صبح کا بھولا
فتو کا مسئلہ بھی وہی تھا، یعنی کمانے والا ایک اور کھانے والے پانچ۔ فتو، اس کی بیوی، دو بچیاں اور ایک لڑکا سردار اں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی۔باقی بچے چھوٹی جماعتوں میں تھے۔ پاک فضائیہ میں جہاں اور بہت سے لوگ ملک و قوم کی ترقی کے لئے رات دن کوشاں رہتے ہیں۔ وہیں فتو بھی ایک یونٹ میں لاسکر کی حیثیت سے ملازم تھا۔ شادی سے پہلے گزر بسر اچھی ہو جاتی تھی۔ ماں باپ کا انتقال ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ نہ کوئی بھائی تھا، نہ بہن، اکیلی جان کا خرچہ ہی کیا۔ جو کمایا دوست احباب کی محفل میں اڑا دیا۔ نہ کبھی کچھ جمع کیا نہ ہی اس کے متعلق سوچا۔ ماں باپ ہوتے توگھر آباد کرنے کی فکر بھی کرتے۔ زندگی کے شب و روز اسی طرح گزرتے رہے اور جب شادی ہوئی تو عمر عزیز کے ۳۵ سال گزر چکے تھے۔ شادی کے بعد ایک سال تک تو کچھ اندازہ ہی نہ ہو سکا۔ آہستہ آہستہ آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ وہی فتو جس نے کبھی ہاتھ روک کر خرچ کرنا سیکھا ہی نہ تھا اب پائی پائی بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتا تھا مگر پندرہ تاریخ کے بعد ایک ایک دن کاٹنا دوبھر ہو جاتا۔ غرض کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہوتی گئی۔ فتو کو اگر شکوہ تھا تو اپنے ماں باپ سے نہ کوئی مکان چھوڑا نہ دوکان۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ لوگوں کے بزرگ تو بڑی بڑی جائیدادیں چھوڑ کر مرتے ہیں، اولاد عیش کرتی ہے مگر ہمارے ماں باپ اللہ ان کو جنت نصیب کرے، جب تک زندہ رہے روکھی سوکھی کھاتے رہے، جب مرے تو اپنی اکلوتی اولاد کو روکھی سوکھی کھانے کے لئے چھوڑ گئے۔
فتو کی بیوی پڑھی لکھی تو نہیں تھی، لیکن تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھی۔ اسی کی کوششوں کے نتیجے میں آج ایک لڑکی میٹرک کا امتحان دے رہی تھی جبکہ دوسرے بچے بھی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے۔ ورنہ فتو تو تعلیم نسواں کے حق میں ہی نہ تھا۔ اس کے نزدیک عورتوں کو بس قرآن شریف پڑھنا آنا چاہئے تھا یا تھوڑی بہت اردو تاکہ مسئلے مسائل کی کتابیں پڑھ سکیں۔ وہ اکثر اسی بات پر اپنی بیوی سے جھگڑا کیا کرتا تھا۔ کیا کرنا ہے اتنا پڑھ کر، کوئی نوکری تھوڑی کرانا ہے۔ مگر وہ اللہ کی نیک بندی اپنی ہٹ کی پکی تھی۔ اس کا بس چلتا تو خود بھی پڑھنا شروع کر دیتی۔ مگر گھر داری کے جھنجھٹ اور مجازی خدا کی ناراضگی کے ڈر سے دل مسوس کر رہ جاتی۔ شوہر کا حکم تھا کہ گھر سے قدم باہر مت نکالو، چنانچہ سرداراں اس کا یہ حکم اللہ کا حکم سمجھ کر گھر میں رہ گئی تھی، مگر بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ شوہر کی بھی نہیں سنتی تھی۔
پچھلے چند ماہ سے اڑوس پڑوس کی عورتوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی پفوا کے انڈسٹریل ہوم میں جانے لگی تھی حالانکہ اس کا شوہر اس پفوا کے بہت خلاف تھا۔ بھلا یہ بھی کوئی تک ہوئی کہ عورتیں مردوں کی برابری کا دعوی کریں۔ اب ٹائپ بھی سیکھا جانے لگا۔ جب سے اس نے یہ سنا تھا کہ پفوا میں ٹائپ کی کلاسیں ہونے لگی ہیں تو اس کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ جہاں تک اسے یاد پڑتا تھا تو یہ کلام میمیں کیا کرتی ہیں۔ گٹ پٹ کرتی ہوئی سرخ و سفید میمیں۔ کئی روز تک تو اسے یقین نہ آیا مگر جب اس کے آفس میں بڑے بابو نے بھی تصدیق کر دی تو ماننا ہی پڑا۔ گھر آکر اس نے بے بات ہی سرداراں کو سخت سست کہا اور یہ بھی کہہ دیا، دیکھ ری سن لے اچھی طرح، اگر تونے کبھی پفوا، وفوا کا رخ بھی کیا۔ ٹانگیں توڑ کر رکھ دوں گا۔
مگر سرداراں بھی اپنی دھن کی پکی تھی۔ جس روز بیٹی میٹرک کا آخری پرچہ دے کر آئی، اسی شام سرداراں اسے لے کر پفوا کے مرکز جا پہنچی اور اس کے بعد پابندی سے باپ کے ڈیوٹی پر جاتے ہی رشیداں، ماں کی اجازت سے پفوا کا رخ کرتی۔ آج اس بات کو کئی ماہ ہونے کو آئے تھے۔
فتو کو علم بھی نہیں تھا کہ اس کی لاعلمی میں یہ ماں بیٹیاں کیا گل کھلا رہی ہیں۔ وہ صبح سات بجے کا گیا تین بجے گھر یں داخل ہوتا تو کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر نہ آتی۔ آج کل وہ سخت پریشان تھا۔ دمے کا پرانا مرض شدت اختیار کر گیا تھا، کوئی محنت کا کام نہیں کر سکتا تھا۔ گھر والے بھی سخت پر یشان تھے۔ ایک ہی کمانے والا ہے، اب کیا ہوگا، ابھی لڑکی کی شادی بھی کرنا ہے، دوسرے بچیپڑھ رہے ہیں۔ غرض فتو کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔
آج بھی فتو اسی فکر میں سر جھکائے گھر میں داخل ہوا تو فضا کچھ بدلی بدلی محسوس ہوئی۔ ماں بیٹیاں کسی بات پر کھلکھلاکر ہنس رہی تھیں۔ فتو کو آتا دیکھ کر چپ ہو گئیں۔ فتو ویسے ہی پریشان تھا، اوپر سے سخت بھوک لگی ہوئی تھی یہ رنگ دیکھ کر بس جان ہی تو جل کر رہ گئی۔ بیوی کو کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے بولا، کس بات کا جشن منایا جا رہا ہے۔ کیا میری نوکری چھٹنے کی خوش ہے جو دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔
بےچاری بیوی کے پاس ان طعنوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ خاموشی سے باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ جتنی دیر میں فتو منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوا، رشیداں کھانا نکال لائی۔ دو ایک نوالے پیٹ میں گئے تو فتو کا موڈ کچھ بہتر ہوا۔ بیوی سے مخاطب ہوکر کہنے لگا، سوچتا ہوں کہ اگر نوکری سے جواب مل گیا تو ریڑھی لگا لیا کروں گا مگر زیادہ فکر مکان کی ہے۔ ایک کمرے کا یہ شیلٹر بھی چھن جائےگا۔ کوئی عزیز رشتہ دار بھی ایسا نہیں ہے کہ سر چھپانے کا آسرا ہی ہو جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ یہ کہہ کر سرداراں کی طرف دیکھا تو تن بدن میں آگ ہی تو لگ گئی۔ بجائے ہمدردی کے مسکرا رہی تھی، قریب تھا کہ پھر کوئی سخت سست سنا بیٹھتا کہ رشیداں جلدی سے آگے بڑھ کر بولی ’’ابو میں اول نمبر سے پاس ہو گئی۔‘‘ آج ہی نتیجہ آیا ہے۔ ’’اچھا مبارک ہو تیری امی جان کو۔‘‘
یہ کہہ کر فتو نے اپنی دانست میں بڑا بھرپور حملہ کیا۔ ’’اور ابو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کی نوکری چھٹتی ہے تو چھٹے‘‘ آج رشیداں کچھ زیادہ ہی لاڈ میں آ گئی تھی۔ ’’کیا مطلب ہے تیرا لڑکی، نوکری چھٹے او رمیں پریشان نہ ہوں۔ کہاں سے کھلاؤں گا تم لوگوں کو۔‘‘ یہ کہہ کر فتو نے بہت غصے سے اس کو گھورا۔
’’ابو، رشیداں بولی۔‘‘ آپ ناراض نہ ہوں، مجھے نوکری مل گئی ہے۔ ‘‘تجھے نوکری مل گئی ہے، اری آج تو ہوش میں بھی ہے۔‘‘ سچ کہہ رہی ہوں ابو، لڑکیوں کے اسکول میں مجھے ٹائپسٹ کی جگہ مل گئی ہے۔ اب ہمیں دوسرا مکان مل جائےگا۔ دو کمروں والا۔
کیا! کیا! فتو، جیسے حواس باختہ ہو گیا ہو۔ کیا کہا تو نے، ٹائپسٹ کی جگہ مل گئی ہے، اری تو نے کہاں سے سیکھا ٹائپ۔ تیرے باپ کو تو آج تک دو حرف پڑھنا نہ آئے اور تو میموں کی طرح ٹائپ بھی سیکھ گئی، سرداراں! یہ کیا کہہ رہی ہے۔ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئی۔
نہیں رشیداں کے ابو، یہ سچ ہی کہہ رہی ہے۔ تم تو ہمیشہ ان باتوں کے خلاف تھے۔ آج سے کوئی چار ماہ قبل اس نے پفوا کے کلب جانا شروع کر دیا تھا۔ وہیں ٹائپ بھی سیکھا، اپنے بیس کمانڈر صاحب کی بیگم صاحبہ نے ہماری پریشانی کا سن کر اسے لڑکیوں کے اسکول میں نوکری دلوا دی۔ اب اس وجہ سے اچھا والا مکان بھی مل جائےگا یہ ہوتی ہے علم کی عزت۔ رشیداں کے ابو تم بھی فکر نہ کرو، بیگم صاحبہ بہت اچھی ہیں وہ تمہیں بھی پفوا میں چوکیدار کی جگہ دلا رہی ہیں۔ تم تو یونہی پفوا کے خلاف تھے۔
اور ہاں سنو، میں بھی اب تعلیم بالغاں کی کلاس میں پڑھنے جایا کروں گی۔ شام کو باہر جانا تو میرے لئے بغدادی قاعدہ لیتے آنا۔
فتو کے ذہن میں مسلسل دھماکے ہو رہے تھے۔ تمام جسم زلزلوں کی زد میں تھا۔ آج تک وہ خواہ مخواہ پفوا سے بدگمان تھا۔ بڑی دیر کے بعد اس کے حواس ٹھکانے آئے۔ رشیداں کی ماں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مجھے بھی پفوا کی تعلیم بالغاں والی کلاس میں تیرے ساتھ داخلہ مل جائے۔ تو بیگم صاحبہ سے بات کر کے تو دیکھ۔
جواب میں ماں بیٹیوں کے بے ساختہ قہقہوں سے فضا گونج اٹھی اور فتو بیوقوفوں کی طرح منہ کھولے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.