بند کئے گنتی میں مصروف دیکھا

    ابھی گنتی تیس تک ہی پہنچی تھی کہ اسماعیل کوفی نے مرکب کے ناخدا کو جہاز کے روانا کرنے کی اشارت کی۔جاتے ہوئے میں نے پھر دیکھا کہ اس اجل گرفتا جہاز میں لوگ ہنوز گنتی میں مصروف تھے اور امید سے انکے چہرے تمتما رہے تھے اور اسی طور ملاح جہاز سے ڈول نکال نکال کر بس جاں بہ لب تھے

    ناخدا نے البتہ نئے جہاز میں ہیجڑوں کو ناچنے کی اشارت کی اور ان پر اشرفیاں نچھاور کیں۔ یوں ہم دھند میں معدوم ہوتے لوگوں کو گنتی میں مستغرقی چھوڑکر، جہاز میں سوار خاموش سمندر کا سینا چیرتے، تند روی سے چلتے ہوئے تیسرے دن بصرہ کی بندرگاہ پر جا پہنچے'

    شہر زاد نے دیکھا کہ کہ شہریار نیند کے سمندر کی لہروں کے زیرو بم میں پھنسا، جھٹکے کھاتا ہے، گاہے پھسلتا ہے، گاہے سنبھلتا ہے اور ہچکولے کھاتا، آہستہ آہستہ اس میں غرق ہو رہا ہے

    یہ دیکھ کر اسنے دنیا زاد کو آنکھوں کی خفیف حرکت سے حجرے سے باہر جانے کا اشارہ کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کو اپنی داستان گوئی کی بدولت زندگی کا ایک اور دن مل گیا.

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے