aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بابا مہنگا سنگھ

بلونت سنگھ

بابا مہنگا سنگھ

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو کسی زمانہ میں بڑا خونخوار ڈاکو تھا اور اب گاؤں میں عام سی زندگی گزار رہا تھا۔ رات کو گاؤں کے نوجوان اس کے پاس جا بیٹھتے تھے اور وہ انہیں اپنی بیتی زندگی کے قصہ سنایا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے ایسا قصہ سنایا جس میں ان کے سامنے عورت کی فطرت، اس کی بہادری اور چالاکی کا ایک ایسا پہلو پیش کیا جس سے وہ سبھی ابھی تک پوری طرح سے انجان تھے۔‘‘

    ایک ہمارے ماموں صاحب ہیں کہ شہر میں کسی نہ کسی کام سے آتے رہتے ہیں۔ رات عموماً میرے ہاں ہی گزارتے ہیں اور جب رخصت ہونے لگتے ہیں تو مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مجھے گاؤں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کھلی ہوا، دودھ دہی اور سیدھے سادے بھولے بھالے لوگوں سے مجھے کیا تعلق؟ میں دودھ کے بجائے چائے پینا پسند کرتا ہوں۔ کھلی ہوا کے بجائے کافی ہاؤس کی دھواں دھار فضا زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دیہات کے سیدھے سادھے لوگوں سے براہ راست تعلقات پیدا کرنے کے بجائے میں آرام کرسی پر بیٹھ کر کسی دوست کے ساتھ ان بیچاروں کے مفاد پر گفتگو کرنا افضل سمجھتا ہوں۔ حفظان صحت کی رو سے شہر کی ضرر رساں فضا میں چالیس برس جینے کو دیہات میں اسی سال تک زندہ رہنے پر ترجیح دیتا ہوں۔ لیکن ماموں صاحب کے اصرار سے مجبور ہو کر ایک بار دیہات میں جانا پڑا۔

    گاؤں میں پہنچ کر مجھے مایوسی بالکل نہیں ہوئی بلکہ کچھ خوشی ہوئی کہ گاؤں کی بابت جو میرے خیالات تھے، وہ درست نکلے۔ اب ہر طرف کھلی ہوا تھی۔ کوئی اچھا مکان نہیں، کوئی سنیما نہیں، کوئی کار نہیں، کوئی کمیونسٹ نہیں، بس کھلی ہوا ہے اور مجھے اس بات پرخوش ہونے کی دعوت دی جا رہی تھی۔ میں ماموں کے مکان کے باہر والے کمرے میں بیٹھا جماہیاں لیا کرتا۔ گھر کے سامنے کھلی جگہ میں ماموں صاحب کی بھینس کھڑی دم ہلایا کرتی۔ کبھی کبھی میری طرف دیکھتی۔ کہو بیٹا دودھ پیو گے، مکھن چاٹوگے، دہی کھاؤگے۔ میں کہتا میڈم آپ دودھ کی جگہ چائے کیوں نہیں دیتیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ چائے کے ذائقے سے واقف نہیں ورنہ۔۔۔ بھینس بھی آخر دیہاتن ٹھہری۔ وہ قطع کلام کر کے سینگ ہلانے لگتی اور پھر اپنی بےقدری پر مضمحل ہوکر انتہائی بے اعتنائی سے پورب کی طرف دیکھنے لگتی اور میں ٹالی کی گرہ ڈھیلی کر کے پچھم کی طرف نظر جما دیتا۔ دو ہی روز بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اس جگہ میرے دیکھنے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ میں گاؤں والوں کے لیے دیکھنے کی شے ہوں۔ ماموں جان مجھے اپنے ہمرا ہ لے کر باہر نکلتے تو جو واقف ملتا اور گاؤں بھر میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو ان کا واقف نہ ہو۔ اسے میری تفصیلات سے آگاہ کرتے۔ وہ لوگ مجھے سر سے پاؤں تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگتے۔ ان کے اس رویے سے میں بھول ہی گیا کہ مجھے بھی یہاں کچھ دیکھنا ہے اور وہ پیاری پیاری دیہاتی لڑکیاں جن کی تربوز تربوز بھرچھاتیاں، جنہیں دیہاتی سچ مچ چھاتیاں سمجھتے ہیں اور ان کے وہ گوبر میں سنے ہوئے ہاتھ جنہیں پھیلا کر وہ کچھ ایسے بے باک انداز سے میری طرف دیکھتی تھیں کہ میں اپنے آپ کو بالکل سادہ لوح ظاہر کرنے لگتا۔ آنکھ وانکھ مارنا تو ایک طرف مسکرانے تک کی جرأت نہ ہوتی تھی اور بیچارے بھولے بھالے نوجوان جن کی صورتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ اگر میرے ساتھ ماموں جان نہ ہوتے تو وہ ایک ٹکے کے لیے میری جان لینے سے گریز نہ کرتے۔

    اس فضا میں میرے لیے اور زیادہ عرصے کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہوا جا رہا تھا۔ مجھے بڑے اہتمام سے وہاں سے لے جایا گیا تھا اور میں بھی بڑے طمطراق سے وہاں گیا تھا، اس لیے دوہی دن بعد لوٹ آنا قطعاً نامناسب معلوم ہوتا تھا۔ نہ معلوم میں کیا کر گزرتا۔ اگر سچ مچ میری دلچسپی کا سامان پیدا نہ ہو جاتا۔ منجملہ اور چیزوں کے میرے دل میں سب سے زیادہ کشش سردار مہنگا سنگھ کے لیے پیدا ہوئی۔

    ایک روز صبح کے وقت جب کہ ماموں صاحب مجھے پورا آدھا سیرتازہ دوہا ہوا دودھ پلانے پر مصر تھے سردار مہنگا سنگھ ادھر سے گزرا۔ ماموں سے علیک سلیک تھی۔ ’’واہگورو جی کی فتح‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور پھر ماموں جی کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ تو میرے لیے مجسم درس عبرت تھا۔ وہ کیوں کر؟ اب سردار مہنگا سنگھ کی عمر تین کم اسی برس کی تھی۔ لیکن اس عمر میں بھی دو تین چار سیر دودھ ایک ہی سانس میں پی لینا اس کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی اور ادھر میں جو ابھی نوجوان تھا، آدھ سیر دودھ بھی نہیں پی سکتا اور جب سردار مہنگا سنگھ جوان تھا تو وہ دودھ سے لبریز گھڑے کو منہ لگا دیا کرتا تھا۔

    ’’پینے کے لیے؟‘‘

    ’’اور نہیں تو کیا؟‘‘

    میں کھیتوں میں غائب ہوتے ہوئے مہنگا سنگھ کو دیکھتا رہا۔ اس کا اونچا قد، لمبی داڑھی اور بڑے بڑے ہاتھ پاؤں۔۔۔

    ’’کام کیا کرتا ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، اپنی زمین کی دیکھ بھال کرتا ہے پہلے ڈاکے ڈالتا تھا۔ اب واہگورو کی بھگتی کرتا ہے۔‘‘

    مجھے مہنگا سنگھ کی شخصیت سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ وہ ایک ذہین شخص تھا۔ سیاسیا ت، معاشیات اور نفسیات وغیرہ مضامین پر وہ گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن بحیثیت ایک انسان وہ یقیناًبہت دلچسپ تھا۔ اس کا راکشسوں کے مانند ڈیل ڈول تھا، گینڈے کی طرح کھال۔ مربے والی پھولی ہوئی ہرڑ کی سی آنکھیں، گھنے بالوں سے ڈھکا ہوا سینہ، چھاج کے مانند کان، قدیمی بابلی بادشاہوں کی طرح بٹی ہوئی لمبی داڑھی اور مونچھیں دیکھ کر انسان کو اس بات کا شبہ تک نہ ہو سکتا تھا کہ وہ کوئی مزے دار بات کہہ سکتا ہے یا گدگدی پیدا کرنے والے کسی چٹکلے کو سن کر قہقہے لگا سکتا ہے۔

    چاندنی راتوں میں گاؤں سے باہر عام طور پر نوجوان کبڈی کھیلا کرتے تھے۔ لیکن اندھیری راتوں میں عموماً مہنگا سنگھ کو گھیر لیتے۔ مہنگا سنگھ کو زندگی میں بےشار دل چسپ واقعات پیش آ چکے تھے۔ وہ ان کی سزائیں بھگت چکا تھا او رجو ثابت نہ ہو سکے تھے، وہ دنیا نے معاف کر دیے تھے۔ اب وہ واہگورو نام کا سمرن کرتا تھا یا گاؤں کے نوجوانوں کو کوئی مزے دار قصہ سنا دیتا۔ گاؤں سے تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر لفیٹن کی باغچی تھی۔ یعنی لفٹنٹ کا باغ۔ میں نے اس کی وجہ تسمیہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ خیر اس باغچے کے قریب ایک اونچا ٹیلا تھا۔ مہنگا سنگھ رات کا کھانا کھانے کے بعد اس ٹیلے پر جا بیٹھتا اور پریم رس میں ڈوبے ہوئے شدہ اپنی بے ڈھب آواز لیکن اپنی دانست میں نہایت درد ناک لے کے ساتھ پڑھا کرتا۔ کچھ آدمی بھی اس کے قریب آن بیٹھتے۔ داڑھیوں پر ہاتھ پھیر پھیر کر شبدوں کے الفاظ اور معنی کی داد دیتے۔ بعض اوقات پریم رس اور گیان دھیان سے دفعتاً گریز کر کے وہ عورتوں کی باتیں کرنے لگتے۔ ان کے بالوں، آنکھوں، ہونٹوں، گردن اور چھاتیوں سے ہوتے ہوئے گہرائیوں تک اتر جاتے۔ سب مل جل کر بڑی فحش باتیں کرتے۔ اور جب جی بھر جاتا تو دفعتہ گفتگو کا ایک بہت ہی اعلی اخلاقی نتیجہ نکال لیتے اور پھر سب بڑے گیانیوں کی طرح زندگی کی ناپائیداری پر لمبی آہیں بلند کرتے ہوئے اٹھ کر گاؤں کی طرف چل دیتے۔

    میرا بھی یہ معمول ہو گیا تھا کہ شام کا کھانا کھایا اور باباجی کے ٹیلے کی طرف چل دیتا۔ بابا مہنگا سنگھ آنکھیں موندے، گورچرنوں میں سیس نوائے یا تو کپڑے کی بنی ہوئی مالا جپتے یا شدا گاتے۔ جس روز کا اب ذکر کر رہا ہوں۔ اس روز بھی سب لوگ پریم رس میں رس گلے بنے بیٹھے تھے۔نہ معلوم عورتوں کا ذکر کیوں اور کہاں سے شروع ہوا۔ اس روز صنف نازک پر نیا الزام لگایا گیا اور مہنگا سنگھ نے پہلے گروصاحب کے لکھے ہوئے استر چرتر کا حوالہ دیا اور پھر اس کا ذکر ترک کر کے ذاتی تجربات بیان کرنے لگے۔

    ہم سب سرک کر ان کے قریب ہو بیٹھے۔ تاروں کی مدھم روشنی میں جب مہنگا سنگھ نے اس نئے مضمون پر گفتگو کرنے کے لیے منہ کھولا تو اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک پیدا ہو گئی۔ اس کی ہوا میں لہراتی ہوئی داڑھی جیسے جھوم جھوم کر اظہار مسرت کرنے لگی۔

    عورتوں کی چالاکی؟ ہاہا۔۔۔ مرد خود اپنے آپ کو کتنا ہی عقلمند کیوں نہ سمجھے لیکن عورت کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی۔ اب میں آپ بیتی سناتا ہوں جو بظاہر اس قدر حیرت انگیز ہے کہ شاید تم لوگوں میں سے بعض کو اس بات کا یقین بھی نہ آئے۔

    ہم سب اس کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔ اصل بات شروع کرنے سے پہلے اس نے بتایا کہ اس وقت اس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی۔ وہ بہت طاقتور شخص تھا۔ گھونسہ مار کر اینٹ توڑ ڈالتا تھا۔ کئی معرکے کے ڈاکے ڈال چکا تھا۔ علاقہ بھر کے لوگ تو اس کا نام سن کر تھر تھر کانپتے تھے۔ پولیس تک کی جرأت نہ ہوتی تھی کہ۔۔۔

    یہ تمہید کافی لمبی تھی۔ وہ یہ باتیں پہلے بھی اتنی مرتبہ دہرا چکا تھا کہ ہم اسے سن سن کر تنگ آ چکے تھے۔ لیکن نہ اسے ٹوکا جاسکتا تھا نہ اس کی تردید کی جاسکتی تھی، اب بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا تھا۔ آخر وہ اصل قصے کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’جس واقعہ کا میں اب ذکر کرنے والا ہوں، اس سے پہلے کئی روز کوئی مال ہاتھ نہ لگا تھا۔ یوں تو واہگورو کا دیا سب کچھ تھا، لیکن پھر زور بازو سے بھی بہت کچھ کمایا تھا۔ لیکن جسم میں جان تھی۔ طاقت کا استعمال بھی تو لازم تھا نا۔ ہاں بھئی چرن سنگھ تم تو تقریباً میری ہم عمر ہی ہونا؟ تمہیں یاد ہے کیلاں کے گاؤں کے ارد گرد کا علاقہ کس قدر خطرناک سمجھا جاتا تھا۔‘‘

    ’’ہاں مجھے یاد ہے وہاں بڑے بڑے درختوں کے جھنڈ اور جھاڑیاں کو سوں تک چل گئی تھیں۔ جنگل ہی جنگل تھا۔‘‘

    مہنگا سنگھ نے پھر بات شروع کی۔‘‘ بڑا سنسان علاقہ تھا۔ وہاں یا تو بھیڑیے رہتے تھے یا ڈاکوؤں کی کمیں گاہیں تھیں۔ مجھے بھی بعض اوقات وہاں پناہ لییگ پڑتی تھی۔ ایک مرتبہ کافی عرصے تک وہاں چھپے رہنے کے بعد میں نے گھر جانے کی ٹھانی۔ مہینوں سے نہ گھر والوں کی مجھے اور نہ میری گھر والوں کو کوئی خبر رہی تھی۔ میں نے دو تین ساتھیوں کو تاکید کر دی کہ میں زیادہ سے زیادہ آٹھ دس روز تک لوٹ آؤں گا اور اگر میں اتنے عرصے کے اندر اندر واپس نہ آؤں تو سمجھنا کہ گرفتار ہو گیا ہوں پھر مجھے جیل سے چھڑانے کی تجویز کر لینا۔‘‘

    بابا مہنگا سنگھ نے اپنی ٹانگوں کو سہلاتے ہوئے قدرے سکوت کیا۔ ‘‘ اپنے گاؤں تک چالیس کوس کا فاصلہ تھا۔ سوچا را ت کو سفر کیا کروں گا اور دن کو کہیں چھپ رہوں گا۔ جنگل ختم ہوتے ہی پہلا گاؤں ’’کیلاں‘‘ تھا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ میرے ہاتھ میں ایک لمبا لٹھ اور کمر سے ایک ڈیڑھ فٹ کرپان لٹکی ہوئی تھی۔ یہ کرپان میں نے خالص لوہے کی بنوائی تھی۔ اس وقت مجھے سوائے جانوروں کے اور کسی کا خطرہ نہ تھا۔ کیلاں کے لوگ چونکہ بڑے خطرناک علاقےمیں رہے تھے، اس لیے سردیوں میں تو شام پڑتے ہی گھروں گھس بیٹھتے تھے۔ میں مزے سے شبد گنگناتا، کھیتوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ دفعتاً میری نظر جو اٹھی تو ایک بہت عجیب منظر دکھائی دیا۔ کیلاں سے کئی کھیت ادھر درختوں کے جھنڈ کے پیچھے شمشان اور قبرستان ساتھ ساتھ کچھ اس انداز سے بنے ہوئے تھے کہ اگر گاؤں سے ایک طرف دیکھا جائے تو سوائے ان گھنے درختوں کے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ قبرستان میں تیز روشنی ہو رہی ہے۔ پہلے میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے شمشان میں کوئی مردہ جلایا گیا ہو اور آگ ابھی جل رہی ہے۔ لیکن یہ روشنی کچھ اور ہی طرح کی تھی اور پھر لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔‘‘

    سب لوگ بلا آنکھیں جھپکائے مہنگا سنگھ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مہنگا سنگھ نے داڑھی پر ہاتھ پیرتے ہوئے قصہ جاری رکھا۔

    ’’یہ روشنی دیکھ کر میرے دل میں کئی طرح کے خیالات پیدا ہوئے۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ ایسی سنسان جگہ، اندھیری رات، شدت کی سردی، ہر طرف خاموشی کا عالم۔۔۔ اور قبرستان میں بڑھتی ہوئی روشنی۔ پہلے میں نے سوچا، ہے منا! (اے دل) تجھے ان باتوں سے کیا لینا۔ سیدھا راستہ ناپتا چلا جا! تجھے منزل طے کرنی ہے۔ واہگورو کی باتیں واہگور وہی جانے۔‘‘ لیکن دل کی تسلی نہ ہوئی اور میں نے سوچا دیکھوں تو سہی آخر معاملہ کیا ہے؟ لو بھائی! میں نے اپنا راستہ چھوڑ کر قبرستان کا رخ کیا قبرستان مجھ سے کافی فاصلے پر تھا۔ جوں جوں میں قریب پہنچ رہا تھا توں توں روشنی اور صاف نظر آنے لگی۔ قبرستان سے کچھ فاصلے پر وہیں رک گیا۔ گھنی جھاڑیوں میں نہ صرف آگ کی روشنی صاف صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بلکہ وہاں کوئی چیز ہلتی ہوئی دکھائی دی۔ پہلے سوچا شاید میرا وہم ہو۔ چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا۔ یوں معلوم ہوا جیسے دو سینگ ہل رہے ہوں۔ میں قدم ناپتا درختوں کی اوٹ لیتا ہوا کچھ اور قریب پہنچا تو سر سے پاؤں تک بالکل سیاہ گائے دکھائی دی۔ آگ کا ایک آدھ شعلہ جھاڑی کے اوپر لپکتا ہوا دکھائی دے جاتا تھا۔ وہ سیاہ گائے، تنہا ویرانے میں کھڑی چڑیل کا روپ معلوم ہوتی تھی۔ میں نے ہمیشہ واہگورو اکال پرکھ بھروسہ کیا ہے۔ چنانچہ میں واہگورو کا نام لے کر اور آگے بڑھا پھر رک گیا۔ کچھ اس قسم کا شبہ ہو رہا تھا کہ وہاں کوئی اور ہستی بھی ہے۔ رات مکمل طور پر تاریک تھی۔ درختوں کے وہ حصے جہاں آگ کی روشنی نہیں پہنچ رہی تھی بڑے خوفناک دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے ایک نظر اپنے سر کے اوپر ڈالی، ٹہنیوں پر بھی ڈالی کہ کہیں وہاں کوئی چھپا ہوا نہ بیٹھا ہو۔‘‘

    ہم لوگ اس کی آواز کی گونج اور الفاظ کے جادو سے بت بنے ہوئے بیٹھے تھے۔ حاضرین میں سے کسی کے منہ سے تھرتھراتی ہوئی آواز نکلی۔ ’’پھر تم نے کیا دیکھا؟‘‘

    ’’میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ ایک درخت کی اوٹ سے دوسرے درخت کی اوٹ تک انتہائی احتیاط تک چلتا ہوا میں بالکل قریب پہنچ گیا۔ میں نے زندگی بڑے بڑے ویرانے میں بسر کی ہے۔ کئی عجائبات دیکھنے میں آئے لیکن جو منظر وہاں دیکھا وہ مرتے دم تک نہ بھولوں گا۔ گائے کے قریب ایک قبر کے پاس بڑا سا چولہا بنا ہوا تھا اس میں آگ جل رہی تھی۔ کچھ برتن پڑے تھے۔ پانی کا ایک کورا مٹکا۔۔۔ ان سب چیزوں کے درمیان ایک عورت۔‘‘

    ’’عورت؟‘‘ سب کے حلق سے نکلا۔

    ’’ہاں عورت! بیس اکیس برس کے قریب ہوگی۔ اس قدر حسین اور پرشباب کہ زبان بیان نہیں کر سکتی۔ میں تو اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ سوچا نہ معلوم یہ پری ہے سچ مچ کی یا چڑیل نے پری کا روپ دھارا ہے۔ درخت کے تنے کے ساتھ لگا ہوا میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسی کالی رات کو آبادی سے پرے، ویرانے، بلکہ قبرستان میں کسی نوجوان اور حسین عورت کی یہ جرأت کیوں کر ہو سکتی تھی۔ میں نے دل میں کہا کہ دیکھیں، اب یہ عورت کیا کرتی ہے۔ اس نے میرے دیکھتے دیکھتے چولہے میں اور لکڑیاں ڈال دیں۔ آگ بھبھک اٹھی۔ پھر اس نے سر سے دوپٹہ اتار دیا۔ اس کے سیاہ بال دکھائی دینے لگے۔ اس نے مینڈھیوں کو کھولا اور پھر ساری چوٹی کھول کر بال بکھرا دیے اور روئی کی صدری کے بٹن کھولنے لگی۔ صدری کے نیچے ایک مخملی واسکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے بٹن کھول کر اسے بھی اتار دیا اور جب اس نے قمیض کے بٹن کھولنے شروع کیے تو میرا دل دھڑکنے لگا۔ واہگورو ! واہگورو۔۔۔! بٹن کھولنے کے بعد الٹا کر قمیض کو بھی اتار دیا۔ اب اس کے اوپر والے حصے پر ایک تار نہیں تھا۔ آپ لوگ میری حیرانی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اس وقت مجھے بھی ارد گرد کی کچھ خبر نہ رہی۔ دل دھڑک رہا تھا نہ معلوم یہ عورت کیا کرنے کو ہے۔ میں ایک بچے کی سی حیرانی کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا رہا اور اب جو اس نے اپنی شلوار کا ازار بند کھینچا تو میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ چند لمحوں تک میری حالت کچھ عجیب سی ہو گئی۔ میں نے سمجھا کہ یہاں ضرور بھوتوں اور چڑیلوں کا مسکن ہے اتنے میں پانی گرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے جھجھکتے ہوئے اس طرف نظر ڈالی تو عورت نے پانی کامنکہ کالی گائے کے سر پر سینگوں میں پھنسا کر رکھ دیا تھا۔ ایک ہاتھ سے اس نے مٹکہ تھام رکھا تھا۔ دوسرے سے لوٹے بھر بھر کر پانی اپنے بدن پر ڈال رہی تھی۔ نہا کر اس نے ایک چادر سے بدن پونچھا۔ بغیر کپڑے پہنے اس نے ایک رنگین ٹوکری میں سے زیور نکال کر پہنے شروع کر دیے۔ انگوٹھیاں، گوکھرو، چونک، تو بیڑیاں، کنٹھا، بازوبند، بالیاں، غرض وہ سر سے پاؤں تک سونے سے زرد ہو گئی۔‘‘

    ہم میں سے ایک نے کہا۔ ’’ایسی سردی میں اس نے کپڑے نہیں پہنے۔‘‘

    ’’نہیں۔ یہی تو حیرانی کی بات ہے۔ اب اس نے ایک چھوٹی سی رکابی سے کپڑا سرکایا اس میں گندھا ہوا آٹا تھا۔ چولہے پر توا رکھا اور آٹے کو پراٹھے کے انداز میں لپیٹ کر توے پر ڈال دیا اور اسے گھی میں تلنے لگی۔‘‘

    اب میں سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے میں نے سنا تھا کہ پریوں کی کمر کا پچھلا حصہ کھوکھلا ہوتا ہے۔ یعنی ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی۔ دوسرے بھوتوں کا سایہ نہیں ہوتا اور اس عورت کا سایہ صاف نظر آ رہا تھا اور پھر ہر چیز اس قدر واضح تھی کہ میں نے سمجھ لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے ایک تو بھوت چڑیواں پر میرا یقین نہیں تھا لیکن اس عورت کا واقعہ اس قدر عجیب تھا کہ یقین نہ آتا تھا کہ ایک کمسن اور حسین عورت ایسی سنسان جگہ پر آنے کی جرأت کر سکتی ہے۔ خیر! اب میں نے قدم بڑھایا اور اس چند قدم پر کھڑی ہوئی گائے کی پیٹھ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ گائے کے جسم کو چھوکر میرا یقین پختہ ہو گیا کہ یہ کوئی غیر معمولی ہستی نہیں ہے۔ اب میں کھڑا ہوا ہی تھا کہ اس عورت کی نظر میرے پاؤں پر پڑی اور پھر دفعتاً اس نے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اب دفعتاً اس کی صورت مسخ ہو گئی، باچھیں چر گئیں، دانت چمکنے لگے، نتھنے پھیل گئے اور آنکھیں جیسے ابل پڑیں۔ ہاتھوں کی انگلیوں میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ بال پھیلائے ہوئے ’’کلیجہ کھالوں گی۔ کلیجہ کھالوں گی‘‘ کہتی ہوئی میری طرف جھپٹی۔ اس کی آواز سن کر مجھے تسلی ہو گئی کہ یہ کوئی عورت ہے، چڑیل نہیں۔ جوں ہی وہ میرے قریب پہنچی۔ میں نے مسکراکر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ وحشیوں کی طرح ہاتھ کاٹنے لگی میں نے زور سے اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ وہ گرتے ہی پھر اٹھ کر مجھ سے گتھم گتھا ہو گئی۔ اس عورت میں بلا کی طاقت تھی۔ لیکن ظاہر تھا ہم دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہ ہو سکتا تھا۔ میں نے تنگ آ کر اس کے بالوں کو پکڑ کر خوب جھنجھوڑا اور اس کی پیٹھ پر دوتین دھپ بھی مارے۔ لیکن صرف اتنی زور سے جو اس کی قوت برداشت سے باہر نہ ہوں۔ پھر میں نے اس کی نازک گردن کو اپنی لمبی انگلیوں کی گرفت میں لے کر کہا۔ ’’دیکھو، اگر ایسی چھچھوری حرکتیں کروگی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔‘‘ وہ بیچاری تھک کر کانپ رہی تھی۔ میں نے اسے پرے دھکیل کر کہا۔ ’’ذرا وہاں کھڑی ہو کر بات کرو مجھ سے۔‘‘

    اب اسے بھی اس بات کا یقین ہو گیا کہ میں اس کی حقیقت سمجھ چکا ہوں۔ اس لیے زیادہ حیل و حجت فضول تھی، دفعتاً اس نے چادر اٹھائی اور اپنے جسم پر لپیٹ لی او راس کی آنکھیں نیچے جھک گئیں۔ میں نے اصل مقصد جاننے کی کوشش کی۔ وہ زمین کی طرف دیکھتی رہی اور جھجک جھجک کر باتیں کرتی رہی۔ اب اسے مجھ سے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ چار برس پہلے ایک ساہوکار سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ لیکن اب تک وہ اولاد کے لیے ترس رہی تھی اور اس کا شوہر دوسری شادی پر تلا ہوا تھا۔ ادھر یہ پریشان تھی، آخر ایک بوڑھی عورت نے اسے یہ نسخہ بتایا تھا کہ کالی گائے کے سر پر پانی کا مٹکا رکھ کر کر قبرستان میں اشنان کر اور وہیں سے ایک پرانٹھا پکار کر لا اور کسی اولاد والی عورت کو کھلادے تو ا س کے بچے مر جائیں گے اور تیرے گھر اولاد ہوگی۔ میں نے یہ سنا تو قہقہہ مار کر ہنسا۔ اس وقت گہنوں سے لدی ہوئی وہ عورت آگ کی روشنی میں بہت حسین دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے رخسار کو چھوا۔ وہ فوراً پیچھے ہٹ گئی۔ کیسی نرم جلد تھی اس کے چہرے کی اور کس قدر بھولی صورت تھی اس کی۔

    اس نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک شریف گھرانے کی عورت ہوں۔‘‘

    میں نے ہنس کر کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ تو شریف عورت ہے لیکن اے نیک بی بی۔ میں بھی بھلے خاندان کا آدمی ہوں۔ پرائی استری کی طرف بری نیت سے دیکھنا پاپ سمجھتا ہوں۔ گرو کا دیا کھاتا ہوں۔ انتہائی مجبوری کے سوا کسی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ اس لیے تو خاطر جمع رکھ۔ لیکن یہ بات سن لے کہ تونے جو طریقہ اولاد حاصل کرنے کا اختیار کیا ہے۔ یہ بہت بڑا پاپ ہے۔ کسی کا برا چاہنا بھلے آدمی کا کام نہیں ہے۔ بڑے بڑے رشیوں، گروؤں، نبیوں، غرض کسی نے بھی اولاد حاصل کرنے کا یہ طریقہ نہیں بتایا جو تو اختیار کر رہی ہے۔

    یہ کہہ کر میں نے کچھ داڑھی کو سنوارا۔ کچھ پگڑی کو درست کیا۔ انگوچھے سے منہ اور بازوؤں کی گرد پونچھی اور بھئی میں خاصا کڑیل جوان تھا۔ وہ مسکرا دی۔‘‘

    بابا مہنگا سنگھ خاموش ہو گئے۔ ہم نے کہا۔ ’’بابا جی اس کے بعد کبھی تم نے ملنے کی کوشش کی؟‘‘

    ’’ہاں، لیکن پھر ملاقات نہیں ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ پھر اسے میری ضرورت ہی نہیں رہی ہوگی۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ سے خفا ہو گئی ہو۔‘‘

    ’’کیا تم نے کوئی خفگی کی بات کی تھی۔‘‘

    ’’نہیں۔ اسے میری کوئی حرکت ناپسند نہیں تھی۔ البتہ جب وہ جانے لگی تو میں نے اس کا کنٹھا پکڑ لیا۔ وہ حیران سی رہ گئی۔ بولی ’’تمہارا مطلب؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے تو میرا کوئی مطلب ہی نہیں تھا۔ میرا اصل مطلب یہی ہے۔ اس نے کہا کہ اکیلی جان کر میرے زیوروں پر ہاتھ ڈال رہے ہو۔ میں نے جواب دیا۔ ’’جتنے آدمیوں کے سامنے کہو تمہارے زیورات اتار لوں۔ اسے میری یہ تجویز پسند نہیں آئی چنانچہ ا س نے سارے زیورات میرے حوالے کر دیے۔‘‘

    یہ کہہ کر بابا جی نے سر جھکا لیا اور پھر جیسے گم ہو گئے۔ ایک بزرگ بولے۔ دیکھا ایسی پاجی ہوتی ہیں، عورتیں۔۔۔‘‘

    لیجئے، میں دل میں سوچنے لگا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ، اس قصے کا کیا ہی شاندار اخلاقی نتیجہ نکالا گیا ہے۔ سب لوگ آپس میں عورتوں کی بدمعاشی اور ان کی چالاکی پر رائے زنی کرنے لگے۔ لیکن بابا جی آنکھیں نیم واکیے چپ چاپ بیٹھے رہے۔

    ’’باہگورو! باہگورو! ان کے لب ہلے۔

    میں نے انہیں افسردہ دیکھ کر پوچھا۔ ’’باباجی! آپ نے جو اس عورت کے زیورات اتار لیے غالباً آپ کو اسی بات کا دکھ ہو رہا ہے اس وقت!‘‘

    بابا جی کے بھاری پپوٹے ہلے اور انہوں نے میری طرف پریم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سرد آہ کھینچی اور بولے۔ ’’نہیں، مجھے اس کا دکھ نہیں، لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ پچاس برس گزرنے کو آئے واہگورو اکال پرکھ نے مجھے ایسا موقع پھر کبھی نہیں بخشا۔‘‘

    مأخذ:

    آج کل،نئ دہلی (Pg. 73)

      • ناشر: پبلیکیشنز ڈویژن، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے