سوہنی ماہیوال
’’کہاں جا رہی ہو سوہنی؟‘‘ ریٹا نے اپنی دوست سے پوچھا۔
’’ماہیوال سے ملنے!‘‘ سوہنی بولی۔
’’یہ گھڑا کس لئے؟‘‘
’’یو نو ماہیوال دریا پار گاؤں میں رہتا ہے۔‘‘
’’تو اس سے گھڑے کا کیا تعلق؟‘‘
’’مجھی سوئمنگ نہیں آتی۔ اس کی مدد سے تیر کر جاؤنگی!‘‘
’’ایڈیٹ سٹیوپڈ! کیا ماہیوال کے پیروں میں مہندی لگی ہے؟ وہ کیوں نہیں آتا تیرے پاس؟ تجھے کیا ضرورت اس کے پاس مرنے کی؟ اور دریا میں کسی پتھر سے یہ برتن ٹکرا گیا تو ٹوٹ جائے گا اور تو ڈوب مرے گی!‘‘
’’بات تو صحیح ہے۔ مگر ماہیوال کو بھی تیرنا نہیں آتا!‘‘
’’یہ تیرا ایشو نہیں۔ سچا عاشق ہے تو سوئمنگ سیکھ لے۔ میں سکھا دونگی؟ تجھے تو معلوم ہے میں میامی بیچ پر لائف گارڈ رہی ہوں!‘‘
’’یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے! لیکن ماہیوال کو سوئمنگ تب سکھائے گی نہ جب وہ ادھر تیر کر آئے۔‘‘
’’او مائی گاڈ۔ یو ول آل ویز ری مین سٹیوپڈ۔ وہ آئے نا گھڑے پر تیر کر۔ ناس پیٹا اپنی جان تو خطرے میں ڈالتا نہیں۔ حرامزادہ مساجنسٹ، شاونسٹ! عورت ذات سے توقع لگائے بیٹھا ہے کہ وہ ہی قربانی دے۔‘‘
’’یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ ویسے یہ اوپر کے لیول کی چیز تیری جیسی فیمی نازی ہی سوچ سکتی تھی!‘‘
’’بے وقوف جاہل! فیمی نازی نہیں، فیمی نسٹ۔ فیمی نازی اچھا لفظ نہیں۔‘‘
’’اوہ۔ آئی ایم سوری! میں ذرا واٹس ایپ کرتی ہوں ماہیوال کو۔ کہتی ہوں کہ آج گھڑے پر وہ پار کرے دریا۔‘‘
’’ہیلو سوہنی ڈارلنگ۔ کہاں رہ گئی ہو۔ میں دریا کنارے بیٹھا کتنی دیر سے گٹار بجا رہا ہوں۔‘‘ ماہیوال نے سوہنی کی کال اٹھاتے کہا۔
’’میں نہیں آ رہی۔ اب مجھے اپنے حقوق کا علم ہو گیا ہے۔ اب میں فیمی نسٹ ہوں۔ تم آؤ دریا پار۔‘‘
’’ڈارلنگ اللہ دی قسمے میں آ جاوندا پر تینوں تے پتہ اے مینوں تیرنا نہیں آوندا!‘‘
’’اوئے بے غیرتا مرد ہو کے بزدلی وکھاندا ایں! سوہنی عورت ذات ہو کر تجھ سے گھڑے پر دریا پار کر کے ملتی رہی۔ اگر وہ اتنی ہمت کر سکتی ہے تو تُو کیوں نہیں کر سکتا بے شرما!‘‘ ریٹا نے فون سوہنی کے ہاتھ سے چھین کر کہا۔
’’ریٹا دیدی اللہ دی قسمے مجھے گھڑے پر بھی تیرنا نہیں آتا۔ میں اپنے ماں باپ کی کلی کلی اولاد ہوں۔ کچھ ہو گیا تو۔۔۔‘‘ ماہیوال بات مکمل نہ کر سکا۔ ریٹا نے فون ہی جو کاٹ دیا تھا۔
’’یہ تیرا ماہیوال بہت ہی سیلفش ہے۔ یہ ٹائم پاس ہے۔ سچا عاشق نہیں۔‘‘ ریٹا اب سوہنی کو حقائق سے آگاہ کر رہی تھی۔
’’کچھ بھی ہو ریٹا۔ میں ماہیوال کے بنا ایک پل نہیں جی سکتی۔ کچھ کر ورنہ میں گھڑا لے کر ابھی اس کے پاس چلی جاؤنگی۔‘‘
ریٹا محسوس کر چکی تھی کہ سوہنی میں اصلی فیمی نسٹ بننے والا خمیر سرے سے ہے ہی نہیں۔ اپنی سہیلی کا دل توڑنا نہ چاہتی تھی۔ اس لئے بولی، ’’اچھا میں تیر کر جاتی ہوں اس کے پاس۔ صرف ایک ہفتے میں اسے ٹرین کر دونگی۔ پھر ہم دونوں تیر کر واپس آئینگے تیرے پاس۔ اسطرح نگرانی بھی کر لونگی۔ بیچ مین اگر سانس اکھڑ گیا اور ڈوبنے لگا تو ریسکیو بھی کر لونگی۔‘‘ سوہنی خوش ہو گئی۔ ریٹا دریا میں چھلانگ لگا یہ جا وہ جا۔ ماہیوال اچھا شاگرد ثابت ہوا۔ صرف تین دن میں ہی ٹرین ہو گیا۔ پھر دونوں نے کامیابی سے دریا تیر کر پار کیا۔ سوہنی ماہیوال کی پراگریس سے بہت متاثر ہوئی۔ کچھ دیر دونوں راز و نیاز کرتے رہے۔ پھر ماہیوال واپس چلا گیا۔ اسکے بعد ریٹا نے سوہنی کو سوئمنگ میں پرفیکٹ کر دیا۔ اب دونوں باآسانی جب چاہے دریا پار کر کے رومانس جھاڑ سکتے تھے۔ ریٹا واپس میامی چلی گئی۔ وہاں اس نے اپنے کئی دوستوں کو یہ قصہ سنایا۔ ان میں سے ایک اتنا متاثر ہوا کہ ریٹا کے ساتھ سوہنی کے گاؤں چلا آیا۔ وہ بہت بڑا ڈونر تھا۔ اس نے دو سوئمنگ پول فنڈ کیے۔ ایک پول میں سوہنی نے گاؤں والوں کو تیراکی سکھائی۔ دوسرا پول ماہیوال کے علاقے میں جہاں اس نے یہ ہی نیک کام کیا۔
ایک دن سوہنی دریا پار کر رہی تھی۔ نجانے کہاں سے ایک مگرمچھ نمودار ہوا اور اسے ہڑپ کر گیا۔ سب ہی سوگوار ہوئے۔ ماہیوال تین دن رویا دھویا پھر اپنی کزن کا دلہا بن گیا۔ ریٹا بہت رنجیدہ ہوئی۔ اس نے اسی ڈونر کو مطلع کیا۔ اس بار ایک پل کی فنڈنگ منظور ہوئی۔ چند ماہ میں پل بن کر آپریشنل ہو گیا۔ اس کا نام سوہنی پل رکھا گیا۔ اسنے ہزاروں سوہنیوں کو مرنے سے بچایا اور رومانس کے فروغ کے لئے یہ آج تک ناقابل فراموش خدمات انجام دے رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.