کہانی کی کہانی
افسانہ لوڈو کے طرز کے ایک خود ساختہ کھیل پر مبنی ہے جس میں چار مہرے ہیں۔ گھڑ سوار، بادبانی کشتی، مینار اور نیم دراز ببر شیر۔ کھلاڑیوں کی تعداد بھی چار ہے، جو بڑے انہماک اور حکمت عملی سے چالیں چلتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر سکیں۔ علاقوں کے نام مقامی ہیں اس لئے کھلاڑیوں پر اس کا نفسیاتی اثر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ سوئے اتفاق کہ واحد متکلم ان علاقوں پر قبضہ کرنے میں ناکام رہتا ہے جو اس کے پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ سب مل کر اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں، اپنی محرومی اور بدقسمتی سے وہ بد دل ہو جاتا ہے اور کھیل چھوڑ دیتا ہے۔
میز پر بساط بچھی ہوئی تھی، ہم چاروں اس کے گرد جمع تھے اور بازی شروع ہونے والی تھی۔ یہ ہمارا روزانہ کا معمول تھا۔ ہم رات کے وقت کھیلتے تھے، کیوں کہ دن میں اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوتی تھیں۔ اپنا دن ہمیں دنیا کو دینا پڑتا تھا تب کہیں جا کر رات آزاد ملتی تھی کہ اپنی اندرونی خواہشات کے مطابق تھوڑی دیر جی لیں۔ دفتر کا کام نمٹانے اور بچوں کو سلا دینے کے بعد یا تو وہ ہمارے ہاں چلے آتے یا ہم دونوں ان کے ہاں چلے جاتے۔
یہ ایک قسم کی عادت سی بن گئی تھی، جو روز بروز پختہ ہوتی جا رہی تھی۔ اب تو ایک دوسرے کو دیکھ کر کچھ کہنے سننے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، جمع ہوئے اور کھیل شروع۔ بلکہ ہم چاروں اکٹھے ہی اس کھیل کے لیے ہوتے۔ ہمیشہ ہم چاروں، کوئی اور نہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگتی تھی۔ ایک پڑوسی نے ہمیں دیکھ کر زیرلب کہا، شادی شدہ جوڑوں کے کھیل۔ کسی اور نے اعتراض کیا کہ یہ بچوں کا کھیل ہے۔ مگر ہم ہمیشہ پوری سنجیدگی سے کھیلتے تھے۔ ہمارے لیے یہ کھیل زندگی سے بہت قریب تھا۔ کچھ زیادہ ہی۔ شاید ہم کھیلتے بھی اس طرح تھے جیسے زندگی گزار رہے ہوں۔ اس دن بھی یہی ہوا تھا۔
کھیلنے کا بورڈ میز پر بچھا دیا گیا تھا اور آتے ہی ہم نے اپنی اپنی جگہیں سنبھال لیں، جو پہلے سے مقرر ہو چکی تھیں۔ ہم لوگ سمتوں کے حساب سے بیٹھتے تھے۔ یاسمین شمال میں، جنوب میں خالد، مغرب میں نجمہ اور مشرق کی جانب میں۔ پارٹنرز کے بارے میں ایک بات طے تھی۔ وہ یہ کہ میاں بیوی پارٹنر نہیں ہونے کے۔ یہ تجویز خالد نے پیش کی تھی۔ ہنستے ہنستے اسے مان لیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس سےکھیل کی دلچسپی اور سنجیدگی میں اضافہ ہوتاتھا۔ اب یاسمین خالد کی پارٹنر تھی اور نجمہ میری۔ پہلی بازی شروع ہونے سے پہلے خالد نے نجمہ سے کہا تھا ’’دیکھو ان سے چپکے چپکے سازش کر کے اشارے نہ کرنے لگنا۔ یہ تاش کا کھیل نہیں ہے۔‘‘
’’اشارے۔۔۔؟ کیسے اشارے؟‘‘ میں نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔ میں کچھ سٹپٹا سا گیا۔ جیسےکسی نے میرے چھپے ہوئے خیال کو پڑھ کر سب کو بتا دیا ہو۔ جواب میں خالد ہنس دیا، ’’پارٹنرز کے آپس کے اشارے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ یہ سلیپنگ پارٹنرز تو نہیں۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے یاسمین کی طرف دیکھا جو اب اس کی پارٹنر تھی۔ یاسمین چپ رہی، مگر اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ یاسمین کی یہ خاص بات تھی کہ وہ جب بھی جھینپ جاتی تھی، اس کا چہرہ بالکل سرخ ہو جاتا تھا۔ چنار کی کلیوں کی طرح۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر میں مسکرا دیا جیسے وہ میری بیوی نہ ہو، پھولوں سے لدا ہوا پیڑ ہو۔ مجھے مسکراتے دیکھ کر وہ اپنا ہونٹ دانتوں سے کاٹنے لگی۔ ویسے یہ پارٹنرز بھی محض دل لگی کے لیے تھے۔ اس کھیل میں پارٹنر ہونے سے کوئی فرق تو پڑتا نہیں تھا۔ کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ کھیل کی بساط پر ہر کھلاڑی اکیلا تھا۔
ہمیشہ کی طرح پہلا پانسا میں نے پھینکا تھا۔ شاید اس لیے کہ میں مشرق میں بیٹھا تھا۔ لیکن سمت سے کیا فرق پڑتا تھا؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ جب تک کہ چھ کا ہندسہ نہ آ جائے، میں اپنی گوٹ گھر سے باہر نہیں نکال سکتا تھا۔ انتظار کرتے کرتے مجھے وہ ہندسہ پراسرار معلوم ہونے لگا اور اس نیم طلسمی عدد کے ورود کی راہ تکتے تکتے میں وہ نوٹ ترتیب سے رکھنے لگا جو مجھے کھیل کے شروع میں ابتدائی سرمائے کے طور پر دیے گئے تھے۔ میں نے پانچ پانچ، دس دس، پچاس پچاس اور سو سو روپوں کی گڈیاں بنا کر رکھ لیں۔ یہ کاغذ کے چوکور ٹکڑے تھے جن پر بابائے قوم کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی، یہ عبارت بھی درج تھی کہ ’’زرقِ حلال عین عبادت ہے۔‘‘ اصلی نوٹ سے فرق تھا تو صرف اتنا کہ جہاں لکھا ہونا چاہیے تھا، ’’حکومت پاکستان‘‘، وہاں لکھا ہوا تھا، ’’کڑوڑپتی بیوپار۔‘‘
کھلاڑیوں کے لیے چار نشان تھے۔ گھڑسوار، بادبانی کشتی، مینار اور نیم دراز ببرشیر۔ دھات کے بنے ہوئے یہ چھوٹے سے کھلونے، جو بہت مہارت سے بنائے گئے تھے، پانسے پر آنے والے ہندسے کے حساب سے گھر چلتے تھے۔ پہلے ہی دن سے گھڑسوار میرا نشان تھا۔ میں اس کو ہاتھوں میں گھما رہا تھا اور اس ہندسے کا انتظار کر رہا تھا جو میرے لیے سفر کی راہ کھول دے۔ باقی تینوں کے نشان باہر نکل آئے تھے اور خانے پھلانگ پھلانگ کر چل رہے تھے۔ میں مایوسی اور بے چینی کےعالم میں انہیں چلتے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت سارے خانے خالی تھے اور جو وہاں پہنچ کر اپنا نشان رکھ دے، اس کے ہو سکتے تھے۔
ہر خانہ مجھے ایک نادریافت خطے کی طرح لگ رہا تھا، جو اپنے سیاح کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہوئے ہو کہ اپنا پہلا قدم وہاں رکھے اور اپنے نام پر اس کو تسخیر کر لے۔ میں زیادہ سے زیادہ خانے اپنے واسطے حاصل کرنے کے لیے بےچین تھا۔ مگر جب تک پانسے پر چھ نہ آ جائے، میں پہلے خانے سے باہر نکلنے پر مجبور تھا۔ ان لوگوں نے علاقے خریدنے شروع کر دیے تھے اور جس وقت باقی کھلاڑی اپنے اپنے رنگ کے سیٹ مکمل کرنے اور تکمیل شدہ سیٹ والے علاقوں پر گھر اور دوسری تعمیرات کھڑی کرنے کے ارادے کر رہے تھے، میں اس وقت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوا پانسے کے گھماؤ میں بدلتے ہوئے ہندسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے بہت سارے ہندسے دیکھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہندسوں کی مختلف تراکیب میں کوئی گہری معنویت پنہاں ہوتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں۔ چھ کا ہندسہ بہت دیر میں آیا۔ میں نے چھ خانے گنے اور چھٹے پر اپنا گھوڑا رکھ دیا۔ اس خانے پر نام لکھا ہوا تھا کینٹ اسٹیشن، میں جی ہی جی میں بہت خوش ہوا۔
یہ مقام مجھے یوں بھی پسند تھا، اس لیے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا گھوڑا اس پر ٹھہرا اور یہ میری ملکیت ہو جائےگا۔ اس خانے پر ریل کے انجن کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ میری ایک عجیب سی عادت تھی کہ مجھے کبھی فرصت ملتی تو میں کینٹ اسٹیشن جا کر لوگوں کے چہرے دیکھا کرتا تھا۔ بڑے بڑے ریلوے اسٹیشن مجھ پر ایک آسیبی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اب یہ مقام مجھے مل رہا تھا، کھیل ہی میں سہی۔ میں نوٹ گننے لگا، مگر نجمہ نے روک دیا۔ اس کے ہاتھ میں اسٹیشن کی ٹائیٹل ڈیڈ تھی۔ وہ وہاں مجھ سے پہلے آ چکی تھی اور اس کو خرید چکی تھی۔ وہاں رکنے کے لیے مجھے کرایہ ادا کرنا پڑا۔ یہ ابتدا مجھے اچھی نہیں لگی۔ جیسے میرے ساتھ دھوکا ہوا ہو۔
اس سے پہلے ہم نے لفظ بنانے والا کھیل بھی کھیل کر دیکھا تھا۔ مگر الفاظ عین وقت پر دغا دے جاتے تھے۔ میرے پاس جو حروف آتے تھے ان سے کوئی لفظ نہیں بنتا تھا اور جو لفظ مجھے آ جاتا اس کےحروف پاس نہیں ہوتے تھے۔ لفظوں سے کھیلنا یوں بھی مشکل کام ہے۔ کبھی کبھی ہم سانپ اور سیڑھی کا کھیل بھی کھیلتے تھے۔ جس کھلاڑی کی گوٹ سیڑھی والے گھر پر آ جاتی وہ سیڑھی چڑھتا ہوا اوپر والی قطار میں پہنچ جاتا۔ میری گوٹ میں جانے کون سا چکر بندھا ہوا تھا کہ سیڑھیاں اس سے دور رہتی تھیں۔ جب میری گوٹ سانپ والے خانے پر پہنچتی (اور میری گوٹوں کی یہ عادت تھی کہ سانپ کی نظر میں آئی ہوئی مسحور چڑیا کی طرح وہ سانپ کی طرف کھنچی چلی جاتیں، گوٹ ادبداکر سانپ والے گھر پر پہنچی اور سانپ نے اسے نگل لیا) تو سانپ کے ساتھ نیچے کھسکنا پڑتا۔ سانپ کی دم کے ساتھ نیچے اترتے ہوئے دل میں ایک ہول سا اٹھنے لگتا، جیسے اونچی پینگ بھرنے کے بعد جب جھولا پلٹتا ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔
میں اپنے آپ کو باور کراتا تھا کہ یہ محض لوڈو کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، اس کا انحصار اندھی قسمت پر ہے ہوشیاری پر نہیں۔ اسی لیے سانپ اور سیڑھی تو کم، مگر یہ کھیل ہم پابندی سے کھیلتے تھے۔ اب بازی رنگ پر آ چکی تھی۔ ہم کھیل بھی رہے تھے اور مذاق بھی کرتے جا رہے تھے۔ یہ فقرے بازی یا تو اس جگہ کے بارے میں ہوتی جو کسی کھلاڑی نے حاصل کی تھی یا اس کی چلی ہوئی چال کے متعلق۔ ان میں سے کئی فقرے باسی ہو چکے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو کہے جانے سے بھی پہلے معلوم ہو جاتے تھے۔ مگر کہنے والا پھر بھی کہتا ضرور تھا۔ کھیلنے کا بورڈ، جوردی سے تیار کیے جانے والے گتے کا بنا ہوا تھا، کسی دیسی کمپنی نے برطانیہ کے مشہور MONOPLY کے انداز میں بنا دیا تھا۔
اس میں جگہوں کے نام مقامی رکھے گئے تھے۔ کھیل میں مزہ اسی لیے زیادہ آتا تھا کہ یہ نام جانے پہچانے تھے۔ اس بات پر نجمہ بچوں کی طرح خوش ہوتی تھی۔ وہ فوراً دہرانے لگتی، ’’دیکھو، دیکھو، میں نے طارق روڈ خرید لیا ہے۔‘‘ اور اس کی آواز میں ایسی خوشی چھلکی پڑتی تھی جیسے وہ ساری چمکتی دمکتی دکانیں، ان میں بھری ہوئی شاپنگ، گاڑیوں کا ہجوم اور وہاں گھومنے والے لوگ سب اس کو مل گئے ہوں، یا، ’’ کیماڑی میری ہو گئی ہے، اب بندرگاہ بھی میری اور سمندر کے جہاز بھی میرے۔‘‘ اس کی یہ خوشی بعض دفعہ احمقانہ معلوم ہوتی تھی۔ اس بورڈ کا ہر خانہ شہر کا ایک علاقہ تھا۔ ہمیں یہ علاقے خرید کر ان پر مکان، ہوٹل، بازار اور کارخانے تعمیر کرنے تھے (لکڑی کے ہرے گٹکے مکان تھے، گلابی ہوٹل، نیلے والے بازار اور لال کارخانے۔) اپنے خانے پر آنے والے دوسرے کھلاڑی سے کرایہ وصول کرنا تھا۔ وہ اپنی دولت میں اضافہ کر کے دوسروں کا دیوالہ نکالنا تھا۔ یہ سارا کھیل تھا۔ کھیل کے دوران وہی نام آتے تھے جو ہم روزانہ سنتے ہیں، وہی جگہیں جو سب کی دیکھی بھالی ہیں۔۔۔ گلشن اقبال، منگھو پیر، باتھ آئی لینڈ۔۔۔ ان کو خریدنے، بیچنے اور ان میں عمارتیں کھڑی کرنے کے خیال سے بہت مزہ آتا تھا اور ایک طرح کا احساس قوت بھی۔
اس وقت تک میں دو ہی علاقے خرید سکا تھا۔۔۔ پیر کالونی اور ناظم آباد۔ اور یہ دونوں کسی لحاظ سے بھی اعلا درجے کا انویسٹمنٹ نہیں تھے۔ کھیل کے لحاظ سے بھی نہیں۔ مگر میں نے خریدے اس لیے تھے کہ میں خاص طور پر وہ علاقے خریدنا چاہتا تھا جہاں میں رہ چکا ہوں۔ ایسا علاقہ اگر دوسرا کھلاڑی خریدلے تو مجھے بہت برا لگتا ہے۔ مگر میرے پاس انتخاب کی گنجائش کم تھی۔ میں کھیل میں بہت دیر سے شامل ہوا تھا۔ ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن بک چکے تھے، بہادر آباد میں یاسمین نے ایک شاپنگ پلازا بنا ڈالا تھا اور فیڈرل بی ایریا خالد کے ہاتھوں میں تھا۔ خریدنے کے لیے بچا بھی کیا تھا۔ کھار ادر، ایمپریس مارکیٹ، ملیر کا پل او رایسے ہی دوچار علاقے۔ میرے پاس نقدرقم بھی زیادہ نہیں تھی۔ میرا گھڑسوار بار بار میرے کھلاڑیوں کے خریدے ہوئے علاقوں میں جا پہنچتا اور مجھے کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ میرا دھیان کھیل کی طرف سے بٹنے لگا۔
اب کمرے میں خاموشی تھی اور دھیمی بتی کی وجہ سے نیم روشن اندھیرا۔ ہمارے بیچ میں رکھے ہوئے سفید رنگ کے بورڈ پر روشنی تھی، جو منعکس ہو کر ہمارے تاریک چہروں پر پڑ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کھیلنے کا بورڈ نہیں، OUIJA بورڈ ہے جس کے گرد جمع ہوکر ہم روحوں کو بلانے کا عمل کر رہے ہیں۔ دھندلی روشنی ایک لمحے کے لیے چمکی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے ٹیلی وژن کھول رکھا ہے۔ ٹی وی اس وقت کھولا گیا تھا جب ہم ان دونوں کے آنے اور کھیل شروع ہونے کے انتظار میں تھے۔ خالی گھر میں ٹی وی چل رہا ہو تو لگتا ہے گھر میں لوگ ہنس بول رہے ہیں۔ خالی کمرے آوازوں سے بھر جاتے ہیں۔ مگر ٹی وی کی آواز میں نے بند کر دی تھی۔ گونگی تصویریں اسکرین پر لرز رہی تھیں۔
آواز اس وقت بند کی گئی تھی جب خبریں شروع ہوئی تھیں۔ مجھے یہ دیکھنا تو یاد ہے کہ خبریں پڑھنے والی عورت نے ناظرین کو سلام کیا، ملک کا معیاری وقت بتایا، مگر سرخی کیا جمائی اس کی مجھے خبر نہیں۔ اس وقت تک ساری سرخیاں ایک جیسی معلوم ہونے لگی تھیں۔ کھیل ایسا جما ہوا تھا کہ خبریں چلتی رہیں اور کسی نے اس طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ خبریں جانے کب کی ختم ہو چکی تھیں۔ اب تو ٹیلی وژن کی نشریات کا وقت بھی پورا ہو چکا تھا۔ سفید اسکرین پر صلیب جیسا وہ نشان بنا ہوا نظر آ رہا تھا، جو سارے پروگراموں کے، بلکہ قومی ترانے کے بھی ختم ہو جانے کے بعد دکھایا جاتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب یہ نشان بھی نظر نہیں آتا۔ میں نے وقت دیکھنا چاہا۔ کلائی پر بندھی گھڑی کے ہند سے چمکے۔ ان کا رنگ سبز تھا۔ ایک پر اسرار، سبز گوں چمک اور پھر اندھیرا۔ بیزاری اور نیم غنودگی کے عالم میں مجھے ایک لمحے کے لیے ان سبز ہندسوں سے ڈر لگا۔
نہ جانے کیوں، مجھے وہ آدمی یاد آ گیا جسے میں نے دم توڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر دوسری سمت سے آ رہا تھا۔ چلتے چلتے گرا اور دیکھتے دیکھتے مر گیا۔ سڑک پر جمع ہو جانے والی بھیڑ میں سے کوئی بھی اسے نہیں جانتا تھا۔ اس کا گرنا اور گر کر ایسی گم نام موت مر جانا اتنا غیر پیچیدہ عمل تھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ مگر میں نے وہ لمحہ دیکھا تھا جب اس کی پتلیاں پھرنے لگی تھیں۔ وہ بیک وقت یہاں بھی دیکھ رہی تھیں اور کہیں اور بھی۔ ان آنکھوں میں ایسی ہی چمک آ گئی تھی۔ گھڑی کے اندر جگنو چمک رہا تھا یا یہ گزرتے ہوئے وقت کی روشنی تھی؟ پھر مجھے یاد آیا کہ گھڑی کی سوئیوں پر ریڈیم لگا ہوا ہے۔ یہ عنصر اندھیرے میں چمکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی میں ان اونگھتے ہوئے خیالوں سے لوٹ آیا۔
میں نے چاہا کہ اٹھ کر ٹیلی وژن بند کر دوں۔ سستی کی وجہ سے فوراً اٹھا نہیں گیا۔ ذرا دیر یوں ہی اس میز کے گرد، بورڈ کے سامنے بیٹھا رہا۔ تب میں نے وہ دیکھا تھا۔ سب سے پہلے میں نے دیکھا تھا۔ پھر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ کچھ ہے، وہاں کچھ ہے، میرا وہم نہیں ہے، تو میں نے ٹہوکا مار کر باقی تینوں کو بھی دکھایا تھا اور انہوں نے بھی دیکھا تھا۔ نشریات بند ہو جانے کے نشان میں سے وہ ظاہر ہو رہا تھا۔ اتنا سا دھبا، ایک منور نقطہ، وہ نقطہ بڑھ کر ایک دائرہ، پھر دائرے میں جیسے کوئی صورت۔ وہ اسکرین پر پھیل رہا تھا۔ وہ ایک شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ دھندلی سی، ادھ بنی سی۔ اس کے چہرے کی جگہ ایک گڑھا تھا۔ اس گڑھے میں آنکھیں تھیں اور ہونٹ جو ہل رہے تھے۔ اس کی آنکھیں سفید تھیں اور چہرہ سیاہ۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا۔ ہم دیکھ سکتے تھے، سن نہیں سکتے تھے۔ الفاظ کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں تھا۔
اور یہ کیا ضروری ہے کہ وہ ہماری زبان ہی میں بول رہا ہو۔ وہ کیا بتانا چاہ رہا تھا، مجھے، ہمیں؟ دھندلی شبیہ پانی پر بنے ہوئے چہرے کی طرح کانپ رہی تھی۔ وہ چہرہ بھی تو نہیں تھا۔ چہرے کا مسخ شدہ عکس تھا جس میں نقوش کا احساس صرف اس وجہ سے ہو رہا تھا کہ یہ اعضاء یہاں ہونے چاہیے تھے لیکن غائب ہیں۔ مگر وہ زندہ تھا۔ وہ حرکت کر رہا تھا۔ وہ بول رہا تھا۔ وہ کسی آنے والے خطرے سے خبردار کر رہا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ کوئی ایسی اطلاع دے رہا ہے جس کی تاب الفاظ نہیں لا سکتے۔ وہ کانپ رہا تھا اور کچھ بتا رہا تھا۔ پھر اچانک وہ غائب ہو گیا۔ اسکرین پر سفید لکیر ابھری، چمکی، وہ ذرا دیر تھر تھرایا، پھر بجھ گیا۔ اسکرین بالکل خالی پڑی تھی۔
کھیل رک گیا تھا۔ ہم چاروں دم بخود بیٹھے تھے۔ نجمہ نے خاموشی کو توڑا۔ اس نے کچھ کہا۔ اس نے اس کے بارے میں کچھ کہا جو ہم نے دیکھا تھا۔ پھر سب بولنے لگے۔ اسی کے بارے میں۔ اسی کا ذکر، کیا دکھائی دیا تھا، وہ کیا ہو سکتا تھا، اس کی نوعیت اور ممکنہ اسباب گنوائے جا رہے تھے۔ میں بول نہیں رہا تھا۔ میں ان کو بولتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ مجھے ہونٹ ہلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ جو کچھ وہ کہہ رہے تھے اس کی آواز میرے کانوں میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ لوگ اس ٹیلی وژن کی تصویر معلوم ہو رہے تھے جس کی آواز بند کر دی گئی تھی۔ میرا ذہن تیزی سے گھوم رہا تھا، اس ٹی وی کی طرح جس کے چینل بہت تیزی سے بدلے جا رہے ہوں۔ میں نے کیا دیکھا تھا؟ یہ تو سن رکھا تھا کہ ان دنوں شہر کے موسم کی وجہ سے کبھی کبھار سمندر پار کے ایک شہر کی نشریات دکھائی دے جاتی ہیں۔ مگر مجھے یہ بھی تو معلوم تھا کہ انقلاب کے وقت بغاوت کرنے والے گروہ ایسی تنصیبات پر قبضہ کر کے اپنی نشریات شروع کر دیتے ہیں۔ نہ اس امکان کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے نہ اس کو۔
یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اس ٹی وی سیٹ نے اتفاقی طور پر کسی ایسے چینل کو پکڑ لیا تھا جو خفیہ پیغامات کی ترسیل کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ یہ پیغام کس نوعیت کے تھے، مافیا، بین الاقوامی اسمگلنگ، زمین کے کسی نہ کسی حصے میں ہمیشہ چھڑی رہنے والی جنگ کے لیے فوجی ہدایات، یا کہیں سے کہیں بھٹکی ہوئی نشریاتی لہروں کی شعبدہ بازی؟ اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ انسانی شکل ہی نہ ہو۔ بدروح، آسیب، یا ایسی ہی کوئی مافوق الفطرت مخلوق جو ان حساس آلات کی زد میں آ گئی ہو۔ یہ بیرونی خلا سے آیا ہوا پیغام تو نہیں تھا؟ ہو سکتا ہے کہ کسی دور دراز ستارے کی مخلوق ہم سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ یہ خلا کوئی ایلین تو نہیں؟ اور اگر وہ اس طرح ہماری ذہانت کا اندازہ لگا کر ہمارے سیارے پر دھاوا بولنے کا ارادہ کر رہے ہوں؟ اور اگر اس پیغام کو ہمارے علاوہ کسی نے نہ دیکھا ہو، تو؟ یہ انتہائی اہم بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات ذمہ دار لوگوں کو بتانی چاہیے۔ لیکن انہوں نے ہماری بات کا یقین نہ کیا، تو پھر؟ ہیں کیا کرنا چاہیے؟
مجھے خلا اور ستاروں کے بارے میں زیادہ معلوم بھی نہیں تھا۔ میں نے بلیک ہول کا نام سن رکھا تھا اور اینٹی میٹر کا کہ یہ کائنات میں موجود ہر شے کی نفی ہوتا ہے اور اس میں مس ہو جائے تو اسے فنا کر دیتا ہے۔ میں چند ستاروں کو ضرور پہچانتا تھا جنہیں بچپن سے دیکھتا آیا تھا، اس کے علاوہ ان باتوں سے میرا تعلق اتنا ہی سا تھا کہ میں ہر جمعرات کے اخبار میں چھپنے والے اجتماعی زائچے پر کبھی کبھار نظر ڈال لیا کرتا تھا کہ ’’یہ ہفتہ کیسا رہےگا۔‘‘ وہ بھی میں نے تنگ آکر چھوڑ دیا تھا کیوں کہ اس میں ہمیشہ یہی لکھا ہوا ہوتا تھا کہ پچھلے دنوں جو ذہنی انتشار پیدا ہو گیا تھا وہ بر قرار رہےگا۔ پہلے تو میں HOROSCOPE کے لفظ کو HORROR SCOPE پڑھتا تھا۔ مگر یہ خلا کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ اتنی لامحدود وسعت کا، جسے نہ ناپا جا سکے نہ گنا جا سکے، تصور کرنا میرے لیے کسی طرح ممکن نہیں تھا۔ میں صرف وہی باتیں سمجھ سکتا ہوں جو میرے حواس کی گرفت میں آ جائیں۔
خالد کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’تمہاری چھت پر اینٹنا صحیح رخ پر نہیں لگا ہوا ہے۔ یہ اسی کی خرابی ہے۔‘‘ اس نے پانسا اٹھایا اور پھینکا۔ چوکور پانسے کے اوپری رخ پر چھ نقطے ابھر آئے۔ کھیل پھر شروع ہو گیا۔ میں گپ چپ کھلاڑی بنا ہوا تھا۔ اپنی باری چلنے کے لیے میں نے اپنا نشان اٹھایا۔ اس کے لمس پر میں پھر چونک اٹھا اور اسے گھورنے لگا۔ چاروں کھلاڑیوں کے نشانات تھے، جو بالکل واضح اور مکمل طو رپر گڑھی ہوئی شبیہیں تھیں۔ ہم ان کو گوٹ بناکر کھیل رہےتھے، مگر ان پر اس دنیا کے نشان ثبت تھے جس نے ان کو گڑھ کر بنایا تھا۔ میرا نشان گھڑسوار تھا۔ میں نے دیکھا کہ گھوڑے کی ٹانگیں سرپٹ دوڑنے کے انداز میں منجمد ہو گئی ہیں اور گھڑسوار کے سیدھے ہاتھ کی انگلی اوپر اٹھی ہوئی ہے۔ کیا یہ بھی اشارہ تھا؟ مگر میں نے غور نہیں کیا۔
میں نے اپنی باری چلی اور گھڑسوار خانے پھلانگنے لگا۔ وہ منگھوپیر پہنچ کر رکا۔ میں یہ علاقہ خرید سکتا تھا۔ مجھے اب اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ایک دفعہ میں نے وہاں گرم پانی کے چشمے اور مگر مچھ دیکھے تھے۔ اس وقت مگر مچھ سو رہے تھے۔ مجھے یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی تھی۔ میں نے وہ جگہ خرید لی اور کاغذ کا وہ ٹکڑا لے لیا جو اس کی ملکیت ظاہر کرتا تھا۔ میں کھیل میں شریک بھی تھا اور نہیں بھی تھا۔ دوسرے کھلاڑیوں کے علامتی نشان آگے بڑھ رہے تھے۔ میرے خریدے ہوئے علاقوں پر کوئی نہیں رک رہا تھا۔ ان کے پانسے پر آئے ہوئے ہند سے انہیں ان علاقوں کے اوپر ہی سے گزار لے جاتے تھے۔
اب پھر میری باری تھی۔ میں نے پانسا پھینکا اور گھر گن کر چلنے لگا۔ میرا نشان، اس خانے پر پہنچ کر رک گیا جہاں لکھا تھا، ’’چانس۔‘‘ اس سے پہلے یاسمین کی گوٹ چانس پر پہنچی تھی تو اسے کارڈ ملا تھا ، ’’تمہاری سال گرہ ہے، ہر کھلاڑی سے سو روپے کا تحفہ وصول کرو۔‘‘ پتہ نہیں کیا بات تھی، میری گوٹ جب بھی یہاں آتی تھی، مجھے الٹے سیدھے کارڈ ملتے تھے۔ ایک دفعہ میرا کارڈ نکلا تھا کہ خداداد کالونی میں تم نے جو مکان بنوایا ہے، وہ ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے، اس کا جرمانہ بلدیہ کو دو اور اسے مسمار کرو۔ مجھے اس کھیل پر غصہ آیا تھا جس میں ایسے سارے اتفاقات میرے ہی ساتھ ہوتے تھے۔ اس مرتبہ میں نے آنکھ بند کر کے گڈی میں سے کارڈ اٹھایا۔ اس پر لکھا تھا، ’’بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر چالان، جرمانہ دو ورنہ جیل جاؤ۔‘‘
میرے پاس اتنے نقد روپے بھی نہیں تھے۔ مجھے اپنے علاقوں میں سے کوئی نہ کوئی گروی رکھنا پڑےگا۔ میں نے سوچا کہ کون سا علاقہ ایسا ہے جس کے نہ ہونے سے میرا نقصان نہیں ہوگا۔ میں نے کچھ سوچ کر لالو کھیت بیچ دیا اور سب سے کہا کہ یہاں آئے دن ہنگامے ہوتے رہتے ہیں، اس لیے یہ ASSET کے بجائے LIABILITY بن گیا ہے! اور جھوٹی ہنسی ہنسنے لگا۔ باقی کھلاڑیوں کے پاس نقدی بھی تھی اور علاقوں کی ملکیت والے کارڈ بھی۔ کیا یہ سب آپس میں طے کر کے میرے خلاف کھیل رہے ہیں؟ انہوں نے یہ سازش کر لی ہوگی کہ اس کو منوپلائز کرو تاکہ یہ پہلے ہی دیوالیہ ہو جائے۔ میں اس طرح نہیں ہارنا چاہتا تھا۔ یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی۔ میں نے کھیل چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور سگریٹ سلگانے کا بہانہ کر کے باہر چلا آیا۔
باہر گھپ اندھیرا تھا۔ میں اندھیرے میں کھڑا رہا۔ اندھیرے میں سکون تھا، ٹھنڈک تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ میں بھی اندھیرے کا ایک حصہ ہوں۔ کائنات کا سارا اندھیرا بہتا ہوا میری طرف آ رہا ہے، میری رگوں میں جاری و ساری رہنا چاہتا ہے۔ میں نے اس اندھیرے کو بازوؤں میں سمیٹ لینا چاہا، اس کو کڑوے زہر کی طرح سینے میں اتار لینا چاہا۔ میں نے دونوں بازو پھیلا دیے اور منہ اوپر اٹھا دیا۔ اوپر آسمان تھا، سیاہی میں ڈوبا ہوا آسمان، دور دور تک پھیلا ہوا پردہ ظلمات جو ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ کہیں کہیں ستارے دمک رہے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا تو ہر رات اپنے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تھا، ستاروں کو پہچاننے کی کوشش کرتا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ ان چمکتے دمکتے ستاروں کو کیا خبر کہ زمین نام کے ایک دور دراز سیارے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک گھر کے آنگن میں ایک بچہ انہیں دیکھتا ہے اور ان کی ٹم ٹم کرتی روشنی سے خوش ہوتا ہے۔
مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوتا تھا کہ یہ ستارے اتنی دور سے ہم پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اس ستارے کو پہچانوں جو بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہے۔ قطب تارے کو میں کبھی نہ یاد رکھ سکا۔ اس وقت بھی وہ میری آنکھ سے اوجھل رہا۔ اس کے بجائے ستاروں کا وہ جھرمٹ نظر آیا جسے میں نے بچپن میں پہچاننا سیکھا تھا۔ جب ان ستاروں کو پہچاننا سیکھا تھا تبھی یہ سنا تھا کہ یہ جھرمٹ اصل میں سات بہنیں ہیں جو بال کھولے ہوئے ایک لاش کے گرد ماتم کر رہی ہیں۔ تب بہت حیرت ہوتی تھی یہ کس کا سوگ منا رہی ہیں، آسمان میں کون مر گیا ہے؟
پھر میری نظر اس چمک دار ستارے پر پڑی۔ بنات النعش کے علاوہ میں اس کو بھی پہچانتا تھا۔ یہ مریخ تھا، قتل اور غارت گری کا سیارہ۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ وہ قہر اور غضب کا دیوتا ہے، اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں اور تلوار سے خون کی بوندیں ٹپک رہی ہیں، جس بستی میں چلا جاتا ہے اسے جلا کر خاک کر دیتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے پیچھے کھڑا ہے۔ اس کی تلوار میرے سر پر ٹنگی ہوئی ہے، اس کے نتھنوں کا گرم گرم سانس میری گردن کو چھو رہا ہے۔ میری ہمت نہ ہوئی کہ پیچھے مڑ کر دیکھوں۔ میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.