Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنومین

MORE BYنورالعین ساحرہ

    باہر برف پڑ رہی تھی اور مسلسل پڑ رہی تھی۔ ایک گھر نما چار دیواری کے اندر ضمیر نے بڑبڑاتے ہوئے کمبل گھسیٹا اور اپنا منہ دیوار کی طرف کر کے خراٹے لینے لگا۔ کچھ ہی دیر پہلے جب یہ اندھیری رات برف اوڑھ رہی تھی تو زندگی ٹھٹھرتی، سکڑتی زمین کی گود میں منہ چھپانے لگی تھی۔ ضمیر کی بیوی لمحہ لمحہ تنہائی اور اپنے شوہر کی مجرمانہ بے پروائی کے کرب میں ہمیشہ کی طرح سسک رہی تھی۔ وہ نشے میں دھت دھڑام سے آکر بستر پر گرا۔ آرزو جو ایک کونے میں لیٹی ہوئی تھی ایک دم اٹھی اور اسے سنبھالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ نخوت سے ناک سکیڑتے ہوئے بولا۔

    ‘’دفع ہو جا یہاں سے گندی مخلوق۔۔۔ کتنی بار کہا ہے سونے سے پہلے اپنے ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھویا کرو بدبودار عورت بلکہ نہایا کرو’‘وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

    ‘’ساری رات مجھے بستر میں کبھی آئیوڈین اور کبھی لہسن پیاز کی بو آتی رہتی ہے۔ ویسے تو پہلے سے تمھارے ہاتھ اتنے کھردرے اور بوڑھے سے لگتے ہیں کہ دیکھ کر دل خراب ہو جائے اس پر اتنے بدبودار بھی رکھتی ہو’‘ اس نے کروٹ بدلتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی نفرت کے تیر آرزو کی طرف اچھالے مگر وہ چپ رہی۔۔۔’’میری تو زندگی عذاب کر کے رکھ دی اس جاہل عورت نے۔ پتا نہیں کہاں سے ڈھونڈ لی گھر والوں نے، نہ شکل نہ عقلـ’‘، ‘’پہننے اوڑھنے کا کوئی سلیقہ نہ جینے کے ڈھنگ سکھائے تمھاری ماں نے’‘ وہ ہمیشہ کی طرح بولے چلا جا رہا تھا۔

    آرزو چپ۔۔۔ماں نے اسے گرین کارڈ کے ساتھ بیاہ کر جب امریکہ رخصت کیا تھا تو یہی کہا تھا کہ شریف لڑکیا ں جس گھر میں سرخ جوڑے میں داخل ہوتی ہیں وہاں سے سفید کفن میں رخصت ہوتی ہیں۔ اپنے ماں باپ کی لاج رکھنا۔ وہ ضمیر کی اس روزمرہ بک بک کے جواب میں چپ اپنی مخروطی انگلیوں کو اپنی تلیوں سے مسلتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا وہ آئندہ اپنی ساس کو آئیوڈین کی مالش کرنے سے صرف اس لئے انکار کر دے کہ یہ آئیوڈین ضمیر کی اس سے دوری کا سبب تھی یا پھر پورے سسرال کے لئے ہر وقت کھانا بنانے اور کچن میں جانے سے صاف انکار کر دے کہ لہسن اور پیاز کی بو اس کے خاوند کو شراب کی بدبو سے زیادہ بری لگتی ہے۔

    ‘‘کس منحوس گھڑی تم میرے۔۔۔ پاکستان ہوتا تو بتیس روپے ہاتھ پر رکھ کر فارغ کر دیتا، مگر اس امریکہ میں تو آدھی جائداد اور روپیہ دے کر رخصت کرو۔۔۔ لعنت ہے ایسے ہیومن رائٹس پر اور ان کے بنانے والوں پر خود تو سالے حرامی حوروں کے ساتھ عیش کرتے ہیں۔۔۔’‘ اس نے خود کلامی کرتے کرتے کروٹ بدلی ِ

    آرزو پھر چپ !!!

    ‘‘بولتی کیوں نہیں کچھ،، تو بولو، یو۔۔۔ بچ۔۔۔ سالی۔۔۔حرامزادی۔۔۔ اب کیا گونگی بہری بھی ہو گئی ہو۔۔۔؟’‘

    ‘‘دونوں بچے بہت بیمار ہیں۔۔۔’‘ وہ ڈرتے ڈرتے جیسے ہلکے سے منمنائی۔

    ‘‘شرم آنی چاہئے تمہیں، کچھ بھی تو نہیں سنبھالا جاتا تم سے، نہ گھر نہ اپنا آپ نہ بچے۔۔۔’‘، ‘’بھئی کوئی وجہ بھی ہوگی ان کی بیماری کی۔۔۔ اب کیا نوکری بھی کروں اور بچے بھی میں ہی سنبھالوں؟؟’‘ چیختے ہوئے پوچھنے لگا۔

    ‘‘آپ نے ان سے کئی بار وعدہ کیا ہے۔۔۔ ایک دن ان کے ساتھ مل کر اصلی والا بڑا سنومین بنائیں گے۔ دو مہینے ہو چکے مگر آپ کو تو شاید کبھی فرصت نہیں ملےگی۔ آج بھی وہ بہت ضد کر رہے تھے تو میں نے ان کو اکیلے خود ہی لان میں بنانے کی اجازت دے دی تھی’‘

    ‘‘مطلب۔۔۔تو کم عقل تو پہلے سے ہی ہے منحوس عورت۔۔۔ آج اندھی بھی ہو گئی تھی کیا۔۔۔روکا نہ گیا ان کو برف سے کھیلتے؟'‘

    آرزو چپ رہی۔۔۔ اسے اپنا گھر جو بچانا تھا ۔اگلی صبح ضمیر نے دروازے سے اتنے زور سے آواز دی کہ آرزو پراٹھا پلٹنا بھول گئی جو اپنی نند کے بچوں کے لئے بنا رہی تھی۔ اس کی دونوں نندیں جاب پر جانے سے پہلے اپنے بچے فری میں بےبی سٹنگ کے لئے اس کے حوالے کر جاتی تھیں اور ناشتے کے علاوہ شام کا کھانا بھی یہیں کھاتی تھیں۔ وہ تیزی سے اسی طرح بھاگ کر شوہر کی خدمت میں جا حاضر ہوئی۔

    ‘‘یہ سب کیا ہے۔۔۔؟’‘ آرزو نے چپ چاپ پہلے ضمیر کی طرف اور پھر اس طرف دیکھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ لان میں ایک سنو مین کا برفانی بت استادہ تھا جس کے اوپر ضمیر کی ٹائی، ٹوپی اور پرانے کوٹ کے بازو لٹک رہے تھے اور اس طرح نظر آ رہا تھا جیسے بچوں نے اس کا کوٹ پہنانے کی پوری کوشش کی ہو۔ ’‘یہ کیا ہے۔۔۔’‘ اس نے تقریبا چیختے ہوئے پوچھا۔ اپنی صفائی دیے بغیر وہ واپس کچن کی طرف مڑ گئی۔

    وہ اسے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کب کیسے کہاں؟ ویسے بھی وہ تو اس کو دیکھتے ہی ایک ساتھ اتنی طرف سے حملہ کرتا کہ وہ دفاع کرنے سے پہلے ہی پسپا ہو جایا کرتی کہ آخر اکیلی کس کس محاذ پر لڑتی۔ پھر بھی شکریہ کا ایک لفظ تو بہت دور کی بات الٹا ہر وقت ڈانٹ پھٹکار اور طعنے تشنوں کی سوغات جھولی میں ڈالی جاتی تھی۔ آرزو کا دل چاہتا کہ دھاڑیں مار مار کے روئے، لیکن چپ کی قسم اسے چپ ہی رکھتی۔ یہاں تک کہ اس کے دل میں ناصرف فاصلے کی خواہش جنم لینے لگی بلکہ شام کے سائے کی طرح طویل بھی ہونے لگتی۔ ہزار بار سوچا تھا کہ فلاں بات کا فلاں جواب دےگی، یہ کہے گا تو وہ کہےگی لیکن وہ رات بھر سوچتی رہتی اور صبح ہوتے ہی اس کی بے ضرر معصوم سی بغاوت کا خیال دھواں بن کر چمنی کے راستے ہوا میں تحلیل ہو جاتا اور وہ ہر روز کی طرح پھر سے نئے زخم کھانے کو تیار ملتی۔

    دوسری طرف ضمیر نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک کمرے میں سوتے بھی وہ کئی سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں بازاروں کے فاصلے پر رہتا۔ ضمیر کی جاب اچھی تھی اور خواہش اس سے برتر۔ انہیں خواہشات کی انگڑائیوں میں غلطاں وہ بھولتا جا رہا تھا کہ اس کا کوئی گھر بھی ہے جس میں بیوی بچوں کی خواہشات پہ روز غیر ذمہ داری کی برف پڑتی جا رہی ہے۔ دونوں بچے بڑے ہو رہے تھے لیکن بجائے سکول جانے کے وہ سارا دن کھیلتے رہتے یا لان میں پڑی برف سے سنو مین بناتے رہتے۔ کبھی باپ کا کوٹ کبھی اس کے جوتے اور کبھی اس کا اسکارف اسکے گلے میں لٹکا کر کلکاریاں مارنے لگتے یا کھلکھلاتے۔ جب بھی ان کے سکول کی بات چھڑی، ضمیر کا پارہ چڑھ جاتا اور سارا گھر سہم کر سکڑنے لگتا۔ بات بات پہ سیخ پا ہونا اس کا معمول تھا۔ اس لئے آرزو نے اپنی روایتی چپ سے استفادہ کرتے ہوئے اسے اس کے حال پہ چھوڑنا شروع کر دیا۔ مگر جب اسے یہ احساس ہوا کہ ضمیر کی زندگی میں اس کا کوئی مقام نہیں اور نہ کبھی بنے گا تو اس نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کے بارے میں خود سوچنا شروع کر دیا۔

    موسم کھل رہا تھا اور مقامی سکول بھی۔ ایک رات، بچوں کی خاطر، اسے بھی لہجے میں تبدیلی کرنی پڑی اور بچوں کے ایڈمشن کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ خود سکول جائےگی۔ ضمیر کو اور کیا چاہیے تھا اس نے تو شکر کا کلمہ پڑھا کہ یہ ذمہ داری بھی کم ہوئی اور خود تصور میں سوزن سے ہونے والی اگلی ملاقات کے بارے سوچنے لگا۔ سوزن اس کے آفس میں کام کرنے والی طرح دار حسینہ تھی۔ سنہری بال ،سفید رنگت اور سبز آنکھیں اور کسا ہوا بدن ، اس پر پڑنے والی ہر نظر پلٹنا بھول جاتی تھی۔ شکل کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی بہت خوبصورت تھے اور اس کی خوبصورت مومی انگلیوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ ضمیر کا دل بھی دھڑکا کرتا تھا۔ تصور میں وہ جب بھی اپنی بیوی آرزو کی کٹی پھٹی سخت انگلیوں کا موازنہ سوزن کی نرم و نازک انگلیوں سے کرتا تو اس کا دل اپنی بیوی کے خیال سے کراہیت سے بھر سا جاتا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنی بیوی سے نفرت محسوس کرنے لگتا۔

    ضمیر اپنے خواب کی تکمیل اورسوزن کے خیال میں آج کل اتنا مدہوش رہتا کہ آرزو سے لڑنا بھی بھول گیا۔ سونے سے پہلے خیالوں میں وہ سوزن کی مومی انگلیوں کو یاد کرتا رہتا جو تیزی سے کمپیوٹر پر چل رہی ہوتی تھیں اور ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیلتی جا تی تھی۔ سب کو معلوم تھا وہ اس وقت چیٹینگ میں ایک ساتھ کئی بوائے فریندز کے ساتھ مصروف گفتگو ہے۔ ان میں سے کچھ تو قصہ پارینہ بن چکے تھے مگر جب بھی ان کی جیب بھاری ہوتی تو تجدید وفا کرنے کو سوزن کے پاس آ دھمکتے، کچھ نئے عشاق حال کو بڑی خوشی سے سوزن کے ساتھ جی رہے تھے اور کچھ مستقبل میں اس کی خوبصورتی کو کیش کروانے والے تھے۔ وہ سب کو خوش رکھنے کا فن جانتی تھی۔ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے کئی ضرورت مند شادی شدہ مردوں کو ان کی بیویوں کے لئے برف کی سلیں بنا چکی تھی۔ خود سوزن کی محبت کسی انسان سے نہیں بلکہ صرف اس کے سامنے والے مرد کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چیک ہی ہوا کرتی تھی جو اس کو مہنگی سے مہنگی شاپنگ کروا سکے یا اس کے بل ادا کر دے۔ وہ خوشی خوشی کسی کے بھی ساتھ اس کے گھر رہنے چلی جاتی تھی یا کسی پیسے والے کو اپنے گھر رکھنے لے آتی تھی۔ بہت سے لوگوں کو ایک ہی وقت میں اپنی محبت کا یقین دلا کر الو بناتی اور ان لوگوں سے پیسے بٹور کر اپنی رنگ رلیوں کے ساتھ ساتھ گاڑی اور گھریلو قرضے کی قسطیں چکانے کے علاوہ خوب عیاشی کی زندگی گزار رہی تھی۔

    جیسے ہی ان عاشقوں کے پاس پیسے ختم ہو جاتے تو ان کو اپنی زندگی سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیتی۔ ضمیر یہ سب اچھی طرح جانتا تھا مگر پھر بھی اس کے پاوں تلے زمین سرکتی چلی گئی اور وہ بحربے کنار میں ہچکولے کھانے لگا تھا۔ سارا دن اس کو آفس میں دیکھ دیکھ کر اس کی نظروں کی پیاس تو کیا بجھتی اب تو وہ ہر حال میں اس سے کچھ آگے کا سفر طے کرنا چاہتا تھا۔ اسکو سوزن کی قیمت اور پسند سب معلوم ہو چکا تھا اور وہ بھی اس بہتی گنگا میں ایک بار ہی سہی مگر ہاتھ دھونا ضرور چاہتا تھا۔ بیوی بچوں کی ضرویات سے بےنیاز ضمیر سوزن کی خوشنودی کے لئے آئے روز مہنگے کپڑوں، پرفیومز اور کئی ایسے تحفے تحائف لٹانے لگا جو اس کے گھر نے خوابوں میں بھی نہ دیکھے تھے۔ اگر کبھی بھولے سے بھی آرزو کسی بہت معمولی ضرورت والی چیز کی فرمائش بھی کرتی تو وہ اس کو بری طرح ڈانٹ دیتا، اس کو ماضی کی غربت اور اوقات کے طعنے دیتا تو وہی ازلی چپ اس کا مقدر ٹھہرتی۔ سب گھر والے اس تبدیلی کو محسوس کرچکے تھے مگر سماج میں جس طرح مرد کی پاکدامنی اور اخلاقیات پہ کوئی سوال نہیں اٹھتا اسی طرح ساس سمیت سارے گھر والے چپ تھے۔ الٹا آرزو کو سمجھاتے کہ خاموشی میں ہی بھلا ہے۔ چپ ہی عورت کا زیور ہے۔ یہ ضمیر کا چند روزہ شوق ہے۔ کچھ عرصے بعد خود ہی واپس گھر آ جائےگا سو تم بھی صبر کرو جیسے عورت صدیوں سے کرتی آئی ہے۔

    موسم ایک بار پھر بگڑا، بارشیں بھی ہوئیں اور برف باری بھی۔ بچے ہر روز سنو مین تعمیر کرنے کے بارے میں سوچتے کہ یہی واحد دلچسپی ان کو میسر تھی لیکن طوفان تھمے تو باہر نکلیں۔ کبھی ماں اور کبھی باپ سے، کئی بار انہوں نے برفانی طوفان کے رکنے کا پوچھا تھا، باپ سے کئی بار وعدہ لیا وہ اس بار ان کے ساتھ مل کر بڑا سا اصلی سنو مین ضرور بنائےگا کہ وہ کھلونے والے سنومین سے کھیل کھیل کر تھک چکے تھے۔ لیکن برف پگھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہوا، پانی، سانسیں سب کچھ منجمد ہوتا جا رہا تھا۔ آرزو کا شدید دل چاہنے لگا کہ وہ کہیں اور چلی جائے، کسی ایسی جگہ جہاں پرندوں کی سیٹیاں، ہرنوں کی قلانچیں ہوں، پھولوں کی کیاریاں اور رنگ برنگی تتلیاں ہوں، وہاں شفٹ ہو جائے۔ اس جمے ہوئے ماحول سے باہر نکلے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار گھر میں بھی کر دیا تھا۔ جب ضمیر کے کانوں تک یہ خواہش پہنچی تو ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ جھٹ سے اس نے جواب دیا، ہاں باہر جاب کرلو کہیں۔۔۔ کسی نزدیکی فیکٹری میں اور جو چاہتی ہو کرو۔ یہاں ہر عورت کام کرتی ہے گھر میں ہو یا باہر۔ دو دن بعد ہی آرزو نے جاب شروع کر دی، اسی دن کا تو شاید ضمیر کو انتظار تھا۔

    کئی بنکوں سے کریڈٹ کارڈ بنوا چکا تھا جن پر سود ایسے بڑھتا جا رہا تھا جیسے گھر کی درو دیوار پر تیزی سےبرف۔ ضمیر بہت دنوں تک سوزن کو منانے کے چکروں میں جب اس پر ہزاروں ڈالر لٹا چکا تو سوزن اسے اپنے گھر لے جا کر کچھ دن رکھنے پر راضی ہو گئی اور محبت کے دعوے بھی کرنے لگی۔ اگلے دن آرزو جاب پر تھی اور ضمیر اپنا سامان اٹھا کر سوزن کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا۔ دن رات سوزن کی مومی انگلیوں کو چھو چھو کر اپنی تشنہ آرزؤں کو بہلایا کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سوزن کی انگلیوں کا ہی شیدائی تھا اور ان کو چھو کے خود کو جنت میں محسوس کرتا تھا۔ یہ نرم گرم انگلیاں جب اس کے جسم پہ اٹھکیلیاں کرتیں تو وہ فتح کے نشے میں سرشار اپنے آپ پہ رشک کرتا۔ دن کے وقت وہ سوزن کے ساتھ دفتر میں اور رات اس کے ساتھ گھر میں موجود رہتا۔ مسئلہ اس وقت ہوا جب پیسے ختم ہونے لگے اور سوزن کے بل اتنے بڑھ گئے تھے کہ گھر کے خرچے ادا کرتا تو سیدھا بلیک لسٹ ہو جاتا۔ سوزن تو پہلے سے ناراض بیٹھی تھی کہ اس نے نہ کوئی شاپنگ کروائی نہ اب کبھی کسی اچھے ہوٹل میں لے کر گیا۔ اسی لئے وہ اپنی ضرورتیں باہر سے پوری کرنے لگی تھی۔ رقابت کی آگ ضمیر کی شریانوں میں بڑھکنے لگی۔ ادھر سوزن کا دل اس اسے اچاٹ ہونے لگا اور وہ اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ راتیں باہر گزارنے لگی۔ وہ شراب پی کر وہیں اکیلا پڑا رہتا۔ منہہ میں بڑ بڑاتا گالیاں بکتا اور اس کو بد چلنی کے طعنے دینے لگا۔ جن مومی انگلیوں کو چوس چوس کر زندگی کا رس نکالتا تھا اب وہی اسے بدبودار محسوس ہوتیں۔ جب ساری جمع پونجی ختم ہو گئی اور قرض بڑھنے لگا تو سوزن کی نظریں بھی بدلنے لگی۔ اسی دوران 11/9 کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں سوزن کا بھائی مر گیا تو ایشین لوگوں کے لے اس کے دل میں نفرت بھی بہت بڑھ گی وہ بار باربہانے بنا کر اس کو ذلیل کرنے لگی۔ ضمیر کو آج اپنا گھر بہت یاد آ رہا تھا۔ اپنے گھر کے پکے پکائے کھانے، دھلے دھلائے کپڑے اور صاف ستھرے پستر کی یاد ستانے لگی۔ ہر وقت شراب اور شباب کے نشے میں دھت وہ کبھی یہ بھی اندازہ بھی نہ کر سکا تھا کہ اسے یہاں ٹھہرے کتنا عرصہ بیت چکا ہے۔

    آرزو اس دوران اپنے قدموں پر کھڑا ہونا، چلنا اور اس نئے معاشرے میں جینا سیکھ چکی تھی۔ اس نے اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کی خاطر قانونی مشاورت بھی کر لی تھی۔ جس سکول میں اس کے بچے پڑھتے تھے وہیں کچھ اور پاکستانی فیملیز کے بچے بھی موجود تھے جن کے والدین سے کچھ نہ کچھ معلومات لیتی رہتی۔ ان کی وجہ سے بچوں کے پارک، شاپنگ سنٹرز اور گروسری کے مراکز سے بھی مانوس ہو گئی تو اس میں ایک خود اعتمادی پیدا ہونے لگی جس کا اس نے صحیح استعمال کیا اور چند ہی دنوں میں وہ آسانی سے بیرونی دنیا سے رابطے میں آ گئی۔

    ایک دن تو حد ہو گئی جب شراب کے نشے میں چور ضمیر سوزن پہ ایسے گرجنے لگا جیسے وہ اس کی بیوی ہو۔ وہ آج بھی رات کو دیر سے لوٹی تھی۔ باہر اتنی تیز برفباری ہو رہی تھی کہ کوئی جانور بھی ڈھونڈے سے دیکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کا گھر شہر سے تھوڑا ہٹ کر ایک کم آباد علاقے میں تھا۔ رات کو بارش یا برف باری ہوتی تو یہاں کا سناٹا مزید بھیانک ہو جاتا۔ آج کی رات بھی کچھ ایسی ہی خوفناک تھی۔ کبھی ہلکی اور کبھی تیز برف باری، درجہ حرارت ایسا کہ حرارت نام کی شے سرے سے غائب۔ ہر طرف گھٹنوں تک برف جم چکی تھی۔ رات کے وقت اس علاقے میں ٹریفک کم ہی ہوتی اور گہری رات میں تو شاید ہی کوئی گاڑی ادھر آ پاتی۔ سڑکوں سے برف صاف کرنے والا عملہ صبح اپنی گاڑیوں پہ پہنچتا اور برف ہٹانے کا کام شروع کیا کرتا۔ سوزن کے گھر پہنچتے ہی وہ چیخنے لگا۔ اس دن تواس نے ساری پاکستانی گالیاں بھی اس کے جسم میں گولیوں کی طرح اتار دیں جنہیں سوزن سمجھ تو نہ سکی لیکن 'بچ' کا لفظ جب اس کے کانوں سے ٹکرایا تو وہ اس کے سامنے آئی، اس کا بازو پکڑا اور باہر دروازے کی طرف گھسیٹنے لگی۔ مارے غصے کے وہ چیختی جا رہی تھی۔ جب ضمیر نے باہر نکلنے سے انکار کیا تو اس نے پولیس بلانے کی دھمکی دی۔ پولیس کے نام سے وہ ایسا گھبرایا کہ نشہ کافور ہونے لگا۔ سوزن نے اسے دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔ وہ بہت رویا پیٹا۔ اس نے سوزن کی بہت منتیں کیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ’‘صبح ہوتے چلا جاؤں گا، اتنے طوفان اور اندھیری خوفناک رات میں کہاں جاؤں؟’‘ مگر سوزن نے اس کی ایک نا سنی اور 9/11 کو کال کرنے کی دھمکی دے کر اپنا دروازہ بند کر لیا۔ اسی دھکم پیل میں اسکا سیل فون بھی نیچے گر کر ٹوٹ گیا تھا۔ اس خطرناک طوفانی رات میں وہ کہاں جاتا وہ بھی نشے کی حالت میں دھت۔ سو وہیں کھڑا دروازہ پیٹنے اور کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔

    کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو لیکن اس کا سامان ،کپڑے ،ٹوپی اور اسکارف اس پر پھینک کر سوزن نے دوبارہ لاک کر لیا۔ وہیں کھڑے کھڑے اس کو اپنا گھر، اپنی بیوی، ماں اور بچے بہت یاد آنے لگے۔ اس کا دل تڑپ رہا تھا۔ اگر وہ اپنے گھر چلا جاتا تو آرزو یقیناً اس کے قدموں میں بیٹھ کر الٹا معافی مانگ لیتی۔ اپنا سامان اٹھائے وہ مین روڈ کی طرف بڑھنے لگا جہاں ذرا دور ایک بڑا شاپنگ مال تھا مگر اس وقت اندھیرے میں ڈوبا کسی بھوت بنگلے جیسا نظر آ رہا تھا، ڈر تھا کہ اس حالت میں اسے پولیس نہ دیکھ لے۔ اسکارف سے اپنے چہرے پر پڑی برف صاف کرتا تھوڑے فاصلے پر پہنچا تو اپنے قدم برف میں دھنستے ہوئے محسوس ہوئے۔ جوتے بھی ایسے نہیں تھے کہ اس کے پیروں، ٹخنوں اورٹانگوں کو محفوظ رکھتے۔ اس کے پاوں سن ہونے لگے۔ اس نے پوری قوت لگا کر ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ بار بار گرنے لگا۔ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اس نے اپنے پاوں برف سے باہر نکالے۔ ایک قدم باہر نکلتا تو دوسرا برف کے اندر دھنس جاتا۔ وہ پھر قوت صرف کرتا اور گرتے پڑتے دوسرا نکالتا۔ اسی تگ و دو میں اس کا سانس پھول گیا اور ہاتھ بھی جمنے لگے۔ با ربار ٹوٹے ہوئے فون سے 9/11 کو فون کرنے کی کوشش کرتا مگر وہ کام کرتا نظر نہ آتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس کا واسطہ اس خطرناک موسم سے یوں تنہا پڑا تھا۔ گھر کی یاد تنگ کرنے لگی تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں چلانے لگا لیکن اس کے منجمند پیر اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ گھٹنے تھے کہ جیسے جان ہی نہیں۔ ہانپ کر بری طرح گرا اور اور پیر گھسیٹنے لگا۔ بڑی مشکل سے ان کو برف سے نکالا اور کہنیوں کے بل ایک قریبی لیمپ کی طرف رینگنے لگا۔ اس طرح چند فرلانگ اس نے گھنٹوں میں طے کیے۔

    برف اس کے گرد لپٹی ایسے تکلیف دے رہی تھی جیسے برفانی بھیڑئے کسی مردہ جانور کو نوچ رہے ہوں۔ ہر سانس کے ساتھ پچھتاوا بھی بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ برف پر گھسیٹتے ہوئے اس نے قریبی پول کی طرف بڑھنا چاہا تاکہ سہارا لے کر کھڑا ہو سکے۔ اس کا یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا۔ سڑک کےکنارے نظر نہ آنے والی ایک ڈھلوان میں جا گرا۔ دیار غیر کی سفید برف اس کے اندازے سے کہیں زیادہ سرد نکلی۔ وہ اپنے ہاتھ اس برف سے بچانے کی کوشش کرنے لگا اور غور سے اندھیرے میں سن انگلیوں کو دیکھا۔ وہ بےجان ہو رہی تھیں اور ان سے ٹیسیں نکل کر اس کے دماغ کی شریانوں تک پہنچنے لگی تھیں۔ اسے اپنے آپ پر بہت رونا آیا۔ سوزن کی مومی انگلیاں بھی یاد آئیں اور آرزو کی کھردری انگلیاں بھی۔ اس کا جی چاہا کہ زور زور سے آرزو کو آوازیں دے، چیخے چلائے۔ گھر کا گرم نرم بستر، بچوں کی کلکاریاں اور آرزو کے پراٹھے بناتے ہاتھ اسے تڑپانے لگے۔ کچھ بولنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ اس کی آواز بھی جم رہی تھی۔ ہر شے جم رہی تھی، نچلا دھڑ،سن ہو چکا تو اس نے اپنا اسکارف نکالا اور گرم سانس سے انگلیوں کو ٹکور کرنا چاہی، اب تو کہنیاں بھی جواب دینے لگیں۔ پھر بازو اور پھر سارا جسم۔ اوپر سے پڑنے والی برف بھی زوروں پر تھی۔ اب تو کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہ رہا۔ کچھ ٹوٹے ٹوٹے منظر خیال میں ابھرتے اور پھر برف کی سفیدی میں ڈوب جاتے۔ شریانوں سے ہوتی برف اس کے دل تک پہنچی تو اس نے ہمت ہار دی۔ سردی کے مارے اس کی ہڈیاں چٹختی رہیں اور وہ آخرکار ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا حتی کہ آہستہ آہستہ برف نے اس کو پوری طرح اپنے اندر چھپا لیا۔

    تین دن تک شہر میں ہر چیز بند رہی اور کاروبار حیات معطل رہا۔ اگلا دن اتوار کا تھا، ہر چھٹی کے دن بچے ماں سے ضد کرتے کہ گروسری شاپنگ کے لئے انہیں بھی ساتھ لے جائے۔ ’‘اچھا بابا ٹھیک ہے۔ چلو میرے ساتھ’‘۔ آرزو نے صاف ہوتے موسم میں بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک بس میں سوار ہوچکے تھے جومغربی علاقے سے ہوتی ایک شاپنگ سنٹر کی طرف جاتی تھی۔ آزرو کو کسی نے بتایا تھا کہ وہاں سے بچوں کے کپڑے اور دوسری ضرورت کی اشیاء ایک نئے سٹور سے نسبتا سستے داموں مل جاتی ہیں۔ آج اس نے سرخ رنگ کا لانگ کوٹ پہنا۔ اس کے سلم سمارٹ جسم پہ وہ خوب جچا تھا۔ وہ ایک پراعتماد عورت کی طرح زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چل رہی تھی۔ سفید برف سے پھسلتی روپہلی سورج کی کرنیں اس کے خوبصورت چہرے کو عجیب سی چمک دے رہی تھیں۔ بچے بھی خوش تھے کہ نئی جگہ دیکھنے کو ملےگی۔ کبھی سورج نکل آتا اور کبھی بادلوں کی اوٹ میں چلا جاتا۔ بس رواں دواں تھی کہ اچانک راستے میں ایک پول کے پاس کچھ لوگ دکھائی دینے لگے۔ وہ ایک جگہ کھڑے ہو کر کچھ دیکھ رہے تھے۔ آرزو اپنے خیالوں میں گم اپنے ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کو دیکھ رہی تھی جن پہ مختلف انگوٹھیاں اس کی گندمی جلد کوحرارت دے رہیں تھیں۔ ایک گہری خاموشی سے اس نے اپنے ہا تھوں کو سونگھا۔ لہسن پیاز کی بو کا نام و نشان تک باقی نہیں تھا اور اس کو یہ احساس دلانے والا بھی تو کہیں نہیں تھا۔ بس مال کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اس میں بیٹھے کچھ افراد نے اچانک چیخنا شروع کر دیا۔ وہ سب گھبرائے ہوئے باہر کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس نے باہر ایک پول کے پاس کچھ پولیس والوں کو دیکھا جو برف میں دبی اکڑی ہوئی ایک لاش نکال رہے تھے۔ شیشوں کی طرف بچے بیٹھے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ دونوں خوشی سے چلائے۔ ’‘ماما دیکھیں اصلی والا۔۔۔بڑا سنومین۔۔۔جیسا پاپا نے بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔’‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے