اس کی نظریں سامنے گولیوں سے چھدی ہوئی بھول بھلیاں میں بھٹک رہی تھیں۔ سارے راستے سینے پر تھے۔ باقی سارے جسم پر کوئی نشان نہ تھا۔ وہ ان بھول بھلیاں میں اپنی نگاہ تلاش کرتا ہوا اپنی سیٹ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ گیلری کی سیڑھیاں اترنے لگا۔
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کی کتابیں۔‘‘
روشن نے پانی کی بالٹی فرش پر رکھی اور اس میں بوریے کا ٹکڑا پھینک دیا۔ اس نے نگاہوں سے خالی، کھوکھلی آنکھیں روشن کے چہرے پر گاڑ دیں۔
’’کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب؟‘‘
’’ہوں۔ دیکھو میں نے تم کو کئی مرتبہ کہا ہے کہ مجھے ڈاکٹر نہ کہا کرو۔ ابھی میرا ایک سال رہتا ہے۔ میرا نام مسعود ہے۔‘‘
کم بخت یہاں پر، یوں پہلے سال سے ڈاکٹر کہنا شروع کرتے ہیں کہ،
انسان اپنا نام بھی بھول جاتا ہے۔
’’اچھا! ڈاکٹر صاحب؟‘‘
مسعود مسکرانے کی کوشش کرتا ہوا پوسٹ مارٹم کی میز کی طرف بڑھا۔ پولیس سرجن اور دوسرے لوگ پوسٹ مارٹم کے بعد جا چکے تھے اور اس کی نگاہیں ابھی تک سینے کی بھول بھلیاں میں ٹھوکریں کھا رہی تھیں۔
کتنا خوبصورت سینہ ہے۔ جیسے، جیسے کیا؟
اس نے کھوکھلی آنکھوں سے پھر روشن کی طرف دیکھا۔
’’ڈاکٹر صاحب جی۔ میں نے اس باڈی کو کولڈ اسٹوریج میں پہونچانا ہے اور فرش بھی صاف کرنا ہے۔‘‘
جیسے اس کی آنکھیں خالی دیواروں کی سفیدی سے سفید ہو گئیں۔
جیسے مرمر کی سل، احکام کی تختی اور یہ گولیوں کے نشان ان غاروں کے منہ جن میں داخل ہوکر جب انسان باہر آتا ہے تو مرمر کی سل بن چکا ہوتا ہے جس پر وہی عبارت لکھی ہوتی ہے اور وہی غار ہوتے ہیں۔
مسعود یہ سوچ کر بہت حد تک مطمئن ہو گیا کہ اب سینے کے غار روشن ہو جائیں گے اور اس کی نگاہیں لوٹ آئیں گی۔
’’چلیے صاحب۔‘‘ روشن نے بوریے کا ٹکڑا بالٹی میں نچوڑتے ہوئے کہا۔
’’اچھا۔ بس، ایک منٹ۔‘‘
’’اسمگلر تھا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
روشن اس کی ’’ہوں‘‘ کوایک نظر دیکھ کر بوریے سے فرش صاف کرنے لگا۔
میں بھی لڑکوں کے ساتھ کیوں نہ چلا گیا۔ اس نے ہولے ہولے اسمگلر کی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا۔ میں نے اتنے پوسٹ مارٹم دیکھے ہیں لیکن آج تک میری آنکھوں نے نگاہیں نہیں کھوئیں۔ شاید ان ڈیڈباڈیز میں کوئی اسمگلر نہیں ہوگا۔ اگر کوئی لاش آئی ہوگی تو ہماری کلاس نہیں ہوگی اس دن۔
پولیس سرجن کی عادت تھی کہ پوسٹ مارٹم کرتے وقت موت کی وجہ پر اظہار خیال کیا کرتا تھا۔
’’اسے کپویڈ کا تیر نہیں بلکہ چاقو لگا ہے۔ رقابت بڑا عجیب جذبہ ہوتا ہے ہاں جی، لکھیے۔ دل کازخم دو انچ گہرا اور ایک انچ لمبا۔‘‘
’’اس نے مارنے والے کے دس روپے دینے تھے۔ دونوں کے درمیان کچھ تلخی ہوئی تو وہ اس کی جان لے گیا۔ فائدہ اسی کو رہا۔ دس روپے خرچ بھی کر لیے اور آیندہ ادھار سے بھی چھٹکارا ہوا۔ لکھوجی۔ سر پر کٹے پھٹے دوزخم، بھیجا باہر نکلا ہوا اور سوڈے کی بوتل کی کرچیاں۔‘‘
’’یہ اسمگلر تھا۔ اسمگلر۔‘‘
پولیس سرجن مسکرایا تھا۔ گولیوں کے زخموں کی تعداد اور گہرائی وغیرہ لکھوانے کے بعد لاش کے سینے اور پیٹ کی قبر کھولی تھی اور پھر روشن سے جسم سینے کے لیے کہہ کر لوگوں کو اسمگلنگ اور ملکی معاشیات کی اہمیت سمجھا کر چلا گیا تھا۔
اسمگلنگ کتنا مزیدار پیشہ ہے۔ چند منٹوں میں اتنی ڈھیر ساری رقم
پھر اورا سمگلنگ، پھر اور پیسہ۔
لیکن جب اسے اسمگلنگ اور ملکی معاشیات پر سرجن کی باتیں یاد آئیں تو وہ کچھ شرمندہ سا ہو گیا اور اس نے کٹرنیشنلسٹ بن کر بڑی متنفر آنکھیں لاش کے چہرے کی طرف اٹھائیں۔ اس کا سر لکڑی کے بلاک پر پیچھے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس کے لمبے لمبے سیاہ اور سفید بال نیچے لٹک رہے تھے، اس کی داڑھی بالوں سے کچھ ہی چھوٹی تھی جسے روشن نے لپیٹ کر پیچھے اس کی گردن کے نیچے دبا رکھا تھا۔ اس نے گردن کے نیچے سے داڑھی نکال کر اس کے زخمی سینے پر پھیلا دی۔
یہ ا سمگلر نہیں ہو سکتا۔ ہوں! ممکن ہے سکھ ہو اور بر کی ہڈیارہ کے راستے سے۔۔۔
اس نے آنکھوں سے سر سے پیر تک اسے ٹٹولا۔
نہیں۔ یہ سکھ نہیں ہے۔ تو پھر کوئی ملنگ ہوگا اور اس پرا سمگلنگ کا چارج غلطی سے لگ گیا ہوگا۔ ہاں۔ ملنگ ہی تو ہے اتنا پرسکون، نورانی چہرہ!
اس سوچ کے ساتھ ہی اسے خیال آیا کہ اسے یہ چہرہ پہلے کیوں نورانی محسوس نہیں ہوا۔
نہیں۔ چیزوں کی اصلیت کا پتا ان پر غور کرنے سے چلتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیر تک دیکھنے پر اس کی شکل تبدیل ہونا شروع ہو جائے یعنی وہ نہ رہے جو سرسری طور پر دیکھنے میں تھی۔ مثلاً بادل، اندھیرے کمرے میں کھونٹی پر لٹکے ہوئے کپڑے اور ٹوپی، اصلیت تو وہی رہتی ہے لیکن انسان اپنے احساس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ تو پھر اصلیت کیا ہوئی۔ احساس یا کہ چیزوں کی ظاہری صورت۔ یہ میرا احساس ہے کہ یہ ا سمگلر نہیں اور اس کا چہرہ نورانی ہے۔ چہرے کا نور اور سکون تو زندوں کی آنکھیں خواہ مخواہ مردوں کو دے دیتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ زندگی کے چہرے کے کرب اور تاریکی سے نجات کی یہ آخری امید ہوتی ہے لیکن نہیں۔ یہ احساس تو مجھے اسے دیکھتے ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ تو پھر اس کے چہرے پر واقعی سکون ہے، نور ہے اور یہ ا سمگلر نہیں ہے۔ تو کیا میرا غور و فکر ٹھیک ہے؟ لیکن میرا احساس مجھے دھوکا بھی تو دے سکتا ہے۔ یہ اسمگلر ہے، نہیں ہے، نہیں ہے۔
’’تم اسمگلر ہو؟‘‘ اس کی آخری سوچ زبان سے پھسل گئی۔
’’اب بن گیا ہوں۔‘‘ اسمگلر نے مسکراتے ہوئے بڑی نحیف آواز میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’یہ بعد میں سمجھاؤں گا۔ مجھے ذرا سہارا دے کر بٹھا دو۔ میں لیٹے لیٹے تھک گیا ہوں۔ زیادہ سونے سے کتنی تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔‘‘
وہ اپنے جسم کو دبانے لگا۔
’’ہوں۔‘‘
مسعود نے دروازے کی طرف دیکھا۔ روشن غالباً بوریا نچوڑنے کے لیے باہر جاتے جاتے ادھ کھلے دروازے میں کھڑا تھا۔ مسعود مسکرا دیا۔ پھر اس نے کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھا۔ درختوں کو تیز ہوا جھنجھوڑ رہی تھی اور آسمان پر بڑے تاریک بادل چھا رہے تھے۔
’’آج بارش ہوگی۔‘‘ مسعود نے کہا۔
’’نہیں ہوگی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تمہیں کس طرح پتا ہے کہ نہیں ہوگی۔‘‘
’’جس طرح تم نے کہہ دیا کہ ہوگی۔‘‘
آدمی ذہین ہے۔ اسمگلنگ کے لیے جرأت کے ساتھ تھوڑی بہت ذہانت کی ضرورت بھی ہوتی ہوگی۔
مسعودنے سوچا۔
’’تم واقعی اسمگلر ہو؟‘‘
’’میں نے کہا تھا کہ اب بن گیا ہوں۔‘‘
’’تو پہلے نہیں تھے؟‘‘
’’تھا تو۔۔۔ لیکن جو پکڑا جائے وہی چور۔‘‘
’’تم کیا اسمگل کرتے تھے؟‘‘
’’سونا۔‘‘
’’سونا!‘‘ مسعود نے حیرت سے کہا۔
’’ہوں۔‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلتا ہوا شیشے کے سربند مرتبانوں میں جگر گردوں وغیرہ کے حصے دیکھنے لگا۔
’’میرے جسم سے کوئی خاص چیز نکلی؟‘‘
’’ایک بار میں تم کتنا اسمگل کرلیتے تھے؟‘‘
وہ اس کی آنکھوں میں سونے کی چمک دیکھ کر مسکرایا۔
’’میرے سینے سے کوئی گولی وولی؟‘‘
’’نہیں۔ کتنا سونا۔‘‘
مسعود نے اپنی آنکھوں میں سونے کی چمک کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بچاتے ہوئے کہا،
’’بہت۔ اتنا کہ ایک ہی چکر میں قسمت بدل جائے۔‘‘
’’تو پھر تم بار بارکیوں گئے۔‘‘
’’اور زیادہ اور زیادہ۔‘‘
مختلف چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی نظریں میز پر جمے ہوئے خون کے لوتھڑوں پر اٹک گئیں جو کہ دل کو صاف کرتے وقت گر گئے تھے۔
’’یہ میرا خون ہے؟‘‘
’’تمہیں صرف ایک بار جانا چاہیے تھا۔‘‘
اس نے ہنستے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا اٹھایا۔
’’یہ خون نہیں سونا ہے۔‘‘
مسعود بھنا گیا۔
’’مجھے خواہ مخواہ بناؤ نہیں۔ میں اس طرح نہیں ٹلوں گا۔ تم سونا کہاں سے لاتے تھے؟‘‘
اس نے جواب دینے کے بجائے ہتھیلی پر پڑا ہوا لوتھڑا، کھڑکی میں مدھم ہوتی روشنی میں، جوہر یوں کی طرح بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں واقعی سونے سے بڑی دلچسپی ہے؟‘‘
’’کسے نہیں ہوتی۔ بتاؤ نا یہ سونا کہاں سے لاتے تھے؟‘‘
اس نے لوتھڑا زمین پر گرا دیا۔
’’سرحد پار سے۔‘‘
’’مجھے وہاں لے چلو۔‘‘
اس نے بڑی تیزی سے گھوم کر نوکیلی نظروں سے مسعود کو دیکھا، پھر نرمی سے اسے سمجھایا۔
’’ابھی تم بچے ہو اور یہ کام بہت خطرناک ہے۔‘‘
’’خطرات زندگی کو حسن دیتے ہیں اور میں بچہ نہیں ہوں۔ پھر میں تمہاری طرح بار بار نہیں جاؤں گا۔ صرف ایک بار۔۔۔ چلو۔‘‘ مسعود نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
’’پھر سوچ لو۔‘‘
’’میں آج تک یہی سوچتا آیا ہوں۔‘‘
’’ایک دم امیر بننے کی خواہش اچھی نہیں ہوتی۔‘‘
’’لیکن فائدہ مند ضرور ہوتی ہے۔‘‘
’’ایک بار تمہیں راستہ آ گیا تو تم بار بار جاؤگے۔‘‘
مسعود بےقرار ہو گیا۔
’’نہیں جاؤں گا بابا نہیں جاؤں گا۔ اب چلوگے بھی یا نہیں۔ سونے کے بغیر میرے بہت سے کام رکے پڑے ہیں۔ مجھے اس وقت کا بہت دیر سے انتظار تھا۔‘‘
’’اسی عمر میں؟‘‘
’’خواہشات کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ میں نے جب سے دوسروں کو سونا پہنتے دیکھا ہے، استعمال کرتے دیکھا ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھا ہے، تب سے اسے پانے کے لیے بےقرار ہوں لیکن کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب میں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ چلو۔‘‘
اس کے ساتھی نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا، ’’اب تو رات ہو گئی ہے اور گھٹا بھی پوری طرح چھا گئی ہے۔ پھر سہی۔‘‘
’’رات اور گھٹا تمہاری موجودگی میں اکٹھے ہیں۔ یہ بہترین موقع ہے۔۔۔ ورنہ میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گا۔‘‘
وہ اتنی زور سے ہنسا کہ مسعود کچھ خوف زدہ سا ہو گیا۔
’’تم ہنستے کیوں ہو؟‘‘
اس نے اپنی گردن کو اپنے ہاتھوں سے دبایا۔
’’یونہی۔ تم بہت ضدی ہو۔ سونا حاصل کرنے کی خواہش بظاہر تو عام ہے لیکن غور کیا جائے تو اس سے بڑھ کر عجیب خواہش اور کوئی نہیں۔‘‘
اس نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی اپنی چادر اٹھالی اور جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا، ’’تم جیسا متلاشی اور جرأت مند میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ چلو۔ میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا جہاں سے تقسیم کار سونا لاتے ہیں۔‘‘
اس تصور میں مسعود کے جسم پر عجیب سی کپکپی چھا گئی اور اس نے مستحسن نگاہوں سے اس کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ یقیناً یہ کوئی بہت بڑا اسمگلر ہوگا۔
وہ دونوں دبے پاؤں دروازے کی طرف گئے۔ روشن ابھی تک دروازے میں کھڑا تھا۔ ایک قدم دہلیز سے اندر، دوسرا باہر اور ہاتھ میں بوریا۔ مسعود نے رک کر اپنے ساتھی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور وہ دونوں بغیر کسی آہٹ کے دوسرے دروازے سے نکل گئے۔
درختوں میں ہوا کا شور تھا۔ چند ایک ٹوٹے ہوئے پتے ان کے قریب سے گزر گئے۔ رات بہت تاریک تھی۔ آسمان پر رات کی سیاہی میں رنگی ہوئی گھٹا میں ہر روشنی تاریک ہو گئی تھی۔ سوائے اندھیرے کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسعود ان راستوں پر چار سال سے چل رہا تھا اور اب اس کی تاریکی میں صرف اس کے حافظے کی روشنی تھی۔ مسعود نے مڑ کر کہا، ’’کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میرا خیال ہے شاید سارے شہر میں روشنی نہیں۔ میرا ہاتھ پکڑ لو۔‘‘
’’میں اسی تاریکی کے راستے سے آیا تھا۔ مجھے راستہ یاد ہے۔‘‘
مسعود نے پھر بھی اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ہاتھ معمول سے زیادہ سرد تھا۔
سردی خاصی ہے اور اس کے جسم میں شاید حرارت بھی کم ہو۔
وہ دونوں اناٹومی ہال والا موڑ مڑ گئے۔
’’یہ اناٹومی ہال ہے۔ یہاں مردوں کی چیر پھاڑ ہوتی ہے۔‘‘
’’جسموں کی؟‘‘
’’اور کاہے کی۔‘‘
کیسا بچوں جیسا سوال ہے۔
مسعود ہنسا۔
’’تم نے کبھی مردوں کی باتیں سنی ہیں؟‘‘
’’تم نے کبھی سنی ہیں؟‘‘
جب سر میں سفید بال آنے لگتے ہیں تو انسان پھر سے بچہ بننا شروع ہو جاتا ہے۔ وہی سادگی، معصومیت، وہی پاکیزگی، فینٹسی اور ضد۔
’’تم بچے ہو۔ بالکل بچے۔‘‘ مسعود نے کہا اور وہ بالکل بچوں کی طرح کھلکھلاکر ہنسا۔
’’اور تم بچے نہیں ہو؟ سونے کی چمک دیکھ کر متجسس ہو گئے ہو۔۔۔ میں تو چاند لوں گا۔‘‘
’’میں سونے کی اہمیت جانتا ہوں مسٹر۔ میں اس کی چمک کے علاوہ اس کے وجود کو بھی اپنانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ قیمت صرف وجود کی پڑےگی۔ چمک کی نہیں۔‘‘
’’خوب۔ تم کافی ذہین ہو۔‘‘ اس کی آواز میں مسکراہٹ تھی۔
میں ایک اچھا اسمگلر بن سکتا ہوں۔
اناٹومی ہال کی نکڑ پر دیوار سے ٹیک لگائے چوکیدار بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ مسعود نے اپنے ساتھی کا ہاتھ دبایا اور بوٹ کے پنجوں پر چلنے لگا۔ مگر بوٹوں کی آہٹ نہ گئی۔ ابھی للکار آئے گی، ہو۔۔۔ کون ہے؟ چوکیدار نے حقہ پیتے ہوئے سرگھماکر دیکھا اور تیز ہوا میں خشک پتے کھڑکھڑاتے ہوئے دیوار سے ٹکرائے۔ وہ ہوا کے ساتھ ہی اس کے قریب سے گزر گئے۔ چوکیدار پھر سے حقہ پینے لگا اور مسعود مطمئن ہو گیا کہ سوال جواب میں وقت ضائع ہونے سے بچا۔
’’تم بہت آہستہ چلتے ہو۔ جلدی چلونا۔‘‘
’’تم بے صبر ہو اور میں بوڑھا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھی نے مسکراکے کہا۔
ٹک شاپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے مسعود رک گیا اور اس کا ساتھی بھی۔ اتنی تاریکی میں ٹک شاپ کے صرف ایک کونے میں ہلکی سی روشنی تھی۔ اس کے ساتھی نے چلنے کے لیے قدم بڑھایا۔ مسعود نے کہا، ’’ایک منٹ۔ آؤ دیکھیں کون ہے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
’’اندر روشنی ہے۔ اس وقت!‘‘
’’سونا اس سے زیادہ روشن ہے۔‘‘
مسعود نے سنی ان سنی کردی اور وہ دونوں دیوار کی اوٹ میں ہوکر کھڑکی کی جالی سے اندر جھانکنے لگے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی بیٹھے تھے۔ درمیان میں موم بتی جل رہی تھی۔ مسعود کی گرفت اس کے ہاتھ پر سخت ہو گئی۔
’’مجھے پہلے ہی سے شک تھا۔‘‘ مسعود نے سرگوشی کی، ’’میں کل رپورٹ کروں گا کہ ٹک شاپ کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے۔‘‘
’’دراصل تم چاہتے ہو کہ اس لڑکے کی جگہ تم ہوتے۔‘‘
مسعود نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’تجربہ۔‘‘
’’موم بتی نے یہ روشنی لڑکی کے گلے میں پڑے ہوئے سونے کے لاکٹ سے لی ہے اور لاکٹ کے اندر اس لڑکے کی تصویر ہے اور میں یہ تصویر پھاڑ دوں گا۔‘‘
’’موم بتی کو اپنے لیے روشن کیے بغیر نہیں اور تم روشنی کی تلاش میں نکلے ہو۔‘‘
مسعود کو یکایک یاد آیا کہ وہ اس وقت یہاں تک کس سفر کے سلسلے میں پہنچا ہے۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تو پھر، چلو۔‘‘
اس کے ساتھی نے اسے ٹک شاپ کی کھڑکی سے کھینچا۔ مسعود تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا دور تک پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔
شہر میں روشنی ابھی تک نہیں آئی تھی۔
تیز ہوا میں روشنی اکثر بجھ جاتی ہے۔ شارٹ سرکٹ اور پھر آسمان پر تاریک بادل بھی تو ہیں۔ اگر میں ہوسٹل سے ٹارچ اور برساتی مانگ کر لے آتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن ٹک شاپ میں موم بتی جل رہی ہے اور میں اسے جلد از جلد بجھانا چاہتا ہوں۔ ہوں! کل جب میں اس موم بتی کو چھوؤں گا تو یہ سونے کی بن جائےگی۔ پھر میں بڑے اعتماد سے اس کے گلے میں موم بتی کا لاکٹ پہناؤں گا۔ میں نے آج تک اس سے بات نہیں کی۔ میں نے ہمیشہ اسی طرح جالی سے جھانکا ہے۔ اس کو اسی طرح چوری کیا ہے اور اس کی بھاگتی ہوئی کار سے اڑتی دھول پھانکی ہے۔ لیکن کل۔۔۔ کل میرے پاس کار ہوگی اور اس کے پیچھے اڑتا غبار سونا ہوگا اور ’’سرحد تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘ مسعود نے اس سے پوچھا۔
’’جتنا تیز چلو گے اتنا ہی کم وقت لگےگا۔‘‘
’’تم مجھے اسی ایک پھیرے میں اتنا سونادے دیناکہ مجھے بار بار۔۔۔‘‘
’’جتنا اٹھا سکوگے، لے لینا۔‘‘
اس کے ساتھی کی رفتار کچھ تیز ہو گئی تھی۔ مسعود تھوڑی دور تک ساتھ چلتے چلتے پھر ایک دو قدم پیچھے رہ جاتا۔
کوئی سواری لے لیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن اس وقت؟ اور اگر ہو بھی تو کرایہ کون ادا کرےگا۔ کل سہی۔ کل سے میں پیدل نہیں پھروں گا۔ میں پڑھائی چھوڑ کر بزنس شروع کر دوں گا۔ ڈاکٹری میں کیا رکھا ہے۔ پہلے اتنا پیسہ اور وقت صرف کرو اور بعد میں کوئی مستقبل نہیں۔ شہروں میں تو اینٹ اکھاڑو تو نیچے سے ڈاکٹر نکلتا ہے اور گاؤں؟ دیہات میں کون جائے۔۔۔
اسے اپنے کتنے جاننے والے یاد آئے جو ڈاکٹر بننے کے بعد ڈسپنسری نہیں کھول سکے تھے اور جنہیں مناسب ملازمت بھی بڑی مشکل سے ملی تھی اور جوشہر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے اور اس کے علاوہ کہیں اور نوکری کرنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ تکے کبابوں کی دکان کھولنے کے بارے میں غور کر رہے تھے۔
وہ کون ڈاکٹر ہیں جو اتنا بہت کماتے ہیں؟ اوہ ہاں، وہ، وہ اور وہ۔ لیکن ان سب کے پاس وسائل تھے، انہیں مواقع ملے تھے۔ دراصل ہرپیشے میں انسان کو اگر کچھ کرنے کا موقع ملے تو ہی وہ کچھ کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر باقی تمام پیشوں سے زیادہ محفوظ پیشہ تو ہے پر آمدنی رفتہ رفتہ ہی بڑھتی ہے اور میں راتوں رات امیر ہو جانا چاہتا ہوں۔ یہ کتنا اچھا موقع ملا ہے۔ سونے کی تجارت۔ اس قسم کی تجارت کو کم ظرف ہی اسمگلنگ کا نام دیتے ہیں۔ لیکن میرے ملک کی معیشت؟ لیکن میں؟
سوچ میں رفتہ رفتہ ڈھیلے پڑتے قدم پھر تیز ہو گئے۔
میں زیادہ ضروری ہوں۔ جب تک میں خود اتنے بھاری بوجھ تلے سے نہیں نکلوں گا، ملک کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ کسی کے لیے بھی کیا کر سکتا ہوں۔ میرا سینہ اس رقم تلے پِس رہا ہے جو کہ میرا ماموں میری پڑھائی پر صرف کر رہا ہے۔ میرے ماموں کومجھ میں صرف اس لیے دلچسپی ہے کہ میرا مستقبل بناکر وہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دےگا اور یوں میں ان کے احسانات کا بدلہ کچھ تو دے سکوں گا جو میری ماں نے اپنے والدین کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کو پال پوس کر کیے تھے۔
مسعود کو اپنی ماموں زاد سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بلکہ اسے اس طوق کی گرفت بڑی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ اسے ڈاکٹر بنانے کافیصلہ بھی ماموں ہی نے کیا تھا اور اسی یقین پر اسے پڑھا رہے تھے کہ یہ پیسہ دراصل ان کی بیٹی ہی پر لگ رہا ہے۔ لڑکی بھی گھر ہی میں رہےگی اور خاوند بھی اچھا مل جائےگا اور جب سے وہ اس کالج میں داخل ہوا تھا اس کے دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں وہ لڑکی چیونٹی کی طرح رینگتی رہتی تھی جو کار پر آتی تھی، جس کے گلے میں سونے کا لاکٹ تھا اور جس کے ساتھ اس نے آج تک بات کرنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ ہر روز ماموں کے پیسوں کی چاردیواری اونچی ہوتی جاتی تھی اور اس کی گردن پر ماموں کی لڑکی کی انگلیوں کا دباؤ بڑھتا جاتا تھا۔
کل یہ چاردیواری گر جائےگی اور یہ انگلیاں کٹ جائیں گی۔
مسعود نے مسکراتے ہوئے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا۔
’’سنو! ہم کب تک وہاں پہنچیں گے؟‘‘
اس نے جواب کے لیے اس کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے یک لخت گھبراکے چاروں طرف دیکھا، چاروں طرف کھیت ہی کھیت تھے۔ کٹی ہوئی فصلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹھنٹھ کھڑے تھے۔ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں دور مکانوں کے دھبے نظر آ رہے تھے۔
میں کہاں آگیا ہوں۔۔۔؟ آسمان پر تو بادل تھے۔ رات بہت تاریک تھی اور اور شہر میں روشنی نہیں۔ یہ کون سی جگہ ہے؟ میں یہاں، کب آیا؟
اس نے پھر اسی سمت دیکھا جدھر وہ دونوں جا رہے تھے۔ بہت دور ایک سایہ جا رہا تھا۔ اس نے چیخ کر کہا،
’’ٹھہرو۔‘‘
اس کے ساتھی نے وہیں سے ہنستے ہوئے کہا،
’’تمہیں ہی بہت جلدی تھی۔‘‘
مسعود نے اپنے آپ سے اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے اسے آہستہ سے بڑے غصے میں گالی دی۔ اس کا ساتھی رکا نہیں تھا۔ مسعود گھبراکر اس کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا ساتھی مسلسل اسی رفتار سے چل رہا تھا۔ سخت زمین پر کٹی ہوئی فصل کے نوکیلے خشک ڈنٹھلوں سے اس کے گھسے پٹے بوٹ اور بھی چھد گئے تھے۔ تھوڑی دور بھاگنے کے بعد اس کے بوٹ کا تلوا بالکل جواب دے گیا۔ اس نے رک رک کر جلدی جلدی بوٹ اتارے اور پھر بھاگنے لگا۔ خشک زمین سے اگے ہوئے کانٹوں کی نوکوں پر، اندھا دھند۔ اس کے ذہن میں صرف وہ سایہ تھا جس تک اسے پہنچنا تھا۔ ورنہ وہ اجنبی کھیتوں میں بھٹک بھٹک کر مرجاتا کیونکہ وہ ان دانوں سے اپنی جیبیں بھرکے نہیں آیا تھا جنہیں وہ راستے پر بکھیرتا جاتا کہ واپسی پر اُگی ہوئی فصل کے وسیلے سے راستہ ڈھونڈنے میں دقت نہ ہوتی۔
مسعود نے اس کے پاس پہنچ کر ہانپتے ہوئے پوچھا، ’’تم مجھے پیچھے کیوں چھوڑ آئے تھے؟‘‘
اب دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس کا ساتھی خاموش تھا اور اس کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
’’بتاؤ نا۔‘‘
’’میں نے تمہیں نہیں چھوڑا۔ تم خود ہی پیچھے رہ گئے تھے۔‘‘
’’مجھے تو پتا ہی نہیں چلا تم کب آگے نکلے ہو۔‘‘
’’مختلف قسم کے خیالات رفتار کو مدھم کر دیتے ہیں۔ اگر تمہارے ذہن میں صرف اپنی منزل کا خیال ہوتا تو تم پیچھے نہ رہ جاتے۔‘‘
’’میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘‘
’’غلط۔ اگر تم صرف وہاں تک پہنچنے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے تو تمہاری رفتار بھی مجھ اتنی ہوتی۔‘‘
مسعود کچھ حیران ہوا کہ اسے کیسے پتا چلا کہ وہ کچھ اور بھی سوچتا رہا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ اس نے یہ نتیجہ منطقی طور پر اخذ کیا ہے اور وہ ایک قدم پیچھے رہ گیا۔ اس نے اپنے ساتھی سے ٹھہرنے کے لیے کہا، وہ بغیر رکے بولا، ’’چلے آؤ چلے آؤ۔ تمہیں بہت جلدی تھی۔ اس راستے پر سستایا نہیں جاتا۔ ممکن ہے کوئی آلے۔‘‘
’’اس بیابان میں کون آئےگا۔ رک جاؤ۔ میرے پیروں میں شدید درد ہو رہا ہے۔‘‘
مسعود کی آواز میں التجا تھی۔ اس کا ساتھی ہنسا،
’’تم میں خواہش ہے، جرأت ہے لیکن توجہ اور قوت برداشت نہیں ہے۔ اگر مجھے علم ہوتا تو میں تمہارے ساتھ کبھی نہ آتا۔ پہلے تم مصائب جھیلنا سیکھتے پھر اس راستے پر لاتا۔ جانتے ہو؟ جب کوئی ا سمگلنگ کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ اس کو بڑی اذیتیں دی جاتی ہیں تاکہ اس سے کچھ اور بھی بکوایا جا سکے۔ اگر وہ سختی نہ جھیل سکے اور سب کچھ بک دے تو پھر اور اذیتیں دیتے ہیں۔ اسمگلنگ کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ تم تو اس راستے ہی سے گھبرا گئے ہو۔ اگر پکڑے جاؤ تو؟‘‘
’’تو میں انہیں کچھ نہیں بتاؤں گا۔ مگر خدا کے لیے ایک پل رک جاؤ۔ مجھ سے چلا نہیں جاتا۔‘‘
مسعود وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور اس کے ساتھی کو رکنا پڑا۔ اپنے پیر دباتے ہوئے مسعود کو اپنے پیروں سے بہتا ہوا خون محسوس ہوا۔
’’میرے پیروں سے خون، خون بہہ رہا ہے۔‘‘
’’اسے دل سے بہنا چاہیے تھا۔ پھر یہ سونا ہوتا۔ سونا۔‘‘
’’بعض وقت تم بڑی عجیب باتیں کرتے ہو۔‘’
’’جب تم میری طرح سونا پالوگے تو تم بھی ایسی باتیں کرنے لگوگے۔ بےمعنی سی۔‘‘ وہ ہنسا، ’’اب چلو۔ کافی سستا لیا ہے۔ اگر صبح ہو گئی تو کبھی سرحد نہ پار کر سکیں گے۔ پھر تم۔۔۔‘‘
’’کتنی دور ہے سرحد؟‘‘ مسعود نے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’وہ جو سامنے سفید سی لکیر ہے، افق سے ذرا نیچے۔۔۔ وہ۔‘‘
’’کیا وہ ہے؟‘‘
’’دریا ہے۔‘‘
چاند کی روشنی میں دریا چمک رہا تھا۔
مسعود گھٹنے سے دوسرا پیر زمین پر اتار کے اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر کچھ کہے لنگڑاتا ہوا چلنے لگا۔ اس کا ساتھی بھی خاموشی سے چل پڑا۔ اب مسعود اپنے پیروں کے درد سے بے نیاز اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اسی رفتار سے، مسلسل۔
اگر صبح ہو گئی تو گیا ہوگا؟ پھر میں کبھی سونا نہیں لا سکوں گا۔ پھر یہ شخص مجھے کبھی نہیں ملےگا اور میں ماموں کے پاس اپنی گروی زندگی کو کبھی نہیں چھڑا سکوں گا۔ مجھے صبح ہونے سے پہلے ہی سرحد پار کر لینی چاہیے ابھی تھوڑی دیر میں صبح ہو جائےگی اور دریا ابھی دور ہے اور ٹک شاپ میں موم بتی ابھی جل رہی ہوگی۔ مجھے اس موم بتی کو بجھانا ہے۔ اس موم بتی کے سونے سے اس لڑکی کو لاکٹ بھی تو پہنانا ہے۔ بھاگو۔ بھاگو مسعود بھاگو۔
اس نے مڑکر ساتھی کو دیکھا کہ اس سے جلدی چلنے کے لیے کہے مگر اس کا ساتھی پھر غائب تھا۔ اس نے روہانسا ہوکر چیخ کر کہا، ’’کہاں چلے جاتے ہو تم؟‘‘
بھاگو، جلدی کرو مسعود، اسے دفع کرو۔ سامنے دریا ہے اور اب صبح ہونے والی ہے۔ اگر رکوگے تو لمحے ایک ایک کرکے پھسلتے ہی جائیں گے بہرحال۔ اگر دریا پار کر لیا تو اس کے بعد تمہیں کوئی نہ کوئی مل ہی جائےگا۔ دنیا میں صرف ایک وہی تو نہیں۔ بھاگو مسعود۔ ساری دنیا تمہارے ہاتھ کے ایک لمس کی منتظر ہے۔ ذرہ ذرہ سونا بننے کے لیے بے قرار ہے۔ جلدی کرو جلدی ورنہ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح تمہارے ذہن پر نقش ہو جائےگا۔ لیکن، لیکن میں اس کے بغیر دریا تک کیسے پہنچوں گا۔ مجھے تو آگے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ صرف وہ پانی کی لکیر ہے۔ اس تک کون سا راستہ جاتا ہے۔ ہر راستہ مجھے دریا کے متوازی کیوں نظر آتا ہے؟
وہ پاگلوں کی طرح گھومنے لگا۔ اس کی کنپٹیاں بےطرح بجنے لگیں۔ اس کارواں رواں کانپنے لگا۔ سارے مساموں سے پسینہ ابلنے لگا۔ اس کے لہو لہان پیروں میں درد پھر سے لوٹ آیا تھا۔ پیر سوجنے کے باعث اس کے قدم اتنے بوجھل ہو گئے تھے کہ اٹھائے نہیں اٹھتے تھے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے رکا۔
’’کہاں ہو تم؟‘‘
اس کی چیخ سے فضا گونج اٹھی۔ دور سے ہلکے سے قہقہے کی آواز آئی۔ اس نے غور سے قہقہے کی سمت میں دیکھا۔ اس کا ساتھی تھا۔
گھبراہٹ میں ہر وہ چیز نظر نہیں آتی جس کی تلاش ہوتی ہے۔
مسعود نے اطمینان کا سانس لیا،
یہ مجھ سے آگے کیوں نکل جاتا ہے۔ تم سوچتے ہو اور سوچنے سے طبعی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ ذہن میں صرف منزل کا دھیان ہونا چاہیے اگر تم اسی طرح کچھ اور سوچتے رہے تو تم وہاں تک کبھی نہیں پہنچ سکوگے۔ پھر صبح ہوجائےگی اور۔۔۔
وہ پھر اٹھ کر اپنے ساتھی کے سایے کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کے پیر سن ہو گئے تھے۔ اس کے پیر جیسے ٹخنوں کے ساتھ نہیں تھے۔ زمین کو پیروں سے چھونے کا احساس بھی پیروں سے بہتے خون کے ساتھ ہی بہہ گیا تھا۔ جوں جوں وہ سائے کی طرف بڑھتا جاتا تھا، سایہ اس سے دور ہوتا جاتا تھا۔
میرے ذہن میں صرف میرے مقصد کادھیان ہونا چاہیے۔ اگر میں نے کچھ اور سوچا تو۔۔۔ بھاگو مسعود تمہیں صبح سے پہلے وہاں پہنچنا ہے۔
وہ سامنے دریا ہے۔ وہ سامنے، وہ سامنے۔۔۔ سایہ ہے! سونا ہے۔
اس کا ساتھی دریا کے کنارے اس کا منتظر تھا۔ مسعود نے بڑے غصے میں اس سے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اس نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے منع کر دیا۔ مسعود کی نظریں اس کی نظروں کو کھینچ کر اپنے پیروں پر لے آئیں۔ پیر سوج کر اصل سے دوگنا ہو گئے تھے اور ان پر خون کی تہ جمی تھی۔ اس کے ساتھی نے مسکراکے اس کے کندھے کو تھپکاتے ہوئے سرگوشی کی، ’’شاباش! کوئی بات نہیں۔ راستوں پر یوں ہو جایا کرتا ہے۔ اب تو ہم پہنچ گئے ہیں۔‘‘
مسعود نے تھپکی سے زندگی حاصل کرکے دریا کے کنارے کو بہت غور سے دیکھا۔
’’دور دور تک کوئی کشتی نظر نہیں آتی ہم اسے کس طرح پار کریں گے۔‘‘
’’دیکھتے رہو۔‘‘
اس کے ساتھی نے اپنی چادر کو دوبارہ لپیٹتے ہوئے کہا۔
’’عصا نکالوگے؟‘‘
’’میں موسیٰ نہیں ہوں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’غور سے سنو۔ میں دریا میں پہلے قدم رکھوں گا۔ تم میرے پیچھے پیچھے آتے جانا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ دریا کہاں سے گہرا ہے اور کہاں سے نہیں اور ہاں، دریا میں پیر رکھنے کے بعد تم سوچنا بالکل بند کر دوگے۔ ورنہ تمہارا پیر کہیں ادھر ادھر پڑ گیا تو ڈوب جاؤگے۔‘‘
’’تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ ذہن کبھی سوچ سے خالی بھی رہ سکتا ہے؟‘‘
’’دریا پار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سوچ ختم ہو جائے۔‘‘ پھر اس نے کچھ سوچ کر کہا، ’’اچھا یوں کرو میرا ہاتھ پکڑ لو۔‘‘
مسعود نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ہاتھ پہلے سے بھی سرد تھا۔ بالکل برف۔ مسعود نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا اور اس نے جواب میں کہا،
’’کیا سردی کم ہے؟‘‘
اس کے ہاتھ کی سردی مسعود کے ہاتھوں کی رگوں میں اترنے لگی۔ اس کا ساتھی دریا میں پیر رکھ چکا تھا۔
’’آؤ۔‘‘
مسعود نے بھی پیر دریا میں ڈال دیا۔ اس کی رگوں میں اتری ہوئی برف اس کے دماغ تک پہنچ گئی۔ اس کا دماغ بالکل سن ہو گیا اور وہ اتنا ہلکا پھلکا ہو گیا جیسے اس کا کوئی بوجھ ہی نہیں تھا۔ اس کے قدم دھند میں پڑ رہے تھے۔ وہ بادلوں میں بادل بن گیا اور ہواؤں میں ہوا۔ اس کاذہن، ذہن نہیں رہا تھا ورنہ ضرور کچھ سوچتا۔ وہ کچھ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ تھا۔ مگر کیا تھا؟ اندھیروں میں اندھیرا، روشنیوں میں روشنی یا خلاؤں میں خلا یا خلاؤں میں وجود یا پھر،
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟
’’مجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
اس نے اپنے ساتھی کاہاتھ جھٹکتے ہوئے پوچھا اور اس کا پیر دریا میں شاید کسی گڑھے میں پڑتا پڑتا بچا۔ اس کے ساتھی نے اس کا بازو فوراً پکڑکر اسے کھینچ لیا اور وہ دوسرے کنارے پر تھے۔
’’ابھی گرنے لگے تھے۔ دیکھ لیا پھر سوچ کا نتیجہ! شکر کرو میں کنارے پر تھا ورنہ اسمگلنگ وغیرہ سب رہ جاتی۔‘‘
مسعود نے مڑکر دیکھا، دریا اسی طرح بہہ رہا تھا۔ اسے جھرجھری آ گئی۔ اس نے سامنے دیکھا، افق پر کرنیں سی پھوٹ رہی تھیں اس نے گھبراکر ساتھی سے کہا، ’’سورج نکل رہا ہے۔ اب؟ اب کیا ہوگا؟‘‘
اس کے ساتھی نے روشنی کی طرف دیکھا، مسکرایا،
’’نہیں۔ یہ سورج نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہے؟‘‘
’’روشنی ہے۔‘‘
’’وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ لیکن کس چیز کی روشنی ہے؟‘‘
’’تم سونا لینے آئے ہو۔ اپنے کام سے غرض رکھو۔‘‘
اس کے ساتھی نے پہلی مرتبہ اسے ڈانٹا۔ مسعود نے اس سلسلے میں کچھ اور کہنا چاہا لیکن چپ ہو گیا کہ کہیں یہ ناراض ہو گیا تو کیا ہوگا۔
’’اب ہمیں کتنی دور جانا ہے؟‘‘
’’نزدیک ہی ہے۔ آؤ۔‘‘
وہ دونوں اب لہلہاتے کھیتوں سے گزر رہے تھے۔ مسعود بار بار مڑ کے اس روشنی کو دیکھتا جاتا تھا جو سورج کی نہیں تھی۔
یہ کس چیز کی روشنی ہے؟ ایسی روشنی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ چاند، سورج، آگ، بجلی، ان سب کی روشنیوں کا مجموعہ، پھر بھی ان سے الگ تھلگ۔ یہ روشنی کہاں پر ہے؟ اس کا منبع کیا ہے؟
اس کے ساتھی نے اس کا کاندھا ہلایا۔ اس نے روشنی سے نظریں ہٹاکر اردگرد دیکھا۔ وہ ایک کمرے میں کھڑا تھا۔
’’اٹھا لو۔ جتنا سونا اٹھا سکتے ہو۔‘‘
’’سونا! کہاں ہے؟‘‘
’’تمہارے سامنے سونا ہی سونا ہے۔ لاتعداد سونے کی اینٹیں پڑی ہیں۔‘‘
’’مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میری آنکھوں میں وہ روشنی ہے۔‘‘
مسعود نے کھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
’’تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرلو۔‘‘
’’میں آنکھ نہیں جھپک سکتا۔‘‘
’’یہ تو سانپ کی خاصیت ہوتی ہے۔‘‘
’’میں سانپ نہیں ہوں۔ مجھے اتنا بتادو یہ روشنی کس چیز کی ہے؟‘‘
اس نے پھر دروازے سے باہر روشنی کو دیکھا۔ اس کے ساتھی نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ اب مسعود کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سونے کی اینٹیں ہی اینٹیں تھیں۔
’’اب تو تمہیں سونا نظر آ رہا ہے نا؟‘‘
’’اب جب کہ میں یہاں تک پہنچ گیا ہوں، مجھے یہ روشنی بھی دیکھنے دو۔‘‘
’’تم سونا اٹھاؤ اور چلو۔‘‘
’’میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے رہ رہ کر اس روشنی کا خیال آتا رہےگا۔ دیکھو یہاں تک پہنچتے پہنچتے لہولہان ہو گیا ہوں۔ مجھے اتنا ہی بتادو یہ روشنی کس چیز کی ہے۔‘‘
مسعود نے بہت التجا بھرے لہجے میں کہا۔ اس کا ساتھی کچھ توقف کے بعد بولا، ’’یہ تم خود پہچانو۔‘‘
’’سونا؟ سونا! اتنا عجیب۔‘‘
’’ہاں۔ سونا ہی کہہ لو۔‘‘
’’کس قسم کا سونا ہے جس کی روشنی ایسی ہے!‘‘
’’جس نے بھی یہ سونا دیکھا ہے آج تک بیان نہیں کر سکا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ۔۔۔ اسے کسی طور سے بیان نہیں کیا جا سکتا، کوئی تشبیہ، کوئی تمثال اونہوں۔ مختلف لوگوں نے اس کی مختلف شکلیں بنائی ہیں۔ لیکن اصل۔۔۔‘‘
’’تو وہ تھوڑا سا یہ سونا ہی لے آتے۔ اس سونے کا ایک تولہ اس سونے کے ایک ٹن کے برابر ہوگا اور عجیب اتنا کہ کوئی بیان نہ کر سکے۔‘‘
’’ہوں۔ لیکن اسے لانے کے لیے بڑی کڑی شرطیں ہیں۔ تم چھوڑو اسے ان میں سے جتنی اینٹیں اٹھا سکتے ہو، اٹھا لو۔‘‘
’’مجھے وہاں لے چلو ورنہ میں واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم ضد کروگے۔ اس راستے سے جو بھی آتا ہے، اسی سونے کی خواہش کرتا ہے۔ تمہیں دوسرے راستے سے لاتا تو بہتر ہوتا۔‘‘
پھر اس نے مسعود کو سمجھایا، ’’دیکھو تمہیں جو کچھ چاہیے یہیں سے لے جاؤ۔‘‘
ایک ہی بارمیں یہ سونا اتنا نہیں لے جایا جا سکتا۔ مجھے یہاں چند بار اور آنا پڑےگا اور اس سونے کا تو ایک ہی تولہ کافی ہوگا۔ اگر شرطیں کڑی ہیں تو کیا ہوگا کوئی چیز ایسی نہیں جسے انسان نہ کر سکے۔ جن کا ذکر یہ کر رہا ہے آخر وہ لوگ بھی تو وہاں تک پہنچے ہی ہوں گے۔ میں یہاں تک آ گیا ہوں تو وہاں تک کیوں نہیں جا سکتا۔
اس کے ساتھی نے دونوں ہاتھوں میں سونے کی اینٹیں اٹھاکر اس کی طرف بڑھائیں، ’’یہ لو۔‘‘
’’یہ تو مٹی ہے۔ اسے جب تک یہاں سے خود نہ اٹھاؤں گا یہ سونا نہیں بنےگی۔ لیکن میں اسے چھوؤں گا بھی نہیں۔ مجھے وہاں لے جاؤ۔‘‘
اس نے بند دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھر منت سماجت کی، ’’میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘
’’بڑے ضدی ہو۔‘‘
اس نے اینٹیں واپس انبار پر پھینک دیں۔
’’یہ ضد نہیں۔ لگن ہے۔‘‘
اس نے سامنے والی، دوسری دیوار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا،
’’اب تم نے اس لگن کی خاطر اپنے آپ کو اتنا زخمی کیا ہی ہے تو چلو، تم بھی کیا یاد کروگے کہ کوئی ملا تھا۔ لیکن تم اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچوگے کہ تمہیں اس سونے تک پہنچنا ہے۔ ورنہ میں پھر آگے نکل جاؤں گا اور اب تم کو اتنی سکت نہیں ہوگی کہ بھاگ کر مجھ تک آ سکو۔‘‘
مسعود نے بے صبری سے کہا، ’’تم فکر نہ کرو۔‘‘
’’اور ہاں۔ راستے میں اتنی بڑی مصیبتیں آئیں گی کہ تم۔۔۔ لیکن نہیں، اب مجھے تمہاری قوت برداشت پر اعتماد ہو گیا ہے۔۔۔ آؤ۔‘‘
اس کے ساتھی نے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
دروازے کے سامنے تھوڑا دور ہٹ کر مرمر کی پہاڑی تھی۔ پہاڑی کی شکل مرمر کی بہت بڑی سل ایسی تھی۔ اس نے پہاڑی کے ایک حصے کے ساتھ پڑی ہوئی مرمر کی سل اٹھائی۔ سامنے ایک بہت بڑے غار کا منہ تھا۔ مسعود نے بےاختیار اس سے پوچھا، ’’اس سل کی شکل سینے ایسی کیوں ہے؟‘‘
’’دیکھا۔ میں نہ کہتا تھا۔ اب تم نے مجھ سے ایسے سوال پوچھنے شروع کر دیے ہیں۔ غار کے اندر جانے سے پہلے ایک وعدہ کرو کہ تم اب مجھ سے کوئی سوال نہیں کروگے۔ ورنہ میں تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
اور مسعود کے ذہن میں فوراً ایک اور سوال آیا کہ اس سینے پر غار کا منہ ایسا کیوں ہے جیسے کسی بہت بڑی گولی نے چھید دیا ہو۔ لیکن اس نے اس سوال کو دماغ ہی میں دبا دیا۔
غار کے اندر اس کے پیچھے داخل ہوتے ہی اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ تاریکی میں گرتا ہی چلا گیا۔ کافی دیر بعد جب اس کے پیر زمین پر لگے تو اندھیرا غار روشن ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑے صحرا میں پایا۔ صحرا کی روشنی عین سامنے سے آ رہی تھی اور اس سونے کی روشنی سے ملتی جلتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب تیزی اور چمک بہت زیادہ تھی۔ اس کا ساتھی اس روشنی کی سمت میں اس کے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ صحرا میں کتنا ہی عرصہ چلتے رہے، جیسے ازل سے۔ مسعود کے پہلے ہی زخمی پیروں میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے آبلے مل کر اتنے بڑے ہو گئے کہ پیر اب بہت بڑا آبلہ بن گئے تھے۔ پھر بھی اس کے پیچھے چلتا جا رہا تھا۔ اس نے اسے رکنے کے لیے ایک دو آوازیں بھی دی تھیں لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہ تھا۔
پیاس سے اس کے حلق میں پڑتے ہوئے کانٹوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ دور دراز تک پانی کا نشان نہیں تھا۔ اس نے ایک آبلے پر چلتے چلتے دوسرے کو نوچ کر آبلے کا پانی پینا چاہا لیکن پانی ہاتھ سے بہہ کر ریت میں جذب ہو گیا۔ اسے ریت میں چمکیلے ذرے نظر آئے۔ سونا! اس نے چمکتی آنکھوں سے روشنی کی طرف دیکھا۔ منزل دور نہیں تھی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اس کو پیاس نے پھر تنگ کیا تو اس نے دوسرے پیر کو بھی نوچ دیا۔ پانی پھر ریت میں جذب ہو گیا اور سونا۔۔۔؟ اس نے نظریں اٹھائیں۔ روشنی کے عین نیچے چمکتا ہوا پانی نظر آ رہا تھا۔ وہ پپڑی جمے ہونٹوں پر پپڑی زبان پھیرتا ہوا بڑی تیزی سے پانی کی طرف بھاگنے لگا۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ اس کے دونوں پیر پھوٹ بہے ہیں۔
وہ تیزی سے اپنے ساتھی کے قریب سے گزر گیا۔ جوں جوں وہ پانی کی طرف بڑھتا جاتا تھا، پانی کی لکیر سمٹ کر اکٹھی ہوتی جاتی تھی۔ جب وہ وہاں تک پہنچا تو وہاں پانی تھا نہ پانی کانشان اور وہ خود چمکیلی پہاڑوں میں گھرا کھڑا تھا۔ ان پہاڑیوں میں ان گنت غار سے، ایسے ہی جیسے بڑی بڑی گولیوں کی بوچھاڑ سے چھید پڑ گئے ہوں اور ہر غار سے اسی سونے کی روشنی پھوٹ رہی تھی اور تیز اور چمکیلی۔ وہ ایک غار کے سامنے بیٹھ کر سستانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ساتھی بھی پہنچ گیا۔
’’تم نے بہت جلدی کی۔‘‘
’’مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘
’’پیاس کو مارو۔‘‘
’’مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘
’’اسے بھی مارو۔ اٹھو۔ ہمیں سونے تک پہنچنا ہے۔‘‘
مسعود نے بڑی مشکل سے اٹھتے ہوئے نگاہوں سے پوچھا۔ کس غار میں؟
’’سبھی سونے تک جاتی ہیں، کسی ایک میں چلو۔‘‘
وہ دونوں قریبی غار میں داخل ہو گئے۔ اندر بےحد روشنی تھی۔ مسعود کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جب اس نے پوری توجہ سے غور کیا تو اس نے دیکھا کہ یہ روشنی بڑے پتوں سے آ رہی ہے۔ صرف گیارہ پتوں سے۔ باقی تمام پتے سبز تھے۔ یہ روشنی کچھ اس قسم کی تھی جو اس نے دریاپار کرنے کے وقت سے لے کر صحرا پار کرتے تک دیکھی تھی۔ لیکن اب یہ بہت تیز تھی، بہت ہی تیز۔
سارے پتے سونے کے کیوں نہیں ہیں صرف گیارہ پتوں سے روشنی کیوں آ رہی ہے؟ اور درخت کا تنا تو عام درختوں جیسا ہی ہے۔
سوچتے ہوئے جب اس کی آنکھیں اس کی روشنی سے کچھ کچھ مانوس ہو گئیں تو اس نے محسوس کیا کہ اس درخت کے نیچے کوئی بیٹھا ہے اور اس کا جسم بالکل ڈھانچہ ساہے۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’تم نے پھر سوال کیا۔‘‘
’’صرف اس کا جواب دے دو۔ اگر کوئی اور سوال کیا تو بیشک میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘
’’اب تمہارا ساتھ تو میں کیا ہی چھوڑوں گا۔‘‘
’’تو؟ کون ہے یہ؟‘‘
’’اسمگلر ہی ہے۔‘‘
’’اسمگلر؟‘‘
’’جیسے میں اور تم۔‘‘
’’میں، میں ہوں اور تم، تم ہو۔ یہ کون ہے؟‘‘
’’یہ ہم دونوں ہیں۔‘‘
’’ہم دونوں کا نام؟‘‘
’’اسمگلر۔‘‘
مسعود نے اس پنجر پر غور کیا تو درخت کے نیچے وہ خود اپنے سامنے بیٹھا تھا۔
’’چلو۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’میرے پیر نہیں ہیں۔ مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔‘‘
’’تمہیں اٹھنا پڑےگا۔‘‘
’’میرے جسم میں جان نہیں ہے۔ مجھ سے ہلا نہیں جاتا۔‘‘
’’تمہیں چلنا پڑےگا۔‘‘
’’لیکن ہم سونے تک کب پہنچیں گے۔ مجھے سونا چاہیے۔ سونا کہاں ہے؟‘‘
’’بس ذرا آگے۔‘‘
مسعود گھٹنوں کے بل چلنے لگا۔
’’یہ اور اسی قسم کے دوسرے غاروں میں سب لوگ سونا لینے آئے تھے لیکن۔۔۔‘‘
مسعود کی زبان دانتوں میں آ گئی۔ اس کے کان بند ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں بہت بڑی قندیل تھی۔ اس قندیل میں وہ سونا تھا اور اس سونے سے لاتعداد رنگوں کی شعائیں نکل رہی تھیں۔ ہر شعاع کے انگنت رنگ تھے اور پھر ان لاتعداد رنگوں کے ان گنت رنگ۔ ان رنگوں کا ایک ایک قطرہ چاند، سورج، آگ اور بجلی کے حلق میں ٹپک رہا تھا۔
کوئی تو ستر ہزار سال کے بعد پہنچتا ہے اور کوئی پلک کی جھپکی میں۔
مسعود نے سوچا اور ہاتھ بڑھاکر بڑی بے صبری سے سونے کی طرف بڑھا۔ اس کے ساتھی نے اسے کندھے سے تھام لیا۔ مسعود نے پلٹ کر اس سے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اس کوا سمگل کرنے کے لیے بڑی شرطیں ہیں۔‘‘
’’کیا ہیں؟ میں انہیں پورا کروں گا۔‘‘
’’تمہیں اپنی زبان اور دونوں ہاتھ کٹوانے پڑیں گے۔‘‘
’’لیکن بڑکے پتے سونے کے ہیں اور اس کے نیچے۔۔۔‘‘
’’وہ سونا نہیں، چمک ہے۔ وہ اور دوسرے غاروں کے سب ہی باسی اس شرط کو سن کر صرف چمک لے کر لوٹ گئے تھے اور یہ سونا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ شرط کیوں ہے؟‘‘
’’زبان کا کام ہے بولنا اور ہاتھوں کا کام ہے لینا دینا۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ سونا کسی کو دوں گا نہ اس کے بارے میں بتاؤں گا۔۔۔‘‘
’’تو پھر اس کو لے جانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ میں تم کو اسی لیے یہاں لانا نہیں چاہتا تھا کہ تم سونا تو لے جا نہیں سکتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو سچ بیان کر نہیں سکتے۔ زبان تو بولےگی ہی۔‘‘
مسعود کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اتنی مصیبتیں جھیل کر یہاں پہنچنے کے بعد کس طرح خالی ہاتھ لوٹ سکتا ہے۔
’’تو پھر؟‘‘
’’تم ذرا آرام کر لو، پھر واپس چلتے ہیں۔‘‘
مسعود نے بیٹھتے ہوئے کہا، ’’اگر میں سونا لے کر بھاگ جاؤں۔۔۔؟‘‘
اس کا ساتھی ہنسا،
’’تو سرحد پر مارے جاؤگے۔‘‘
اس نے سینے سے چادر ہٹائی، اس پر گولیوں کے نشان تھے۔
اسمگلنگ میں ہر طرح کے خطرات پیش آتے ہیں اور اگر اس کو گولیاں لگ گئی ہیں تو ضروری نہیں کہ میں بھی نشانہ بنوں۔ اس سے ضرور کوئی غلطی ہو گئی ہوگی اور پھر خطرے کے بغیر زندگی کا مزہ ہی کیا ہے۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’سستا لو۔ تمہاری جان پہلے ہی آدھی رہ گئی ہے۔‘‘
مسعود وہیں لیٹ گیا اور آنکھیں موند کر سونا اڑانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے خراٹوں کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھاکر دیکھا، اس کا ساتھی بےخبر سو رہا تھا۔
اب موقع ہے اٹھ۔ قندیل سے جتنا سونا نکال سکتے ہو نکال کر بھاگ جاؤ۔
لیکن راستہ؟ اس سونے کی روشنی میں ڈھونڈنا نہیں پڑےگا۔ میں اس کو ایسا غچہ دوں گا کہ ساری عمر یاد رکھےگا۔
اس نے اپنا سانس بھی روک لیا اور اپنے ساتھی پر نظریں جماکر اٹھ کھڑا ہوا۔
قندیل کا دروازہ کھولتے ہی اس کے اردگرد بڑی گہری دھند چھا گئی جس میں شعائیں معلق ہو گئیں۔ اس کے کانپتے ہاتھوں میں جتنی ڈلیاں آئیں، لےکر بھاگنے لگا۔ زمین بڑے زور زور سے ہلنے لگی اور چاروں طرف آوازوں کا شور اٹھا۔ پکڑو۔۔۔ دوڑو۔۔۔ جانے نہ پائے۔۔۔ چور۔۔۔ چور۔۔۔ اس نے مٹھیوں میں سونا اور بھی دبا لیا اور اندھا دھند بھاگنے لگا۔ بھاگو۔۔۔ دوڑو۔۔۔ چور۔۔۔ چور۔ وہ بھاگتا ہی جا رہا تھا۔ وہ خوفناک آوازیں اس کا پیچھاکر رہی تھیں۔
اس نے سونے کی روشنی میں راستہ پلک جھپکنے میں طے کر لیا۔ سامنے دریا تھا۔ دو قدم کے فاصلے پر آوازیں اور بھی قریب ہو گئی تھیں۔ جیسے اس کے بالکل ساتھ۔
آنکھیں بند کرکے دریا میں چھلانگ لگاتے ہی جانے کہاں سے گولیوں کی بوچھاڑ آئی۔ اس کا سینہ چھلنی چھلنی ہو گیا۔ وہ خوفناک آوازیں قہقہوں میں ڈھل گئیں۔ اس کے ہاتھوں سے سونا گر گیا اور وہ خالی ہاتھوں سے سینے کو سہلاتا ہوا دریا کی تہہ میں اترتا ہی چلا گیا۔ سسکتا ہوا۔
اس کی سسکیاں سن کر روشن جو بوریا نچوڑنے کے لیے باہر جا رہا تھا اور جس کا ایک پیر دہلیز سے اندر تھا اور دوسرا باہر جاتے جاتے پلٹ آیا، ’’کیا ہوا ڈاکٹر صاحب! ابھی تو آپ ٹھیک تھے اور اب۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں۔ کچھ نہیں روشن۔‘‘
اس کے ہاتھ اپنے سینے کے بجائے سامنے پڑی ہوئی لاش کے سینے کو سہلا رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.