سفید گنبد کی چوٹی پر سیاہ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور اس سیاہ جھنڈے کی چھاؤں میں زندگی مجسم دعا بن کر دروازوں سے لپٹی ہوئی تھی۔
انسانوں کا سیلاب تھا کہ امڈا چلا آتا تھا کیونکہ آج ان کے پیر و مرشد حضرت کاڑے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے عرس کا پہلا دن تھا۔ شہری مریدوں نے سجادہ نشین پیر سلامت شاہ کی رضامندی سے مزار سے ذرا دور ہٹ کر باہر سے آنے والے زائرین کی رہائش کے لیے ثواب حاصل کرنے کی خاطر میدان میں خیمے نصب کروادیے تھے کیونکہ سردیوں کے دن تھے اور زائرین کے لیے رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔
مزار کی پچھلی طرف اینٹیں رکھ کر بنائے گئے چولہوں میں راکھ پڑی تھی۔ ایک طرف پانی سے بجھی سوں سوں کرتی لکڑیوں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ دیگوں سے نیاز کا کھانا نکال کر تقسیم کیا جا رہا تھا اور باورچی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد چارپائیوں پر بیٹھے حقہ گڑگڑاتے ہوئے شام کے لیے چاول چن رہے تھے۔
گنبد کے گرد بنی ہوئی چار دیواری یعنی مزار کی عمارت کے داخلی دروازے پر ٹنگی ہوئے پھولوں کے سہرے مہک رہے تے اور مزار کے اندر عود و عنبر کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ اندر بائیں طرف، لوگ درویشوں کے حجروں پر ٹوٹے پڑتے تھے کیونکہ وہاں خاص تبرک، بھلیاں، بتاشے اور ریوڑیاں تقسیم کیے جا رہے تھے۔
ایک بند دروازے کے سامنے خلقت، پیر سلامت شاہ کی زیارت کے لیے بےقرار کھڑی تھی اور بند دروازے کے پیچھے پیر سلامت شاہ قالین پر لیٹے چھمو طوائف سے (جو عرس کی خاطر دوچار دن پہلے ہی آ گئی تھی اور عقیدت کے باعث ہر جمعرات کو آیا کرتی تھی) سرد بوارہے تھے۔ چھمو کی شاگرد فیروزہ ان کی پنڈلیا سہلا رہی تھیں۔ شاہ صاحب کی بوجھل آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے اور ٹکٹکی لگائے فیروزہ کو دیکھ رہے تھے جیسے وہ اس کے چہرے میں زندگی کے معمے کا حل ڈھونڈ رہے ہوں۔ جب ان کی آنکھیں فیروزہ کے چہرے کو ٹٹولتی ٹٹولتی تھک گئیں اور آنکھوں میں تیرتے ہوئے سرخ ڈورے ڈوب گئے تو چھمو نے باہر جاکر فضل لوہار سے کہا۔۔۔ ’’لوگوں سے کہہ دو کہ شاہ صاحب اس وقت مراقبے میں ہیں اور شام کی محفل میں تشریف لائیں گے۔‘‘
فضل لوہار جو اپنا پیشہ ترک کرکے مجذوب ہو گیا تھا اور اب درویشوں میں شمار ہوتا تھا، بڑے اعتماد سے۔۔۔ آنکھوں کو نیم وا کرکے تسبیح کے دانے انگلیوں میں گھماتے ہوئے آیا اور یہ خبر دے گیا۔۔۔ چہرے مایوسی سے لٹک گئے۔ تب لوگ پاس ہی اگربتیوں کی خوشبو سے نہائے ہوئے ایک وسیع برآمدے میں چلے گئے اور انتظار کی گھڑیاں گزارنے کے لیے نعت خوانی شروع ہو گئی۔
پھر ریتیلے ٹیلوں اور خشک جھاڑیوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے اور صحرائی شام کی خنک ہوائیں آہستہ آہستہ مزار کے جھروکوں میں سرسرانے لگیں۔ فضل لوہار چرس کا دم لگائے دوسرے درویشوں کے ساتھ مل کر قوالوں کو سونف اور الائچیوں میں ابلی ہوئی پتی کی دیہاتی چائے پلانے میں مصروف تھا اور شاہ صاحب نہانے کے بعد آنکھوں میں سرمہ لگائے گاڑھے کا چغہ اور تہہ بند پہنے چھمو سے سر اور داڑھی میں تیل لگوا رہے تھے۔ ان کے پاس ہی دیہات کے کچھ معززین اور شہری بھی بیٹھے تھے۔ جن میں سے چند ایک زیرلب درود شریف پڑھ رہے تھے۔
جب آسمان کی کوکھ تاریکیوں کو جنم دینے لگی اور مشرق سے بڑھتی ہوئی تاریکیوں کے دوش پر جگنوؤں کی طرح جھلملاتے ہوئے ستارے بھی بڑھنے لگے تو سفید گنبد کے چاروں طرف ستاروں کی طرح جگمگاتے ہوئے چراغ روشن ہوگئے اور مزار روشنی کے دریاؤں کا منبع بن گیا، جن میں انسان دعاؤں کے سہارے ڈوب رہے تھے۔۔۔ دیواروں کی جالیوں سے چمٹے ہوئے۔
پھر برآمدے میں طبلچی طبلے پر آٹا لگانے کے بعد ہارمونیم کے ساتھ تال ملانے لگااور شاہ صاحب نے انگلیوں میں بڑے بڑے نگینوں والی انگوٹھیاں پہنے ہوئے کہا، ’’چھمو۔۔۔ آج میں بہت خوش ہوں۔۔۔ بہت ہی خوش۔۔۔‘‘
چھمو نے ان کے گلے میں موٹے موٹے منکوں کی مالا پہنانے کے بعد انہیں دستار دیتے ہوئے کہا، ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ خوشی کیوں نہ ہو۔ آخر اپنے پیر و مرشد کا عرس مبارک ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ اس لیے نہیں۔۔۔ ہاں اسی لیے، اسی لیے۔‘‘
شاہ صاحب برآمدے میں چلے گئے۔۔۔ لوگ اٹھ اٹھ کر قدم بوسی کرنے لگے، گھٹنوں کو ہاتھ لگا لگاکر آنکھوں سے لگانے لگے۔ شاہ صاحب کی گردن تنی ہوئی اور ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ وہ عجب شان بے نیازی سے اپنے داڑھی میں انگلیاں پھیرتے، دوسرے ہاتھ میں تسبیح ہلاتے ہوئے بیٹھ گئے۔
فیروزہ کی نعت سے یہ محفل شروع ہوئی اور قوالی کی آخری غزل پر شاہ صاحب کے وجد کے اختتام پر یہ محفل تمام ہوئی۔
سب کھانا کھا چکے تو سہرابندی کے لیے شاہ صاحب کے حجرے سے ایک مختصر سے جلوس کی صورت میں لوگ گنبد کی جانب بڑھے۔ قوال گلا پھاڑ پھاڑ گا رہے تھے اور لوگ زاروقطار رو رہے تھے۔ سب سے آگے شاہ صاحب اپنے ہاتھوں میں تازہ پھولوں اور گوٹے کے تاروں سے گندھا ہوا سہرا لیے تھے۔ ان کی دائیں طرف فضل لوہار قبر کا نیا اوچھاڑ لیے ہوئے ایک ہاتھ سے اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھ رہاتھا جو اپنے پیر کی یاد میں بہہ رہے تھے۔
گنبد کے بڑے دروازے کی چوکھٹ پر شاہ صاحب نے اپنے دست مبارک سے سہرا باندھا اور قبر پر چادر چڑھائی۔ پھر وہیں قوالی شروع ہو گئی۔ لوگوں کی جیبوں سے روپے نکل نکل کر میر مجلس شاہ صاحب کے ہاتھوں سے ہوتے ہوئے قوالوں کی جیبوں میں جانے لگے۔۔۔ شاہ صاحب کے نعرے اور رقت آمیز چیخیں قوالوں کی آواز سے بھی زیادہ بلندہونے لگیں۔ جب شاہ صاحب نے یہ محسوس کیا کہ قوال اب بہت کما چکے ہیں، چراغ مدھم ہو رہے ہیں، لمبی لمبی موم بتیاں آخری سانس لے رہی ہیں اور حاضرین بھی جمائیاں لے رہے ہیں تو انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
نزدیکی گاؤں کے باسی اپنے پیر کے قدموں کو بوسہ دینے کے بعد اپنے اپنے گاؤں کو چل دیے۔ بعض تھک کر وہیں دراز ہو گئے۔ باہر سے آئے ہوئے ملنگ اور سائیں حجروں میں چلے گئے۔ قوال اور باقی زائرین خیمے کے نیچے سوگئے۔ چھمو اور فیروزہ نے شاہ صاحب کی خاص مرید ہونے کے باعث ان کے حجرے ہی کو نوازا۔ تب ہر سمت سناٹا چھا گیا۔ ایسا سناٹا جو روح کی گہرائیوں میں چیختا ہوا تر جاتا ہے اور جو روح کو بے چین کر دیتا ہے۔ شاہ صاحب کی روح بےچین تھی۔ ایک عجیب سی تھکاوٹ اور اداسی ان کے جسم میں سرایت کر گئی تھی اور وہ بےقرار ہوکر بار بار کروٹیں بدل رہے تھے۔
کھونٹی کے ساتھ لٹکے ہوئے گیس لیمپ کی روشنی تیل ختم ہونے کی وجہ سے مدھم ہو رہی تھی۔ پہلے شاہ صاحب نے فیروزہ کے کہنے پر گیس لیمپ بجھا دیا تھا لیکن بعد میں جب انہیں تاریکی بےحد بھیانک محسوس ہوئی تو انہوں نے دوبارہ روشنی کردی تھی۔ چھمو ساتھ والے پلنگ پر پگھلی ہوئی موم بتی کے مانند لیٹی تھی اور ایک طرف فیروزہ لحاف اوڑھے شراب کی خالی بوتل کی طرح اوندھی پڑی تھی۔ سب سو رہے تھے لیکن نیند کی دیوی نے شاہ صاحب کو صرف سناٹے بخشے تھے اور بے چینی عنایت کی تھی۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کی تمام مسکراہٹیں اور خوشیاں بالکل کھوکھلی ہیں۔ اس کچی قبر کی طرح جس میں بارش کی زیادتی سے گڑھے پڑ جاتے ہیں۔
’’شکست، شکست، شکست۔‘‘ ان کے کانوں میں کوئی چیخ چیخ کر کہنے لگا اور شاہ صاحب کی بےچین روح اور بھی بےچین ہوگئی۔ وہ اٹھ کر باہر چلے آئے کہ شاید طبیعت کو سکون مل جائے۔
باہر بھی وہی سناٹا مسلط تھا۔ کبھی کبھی پاس والی بستیوں کے ٹھنڈ کے مارے کتوں ک دبی ہوئی چیخوں سے یہ خاموشی ٹوٹ جاتی۔ سیاہی مائل آسمان پر لاتعداد ستارے آنکھیں جھپکا رہے تھے بادلوں کے ٹکڑے اپنے اندر نامعلوم ارادے چھپائے آوارہ گھوم رہے تھے اور خنک ہوا کے یخ بستہ جھونکے جسم کو کاٹ کاٹ جاتے۔ بادل کے ایک ٹکڑے سے پچھلے پہر کا چاند نکلا اور ساری کائنات چاندنی کے جھرنوں میں نہا گئی۔ بھیگی بھیگی کرنیں شاہ صاحب کے لیے ایک عجیب قسم کا احساس اپنے ساتھ لائیں ان کے موٹے موٹے ہونٹ ایک تلخ مسکراہٹ سے پھیل گئے۔ انہیں اپنے جسم کے ایک ایک جوڑ میں درد محسوس ہونے لگا۔ آج جیسے ذہنی طور پر وہ تھک گئے تھے، نڈھال سے ہو گئے تھے اور یہ تھکاوٹ درد کی صورت میں ان کے جوڑ جوڑ میں اتر آئی تھی۔ وہ کمبل کو ٹھیک سے اپنے کندھے پر جمانے کے بعد ریت کے ٹیلے پر آکر بیٹھ گئے اور کچھ سوچتے ہوئے آہستہ آہستہ ریت پر انگلیوں کے نشان بنانے لگے۔۔۔
’’فریبی۔۔۔! تم ہمیشہ سے تو ایسے نہ تھے، جلتے ہوئے صحرا نہ تھے۔ تم نے اپنی آنکھیں خود ہی بند کرلی تھیں۔ تم نے گلاب ایسی دنیا کے کانٹوں کو جلانے کے بجائے اپنی روح تار تار کرلی اور انہیں کانٹوں نے محمد سلیم سے پیر سلامت شاہ بنا دیا۔۔۔ تم ہمیشہ سے سراب نہ تھے، تم نے گلاب کی خوشبو کو چرس کی سرانڈ سمجھ لیا تھا۔‘‘
چاند کو ایک چھوٹی سی بدلی نے اپنے دامن میں چھپا لیا اور وقت کے صحراؤں سے ماضی کے ابوالہول دبے قدموں نکلے۔۔۔ اور ان کے ذہن میں اودھم مچانے لگے۔۔۔
’’ہونہہ۔۔۔‘‘ کروٹ بدل کر اپنا بازو کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔
’’اٹھتا ہوں ابا۔۔۔‘‘
’’تجھے تو سب سے پہلے اٹھنا چاہیے اور اذان بھی دینی چاہیے۔ تجھے تو میرے بعد امامت کی گدی سنبھا لنا ہے۔ اٹھ جلدی۔ گدھا کہیں کا، سورج چڑھنے کو آیا ہے اور یہ ابھی تک خر خر کر رہا ہے۔‘‘
مولوی صاحب اسے آخری بار جگانے کے بعد مصلے پر آکر بیٹھ گئے۔ جب مؤذن نے تکبیر پڑھی تو وہ بھی جلدی سے وضوکرکے جماعت میں شامل ہو گیا۔
دعاکے بعد مولوی صاحب درس قرآن دینے لگے اور وہ واپس مسجد کے ساتھ ملحقہ، اس حجرہ نماکوٹھری میں آیا جس میں دونوں باپ بیٹا رہتے تھے اور جس میں ایک عجیب قسم کی مولویانہ بوبسی ہوئی تھی۔ اس نے کوٹھڑی سے گڑوی اٹھائی۔ مولوی صاحب کی واسکٹ سے ایک اٹھنی نکالی اور گوالے کے ہاں چلا گیا۔ گاؤں میں چند ایک کے سوا باقی سب گھروں میں کوئی نہ کوئی بھینس ضرور تھی۔ جو گھران سے محروم تھے ان کے مکینوں میں مویشی رکھنے کی استطاعت ہی نہ تھی۔
گائے بھینسوں سے ایک طرف ہٹ کر ایک ٹوٹے پھوٹے سے تخت پرچند ایک برتن پڑے تھے۔ گوالن زمین پر بیٹھی گوبر اکٹھا کر رہی تھی اور گوالا مویشیوں کو چارہ ڈالنے کے بعد دستی نلکے پر ہاتھ دھو رہا تھا۔ کچھ بچے دودھ کے انتظار میں اخروٹ کھیل رہے تھے۔ اگرچہ روشنی اتنی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے اور ٹچ ٹچ کی آواز آنے لگتی۔ صحن کے ایک کونے میں دو تین نوجوان لڑکیاں کھڑی کھسرپھسر کر رہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نقرئی قہقہے گونجنے لگتے۔
اس کی نگاہیں چاروں طرف گھومنے کے بعد اس کونے میں اٹک گئیں، لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ وہ انگلیاں چٹخاتا ہوا تخت پر بیٹھ کر اخروٹوں کا کھیل دیکھنے لگا۔
تب پھلکاری کا آنچل فضا میں لہرایا، سنہری چوڑیاں گوری گوری کلائیوں میں چھنک اٹھیں، چھینٹ کا لہنگا جھولنے لگا اور کولہوں پر جمی ہوئی گاگر جھومتی ہوئی تخت پر آ گئی۔ آنکھوں پر پڑے ہوئے غلافی پردے اٹھے۔ غصیلی نگاہیں ٹخنوں کے اوپر تک بندھی ہوئی شلوار سے لے کر بوسیدہ سی سرخ ٹوپی تک (جو میل کی وجہ سے سیاہ ہو رہی تھی، جس کا پھندنا غائب تھا اور جس نے اس کے کان دہرے کر رکھے تھے) دوڑتی ہوئی کونے میں جاکر رک گئیں، کمان مارکہ بھنویں تن گئیں، شانے ہلے اور ایک تھوک اس کے پیر چاٹنے لگا۔ کونے میں سرگوشیاں ہوئیں۔ وہ چلی گئی تو ایک قہقہہ بلند ہوا اور وہ اپنی چھدری داڑھی کو کھجاتا سوچ کے گرداب میں اتر گیا۔
اس لڑکی کا گھر پکی اینٹوں کا ہے، اس کے باپ کے اس دو مکان اور بہت سی زمین ہے۔۔۔ اور میرا مکان؟ میرا کوئی مکان نہیں۔ میں تو اپنے باپ کے ساتھ حجرے میں رہتا ہوں۔ اس کا باپ موٹی موٹی مونچھوں والا زمیندار ہے جو اپنی بھینسوں کا دودھ محض اس لیے نہیں پیتاکہ زیادہ گھی بناکر بیچے۔۔۔ اور میرا باپ مولوی ہے جو گاؤں کے ٹکڑوں پر زندہ ہے۔۔۔ تو پھر مجھے اس سے محبت کیوں ہے۔۔۔ مجھے تو اس سے نفرت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ میرے بس میں نہیں، میں کیا کروں، وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔ اور نوری کا دل بےجان ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کے سینے میں لوہے کا ٹکڑا ہو۔ ممکن ہے یہ لوہا کسی دن نرم ہو جائے۔۔۔ میں آج پھر لالو سائیں کے تکیے پر دیا جلاؤں گا۔۔۔
’’مولوی جی، یہ لو۔‘‘ اس نے چونک کر گڑوی اٹھا لی۔
اخروٹ اور نقرئی قہقہے ختم ہوچکے تھے۔ اس نے گڑوی اٹھائی، اس کی آنکھوں میں پھر پھلکاری جھولنے لگی اور وہ اس جھولے پر اپنے خیالات کو بٹھائے لوٹ آیا۔
اس رات لالو سائیں کے تکیے پر تمام دیئوں سے الگ تھلگ ایک دیا جھلملاتا رہا، قبر کے پیروں کی طرف بوسے اور سجدے چمٹتے رہے۔
اور مولوی صاحب نے عشا کی نماز پڑھانے کے بعد حجرے کی طاق میں سلیم کے دل کی طرح کانپتی ہوئی دیے کی لو کو تیز کرتے ہوئے کہا، ’’آخر تجھے ضرورت کیا تھی اس سے بات کرنے کی۔۔۔! آج ہر طرف سے مجھ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ مولوی شریف کے بیٹے نے چودھری علی محمد کی لڑکی کو کیکر کے ٹنٹھ کے پاس چھیڑا ہے۔ ابھی ابھی علی محمد پھر گالیاں بک کے گیا ہے کہ اپنے بیٹے کو منع کر لو ورنہ ہڈی پسلی ایک کرکے گاؤں سے نکال دوں گا۔۔۔‘‘
سلیم نے ٹوپی اتار کر لیٹتے ہوئے کہا، ’’محبت کرنا کوئی گناہ نہیں۔۔۔ مجھے آپ سے محبت ہے، خدا سے محبت ہے، کوئی وجہ نہیں کہ میری اس محبت کو بری نگاہوں سے دیکھا جائے۔‘‘
’’خنزیر کے بچے۔۔۔! جب محبت کے جواب میں گالیاں ملیں اور باپ کی عمر بھر کی کمائی ہوئی عزت خاک میں ملنے لگے تو حرامی پن نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ مولوی صاحب نے تیزی سے کہا، ’’تجھے امام بھی تو بننا ہے۔۔۔‘‘
’’ہونہہ۔۔۔ امام!‘‘ اس نے انتہائی آہستگی سے کہا اور مولوی صاحب نے آنکھیں بند کر لیں۔
ابا! تم کیا جانو۔۔۔ نوری مجھے اس لیے پسند نہیں کرتی کہ میری ایک انتہائی بیہودہ سی داڑھی ہے اور میری دوڑ صرف مسجد تک ہے۔۔۔ میں اس کے چچا کے لڑکے بیرو کی طرح بیل گاڑیوں کی دوڑ میں حصہ نہیں لیتا۔۔۔ بٹیر اور مینڈھے نہیں لڑاتا۔۔۔ کشتی نہیں لڑتا۔۔۔ وہ ایک ایسے جوان کو چاہتی ہے جو شراب پی کر اسے ہیر کے بول سنا سکتا ہو۔۔۔ لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں۔۔۔ میں مولوی ہوں اور تم بھی مولوی ہو۔۔۔ لیکن خدا اسے ضرور عقل دےگا، میری دعاؤں کا اثر ضرور ہوگا۔۔۔
تب اس کے کانوں میں کیکر کے ٹھنٹھ کے پاس کہے ہو ئے الفاظ گونجے۔۔۔ ’’کوئی عقل کی بات کرو۔۔۔ تم کہتے ہو کہ میرے پیروں میں دولت کے ڈھیر لگا دوگے، مجھے دولت نہیں چاہیے۔۔۔ مجھے بیرو چاہیے، آئندہ میری طرف اس طرح دیکھا تو آنکھیں نکال لوں گی۔۔۔‘‘ پھر اس کے پیروں میں تھوک جم گیا تھا۔
اور لالو سائیں کے تکیے پر تمام دیئوں سے الگ تھلگ ایک دیا جھلملاتا رہا۔۔۔ لیکن نوری کے سینے میں دھڑکتا ہوا لوہانہ پگھلا۔
پھر درختوں میں آم پیلے پیلے قمقموں کی طرح لٹکنے لگے۔ ساون کی بارش ہونے کے بعد ہر چیز دھل کر صاف ہوگئی سوائے گلیوں کے جن میں ٹخنوں تک کیچڑ چپک رہی تھی۔ پاس والی نہر کے کنارے بچے آم اور تربوز کھاکر مٹی کے گھروندے بنارہے تھے اور قریب ہی بیرو کی قیادت میں گاؤں کے نوجوان کبڈی کھیل رہے تھے۔ سلیم حجرے میں بیٹھا قمیص سی رہا تھا۔ مولوی صاحب کا لو کمہار کی لڑکی کی نکاح پڑھنے گئے تھے۔
حجرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے کنڈی کھولی، مولوی صاحب کیچڑ میں لت پت اندر داخل ہوتے ہی چارپائی پر گر گئے اور سلیم گھبراکر ان کے پیر سہلانے لگا۔ اتنے میں کالو کمہار حکیم کولے آیا۔ اس نے وجہ پوچھی تو مولوی صاحب نے بتایا کہ تربوز کھانے کے بعد تھوڑی لسی پی لی تھی۔ حکیم نے بغیر سوچے سمجھے فوراً بتا دیا کہ ہیضہ ہے۔
’’ہیضہ؟‘‘ مولوی صاحب نے چیخ کر کہا۔
چند گھنٹوں بعد جب گاؤں پر یرقانی دھوپ کی چادر تن گئی تو گاؤں کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو گیا۔
محمد سلیم مسجد کا امام بن گیا۔ لوگوں نے کیکر کے ٹھنٹھ کے پاس والی حرکت بھلا دی اور اب وہ اپنے نئے مولوی صاحب کی شرافت کے پجاری تھے۔ لیکن نوری کے سینے کا لوہا اور بھی زیادہ سخت ہو گیا۔
ایک اداس سی شام کو نمازیوں کی زبانی اسے خبر ملی کہ عنقریب ہی نوری کی شادی بیرو سے ہو رہی ہے۔ اس کی روح پھڑپھڑانے لگی۔ تب وہ تمام رات لالو سائیں کی قبر کے ساتھ لپٹا رو روکر دعائیں مانگتا رہا لیکن قبر سے کوئی آواز نہ آئی۔ بو سے، سجدے اور دعائیں لالو سائیں کو صدیوں کی نیند سے بیدار نہ کر سکے۔
پھر چند دن بعد نوری کے گھر سے ڈھولک کی آواز آنے لگی اور ایک دن ہیر کے بول لہرانے والے بیرونے یہ لوہا پگھلاکر پانی بنا دیا اور سلیم کے سینے میں انگارے ناچنے لگے۔ اسے یہ شکوہ نہیں تھا کہ اس کے باپ نے بیرو سے نکاح پڑھنے کے لیے اسے کیوں نہیں بلایا اور دوسرے گاؤں سے مولوی کو کیوں بلایا اسے صرف اتنا ہی قلق تھا کہ کاش وہ یہ کہہ دیتی۔۔۔ سلیم مجھے تم سے محبت ہے اور میں اس فقرے کو سینے سے لگائے ساری زندگی گزار دیتا۔ اسی فقرے کی خاطر اس نے کئی راتیں نوری کے گھر کے چکر کاٹ کاٹ کر گزاردیں، شاید وہ اس سے مل جائے اور اتنا کہہ دے کہ سلیم مجھے تم سے محبت ہے۔ لیکن اس کے کان ان الفاظ کے لیے ترستے ہی رہے۔ شادی کے بعد بھی کھڑکی میں آنچل لہراتے رہے لیکن اس کے کان پیاسے ہی رہے اور وہ پھلکاری کو آنکھوں میں سموئے چکر کاٹتا رہا۔ پھر ایک دن اس کے گھر کا دروازہ کھلا۔ بیرو کے ایک ہاتھ میں لالٹین تھی اور دوسرے ہاتھ میں لاٹھی۔ بیروکی لاٹھی گھومی۔۔۔ پھر اسے علم نہیں کیا ہوا۔۔۔
جب اس نے نظریں اٹھائیں تو سرخی مائل سورج یوں ابھر رہا تھا جیسے کٹے ہوئے سر کو بالوں سے پکڑ کر آہستہ آہستہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کے گاؤں کے گھر داغ بن کر زمین کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے اور دھول اس کے جسم کو چاٹ رہی تھی۔ وہ ہلاتو اس کاجسم پکے ہوئے پھوڑے کی طرح دکھنے لگا۔ رات کے واقعات اس کے ذہن میں بیرو کی لاٹھی کی طرح گھوم گئے اور ایک تھوک اس کے پیروں میں جم گیا۔
وہ بڑی مشکل سے اٹھا اور زخمی کوئے کی طرح لڑکھڑاتا ہوا تیزی سے گاؤں کی مخالف سمت کو چلنے لگا۔ اس گاؤں میں محمد سلیم کے لیے اب کوئی جگہ نہیں تھی۔
وہ بےحد غمگین تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے اس کا دماغ لیمو کی طرح نچوڑنے والی مشین میں نچڑ رہا ہو۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے دماغ کے عرق کے ساتھ اس کے ذہن کے خیالات بھی نچڑ جائیں لیکن خیالات تو جیسے کنکھجورے کے مانند اس کے دماغ کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے تھے۔ ناخوشگوار ہواؤں سے کانپتے ہوئے درخت لرزنے لگے۔۔۔ تمہیں اس کنکھجورے کو نکال کر پھینک دینا ہوگا۔ محبت کے بروا کو دل سے نکال کر پھینکنا ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ کانٹے تمہیں کچھ دینے کے بجائے تمہارے وجود کو اور بھی تار تار کر دیں گے۔ نوری فوت ہو چکی ہے، محبت مرچکی ہے۔ اب اس کا بھی ایک لالو سائیں کے تکیے ایسا مزار بناکر اس پر اپنے آنسو ؤں کے چراغ جلاؤ تاکہ تم ان چراغوں کی لو سے اپنی خواہشات جلا سکو اور ان جلی ہوئی خواہشات کی راکھ کو اپنی روح کے زخموں پر لگا سکو۔۔۔ اسے بھول جاؤ۔۔۔ سلیم۔۔۔
اس نے سر کو جھٹکایا۔ رفتہ رفتہ کنکھجورے کے پیر اس کے دماغ سے نکل گئے اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’اگر میری روح کے زخم پھر بھی نہ بھر سکے تو۔۔۔؟ اچھا، خدا کو یہی منظور تھا۔‘‘
آنکھوں کا جھولا اگرچہ ساکن تھا لیکن پھلکاری ابھی تک جھولے پر تھی۔
بہت دور جانے کے بعد گاؤں کے داغ مٹ گئے اور وہ شہر میں تھا۔ اس کی جیب میں صرف آٹھ روپے اور چند آنے پائیاں تھیں۔ اس نے تنور سے دوپہر کا کھانا کھایا اور سرائے کے قریب اپنے باپ کے مرشد کے مزار پر چلا گیا۔ وہاں کے گدی نشین کے پاؤں چھونے کے بعد اس نے بتایا کہ گاؤں والوں نے کوئی مولوی رکھ لیا ہے اور اب وہ ان کی مدد چاہتا ہے۔ پیر صاحب نے اس کو تعویذ لکھ کر دیا اور اس نے تھوڑی سی رقم نذرانے کے طور پر پیش کی۔ پیر صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے اور وہ کام کی تلاش میں چل پڑا۔
وہ تمام مسجدوں میں گھوما لیکن سب مسجدیں مولویوں سے پر تھیں۔ رات کو اس نے لنگر سے کھانا کھایا اور پیر صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔ اس نے اپنی ناکام کوششوں کا ذکر کیا تو انہوں نے ہچکی لے کر علی حیدر کا نعرہ مارا اور مزید ہدیے کے لیے کہا۔ ان کا حکم پورا ہوا، اسے ایک اور تعویذ مل گیا اور وہ پیٹ کے الجھے ہوئے تاگے سلجھاتا ہوا باہر صحن میں آکر لیٹ گیا۔
اگلے روز، اس سے اگلے روز۔۔۔ ناکامی۔۔۔ پھر ناکامی۔۔۔ وہ ان سے ایک اور تعویذ لینا چاہتا تھا لیکن اس کی جیب اپنے دماغ کی طرح خالی ہو چکی تھی اور پیر صاحب نے چرس کے دھوئیں سے جھانک کر کہہ دیا تھا۔۔۔ ’’بن ہدیے کے تعویذ نہیں ملے گا کیونکہ اس طرح الٹا اثر ہوتا ہے۔‘‘
’’لیکن پیر صاحب ابھی تک تو تعویذوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔ سیدھا نہ الٹا، میں تو۔۔۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ تمہارا اعتقاد اتنا کمزور ہے! جبھی تو تمہیں نوکری نہیں ملتی۔۔۔ میاں کل سے اپنا انتظام کرو، لنگر سے کب تک کھانا کھاؤگے۔‘‘
تب محمد سلیم بےحد مایوس ہوکر اٹھا اور بازاروں میں آوارہ کتے کی طرح گھومنے لگا۔ جوہریوں کی دکانوں میں جگمگاتے ہوئے زیور دیکھ کر کئی مرتبہ اسے خیال آیا کہ کسی طرح لے اڑے۔ گناہ کا چور بار بار اس کے دل میں سیندھ لگانے کی کوشش کرتا لیکن وہ اسے مار مار کر بھگا دیا اور پھر وہ سوچتا۔۔۔ آخر اس بے داغ ہونے کا صلہ کیوں نہیں ملتا؟ پیر کیوں اس قدر بےحس ہیں؟ خدا کیوں اتنا بے پرواہ ہے؟ وہ خود اتنا متزلزل کیوں ہے؟ ان سوالات کے جواب میں گرد و غبار کی چادر اس کے ذہن پر تن جاتی جس کے پیچھے وہ کسی چیز کو نہ دیکھ سکتا۔
بازار میں بہت بھیڑ تھی۔ ایک کپڑے کی دکان سے چند دیہاتی عورتیں کپڑا خرید کر نکلیں۔ ان میں سے ایک کے دوپٹے کے پلو میں بندھے ہوئے پیسے اس کی پیٹھ پر لٹک رہے تھے۔ اس کی نگاہیں گرہ کے اندر گھومنے لگیں۔ گناہ کے چور کو تعویذوں نے دل میں سیندھ لگانے میں مدد دی اور وہ چشم زون میں اس کا دوپٹہ کھینچ کر بجلی کی ایسی تیزی سے ساتھ والی تاریک سی گلی میں ایک مکان کی سیڑھیوں میں چھپ گیا۔ وہ دیہاتی عورت واویلا مچارہی تھی اور لوگ اکٹھے ہوکر ہمدردی کا اظہار کر رہے تھے۔ سلیم نے دوپٹے کو اپنے تہ بند کے ڈب میں اڑس لیا اور جانے کن کن گلیوں سے ہوتا ہوا پیر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔
رات ہو چکی تھی۔ سب معتقد جا چکے تھے اور پیر صاحب جمائیاں لے رہے تھے۔ انہوں نے اسے دیکھ کر علی حیدر کا نعرہ لگایا۔ پیسے وصول کیے اور کہا، ’’انشاء اللہ العزیز اب تیری آرزو پوری ہوگی۔‘‘
جب چوری کیے ہوئے پیسے بھی ختم ہو گئے اور پیٹ کے الجھے تاگے نہ سلجھے تو وہ سمجھ گیا کہ یہاں اسے کچھ نہیں ملےگا۔۔۔ کاش وہ پہلے ہی حقیقت کو جان لیتا۔ وہ بہت دیر تک تاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے خدا معلوم کیا کچھ سوچتا رہا۔ پھر جانے اس کے دماغ کے کس کونے میں کون سی حس بیدار ہوئی کہ آخری تعویذ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر گیا۔
وہ مزار کی طرف بڑھا اور دروازے کے قریب جاکر چاروں طرف نظر دورائی۔ لوگ مردوں کی مانند صحن میں سو رہے تھے۔ اس نے قبر کے پیروں کی طرف رکھی پوری قوت سے بھاری مقفل تجوری سر پر اٹھائی اور تیزی سے باہر نکل آیا۔ اس کا دل زور سے بالکل نہ دھڑکا جیسے اس دیہاتی عورت کا دوپٹہ کھینچتے وقت دھڑکا تھا۔۔۔ شاید اس کے دل کی دھڑکن ہی بند ہو گئی تھی۔ وہ کسی ایسی طرف بھاگا جا رہا تھا جہاں اسے جاننے والا کوئی نہ ہو۔ وہ شہر سے بے حد دور نکل آیا۔
جب وہ چلتے چلتے بہت ہی تھک گیا تو پگڈنڈی سے ہٹ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ تھوڑا سا سستانے کے بعد اس نے پتھر سے بمشکل تالا توڑا۔ روپے روپے کے دس نوٹ اور کچھ ریزگاری اس کا منہ چڑا رہی تھی۔
جب سورج کی تیز شعاعیں اس کے منہ پر کھیلنے لگیں تو وہ بیدا رہوا۔ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اور پگڈنڈی پھر اس کے قدموں کے نیچے دبنے لگی۔ دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ چاروں طرف کھیت ہی کھیت تھے۔ کہیں کہیں اکادکا کچے مکان دکھائی دے جاتے۔
شام کے وقت وہ ایک ریتیلے میدان میں پہنچ گیا جہاں کہیں کہیں خشک خاردار جھاڑیاں اگی تھیں۔ آسمان پر اڑتی ہوئی لاتعداد چیلیں کسی اچھی خاصی آبادی کا پتہ دیتی تھیں۔ وہ کچھ آگے بڑھا تو دائیں طرف پگڈنڈی سے چند قدم دور ایک جھاڑی کے قریب کسی جانور کی لاش کے پاس گدھ اور کوئے بیٹے ضیافت اڑا رہے تھے۔ اس کی نظریں اس لاش میں گڑ کر رہ گئیں۔ گدھوں کے نچتے ہوئے مردہ جانور سے اٹھتی ہوئی بدبو ایسی تیزی سے اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا جس نے اس کے دل و دماغ کو محیط کر لیا اور ہولے ہولے ایک زہرخند صورت اس کے ہونٹوں پر اتر آیا۔۔۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ یہ چمک اس دیے کی تھی جسے اس نے محبت عقیدت اور تقدیس کی قبر پر ابھی ابھی روشن کیا تھا۔ وہ ایک بار صرف ایک لخطے کے لیے ہچکچایا اور پھر مسکرا دیا۔
رات کی سیاہ چادر نے آدھی دنیا کو اپنے دامن میں چھپا لیا تو قریبی گاؤں کے کچھ فاصلے پر لق و دق میدان میں اس نے ایک قبر تیار کر دی۔ تہہ بند کو پھاڑ کر لنگوٹی بناکر باندھ لی اور اپنے بقیہ لباس کو بھی قبر ہی میں دبا دیا۔
صبح صبح وہ قبر کے پاس بیٹھ کر اونچی اونچی آواز میں ہو حق کے نعرے لگانے لگا۔ سب سے پہلا شخص جو اس کے قریب سے گزرافضل لوہار تھا جو اپنی سسرال سے لوٹ رہا تھا۔ فضل نے جب دیکھا کہ ایک سائیں نما آدمی قبر کے کنارے بیٹھا اللہ اللہ کر رہا ہے تو اس نے انتہائی اعتقاد سے آنکھیں جھکاکر اس سے پوچھا کہ قبر رات ہی رات میں کیونکر ظہور پذیر ہوئی۔ محمد سلیم نے اپنا نام سلامت شاہ بتاکر کہا کہ اس کے مرشد حضرت کاڑے شاہ گاؤں میں اسلام کی تبلیغ کے لیے تشریف لارہے تھے کہ اس جگہ زمین شق ہو گئی اور اس میں زندہ سماگئے۔ پھر ہوحق کے نعروں کے ساتھ سلامت شاہ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹپکنے لگے، وہ وجد میں آتے آتے رہ گیا اور فضل لوہار درود شریف پڑھنے لگا۔ تب سلامت شاہ عین شاہ صاحب نے اپنے پیر و مرشد کا ذکر کچھ اس طریقے سے کیا کہ فضل بے حد متاثر ہوا۔ شام تک پانچ دس اور وہاں حاضر ہوئے اور فیض عام سے مالامال ہوئے۔
اس شام پیر کاڑے شاہ کی قبر پر پہلا دیا جلا۔۔۔
فضل لوہار کی وجہ سے شاہ صاحب اور ان کے مرحوم مرشد گاؤں بھر میں مشہور ہو گئے۔ گاؤں کے باسی تعویذ لکھوانے اور دعاؤں کے واسطے چیونٹیوں کی طرح آنے لگے۔ شاہ صاحب کی دعاؤں اور تعویذوں سے لوگوں کے کام واقعی پورے ہونے لگے۔ مثلاً کتنے ہی دنوں رحیمے ٹانڈے کی گائے کسی وجہ سے بچھڑا نہیں جن رہی تھی حالانکہ اس کے خیال کے مطابق دن پورے ہو چکے تھے۔ جب اس نے شاہ صاحب کی خدمت میں دوپہر کے کھانے کے ساتھ پانچ روپے پیش کیے تو انہوں نے گائے کے گلے میں لٹکانے کے لیے تعویذ دی اور دعا بھی کی۔ خدا کی قدرت، گائے نے ایک ہفتے کے بعد ہی بچھڑا جن دیا۔ جس سے رحیما ٹانڈا بہت متاثر ہوا اور اس نے بہت سانذرانہ پیش کرنے کے علاوہ قبر پر سبز چادر بھی چڑھائی۔
پھر قادرے کی ماں اس کی بیوی سے بہت لڑتی جھگڑتی تھی۔ ایک تو بوڑھی اور دوسرے گنٹھیا کی مریض، ان دونوں بیماریوں کی وجہ سے کچھ اور بھی بیمار ہو گئی تھی۔ شاہ صاحب نے قادرے کی بیوی کے کہنے پر تعویذ گنڈے کیے تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ وہ ایک ماہ کے بعد چل بسی اور اس کی بیوی نے کئی چڑھاوے چڑھائے۔ کتنے ہی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی تھی۔ گاؤں کے چیدہ چیدہ افراد آئے اور شاہ صاحب کے ہاتھ پاؤں چومنے کے بعد درخواست کی۔ انہوں نے نعرہ لگایا اور کہا، ’’ہوگی۔‘‘ کافی عرصے کے بعد مان سون کاریلا آیا اور بارش ہو گئی۔ اسی قسم کے اور کئی مراد برنہ آتی تو اسے خدا کی طرف سے بہتری پر محمول کیا جاتا۔۔۔
فضل لوہار پر شاہ صاحب کی خاص نظر کرم تھی۔ لوگ اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ پھر وہ اپنی بیوی اور بچے کو بلکتا چھوڑ کر درویش بن گیا۔
پھر شاہ صاحب گاڑھے کا جو گیا لباس پہننے لگے۔ ان کے گلے میں موٹے موٹے منکوں کی مالا تھی۔ انہوں نے بڑی بڑی انگوٹھیاں پہن لی تھیں اور بھاری کڑے کلائیوں میں چڑھا لیے تھے۔ اب وہ بھنگ اور چرس کی بجائے شراب پیتے تھے۔ ان کے شہری مرید خود ان کے لیے بڑھیا شراب بہم پہنچاتے۔۔۔ اس کے علاوہ ہر جمعرات کو چھمو کا مجرا بھی ہوتا تھا۔
شروع شروع میں ایک دیا ٹمٹمایا تھا، پھر کئی دیے جھلملائے اور آج لاتعداد دیے جگمگائے تھے اور یہ جگمگاہٹ شاہ صاحب کے دل میں خوشی بن کر ناچ رہی تھی۔
آج عرس کا پہلا دن گزر گیا تھا اور ابھی دو دن اور باقی تھے۔۔۔ ابھی دو دن اور خوشی کو چیخنا تھا۔ لیکن اس وقت جب کہ رات کے آنگن میں چاند بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، شاہ صاحب کی خوشی اور مسکراہٹ پر اوس پڑ چکی تھی، وہ بے حد بے قرار تھے اور سناٹوں کی بخشی ہوئی بے چینیاں ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکی تھیں۔ اب وہ ستاروں اور کہکشاؤں کی دنیا میں جانا چاہتے تھے، لیکن خدا معلوم حجرے میں گونجی ہوئی آواز پھر ان کے کانوں کے پردوں سے کیوں ٹکرانے لگی۔۔۔ ’’شکست، شکست۔۔۔ شکست۔‘‘ اور شاہ صاحب کی بےچین روح اور بھی بے چین ہو گئی۔
بھیگی بھیگی کرنیں، جو ایک عجیب قسم کا احساس اپنے ساتھ لائی تھیں وہ بادلوں تک محدود ہو گئیں کیونکہ کرنوں کو جنم دینے والے چاند نے شاہ صاحب کے چہرے کے تاثرات سے ڈر کر بادلوں کی آغوش میں منہ چھپا لیا تھا۔ جب یہ شکست کی آواز ان کے دل و دماغ پر مسلط ہو گئی تو انہیں اپنی ہی شکل کا ایک آدمی سامنے بیٹھا نظر آیا۔ اس آدمی نے بڑی عجیب سی بھاری آواز میں کہا، ’’سلیم۔۔۔، تو ہمیشہ سے تو ایسا نہ تھا۔ کیا تو نے ایسی گھٹیا حرکتیں محض انتقام کی خاطر کی تھیں؟ اور کیا تو اپنا انتقام لے چکا ہے؟ ہرگز نہیں۔ میرے خیال میں تیری اس زندگی نے تجھے اپنی نظروں سے بھی گرا دیا ہے۔ لوگوں کو دھوکا دینے کہ بہانے تو انے آپ کو دھوکا دینے لگا۔ تو نے دنیا میں فریب ہی فریب دیکھ کر اپنے اصولوں کو بےمعنی سمجھا۔ کائنات تیرے لیے سراب بن گئی۔ تو نے خود بھی اس فریب کا جواب فریب سے دے کر اپنے اخلاق کو شراب میں ڈبونا چاہا تھا۔ آج تیری معصومیت نے چھوئی موئی کی طرح تجھ سے منہ موڑ لیا ہے۔۔۔‘‘
پیارے محمد سلیم۔۔۔ کیا فریب کا جواب صرف فریب ہے؟ کیا انسان کے اندر انسانیت کی کوئی وقعت ایسی نہیں جو شر کو زمین کے ساتویں پردے میں چھپا دے؟ کیا تو نے جو کچھ بھی کیا وہ تیری سب سے بڑی شکست نہ تھی۔۔۔؟ اور ان کے ہم شکل کا چہرہ سوالیہ بن کر رہ گیا۔
تب ریتلی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔۔۔ ’’شکست، شکست۔۔۔ شکست‘‘ دور ذخیرے کے درختوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر یہی الفاظ دہرائے، بادلوں کی عجیب عجیب شکلیں بھی چیخنے لگیں۔ شاہ صاحب کو ہر طرف سے یہی آواز سنائی دینے لگی اور انہوں نے آنکھیں بند کرکے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر کہا۔
’’ہاں۔۔۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی شکست تھی۔۔۔ میں نے اپنے کو دھوکا دیا۔۔۔ اس جانور کی ہڈیوں نے مجھے الو بنایا ہے۔ میں ان ہڈیوں کا طلسم توڑ دوں گا۔۔۔ توڑ دوں گا۔۔۔‘‘
شاہ صاحب کی انگلیاں آہستہ آہستہ کانوں سے ہٹیں۔ ان کے سامنے بیٹھا ہوا شخص فتح مندانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیلاکر غائب ہو گیا اور شاہ صاحب کے ہونٹوں پر اطمینان کی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
سورج، صبح کی دلہن کی مانگ میں دھیرے دھیرے سیندور بھر رہا تھا اور شاہ صاحب اپنے کمبل کو ٹھیک سے کندھے پر جماتے ہوئے اٹھے۔ کڑے، مالا، انگوٹھیاں ایک ایک کرکے گراتے ہوئے، قدموں کے نشان ریت پر چھوڑتے ہوئے آہستہ آہستہ مزار کی طرف چلنے لگے۔
آج عرس کا دوسرا دن تھا۔۔۔ زندگی اسی طرح مجسم دعا بن کر مزار کے دروازوں سے لپٹی ہوئی تھی۔ لیکن شاہ صاحب کے حجرے میں پائل گونگی ہو چکی تھی اور شراب کی بوتلیں ٹوٹ گئی تھیں۔ چھمو، شاہ صاحب کو ڈھونڈتے تھک گئی تھی۔ جب وہ مزار کی عمارت کے ایک کونے میں پہنچی تو وہ دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھے اپنے عصا سے زمین پر عجیب و غریب قسم کے نشان بنا رہے تھے۔ چھمو کے بلانے پر وہ چونکے۔ اس نے گلے شکوے کیے کہ اسے چھوڑکر اتنی صبح کہاں چلے گئے تھے۔ شاہ صاحب نے جواب میں صرف اتنا کہا، ’’سب لوگوں کو صحن میں بلالو۔۔۔ میں ان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
چھمو نے جاکر لوگوں میں اعلان کیا۔ دعائیں رک گئیں۔ دیگوں میں چاولوں کے ساتھ الجھتے ہوئے کفگیر ٹھہر گئے۔ باہر میدان میں دیہاتی گھوڑدوڑ اور نیزہ بازی کے جوہر دکھا رہے تھے، دوڑ اور نیزے رک گئے اور سب لوگ صحن میں جمع ہو گئے۔ جو کوئی جس طرح تھا چلا آیا۔۔۔ ان کے پیر صاحب نے انہیں بلایا تھا۔
لوگ ان کا فرمان سننے کے لیے بےقرار تھے۔ اور شاہ صاحب کی آواز گونجی، ’’میرے بھائیو۔۔۔ آج تک جس قبر پر دیے جلاتے رہے ہو، جس کی پرستش کرتے رہے ہو۔ وہ پیر کاڑے شاہ کی قبر نہیں ہے۔۔۔ آج سے ایک سال پہلے ایک شخص محمد سلیم کو جنگل میں چند ہڈیاں ملی تھیں۔ اس نے۔۔۔‘‘
لوگوں کے سر جڑ گئے اور سرگوشیاں ہونے لگیں۔ فضل لوہار نے کہا، ’’آپ کو کیا ہو گیا ہے پیر جی۔۔۔؟‘‘
’’بکواس بند کرو۔۔۔! جب انسان کو سچی بات کہی جائے تو وہ اسے جھوٹ سمجھتا ہے لیکن فریب کو سینے سے چمٹالیتا ہے۔۔۔ تم سب بیوقوف جانور ہو۔۔۔ یہ قبر اس جانور کی ہے جسے۔۔۔‘‘
’’آپ دیوانے تو نہیں ہو گئے شاہ جی؟‘‘ ایک شہری گرجا۔
’’گدھیں نوچ رہیں تھی اور میں نے۔۔۔‘‘
’’پھڑوائے اینھوں۔۔۔‘‘ رحیمے ٹانڈے کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’آپ اندھے۔۔۔‘‘ شاہ صاحب چیخے۔
’’یہ اپنے پیر سے منکر ہو گیا ہے۔۔۔ کافر ہو گیا ہے۔‘‘ گاؤں کا ایک بے باک نوجوان دھاڑا۔
’’ہاں میں کافر ہو گیا ہوں۔‘‘ شاہ صاحب کی آواز بیٹھ گئی۔ اور ان کے لمبے لمبے بال چہرے پر بکھر گئے۔ ’’لیکن خدا کے لیے اس جانور کو پوجنا چھوڑدو۔۔۔ اور اگر تمہیں یقین نہیں آتا۔۔۔ تو یہ دیکھو۔۔۔ یہ دیکھو۔‘‘
شاہ صاحب نے اپنا عصا پھینک کر ایک ملنگ کا لمبا چمٹا لیا۔ قبر کی طرف بڑھے اور پاگلوں کی طرح چمٹے کے پے بہ پے چوٹوں سے سنگ مرمر کی قبر کھودنے کی کوشش کرنے لگے۔ مریدوں اور عقیدت مندوں میں ایک شور اٹھا۔ جیسے یہ ضربیں ان کے دل اور روح پر لگ رہی ہیں۔ یکایک کئی دیہاتی آگے بڑھے۔ اندھی لاٹھیاں، بیرو کی لاٹھی کی طرح ہوا میں لہرائیں اور کئی تھوکیں شاہ صاحب پر آکے جم گئیں۔
اور فضل لوہار نے پیر کاڑے شاہ کی قبر پر جمتے ہوئے شاہ صاحب کے خون کی طرف حقارت سے دیکھنے کے بعد سفید گنبد کی چوٹی کی طرف نظریں اٹھائیں جہاں سیاہ جھنڈا ایک نئی شان سے لہرا رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.