Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوگ میں جشن

ریحان علوی

سوگ میں جشن

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    ’’ارے بھئی! اپنے کتے کو سنبھال کر رکھو، ورنہ کسی دن زہر ہی دے ڈالو ں گا کم بخت کو۔‘‘ ’’بھئی زہر کی کیا ضرورت ہے۔ بس اپنی ایک کِلو کی بوٹی دے دینا۔ اگر چودہ انجکشنوں سے بچ بھی گیا تو بیچارہ صحیح العقل کہاں رہے گا؟‘‘

    ’’اوہو! آپ اپنے چہیتے کتے کی محبت کے ایسے اسیر ہو چکے ہیں کہ مجھ پہ ڈائریکٹ حملے کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’ارے جب آپ سے محبت کر سکتے ہیں تو ہمارا پیارا موتی تو خیر سے وفادار بھی ہے۔ شکل و صورت دیکھ کر ہی بھونکتا ہے۔ قسم ہے آپ کے خالی سر کی، آج تک کبھی کسی غلط آدمی کی ٹانگ نہیں لی اس جانباز نے۔‘‘

    ’’ظاہر ہے، ظاہر ہے، تمھاری ساری چالاکیوں اور عیاریوں کا پَر تو ہے۔ تمھارا سویٹ سا موتی، نجانے اس موتی کی آنکھ میں موتیا کیوں نہیں اُتر آتا۔ اس طرح غلط فہمی ہی میں سہی، اپنے مالک کو کاٹ کھانے کا تھوڑا بہت چانس تو بن ہی جائے گا۔‘‘

    ’’ہاں اور یہ موتی تم نے صرف اس لیے پال رکھا ہے تاکہ تمھارے قرض خواہ تمھارے گھر کا کبھی رخ ہی نہ کریں۔ مالک مکان ہمیشہ منی آرڈر کے ذریعے ملنے والے تھوڑے کرائے کو بہت جان کر وصول کرتا رہے۔ فقیرا ور بھکاری تمھاری گھنٹی کی طرف ہاتھ توکیا آنکھ بھی اٹھا کر نہ دیکھیں اور ہم جیسا کوئی بلند ہمت شیر دل ادھر کا رخ کر بھی لے تو تمھارے منہ سے اس شیر دل کی شان میں کچھ ایسے قصیدے سن کر لوٹے جیسے اس ناہنجار و ناخلف سے تمھارا قریبی یا خونی رشتہ ہو۔ واقعی اللّٰہ آدمی کو جانور بنا دے، جانور کا مالک نہ بنائے۔‘‘

    میں نے جب کریم صاحب کے گھر میں قدم رکھا تو یہ شور وغل کا طوفان بپا تھا۔ کریم صاحب کا کتا ابھی ٹھیک سے سو کر اٹھا بھی نہیں تھا یا یوں کہیے کہ انگڑائیاں اور جمائیاں لے کر وارم اپ ہو رہاتھا۔ رضی صاحب کی طویل تقریر اور اس دوران میں کریم صاحب کی ہوٹنگ جاری تھی۔ میں بارھویں کھلاڑی کی طرح کونے میں کھڑا اپنے بولنے کی باری کا انتظار کر رہا تھا، مگر اپنی باری کی پروا کیے بغیر مجھے میدان میں کود کر رضی صاحب، کریم صاحب اور کتے کو ٹھنڈا کرنا پڑا۔ کافی دیر بعد حالات اس حد تک خوشگوار ہوئے کہ رضی صاحب اور کریم صاحب بارہ فٹ لمبے برآمدے میں گیارہ فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر گفتگو کرنے پر راضی ہوئے اور مجھے ریسلنگ کے ریفری کی طرح بیچ میں بیٹھنا پڑا۔

    ویسے تو رضی صاحب اور کریم صاحب کبھی نہ کبھی اچھے دوست ضروررہے ہوں گے، اسی لیے کریم صاحب نے اپنے بیٹے محمود کی شادی رضی صاحب کی بیٹی روبی سے کر دی تھی، مگر اب دونوں بزرگوں کی عمر اور نا اتفاقیاں بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ کریم صاحب کو کتوں سے شفقت اور رضی صاحب کو کتوں سے اللّٰہ واسطے کا بیر، کریم صاحب کو سیاست سے الرجی اور رضی صاحب کی ہر ہر ادا میں سیاست، کریم صاحب کو ورزش اور کھانے سے رغبت، مگر رضی صاحب کا کہنا تو یہ تھا کہ اس شہر کراچی میں رہ کر ورزش کرنا سخت مُضر ہے کیونکہ اس طرح آدمی دھوئیں اور مٹی سے آلودہ ہوا کی بہت زیادہ مقدار بہت کم وقت میں پھیپھڑوں میں ٹھونس لیتا ہے اور پھر صبح شام بسوں اور منی بسوں میں سفر کے بعد اتنی ورزش ہوجاتی ہے کہ اس شوق کو علیحدہ سے پورا کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ ان تمام اختلافات کے باوجود مجھے یقین تھا کہ دونوں میں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی قدر ِ مشترک ضروررہی ہوگی جوافتادِ زمانہ کے ہاتھوں ملیا میٹ ہو گئی۔

    میں جو کسی خاموش ریفری کی طرح دونوں حضرات کے درمیان بیٹھا کب سے حالات و واقعات کا تجزیہ کر رہا تھا، اچانک چونک پڑا کیونکہ اب دونوں حضرات کاروئے سخن خواتین کی طرف تھا۔ محلے کی کسی نئی خاتون کا تذکرہ ہو رہا تھا اور یہ موضوع اُن چند موضوعات میں سے تھا کہ جن پر کہیں بھی دونوں میں اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ دونوں کی تمام نااتفاقیاں دیکھتے ہوئے اسے دونوں کا متفق علیہ موضوع بھی کہا جا سکتا تھا۔

    ’’ہا ہا ہا! صاحب وہ جوکسی شاعر نے برقعہ پوش حسینہ کے لیے کہا ہے کہ :

    پردہ ہو تو پردہ ہو، جلوہ ہو تو جلوہ ہو

    توہینِ تجلی ہے چلمن سے نہ جھانکا کر

    تو بس کچھ ایسی ہی بات آپ کی بھابی مرحومہ پر بھی صادق آتی تھی۔ پردے کی تو اتنی پابند تھیں کہ اپنے میکے کی ہر بات پر پردہ ہی ڈالے رکھا عمر بھر۔‘‘

    کریم صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے! یہ درمیان میں تمھاری بیگم کہاں سے آ گئیں، ابھی تو سامنے والی خاتون کا ذکر ہو رہا تھا۔‘‘ رضی صاحب نے زچ ہو کر کہا۔

    ’’ہاں صاحب مرحومہ کی یہ خاص ادا تھی کہ جہاں کسی پرُکشش خاتون کا ذکر سنا فوراً درمیان میں آ جاتی تھیں۔ سو مرنے کے بعد بھی اپنی یہ سنت قائم رکھی موصوفہ نے، مگر یہ سامنے والی خاتون کو دیکھ کر تو واقعی ایسا لگتا ہے کہ: کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی، کیوں کمال میاں! تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘

    کریم صاحب کے اچانک سوال پر میں بوکھلا گیا۔

    ’’جی میں سمجھا نہیں، آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’لیجیے صاحب، اب آپ ہی بتائیے کہ زلیخا مرد تھی یا عورت؟ ارے میاں!اس عمر میں یہ فلسفیانہ اور صوفیانہ ادائیں، معاف کرنا یار، کچھ ڈھونگ سا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ رضی صاحب نے گول مول انداز میں مجھے فراڈیے کے خطاب سے نوازا تو نجانے کیوں میں اس اعزازپر کسرِ نفسی کے سے انداز میں جھینپ گیا۔

    ’’اوہو! تو یوں کہو، ابھی بیگم کی رکابیوں اور بیلن سے بچے ہوئے ہو، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، کل کلاں کو تم بھی سہرا باندھو گے پھر پوچھیں گے تم سے آٹے دال کا بھاؤ؟ کیا منگنی وغیرہ ہو گئی ہے؟‘‘

    کریم صاحب نے خالص راز دارانہ انداز میں سوال کیا۔۔۔

    ’’چلو خیریہ تمھارا ذاتی معاملہ ہے مگر ہمارا سوال پھر بھی برقرار ہے۔‘‘

    اب کی رضی صاحب نے آنکھیں گھماتے ہوئے پوچھا، ’’یعنی ان سامنے والی خاتون کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘

    ’’جی میں تو دیکھتا ہی نہیں ہوں۔‘‘

    ’’جی ہاں آپ ادھیڑ عمر خواتین کو کیوں دیکھیں گے؟ گناہ بے لذت ہی تو ہے۔‘‘ کریم صاحب نے افسوس بھرے لہجے میں طنز کیا۔

    ’’خیر پھر بھی میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ سامنے والی معزز خاتون بیوہ ہیں۔‘‘ کریم صاحب نے اب کی فلمی ولنوں کے انداز میں پائپ سُلگاتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے آپ خاموش رہیے، جہاں کوئی قبول صورت ادھیڑ عمر خاتون نظر آئیں، آپ نے انھیں جھٹ سے فوراً بیوہ کر ڈالا۔ یہ آپ کی خوب ادائے کافرانہ ہے تاکہ آپ کا چانس بنا رہے۔ ارے! اگر وہ آپ کے عقد میں آ گئیں تو جیتے جی بیوہ ہو جائیں گی۔‘‘ رضی صاحب نے باقاعدہ محاذ کھولتے ہوئے کہا۔

    ’’اجی! آپ خود تو اپنی بیگم کے آ گے نظر اٹھا نہیں پاتے۔ چلیے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ذرا ٹھگنی ہیں، اس لیے انھیں دیکھنے کے لیے نظر نیچی کرنا ہی پڑتی ہے، مگر اس کا انتقام آپ ہم خوش مزاج اور ہنس مکھ لوگوں سے کیوں لیتے ہیں؟ خیر اللّٰہ آپ کے دن بھی پھیرے گا۔ آپ کی بیگم بھی دل کی مریضہ ہیں ناں؟ ہاں خیر سے ہماری مرحومہ کو بھی یہی عارضہ تھا۔ فی الحال اللّٰہ آپ کو صبر ہی دے۔‘‘

    کریم صاحب نے بیگم رضی کے زندہ رہنے پر باقاعدہ تعزیت کرتے ہوئے کہا تو رضی صاحب گیٹ پر بیٹھے پانچ فٹ اونچے شیر نما موتی کا خیال کیے بغیر گرجنا برسنا شروع ہو گئے۔ کتے کی پہلی بھونک پر ان کی آواز اپنی بخیر و عافیت واپسی کے خیال سے کچھ نیچی ہو گئی، مگر پھر بھی کریم صاحب کے سامنے اپنی ناک نیچی نہیں ہونے دی اور آہستہ آہستہ ہی سہی مگر کھری کھری اور بے بھاؤ کی سناتے رہے۔

    ’’کریم صاحب! جامی کہاں ہے؟‘‘ آخر میں نے میدان کارزار میں کچھ نرمی آتے دیکھ کر پوچھا۔

    ’’ہاں ہاں! کمال میاں، جاؤ تم اسے پڑھا ہی دو، اور ہاں پڑھائی کے بعد تم دونوں ذرا ادھر ہی آ جانا، چائے ساتھ ہی پئیں گے۔‘‘

    جامی کریم صاحب کا پوتا، جو کریم صاحب اور رضی صاحب میں بنیادی قدرِ مشترک تھا، حقیقت میں تو رضی صاحب کا روز روز یہاں آنا ہی صرف جامی کی وجہ سے ہوتا تھا، وہ ان کا نواسہ جو تھا، دونوں ہی اس پر جان چھڑکتے تھے۔ جب سے جامی کینیڈا سے چھٹیاں گزارنے یہاں آیا تھا، مجھے اس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ طورپر تربیت کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی تھی۔ اس کے والدین پچھلے دس سال سے کینیڈا ہی میں تھے مگر میں، میں تو کریم صاحب اور رضی صاحب کی نوک جھونک سے سخت عاجز تھا کیونکہ اس طرح جامی پر بہت ہی برے اثرات مرتب ہونے کا خطرہ تھا۔ اکثر تمام بحث و تکرار میری اور جامی کی خصوصی موجودگی میں ہوتی۔ مجھے دل ہی دل میں سخت کوفت ہوتی، ہر بار دونوں حضرات کے درمیان گفتگو کا خاتمہ’’تو تو میں میں’’پر ہوتا، مگر رضی صاحب اپنے نواسے کے عشق میں دو تین دن بعد پھرآ دھمکتے۔ میں نے اکثر اشاروں کنایوں میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ کم از کم جامی کے سامنے بحث و تکرار سے پرہیز کیا جائے۔ مگر نہ جانے کیوں جامی کی موجودگی میں یہ ہنگامہ آرائی اکثر اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی اور جامی اس سنجیدہ صورتِ حال کے باوجود اس نوک جھونک سے خوب لطف اندوز ہوتا۔ قہقہے لگاتا اور اکثر ڈانٹ پھٹکار بھی کھاتا، مگر یہ پیار بھری وانٹ پھٹکار روز ہی کا معمول تھی۔ میرے لیے یہ حالات کچھ اس قدر قابل قبول بھی نہیں تھے اور اگر مجھے اپنی تنخواہ کٹ جانے کا خطرہ نہ ہوتا تو شاید میں ان دونوں حضرات کے اصرار کے باوجود ان کی محفل میں ریفری کے فرائض ہر گز انجام نہ دیتا۔ اس دوران میں جامی کی موجودگی مجھے سب سے زیادہ کھٹکتی، مگر کریم صاحب اور رضی صاحب کا اصرار ہوتا کہ یہ مناظرہ آخری اور فیصلہ کن مرحلے تک سب بطور گواہ ضرور دیکھیں تا کہ سند رہے اور وقتِ ضرورت کام آئے، اور جامی اس صورتِ حال سے خوب خوب محظوظ ہوتا، مگر میں ان دونوں بزرگ حضرات کو کہاں تک سمجھاتا؟ سو اب میں نے ان محفلوں میں بیٹھ کر جلنا کڑھنا چھوڑ دیا تھا۔

    روزانہ کی طرح اُس دن بھی میں نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی مناظرے کی آواز سن لی، اندر پہنچا تو عدالت میں ملازمین کی فوج ِ ظفر موج بھی لائن حاضر تھی اور یہ صورتِ حال کوئی ایسی نئی بھی نہیں تھی۔ اکثر اس بزم میں گھر کے ملازمین کو پچھلی کار گزاری یا کسی پچھلے واقعے کے وعدہ معاف گواہ کے طور پر طلب کیا جاتا تھا۔

    روزانہ کی طرح آج بھی یہی سب ہو رہا تھا، کریم صاحب غصے میں اپنی جناح کیپ میز پر مارے دے رہے تھے۔

    ’’ارے ارے کریم صاحب! غصہ اپنی جگہ مگر کم از کم جناح کیپ کی تو کچھ عزت کیجیے۔‘‘ میں نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے میاں انھو ں نے کبھی جناح کی عزت نہیں کی تو جناح کیپ کی کیا کریں گے؟‘‘ رضی صاحب کی بات پر کریم صاحب اور برانگیختہ لہجے میں چٹخ کر بولے، ’’مجھے سیاست سے چڑ ہے۔‘‘

    ’’اور مجھے تمھاری صورت سے۔‘‘

    ’’ہاں تم تو ہماری سرخ و سفید شہابی رنگت سے جلتے ہو۔‘‘ کریم صاحب نے پینترا بدلتے ہوئے کہا۔

    ’’خود تو ہر وقت چھتیس کونوں کا منہ بنائے رہتے ہو۔‘‘

    کریم صاحب جل کر بولے،

    ’’لا حول ولا قوۃ جناب۔۔۔ بقولِ شاعر

    جب کسی پر کوئی تبصرہ کیجیے

    سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے‘‘

    رضی صاحب نے بحث و تکرار کا یہ طوفان یوں ختم کرنا چاہا، مگر جامی کے کمرے میں داخل ہوتے وقت مناظرہ دوبارہ زور شور سے شروع ہو چکا تھا، جامی قہقہے لگا رہا تھے، ملازمین دانت نکالے اور میں سر پکڑے بیٹھا تھا۔

    میں نے سر اٹھایا تو طوفان کسی حد تک تھم چکا تھا۔ جامی اور ملازمین شاید کہیں چھپ چھپ کے ہنس رہے تھے اور ماحول کسی حد تک خوشگوار ہو چکا تھا، کیونکہ خواتین گفتگو کا محور تھیں۔ کریم صاحب سے رضی صاحب کے مکالمے ہو رہے تھے:

    ’’ہاں تو خیر میں کہہ رہا تھا کہ وہ سامنے والی خاتون کے متعلق میں نے ملازم سے معلومات کروائی تھیں۔ دو دن سے وہ ان کا بھی سودا لا رہا ہے۔ بتا رہا تھا، دونوں ماں بیٹی تنہا ہیں۔ دونوں اُداس اُداس، کھوئی کھوئی سی رہتی ہیں۔ واقعی اس سنہرے بالوں والی لڑکی کو دیکھ کر تو مجھے اپنی روبی یاد آ جاتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا اچھا بھئی! چھوڑو بھی اس قصے کو، کوئی اور بات کرو۔‘‘ کریم صاحب نے بات بدلتے ہوئے کہا۔

    پھر دو دن میرا جمی کے یہاں جانا ہی نہیں ہو سکا۔ گھر کا کام بہت جمع تھا۔ دو دن بعد میں پہنچا تو باہر ہی سے میں نے رضی صاحب اور کریم صاحب کو برآمدے میں بیٹھے دیکھ لیا۔ اسی لیے میں چپکے سے گلی سے ہوتا ہوا سیدھا جمی کو پڑھانے چلا گیا۔ پڑھائی کے دوران میں بھی میں نے کئی بار جمی سے کہا کہ وہ پڑھائی لکھائی میں زیادہ دل لگائے، بڑوں کی باتوں کے درمیان بیٹھ کر فضول وقت ضائع نہ کیا کرے۔ وہ فوراً میری بات کا مطلب سمجھ گیا۔

    ’’میں خود تھوڑی جاتا ہوں۔ نانا، دادا خود مجھے بلاتے ہیں۔ پھر۔۔۔ مجھے ہنسی آتی ہے تو میں کیا کروں؟‘‘

    ’’مجھے ان کی باتیں اچھی جو لگتی ہیں، بڑی مزیدار ہوتی ہیں۔‘‘

    جمی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا،

    ’’ہاں! مگر خوامخواہ وقت ضائع ہوتا ہے ناں۔ چلو خیر، تم کام کرو۔‘‘

    میں نے محسوس کیا کہ جمی پڑھائی میں دل نہیں لگا رہا ہے۔ میں نے دبے الفاظ میں کریم صاحب سے بھی یہ بات کہی۔

    ’’ہاں میں بھی دیکھ رہا ہوں، شاید اسے اپنے ماں باپ یاد آ رہے ہوں گے۔نجانے اس کے ماں باپ کو بھی اپنے بڑے یاد آتے ہیں یا نہیں؟ مگر، اب صرف ایک مہینے کی بات اور ہے پھر تو جمی واپس کینیڈا چلا ہی جائے گا۔ ہم نے تو صرف اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے جمی کو بلایا تھا۔ اسے اپنی باقی تعلیم تو وہیں پوری کرنا ہے۔‘‘

    ’’کیا بات ہے آج رضی صاحب نظر نہیں آئے؟‘‘ میں نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔ ’’ارے میاں بچ کر جائیں گے کہاں، لوٹ پھِر کے ہمارے ہی پاس آئیں گے۔ آخر جمی تو ہمارے پاس ہی ہے ناں۔‘‘

    اور واقعی جب دوسرے دن میں پہنچا تو رضی صاحب موجود تھے، مگر خلافِ معمول کافی سناٹا تھا۔ کریم صاحب اور رضی صاحب ساتھ ساتھ تھے۔ مگر خاموشی؟ بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔

    ’’کیا بات ہے خیریت تو ہے؟ کیا آج خاموشی کا مقابلہ ہو رہا ہے؟‘‘

    میں نے ماحول کو خوشگوار بنانے کی نا کام کوشش کرتے ہوئے کہا،

    ’’ہاں! کمال میاں، آؤ بیٹھو۔‘‘

    میں خاموشی سے ریفری والی کرسی پر بیٹھ گیا، مگر آج مجھے اس کرسی پر بیٹھتے ہوئے بھی کچھ عجیب سا لگا، کچھ خاموش، ویران اور سوگوار سا ماحول تھا۔

    ’’کیا ہوا بھئی! آج سب خیریت تو ہے؟‘‘

    میرے سوال کے جواب میں کریم صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں میاں، دنیا میں دکھ سکھ تو لگے ہی رہتے ہیں۔ اب دیکھو ناں آج ہی پتہ چلا کہ وہ سامنے والی خاتون کی سنہرے بالوں والی بیٹی کی شوہر سے اَن بن یا شاید علیحدگی ہو گئی ہے، ایک گھر اور ویران ہونے کو ہے۔کیا معلوم غلطی کس کی تھی، بھول کس سے ہوئی؟ مگر اولاد کا غم تو ماں باپ ہی جانتے ہیں ناں؟ اس ماں کے دل سے پوچھو، جس کی بیٹی گھر ہوتے ہوئے بے گھر ہو گئی، اس باپ کی آنکھ سے پوچھو جس کے بیٹے نے جان بوجھ کر اپنا گھر اجاڑ لیا ہو، جرم کوئی کرے سزا کوئی پائے، کسی کی ایک چھوٹی سی بھول کتنی آنکھوں کے گوشے نم کر جاتی ہے، یہ دوسرے کہاں جانتے ہیں۔‘‘

    ’’ارے کریم صاحب! یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے، اتنے جذباتی تو آپ کبھی نہیں تھے اور رضی صاحب آپ بھی انھیں نہیں سمجھا رہے ہیں؟‘‘

    میں نے رضی صاحب کی طر ف امداد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، مگر وہ تو رومال سے اپنی آنکھوں کے نم گوشے صاف کر رہے تھے۔ روتے ہوئے لوگوں کو چپ کرانے کے معاملے میں میں خود بھی بالکل اناڑی ہوں، اس لیے میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔

    ’’ہاں میاں کمال تم ہم لوگوں کو صرف لڑنے جھگڑنے والے دوست ہی کی حیثیت سے جانتے ہو، مگر ہماری دوستی، ہماری رفاقت بہت پرانی ہے، اسے تو کوئی بھی ختم نہیں کر سکتا۔ ہماری اولادیں بھی نہیں۔ تمھیں معلوم ہے میری بیٹی روبی کریم صاحب کے بیٹے محمود سے کینیڈا میں ملی تھی، جہاں دونوں پڑھنے گئے ہوئے تھے۔ اُن دونوں نے یہاں خطوط لکھ کر، فون کر کر کے ہم دونوں کو ملوایا اور پھر ہم دونوں کو نہ صرف اچھا دوست بلکہ رشتہ دار بھی بنا دیا۔ رضی صاحب نے یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ کینیڈا چھوڑ کر کون یہاں پڑھنے آتا ہے؟ مگر جمی کا ذہن ابھی کچا ہے، وہ ابھی چھوٹا ہے، اسے کچھ معلوم نہیں، مگر اب، اب تم سے کیا چھپانا؟ دراصل روبی اور محمود میں علیحدگی ہو گئی ہے۔‘‘

    رضی صاحب نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

    ’’ان دونوں نے دور سے بیٹھے بیٹھے ہم دونوں کو تو ملا دیا مگر خود الگ ہو گئے۔ محمود نے اسی وجہ سے جمی کو یہاں بھیج دیا، مگر جمی کو ابھی کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں اور کریم صاحب ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے، ہماری اولادیں ہمیں ملا تو سکتی ہیں، اب جدا نہیں کر سکتیں۔ مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ محمود، جمی کے پاس میرا آنا جانا پسند نہیں کرتا، شاید وہ بے وقوف یہ سمجھ رہا ہے کہ میں جمی کو برین واش کر دوں گا یا مجھ میں اور کریم صاحب میں بھی سرد جنگ چل رہی ہے مگر نادان اتنا نہیں جانتا کہ جو اپنی جنگ ہار کر اپنی اولاد کو برین واش نہ کر سکا ہو، وہ دوسرے کی اولاد کو کیا برین واش کرے گا؟ مگر اب وہ جمی کو اپنے پاس بلانے پرمصر ہے۔‘‘

    میرے جسم میں کپکپی سی دوڑنے لگی۔ کیا واقعی ان دونوں کی زندگی سے بھرپور قہقہوں کے پیچھے اتنے دُکھے ہوئے دل موجود ہیں؟ جیسے کسی امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے نیچے موہنجو ڈارو یا پُر سکون سمندر کی تہہ میں نوکیلی چٹانیں۔ یہ زندگی کا کیسا رخ ہے جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔

    ’’اور یہ تمام قہقہے، یہ مسکراتے گُدگداتے جھگڑے! آخر یہ سب؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا؟ بس یہ سب کچھ خود کو فریب دینے اور جمی کو بہلانے، اسے خوشیاں دینے کے لیے ہے، اسے کچھ معلوم جو نہیں ہے۔ تم بھی اُسے کچھ مت بتانا۔ کچا ذہن نجانے کیا اثر قبول کرے؟ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ اولادوں کے گھر اجڑتے دیکھ کر ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ ایک گھر اجڑنے سے صرف ایک گھر نہیں اجڑتا۔ وہ سنہرے بالوں والی لڑکی جو اپنے شوہر سے لڑ کر ماں کے پاس آ گئی، ذرا ماں کے دل سے پوچھو، گھر بنانا مشکل ہے مگر اجاڑنا بہت آسان ہے؟ صرف ایک گھر سے پیار کرنے والے تو بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، اسی لیے تو ایک گھر کا اجڑنا کتنے دلوں کو سُونا کر جاتا ہے۔‘‘

    میرے دل کے نہاں خانے میں بگولے سے اٹھنے لگے۔ ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دونوں ’’سوگ میں جشن۔‘‘ منارہے تھے، دل میں طوفان اور لبوں پر ہنسی۔۔۔ یہ کیسے لوگ ہیں؟ بڑے لوگ واقعی بڑے ہوتے ہیں، ہم چھوٹوں میں تو صبر و ضبط نام کو نہیں ہوتا۔ ’’پتہ نہیں تم لوگوں میں یہ لڑنے جھگڑنے کا شوق کہاں سے آ گیا، یہ تو بچپن یا بڑھاپے کے شوق ہیں۔‘‘

    کریم صاحب نے اپنی نم پلکوں کو پونچھتے ہوئے کہا۔

    میرے اگلے دو چار دن عجب بے کلی میں گزرے۔ کریم صاحب اور رضی صاحب کی حسرت بھری نگاہیں میری آنکھوں میں گھومتی رہیں اور پھر جمی! اس کا کیا بنے گا؟ کریم صاحب اور رضی صاحب دونوں اپنی اولادوں کو کھو کر کتنے بے گھر سے ہو جائیں گے، کتنے تنہا تنہا سے لگیں گے دونوں، جب جمی بھی چلا جائے گا، میں سوچ سوچ کر پریشان ہوگیا۔ دو دن بعد میں پہنچا تو بحث و تکرار پھر جاری تھی، دونوں حضرات آپس میں الجھے ہوئے تھے جیسے کبھی کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔

    ’’ارے صاحب دیکھ لیجیے گا، یہ کفار روزِ قیامت بھی آگ میں جلیں گے اور یہاں بھی۔ ارے ہم مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔‘‘ کریم صاحب نے تقریباً چیخ کر تمام کفار کو جہنم رسید کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’مگر جناب ہم مسلمانوں کے کرتوت بھی تو کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اس بارے میں کیا کہتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے؟‘‘ رضی صاحب نے عینک اتارتے ہوئے کہا۔

    ’’جی کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ کریم صاحب ایک دم ہوشیار ہو گئے۔

    ’’اجی ہاں دیکھیے، لوگوں کی غیبتیں کرنا، آپس میں بے جا بحث و تکرار کرنا، دست وگریبان رہنا، شرفا کی ٹوپیاں اور پگڑیاں اچھالنا، دوسروں کو لعن طعن کرنا اور سب سے بڑھ کر دوسروں کی بہو بیٹیوں کو تاکنا جھانکنا، ان پر بری نظر رکھنا وغیرہ وغیرہ۔‘‘ رضی صاحب نے کاری ضرب لگاتے ہوئے کہا۔

    کریم صاحب تلملاتے ہوئے پینترا بدل کر بولے،

    ’’ارے اگر تمھیں کوئی ساٹھ سالہ خاتون بھی لفٹ نہیں کراتی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم فوراً متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔ صرف اس چکر میں کہ لوگ یہی سمجھیں کہ زہد و تقویٰ کے باعث تم خود ہی خواتین سے بات نہیں کرتے، مگر انھیں کیا معلوم کہ خدا کے خوف سے زیادہ تو تمھیں اپنی دو سو پونڈ کی بیگم کا خوف ہے۔ تمھیں تو روزگارکا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، سرکس میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاؤ گے۔ بیگم تمھیں انگلیوں پر نچائیں گی اور تماشائی داد دیں گے۔ ایک ہم ہیں کہ اپنا پیٹ خود ہی پالنا پڑتا ہے۔‘‘ کریم صاحب نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے تم سے ایک کتا تو ٹھیک سے پالا نہیں جاتا، پیٹ کیا پالو گے؟ ہمیشہ ہم جیسے شرفا پر بھونکتا ہے۔‘‘ رضی صاحب نے کاؤنٹر اٹیک کرتے ہوئے کہا۔

    ’’جی ہاں! بڑا ہی نمک حلال ہے میرا کتا، جس کام کے لیے رکھا ہے وہی کرتا ہے، ورنہ حقیقی شرفا کے سامنے بڑا سلیم الطبع کم گو، کم سخن اور خاموش طبع واقع ہوا ہے۔‘‘

    نجانے یہ ملا کھڑا ابھی اورکتنی دیر جاری رہے گا، یہی سوچ کر میں وہا ں سے سٹک لیا۔ جمی کتابیں لیے بیٹھا تھا، مگر جیسے کہیں اور تھا، کھویا کھویا سا، عجیب سا لگ رہا تھا۔

    ’’کیوں بھئی جمی آج پڑھنے کا پروگرام نہیں ہے کیا؟‘‘

    جواب کے بجائے دو ننھے منے آنسو اس کی کتابوں پر آ گرے۔

    ’’جمی! ارے تمھیں کیا ہو گیا، دادا نے کچھ کہہ دیا کیا؟ بھئی تم تو بہت بہادر بچے ہو۔‘‘

    ’’مجھے ممی اور پاپا بہت یاد آتے ہیں۔‘‘ اس نے یوں ہچکیاں لیتے ہوئے کہا جیسے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ہو۔

    ’’بھئی تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ اگلے مہینے تو تم وہاں جانے ہی والے ہو۔‘‘

    ’’میں کہاں جاؤں گا۔ممی کے پاس یا پاپا کے پاس؟‘‘

    ’’پلیز سر پلیز، آپ نانا دادا کو مت بتائیے گا۔ ممی پاپا وہاں بہت لڑتے ہیں، بہت زیادہ ناں۔ مجھے ڈر لگتا ہے دونوں سے۔ یہ بڑے لوگ اتنا کیوں لڑتے ہیں؟ ہمیں تو لڑائی جھگڑے سے منع کرتے ہیں اور خود۔‘‘

    وہ پھر سسکیاں بھر بھر کر رونے لگا، میں نے اُسے سینے سے لگا لیا، پھول سا وجود اندر سے کتنا سہم گیا تھا؟ میرے بس میں تو تسلیاں، دلاسے دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ جمی کے آنسو کتابوں کے رنگین صفحات پر ٹپک کر جذب ہونے لگے۔ اس کی سسکیاں مجھے اور خوفزدہ کر رہی تھیں۔

    ’’نانا اور دادا کو تو کچھ بھی نہیں پتہ ہے ناں، اس لیے انھیں کچھ بھی مت بتائیے گا۔ میں انھیں کچھ بھی نہیں بتاتا ہوں، وہ دونوں کتنا خوش رہتے ہیں، ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ممی پا پا وہاں بہت خوش ہیں مگر آپ انھیں کچھ مت بتائیے گا، یہ بھی نہیں بتائیے گا کہ مجھے کچھ معلوم ہے، ورنہ وہ لوگ پھر ہنسیں گے نہیں۔ مزے مزے کی باتیں بھی نہیں کریں گے۔ ممی پاپا کو تو اس بات کا خیال بھی نہیں آئے گا، وہ دونوں تو اب ہنستے بھی نہیں۔نانا، دادا کو پتہ چل گیا تو وہ بھی رونے لگیں گے، پلیز انھیں کچھ بھی نہیں بتائیے گا۔‘‘

    اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا،

    ’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

    میں نے اُسے تھپکتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں سے موتی رواں تھے۔

    ’’چلو اب چپ ہو جاؤ۔ آنسو پونچھو۔ اگرنانا، دادا نے دیکھ لیا تو؟‘‘ اس نے جلدی سے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو مل ڈالا۔

    ’’لو یہ پانی پی لو۔‘‘

    ’’اب! اب تو میں رویا ہوا نہیں لگ رہا ہوں ناں؟‘‘

    اس نے اپنا مُنہ میری طرف کرتے ہوئے کہا،

    ’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘

    ’’آپ نانا، دادا کو تو نہیں بتائیں گے ناں پلیز، انھیں کچھ مت بتائیے گا، ورنہ وہ پھر ہنسیں گے نہیں۔‘‘

    چلتے چلتے اس نے مجھ سے پھر التجا کی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تیر رہے تھے۔

    باہر نکلتے وقت میرے دل پر ہزاروں من بوجھ تھا، یہ تنکا تنکا جمع کرکے برسوں میں آشیانہ بنانا اور پھر خود ہی پل میں پھونک ڈالنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے، مگر بعض دفعہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، انا کا مسئلہ، غصہ، معمولی لڑائی، دو تین چھوٹے مگر دل کاٹنے والے جملے، زندگی کی سب سے بڑی بھول نہیں بن جاتے ہیں! ایسا کیوں ہوتا ہے؟ خود میرے پاس نہ اپنے سوالوں کا کوئی جواب تھا، نہ اس مسئلے کا کوئی حل۔

    دو تین دن تک میں اسی ادھیڑ بُن میں رہا۔ اس معمّے کا کیا حل ہے؟ شاید کچھ بھی نہیں یا۔۔۔

    میں اور الجھتا جا رہا تھا۔ میں پھر کریم صاحب کے گھر کی طرف چل دیا۔ بہت دیر تک کریم صاحب کے گھر کے سامنے نیم کے نیچے کھڑا سگریٹیں پھونکتا رہا اور کریم صاحب کے گھر کے سامنے والے اس گھر کی طرف دیکھتا رہا جو گھر میری سسرال تھا۔ پھر میں اُسی سنہرے بالوں والی اپنی چہیتی بیوی کو منانے کے لیے اس کے گھر کی طرف چل دیا، جو مجھ سے روٹھ کر، لڑ جھگڑ کر یہاں آ گئی تھی، جس کے بغیر میر اگھر ادھورا تھا۔ میں اپنا اور سب کا کم از کم ایک دُکھ کم کرنے کا۔۔۔ اختیار تو رکھتا تھا ناں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے