Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سٹریٹیجسٹ

محمد شہزاد

سٹریٹیجسٹ

محمد شہزاد

MORE BYمحمد شہزاد

    ’’اگلے ہفتے میری 25 سالہ پیاری بیٹی صوفیہ کی شادی ہے۔ اب وقت ہے راز افشانی کا۔۔۔‘‘ میں نے اپنے جگری یار صفدر سے کہا۔

    ’’ایسا کونسا راز ہے جو تو نے مجھ سے بھی چھپائے رکھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ہے ایک!‘‘

    ’’بہت دکھ ہوا! مطلب تو نے مجھ پر سو فیصد بھروسہ نہ کیا!‘‘ وہ بولا۔

    ’’ایسی بات نہیں۔ سارہ کی وجہ سے کرنا پڑا۔ میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ تو جانتا ہے مجھے اس سے کتنا پیار تھا۔ اور سو فیصد بھروسہ ہے تو اب بتا رہا ہوں تجھے۔‘‘

    ’’اب کیوں؟‘‘

    ’’اب سارہ جو نہیں ہے اس دنیا میں گدھے!‘‘

    ’’اسے گذرے تو دس برس ہوئے۔ اب ڈراپ سین کیوں؟‘‘

    ’’تو سننا چاہتا ہے یا بال کی کھال اتارنا؟‘‘

    صفدر چپکا ہو گیا۔

    ’’صوفیہ میری بیٹی نہیں!‘‘

    ’’ناممکن! سارہ کو میں نے حاملہ حالت میں تیرے ساتھ خوش دیکھا۔ ساتوے مہینے اس نے کیا زبردست تقریب رکھی تھی۔ کہیں۔۔۔‘‘

    ’’یہ سوچ رہا ہے کہ سارہ کے پیٹ میں کسی اور مرد کا بچہ تھا اور میں پیار میں چپ رہا؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’غلط پیارے! وہ ماں بن ہی نہ سکتی تھی!‘‘

    ’’تو حمل؟‘‘

    ’’یہ ہی تو راز ہے! تو سارہ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ بہت انا پرست، خود پسند اور ضدی تھی۔ شادی کے پہلے چھ ماہ میں کچھ نہ ہوا تو ہم دونوں گئے طبی معائنے کے لئے۔ مسئلہ اس میں تھا۔ میں نے مشورہ دیا بچہ گود لینے کا۔ لیکن وہ نجیب الطرفین سید گھرانے سے میری طرح۔ غیر سید اسے کسی صورت قبول نہ تھا۔ یک طرفہ چل سکتا تھا۔ تو اس نے ایک غریب لڑکی سے سودا کیا جس نے ہمارے ساتھ ہی رہنا تھا۔ مجھے اس کے ساتھ سونا تھا حاملہ کرنے کے لئے۔ اس کے بعد اس نے بچے کو جنم دینا تھا۔ بچہ ہمارے حوالے کرنا تھا۔ اپنے پیسے پکڑنے تھے اور گھر کی راہ لینا تھی۔ میں نے کہا یہ گناہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں اسکے ساتھ شادی سے قبل کئی بار سویا۔ کیا وہ گناہ نہ تھا۔ میں نے کہا ہم نے شادی بھی تو کی۔ اس نے کہا کہ اس لڑکی سے شادی کر لینا۔ بچے کے بعد طلاق دے دینا۔ ایسا نہیں کر سکتے تو مجھ چھوڑ دو۔‘‘

    ’’واہ کیا زبردست سٹریٹیجسٹ تھی سارہ۔ اور تو نرا احمق اور بدھو۔ جورو کا غلام۔ ہر بات پر اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا۔ اور وہ حاملہ والا روپ۔۔۔ سارہ کا۔۔۔ جعلی تھا؟‘‘ صفدر نے بات کاٹتے کہا۔ اسے سمجھانا بے سود تھا۔ سو میں آگے بڑھا۔

    ’’سو فیصد جعلی تھا۔ سارہ تھیٹر کی ملکہ تھی۔ جانتی تھی کہ حاملہ عورت کا روپ کیسے دھارا جاتا ہے۔‘‘

    ’’ایک منٹ۔۔۔ اس صورت میں صوفیہ تیری بیٹی تو ہوئی مگر سارہ کی نہیں۔ پر تو کہہ رہا ہے کہ صوفیہ تیری بیٹی ہی نہیں۔ کیا گھر کے نوکر نے تو کوئی گل نہیں کھلایا؟‘‘

    ’’بکواس بند! ایسا باکل نہیں۔ اور میں بدھو احمق نہیں۔ اس سے پیار کیا کرتا تھا۔ اسی لئے اسے ناراض نہیں کرتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن اسے رام کرنے میں تو نے اس عورت کے ساتھ بہت زیادتی کی۔ عظیم گناہ کیا۔ نکاح اس شرط پر کیا کہ طلاق دے دیگا۔ اور پھر بچی بھی چھین لی۔ ماں اور بیٹی کو جدا کر دیا؟‘‘

    ’’میں نے کیا یا سارہ نے؟‘‘

    ’’دونوں برابر کے گناہ گار! سارہ نے چانکیہ کی طرح سٹریٹیجی بنائی۔ تجھے استعمال کیا اور تو ہو گیا۔‘‘

    ’’یار تم سب مجھے زن مرید سمجھتے رہے۔ زن مرید ہونا تو فخر کی بات ہے اگر انسان کو بیوی سے عشق ہو۔ میں نے اپنے اور سارہ کو گناہ سے بچایا۔ اس کی انا پر آنچ بھی نہ آنے دی۔‘‘

    ’’کیسے!‘‘ ہونقوں کی طرح صفدر نے پوچھا۔

    ’’میں نے سارہ کو کہا کہ شادی نہیں کرونگا۔ ویسے ہی ہم بستری کر لونگا۔ لیکن میں نے اس لڑکی کی شادی اپنے نوکر سے کرا دی۔۔۔ خفیہ! سارہ معاملہ انہیں رٹا دیا۔ ساتھ ہی ایک ٹرسٹ سے بات کر لی نوزائیدہ بچہ گود لینے کی۔ ریاضی کی طرح پورے ٹائم کو کیلکولیٹ کیا کہ کب اس لڑکی کی ڈیلیوری ہو گی اور کس وقت ایک یا دو دن کا بچہ گود لیا جائے گا۔ ٹرسٹ والوں کو اچھی رقم بطور رشوت دینا پڑی لیکن نیک کام تھا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ لڑکی نے لڑکا پیدا کیا۔ لڑکی کی ساس نوزائیدہ بچے کو پلان کے مطابق لے کر چمپت ہو گئی۔ ادھر ٹرسٹ والے نوزائیدہ بچی یعنی صوفیہ کو میرے پاس لے آئے۔ میں نے اسے سارہ کے حوالے کر دیا!‘‘

    ’’لیکن سارہ کیا لڑکی کے ساتھ ہسپتال ڈلیوری کے لئے گئی نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔ کیونکہ میں نے سارہ کو یہ کہہ دیا کہ ڈلیوری سی سیکشن سے ہو گی۔ تم گھر بیٹھو۔ کیوں خوار ہوتی ہو۔ میں بچہ گھر لے آونگا۔ اور ساتھ ہی اسکی پے منٹ وغیرہ کر کے چلتا کر دونگا۔‘‘

    ’’تو تو سارہ سے بھی بڑا سٹریٹیجسٹ نکلا۔ اسے راز ہی رکھ۔ دکھ ہو گا صوفیہ بیٹی کو!‘‘

    صفدر تو گیا مگر مجھے مخمصے میں ڈالکر۔ دل میں اندیشے لئے میں صوفیہ کے کمرے میں گیا۔ وہ بہت خوش تھی۔

    ’’کیوں پریشان ہیں؟ میں ملتی رہونگی نا؟‘‘ صوفیہ میرا چہرہ بچپن سے ہی درست پڑھ لیتی تھی۔

    نہ جانے کہاں سے ایسی ہمت آئی کہ بنا تمہید میں نے اسے ایک ہی جملے میں حقیقت بتا دی۔ لیکن اس کے چہرے پر خوشی برقرار تھی۔ لیکن میرے چہرے پر اب پریشانی کے بجائے حیرت تھی جسے صوفیہ بھانپ چکی تھی۔

    سارہ کو میرے خفیہ پلان کا پتہ لگ چکا تھا لیکن وہ انجان بنی رہی۔ اتنی بھی ضدی نہ تھی! پھر موت سے دو برس قبل صوفیہ پر یہ ہی راز افشاء کر چکی تھی مگر اس تاکید کے ساتھ کہ اس کا ذکر مجھ سے ہر گز نہ کرے۔

    ’’مان گئے تمہیں سارہ بیگم۔ واقعی بہت بڑی سٹریٹیجسٹ ہو!‘‘ میں نے تصور میں کہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے