سور باڑی
(۱)
لٹے ہوئے سامان
حقارت سے دیکھتی ہوئی آنکھیں
ہم نے اب جینے کا عہد کرلیا ہے
ان بیڑیوں کو کاٹ کر
بیڑیاں جو نامرد بناتی ہیں ہمیں
کاٹ ڈالتی ہیں تنے ہوئے ان بازوؤں کو
جن میں روانی سے دوڑتے ہوئے خون
ہرپل احساس دلاتے ہیں آزادی کا
اور سوجاتی ہے کٹے ہوئے بازوؤں کے
سوکھے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں میں
آزادی۔۔۔
ناپاک منصوبوں کاآدمی
کٹے ہوئے بازو کے سوکھے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں سے
جو جھنے والے ہر آدمی کو
آسانی سے کہہ دیتا ہے غدّار
ناپاک منصوبوں کے آدمی کا قتل اتنا ہی ضروری ہے۔
جتنا سوکھے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں میں پھر سے آزادی بھرنے کااحساس
بیڑیاں کاٹتے ہوئے مرد بننا ہے ہمیں۔۔۔
اور جوجھ جانا ہے بچی ہوئی آخری سانس تک
ہمارے خلاف چلتی ہوئی جھوٹی اچھوت کارروائی کے لیے۔۔۔
اور لڑتے رہنے کا بھرم قایم رکھنا ہے
فتح ہر حالت میں ہماری ہے۔
(۲)
باڑی سے نکل کر سور کبھی کبھی اِدھر بھی آجاتے ہیں، جہاں بڑے بڑے مکانات ہیں، دفاتر ہیں، گورنمنٹس کوارٹر ہیں۔۔۔ آوارہ گھومتے رہتے ہیں سور۔۔۔ بے سری آواز نکالتے ہوئے۔۔۔ کیچڑ میں منہ دیے پتہ نہیں کیا ٹٹولتے رہتے ہیں۔۔۔ سور باڑی کہیں دور نہیں ہے۔۔۔ جس جگہ میری آفس ہے، اور بھی کئی دفاتر ہیں جیسے کچہری، ٹریزری آفس، ڈی۔ ایس۔ ای سپرنٹنڈنٹ ایجوکیشن، مجسٹریٹ۔۔۔ ان سے ذرا ہٹ کرمیدانوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور میدانوں کے دونوں جانب خالی جگہوں کی اسی باڑی کو ڈوموں کی سور باڑی کا نام دے دیا گیا ہے۔
آفس کھلنے کا وقت دس بجے ہے۔ دس بجے تک یہ پوری باڑی گلزار رہتی ہے۔ گندے کپڑوں میں سینہ کھول کر دودھ پلاتی ہوئی ڈومنیں، لکڑی کی کانتی سے سوپ ٹوکریاں بنتی ہوئیں۔۔۔ بیڑی سلگاتا ہوا ڈوم، اپنی گھروالی اور بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا۔۔۔ کھیسیں نپورے۔۔۔ ننگ دھڑنگ۔۔۔ میونسپلٹی نل کے پاس بیلچا، کنٹینر لیے شور مچاتے بچے۔۔۔ جھونپڑیوں کے باہر اور اندر بچھے پلنگ پر لیٹے ہوئے بوڑھے بوڑھیاں، نالیوں کے درمیان پڑی ہوئی لاوارث خالی چارپائیاں، اِدھر اُدھر رکھے ہوئے مٹی، تام چینی کے چٹ اکھڑے ہوئے برتن۔۔۔ اُپلے سنی ہوئی باڑی سے شور مچاتے ہوئے۔۔۔ کوئی کوئی بچہ بڑے آرام سے سور کی پیٹھ پر گھومتا ہوا نظر آتا۔
اَدھ کھلی ہوئی کھچٹ ساڑیوں میں اِدھر سے اُدھر پھاندتی ہوئی ڈوم عورتیں بھی نظر آتیں، جن کے بارے میں ونود بتایا کرتا تھا، ٹیوب لائٹ کی مدھم روشنیو ں میں جسم کا کاروبار بھی کرتی ہیں یہ۔ میرے حیرت سے دیکھنے پر کہا تھا ونود نے۔۔۔ سب چلتا ہے یار، آخر کو لڑکیا ں ہی ٹھہریں۔۔۔ بھرے بھرے جسم والی۔ ڈوموں کی اس سور باڑی کی اپنی الگ کہانی ہے۔ اڑتی اڑتی خبر وں سے اتنا ضرور اندازہ ہوا تھا کہ یہ ساری پراپرٹی گورنمنٹ کی ہے جس پر ناجائز ڈھنگ سے یہ کب سے آکر بس گئے، اس کی معلومات نہیں ہے۔ سرکار آئے دن یہاں سے جھگی جھونپڑیاں ہٹانے کی بات کرتی رہتی ہے مگر شاید ایسا موقع نہیں آیا۔ اور آیا بھی تو سورباڑی چھوڑ کر نہیں جاسکے۔
اب تو سڑک کے دونوں طرف کتنی ہی جھگی جھونپڑیاں آباد تھیں اور بیچ کی سڑک جن سے گاڑیاں، رکشے، ٹم ٹم وغیرہ گزرا کرتے، ان کے لیے آنگن کی طرح تھے۔ کتنی ہی عورتیں کنارے کنارے بیٹھی ہوئیں، دودھ پلاتی ہوئی ملتیں۔ ادھر پھر یہ ہنگامہ شروع تھا۔ سور باڑی ٹوٹ جائے گی۔۔۔ اس پوری طرح بسی ہوئی باڑی کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا تھا، گورنمنٹ کو شروع میں ہی چاہیے تھا، اس طرف کوئی قدم اٹھائے۔ گھر بن جائے تو توڑنے اور چھوڑ کر جانے میں تکلیف ہوتی ہے، اس لیے کہ گھر کے تحفظ کی ذمہ داری بھی تو ہم پر ہی عاید ہوتی ہے۔
’’تو ٹھہرا شاعر آدمی۔‘‘ میری اس بات پر ونود بگڑکے بولا تھا، ’’دیکھتا نہیں، آتے جاتے کیسی گندگیاں اڑاتے رہتے ہیں سالے، جینا حرام کردیا ہے۔ آتے جاتے ناک بند کرکے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’اور اسی لیے تم سور باڑی توڑ دیے جانے کے حق میں ہو۔۔۔ اتنی سی بات پر۔‘‘میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ونود خاموش ہوگیا تھا۔ اس لیے کہ سور باڑی توڑے جانے کا کوئی دوسرا جوازاس کے پاس نہیں تھا۔ ذرا ٹھہر کر ونود پھر بولا، ’’خیر چھوڑو بھی، تم نے آج کا اخبار پڑھا؟‘‘
’’نہیں، کوئی خاص بات؟‘‘
’’ساؤتھ افریقہ میں سیاہ فام حبشیوں پر گورنمنٹ کا ظلم پھر شروع ہوگیا ہے۔ کل ٹی وی پر پونے نو بجے کی نیوز تم نے دیکھی یا نہیں؟‘‘ اس کے لہجے میں افسردگی آگئی تھی۔
’’نہیں۔‘‘
’’پتہ نہیں یہ سب کب سے چل رہا ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ گاندھی جی نے بھی اس سطح پر ایک ایجی ٹیشن چلایا تھا۔‘‘
ونود کہہ رہا تھا، ’’انہیں جینے کی آزادی ملنی چاہیے تھی۔ آج جب کہ دنیا مریخ پر جارہی ہے۔ ہم فضائیہ عہد میں جی رہے ہیں۔ لبریشن کے نام اس طرح کے واقعات چوٹ پہنچاتے ہیں۔ آدمی آدمی سب برابر ہیں۔ پتہ نہیں کیسے آگئے ہیں فرق کے یہ ناسمجھ کیڑے ہمارے اندر۔‘‘
(۳)
دوسرے دن آفس کے لیے تیار ہوتے ہوئے تنویر کو میں نے ونود کی بات بتائی تو وہ زور زور سے ہنس پڑی، ’’تو ونود نے ایک طرف یہ کہا اور دوسری طرف۔۔۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ دوسروں کی طرح ونود بھی بہت معصوم ہے جو صرف اپنی آسانی کے لیے ایک اندازہ بُن لیتے ہیں۔‘‘
’’ایک اندازہ تو ہر آدمی اپنی آسانی کے لیے بن لیتا ہے مگر مجھے تمہاری بات سے اختلاف ہے۔ دو الگ الگ مسائل پر تمہاری ایک نظر مجھے ٹھیک نہیں لگتی۔ کہاں ساؤتھ افریقہ میں اپارتھیڈڈسمنٹلنگ اور نسلی منافرت کامسئلہ اور کہاں۔۔۔‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔ میرا کمنٹ تو اچھوت جیسے بیمار احساس پر ہے۔ یہ احساس جہاں بھی ہے، جس سے بھی جڑا ہے، مجھے ہر ایسے آدمی سے شکایت ہے۔ کیا تمہیں نہیں لگتا بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود ذہن کی ایک خاص سطح پر کسی نہ کسی طرح سے یہ احساس تم سے جڑا ہے۔ سوال صرف اس کا ہے کہ اس احساس سے کیسے الگ ہوسکتے ہیں آپ۔ کسی بھی پیشے کے نام پر اختلاف اور فاصلے سے الگ، ایک دم سے کیسے مل سکتے ہیں ہم؟‘‘
’’شاید ترقی یہ موقع نہیں دے گی۔ وہ صرف سوال کھڑا کرے گی اور تمہارے جیسے لوگوں کو جوجھنے کے لیے اور دوسری طرف کے لوگوں کو سوال بُننے کے لیے چھوڑ دے گی۔ ترقی ہوتی رہے گی۔ مارو گولی ان باتوں کو۔۔۔ یہ باتیں ہماری نجی زندگی سے کہیں بھی نہیں جڑی ہیں۔ بیکار کے ہیں یہ احساسات، اس طرح کی سوچ، بے سرپیر کے سوالات۔‘‘ تنویر نے اتنا کہہ کر چپ کرادیا تھا مجھے مگر لگا تھا جیسے ہم اس بیمار احساس سے کہیں نہ کہیں سے ضرور جڑے ہیں اور تنویر نے صرف ہار مان لی ہے۔
اور اسی دن آفس جاتے ہوئے دیکھا کہ باڑی میں بھیڑ اکٹھا ہے۔ کچھ شور ہنگامے بھی ہیں۔ ساڑھے دس بج گئے تھے۔ آج آفس جانے میں مجھے کچھ دیر ہوگئی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ڈی ایم صاحب کی گاڑی سے ایک ڈوم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ڈوم کو اسپتال لے جایا گیا ہے۔ مگر ڈی ایم صاحب کافی غصہ میں تھے۔ کچھ لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے، جس سے اندازہ ہوا کہ غلطی ڈوموں کی ہی تھی۔ آنکھیں موندے اِدھر اُدھر گھومتے رہیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ دھکا لگا بھی تو ڈی ایم صاحب کی گاڑی سے۔
اس دن آفس میں ہر جگہ اسی بات کا چرچا تھا۔ ونود لہک لہک کر کہہ رہا تھا، ’’اب موقع مل گیا ہے کہ یہ پوری سور باڑی توڑدی جائے گی۔ ڈی ایم صاحب کو بھی کہنے کا اچھا موقع مل گیا ہے۔ آنگن سمجھ لیا ہے سالوں نے۔‘‘
کانوں میں انگلیاں ڈالے سب کچھ سننا پڑ رہا تھا۔ ونود نے ہی کبھی کہا تھا کہ اس جات کے لوگوں میں احساس نہیں ہوتا، پیشہ کرتی ہیں ان کی عورتیں۔ کارل مارکس اور اینجل کے نظریے کے آنے کے بعد چھوٹے موٹے اتنے انقلابات جنم لیتے رہے ہیں کہ اب اس بات پر دل نہیں مانتا کہ پیشے کے نام پر کوئی ذات ایسی بھی ہوسکتی ہے جو احساس نہ رکھے۔ ہاں سورباڑی میں دوپہر کے وقت ایک عجیب نظارہ دیکھنے میں آیا۔ ہاؤں ہاؤں کرتے ہوئے پچاس ڈوم ڈومنیوں کی قطاریں، بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں ہاتھ میں بیلچا لیے، کنٹینر اور کوڑا اٹھانے والی گاڑیوں کے ساتھ ڈی ایم کے خلاف مظاہرہ کر رہی تھیں۔
شام کو گھر لوٹنے پر میں نے تنو کو بتایا کہ آج ڈوموں نے کیا کاروائی کی۔ تنو آج کچھ غصے میں تھی۔ جلے ہوئے انداز میں بولی، ’’تو تمہیں پھر ایک کہانی مل گئی۔ ایسی ہی کہانی جیسی تم چاہتے ہو۔ درد پالنے کا صرف شوق ہے تمہیں۔ کچھ کر تو سکتے نہیں۔‘‘
یہ دہرا رخ تھا تنو کا۔ پھر بھی بولا، ’’تنو غلط کو غلط سمجھنے کااحساس کم ہے کیا؟ اور اس احساس کا مظاہرہ کیا اپنی اوقات، اپنی پہچان نہیں ہے؟‘‘
’’اب تم ان پر ایک نظم لکھ ماروگے، یہی نا۔ اور تسلی ہوجائے گی تمہاری۔ تمہاری لڑائی بس ان کھوکھلے لفظوں تک ہے، اس سے آگے نہیں۔ ورنہ آگے بڑھ کر تم بھی ایک مورچہ سنبھالتے، ایک لڑائی لڑتے۔۔۔ نظموں سے الگ۔۔۔ اپنی طرف سے، جو تم سے نہیں ہوسکتا۔ میں جانتی ہوں کہ تم سے کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘
کچھ دیر کے لیے احساس ہوا تھا کہ غلط کو غلط کہہ کر پہچان کرادینے کا احساس بھی بھرم ہے شاید۔ لفظوں سے جوجھتے ہوئے جب جیت ہار کے فیصلے کے بغیر کہانی ختم ہوجاتی ہے تو دھکا پہنچتا ہے۔ شاید اپنی طرف سے ہونے والی کارروائی اس طرح کے معاملوں میں لفظوں سے کبھی آگے نہیں بڑھی۔ تو سچ کھوکھلا اور نپنسک (نامرد) ہوا نا؟
اور تنو کہہ رہی تھی، ’’اپنی فرمائشوں کو نظرانداز کرکے جب تم سوچتے ہو تو برا لگتا ہے۔ اس لیے کہ تمہاری بھی ایک باڑی ہے اور اس میں بچے ہیں، بیوی ہے۔ اکثر محسوس کرتی ہوں کہ دوسروں کے جذبوں اور احساس سے لفظوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ایک جھوٹی کاروائی چلتی رہتی ہے تمہارے اندر۔ بے نام ہتھیاروں کی، کھوکھلے لفظوں کی۔‘‘
(۴)
دوسرے دن یہ خبر پھیل چکی تھی کہ سور باڑی خالی کرنے کا سرکاری حکم ہوچکا ہے۔ تمام جھگی جھونپڑیاں توڑ دی جائیں گی۔ تین دنوں کا وقت ملا ہے اپنی اپنی جھگی جھونپڑیاں ہٹانے کے لیے۔ آفس جاتے ہوئے دیکھا کہ ڈوموں کے بیچ اس خبر سے عجیب سی دہشت پھیل گئی ہے۔ ایک طرف باڑی کے سور الاپ رہے تھے تو دوسری طرف ڈومنیں آپس میں گالی گلوچ کر رہی تھیں۔ کنارے کنارے کچھ ڈوم اٹھی ہوئی لنگی اور میلے کچیلے کپڑوں میں ایک دوسرے سے کچھ بات چیت کر رہے تھے۔ ایک آدمی نے اشارہ کیا، وہی بھیکو ہے جو ڈی ایم کی گاڑی سے کچلا گیا تھا۔ بھیکو کے پیر وں میں اب بھی ایک دو جگہ پٹی چڑھی ہوئی تھی۔ مریل سا دکھنے والا بھیکو بڑے آرام سے جھگی کے بانس کا سہارا لیے ہوئے بیڑی پھونک رہا تھا۔ لوگ آجا رہے تھے۔ خود کو ٹٹول پاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ بات چیت کی جاسکتی ہے بھیکو سے۔ اس لیے آگے بڑھ کر میں نے پوچھا، ’’تم ہی بھیکو ہو؟‘‘
’’ہاں ساب۔‘‘
’’کل تمہارا ہی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ساب۔‘‘ بیڑی کا کش لیتے ہوئے بڑے اطمینان سے وہ بولا۔
’’کیا سچ مچ یہ باڑی اجڑ جائے گی؟‘‘
’’نہیں ساب۔ ہم اجڑنے نہیں دیں گے۔ باپ داداؤں کے وقت سے رہتے آئے ہیں یہاں۔‘‘
’’مگر اگر پولیس اجاڑنے پر تل ہی گئی تو؟‘‘
’’ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘ بھیکو کو دوسرا کوئی جواب نہیں سوجھا تھا۔
’’تو ہنگامہ کروگے تم لوگ؟‘‘
’’وہ تو ہم کریں گے ہی ساب۔ اس سے پہلے بھی یہ آرڈر ہوا تھا تو اپنی عورتوں کو باڑی میں لٹادیا تھا ہم نے کہ لاش پر سے گزر کر جاؤ تو توڑدو باڑی، سمجھا ساب۔ باڑی توڑنا کھیل نہیں ہے۔‘‘
’’اگر انہوں نے تمہاری عورتوں کی بھی پرواہ نہیں کی تو؟‘‘اس بار میں نے بھیکو کی آنکھوں میں جھانکا۔
اور بھیکو بڑبڑا رہا تھا، ’’تب بہت برا ہوگا ساب، بہت برا۔‘‘
اس دن میں نے تنو سے پھرپوچھا، ’’تنو کیا سچ مچ یہ لڑپائیں گے؟‘‘
’’میں نہیں سمجھتی۔ شاید تمہارا بھیکو ہی کچھ کرے تو کرے۔‘‘
’’مگر اکیلے بھیکو کے لڑنے سے۔۔۔‘‘
’’لڑائی کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ ہار کا بدلہ لینے کے لیے بھیکو کوئی دوسرا قدم اٹھائے۔‘‘
وہ قدم کون سا ہوگا تب سے میں یہی سوچ رہا تھا۔ اس درمیان سرکاری اعلان بھی گونج گیا تھا۔ نالی پر بنی ہوئی دکانیں اور فٹ پاتھ توڑدیے جائیں گے۔ اب صرف ایک دن کا وقت رہ گیا ہے۔ گھروں کی جو سیڑھیاں ناجائز ڈھنگ پر نالیوں پر نکلتی ہیں وہ بھی توڑدی جائیں گی۔ اس سرکاری اعلان کا ہونا تھا کہ نالیوں پر بنی ہوئی گمٹیاں اور فٹ پاتھی دکانیں ٹوٹنے لگیں۔ بازار میں عجیب سی گہما گہمی تھی۔ لوگ اپنے یا مزدوروں کے ساتھ نالیوں پر نکلی ہوئی سیڑھیاں اور دکانیں توڑ رہے تھے۔ سرکاری اعلان اب بھی جیپوں اور رکشے سے برابر گونج رہا تھا۔ کہیں اس پر دے میں۔۔۔ شاید میرا ایسا سوچا جاناصحیح نہیں تھا مگر شام ہوتے ہی یہ خبر سامنے أگئی تھی کہ کل سور باڑی توڑ دی جائے گی، پولیس کے رولر چلیں گے وہاں۔ سور باڑی کے ڈوموں نے ہٹنے سے انکار کردیا ہے اور ڈوموں کو سورباڑی چھوڑنے کی وَربل نوٹس بھی مل چکی ہے۔
شام ہوتے ہی سورباڑی میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ معلوم ہوا کہ پولیس کے کتنے ہی سپاہی آکر وارننگ دے چکے ہیں کہ کل تک پوری باڑی خالی ہوجانی چاہئے۔ ڈومنیں قصاب ٹولے میں ذبح ہونے والے جانوروں کی طرح چلارہی تھیں۔ کچھ لوگ کھڑے تھے۔ سوروں کے شور بھی اس ہنگامے میں شامل تھے اور ان سے الگ دیکھا۔۔۔ ایک طرف دو جھونپڑیوں کے بیچ بنے نالے کے اوپر رکھی چارپائی پر بیٹھا ہوا بھیکو بیڑی پھونک رہا ہے۔ سب سے الگ تھلگ۔ آج ہاتھ پیروں کی پٹیاں اتر گئی تھیں مگر بھیکو شانت نہیں تھا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ سرکار کی اس زبردستی کی کارروائی اس کے اندر بھی چل رہی ہے۔
گھر لوٹتے ہوئے ایک عجیب سا احساس مجھ پر حاوی تھا۔ کچھ دیر کے لیے اپنے بارے میں سوچ کر محسوس ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ سب کیوں کر رہاہوں، یہاں کیوں آتا ہوں۔ یہ خیال بھی بچوں کی طرح احمقانہ ہوگا کہ ڈوم قبیل کے لوگ بھی تہذیب یافتہ ہوجائیں۔ شاید نہیں۔ میں ایسا نہیں سوچ رہا تھا۔ اس لیے کہ مجھے یقین تھا کہ کسی لحاظ سے بھی یہ اپنے پیشے کو غلط سمجھنے کی بھول نہیں کرسکتے اور انسانی برابری کے توازن کے لیے یہ ضروری ہے کہ پیشے کو ویسا ہی رہنے دیا جائے اور ان پیشوں سے جڑے کچھ لوگ جب چاہیں اس پیشے سے باہر جاسکتے ہیں۔ ان پر رہنے، نہیں رہنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ مگر کسی پیشے کو غلط مان کر یا نظروں سے گراکر اس پر کی جانے والی کارروائی غلط ہے۔ اور یہ اسی کا ردعمل تھا جس نے میرے قدموں کو بار بار اس باڑی میں کھینچا تھا۔ شاید یہ بھاونا اس خیال سے بھی کہیں جڑی تھی جو رنگوں اور نسلوں کا فرق کھڑا کرکے ایک دراڑ بن جاتے ہیں دوقوموں کے بیچ، ایک ہی طرح کے جسم والے دو آدمیوں کے بیچ۔
اس دن ونود نے خبر سنائی کے ساؤتھ افریقہ کے انقلابی شاعر بنجامن کو پھانسی پڑگئی۔ کامن ویلتھ ہیڈس کی بات بھی نہیں مانی افریقین گورنمنٹ نے۔ وہی کیا جس کی اس نے ضرورت محسوس کی، سپاہی کو مارنے کا جھوٹا الزام لگاکر پھانسی دے دی۔ لبریشن کے نام پر ہرشخص فائٹ کرتا ہے اور کیا ملتا ہے فائٹ کرنے والوں کو۔ کہیں غدار، کہیں وفادار۔ ایک ہی ملک میں مقبول بھٹ کی طرح کہیں غدار اور کہیں شہید۔ دراصل مریخ پر جانے کی تیاری کے باوجود آزادی کا مفہوم سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضروری ہوئی ہے۔ کچھ دیر کے لیے لگا تھا کہ ہم کہیں نہ کہیں سے جھوٹ کے احساس سے ضرور جڑے ہیں۔ شاید سارے کے سارے ہی، سارے کے سارے ملک بھی۔ یہ احساس پتہ نہیں کب کیسے زور پکڑگیا۔ بنجامن کی غلطی کیا تھی؟ بھیکو کی غلطی کیا تھی؟ وہی بیمار سا احساس، بنجامن کا شاعر باہر آگیا تھا۔ بھیکو جاہل تھا۔ اس کی گونگی انقلابی شاعری اس حادثے کے بعد اندر ہی اندر چنگاری بن رہی ہوگی۔
کسی نہ کسی سطح پر ہم برتری کے جھوٹے احساس سے چمٹے ہوئے ضرور ہیں اور یہ احساس خوفناک جانوروں کی طرح دوسرے تمام چھوٹوں کے کمزور وجود کو نگل جاتا ہے۔ اس سطح پر ایسی ایک جنگ ضرور ہونی چاہیے۔ اس سطح پر ایسی ایک جنگ کی ضرورت بھی ہے۔ بنجامن بھی ہار گیا تھا مگر شاید نہیں۔ اس نے اندھیرے میں اپنے ہی جیسے ہزاروں لاکھو ں سیاہ فام حبشیوں کی جلتی آنکھوں میں ڈال دیا ہے مستقبل میں پیدا ہونے والے بھیانک خوابوں کے جراثیم اور جراثیم کے خاتمے کے لیے، انجانے میں ہی، انقلاب کے نام پر ایک مشعل۔
کیا بھیکو لڑپائے گا؟
میں سوچتا ہوں، بھیکو کو ضرور اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی کاروائی کرنی ہی چاہیے۔ کاروائی کچھ اورآگے بڑھی۔
صبح آفس جاتے ہوئے دیکھا کہ سورباڑی میں گرد اڑ رہی ہے۔ جھونپڑیاں، پھوس اور لکڑی کے ڈھیر کے روپ میں بیچ سڑک پر بچھی ہیں۔ پولیس کے آدمی اپنا کام کر چکے ہیں۔ سامان ڈھویا جارہا ہے۔ اب بھی دوچیپ کھڑی ہیں اور پولیس کرمچاری ادھر اُدھر چھترائے ہوئے تھے۔ ڈی ایم اور ایس پی کی گاڑی بھی کتنی ہی بار گشت کرچکی تھی۔ فٹ پاتھ اور نالیوں پر بنی دکانوں پر رولر چل گئے تھے۔ پورے شہر کا نقشہ عجیب ہو رہا تھا اور اس سے بھی عجیب ہو رہا تھا سورباڑی کا نقشہ۔
پتہ نہیں آگے کا سفر کون سا ہے؟
اور نئی باڑی کہاں بنے گی؟
کتنے ہی سوالوں سے بہ یک وقت جو جھنا پڑ رہا تھا۔ شاید پھر یہ ہار گئے تھے۔ میری آنکھیں بھیکو کو کھوج رہی تھیں مگر بھیکو کہیں نہیں تھا۔ کیا بھیکو ڈر کر بھاگ گیا؟ نہیں تو کہاں گیا۔ بھیکو شانت بھی نہیں تھا۔ اس دن نالی کے بیچ رکھے پلنگ پر بیڑی کا کش کھینچتے ہوئے دیکھ کر صاف لگا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک کاروائی چل رہی ہے۔ مگر تنو نے کہا تھا کہ بھیکو اکیلے نہیں لڑ سکتا اور اس لڑائی میں بھیکو کا کوئی شریک کار نہیں تھا۔ اجڑی ہوئی سورباڑی میں ایسا کچھ ضرور تھا جو اندر ہی اندر مجھے ڈس رہا تھا۔ پوری انسانی برادری کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کو، اس فضائیہ عہدمیں چھوت جیسی بیمار شے کے احساس کو لبریشن کا عوامی سطح پر یہ کتنا کچا رشتہ تھا اور اسی کے ساتھ کارروائی ختم ہوگئی تھی۔ مگر شاید نہیں۔۔۔ ابھی باقی تھی کارروائی، یہ میں بھول گیا تھا اور باقی بچی کاروائی بھیکو کی طرف سے تھی۔ دوسرے دن مجھے اس کی رپورٹ مل گئی تھی۔
ڈی ایم کوارٹر میں داخل ہونے پر جب گارڈ نے اسے روکنے کی کوشش کی تو پتھر مار کر اس نے گارڈ کو زخمی کردیا اور فرار ہوگیا۔ یہ آدمی بھیکو تھا۔ پولیس کو بھیکو کی تلاش تھی۔
(۶)
بہت سی کہانیاں انجانے میں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ مگر سوال تھا کہ بھیکو گیا کہاں؟ اس کاروائی کے بعد بھیکو کے اندر کا گونگا شاعر اب ضرور سامنے آگیا تھا۔ بنجامن کی طرح اس نے کسی پولیس کو گولی تو نہیں ماری، کوئی انقلابی نظم تو نہیں لکھی مگر اپنی اوقات بھر، اپنی طرف سے کمزور ہوتے ہوئے بھی ایک لڑائی لڑی ہے۔
(۷)
میں اکثر جوجھتا ہوں
اپنے اپاہج احساس سے
جو مجھے سوجانے کے لیے کہتا ہے
اپنے گردوپیش میں چھائے ہوئے کہرے سے بے خبر ہوکر سوجانے کے لیے
اور میں بھی سو بھی جاتا تھا۔۔۔ مگر پہلے
اب میں نے جاگتے رہنے کا عہد کرلیا ہے
اور اگر اس جاگتے رہنے میں میری موت بھی ہوگئی تو یقین ہے
جاگے ہوئے لوگ
میرے بعد بھی
غلط کو غلط سمجھ کر لڑتے رہنے کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.