سوکھے ساون
کہانی کی کہانی
کم عمری میں بیوہ ہونے والی ایک استانی کی نفسیات پر مبنی کہانی ہے۔ اس کی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے، لیکن اس کے خوبصورتی کا عالم یہ ہے کہ نہ صرف اس کی شاگردہ اس کے حسن کی تعریف کرتی ہے بلکہ خان صاحب کا رشتہ بھی آتا ہے۔ ایک دن رات میں وہ بارش میں برہنہ ہو کر نہاتی ہے اور خوب رقص کرتی ہے اور پھر تھک کر پھولوں کا ہار سرہانے رکھ کر سو جاتی ہے۔
اور جب اسے محسوس ہوا کہ شرم کے مارے اس کا ماتھا بھیگ چلا ہے تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ ماتھا خشک تھا۔؛
کمرے کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا اور ادھ کھلے دروازے میں سے دالان اسے دھوپ سے بھرا نظر آیا۔۔۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھا چاہتی تھی کہ اسے یاد آیا۔۔۔ ارے، آج تو اتوار ہے۔۔۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے انگڑائی لی، پھر ہاتھ بڑھاکر کھڑکی کی کنڈی کھول دی۔۔۔ اس کے منہ پر لو کا ایک تھپیڑا پڑا۔۔۔ سنسان گلی میں دھوپ ننگی ہوکر ناچ رہی تھی۔
اس نے کھڑکی بند کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سامنے کے گھر کا دروازہ کھلا اور جامع مسجد کے پیش امام صاحب اٹنگے پاجامے اور گاڑھے کے کرتے میں ملبوس اور گاڑھے ہی کی گول ٹوپی پر بےبالوں کی تولیہ ڈالے، جوان کی گردن کی پشت پر کنپٹیوں کو بھی ڈھانکے ہوئے تھی اور جس کے دو کنارے انہوں نے اپنے دانتوں کے بیچ دبا رکھے تھے، باہر آئے اور گلی کے موڑ کی طرف بڑھ گئے۔ ظہر پڑھانے جا رہے ہوں گے۔۔۔ اس نے کھڑکی بند کرتے ہوئے سوچا۔ اتنی دیر ہو گئی۔۔۔ اس نے کروٹ بدل کر ٹائم پیس پر نظر ڈالی جو سرہانے کے پاس ایک تپائی پر رکھی ہوئی تھی۔
ساڑھے گیارہ۔۔۔ زیادہ دیر تو نہیں ہوئی، پھر بھی اب اٹھنا چاہئے۔۔۔ مگر وہ اٹھی نہیں، بلکہ چت ہوکر بیک وقت چھت کی دھنیاں گننے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرنے لگی کہ وہ اتنی گرمی میں رات کو آنگن کی بجائے کمرے میں کیوں سوئی۔
اسٹیشن سے لوٹتے لوٹتے کوئی دو بج گئے تھے۔۔۔ آنگن میں سوتی تو نیند خراب ہوتی کہ صبح ہی صبح سورج کی کرنیں آنکھوں میں گھس جاتیں۔۔۔ اور پھر آج جلدی اٹھنا بھی نہ تھا، اس لیے۔۔۔ ادھر اسے جواب ملا اور ادھر اس کی نظریں چھٹی اور آخری دھنی پر سے ہٹ کر اس ٹانگ پر پڑیں جس پر سے سوتے میں غرارے کا پائنچہ ہٹ گیا تھا اور جس کی گیہویں رنگت کی سڈول پنڈلی پر یہاں وہاں کالے بال بڑھ آئے تھے۔ اس نے پنڈلی کے بالوں پر ہاتھ پھیرا، پھر پائنچے کو تھوڑا سا اور اوپر کھسکایا۔۔۔ ران صاف تھی۔ اس نے دوسرے پائنچے کو بھی اسی قدر اوپر کھسکایا۔۔۔ دوسری پنڈلی پر بھی بال بڑھ آئے تھے مگر ران دوسری بھی صاف تھی۔ اس نے جلدی سے پائنچوں سے دونوں رانوں اور پنڈلیوں کو ٹخنوں تک ڈھنکا، جیسے شادی سے پہلے اپنے باپ کی موجودگی میں وہ جلدی سے دوپٹے سے سر اور سینہ ڈھانک لیا کرتی تھی۔ بنانا چاہئیں۔۔۔ اور اوندھی ہوکر اس نے ٹانگیں پھیلا دیں۔
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
بوا کھول دیں گی۔۔۔ پھر دستک ہوئی اور اسے یاد آیا کہ بوا تو کل شام چھٹی لے کر گئی تھیں۔ وہ جلدی سے اٹھی، پیر چپل میں ڈالے، دروازے کی طرف بڑھی، واپس آئی، سرہانے سےاٹھاکر دوپٹہ گلے میں ڈالا۔ تپتا پکا دالان اور اس سے بھی زیادہ تپتا کچا آنگن پار کرکے باہر کے دروازے پر پہنچی۔ کواڑ کی ایک چوڑی درز میں سے جھانک کر دیکھا اور پھر کنڈی کھول دی۔ بائیں کولھے پر ٹوکری رکھے، جس میں سے بانس کی جھاڑو کی موٹھ جھانک رہی تھی، مہترانی اندر آئی اور ’’سلام بی بی جی‘‘ کہہ کر پاخانے میں گھس گئی۔ اس نے سلام کا جواب سلام سے دیا اور کواڑ بھیڑ کر باورچی خانے میں چلی گئی اور اسٹوو پر چائے بنانے لگی۔
’’سنو دلاری!‘‘ اس نے وہیں سے آواز دی۔
’’جی بی بی جی!‘‘ مہترانی نے بھی وہیں سے جواب دیا۔
’’فنائل سے دھونا۔‘‘
’’اچھا بی بی جی۔‘‘
واقعی دلاری رہی ہوگی۔۔۔! بالکل اسم بامسمی۔۔۔! رنگت ابھی تک کیسی صاف ہے۔۔۔ اور آنکھیں ہزاروں میں ایک۔ کسی طرف سے بھنگن نہیں لگتی۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ امان آباد کے کوئی سید تھے، ان کا نطفہ ہے۔۔۔ وہ مسکرائی۔ جب انہوں نے بتایا تھا کہ دلاری کا نام پلیٹ فارم بھی ہے تو ہنسی کے مارے اس کا برا حال ہو گیا تھا۔ محلے کا جو بھی لڑکا بالغ ہوتا تھا، پہلے اسی پر ہاتھ صاف کرتا تھا، جیسے چھوٹے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں پر ہر کوئی بغیر ٹکٹ کے چلا آتا ہے۔۔۔ نہیں، ہنسی کے مارے برا حال تو میرا اس لیے ہوا تھا کہ انہوں نے گدگدی کی تھی اور گدگدی انہوں نے اس لیے کی تھی کہ میں نے شرارت سے پوچھا تھا، کیا آپ نے بھی چہل قدمی کی تھی پلیٹ فارم پر۔۔۔ ہائے کتنی گدگدی کیا کرتے تھے۔
’’رام دلاری!‘‘
’’جی بی بی جی!‘‘
’’چائے پیوگی؟‘‘ اور مہترانی کا جواب آنے سے پہلے ہی اس نے ایک آب خورے میں چائے انڈیل دی۔
’’پلیو تو کاہے ناپئیں!‘‘ دلاری آکر باورچی خانے کے دروازے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اس نے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی سے کجھڑ کا کنارہ پکڑ کر کھجڑ مہترانی کی طرف بڑھایا۔ دلاری کھجڑلے کر باورچی خانے کی دیوار کے اس حصے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی، جو ابھی تک دھوپ سے بچا ہوا تھا اور پھونک پھونک کر سرڑ سرڑ چائے پینے لگی۔ اس نے ایک پیڑھی، جس کے پائے لال اور پیلے رنگے ہوئے تھے، پیر سے کھسکائی اور اس پر باورچی خانے کے دروازے میں بیٹھ گئی۔
’’کوئی خبر ملی؟‘‘ اس نے پسینے سے بھیگے ململ کے سپید کرتے کو چٹکی سے پکڑ کر اپنے بوجھل سینے سے الگ کرتے ہوئے اور چائے کا ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتار کر پوچھا۔
’’کس کی؟‘‘ دلاری نے کھجڑ زمین پر رکھ کر جوابی سوال کیا۔
’’رام بھروسے کی اور کس کی!‘‘
’’اب کا کھبر ایہے اتے دنوں باد!‘‘ مہترانی نے بڑی ناامیدی سے کہا، مگر دوسرے ہی لمحے اسے غصہ آ گیا، ’’اسی کی۔۔۔ کے بھیتر گھسا بیٹھا ہوئیے جاکو بھگا کر لیگوا ہے۔۔۔‘‘ اور اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو دلاری نے رام بھروسے کو ایک موٹی سی گالی بھی دے ڈالی، ’’داری جا رکا۔۔۔‘‘ وہ ’’ہائیں ہائیں‘‘ کرتی رہ گئی۔
’’ماپھ کریو۔‘‘ کہہ کر مہترانی نے جلدی سے کجھڑ خالی کر دیا اور کھڑی ہو گئی، ’’اب چلت ہیں بی بی جی، کئیوں گھر اور کمانا ہیں ابھی۔‘‘ اس نے پاخانے میں سے اٹھاکر ٹوکری بائیں کولہے پر رکھ لی اور دروازے کی طرف چلی، مگر رک گئی، ’’بٹیا گئیں؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’اب پھر کب ایہیں؟‘‘
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘ اس نے کواڑ کی طرف جاتے ہوئے کہا اور پھر مہترانی کے جانے کے بعد کنڈی لگاکر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جھاڑ پونچھ اور نہانے دھونے سےفارغ ہو کر اس نے کپڑے بدلے، پھر باورچی خانے کی چوکھٹ سے لٹکے ہوئے چھینکے میں سے اتار کر دو پراٹھے اور تین کباب کھائے، جو اس نے اس ناشتے میں سے بچالیے تھے، جو رات بیٹی اور داماد کے سفر کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ کنکر کی سرمئی رنگ کی صراحی سے دوکٹورے ٹھنڈا پانی پینے کے بعد زینہ چڑھ کر وہ برساتی میں چلی گئی۔ برساتی بھٹی بنی ہوئی تھی۔۔۔ تین کھڑکیاں تھیں، ایک پچھواڑے کی گلی کی طرف اور دو سامنے آنگن کی طرف۔۔۔ اس نے تینوں کھڑکیاں کھول دیں۔ اسے پسینے میں نہائے بدن پر لو کی گرمی کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔۔۔ وہ گنگنانے لگی، گنگناتی رہی اور ادھر ادھر بکھری چیزوں کو اٹھا اٹھاکر سلیقے سے ان کی جگہ رکھتی رہی۔
سب سے آخر میں اس نے نواڑ کے ان دو پلنگوں کا رخ کیا جو برساتی کے بیچوں بیچ ایک دوسرے سے ملے بچھے ہوئے تھے۔ ایک کا بستر جوں کا توں تھا۔ لیکن دوسرے کا شکن درشکن گنجلا ہوا تھا۔۔۔ اس بستر کی دری ایک طرف سے اتنی ہٹ گئی تھی کہ پٹی اور نواڑ نظر آ رہی تھی، دوسری طرف دری اور اس پر بچھی ہوئی چادر اتنی لٹک گئی تھی کہ فرش کو چھو رہی تھی، اوڑھنے کی مہین چادر اوڑھی نہیں گئی تھی اور ویسی ہی تہہ کی ہوئی پنتیانے رکھی ہوئی تھی۔۔۔ دونوں بستروں کے تکیوں کے غلافوں پر ہرے رنگ کے بیل بوٹے کڑھے ہوئے تھے۔ گنجلے بستر کا تکیہ اپنی جگہ پر تھا سرہانے، لیکن دوسرے بستر کا تکیہ کھسک کر گنجلے بستر پر آ گیا تھا۔
اسے اس تکیے کی یہ بےقاعدگی پسند نہ آئی۔ اس نے اسے اٹھاکر دوسرے بستر کے سرہانے پٹخ سا دیا، لیکن فوراً ہی اس نے اس پر ایک ہلکا سا ہاتھ بھی پھیرا۔ جیسے بزرگ شفقت سے بچوں کے سر پر پھیرتے ہیں۔ پھر اس نے جھک کر گنجلی ہوئی چادر کا جائزہ لیا اور مطمئن ہوکر دونوں چادروں، تکیے اور دری کو اٹھا کر ساتھ والے پلنگ پر رکھا اور باری باری بچھانے کی چادر، اوڑھنے کی چادر اور دری کو جھاڑ کر دوبارہ بستر لگایا۔۔۔ وہ بستر لگارہی تھی تو اسے پلنگ کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑا نظر آیا تھا۔۔۔ اس نے کپڑے کو پیر سے کھسکا کر باہر نکلا۔۔۔ اٹھا کر غور سے دیکھا۔ زیر لب ’’نہیں‘‘ کہا اور ٹین کی اس ٹوکری میں ڈال دیا جو پچھواڑے کی کھڑکی کے نیچے رکھی ہوئی تھی اور جس میں بیلے کے دو مرجھائے ہوئے ہار پہلےسے پڑے تھے۔ پھر وہ کھڑکی بند کر کے گنگناتی ہوئی نیچے چلی گئی۔
پھر آنے والوں کا جیسے تانتا بندھ گیا۔ سب سے پہلے بوا آئیں، جن کی آمد کی اسے توقع نہیں تھی کیونکہ وہ پیر کا کہہ کے گئی تھیں۔ بوا نے چادر اتار کر اس سے گردن اور ماتھے کا پسینہ پونچھا اور اس کی چارپائی پر پائنتی کی طرف بیٹھ کر اتوار ہی کو آجانے کی وجہ بیان کی، ان کی یہ فکر تھی کہ ’’ہماری منی۔۔۔ بٹیا اور ان کے دولہا کے جانے کے بعد۔۔۔ بالکل اکیلی ہوگی۔۔۔‘‘ اور ’’بھائیں بھائیں کرتا گھر کھانے کو دوڑ رہا ہوگا۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے ’’بٹیا اور ان کے دولہا‘‘ کی روانگی کے بارے میں تابڑ توڑ کئی سوال کیے۔ جواب میں اس نے انہیں بتایا، ’’گاڑی لیٹ تھی، پورے ایک گھنٹے۔۔۔ بھیڑ اچھی خاصی تھی، پھر بھی ڈبے میں گھس گئے تھے۔۔۔ کاس گنج کے بعد شاید جگہ مل گئی ہوگی۔۔۔‘‘
’’رات بھر جاگے ہوں گے بچے!‘‘
’’نہیں وہ کھانا کھانے کے بعد اوپر برساتی میں چلے گئے تھے، تھوڑا سونے۔‘‘ مسکراہٹ کی ایک جھلک اس کی آنکھوں میں نظر آئی۔ پھر اس نے بوا سے تابڑ توڑ کئی سوال کیے، جن کے جواب میں بوا نے بتایا کہ فجلورات بھر ہائے ہائے کرتا رہا، بخار تھا کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ کیا کرتیں۔ مجبوری تھی۔ صبح داگدر کو دکھانا پڑا، ’’میعادی بخار بتایا ہے اور لال دوا دی ہے۔۔۔ پورا ایک روپیہ لیا۔۔۔ نیستی میں آٹا گیلا۔۔۔ ہاں، بخار اب کم ہے۔۔۔ داماد ملا بھی تو نکما۔۔۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا۔۔۔ شبراتن پورے دنوں سے ہے اور وہ بخار چڑھا کے بیٹھا ہے!‘‘
وہ ہنس دی۔۔۔ بوا بھی کمال کرتی ہیں۔۔۔ فجلو نے کیا منت مانگی تھی کہ بخار چڑھے۔۔۔ پیسوں کی بوا فکر نہ کریں۔۔۔ دوا دارو پر جو خرچہ آئےگا، وہ وہ دےگی۔۔۔ نکما سہی، پر ایک مرد تو ہے گھر میں۔ تب بوا نے اسے بتایا کہ راستے میں سبزی والا مل گیا تھا، اس لیے انہوں نے کچھ ترکاریاں خرید لیں اور ادا میاں کی دکان کھلی تھی، اس لیے آدھ سیر گوشت بھی لے لیا، ’’فجلو تو گیا کام سے کچھ دنوں کے واسطے۔۔۔ سوچا، میں ہی کچھ لیتی چلوں، ورنہ پکےگا کیا گھر میں!‘‘
’’اچھا کیا۔۔۔‘‘ اس نے تکیے کے نیچے سے بٹوہ نکالا، ’’کتنے پیسے ہوئے؟‘‘
’’اے ہے، ایسی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔ لے لوں گی۔‘‘ اور وہ اٹھ کھڑی ہوئیں، مگر جب اس نے اصرار کیا تو انہوں نے انگلیوں پر حساب کرکے بتایا، ’’ترکاریاں ساڑھے سات آنے کی اور ساڑھے چار آنے کا گوشت۔۔۔ کل گیارہ آنے ہوئے۔۔۔ نہیں، بارہ آنے۔‘‘ اس نے بٹوے سے ایک روپے کا ایک نوٹ نکال کر ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے چادر کے کونے کی گانٹھ کھول کر اس میں سے ایک چونی نکالی، حساب بے باق کیا اور چادر اٹھا کر اپنی کوٹھری میں چلی گئیں جو کمرے کے بالمقابل دالان کے دوسرے سرے پر تھی۔
پھر بہشتی کا بیٹا آیا، کمر پر لال کپڑا لپیٹے اور اس پر مشک لادے۔ اس نے اس سے کمرے کے دروازے کے ایک پٹ کی آڑ سے پوچھا کہ خیراتی کیوں نہیں آیا۔
’’ابا کی ناف ٹل گئی ہے!‘‘ اور جب وہ پھر مشک بھرنے مسجد گیا تو بوا نے اس سے کہا، ’’اے ہے، بلاقی سے کیا پردہ۔۔۔! جیادا سے جیادا اپنی بٹیا کی امر کا ہوگا!‘‘ اس نے بوا کے اعتراض کو یکسر مسترد کر دیا، ’’پورا مرد لگتا ہے۔۔۔! کیا ڈیل ڈول نکالا ہے لڑکے نے!‘‘ جب بلاقی دوسری مشک کا پانی غسل خانے کے ایک مٹکے اور باورچی خانے کی ٹنکی میں انڈیل کر چلا گیا تب بوا کو خیال آیا کہ ایک مشک اور منگوالی جاتی تو آنگن میں چھڑکاؤ بھی ہو جاتا۔ اس نے دالان میں کھڑے ہوکر، جہاں سے دھوپ اب سرک چلی تھی، آسمان کی طرف دیکھا اور پنکھا جھلتے ہوئے کہا، ’’بارش ہوگی۔۔۔‘‘ حالانکہ آسمان بالکل صاف تھا۔ ہاں، لالہ جیون لال کے جیون نواس کے پیپل کے پتے اب تالیاں نہیں بجا رہے تھے اور ردی کاغذ کا ایک ٹکڑا اتنی دیر سے وہیں زینے کے نیچے رکھی گھڑونچی کے ایک پائے کے پاس بےسدھ پڑا تھا۔
’’کیا پکا رہی ہو؟‘‘ اس نے دالان کے ایک کھمبے سے ٹیک لگاکر پوچھا، جہاں سے باورچی خانے کے اندر کا منظر نظر آ رہا تھا۔ بوا مٹی کے کونڈے میں آٹا گوندھ رہی تھیں۔۔۔ انہوں نے کہا، ’’آلو گوشت۔‘‘
’’روٹیاں زیادہ ڈال لینا، شبراتن اور بچوں کے لیے۔۔۔ اور ہاں، رات کے کچھ کباب بچے رکھے ہیں، وہ بھی لیتی جانا۔‘‘ بوانے اسے پیار اور احسان بھری نطروں سے دیکھا، ’’چائے بناؤں؟‘‘
’’بناؤ۔۔۔‘‘ وہ دالان میں بچھے تخت پر پھیلا تولیہ اٹھا کر غسل خانے کی طرف چل دی، ’’تم پانی رکھو، میں اتنے میں نہائے لیتی ہوں۔۔۔ بڑا حبس ہے!‘‘
پھر پورن مالی آیا، ’’ہار بیلے کے!‘‘ وہ جوڑے میں بال پن اڑس رہی تھی، ’’کل ہی کہہ دیا تھا، آج سے مت دینا۔ بوا۔ اس سے کہہ دو، نہیں چاہئیں۔‘‘ بوا پھر بھی موتیے کی ادھ کھلی کلیوں کے دوہار لے آئیں، ’’لو!‘‘ اور ہار انہوں نے اس کی طرف بڑھا دیے۔
’’میں کیا کروں گی ان کا!‘‘ بوا کی بوڑھی آنکھوں کو شاید وہ تغیر نظر نہ آیا جو ہاروں کی پیش کش نے اس کے چہرے پر پیدا کر دیا تھا۔ ورنہ وہ نہ کہتیں، ’’جوڑے میں لپیٹ لو۔۔۔ اچھے لگیں گے!‘‘ اس نے ہار بوا کے ہاتھ سے لے لیےاور جب وہ واپس باورچی خانے میں چلی گئیں تو اس نے ہاروں کا گچھا بناکر اسے بس ایک بار سونگھا اور پھر اس گھڑے کی گردن میں ڈال دیا جو زینے کے نیچے گھڑونچی پر رکھا ہوا تھا۔
اور جب ثریا آئی تو سارے گھر میں ٹکاری آموں کی خوشبو پھیل گئی۔ ثریا نےآموں سے بھری ٹوکری تخت پر تکھ کر اسے بتایا کہ ’’ہمارے‘‘قائم گنج کے باغ کے ہیں، ’’ ابا لائے ہیں۔۔۔ بھیا کو کہیں جانا تھا کام سے، وہ نہ آ سکے۔ اس لیے ابا چھوڑنے آئے ہیں۔۔۔ ٹھہریں گے نہیں۔۔۔ انہیں وکیل صاحب سے ملنے جانا ہے۔‘‘ اتنے میں بوا بھی باہر کا دروازہ بند کر کے آگئیں، ’’خاں صاحب تھے۔ سلام کر رئے تھے۔‘‘
’’و علیکم‘‘ کہہ کر وہ ثریا کے ساتھ بیٹھک میں چلی گئی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ لڑکی کے نصاب میں شامل ایک غزل کے اشعار کے معنی سمجھاتی رہی اور ثریا اس کی آواز پر کان لگائے اور رہ رہ کر اس کے چہرے پر نظریں جماکر، کبھی اسے اور کبھی اپنے آپ کو پنکھا جھلتی رہی، اس ہاتھ سے اور اس ہاتھ سے اور جب وہ اس شعر پر پہنچی،
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
تو اس سے نہ رہا گیا، ’’یہ تم مجھے لگاتار گھورے کیوں جا رہی ہو؟‘‘ ثریا سٹپٹاسی گئی۔۔۔ پنکھا اس کے ہاتھ سے چھٹ کر گر گیا۔۔۔ پنکھے کو فرش پر سے اٹھانے میں جتنا وقت وہ لگا سکتی تھی، اس نے لگایا اور کہا، ’’برا نہ مانیں تو کہوں استانی جی!‘‘ وہ چپ رہی۔ ثریا نے اس کی خاموشی کو ’’ہاں‘‘ سمجھ کر، بڑی ہمت کر کے، مگر جھجکے بنا، کہہ ہی دیا، ’’آج آپ بڑی پیاری لگ رہی ہیں!‘‘ اس کے بدن کے خون نے اس کے گالوں پر ہلہ بول دیا۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے، سو جو بھی اس کی زبان پر آیا، اس نے کہہ دیا، ’’چل ہٹ لڑکی۔۔۔ بڑوں سے مذاق نہیں کرتے!‘‘
’’آپ جتنا چاہیں، ڈانٹ لیں۔۔۔ پر اللہ قسم استانی جی، آج آپ واقعی بہت اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔ سچی۔۔۔! روز سے زیادہ!‘‘
’’اچھا، اچھا‘‘ کہہ کر وہ پھر غزل کی طرف رجوع ہوگئی۔ جب سبق ختم ہو گیا تو دونوں باہر آنگن میں آئیں۔۔۔ اس نے بوا سے کہا کہ وہ ثریا کو اس کے گھر تک چھوڑ آئیں اور جب بوا چادر لینے اپنی کوٹھری میں گئیں تو اس نے لڑکی کا سر اپنے سینے سے لگاکر اس پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’آموں کا شکریہ!‘‘
سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا، مگر اب نظر بھی نہیں آ رہا تھا، بس جیون نواس کے پیپل کی پھنگنی ابھی تک اس کی ڈوبتی سنہری روشنی کی زد میں تھی۔ تپش کم ہو گئی تھی، پر حبس کا وہی عالم تھا۔ وہ تخت کھینچ کر دالان سے آنگن میں لائی اور اس پر پیر لٹکا کر بیٹھ گئی۔ جب بوا واپس آگئیں تو اس نے ان سے کہا کہ وہ نکل لیں، ورنہ پھر اندھیرا ہو جائےگا۔ بوا نے باورچی خانے میں کھانا باندھتے ہوئے اس سے کھانے کو پوچھا تو اس نے کہا، ’’نہیں، ابھی بھوک نہیں لگی۔۔۔ ہاں، کل میں ساڑھے تین سے پہلے نہیں لوٹوں گی اسکول سے۔۔۔ اس سے پہلے نہ آنا۔۔۔ اور سنو، بچوں کے لیے کچھ آم بھی رکھ لو۔‘‘
’’خاں صاحب کے اپنے باغ کے ہیں۔‘‘ بوا نے بھگونے میں بھیگے ہوئے آموں میں سے چار آم اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں!‘‘
’’بڑے بھلے آدمی ہیں!‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور کیا شکل دی ہے الا نے!‘‘
’’ہوں!‘‘
’’الا جنت نصیب کرے۔۔۔ بیوی بھی بڑی نیک تھیں ان کی!‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اب پھر شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
وہ مسکرائی، ’’تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’ثریا کو چھوڑنے گئی تھی ابی تو ان کی اماں کو سلام کرنے چلی گئی اندر۔۔۔ انوں نے بتایا۔‘‘
’’پھر کیا ہے۔۔۔ کہیں کر دو بات پکی!‘‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر بوا کی آواز آئی، ’’بات تو میں ابی پکی کردوں، بس کسی کے ’ہاں‘ کرنے کی دیر ہے۔‘‘ تب اسے احساس ہوا کہ جو کانٹا وہ بوا کے چبھو رہی تھی، وہ خود اس کے چبھ گیا ہے۔
وہ تیزی سے اٹھی، باورچی خانے میں گئی، نعمت خانے کے اوپر رکھی ہوئی ماچس کی ڈبیا اٹھا کر واپس آنگن میں آئی، دالان میں ٹنگی ہوئی لالٹین اتاری، جلائی، حالانکہ اندھیرا ابھی دور تھا، ٹانگی اور ڈبیا رکھنے پھر باورچی خانے میں جا رہی تھی کہ گلی کے موڑ کی طرف سے سائیں بابا کی گرجدار آواز آئی، ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائےگا جب لاد چلےگا بنجارہ۔‘‘ بوا یہ کہتی اٹھیں کہ ’’ان کی جمیرات آج ہوئی ہے۔‘‘ اور آٹے کے کنستر میں سے ایک کٹورا آٹا نکال کر دروازے کی طرف چلیں، مگر اس نے کٹورا ان کے ہاتھ سے لے لیا۔
’’جو دے اس کا بھی بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔‘‘ سائیں بابا نے دروازے کے سامنے رک کر صدا لگائی۔ اس نے دروازے کا ایک پٹ تھوڑا سا کھول کر کٹورا ان کی طرف بڑھا دیا اور جب انہوں نے آٹا اپنے کشکول میں ڈال کر کٹورا اسے واپس کیا تو اس نے پٹ تھوڑا سا اور کھول دیا اور کالے پردے کے پیچھے سے پوچھا، ’’بابا آپ کو آم پسند ہیں؟‘‘ سائیں بابا نے جواب دیا، ’’بیٹی، آم کسے اچھے نہیں لگتے!‘‘
وہ تیز تیز قدموں سے گئی، دو آم لےکر لوٹی، پٹ پورا کھول کر اور سائیں بابا کے سامنے بالکل بے پردہ کھڑی ہوکر اس نے وہ آم دونوں ہاتھوں میں رکھ کر انہیں ایسے پیش کیے جیسے کسی کو نذرانہ پیش کر رہی ہو۔ سائیں بابا نے کوشش کرتے ہوئے کہ اس کے چہرے پر ان کی نظر نہ پڑے، آم اس سلیقے سے اٹھائے کہ ان کا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے ذرا بھی مس نہ ہوا اور وہ اسے دعائیں دیتے ہوئےگے بڑھ گئے۔ وہ چند لمحے کھلے دروازے میں کھڑی ان کے لمبے تڑنگے چوڑے چکلے جسم کو گلی کی تنگی کا مذاق اڑاتے دیکھتی رہی۔ وہ صحن میں واپس آئی تو اس نے بوا کو، کھانے کی پوٹلی پاس رکھے، تخت پر بیٹھا پایا، ’’کیا رات یہیں رہنے کا ارادہ ہے!‘‘
بوا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا، ’’منی رانی، میں کلام مجید کی قسم کھا کے کیتی ہوں، بات انوں نے شروع کی تھی۔۔۔ خاں صاحب کی اماں نے۔‘‘ وہ کچھ سمجھی، کچھ نہیں سمجھی، ’’کیسی بات۔۔۔؟ کون سی بات۔۔۔؟‘‘ بوا اس کی کلائی پکڑے رہیں، ’’صاف صاف تو نہیں کہا انوں نے، پر اس سے جیادا صاف اور کیتیں بھیں کیا۔۔۔ کینے لگیں، تمہاری نجر میں کوئی مناسب رشتا ہو تو بتانا۔ ‘‘اس نے آہستہ سے اپنی کلائی چھڑائی اور بہت رسان سے کہا، ’’کیوں ستاتی ہو مجھے بوا!‘‘
’’لو اور سنو۔۔۔! میں اپنی جان کے ٹکڑے کو ستاؤں گی۔۔۔ جسے ان ہاتھوں میں کھلایا، پال پوس کے بڑا کیا، اسے ستاؤں گی۔۔۔ تمارا دکھ نہیں دیکھا جاتا، اس لیے کیتی ہوں۔‘‘
’’اور بار بار کہتی ہوں حالانکہ جو اب پہلے سے معلوم ہے۔۔۔ اسے ستانا نہیں تو اور کیا کہتے ہیں!‘‘
’’پہلے تو بٹیا تھیں بیچ میں، اب وہ فکر بھی دور ہوئی۔۔۔‘‘
’’میں نے کبھی کہا کہ بٹیا رکاوٹ ہیں؟‘‘
’’نہیں کہا تو کیا ہوا، میں کیا اتا بی نہیں سمجھتی!‘‘
’’تم خاک نہیں سمجھتیں!‘‘
’’پڑھی لکھی نہیں تماری طریوں تو یہ نہ سمجھیو کہ جاہل ہوں۔۔۔ میں بی سمجھتی ہوں رنڈاپے کے دکھ، ہاں۔۔۔! بیوا ہوئی تو جوان نہیں تھی، پر بڑھیا بھی نہیں تھی۔۔۔ مجھے سب مالوم ہے منی رانی!‘‘
’’تو پھر تم نے کیوں نہ کرلی دوسری شادی؟‘‘
’’کوئی ملا ہی نہیں، ورنہ میں تو بروبر کرتی، دوسرا خصم!‘‘ وہ ہنس دی، ’’حجت کرنا کوئی تم سے سیکھے بوا!‘‘ اس نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں سے اب اندھیرے کی پھوار گرنی شروع ہو گئی تھی، ’’اب نکل لو، ورنہ مرگھٹ والی بھتنی راستہ روکےگی!‘‘
بارہویں کا چاند اب اتنا روشن تھا کہ لالٹین کی معلق روشنی شرما رہی تھی۔ حبس دم توڑ رہا تھا، جیون نواس کے پیپل کے پتے اب رہ رہ کر تالیاں بجا رہے تھے۔۔۔ بھیگی ہوا کے جھونکوں نے پنکھا اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا۔ بالوں کی ایک لٹ، جو جوڑے کی قید سے نکل بھاگی تھی، رہ رہ کر اس کے گال سے کھیل رہی تھی۔ اس کا بھرا بھرا بدن کچھ سویا کچھ جاگا، تخت پر دراز تھا۔ ایک زور کا جھونکا آیا، بہت بھیگا ہوا۔ معلق روشنی نے دالان کے فرش پر کئی ٹیڑھے میڑھے خاکے بنا ڈالے۔ برساتی کی جو کھڑکیاں وہ کھلی چھوڑ آئی تھی، ان کے پٹوں نے دھڑپڑ کی۔ دالان میں رکھی ہوئی کنکر کی صراحی پر ڈھنکا ہوا نقشی کٹورا ترچھی ٹوپی بن گیا اور آنگن کے کچے فرش نے تھوڑی سی دھول اس کے چہرے پر پھینک دی، جسے صاف کرنے کے لیے اس نے سپید کرتے کا دامن اوپر اٹھایا تو چاندنی نے وارفتہ ہوکر اس کے ملائم پیٹ کے پیار پر پیار لے ڈالے۔
پھر کہیں دور بجلی کڑکی۔ ایک، دو، تین، چار۔۔۔ جب وہ چودہ پر پہنچی، تب دوسری بجلی کی کڑک سنائی دی۔ اس نے پھر گنتی شروع کی۔۔۔ اس بار بارہ پر ہی کڑکی اور اگلی بار دس پر۔ بارش آ رہی ہے اور بڑی تیزی سے آ رہی ہے۔۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ بادل کا ایک تاب گزار ٹکڑا چاند کے سامنے سےگزرا۔۔۔ آنگن میں پھر چاندنی پھیل گئی۔ اس نے مڑ کر پورب کی طرف دیکھا۔۔۔ پوری فوج چلی آ رہی ہے۔ آسمان پر بادل چھا گئے اور زمین پر اندھیرا۔۔ بڑی زور سے بجلی چمکی اور گھر کی تقریباً ہر چیز لمحے بھر کے لیے اچھل کر اندھیرے کے غار سے روشنی کی وادی میں آئی اور پھر غار میں واپس چلی گئی۔ وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔
تم بجلی سے نہیں ڈرتیں؟
نہیں!
کمال ہے۔۔۔ عورتوں کا تو پیشاب خطا ہو جاتا ہے ڈر کے مارے!
چھی۔۔۔! چھی۔۔۔!
چند موٹی بوندیں اس کے مسکراتے ہوئے چہرے پر گریں۔۔۔ اس نے تخت اور آنگن کے کچے فرش پر کئی موٹی موٹی بوندوں کے گرنے کی آواز سنی۔ وہ اٹھ کر دالان میں آ گئی۔ بہت سی بوندیں تاڑ تاڑ کچے فرش پر گریں تو سوندھی خوشبو کی لپٹیں نتھنوں کے راستے اس کے دماغ میں داخل ہوکر اودھم مچانے لگیں۔۔۔ اس نے سر کو دالان کے ایک کھمبے کا سہارا دیا۔ بجلی چمکی اور اس نے آنگن میں بہت سے بلبلے بنتے اور پھوٹتے دیکھے۔ اس نے کرتے کی آستین چڑھا کر ہاتھ آنگن کی طرف بڑھایا جیسے سوالی بڑھاتا ہے۔۔۔ ذرا کی ذرا میں ہاتھ کہنی تک بھیگ گیا۔۔۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ کھمبے سے سر ٹکائے، خالی خالی نظروں سے، بجلی کے بادلوں کا سینہ چیر کر عریاں ہونے اور پھر پردے میں چلے جانے اور بلبلوں کے پانی کے دھاروں کے ساتھ بہنے اور پھر پانی ہو جانے کا منظر دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔۔۔ پھر اس نے لالٹین اتاری، اس کی لو دھیمی کی اور کمرے میں چلی گئی۔
کوئی آٹھ دس منٹ بعد وہ کمرے سے باہر آئی، جھجکتی، بدن چرائے، جیسے بیس اکیس برس پہلے، سہاگ کے ابتدائی دنوں میں وہ اسی کمرے سے صبح گھونگھٹ نکالے، ساس سسر سے نظریں چرائے، شرماتی لجاتی نکلا کرتی تھی اور اس کا شوہر اسے کمرے سے باہر جانے سے پہلے، لباس کی ایک ایک شکن کو ٹھیک کرتے، بالوں کی الجھی لٹوں کو سلجھاتے اور آئینے میں گردن اور گالوں پر پیار کے چغل خور نشانوں کی تلاش کرتے دیکھ کر، بستر پر اوندھا ہوکر اور تکیے میں منہ دے کر کھی کھی ہنسا کرتا تھا۔
اے ہے، کیا معصومیت ہے، کیا بھولپن ہے۔۔۔ جیسے ابا اماں کچھ جانتے ہی نہیں!
تو کیا بےحیائی کا لبادہ اوڑھ لوں!
نہیں۔۔۔ میرے خیال میں برقع ٹھیک رہےگا۔
جائیے۔۔۔ ہم نہیں بولتے۔
اس نے بڑی احتیاط سے دروازہ بھیڑا، جیسے کسی کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہو اور آہستہ آہستہ دبے قدموں دالان کے بیچ میں آئی، جیسے ڈر ہو کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔ ہوا کا ایک ٹھنڈا اور بھیگا جھونکا اس کے چوٹی سے ایڑی تک ننگے بدن سے ٹکرایا۔۔۔ اس نے جھرجھری لی۔ اب نہ بادل گرج رہے تھے، نہ بجلی چمک رہی تھی، بس بارش ہو رہی تھی۔ مگر زور شور سے نہیں۔
اس نے پہلے ایک پیر آنگن میں رکھا، پھر دوسرا۔ بارش نے اپنی بہت سی لڑیاں اس کی خود دار گردن، مغرور سینے، لجاتی پیٹھ اور اتراتے کولہوں پر نچھاور کر دیں۔ اس کے بازو اس کے ابھرے ہوئے سینے پر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔ اس نے بادل چھائے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ پھر اس کے کانوں نے بجلی کی کڑک سنی، پپوٹوں کے پردے کے پیچھے سے اس نے چمک دیکھی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔
بارش اب پھر زور شور سے ہو رہی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھ گئے اور آنگن کی گیلی مٹی پر اس کے پیروں نے گردش شروع کی، جو تیز ہوتی گئی، تیز ہوتی گئی، تیز ہوتی گئی۔ بادلوں نے گرج کر اور بجلی نے کڑک کر اسے کئی بار منع کیا، مگر اس کا جسم نہیں مانا اور گردش کرتا رہا، کرتا رہا، حتی کہ بادل، دیواریں، چھتیں، آنگن، دالان، کھمبے ہر چیز اس کے ساتھ گردش کرنے لگی۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی تخت پر کچھ گری، کچھ بیٹھی اور اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
بارش رک گئی، بادل چھٹ گئے، چاند پھر نکل آیا۔۔۔ چاندنی نے اس کے نڈھال کندھوں پر بڑی نرمی، بڑی شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا، اب اٹھو۔۔۔! وہ اٹھی اور کھوئی کھوئی سی کمرے میں چلی گئی۔ پندرہ بیس منٹ بعد وہ کمرے سے باہر آئی تو وہی میلا غرارہ اور کرتا پہنے ہوئے تھی، جس میں گیارہ بارہ گھنٹے پہلے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ آنگن پار کر کے اس نے زینہ چڑھنا شروع کیا۔۔۔ ابھی آدھا زینہ ہی چڑھی تھی کہ رک گئی۔ واپس آئی۔۔۔ زینے کے نیچے گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کی گردن سے موتیے کی ادھ کھلی کلیوں کے بھیگے ہار اتارے اور زینہ چڑھ کر برساتی میں چلی گئی۔
ہار تکیے کے پاس رکھ کر اور ان کی طرف منہ کر کے وہ اس بستر پر لیٹ گئی جو اس نے دوپہر کو ٹھیک کیا تھا، مگر نیند اسے بہت دیر میں، بڑی مشکل سے آئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.