سوامی
پیڑوں کی پھنگیوں میں اٹکتا ہوا سورج سامنے ٹیکری کے پیچھے چھپ گیا اور اچانک چاروں طرف ایک دھند سی چھا گئی۔ اس کے پیروں کے نیچے وہ پکڈنڈی کسی عظیم الجثہ اژدھے کی مانند بےحس و حرکت پڑی تھی۔ ساتھ ہی اسے احساس بھی ہو گیا کہ اس نے پیدل راستے سے آکر غلطی کی ہے۔ اگر ذرا جلدی نکل کر سیدھا راستہ اختیار کرتا تو شاید اب تک بڑی سڑک پر پہنچ گیا ہوتا۔ ایک عرصے بعد وہ اس گاؤں میں آیا تھا۔ بھولی بسری یادوں کو جھاڑ پونچھ کر چمکاتا ہوا گلیوں میں گھوم پھر رہا تھا کہ وقت یوں نکل گیا جیسے پھٹی جیب سے ریزگاری نکل جاتی ہے۔
ماں نے بطور خاص ماروتی کے جس مندر کے بارے میں تاکید کی تھی اس نے اسے دیکھا تھا۔ اگر مراد پوری ہونے والی ہو تو اس مورتی کو بآسانی اٹھایا جا سکتا تھا ورنہ اس میں بال برابر جنبش نہیں ہوتی تھی۔ (اس نے مورتی کو بڑی آسانی سے اٹھا لیا تھا نتیجے کے طور پر اس کے کرتے پر سیندور کا چکٹ داغ لگ گیا تھا۔ ) اس نے بچپن میں جس قد آدم پیڑ کے چھوٹے چھوٹے آم کھائے تھے اسے دو پیڑ بھی دکھائی دیا۔ اس نے اس پیڑ پر بڑی اپنائیت سے ہاتھ پھیرا اور آخر میں جس مکان میں اس کا جنم ہوا تھا وہاں بلاوجہ تھوڑی دیر رکا بھی رہا۔
اس نے دیکھا کہ رس دار گلر کا پیڑ بوڑھا ہو گیا ہے۔ وہ پاری جا ت کا پیڑ بھی اب کہیں دکھائی نہیں رے دہا تھا۔ جس کے نیچے ساون میں پھولوں کا فرش سا بچھ جاتا تھا۔ وہاں رہنے والوں نے آخر دوسرا پیڑ کیوں نہیں لگایا؟
کیا آنگن اور کیا پچھواڑا کہیں کوئی پیڑ نہیں تھا۔ کہیں معمولی سی چھاؤں بھی نہیں تھی۔ کیا ایسا بھی گھر ہو سکتا ہے جس کی بغل میں ایک پیڑ تک نہ ہو۔ بھلا ایسے گھر میں لوگ کیونکر رہ سکتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں تلسی کی دیدی بھی نہیں تھی اور اسے لیپا پوتا بھی نہیں گیا تھا۔ اسے لمحے بھر کے لئے حیرت ہوئی مگر یہ حیرت جلد ہی دور ہو گئی۔ اسی وقت اس گھر سے ایک جوان عورت نکلی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامنے ایک پرایا مرد کھڑا ہے اس نے آنچل سے اپنی کمر کے کھلے حصے کو ڈھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کے گلے میں منگل سوتر تھا مگر ماتھے پر سیندور نہیں تھا اور کلائیاں بھی چوڑیوں سے عاری تھیں۔ اسے لگا اس عورت میں اور مکان کی صورت حال میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ جیسا مکان ویسے مکین۔
وہ وہاں سے روانہ ہو گیا، سچ پوچھئے تو اب اس کے لئے وہاں کچھ نہیں بچا تھا۔ شاید وہاں کوئی اس خاندان سے بھی واقف نہیں تھا۔ پھر بھلا اسے کون پہچانتا۔ شروع میں تین چار بچے ضرور اس کے گرد جمع ہو گئے تھے مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ بیزار ہوکر چلے گئے اور وہ اسی طرح اکیلا بھٹکا رہا نہ کسی نے اسے وہاں رکنے کے لئے کہا نہ کسی نے ایک کپ چائے کے لئے پوچھا۔ اس گاؤں نے اسے پوری طرح دھتکار دیا تھا۔ ایسے میں اسے دیر ہو گئی تھی اور ابھی تقریباً فرلانگ بھر فاصلہ باقی تھا۔ چاروں طرف خودرو گھاس اگی ہوئی تھی جس کے سبب اسے پگڈنڈی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ دس منٹ پہلے اس کا پاؤں ایک گڈھے میں پڑا تھا اور اس کے ٹخنے میں موچ آ گئی تھی۔
اب کسی طرح اسے جلد از جلد یہ فاصلہ طے کرنا تھا کیونکہ اگر یہ بس نہیں ملی تو اسے پوری ایک رات اسی طرح بے سروسامانی میں گذارنی پڑے گی۔ معاًنکڑ پر بس کی ہیڈ لائٹس نظر آئیں۔ وہ اپنے ٹخنے کی تکلیف کی پرواہ کئے بغیر دوڑنے لگا لیکن سڑک پر پہنچتے پہنچتے بس زناٹے سے آگے نکل گئی۔ وہ بھنا گیا۔ اس نے سوچا اگر کوئی اس اسٹاپ پر اترنے والا ہوتا تو بس ضرور ایک آدھ منٹ کے لئے رکتی اور اسے مل بھی جاتی۔ یہاں یقینا روزانہ کوئی نہ کوئی ضرور اترتا ہوگا مگر آج مجھے جانا تھا اس لئے کوئی کیوں اترنے لگا مرنے کے لئے۔ اس نے چہرے سے پسینہ پونچھا۔
اب صبح آٹھ بجے تک کوئی گاڑی نہیں تھی۔ رات کہاں کاٹی جائے۔ آس پاس کوئی درخت بھی نہیں تھا جس کے نیچے پڑ کر رات گذاری جا سکے۔ آخر کیا کیا جائے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک آواز آئی۔ ’’بس تو نکل گئی اب کیا کروگے؟‘‘ وہ چونک کر پلٹا، قریب ہی ایک سنیاسی کھڑا تھا۔ اس نے بغیر آستینوں کا لمبا جبا پہن رکھا تھا۔ سر پر کس کر بندھی ہوئی پگڑی تھی، جس کا ایک سرا اس کے بائیں کندھے پر پڑ ا تھا۔ وہ پرسکون انداز میں ہنسا اور دوبارہ دریافت کرنے لگا، ’’اب تم کیا کرو گے؟ واپس جاؤگے؟‘‘
اس نے قدرے فکر مندی کے ساتھ جواب دیا، ’’میں یہی تو سوچ رہا ہوں۔ واپس کہاں جاؤں گا۔ اندھیرے میں پگڈنڈی بھی تو سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ سڑک سے جانے میں پانچ چھ میل کا فاصلہ ہے اور پھر اس گاؤں میں جاکر میں کروں گا بھی کیا؟ وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ انہیں میرا نام بھی تو نہیں معلوم، وہاں جاکر رات گزارنا مشکل ہے۔‘‘
کھڑاؤں کھڑکھڑاتا ہوا وہ سیناسیدو قدم آگے بڑھایا۔ اس کا چہرہ چوڑا گال بھرے بھرے اور جبڑے سخت تھے۔ وہ کسی فاقہ مست سنیاسی کی بجائے کسی مٹھ کا مہنت معلوم ہو رہا تھا۔
’’جب اس گاؤں میں تمہیں کوئی نہیں جانتا پھر تم وہاں کیوں آئے تھے؟‘‘ اس نے قدرے تعجب سے پوچھا۔
’’اس پر تو مجھے بھی حیرت ہے۔ اگر ایک روز قبل کوئی مجھ سے کہتا کہ تمہیں ایک رات اپنے آبائی گاؤں میں گزارنا پڑےگا تو میں اس آدمی کی حماقت پر ہنس دیتا۔ ہوا یہ کہ یہاں سے گزرتے ہوئئے پتا نہیں مجھے کیوں خیال آیا کہ میں اپنے آبائی گاؤں کے اتنے قریب آگیا ہوں تو چل کر ایک نظر دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔ پھر پتا نہیں سیکڑوں میل کی مسافت طے کرکے دوبارہ اس طرف آنا ہوگا بھی یا نہیں۔ بس یہ خیال آتے ہی میں یکلخت بس سے اتر گیا۔ لیکن گاؤں میں جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ مجھے ایسی حماقت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ لہٰذا میں وہاں ٹھہرے بغیر ہی نکل آیا اور اسی دوران بس نکل گئی اور اب صبح تک کوئی سواری نہیں۔‘‘ اس نے قدرے مضطرب ہوتے ہوئے کہا۔
مہنت چپ تھا، لیکن اس کی نظریں اس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک بار پھر پوچھا، ’’آخر کیا کرنے کا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘ اسے فوری طور پر کوئی جواب نہیں سوجھا، ’’دیکھیں کیا ہوتا ہے، ہو سکتا ہے ایک آدھ سواری یہاں سے گزرے۔ کم سے کم اگلے کسی اسٹاپ تک بھی پہنچ جاؤں تو رات وہاں گزار لوں گا۔‘‘
اس نے یہ بات کہہ تو دی مگر اس کے لہجے سے بےیقینی صاف جھلک رہی تھی۔
’’تم ایک کام کیوں نہیں کرتے۔‘‘ مہنت اس کے بالکل قریب آ گیا۔
’’تم آج کی رات ہمارے مٹھ میں قیام کرو، وہاں تمہارے غسل کا، ٹھہرنے کا اور کھانے کا انتظام ہو جائےگا۔ مٹھ یہاں سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ اس راستے کے اس طرف سامنے چھوٹی سی ٹیکری نظر آ رہی ہے اسی پر ہمارا مٹھ ہے۔ اندھیرا ہو گیا ہے ورنہ تمہیں سامنے پگڈنڈی بھی دکھائی دیتی۔‘‘
اس نے سامنے نگاہ ڈالی، ٹیکری کسی خاردار کھال والے عفریت کی مانند پڑی سستا رہی تھی۔ ٹیکری کی چڑھائی پر نیلگری کے اونچے اونچے درخت تھے جو دور سے یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے اس عفریت کی لمبی ہڈیاں زمین میں گڑی ہوئی ہیں۔
’’نہیں۔ آپ کو خوامخواہ زحمت ہوگی۔‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’یوں اچانک آپ کا مہمان بن جاؤں تو آپ سب کو تکلیف ہوگی۔‘‘
مہنت زور سے ہنس پڑا۔ بولا، ’’یہ سچ ہے کہ مٹھ میں زندگی سخت اور سادہ ہوتی ہے، مگرہمارا مٹھ ذرا الگ قسم کا ہے۔ بغیر اطلاع دئے کسی بھی وقت اگر سو مہمان بھی آجائیں تو ہم بڑی آسانی سے ان کے نہ صرف طعام کا بلکہ قیام کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں۔ تم ایک بار چل کر دیکھو تو سہی۔‘‘ اسے شبہ تھا کہ اس ویرانے میں ایسی بھی کوئی جگہ ہو سکتی ہے اسے مہنت کی بات کا یقین نہیں آیا لیکن خوامخواہ کی بحث میں نہ پڑتے ہوئے وہ مہنت کے ساتھ چلنے پر رضامند ہو گیا۔ مہنت کھڑاؤں کھٹکھٹاتا بڑے آرام سے چل رہا تھا راستہ اس کا دیکھا بھالا لگتا تھا۔ البتہ وہ بار بار ٹھوکریں کھاتا جوں توں اس کا ساتھ دے رہا تھا۔
’’ہاں۔ ایک بات تمہیں بتانا ضروری ہے، غسل کے بعد تمہیں مٹھ کا دیا ہوا لباس زیب تن کرنا ہوگا۔ یعنی ایسا ہی جبا اور اندر معمولی سے کپڑے تم ایک دن کے لئے کھڑاؤں تو پہن سکوگے نا۔‘‘
’’نہیں بابا۔ میں ننگے پاؤں گھومنا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’جبا اگر آپ کے جبے کی طرح ہوگا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ کھڑاؤں کی ضرورت نہیں۔ بچپن میں ایک دفعہ میں نے کھڑاؤں پہنے تھے۔ چلتے ہوئے کھڑاؤں تلوؤں کے نیچے سے سرک سرک جاتے اور قدم کہیں کے کہیں پڑتے۔‘‘
اس بات پر مہنت ہنسا نہیں اس نے صرف اتنا کہا، ’’تمہیں تو اس سے بھی زیادہ عمدہ جبا ملےگا۔‘‘
وہ لوگ جھاڑیوں والا ایک موڑ پار کرکے آگے بڑھ گئے۔ وہاں تھوڑی سپاٹ زمین تھی۔ مہنت کے رکتے ہی وہ بھی رک گیا اور حیران نظروں سے سامنے دیکھنے لگا۔
سامنے ڈھلان کے اختتام پر ایک ٹیکری دکھائی دی۔ جس پر اگی چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کا سلسلہ اوپر تک چلا گیا تھا۔ دور سے یہ جھاڑیوں بالو ں کے گچھوں کی مانند دکھائی دے رہی تھیں۔ اس ٹیکری کے دامن میں وہ شاندار مٹھ یوں نظر آ رہا تھا جیسے اس نے ٹیکری کو اپنی پشت پر اٹھا رکھا ہو۔ مٹھ کا پھاٹک کافی بڑا تھا۔ اس وسیع و عریض پھاٹک کے مقابلے میں مٹھ چھوٹا نظر آ رہا تھا۔ مٹھ کے پیچھے بڑے بڑے چار پائپ تھے جو ٹیلے کے اوپر تک چلے گئے تھے ہر پائپ کے اختتام پر اس کے مڑے ہوئے سرے کو ڈھکنے کے لئے ایک لوہے کی چھتری سے بنی تھی۔ لیکن اس کی حیرت کا سبب کچھ اور تھا۔ مٹھ کے دروازے پر تیز روشنی پھینکتا ہوا ایک بلب جل رہا تھا اور مٹھ کے اوپر کر یلے کی شکل کا ایک مینار سا بنا تھا جس سے سرخ رنگ کی روشنی چنگاریوں کی طرح پھوٹ رہی تھی۔ وہیں بازو میں وہ جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔ جھنڈیاں چوکون کپڑے کو درمیان سے کاٹ کر وہ پنکھوں کی شکل میں تراشی گئی تھیں۔ ان کے نیچے چھوٹے قمقموں سے لکھا تھا ’’تپ نواس یعنی ریاضت گاہ۔‘‘
’’یہ رہا ہمارا مٹھ۔‘‘ مہنت بولا۔
’’باہر سے اس کی اندرونی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہمارے اولین سوامی نے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اس کی تعمیر کروائی تھی۔‘‘
اس دور افتادہ معمولی سی بستی میں بجلی کا ایسا زبردست انتظام دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا، مہنت آگے کہہ رہا تھا۔ ’’یہ صحیح ہے کہ یہاں سے بیس پچیس کوس کے رقبے میں بجلی کا نام و نشان نہیں ہے۔ لیکن ہمارا مٹھ اس معاملے میں خود کفیل ہے۔ ذرا دائیں طرف نگاہ ڈالو وہ سارے کھیت کھلیان مٹھ کی ملکیت ہیں۔ ہم میں سے چند خادم وہاں محنت کرتے ہیں اور مٹھ کے لئے اناج اگاتے ہیں یعنی اگر ہم اپنے مٹھ کے دروازے بند بھی کرلیں تو کم از کم ایک برس تک ہمیں کسی بیرونی رسد کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ ’’جھاڑی سے نکل کر وہ لوگ جوں ہی مٹھ کے گرد بنی اونچی باڑ تک پہنچے مہنت نے اسے ٹوکا۔
اب تم میرے پیچھے پیچھے اس پھاٹک سے اندر آؤ۔ اس باڑکے اندر جھاڑیوں میں کانٹے دار تار لگائے گئے ہیں جس میں چوبیسوں گھنٹے بجلی کا کرنٹ جاری رہتا ہے۔ اندر داخل ہونے کا صرف یہی ایک راستہ ہے اور یہ بھی ہمیشہ مقفل رہتا ہے۔ ‘‘ اندر آنے کے بعد مہنت نے اپنے گلے میں پڑی چابی کو اپنے جبے کے نیچے سرکا دیا۔ اب وہ لوگ مٹھ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مٹھ کسی سانپ کے پھن کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔
اس پر نظر جمائے وہ آگے بڑھتا رہا۔ خوف کی ایک لہر اس کے رگ وپے میں سرایت کر گئی۔ آس پاس کے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے سے تین تین چار چار کی شکل میں ویسے ہی جبے پہنے ہوئے کئی ہیولے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ چلتے چلتے مہنت رک گیا پھر دائیں جانب ایک سمادھی کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ سمادھی قد آدم کے برابر اونچی اور سیاہ رنگ کی تھی۔ ہشت پہلو سیاہ پتھروں سے بنی اس سمادھی کو پرنام کرنے کے بعد مہنت گویا ہوا، ’’یہ اولین سوامی کی سمادھی ہے۔ بعد کے سوامیوں کی آرام گاہ بھی یہیں ہے۔‘‘
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے پرنام کرنا چاہئے یا نہیں کہ مہنت داخلی دروازے کی طرف مڑ گیا۔ اس کے قریب جاتے ہی منقش دروازہ کھل گیا۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی داخلی دروازے پر لگا تیز روشنی کا بلب بجھ گیا۔ عقب میں زرد پر چھائیوں کی مانند آتے ہوئے جبہ دھاریوں میں سے دو نے بھاری دروازے کو بزور دھکیلتے ہوئے بند کردیا۔ شہتیر جیسے بھاری ارگل کے لگاتے ہی مٹھ باہر کی دنیا سے یوں الگ ہو گیا جیسے کسی ڈنٹھل کو پودے سے کاٹ دیا گیا ہو۔ مہنت کے اندر آتے ہی اندر پھیلی زرد روشنی میں دو جبہ دھاری بھکشو آگے بڑھے اور انہوں نے نہایت ادب سے اسے ایک شال اوڑھائی جس کی کٹاری پر کار چو بی کام کیا ہوا تھا اور آہستگی سے پیچھے ہٹ کر زرد روشنی میں تحلیل ہو گئے۔ اس نے بوکھلاکر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ وہ دیوان خانہ اس قدر وسیع تھا کہ درمیان میں لگے قمقموں کی روشنی آخری سرے تک پہنچنے سے قاصر تھی۔ البتہ ڈھیلے ڈھالے جبوں میں ملبوس بےشمار ہیولے پر چھائیوں کی مانند دیواروں سے لگ کر کھڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر ایک بات اس نے محسوس کی کہ وہاں موجود تمام بھکشوؤں کے سرمنڈے ہوئے تھے۔
اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا، ’’کیا آپ ہی اس مٹھ کے سربراہ ہیں؟‘‘
مہنت ہنسا۔ اس نے ایک بھکشو کو اشارہ کیا۔ بھکشو نے جھٹ ایک کرسی لاکر رکھ دی۔ مگر مہنت اسی طرح کھڑا رہا۔ وہ بولا، ’’نہیں میں مٹھ کا سربراہ نہیں ہوں۔ لیکن سابقہ سوامی نے ازراہ مہربانی یہ ذمہ داری مجھے سونپی ہے۔ یہاں خادم اور مخدوم کا امتیاز نہیں۔ یہ بھکشو نئے ہیں۔ میں ان سے پہلے آیا ہوں بس ان میں اور مجھ میں یہی فرق ہے۔ البتہ میں بھی انہیں کی طرح یہاں کا ایک خادم ہوں۔‘‘
’’پھر اس مٹھ کے سوامی کون ہیں؟ اور وہ کہاں ہیں؟‘‘
مہنت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دیواروں سے لگ کر کھڑے ہوئے سایوں میں ہلکی سی حرکت ہوئی۔ مگر وہ دوبارہ اسی طر ح ساکت ہو گئے۔
’’تمہیں بہت جلد پتا چل جائےگا۔‘‘ مہنت نے قدرے اطمینان سے کہا، ’’تم تھک گئے ہوگے۔ پہلے غسل کرلو۔ رات کے کھانے میں ابھی وقت ہے۔ تھوڑا ناشتہ کر لو۔ سب کچھ معلوم ہو جائےگا۔ میں نے راستے میں تمہیں بتایا تھا کہ تم جب تک یہاں قیام کروگے تمہیں یہاں کا لباس زیب تن کرنا ہوگا۔ یہ یہاں کا خاص اصول ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں ہماری اس شرط کو قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘
’’ویسے بھی میرے پاس بدن کے کپڑوں کے سوا دوسرے کپڑے نہیں ہیں اور یہ کپڑے دھول مٹی سے میلے چکٹ ہو رہے ہیں۔ ‘‘ وہ بولا۔ مہنت کے اشارے پر ایک خادم اس کے پاس آیا۔ اس نے نہایت ادب سے اسے ایک طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس کے ساتھ چلنے لگا۔ حمام میں جانے سے پہلے خادم اسے قریب ایک کمرے میں لے گیا۔ وہاں اس نے اپنے کپڑے اتارے۔ خادم نے اسے مٹھ کا مخصوص زرد لباس دیا۔ جسے پہن کر وہ حمام میں داخل ہوا۔ حمام کی بناوٹ دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کیا واقعی یہ کوئی مٹھ ہے جہاں دنیا سے سنیاس لینے والے رہتے ہیں۔
نیلے رنگ کی چھت سے لگے شاور سے گرم پانی کی پھوار بدن پر پڑتے ہی اس کی رگوں میں ایک فرحت انگیز لہر سی دوڑ گئی۔ بدن خشک کرنے کے بعد بھی صابن کی خوشبو اسے مست کئے دے رہی تھی۔ اس نے سوچا یہاں کی زندگی اگر اس قدر پر لطف ہے تو وہ تاحیات یہاں رہنے کے لئے تیار ہے۔
غسل خانے سے باہر آتے ہی ایک خادم نے چاندی کی چوکی پر رکھا لباس اس کی طرف بڑھایا۔ وہ حیران رہ گیا کیونکہ وہ بہت ہی اعلیٰ قسم کار یشمی لباس تھا۔ سامنے کے حصے میں کمر سے پاؤں تک زربافی کا قیمتی کام کیا گیا تھا اور دونوں آستینوں پر ریشمی دھاگوں سے کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ وہ ڈھیلا ڈھالا آرام دہ لباس زیب تن کرتے ہی اس کے نرم ونازک لمس سے اس کے ذہن پر غنودگی سی چھانے لگی۔ جب وہ واپس آیا تو دوسرے خادم نے مخملیں گدی دار کرسی پیش کی وہ اطمینان سے اس پر بیٹھ گیا تبھی ایک خادم نے چاندی کے ایک طشت میں چاندی ہی کے گلاس میں دودھ اور ساتھ میں کچھ پھل لاکر رکھے۔
اس نے جوں ہی نیم گرم دودھ کا ایک گھونٹ لیا اسے لگا اس کے حلق سے ریشم کی مانند نرم روشنی نیچے اتر رہی ہے مگر یکلخت جیسے وہ ہوش میں آ گیا۔ اس نے بےچینی سے ادھر ادھر دیکھا مہنت کی طرح تمام خادم ٹھہری ہوئی نگاہوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے قدرے تیز لہجے میں پوچھا، ’’وہ خوشبودار غسل خانہ، یہ شاندار تخت، ریشمی لباس، یہ چاندنی کے قیمتی ظروف، آخر ان تمام چیزوں کا آپ لوگوں کی درویشانہ زندگی سے کیا تعلق ہے؟‘‘
’’آج تم ہمارے مہما ن ہو اور تم جیسے مہمان کی جتنی بھی پذیرائی کی جائے کم ہے۔‘‘
مہنت کہہ رہا تھا، ’’اس کے علاوہ ہمارے سابقہ سوامی کی ہدایت ہے کہ سونے چاندی کی لالچ بری ہے مگر سونا چاندی سامنے آ جائے تو اس سے انکار کرتے ہوئے مٹی کے برتنوں کے لئے اصرار کرنا یہ بھی ایک قسم کی جھوٹی انانیت ہے۔ میں ان کے خیال کی بلندی کو نہیں پا سکتا۔ لیکن مجھے مٹی کے برتن میں کھانا پروسا گیا تو میں وہ بلاچوں چراقبول کر لوں گا لیکن اپنی ذاتی ناپسندیدگی کو جتانے کے لئے میں سامنے آئے ہوئے چاندنی کے برتن سے اجتناب نہیں کروں گا۔ ویسے ایک بات بتادوں آج تمہاری مہمان نوازی کا خصوصی طور پر لحاظ رکھا گیا ہے۔
تم نے سوامی کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اصل میں ہمارے سوامی کو سورگباس ہوئے تین مہینے گزر گئے۔ تم نے آتے ہوئے راستے میں جو ورنداون دیکھا تھا وہیں ان کی سمادھی ہے۔ ان کے بعد سے گدی خالی ہے۔ دستور کے مطابق ایک سو آٹھ دنوں کے اندر نئے سوامی کو گدی نشین کرنا مٹھ کا فرض ہے۔ ہم چاروں کھونٹ گھوم گھوم کر ایسی ہستی کی تلاش کر رہے ہیں جس میں سوامی بننے کی علامتیں ہوں۔‘‘
’’یعنی سوامی کے انتقال کے بعد تم میں سے کسی کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس کے لہجے میں تجسس تھا۔
مہنت نے گردن ہلاکر جواب دیا، ’’یہی نہیں خود سوامی کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنا جانشین مقرر کرے۔ اسی لئے تو ایک سو آٹھ دنوں کی مہلت دی جاتی ہے۔ اولین سوامی کے بعد آنے والے سوامیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان پر سب کے ناموں کے آخر میں ’’شیوچرن‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ایک سوامی کا شتکار تھے۔ عرصے تک ہسپتال میں پڑے رہے۔ وہ بےسہارا تھے۔ اس کے باوجود انہیں یہاں کا سوامی ہونے کا اعزاز نہیں ہوا۔ بعد کے ایک سوامی اپنے ابتدائی دنوں میں عطر، جنیو، گنگا جل وغیرہ بیچتے پھرتے تھے۔ ایک سوامی تو کاشی یاترا کے لئے نکلے ہوئے جنادھاری بیراگی تھے۔ یعنی سوامی بننے سے پہلے سخت تپسیا، تقویٰ، پرہیز وغیرہ لازمی نہیں۔ سوامی کے نشانات کہاں ظاہر ہوں گے۔ سوامی کس روپ میں درشن دیں گے۔ یہ ہم جیسے بے علموں کو کیوں کر معلوم ہو سکتا ہے۔ تم آج یہاں مہمان بن کر آئے ہو، کون جانے تمہارے بھیس میں سوامی وارد ہوئے ہوں۔ اس لئے جو کچھ ہم سوامی کے لئے کر سکتے تھے وہی تمہارے لئے کر رہے ہیں۔‘‘
’’لیکن فلاں شخص ہی آپ لوگوں کے سوامی کا اوتار ہوگا ا س کا علم آپ لوگوں کو کیونکر ہوتا ہے؟‘‘
مہنت کے چہرے پر ملائمت چھا گئی۔ وہ بولا، ’’تمہیں میری بات کا یقین نہیں ہوگا۔ پھر بھی مجھے کہنے دو۔ سوامی کے خاص آسن پر بیٹھ کر اگر کوئی ہاتھ بلند کرے تو اس کی انگلیوں سے تین پتوں کی بیل پھوٹتی ہے۔‘‘
مہنت کی بات سن کر وہ غیریقینی انداز میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔ قدرے توقف کے بعد ہنستا ہوا بولا، ’’تھوڑی دیر کے لئے آپ لوگوں نے جو لباس مجھے پہنایا ہے اسے بھول جائیے۔ لیکن ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ تمہیں اپنے سوامی کی علامتیں کہیں نظر آ سکتی ہیں البتہ مجھ میں تو بالکل ہی نظر نہیں آ سکتیں۔ بھائی مجھ جیسا شخص اگر سچ مچ کوئی پودا لگائے نا تو وہ بھی اگنے سے انکار کر دے۔ پھر میری انگلیوں سے بیل پتے کیوں کر اگ آئیں گے۔‘‘
مگر اس کی اس بات پر مہنت نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اس لئے وہ بھی ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ مہنت کے اشارے پر ایک سنیاسی نے آگے بڑھ کر اس کے سامنے سے دودھ کا خالی گلاس اٹھا لیا۔ مہنت کہہ رہا تھا، ’’ رات کے کھانے میں ابھی وقت ہے۔ تب تک میں تمہیں مخصوص عبادت گاہ کی ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں۔ اس عبادت گاہ کو سوامی نے ایک خاص انداز سے تعمیر کیا ہے جس حصے میں تم بیٹھے ہو اگرچہ یہ بہت کشادہ دکھائی دے رہا ہے مگر یہ اصل عمارت کا ایک چھوٹا سے حصہ ہے۔ تم جیسے مہمان جب آتے ہیں تو انہیں کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مندر کا اصل حصہ تو زمین کے نیچے ہے۔‘‘
اتنی دیر سے بےحرکت کھڑے ہوئے زرد ہیولے دھیرے دھیرے ارد گرد کے اندھیرے میں تحلیل ہو گئے۔ اب دیوان خانے میں اس کے اور مہنت کے سوا کوئی نہیں تھا۔
’’مندر کی اس مخصوص تعمیر کی بھی ایک وجہ ہے۔ ہوا یوں کہ ہمارے اولین سوامی پیدل ہی سیاحت کرتے ہوئے شری شیل پربت کے پاس پہنچے وہاں اچانک ان کے دماغ میں ایک خیال کو ندا جیسے اندھیرے میں بجلی چمکی ہو۔ کسی پہاڑی کی چوٹی کی طرح بلند قامت ایک سفید داڑھی والا رشی انہیں دکھائی دیا اور اس نے سوامی سے کہا، یہاں سے مغرب کی جانب جنگل میں جاؤ وہاں تمہیں کوئی پگڈنڈی تک نظر نہیں آئےگی۔ البتہ ایک جگہ آم کا ایک سوکھا پیڑ دکھائی دےگا۔ اس پیڑ پر شہد کا بہت بڑا چھتا بھی ہوگا۔ اس نشانی کو دیکھنے کے بعد تم بے خوف ہوکر دائیں طرف چل پڑو۔ وہاں ایک گپھا ملے گی۔ اس گپھا میں تپسیا کرو۔ تم گیانی ہو جاؤگے۔ ‘‘ سوامی گھنے جنگل میں سے راستہ بناتے ہوئے گپھا تک پہنچے۔ گپھا میں وہ آگے بڑھتے گئے بعض جگہوں پر تو انہیں رینگتے ہوئے آگے بڑھنا پڑا۔
آخر انہیں ایک جگہ شیو لنگ دکھائی دیا۔ پتا نہیں وہ کس پتھر کا بنا تھا۔ مگر چھونے پر نہایت ملائم معلوم ہوتا تھا۔ یہی نہیں اس کے گرد گرمی سے بھاپ نکل رہی تھی۔ سوامی نے اس جگہ چالیس دن تک ریاضت کی۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنے دھیان چنتن کے لئے اس مندر کی تعمیر کروائی۔ تم بہت کم خوش قسمت لوگوں میں سے ہو کیوں کہ سوامی جب تک حیات تھے ان کی گدی تک جانا کسی کو نصیب نہیں تھا لیکن اب تم آسانی سے مقدس مندر کی سیر کر سکو گے۔ آؤ میرے ساتھ۔ دہلیز پر قدم سنبھال کر رکھنا کیوں کہ یہیں سے نیچے جانے کے لئے سیڑھیاں بنی ہیں۔‘‘
وہ کھڑا ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف سناٹا مزید گہرا ہو گیا۔ جب وہ دہلیز کی طرف بڑھا تو مہنت اس کے پیچھے چلنے لگا۔ زرد روشنی گل ہو گئی اور دیوان خانہ بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے پیچھے داخلے کا دروازہ بھی بند ہو گیا اور رہی سہی روشنی بھی یوں غائب ہوگئی جیسے کسی کپڑے کو جھٹک دیا گیا ہو۔ اسے لگا کوئی اسے خود اس سے چھینتا ہوا آگے آگے دھکیل رہا ہے۔ مہنت اس کے پیچھے کسی دبیز سائے کی مانند آ رہا تھا۔ نیچے اترنے کا زینہ چکر دار سیڑھیوں کا بنا تھا۔ اس طرح چار موڑ گزرنے کے بعد اس کے پیر سپاٹ فرش سے لگے۔ مہنت نے ہاتھ آگے بڑھا کر جوں ہی ایک بٹن دبایا بھک سے چاروں طرف نیلے قمقمے روشن ہوگئے۔ اس روشنی میں اسے محسوس ہوا جیسے وہ گہرے پانی کے اندر کھڑا ہے۔
اچانک اسے ایک بے نام خوف کا احساس ہوا اور اس نے پسینے سے تر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا، وہ جس دالا ن میں کھڑے تھے وہ اس قدر وسیع تھا کہ اس کا آخری سرا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کی ایک جانب بغیر کواڑوں کی کوٹھریوں کا سلسلہ تھا۔ دالان میں پھیلی نیلی روشنی ان کوٹھریوں کے اندر رینگتی ہوئی اندھیرے میں غرق ہو گئی تھی۔ نیچے آنے والے تمام خادم ان کوٹھریوں کے سامنے ادب سے کھڑے تھے۔ نیلی روشنی میں ان کے لباس یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے ان پر کائی کی تہہ جم گئی ہو۔ ان کے جسم پر ان کے منڈے ہوئے سر پانی سے جھانکتے پھیکے زہریلے پھلوں کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ مہنت بولا،
’’جب میں نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی وقت کم سے کم سو آدمیوں کے کھانے اور رہنے کا انتظام کر سکتے ہیں تو شاید تمہیں یقین نہیں آیا تھا لیکن دیکھو، یہ سارے سنیاسی یہیں رہتے ہیں۔ یہ یہاں ریاضت کرتے ہیں۔ یہ کوٹھریاں ان کی آرام گاہیں ہیں۔ سامنے جو نیلا قمقمہ نظر آ رہا ہے وہ میری کوٹھری ہے۔ بدن کے لباس کے سوا صرف ایک عدد چٹائی اور کھانے کی ایک تھالی یہی ہمارا سروسامان ہے۔ اب ہم لوگ نیچے چلیں گے۔ ’’
دوبارہ اتنی ہی سیڑھیاں اترنے کے بعد وہ لوگ اور ایک وسیع دالان میں آئے جہاں ہرے رنگ کے بلب روشن تھے۔ اسے لگاوہ گہرے پانی سے گزر کر اب اس کی تہہ میں پہنچ گیا ہے جہاں چاروں طرف سبز نباتات کا جنگل سا اگا ہوا ہے۔ مہنت کہہ رہا تھا، ’’یہاں دیواروں میں لگے دروازے از خود سرکتے ہیں۔ یہاں سب کے کھانے کا انتظام ہے۔ بعض خادم اس کام میں لگے ہیں۔ یہاں سے نیچے جائیں گے تو ہم خود بخود سوامی کے آسن تک پہنچ جائیں گے۔ اس حصے کو مندر کی آتما سمجھو۔
مگر وہ مہنت کی بات ٹھیک سے نہیں سن پارہا تھا۔ وہ خود اپنے ہی ایک خیال میں الجھا ہوا تھا۔ مہنت نے چلنے کے لئے اس کے بازو کو چھوا تب بھی وہ اسی طرح کھڑا رہا، وہ سوچ رہا تھا اس دالان میں عام دالانوں کے مقابلے میں کس چیز کی کمی ہے؟ پھر اچانک اسے یاد آ گیا یہاں ایک بھی کھڑکی نہیں تھی۔ اس نے مہنت سے پوچھا، یہ سچ ہے کہ ہم لوگ زمین کے اتنے نیچے آ گئے ہیں کہ یہاں کھڑکیاں لگانا ممکن ہی نہیں۔ آخر ہوا کا انتظام کیوں کرہوتا ہے؟‘‘
’’سوال بہت مناسب ہے۔ ہمارے مٹھ کی اس خصوصیت کو بیان کرنا تو میں بھول ہی گیا۔‘‘ مہنت کے لہجے میں جوش تھا۔‘‘ تم نے اندر آتے ہوئے دیکھا ہوگا کہ چار بڑے بڑے پائپ ٹیکری کے سرے پر اوپر تک گئے ہوئے تھے۔ ہر دالان سے ویسا ایک پائپ جڑا ہوا ہے۔ جس کا دوسرا سرا یہاں تک پہنچایا گیا ہے۔ اسی سرے سے حسب ضرورت پائپ کی دو تین نلکیاں جوڑ کر دالان میں چاروں طرف ہوا کو گزارا جاتا ہے۔ خود سوامی کے دھیان مندر میں بھی ایسا ہی ایک بڑا نلکا لگا ہے جس سے مزید دو نلکیاں جوڑی گئی ہیں۔ اسی لئے تو اس گہرے تہہ خانے میں بھی صاف اور بھرپور ہوا مل جاتی ہے۔ البتہ روشنی کا کہیں گزر نہیں۔ بس رات دن بلب جلتے رہتے ہیں جن سے نیلے رنگ کی روشنی پھوٹتی رہتی ہے۔‘‘
’’لیکن نلکوں کے اوپری سروں کے منہ تو کھلے ہیں۔ فرض کیجئے رات کے وقت کوئی الو، کوئی چمگادڑ نلکے میں گرجائے یا پھر کوئی پتھر وغیرہ اندر لڑھک جائے تو؟‘‘
مہنت اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس نے متعجبانہ لہجے میں کہا، ’’تمہارے خیالات بالکل ہمارے سابقہ سوامی کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ سے ٹھیک یہی سوال پوچھا تھا۔ اصل میں ہم نے نلکوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جالیاں لگائی ہیں۔ پہلے والی جالی بہت مہین تھی۔ تب تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اس صورت میں اوپر والے دیوان خانے تک بھی مناسب ہوا نہیں آ پاتی تھی۔ اس لئے ہم نے بڑی بڑی چوکور جالیاں لگوا دی ہیں لیکن سچ پوچھئے تو ہماری حفاظت کا اصل سبب وہ جالیاں نہیں ہیں۔ نلکوں کے آخری سرے چوب دار ہیں۔ جن میں ہم نے تانبے کے چھلے فٹ کردئے ہیں۔ ان چھلوں میں بجلی کا کرنٹ دوڑایا گیا ہے۔ اس لئے اس قسم کے کسی خطرے کا امکان کم ہی ہے۔ اس پورے عرصے میں صرف ایک بار وہ بھی زبردست آندھی میں وہ جالی ٹوٹ گئی تھی۔ بس اس کے بعد سے آج تک کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔‘‘
اب نیچے اترنے کے لئے سیڑھیاں نہیں تھیں۔ دیوار میں ایک چھوٹی سی کمان بنی تھی۔ جس میں سے دور تک جھک کر گزرنا پڑتا تھا۔ اس طرح جھک کر چلنے کے سبب اس کی کمر میں درد ہونے لگا۔ راستہ اس قدر تنگ تھا کہ اس کے دونوں کندھے دیواروں سے رگڑ کھا رہے تھے۔ آگے چل کر ایک جگہ قدرے اونچی تھیں۔ وہ پورے قدسے کھڑا ہو گیا۔ اسے راحت کا احساس ہوا۔ اس نے سستا نے کے ارادے سے جوں ہی ہاتھ اٹھائے اس کی مٹھیاں چھت سے ٹکرا گئیں اور وہ درد سے بلبلا اٹھا۔ اس کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا تھا۔ آگے کنویں کی مانند گہرا راستہ تھا جس کے دونوں طرف پتھر کی چوکور کھونٹیاں ٹھکی ہوئی تھیں۔ جو سلسلہ وار گہری تہہ میں اترتی چلی گئی تھیں۔ ان پر ایک قدم رکھ کر نیچے اترنا تھا۔ وہاں دائیں طرف ایک دائرہ نما خلاء تھا وہاں پہنچنے کے بعد مہنت نے کہا، ’’یہاں اترتے ہوئے چوکس رہو۔ اگر دیوار کی طرف منہ کرکے الٹا اتریں تو زیادہ آسانی ہوگی۔ دیکھو میں بتاتا ہوں۔‘‘
مہنت نے اس کی طرف منہ گھمایا اور وہ دائرہ نما گلیارے میں نیچے اترنے لگا۔ دائرہ اتنا تنگ تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص اتر سکتا تھا۔ مہنت کی تقلید کرتے ہوئے اس کے پیچھے وہ بھی اترنے لگا۔
وہ پیروں کے نیچے کی سیڑھیوں کو ٹٹولتا ہوا دیواروں کا سہارا لیتا ہوا گویا گہرے اور گہرے ڈوبتا جا رہا تھا۔ اسے لگا اب یہ سب اس سے نہیں ہوگا اور اسے یہ سب کرنا بھی نہیں ہے۔ ٹیڑھے میڑھے گھماؤ دار راستے سے اترتے ہوئے اس کی ہڈیاں چٹخنے لگی تھیں اور چہرہ پسینے سے تر ہو گیا تھا۔ ہوا بھی بھاری ہو گئی تھی اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ مگر نیچے سے جوں ہی مہنت نے آواز دی وہ کسی نادیدہ دھاگے سے بندھا ہوا سانیچے اترتا چلا گیا اور جوں توں تھر تھراتے پیروں اور پھولتی سانسوں کے ساتھ مہنت کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
یہاں بھی جگہ اس قدر تنگ تھی کہ دونوں بمشکل کھڑے ہو سکتے تھے۔ ان کے سامنے دیوار میں ایک دراز نظر آ رہی تھی۔ جس میں سے تر چھا ہوکر اندر جایا جا سکتا تھا۔ اندر ایک تخت تھا جس پر سرخ مخمل کا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ تخت کے سامنے اتنی ہی اونچی ایک میز رکھی ہوئی تھی۔ مہنت نے وہاں دئیے کی بتی کی طرح کے باریک بلب کو بجھا دیا۔ پھر بڑا بلب روشن ہوتے ہی سرخ رنگ کی روشنی دیواروں پر سے پھسلتی ہوئی اس دراز میں بھر گئی۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ بوکھلا گیا۔ اسے لگا وہ اندھیرے میں اتر کر ایک دیو قامت جسم کی شریانوں سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ اس عجیب و غریب خیال کے آتے ہی اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔
’’یہاں سوامی دھیان سادھنا کرتے تھے۔ تم اوپر جاکر اس آسن پر بیٹھ کر دیکھو۔‘‘ مہنت کہہ رہا تھا۔
’’اور انگلیوں کی پوروں سے بیل کے پتے پھوٹتے ہیں یا نہیں یہ بھی دیکھوں۔‘‘ اس نے مذاق سے کہا۔
’’ایسی بات نہیں۔ یہ اعزاز ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔‘‘ مہنت نے تفہیمی انداز میں کہا۔
’’تم نے جب ہوا کی نلکیوں کے بارے میں دریافت کیا تھا تبھی اندازہ ہو گیا تھا کہ تم بہت عقل مند ہو لیکن ہنوز ایک بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی ہے وہ بات جب تم اس تخت پر بیٹھو گے تبھی سمجھ سکوگے۔‘‘
وہ ہرگز اس نیم دائروی تنگ دراز میں داخل ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس کی کپکپی میں اضافہ ہو گیا اور وہ اندر کی چوکور جگہ اسے کسی خون آلود گڈھے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں وہ خواب میں چلتے کسی شخص کی مانند اس کے اندر داخل ہو گیا۔ چوکور اس قدر تنگ تھا کہ جوں ہی وہ تخت پر بیٹھا اسے لگا دائیں بائیں دیواریں اسے دبوچنے کو قریب آ گئی ہیں۔
اس نے کسی دیوانے کی طرح ہنستے ہوئے کہا، ’’اب تو یہ جاننے کے لئے کہ میری انگلیوں سے بیل پتے پھوٹتے ہیں یا نہیں میں اپنے ہاتھوں کو اوپر بھی نہیں کر سکتا۔‘‘
اتنے میں اس کے پیچھے بھاری بھرکم فولادی دروازے کے سرکنے کی آواز کے ساتھ ہی اس چوکور کا دہانہ بند ہو گیا۔ وہ چونک کر پلٹا مگر تب تک دائرہ نما چوکور بند آنکھوں کی طرح اندھیرے میں غرق ہو چکا تھا۔
مہنت باہر سے کہہ رہا تھا۔ ’’بیل کے وہ پتے پھوٹیں نہ پھوٹیں ایک بات تمہاری سمجھ میں اچھی طرح آ گئی ہوگی کہ اب اس مٹھ کے نئے سوامی تم ہی ہو۔ سابقہ سوامیوں کی طرح تمہیں بھی اپنی پوری زندگی اسی جگہ گزارنی ہوگی۔ اس لئے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے غور سے سنو!‘‘
اسے لگا مہنت کی آواز بہت دور کہیں سے آرہی ہے اور اس چوکور کی سرخ گہری روشنی پر بھاپ کی طرح تیر رہی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’تم جس آسن پر بیٹھے ہو اس کے دائیں بائیں صندل کی لکڑی کی چوکھٹ بنائی گئی ہے۔ سامنے کی چوکھٹ کا میکنزم براہ راست میرے کمرے سے جرا ہوا ہے۔ اس لئے اسے صرف میری مرضی سے ہی اوپر نیچے سرکایا جا سکتا ہے۔ وہاں سے تمہیں دن میں دوبار ہلکا ناشتہ اور ایسا لذیذ کھانا پروسا جائےگا جو تم نے اپنی زندگی میں کبھی چکھا نہیں ہوگا۔ تمہارے سامنے میز کے نیچے چاندی کی تھالی رکھی ہے۔ جس وقت کھانا پروسا جائے وہ تھالی تمہیں واپس کرنا ہوگی۔ خاطر نشان رہے، پروسا ہوا کھانا خاصے وقفے تک ہی رکھا جائےگا۔ اگر تم نے وقت پر کھانا قبول نہیں کیا تو وہ واپس اوپر کھینچ لیاجائےگا۔
پچھلے سوامی اپنے کھانے کے برتن اور اپنا لباس خود ہی دھو لیا کرتے تھے۔ باقی دونوں چوکھٹ بھی تمہارے لئے ہی ہیں۔ بائیں جانب کی چوکھٹ کو اوپر سرکاتے ہی تمہیں ایک گول دروازہ نظر آئےگا۔ وہاں سے رینگتے ہوئے تم آگے بڑھوگے تو تمہیں ایک غسل خانہ دکھائی دےگا۔ وہاں صرف اتنی جگہ ہے کہ کھڑے ہوکر غسل کر سکو۔ اوپر سے تمہیں ہر وقت گرم پانی مہیا کیا جائےگا، وہاں ایک کونے میں خوشبودار صابن، تیل، پھلیل اپٹن وغیرہ غسل کا سامان موجود ہے۔ دائیں طرف کی چوکھٹ ہٹاؤگے تو تم اپنی آرام گاہ میں داخل ہو سکوگے وہاں کسی بھی بے فکر شخص کو اطمینان سے نیند آ سکتی ہے۔ چوبیس گھنٹے یہ جگہ اسی طرح روشن رہےگی۔
سوامی کے مرنے کے بعد یہاں کے برتن کپڑے وغیرہ ان کی میت کے ساتھ باہر نکال لئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا بستر بھی ضائع کر دیا جاتا ہے اور ہاں! میرا ایک خاص معتمد خود دن میں دوبار اس دھیان مندر کی صفائی کرتا تھا۔ لہٰذا یہاں کی ہر چیز کو بلا جھجک تم استعمال کر سکتے ہو۔ فی الحال تمہیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اولین سوامی مہاراج کی سالگرہ کے موقع پر یہ چیزیں دوبارہ مہیا کی جاتی ہیں۔ ایسا اصول ہے مگر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ یہاں آنے والے سوامیوں کا ان چیزوں پر سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔ بدن کے کپڑوں کی ضرورت محسوس ہو تو بےشک کھانے کے جھوٹے برتنوں کے ساتھ واپس کر سکتے ہو۔ تمہیں نئی چیزیں دے دی جائیں گی۔
ایک بات اور۔۔۔‘‘ مہنت سانس لینے کو رکا پھر آگے بولا، ’’تمہیں سب سے زیادہ دقت بڑھتے ہوئے ناخنوں سے ہوگی۔ بالوں سے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ بلکہ بالوں کی وجہ سے تمہاری درویشی میں مزید وقار پیدا ہوگا۔ یہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکتے وقت بڑھے ہوئے ناخنوں سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے ان ناخنوں کو تراشنے کا البتہ یہاں انتظام کیا گیا ہے۔ حمام میں تم سروقد کھڑے ہوسکو اس لئے دونوں طرف دو محرابیں بنی ہیں۔ ان میں ایک دھار دار چمٹا ایک فولادی پٹی میں پیوست ہے، وہ حسب ضرورت نیچے اوپر ہوتا ہے مگر وہاں سے نکالا نہیں جا سکتا۔ تمہاری صحت اور سلامتی کی ہمیں خوب فکر ہے۔‘‘
اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں ادا کئے جانے والے سفاک الفاظ اس سے کہے جا رہے ہیں۔ اس کا پورا جسم جیسے پتھر کا ہو گیا تھا مگر جوں ہی اس کے صدمے کی شدت قدر ے کم ہوئی وہ آپے سے باہر ہو گیا اور بےتحاشا فولادی دروازے پر زور زور سے مکے مارنے لگا اور چیخ کر بولا، ’’اب یہ مسخرہ پن بند کرو اور مجھے فوراً اس پنجرے سے باہر نکالو۔‘‘
اس نے دروازے پر پٹکنے کے لئے پاس پڑی ہوئی میز کو اٹھانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ دوبارہ دروازے پر زور زور سے مکے مارنے لگا۔
’’سوامی! ہم نے پہلے ہی ساری باتوں پر غور کر لیا ہے۔‘‘ مہنت کہہ رہا تھا، ’’وہ میز تم سے نہیں اٹھےگی کیونکہ اسے فرش پر مضبوطی سے جڑ دیا گیا ہے۔ فرض کرو اگر تم اسے زمین سے اکھاڑنے میں کامیاب بھی ہو جاؤ تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اصل میں وہاں صرف اتنی ہی جگہ ہے جہاں تم سکون سے بیٹھ کر غور و فکر کر سکتے ہو۔ لہٰذا اگر تم نے کھڑے ہونے کی غلطی کی تو تمہارا سر چھت سے ٹکرا جائےگا۔ ایسی تنگ جگہ میں بھلا کوئی میز کو اکھاڑ کر دروازے پر کیونکر مار سکتا ہے؟
تم فضول میں اپنی طاقت خرچ نہ کرو۔ دروازہ چار انچ موٹی فولادی چادر سے بنا ہے اور دیواریں چھ فٹ چوڑی ہیں۔ جو پتھروں کی سلوں سے بنائی گئی ہیں اور پھر تم تنگ جگہ کی وجہ سے پریشان کیوں ہو جگہ کا رقبہ میلوں میں ہو یا فٹ میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جگہ کے رقبے کے مطابق جسم تو چھوٹا بڑا نہیں ہوتا نا۔ جسم حرکت کر سکے بس اس سے زیادہ کی جگہ کا مطالبہ کرنا کیا حماقت نہیں ہے؟ جب چاروں دشاوں میں پھیلی ہوئی آتما تنگ جسم کے پنجرے میں سما سکتی ہے تو یہ جسم اس تنگ جگہ میں سکون سے کیوں نہیں رہ سکتا؟‘‘
’’غور سے سنو میرے یہاں سے رخصت ہو جانے کے بعد تم سے بات کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس لئے اگر تمہیں کچھ پوچھنا پچارنا ہو تو ابھی پوچھ لو۔ جس طرح تم اب کبھی سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکوگے اسی طرح اب کبھی تم کسی انسان کی آواز تو کیا کسی کے قدموں کی آہٹ تک نہیں سن سکتے۔‘‘
وہ دھپ سے آسن پر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں بجھ سی گئیں۔ اس کے اطراف کا وہ سرخ گڈھا، گڈھے پر تیرتی باہر سے آنے والی وہ سفاک آواز دونوں ہتھیلیوں سے چپکی وہ سرد دیواریں جو اسے کچل دینے کا اشارہ پانے کی گویا منتظر ہیں، اسے لگا وہ ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہے اور کسی بھی لمحے اس کے حلق سے آواز نکلےگی اور یہ سب کچھ ایک دم سے غائب ہو جائےگا۔ مگر رندھے ہوئے گلے سے وہ آواز کب نکلےگی؟ کب؟
’’لیکن میں یہاں اس گھور تنہائی میں جہاں کسی انسان کا ساتھ نہیں، سورج کی روشنی نہیں کیوں کر زندہ رہ سکتا ہوں؟ آخر تم لوگوں نے مجھے یہاں اس طرح کیوں قید کر دیا ہے؟ ‘‘ اس نے ایک کربناک بےبسی سے کہا۔
’’پچھلے تجربے کی بنیاد پر مجھے معلوم تھا کہ تم یہ سوال ضرور پوچھو گے؟ ‘‘ مہنت کہہ رہا تھا، ’’سچ کہوں تو تمہارے اس سوال سے احسان فراموشی ظاہر ہوتی ہے۔ تم چونکہ ہمارے سوامی ہو اس لئے میں تمہاری تعظیم کرنے پر مجبور ہوں۔ مگر میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے۔ اس لئے جو کہہ رہاہوں اسے غور سے سنو! تم باہر رہ کر بھی کون سا کارنامہ انجام دینے والے تھے۔ پیٹ کاٹنے کے لئے غلاموں کی طرح محنت مزدوری کرتے۔ تنگی ترشی کے ساتھ گزارا کرتے۔ یہاں تمہیں کھانے پینے کی کمی نہیں ہوگی۔ سونے کے لئے مخمل کا بستر موجود ہے۔ تمہارا اس جگہ پر پورا اختیار ہے۔ یہاں تم کسی کے غلام نہیں۔ پھر بتاؤ تمہیں اس سے زیادہ اور کیا چاہئے؟ ہم تمہارا قتل کرکے تمہیں بھینٹ نہیں چڑھا رہے ہیں۔ تم جتنے دن اوپر زندہ رہتے اتنے دن یہاں بھی زندہ رہوگے۔ ہم نے یہاں تمہاری آرام کی خاطر کیا نہیں کیا ہے؟ غور کرو۔ آج تک زندگی میں کسی نے تمہارا اتنا خیال نہیں رکھا ہوگا۔
ایک اور بات تمہیں یہاں بیرونی دنیا کی کوئی آواز تک سنائی نہیں دےگی اور پھر رفتہ رفتہ تمہارے ذہن سے دنیا کی یاد کا ہر نقش مٹ جائےگا۔ باہر سیلاب آئے یا جنگ چھڑے تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ دوسروں کے دکھ تمہیں پریشان نہیں کریں گے۔ تم نے کبھی سوچا ہے وہ دکھ جن کا تم مداوا نہیں کر سکتے۔ مگر جنہیں تم نظرانداز بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے دکھوں کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزارنا کتنا بڑا عذاب ہے۔ بلکہ انہیں یاد رکھنے کی بجائے انہیں بھول جانے سے بڑھ کر بھلا کون سا سکھ ہو سکتا ہے۔ اب جب کہ اتفاق سے تمام تر آسائشوں کے ساتھ یہ جگہ تمہیں نصیب ہوئی ہے تو اس کی قدر نہ کرنا کیا نادانی نہیں؟ اس کے علاوہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کا انسان کے تئیں جو لگاؤ ہے وہ ایک فریب ہے۔ یہ ہمارا مقدر ہے کہ ہم دوسروں کی صحبت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اسی مجبوری کو ہم نے رشتے کا خوبصورت نام دے رکھا ہے۔ سچ پوچھو تو وہ ہماری ایک انتہائی بےچارگی ہے۔
کیا تمہاری زندگی میں ایسے لمحے نہیں آئے ہوں گے جب تمہیں لگا ہوگا کہ اپنے ارد گرد انسانوں کی صرف ایک گردن ہوتی تو تم اسے مروڑ کر سب سے نجات پا لیتے۔ کیا تمہیں زندگی میں ایسے لوگوں سے سابقہ نہیں پڑا جو دوسروں کی زندگی کے مسرت آگیں لمحوں میں نفرت کا زہر گھولتے ہیں۔ جیسے کوئی غلیظ کپڑے کو مسل کر بدبو پھیلا دیتا ہے کیا تمہیں ایسے احمق لوگ نہیں ملے جو زلزلے کو گناہوں کی کثرت کا سبب کہتے ہیں اور جو گرہن کے وقت چاند سورج کو مکتی دلانے کے لئے غسل کرتے ہیں۔ سنگیت کی محفلوں میں بےوقوفوں کی طرح بیٹھنے والے اور شاعری پر برا سا منہ بنانے والے، اپنی جوانی لٹاکر سازندے بننے والے اور دوسروں کی خوشامد کرکے دولت یا عزت کماکر مٹکنے والے، کیڑے مکوڑوں کی طرح بج بجاتی، بے تحاشا امنڈتی بھیڑ۔
جو یہ سب برداشت کرتا یا پسند کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس شخص کا دل و دماغ گھورے کی طرح سڑ گیا ہے۔ اسی لئے جو شخص تھوڑا بہت سوچتا ہو، محسوس کرتا ہو اور جس میں ذرا سی بھی سمجھداری باقی ہو وہ خود اس بھیڑ بھاڑ سے دور بھاگ جانا چاہتا ہے۔ یا پھر انہیں کے درمیان ایک اجنبی کی طرح زندگی گزار دیتا ہے۔ خود کو بھیڑ کا حصہ سمجھنے کا سکھ کس قدر پرفریب ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں بہت جلد ہو جائےگا۔ میرے خیال سے یہاں تمہیں جو فائدہ خیر، چھوڑو۔ ا س سے بھی بڑا ایک اور فائدہ ہے۔ انسان کو کبھی اپنے کام کے انتخاب کی آزادی نہیں ملتی۔ اگر کبھی ملی بھی ہے تو بہت معمولی نوعیت کی چیزوں کی حد تک۔ جیسے کوئی ننگا شخص اپنے ماتھے پر چیتھڑا باندھ کر مٹکتا پھر ے ویسے بھی آندھی میں گھرے ہم لوگ فضول میں سوچتے سوچتے ایک دن ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ کچھ اور کرنے کا امکان تھا کیا؟ اپنے آپ سے ایسے سوالات پوچھنے کی ہمیں فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ کیونکہ ہم تو اپنے ہی دائروں کے حصار میں بری طرح جکڑے ہوتے ہیں اور جن گنے چنے افراد کے ذہن میں ایسے سوالات اٹھتے ہیں وہ جیسا کہ میں نے بتایا زنجیروں کو توڑتاڑ کر نکل جاتے ہیں یا پھر بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے ختم ہو جاتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں تم اس وقت چالیس کے آس پاس ہو۔ اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ تمہاری زندگی میں اب کوئی بڑا انقلاب آئے۔ اب تمہاری زندگی میں آگے اور آگے، جیسے کھوکھلے لفظوں کے کوئی معنی نہیں رہے۔ اس لئے تم یہاں سکون سے اپنی پچھلی چالیس سالہ زندگی کا جائزہ لے سکتے ہو۔ تم نے زندگی کی آپادھاپی میں کبھی غور ہی نہیں کیا ہوگا کہ تمہاری زندگی کا ہر دن ایک سوال بن کر آتا تھا۔ ایسا موقع ہر ایک کو نہیں ملتا۔ اگر کسی کو ملتا بھی ہے تو اس وقت عمر کے بڑے حصے کو دیمک چاٹ چکی ہوتی ہے۔ اب تم پوری طرح آزاد ہو اور اپنی گذشتہ زندگی کی ایک ایک واردات کو خورد بین سے دیکھ سکتے ہو۔ انسان کو چاہئے کہ وہ کسی نہ کسی دن اپنی زندگی کو خورد بین کی آنکھ سے ضرور دیکھے۔ تم کچھ اور پوچھنا چاہوگے؟‘‘
’’یہ کیسا مٹھ ہے؟ یہ بھکشو کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ مجھے یہاں کتنے دن ٹھہرنا ہوگا؟ میرے پاس کچھ روپیہ ہے اگر تم لوگ مجھے آزاد کردو تو میں وہ سارا روپیہ مٹھ کو دان دے دوں گا۔‘‘ وہ اپنے لہجے کی لجاجت پر خود حیران رہ گیا۔
’’تمہاری تجویز احمقانہ ہے۔ مٹھ کو تمہارے حقیردان کی ضرورت نہیں۔‘‘ مہنت کی آواز میں کرختگی تھی مگر دوسرے ہی لمحے اس کا لہجہ دوبار ہ ملائم ہو گیا، ’’مگر تمہارے باقی کے سوالات بہت مناسب ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ مٹھ نہیں آشرم ہے۔ انسان کو خوامخواہ پاکبازی کا درس دینے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔ کسی ایک پیڑ کو پہلے آدرش ٹھہرائیں پھر اس سے زیادہ اونچے درخت کی پھنگیوں کو تراشیں پھر اس سے کم اونچے درختوں کی ٹہنیوں کو کھینچ کر اس کے برابر لانے کی کوشش کریں۔ ایسی بے تکی حرکت تو پاگل کتا بھی نہیں کرتا۔ انسان میں جو خوبیاں، خامیاں ہیں وہ اس کے ہاڑ مانس حواس اور دماغ کی وجہ سے ہیں۔ لہٰذا ان تمام چیزوں کے ساتھ خود تو انسان بنے رہیں اور دوسروں کو، فوق الفطرت بنا دیں کیا یہ مضحکہ نہیں ہے۔
اپنے غلیظ ہاتھوں سے دوسروں کی غلاظت دھونے، جیسا ایک سہل پسند کھیل ہے یہ یہاں بھکشو کہاں سے آتے ہیں اس کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے جو بھی یہاں رہنے کا خواہشمند ہوتا ہے وہ یہاں آ جاتا ہے۔ البتہ جو ایک بار یہاں آ جاتا ہے وہ واپس جا نہیں سکتا۔ شروع کا ایک سال اسے اپنی کوٹھری میں ہی گزارنا ہوتا ہے۔ بعد میں اسے آشرم کے حصار میں گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس وقت ایک کا ہاتھ دوسرے سے بندھا ہوتا ہے۔ یہاں داخلہ دیتے وقت کسی سے بھی اس کے ماضی کے بارے میں کچھ بھی دریافت نہیں کیا جاتا۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی قاتل ہو۔ کوئی شکست خوردہ شخص ہو یا پھر اپنی شان و شوکت کو ٹھکرا آیا ہو۔‘‘
’’یہ تو بالکل ناممکن ہے۔ اپنی شان و شوکت کو ٹھکراکر بھلا کوئی کیوں آنے لگا۔‘‘
وہ درمیان میں بول پڑا، ’’شان وشوکت؟ تم نے وہ شان و شوکت دیکھی ہی کہاں ہے جس کے صرف تصور سے گھن آتی ہے۔ یہاں انسان کے ماضی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر تم نے میرے ماضی کے بارے میں پوچھا ہوتا تو شاید میں ہرگز جواب نہ دیتا۔ مگر اب بتاتا ہوں۔ ارے یہاں تمہیں جتنے بھکشو نظر آ رہے تھے اس سے دگنا نوکر تو اصطبل میں میرے گھوڑوں کی رکھوالی کے لئے تعینات تھے۔ اگر میں کہتا کہ مجھے سونے کی اشرفیوں پر چلنا ہے تو پورے محل میں میرے قدموں تلے اشرفیاں بچھا دی جاتیں۔ میں اپنے محل میں بڑے عیش و آرام سے رہ سکتا تھا لیکن میں نے ان سب سے منہ موڑ لیا اور اولین سوامی مہاراج کے پیچھے چلا آیا۔ اس کے بعد سے میری زندگی میں یکے بعد دیگرے تین سوامی ظاہر ہوئے۔ اسی لئے کہتاہوں کہ تم یہاں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرو گے۔ سارے سوامی یہیں ہیں تمہارے آس پاس۔‘‘
وہ یک بیک بوکھلاکر کھڑا ہو گیا۔ اس کا ماتھا سامنے کی دیوار سے ٹکرایا۔
وہ بولا، ’’یہیں یعنی کہاں؟‘‘
’’وقت آنے پر تم خود انہیں ڈھونڈلوگے۔ شروع میں وقت کاٹنا مشکل معلوم ہوگا۔ زنگ کی مانند تمہارے دل پر چڑھی ہوئی بے چینی تمہیں پریشان کرتی رہے گی۔ تب تم خود بخود انہیں ڈھونڈ لوگے۔ یہاں آتے وقت راستے میں تم نے ایک ویدی دیکھی ہوگی۔ مرنے کے بعد ہر سوامی کو اس ویدی کے نیچے دفنایا جاتا ہے اور بعد میں باقیات کو یہاں لاکر محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا تم خود کو یہاں کبھی تنہا محسوس نہیں کروگے۔ یاد رکھو، موت کے خوف سے ہونٹوں پر کھیلتی دانش مندی کی ہر مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔ ناک، کان، آنکھیں تمام حواس ختم ہو جاتے ہیں البتہ ایک چیز موت کی گرفت سے بچ کر نکل جاتی ہے وہ ہوتی ہے خالص کھوپڑی کی مسکان، یہی وہ مسکان ہے جو انسان کے آخری فیصلے کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘
اب اس پر زبردست تھکن غالب آنے لگی تھی۔ وہ بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ تھکن اور مایوسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے ملتجیانہ آواز میں کہا، ’’تم لوگوں نے جس طرح میرے کھانے پینے کا انتظام کیا ہے برائے مہربانی مجھ پر ایک اور کرم کرو۔ میرے لئے کاغذ اور پنسل کابھی انتظام کر دو تاکہ میں تنہائی میں کم سے کم خود سے تو ہم کلام ہو سکوں۔‘‘
’’نہیں، تمہیں یہ چیزیں نہیں دی جا سکتیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خیال جوں ہی کاغذ پر لفظوں کی شکل اختیار کرتا ہے مر جاتا ہے۔ اس کے پر ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ ایک طرح سے پابہ زنجیر ہو جاتا ہے۔ جب تک بولنے والا زندہ ہے الفاظ بھی زندہ رہتے ہیں لیکن اس کی موت کے بعد وہ پتھروں پر کندہ کر دئے جاتے ہیں۔ پھر تم نے دیکھا ہوگا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ ان الفاظ کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور ان کے ماننے والے محض ان پتھروں کا بوجھ ڈھوتے رہتے ہیں۔ اس لئے اولین سوامی پوتھی پستک پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ نہ انہوں نے کچھ لکھا نہ کسی سے کچھ لکھوایا۔‘‘
’’اب صرف ایک آخری سوال جب ایسا ہے تو پھر تم لوگوں کو سوامی کی ضرورت کیا ہے؟ خوامخواہ میری قربانی دے رہے ہو؟ میرے عزیز واقارب مجھے تلاش کر رہے ہوں گے، میری جدائی میں ہلکان ہو رہے ہوں گے۔ میرے بغیر ان کی زندگیاں بھی برباد ہو جائیں گی۔‘‘
’’یہ تمہاری ایک اور غلط فہمی یا خوش فہمی ہے۔‘‘ مہنت بولا، ’’تمہارے لئے کوئی پریشان نہیں ہوگا۔ کچھ دن تمہیں تلاش کریں گے۔ اخباروں میں تلاش گمشدہ کے اشتہارات بھی دیں گے۔ مگر سچ کہوں بس ایک ہفتے کے اندر اندر وہ دوبارہ بھول بھال کر پنے معمولات میں مصروف ہو جائیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے تمہاری گمشدگی سے کچھ لوگوں کو خوشی بھی ہو۔ اگر تم نے اپنے وارثوں کا کوئی معقول انتظام نہ کیا ہو تو ممکن ہے وہ تمہیں کوسنے لگیں۔ لیکن اکثریت کو اس کی کوئی خاص فکر نہیں ہوگی۔ تم کیا اور میں کیا حتیٰ کہ ایک شہنشاہ کی بھی جب جگہ خالی ہوتی ہے تو ایک بلبلے کے ٹوٹتے ہی اس کی جگہ دوسرا بلبلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
تم نے پوچھا تھاکہ سوامی کی کیا ضرورت ہے؟ ضرورت ہے، میرا یہاں کئی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ میری بات نہیں سنیں گے، سنیں گے۔ لیکن انہیں ہدایت دینے سے پہلے اگر میں کہوں کہ یہ سوامی کا حکم ہے تو فوراً میرے الفاظ کو ایک الو ہی شان عطا ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ صرف میں سوامی کے قریب ہوں۔ دوسروں کی وہاں تک رسائی نہیں ہے۔
یاد رکھو دھرم کا وقار اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک لوگوں میں یہ بھرم قائم رہے کہ تمہاری ذات ان سے ارفع واعلیٰ ہے جہاں تک دھرم یا مذہب کا تعلق ہے۔ یہ بات نہ صرف ضروری ہے بلکہ بڑی فائدہ مند بھی ہے۔ اب مجھے اجازت دو۔ اس کے بعد ہماری ملاقات نہیں ہوگی۔ اگر میں پہلے مرگیا تو ہو سکتا ہے تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو اور تم پہلے مر گئے تو تمہاری موت کے بعد ہی میں دوبارہ آ سکوں گا۔ لہٰذا ہماری اس ملاقات کو بس آخری سمجھو۔‘‘
مہنت شاید چلا گیا تھا۔ وہ اس آسن پر جانے کتنی دیر تک بےحس وحرکت بیٹھا رہا۔ اس نے محسوس کیاکہ اس نیلے سرخ راستے سے گزر کر وہ دوبارہ گویا کسی کو کھ میں آ پڑا ہے مگر اب اس کوکھ سے دوبارہ جنم لینے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ خیال کسی صورت اس کے ذہن سے زائل نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اس نے سوچا کیا واقعی میرے گم ہو جانے کا کسی کو کوئی دکھ نہیں ہوگا؟ کیا کسی کو میری یاد نہیں آئےگی؟ کیا میری ساری عمر یونہی بیکار گئی جیسے کسی نے کتاب حیات کا ایک ایک ورق پھاڑ کر ہوا میں اڑا دیا ہو۔
میں نے اپنے عزیزوں کے لئے کیا نہیں کیا؟ میرے پیروں میں چپل نہیں تھے مگر میں نے بھائی کے لئے ریشم کا کرتا سلوایا تھا۔ پیسہ پیسہ بچاکر بیوی کے لئے اناری نگینے کی انگوٹھی خریدی۔ ایک بیمار دوست کو دو مہینے تک اپنے گھر میں رکھ کر اس کاعلا ج معالجہ کروایا۔ کیا ان میں سے کوئی بھی مجھے یاد نہیں کرےگا اور ایک دن جب موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور زوروں کی ہوا چل رہی تھی۔ موگرے کا منڈواگر گیا تھا میں نے گھنٹہ بھر بارش میں بھیگتے ہوئے اس منڈوے کو دوبارہ کھڑا کر دیا تھا اور وہ گوڑیالا سانپ جسے ایک باز پنجے میں دبوچ کر لے جارہا تھا میں نے پتھر مار کر سا سانپ کو باز کے پنجے سے چھڑایا تھا کیا اس موگرے کے منڈوے کو، اس سانپ کو میری یاد آتی ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ریشمی سوٹ کی بجائے صرف معمولی کرتا ملنے سے خفا بھائی اور قیمتی ہار کی بجائے وہ کوڑی کی انگوٹھی سے ناراض بیوی اور وہ دوست جس کا علاج کرایا تھا ایک بار ضرورت پڑنے پر صرف پچیس روپے ادھار مانگے تھے تو فوراً کہنے لگا اپنے پیسے وصول کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے۔
کیا یہ سارے لوگ صرف میری خامیوں کو یاد رکھیں گے؟ میرے اچھے سلوک کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ہوگا؟ کیا یہ سب دھیرے دھیرے مجھے بھول جائیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر وہ موگرے کا منڈوا مجھے کیوں یاد رکھےگا۔ کیونکہ بعد میں تو وہ مرجھا گیا تھا۔ سانپ باز کے پنجے سے بچ تو گیا تھا مگر اس کی گردن زخمی ہوگئی تھی جس سے خون ٹپک رہا تھا۔ وہ بھلا مجھے کیوں یاد کرنے لگا اور وہ فقیر سنار جو زیارت پر جانا چاہتا تھا میں نے اسے پانچ روپے دئے تھے اور وہ کھانا پکانے والی لکشمی بائی جس پر اس کے مالک نے چاندی کی کٹوری چرانے کا الزام لگایا تھا میں نے مالک کے گھر جاکر چاندنی کی کٹوری ڈھونڈ نکالی تھی اور اسے الزام سے بری کرایا تھا اور پڑوس کے راجو کو جو مور پنکھ کے لئے رو رہا تھا میں نے مور پنکھ لاکر دئے تھے۔ کم سے کم یہ لوگ تو مجھے یادرکھیں گے نا۔ مگر وہ کیوں یاد رکھیں گے۔ ارے جب اپن خون ہی پرایا ہو جائے تو پھر پڑوسی آخر پڑوسی ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت یہ سب لوگ مجھے کیوں یاد آ رہے ہیں؟
پھر اچانک اسے اپنی اکلوتی بہن اپرنا یاد آئی جس نے مفلسی کے کڑے دنوں میں اس کا حوصلہ بڑھایا تھا پھر اسے کالج کاپہلا دن یاد آیا۔ لائبریری میں ڈھیروں کتابیں دیکھ کر دل کیسا جھوم اٹھا تھا۔ اس کے معمولی کپڑوں کے سبب لڑکے کس طرح اسے پاگل دیوانہ، کہہ کر اس کا مذاق اڑا رہے تھے جب وہ ایک طرف اداس بیٹھا تھا تو مندا دیش پانڈے آئی تھی۔ عمر میں بڑی، کسی فوجی سپاہی کی طرح اونچی پوری بغیر کسی جان پہچان کے آتے ہی اس نے کہا تھا۔ دل چھوٹا مت کرو، مجھے دیکھو میں بی اے ہو چکی ہوں مگر ان چار برسوں میں کوئی دن ایسانہیں گیا جب میری آنکھوں میں آنسو نہ آئے ہوں۔ یہ شیطان لڑکے مجھے ’سارجنٹ سہادری‘ کے نام سے پکارتے تھے لیکن آخر میں نے چار سال گزار دئے۔ تمہارے بھی دن گزر جائیں گے۔
یہ سارے لوگ جن کی محبتوں ے چھوٹے چھوٹے آئینوں سے سجی پوشاک پہن کر میں نے اپنی اب تک کی زندگی بحسن و خوبی گزاری۔ اس نے سوچا۔ ایک اعتبار سے شاید مہنت کی کہی ہوئی بات ہی سچ ہو۔ جب انسان کا بیرونی دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تبھی وہ قریب کے رشتوں کو اس قدر شفافیت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے وہ گھنٹیاں پھر سنائی دے رہی ہیں جو فراموشگاری کی دھند میں ڈوب گئی تھیں۔ اپرنا کی یاد اس سے کیسے بھلائی جا سکتی ہے اور مندادیش پانڈے کو یاد کئے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا آج کل وہ کہاں ہوگی؟ اور داتار بھاؤ، جو میری معمولی سی معمولی تصویر بھی ایک آنے میں خرید لیتا تھا۔ وہ نارنگی کو بھی اتنی احتیاط سے کھولتا تھا کہ اس کی کسی قاش پر خراش تک نہیں آتی تھی۔ ایسا نرم دل انسان تین مہینے تک بستر پر تڑپ تڑپ کر مرگ یا آخر کیوں؟ اس سرخ گاڑھی روشنی میں بلبلوں کی طرح اٹھنے والے خیالات نے اسے مضطرب کر دیا۔
بڑی مشکل سے اس نے انہیں قابو کیا۔ سر کے اوپر چھت میں موٹا شیشہ لگا ہوا تھا جس میں سے سرخ رنگ کی روشنی یوں چھن رہی تھی جیسے لہو کو دھنک کر بکھرا دیا گیا ہو اور چاروں طرف رات دن پہرہ دینے والے یہ سرخ چوکور قمقمے رات دن، وہ چونک پڑا، کیا اب رات ہو گئی ہوگی۔ اگر ہو بھی گئی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ کتنے بجے ہوں گے؟ آٹھ، نو، دس، اس نے سماعت پر زور دیا کہ شاید کوئی آواز سنائی دے، مگر نہیں۔ اگر کوئی آواز یہاں تک آنے کی جرأت بھی کرے تو اس فولادی دیوار کے باہر ہی دم توڑ دے گی۔ صرف سکوتایک گہرے سکوت کی دیواریں ہی اب اس کے چاروں طرف ایستادہ تھیں۔
آٹھ، نو، دس، باہر کی دنیا میں ان نقطوں کی کتنی اہمیت ہے۔ لوگ انہیں قدمچوں پر قدم جما کر دن کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی جانب گامزن رہتے ہیں اور رات کے چہرے پر بھی آوازوں کی کتنی خراشیں پڑتی رہتی ہیں۔ ہوا سے ہلتی ٹہنیوں میں پتوں کی سرسراہٹ یا کسی پرندے کی پھڑپھڑاہٹ راستے سے گزرتی کسی بیل گاڑی کی کھڑکھڑ، کسی گوٹھے میں گائے کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ٹن ٹن درمیان میں کسی بچے کے رونے کی آواز، اچانک کسی کتے کے لگاتار بھونکنے کی کرخت آواز اور کہیں دور سے آتی کسی ریل گاڑی کی ہلکی ہلکی چھک چھک، لیکن اب چاروں طرف سرخ روشنی اور گہرے سکوت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔
لگتا ہے وقت دن اور رات کا اپنا روایتی چولا اتار کر سرخ رنگ کا کفن پہنے مجھے گھور رہا ہے۔ اس سناٹے میں مجھے خود اپنی ہی آواز کی بازگشت کے سوا کیا سنائی دےگا؟ اور اپنی ہی پرچھائیں کی ہلچل کے سوا کیا دکھائی دےگا؟ کیا آوازوں اور ہیولوں کا میں اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ ان کے بغیر میرے اندر ایک خالی پن سا پیدا ہو گیا ہے۔ شاید آوازیں رفتہ رفتہ زندگی کا ناگزیر حصہ بن جاتی ہیں۔ فجر کے وقت مندر میں گایا جانے والا بھجن، وادی میں چرتی ہوئی گایوں کے گلے کی گھنٹیاں، پائل کی چھن چھن، قریب سے گزرتی کسی عورت کے ریشمی کپڑوں کی سلسلاہٹ ایک ایک کرکے یہ سب اسے لگا، اس سے چھینا جا رہا ہے۔ اس پر لگی قلعی کی چمک اور تازگی ماند پڑنے لگی ہے۔
کیا انہیں چیزوں کے لئے انسان بیتاب رہتاہے اور اپنے نفس پر قابو پانے کے لئے ان سے دامن کش ہوتا ہے اگر نفس پر قابو پا لیا جائے تو پھر بچتا کیا ہے؟ مسلی ہوئی اگر بتی کی طرح ایک ننگی تیلی؟ کیا یہی موکش ہے۔ کیا اسی موکش کے لئے چنتن کیا جاتا ہے؟ یہ موکش اور مکتی بھی خوب ہے؟ پہلے لباس کے تانے بانے ادھیڑ واور بعد میں جو بچ رہتا ہے اس پر چنتن کرو اور کافور کی طرح دھیرے دھیرے تحلیل ہو جاؤ لیکن تحلیل ہونے کے لئے وہاں باقی کیا رہتا ہے؟ گویا راجہ کے جسم پر پوشاک نہیں یا پوشاک میں راجہ نہیں یا ہو سکتا ہے راجہ اور پوشاک دونوں محض فریب نظر ہو۔ اتنے میں سامنے کی دیوار میں حرکت ہوئی پہلے تو وہ گھبرا گیا پھر اس نے دیکھاکہ دیوار میں لگی لکڑی کی فریم تھوڑی اوپر کو سرکی وہاں کھانے کی تھالی رکھی تھی۔ اس نے تھالی کو اندر کھینچ لیا اور مہنت کی ہدایت کے مطابق میز کے نیچے رکھی خالی تھالی کو اسی خانے میں رکھ دیا۔ دیوار برابر ہو گئی۔
اس نے کھانے کی تھالی کو میز پر رکھتے ہوئے سوچا شاید ابھی زیادہ رات نہیں ہوئی ہے۔ کیا اب وقت کا اندازہ ان آتی جاتی تھالیوں سے ہی لگانا پڑےگا۔ اسے خاص بھوک نہیں تھی۔ تھالی کی طرف دیکھنے کے بعد جو تھوڑی بہت بھوک تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ بلکہ اسے ابکائی سی آنے لگی۔ تھالی سرخ روشنی میں ڈوبی تھی اور اس میں رکھی چیزیں کسی درندے کی خوراک معلوم ہو رہی تھیں۔ اسے لگا شاید انسان رنگوں کا بھی غلام ہے۔ ویسے تو لوگ سرخ رنگ کے پھل کھاتے ہیں۔ لال رنگ کا شربت پیتے ہیں مگر اس وقت میرا دل سرخ رنگ کے دودھ بھات کی طرف کیوں مائل نہیں ہو رہا ہے۔ اس نے بے دلی سے تھالی کو ایک طرف سرکا دیا اور اٹھ گیا۔ بائیں طرف گلیارے میں رینگتے ہوئے داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ جسم کو کھینچتا ہوا رینگنے لگا۔ اسے خیال آیا جب وہ بیٹھ سکتا تھا، کھڑا ہو سکتا تھا تب کم از کم انسان تو لگتا تھا اب تو وہ اس سعادت سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ اب وہ انسان کہاں رہا۔ وہ تو اب اندھیرے میں رینگنے والا اور یہیں ختم ہو جانے والا ایک سانپ ہے۔ وہ نیلی سرخ روشنی کے گربھ میں اتر گیا ہے اور اس گربھ میں اس کا ارتقائے معکوس ہو رہا ہے یعنی پہلے آدمی، پھر سانپ، پھر ایک کیڑا اور پھر آخر میں خالی پن کا محض احساس یا پھر وہ بھی نہیں۔
غسل خانے میں صرف اتنی جگہ تھی جہاں سیدھا کھڑا ہوا جا سکتا تھا۔ وہاں بھی سرخ رنگ کاایک روشن گولا تھا۔ دیواریں سنگ مرمر کی تھیں اور ایک محراب میں غسل کے لئے ضروری خوشبودار چیزیں رکھی تھیں۔ اس نے جوں ہی سامنے کا ایک نل کھولا۔ گرم پانی کی دھار گرنے لگی۔ اس نے ہاتھ دھوکر نل بند کیااور دوسرے راستے سے رینگتا ہوا آسن تک آ گیا۔ وہاں دیوار میں ہی ایک تختہ جڑ دیا گیا تھا جس پر مخمل کا غلام چڑھاوا ایک نرم گدا بچھا تھا۔ گدے کو تختے سے مستقل طور پر جوڑ دیا گیا تھا۔ وہ اوپر چڑھ کر گدے پر لیٹ گیا۔ اس ہولناک ماحول میں بھی اسے مخملی گدے کا لمس خوشگوار محسوس ہوا۔ مگر لیٹتے ہی پاؤں دیوار سے ٹکرائے اور سر کے پیچھے صرف چار انگل جگہ بچی رہ گئی۔ اوپر ایک ہاتھ کی بلندی پر وہی بے حس سخت دیوار۔
اسے لگا بس لیٹنے، کھڑے ہونے یا پالتھی مار کر بیٹھنے کے سوا وہ اب کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔ زندگی کے بانس پر لگا ہوا یہ ترشول شروع شروع میں اسے مخملی بستر پر نیند نہیں آئی۔ سرخ رنگ کی موجوں پر متواتر ہچکولے کھاتا ہوا وہ بار بار نیند سے جاگ پڑتا ایک بار اسے محسوس ہوا۔ ارد گرد کی دیواروں سے بٹی ہوئی رسی کی مانند سخت عضلات والے سیاہ بھیانک ہاتھ نکل رہے ہیں۔ ایک ہاتھ اس کے گلے پر بھی پڑا اور وہ کونے میں سمٹ کر پھنسی پھنسی آواز میں چیخ پڑا۔ اچانک ہاتھ غائب ہو گیا اور دیواریں دوبارہ اصلی روپ دھارن کرکے جوں کی توں کھڑی ہو گئیں لیکن وہ زبان حال سے کہہ رہی تھیں تم ہم سے بچ کر کہاں جاؤگے؟ گلا تو ہم آئندہ بھی دبائیں گے ضروری نہیں کہ تم ہر بار چیخ کر جاگ پڑو۔
سرخ روشنی غائب ہو گئی۔ وہ غسل خانے میں کھڑا تھا اسے اچانک ارد گرد کی دیوارں کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ سامنے ہری ہری گھاس تھی۔ اس پر لال پیلے رنگ کے درخت نظر آ رہے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں ندی بہہ رہی تھی جس نے ایک ادائے محبوبیت کے ساتھ پہاڑ کے عکس کو اپنے دامن میں جذب کر لیا تھا اور اوپر آسمان میں ایک کے بعد ایک بگلوں کا قطاریں رواں دواں تھیں۔ ندی کے کنارے خوبصورت دوشیزائیں نہا رہی تھیں۔ وہ سر سے پاؤں تک عریاں تھیں۔ ان میں سے ایک دوڑتی ہوئی دیوار کے قریب آئی اور یوں ہنس پڑی جیسے کوئی بند مٹھی کھول کر سونے کی اشرفی دکھا دے۔
اتنے میں ایک طرف سے ایک دراز قد تندرست نوجوان وارد ہوا جیسے وہ اسی کا منتظر رہا ہو۔ وہ ایک دوسرے کے قریب آئے اور پھر ایک دوسرے کی بانہوں میں یوں سما گئے جیسے کسی نے بالوں میں کیوڑا گنتھ دیا ہو۔ پھر نوجوان اس مست دوشیزہ کو بانہوں میں لئے پیڑوں کے جھنڈ کے پیچھے غائب ہو گیا۔
اس دوشیزہ کے تصور نے اس کے لہو میں سورج کی حرارت گھول دی۔ اس کا سارا بدن شہوت کی آگ سے جلنے لگا لیکن وہ بلور یں دیواریں مزید قریب سرک آئیں۔ تبھی ایک ہیبت ناک دیوپانی سے نمودار ہوا اس کا سر آسمان کو لگ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ اس نے تلوار سے آسمان میں اڑتے ایک ایک بگلے کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔ ندی کا پانی سرخ ہو گیا پھر اس نے پانی میں ڈبکیاں لگاتی دوشیزائوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر چیر دیا۔ ندی کا لہو رنگ پانی اب دیوار سے ٹکرانے لگا۔ دیو نے اپنے ہاتھ کی ایک ضرب سے درختوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہاں مستی میں ڈوبے نوجوان اور حسین دوشیزہ کو ایک ہاتھ سے مٹھی میں کس کر اٹھا لیا اور دوسرے ہاتھ سے تلوار کا ایسا وار کیا کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ سرخ پانی کا بہاؤ بڑھ گیا اور اسے لگا پانی اندر داخل ہو رہا ہے اور بڑھتے بڑھتے جلد ہی چھت سے جالگےگا۔ وہ خوف کے مارے چیخنے لگا۔ میں ڈوب رہا ہوں، میری ناک اور منہ میں پانی جا رہا ہے۔
اسی وقت وہ دیو مہنت کی آواز میں کہنے لگا ’’تیری ناک اور منہ میں پانی جائےگا کیسے؟ یہ دیکھ تیرا سر تو میرے ہاتھ میں ہے اور اس نے اس کے سر کوزور سے ہوا میں اچھال دیا۔ سر سیڑھیوں سے لڑھکتا، تہہ خانے کے دروازے سے ٹکراتا اس کے پاس آ گرا اور ایک ناقابل برداشت کسک کے ساتھ اس کی گردن سے جڑ گیا۔ اسی وقت ایک بار پھر اس کی آواز اس کی مدد کو آئی۔ وہ چیخ پڑا اور اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔
دیوار سے ٹکرانے کے سبب سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اس نے دونوں ہاتھوں سے سرکو دبایا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بڑی دیر تک اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے بھوک محسوس ہوئی۔ وہ رینگتا ہوا آسن تک آیا۔ میز پر رکھا کھانا جوں کا توں پڑا تھا۔ وہ لمحے بھر تک شش وپنج میں پڑا رہا۔ سرخ کھانے پر اب بھی طبیعت مائل نہیں تھی۔ اس نے سرخ بلب اور کھانے کے درمیان اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھی۔ سرخ رنگ کے کھانے کے بجائے سیاہ رنگ کاکھانا شاید ٹھیک لگے۔
اس نے ایک لقمہ چکھ کر دیکھا۔ ذائقہ برا نہیں تھا۔ دو نوالے کھانے کے بعد اس نے درمیان سے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ہٹا دی۔ کھانا پھر سرخ ہوگیا مگر سرخ رنگ کے باوجود ذائقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے پورا کھانا کھا لیا۔ رکابی دھوکر دوبارہ میز پر رکھتے ہوئے اس نے دیکھا روشنی میں رکابی جھلملا رہی تھی۔ اس کی جھلملاہٹ کا عکس اجلے لباس کی طرح چھت پر ناچنے لگا۔ اسے تعجب ہوا۔ اب اس نے رکابی کو ہاتھ میں لے کر قصداً کمرے میں چاروں طرف گھمایا۔ رکابی کا عکس دیواروں پر ٹٹولتے ہوئے ہاتھ کی طرح رینگتا رہا اس نے رکابی کو میز کے نیچے سرکا دیا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
اس نے سوچا اگر اس جگہ زندہ رہنا ہو تو اپنے معمولات کو بھی بدلنا ہوگا۔ کچھ دیر بعد بستر کا سرخ مخملی لمس بھی اچھا لگنے لگا۔ وہ کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹا ضرور تھا مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس نے سوچا اس وقت کتنے بجے ہوں گے۔ کیا رات ہوگئی ہوگی؟ کہیں ایسا تو نہیں باہر اچھی خاصی دھوپ پڑ رہی ہو اور میں یہاں نیند کا انتظار کر رہا ہوں۔ غالباً پہلا کھانا رات کا رہا ہوگا اور دوسرا دوپہر کا۔ پھر رات کا، پھر دن کا لیکن اس کے بعد؟ اس کے بعد گنتی میں کچھ گڑبڑ ہو گئی۔ تھالیاں آتی رہیں مگر وقت کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ پھر سونے کا وقت کون سا؟ سچ پوچھو تو وقت کے پیمانے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جب نیند آئے وہی نیند کا وقت جب بھوک لگے وہی کھانے کا وقت۔ سورج تو بالکل ہی فالتو شئے ہے۔ ا س کا بھوک اور نیند سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ وہ لیٹے لیٹے سامنے کی دیوار کو گھورے جا رہا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اس نے غور سے دیکھا۔ سامنے دیوار میں ایک آڑی لکیرسی دکھائی دی۔ بلکہ مزید غور سے دیکھنے پر لگا کہ اس لکیر کے ساتھ ایک چوکون سا بنا ہوا ہے اور نیچے کی لکیر کے ساتھ ایک ننھی سی کڑی لگی ہے۔ اسے تعجب ہوا کہ اس سے پہلے اس طرف اس کا دھیان کیوں نہیں یا۔ وہ اٹھا اس نے چوکون کو جگہ جگہ تھپتھپاکر دیکھا۔ لیکن آواز بےجان تھی۔ اس نے کڑی کے چاروں طرف سیلن زدہ میل کھرچ کر کڑی کو کھینچنے کی کوشش کی۔ اس میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ اس نے اسے جھٹکے دئے اس میں ذرا سی حرکت ہوئی اور پھر اچانک وہ تیزی سے اوپر کی طرف سرک گئی بلکہ پورا چوکن ہی اوپر کھسک گیا تھا مگر وہاں اسے جو کچھ دکھائی دیا اسے دیکھ کر وہ بری طرح کانپنے لگا۔ مارے خوف کے وہ پشت کے بل بستر پر گرپڑا۔
چوکور ڈھکن کے اوپر سرکتے ہی اندر تینوں جانب سے سرخ رنگ کے بلب جل اٹھے۔ اندر ایک طاق سنا بنا تھا۔ طاق پر ریشمی کپڑے سے لپٹا ہوا لکڑی کا ایک تخت تھا۔ سامنے کی چوکھٹ میں بڑا شیشہ لگا تھا۔ شیشے کے پیچھے کالے مخمل کے پردے کے سامنے پالتھی مار کر بیٹھے ہوئے ہڈیوں کے تین ڈھانچے نظر آ رہے تھے۔ ان کے کاندھوں اور پسلیوں کے پیچھے سے سرخ رنگ کی روشنی چھن رہی تھی۔ وہ تینوں اس کی جانب یوں نگراں تھے جیسے وہ عرصے سے اس کی راہ دیکھ رہے ہوں۔ تینوں کان سے کان تک پھیلے ہوئے چوڑے میلے دانتوں کو دکھاتے ہوئے گویا ڈراؤنی ہنسی ہنس رہے تھے۔
ایک، دو، تین، شاید یہ مجھے سے پہلے کے سوامی ہیں۔ نیچے ورنداون میں دفنانے کے ایک عرصے بعد ان ڈھانچوں کو یہاں پہنچا دیا گیا ہوگا۔ گویا اتنے دن تک اپنے ہونٹوں کے نیچے دباکر رکھی ہوئی ہنسی اب ان کے دہانوں سے ابلی پڑ رہی تھی۔ ان کے بغل میں دو آسن خالی پڑے تھے۔ شاید ان میں سے ایک اسی کے لئے تھا، بستر سے تخت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ خوف سے کانپتے بدن کو پرسکون ہونے میں خاصا وقت لگا۔ اس نے کڑی کو نیچے کی طرف کھینچا، چو کور ڈھکن بند ہوگیا اور ساتھ ہی سرخ رنگ کے بلب مدھم ہوتے ہوئے بجھ گئے تبھی زمین سے کسی جنگلی جڑ کی طرح اگے ہوئے وہ ڈھانچے بھی یکایک غائب ہو گئے۔ ڈھکن کے پوری طرح بند ہوتے ہی اور کہیں کسی کھٹکے کی آواز آئی وہ اٹھ کر آسن کی طرف آ گیا۔
اب جب کہ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ پاس ہی ہڈیوں کے تین ڈھانچے پہرہ دے رہے ہیں وہ سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ سکڑسمٹ کر بستر پر بیٹھ گیا اور بیٹھے بیٹھے نیند کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی پیشانی پسینے سے نم ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی بانہہ سے پسینہ پونچھنا اور پاگلوں کی طرح بیٹھا رہا۔ کیا اب اسے کسی جانور کی طرح بیٹھے بیٹھے سونے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ کھڑے کھڑے غسل کرتا تھا۔ اکڑوں بیٹھ کر گھنٹوں گزار دیتا تھا۔ کم سے کم تھوڑی دیر لیٹنے کا سکھ تو تھا مگر اب شاید اس سے بھی محروم ہونا پڑے۔ لیکن موت کے ترشول کی طرح دکھائی دینے والے وہ تین سوامی جب اتنے قریب ہوں تو پھر اسے نیند کیسے آ سکتی ہے؟
اس نے بڑی بے بسی محسوس کی مگر ساتھ ہی اسے اپنے آپ پر غصہ بھی آیا۔ کیا مجھے یہ لوگ اس تنگ گپھا میں اسی طرح کچل دیں گے؟ کیا یہ بےجان ہڈیاں مجھے حکم دیتی رہیں گی کہ مجھے کہاں اور کب سونا چاہئے آخر یہ ڈھانچے ہوتے کون ہیں جو مجھ پر اس طرح اپنا اختیار جتا رہے ہیں۔ میں مستقبل میں ہونے والا ہڈیوں کا ڈھانچا ضرور ہوں مگر آج تو زندہ انسان ہوں۔ وہ غصے سے اٹھا اور بستر پر آکر بیٹھ گیا۔ خوف کو بھگانے کے لئے اس نے اپنی نظریں دیوار پر گڑا دیں اور کہنے لگا، ’’میرا کیا بگاڑ لوگے تم لوگ؟ ہمت ہو تو کر لو میرا جو کرنا ہے۔‘‘
ریچھ کی کھال اوڑھ لینے سے کوئی ریچھ نہیں بن جاتا۔ کھال اتاروگے تو تمہارا بھی اصلی روپ سامنے آ جائےگا۔ ویسے تم میں اور مجھ میں فرق ہی کیا ہے؟ صرف پوست اور گوشت ہی کانا؟ وہ بھی زیادہ دن تک نہیں رہنے والا۔ کچھ دن بعد میں بھی وہاں تمہارے برابر آ بیٹھوں گا۔
وہ طیش میں پاگلوں کی طرح دیوار کو گھورتا رہا۔ بعد میں پیشانی پر آئے ہوئے بالوں کو پیچھے کرکے وہ ڈھٹائی سے بستر پر لیٹ گیا۔ کھانے کی تھالیاں برابر آتی جاتی رہیں۔ مگر جانے کیوں ہر بار جب بھی وہ چوبی تختہ اوپر کو اٹھتا اسے یوں محسوس ہوتا شاید کچھ انہونی ہوگی۔ مگر چوبی تختہ دوبارہ اپنی جگہ جم جاتا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس کے تنے ہوئے اعصاب ایک دم ڈھیلے پڑجاتے اور دوبارہ کھانا آنے تک اس کی یہی کیفیت رہتی۔ وہاں کیا ہو سکتاہے۔ اس کا اسے اندازہ نہیں تھا اور جو ہونا چاہئے تھا وہ ہو نہیں سکتا تھا لیکن جب بھی چوکھٹ کا تختہ کھلتا اس کا اضطراب بڑھ جاتا۔ ایک بار تھالی دھوکر رکھتے ہوئے اچانک وہ رک گیا۔
سرخ روشنی میں اس کی انگلیاں جنگلی جڑوں کی مانند دکھائی دے رہی تھیں۔ کالی، لمبی اور کمزور، لمبے لمبے ناخن باہر نکل آئے تھے۔ اسے لگا اس کی بڑھت اب صرف ان بے مصرف ناخنوں تک ہی محدود ہو گئی ہے۔ انہیں تراشنے کے ارادے سے وہ غسل خانے تک آیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا سایا کسی سپاٹ بھوت کی طرح سامنے سامنے چلتا ہے یا پھر دیواروں کے کونے ناپتا رہتا ہے۔ وہاں کا بلب کونے میں تھا اس لئے تھوڑی سی روشنی گلیارے میں بھی پڑتی تھی۔ وہیں ایک سرے پر ناخن تراشنے کا چمٹا تھا۔ جسے وہ لوہے کی پٹیوں کے درمیان جڑ دیا گیا تھا۔ ایک انگلی کا ناخن کاٹنے کے بعد وہ رک گیا اس نے سوچا روشنی کم ہے یا پھر لگاتار سرخ روشنی کے سبب اس کی بینائی پھیکی پڑ گئی ہے۔ ویسے بھی جب دیوار کے اس طرف کچھ دیکھنے کا سوال ہی نہیں آتا تو پھر آنکھوں کو خوامخواہ زحمت دینے کا کوئی مطلب بھی تو نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ غور سے دیکھا۔ انگلیوں کے پور دھند لے نظر آ رہے تھے۔ لمحے بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
پھر اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی وہ خوشی سے بے ساختہ ہنس دیا۔ وہ آسن کی طرف لوٹا۔ وہاں سے تھالی لے آیا اور کونے والی بتی کے سامنے اسے ترچھی کھڑا کیا۔ روشنی تھالی پر سے منعکس ہوکر چوکھٹ پر پھیل گئی۔ مارے خوشی کے اس نے چٹکی بجائی اور بچوں کی طرح ہنس دیا لیکن ابھی دوسرا ناخن ٹھیک سے تراشنے بھی نہ پایا تھا کہ تھالی پھسلی اور فرش پر گر کر دیر تک جھن جھناتی رہی۔ تھالی کا عکس دیواروں پر سے بجلی کی طرح کوند کر گزر گئی مگر اس ایک لمحے میں اس نے جو کچھ دیکھا اس کے لئے حیرت انگیز تھا۔
دیوار پر پانچ چھ آری ترچھی لکیریں سی دکھائی دے رہی تھیں۔ شاید وہاں کسی نے کچھ لکھنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے تھالی کو ترچھا پکڑ کر دوبارہ روشنی کے عکس کو دیوار پر ڈالا۔ دیوار کی سطح پر برادے کی پتلی سی پرت چڑھی ہوئی تھی۔ اس نے ہاتھ پھیرکر اسے صاف کیا۔ مگر آڑی ترچھی لکیروں کے درمیان کوئی بھی لفظ واضح نہیں ہو رہا تھا۔ وہ انہیں قریب سے دیکھنے کے لئے آگے جھکتا تو اس سے پہلے اس کا سایہ دیوار پر پڑتا اور وہ لکیریں اندھیرے میں معدوم ہو جاتیں۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کسی نے قصداً وہاں کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن الفاظ واضح نہیں ہو رہے تھے۔ ا س نے آنکھیں پھاڑ کر بہت غور سے کچھ پڑھنے کی کوشش کی مگر اس جگہ صرف ’میں‘ کے سوا وہ کچھ اور پڑھ نہیں سکا جس طرح پہلے دن نہایت مایوسی اور اضطراب میں اس نے دیواروں پر جگہ جگہ مکے مارے تھے ویسی ہی کیفیت اس پر دوبارہ طاری ہو گئی اور وہ ایک بار پھر دیوار پر مٹھیا ں مارنے لگا۔ مگر وہ تحریر اسی طرح اسرار میں ڈوبی رہی۔ جب وہ انتہائی مایوسی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اے ایک دھندلا سا تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے تیرکی نوک کے پاس ٹٹول کر دیکھا۔ اس جگہ کے علاوہ پوری دیوار کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے کے باوجود اسے دیوار کے سرد لمس کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی نہیں دیا۔
اچانک اس پر تھکان سی طاری ہونے لگی اور وہ وہیں گھٹنوں میں سر ڈال کر بیٹھ گیا۔ آخر ان لکیروں کا مقصد کیا ہے؟ اگر انہیں منکشف نہیں ہونا تھا تو بہتر ہوتا کہ یہ مجھے نظر ہی نہ آتیں۔ وہ تیر کا نشان کیسا تھا؟ وہ تیر کا نشان ہی تھایا اتفاق سے ایک لکیر تیر کے نشان کی طرح نظر آ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا وہ دوبارہ بیزاری کے ساتھ اٹھا اور بغیر کسی خاص مقصد کے یونہی دیواروں کو ٹٹولنے لگا اور تبھی اچانک اس کے ذہن میں ایک کوندا لپکا۔
اسے خیال آیا کہ چھت اور دیوار کے جوڑ میں ضرور کوئی دراڑ ہوگی۔ اس نے کونے ٹٹول کر دیکھا۔ وہاں بھی وہی ملگجا رنگ تھا۔ کوئی دراڑ نہیں تھی۔ اس نے اپنی انگلیوں کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھمایا۔ ایک کونے میں بالشت بھر جگہ قدرے نرم، گیلی اور چکنی محسوس ہوئی۔ اس نے ناخن سے کھرچا، ایک موٹی سی پپڑی نکل آئی۔ اسے خوشبو کچھ جانی پہچانی لگی۔ وہ صابن کی ٹکیہ تھی۔ دراصل کسی نے صابن کے ٹکڑے سے اس شگاف کو بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے شگاف میں انگلی ڈالی اور ایک زنگ آلود چپٹی ڈبیہ برآمد کی اور لرزتے قدموں کے ساتھ آکر آسن پر بیٹھ گیا۔
وہ ڈبیہ کو ہاتھ میں لئے دیر تک بے حس و حرکت بیٹھار ہا۔ وہ ڈبیہ کو کھولنے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔ اگرچہ ایک اہم راز کو پالینے کی خوشی اسے ضرور تھی، تاہم وہ خود سے کہہ رہا تھا۔ خبردار! بہت زیارہ پرامید مت ہو۔ ورنہ ایک دم سے ٹوٹ کر بکھر جاؤگے۔ اسے خیال آیا ہو سکتا ہے کوئی ان دیکھی آنکھ اسے دیکھ رہی ہو۔ اس نے گھبراکر ادھر ادھر دیکھا۔ وہ رینگتا ہوا حمام کی طرف بڑھا اور رینگتے رینگتے راستے ہی میں اس نے اس ڈبیہ کو کھول لیا۔ ڈبیہ میں ایک چھوٹا سا چاندی کا ترشول تھا جس کی ڈنڈی کسی وجہ سے خاصی گھس گئی تھی۔ ایک کاغذ تھا جس کی تہہ بہ تہہ کئی گھڑیاں تھیں اور خشک پتے میں لپٹی ہوئی کالے رنگ کی ایک بڑی سی گولی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ کاغذ کی گھڑی کو کھولا۔ چھوٹی چھوٹی کئی گھڑیاں تھیں۔ ایک طرف پکی روشنائی سے لکھی ہوئی تحریر صاف دکھائی دے رہی تھی۔ البتہ پنسل سے لکھی ہوئی تحریر پورے کاغذ پر کیڑے مکوڑوں کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ اس نے کاغذ کو آنکھوں کے قریب کیا اور پڑھنے لگا۔
دوست!
مجھے نہیں معلوم کہ تم کون ہو؟ میں کون ہوں؟ اس کا علم تو تمہیں کبھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں تم میری ہڈیوں کا ڈھانچہ البتہ کبھی نہ کبھی دیکھ سکوگے۔ میرے، تمہارے یا کسی بھی انسان کے استخوانی پنجر میں فرق کرنا ممکن نہیں اس لئے تم مجھے کبھی پہچان نہیں پاؤگے۔ میں جب زندہ تھا تو تمہاری ذات سے قطعی لاعلم تھا۔ لگتا ہے مجھے اپنی موت کے بعد ہی تم سے ہم کلام ہونے کا موقع ملےگا۔ میں پیشے سے ایک کیرتن کار ہوں۔ مجھے الفاظ دو ہے، شلوک اور اشعار کی صورت میں ہی سنائی دیتے ہیں۔ میں کیرتن کرتا ہوا پیدل ہی سفر پر نکلا تھا۔ ایک شام میں بھی تمہاری ہی طرح مہمان بن کر یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد کے حالات سے تم اچھی طرح واقف ہو۔
میں نے ترشول پنتھ میں تربیت حاصل کی تھی۔ اس لئے ترشول کی پوجا کرنا یا ترشول رکھنا میرے معمولات کا اٹوٹ حصہ تھا۔ غسل کے وقت مجھے اپنے کپڑے، ترشول وغیرہ اتار کر رکھنا پڑا تھا۔ لیکن میری ایک پرانی عادت میرے لئے بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ مجھے افیم کھانے کی عادت تھی۔ افیم کے بغیر میری زندگی گویا گوبر کے لوندے جیسی ہو جاتی تھی۔ دوہے اور شلوک نوٹ کرنے کے لئے میرے پاس پنسل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہمیشہ پڑا رہتا اور پوجا کے لئے چاندنی کا ایک چھوٹا سا ترشول بھی میرے پاس رہتا۔ اس طرح افیم کی گولی پنسل کا ٹکڑا اور ننھا ترشول یہی میری زندگی کا مثلث تھا۔ ان تیوں چیزوں کو ایک ڈبیہ میں رکھ کر میں اس ڈبیہ کو اپنی جٹاؤں میں باندھ لیتا تھا۔
میں اپنے کیرتنوں میں اکثر جنوبی بھارت کی کسی بولی کا ایک محاورہ ضرور استعمال کرتا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا جیل یا سسرال جاتے ہوئے ہمیشہ اپنے ساتھ ایک پنسل ضرور رکھنا۔ پتا نہیں کب چٹھی لکھنے کی ضرورت پڑ جائے۔ میرے جھولے میں کاغذ کے کئی ٹکڑے پڑے رہتے۔ پھر مجھے لگتا کاغذ کوئی نایاب شئے تو ہے نہیں جو کہیں نہ ملے۔ کاغذ تو راستے کے کنارے کہیں بھی ادھر ادھر پڑا مل سکتا ہے مگر میرا یہ خیال بعد میں غلط ثابت ہوا۔
میرا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا تھا مگر جٹاؤں میں رکھی ڈبیہ میرے پاس رہ گئی تھی۔ میں کیسے بتاؤں مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی۔ شروع کے تین چار روز تو بڑی مایوسی میں گزرے۔ میں چپ چاپ ایک جگہ بیٹھا رہا لیکن افیم مجھے زندہ رکھے ہوئے تھی۔ سوچا خوب لکھوں گا مگر میرے پاس تو صرف پنسل تھی کاغذ نہیں تھا۔ میں نا امید ہو گیا، لیکن تھوڑی دیر بعد میری مایوسی جاتی رہی۔ اس کی وجہ یہ تھیکہ صورت حال پر قابو پانے کا ایک ذریعہ میرے پاس موجود تھا۔ باہر بغیر افیم کے ایک ہفتہ بھی زندہ رہنا میرے لئے مشکل تھا لیکن یہاں میں نے اسے بچاکر رکھا تھا۔ یہاں افیم میری آخری گھڑی میں آخری ہتھیار کے طور پر کام آ سکتی تھی۔ میں نے اسے چھوا تک نہیں پہلے زندہ رہنے کے لئے مجھے افیم درکار ہوتی تھی لیکن آ ج موت کے لئے مجھے اس کی ضرورت تھی۔
میں اپنے چھوٹے سے ترشول سے گھنٹوں دیوار پر لکیر کھینچتا رہا۔ میری پوجا کا ترشول میرے لئے الٹے قلم کا کام دیتا رہا اور لکھتے لکھتے آدھا گھس گیا لیکن پتھر کی دیوار کا دل بھی پتھر کا۔ ایک لکیر کندہ کرتے کرتے میری انگلیاں سن ہو جاتیں اور میری سانس پھولنے لگتی۔ قوسین تو کبھی بنتے ہی نہ تھے۔ بالآخر میں نے اس کا خیال ہی ترک کر دیا۔ کیوں کہ اتنی محنت کے بعد بھی دیوار پر ایک حرف تک صحیح شکل میں واضح نہیں ہو سکا۔ پھر بھی خیال آیا کہ یہ یقین سے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ میرے جانے کے بعد یہ حروف سلامت رہیں گے۔ رنگ کا ایک ہاتھ پھراتے ہی سب کچھ مٹ جائےگا۔
میرے نامعلو م دوست! اگر تمہاری قسمت اچھی ہوگی تو وہ ڈبیہ تمہیں مل جائےگی۔ یہ اندھیرے میں مارا ہوا تیر ہے۔ ہو سکتا ہے تم اس اشارے کو سمجھ جاؤ۔ میرے ہاتھ اب تھک چکے ہیں۔ اس وقت میری کیفیت یہ ہے کہ میں کاغذ کے ایک معمولی پرزے کے عوض اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ میں نے اپنی پنسل کے اس ٹکڑے کو کئی بار فرش پر پھینک دیا ہے۔ دھیرے دھیرے میری طاقت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ جینے کی خواہش بھی مرنے لگی تھی۔ میں نے دل میں سوچا شاید افیم کی گولی سے اپنا آخری حصہ وصول کرنے کا وقت آگیا ہے لیکن عین اسی وقت ایک چمتکار ہو گیا۔ ’’شری پاد کی ٹوپی بارہ آنے۔‘‘
پڑھتے پڑھتے وہ اچانک رک گیا اور احمقوں کی طرح اس چٹھی کو گھورنے لگا۔ شری پاد؟ کون شری پاد؟ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ بےساختہ ہنس دیا۔ کیو ں کہ صرف وہ چند لفظ ہی روشنائی سے لکھے ہوئے تھے آگے پنسل کی تحریر ان لفظوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھ گئی تھی۔ آگے لکھا تھا،
’’میں آسن پر بیٹھا تھا، وہیں ہوا کی آمد ورفت کے لئے بنا ہوا نلکے کا سراہے، تمہیں اس کا علم ہوگا۔ بس اسی نلکے سے کبھی کبھی گھاس کا کوئی تنکا یا ایک آدھ خشک پتہ لڑھکتا ہوا آ جاتا تھا۔ میں وہ ساری چیزیں حفاظت سے رکھ لیتا تھا۔ وہ ساری چیزیں مجھے بےحد عزیز تھیں کیونکہ وہ کھلے آسمان کے نیچے سے سورج کی روشنی کی حرارت کا اشارہ بن کر آئی تھیں۔
بس ایک دن اسی پائپ سے کاغذ کا ایک گولا آکر گرا۔ میں اس پر اتنی تیزی سے جھپٹا کے میرا سر دیوار سے ٹکرا گیا۔ پیشانی پر یقینا گومڑ آیا ہوگا۔ لیکن مجھے قطعی کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔ میں نے نہایت آہستگی سے اس کا کاغذ کو کھولا۔ اس پر بار بار ہتھیلی پھیر کر اس کی سطح سیدھی کی اور پھر لکھنے بیٹھا۔ جوش سے میرا ہاتھ اس قدر کانپ رہا تھا کہ ایک لفظ بھی ڈھنگ سے لکھا نہیں جا رہا تھا۔ اگر تمہیں اپنی پوری جیون گاتھا اس کاغذ پر رقم کرنی ہوتو تم کیا کروگے؟ مجھے تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کسی بڑے سے بھنور میں پھنس گیا ہوں۔ ایک بار تو خیال آیا کہ اپنی پرانی حسرت کے مطابق ایک لو یہ یا شنبوک کی داستان اس کاغذ پر لکھ ڈالوں، ارملا کے بارے میں لکھوں۔
لیکن میرے پاس وقت اس قدر کم تھا کہ ان کی شروعات بھی مشکل ہی سے کرپاتا۔ شریمتی کی زچگی، دایہ کے اکیس روپے، اب تو صرف اتنی خواہش ہے کہ اپنی بات تم تک پہنچا دوں۔ میرا کوئی عزیز رشتے دار نہیں ہے۔ میں نے زندگی بھر بھجن لکھے وہ بھی اوپر جھولے میں پڑے رہ گئے۔ تمہارے لئے بس ایک ہی پیغام ہے۔ میں نے اپنے حصے کی افیم کی گولی کھالی ہے اگر تم چاہو تو بچی ہوئی گولی تمہارے لئے ہے۔ اگر تم میری طرح عادی افیمچی ہو تب بھی یہ گولی تمہارے لئے کافی ہے۔ اب صرف ایک آخری بات یاد رکھو! زندگی کتنی بے رحم کیوں نہ ہو وہ ہمیں کچل نہیں سکتی۔ کیونکہ بہر حال اس سے چھٹکارا پانے کا ذریعہ ہمارے پاس ہوتا ہے۔ نمسکار۔‘‘
اس کے بعد دوبارہ روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ تھے، ’’شریمتی کی چولی سترہ روپے، کاویری کے بچے کا نام رکھنے کی رسم، بچے کے کپڑے چار روپے، منگلا کو ٹیکہ پانچ روپے، گائے کے لئے چار اچار آنے اور آخری الفاظ تھے بیڑی ایک آنہ۔۔۔ ‘‘
باہری دنیا کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو ناقابل شکست دیواروں کو توڑ کر اندر آ گئی تھیں ان کے بوجھ تلے وہ دب گیا۔ اس نے کاغذ کو واپس ڈبیہ میں رکھ دیا اور ڈبیہ کو اپنے لباس میں چھپا کر دوبارہ بستر پر آکر لیٹ گیا۔ مجھے موت کا راستہ بتاکر زندگی کو سہل بنانے والا یہ جٹا دھاری کون ہوگا؟ کوئی بھی ہو۔ یہا ں لمحہ لمحہ زندگی گھٹ رہی ہے اور باہر سارا عالم مختلف موسموں کے طواف میں مست ہے۔ شری پاد کو ٹوپی مل گئی ہوگی؟ کالی یا چکلیٹی؟ ٹوپی اسے پسند آئی ہوگی؟ زچگی، موت، وہ خاتون زچگی میں مر تو نہیں گئی؟ بچہ نومولو ہی مر گیا یا مرنے کے بعد تولد ہوا؟ یہ کاویری کون؟ یہ شاید اس گھر کی بیٹی نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو پھر خود اس کے بچے کی موت کے باوجود وہ اس خاتون کے بچے کے نام رکھنے کی رسم پر تحفے میں کپڑے وغیرہ کیوں کر دے سکتی ہے۔ کیا اسے واقعی خاتون کے بچے سے اتنی ہی محبت تھی۔
ایک صفحے پر نام رکھنے کی رسم ہے، شادی ہے، کہیں کسی اندھیرے باڑے میں بیٹھی جگالی کرتی ہوئی گائے ہے اور اس کی خاطر چار آنے کا چارا بھی ہے۔ جٹا دھاری نے خود موت کو گلے لگایا اور میرے لئے زندگی سے نجات کا انتظام کر دیا اور دوسری طرف افزائش، شادی، موت، ایک کے بعد ایک واقعہ مگر آخر میں کیا؟ ایک آنے کی بیڑیاں؟ دیوار کی اس جانب کوئی اسی طرح زندگی کے بوجھ تلے پس رہاہے اور اس کے ہاتھ میں ہیں ایک آنے کی بیڑیاں! یہاں تین ڈھانچوں کی بھدی ہنسی۔ شری پاد، کاویری، منگلا یہ لوگ کون ہیں۔ حساب جوڑنے والا کون؟ جٹا دھاری کون؟ اور آخر میں کون؟ ہو سکتا ہے اب شری پاد بڑا ہوکر پیدائش، زچگی، موت، شادی، تحفہ وغیر ہ کے چکر سے گزر چکا ہو اور ایک آنے کی بیڑیوں کے کش لیتا ہوا کسی کونے میں بیٹھا ہو مگر مزے کی بات یہ کہ ساری باتیں اس چھوٹے سے کاغذ کے پرزے میں سما گئیں۔
جٹا دھاری کے لکھے ہوئے دوہے بھجن تو کسی تالاب یا کنویں میں پڑے ہوں گے اور کھلی آنکھوں سے تیرتی مچھلیوں کی پرچھائیاں ان پر منڈلارہی ہوں گی۔ میرے لباس کے کسی ٹکڑے کو کوئی کوا اپنا گھونسلا بنانے کے لئے کسی اونچے درخت کی کسی اونچی شاخ پر لے گیا ہوگا۔ میری چپلیں کسی گمنام جذامی کی کٹی پھٹی انگلیوں والے پیروں میں کسی انجان راستے پر گھسٹ رہی ہوں گی اور میرے کرتے میں لگے چاندی کے بٹن کسی عیاش آدمی کے کرتے میں لگے چار پیسوں کے لئے اپنا جسم بیچنے والی کسی کسبن کی چھاتیوں میں گڑ رہے ہوں گے۔
ہزاروں الجھی ہوئی لکیریں ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی نقطے پر ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ کہیں کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ سمندر کے کنارے پڑی ہوئی بے شمار سیپیوں میں سے کسی ایک سیپی میں کسی کھیت کی مٹی بھر جائے۔ پھر اس مٹی میں کسی پہاڑی پودے کا بیج پڑ جائے۔ کچھ ایسی ہی عجیب و غریب ہے یہ زندگی اور میری وہ ماچس کی ڈبیہ پتا نہیں اس کی تیلیوں سے کسی مندر کا دیا جلا گیا گیا ہوگا یا کسی کی چتا میں آگ لگائی گئی ہوگی۔ یا پھر وہ بھی کسی انجانے شخص کی ایک آنے کی بیڑیاں جلانے میں صرف ہو گئی ہوگی؟
اب ابال ختم ہو گیا تھا۔ اس نے تازگی محسوس کی۔ جسم میں حرارت سی آ گئی۔ اس کے اندر ایک امنگ سی پیدا ہوئی ساتھ ہی اس کے دل میں ایک خیال بھی آیا ان تین ڈھانچوں میں آخر میرا محسن کون ہوگا؟ اس نے تختے کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی مگر اس میں جنبشتک نہیں ہوئی۔ شاید کسی نے اسے ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تھا۔ انہوں نے سوچا ہوگا ان تین مسکراتی کھوپڑیوں کا دیدار زندگی میں ایک بار کافی ہے۔ وہ دیوار کو گھورتا رہا۔ ا کی نظریں اس پر پھسلتی رہیں۔ وہ سوچنے لگا ان تینوں میں جٹا دھاری کون ہوسکتاہے؟ غالباً آخری ڈھانچہ ہی ہو سکتا ہے۔ ورنہ افیم کی گولی کوئی پہلے ہی کھا چکا ہوتا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دوسرا ڈھانچہ جٹا دھاری کا ہو اور بعد کے سوامی کو وہ ڈبیہ ملی ہی نہ ہو۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ مہنت نے اولین سوامی کو بھی اسی طرح قید نہ کیا ہو۔ اس کے ہونٹوں سے ایک کراہ نکلی۔ بتاؤ! تم میں سے جٹا دھاری کون تھا؟ اسے تینوں ڈھانچوں کے چہرے یاد آئے مگر ان کے چہروں پہ پر اسرار ڈراؤنی ہنسی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گویا کہہ رہے ہیں ہمیں تیرے سوال کا جوا ب معلوم ہے مگر ہم نہیں بتائیں گے اسے تو خود تجھے تلاش کرنا ہوگا۔
اس نے سوچا جٹا دھاری جو بھی ہو۔ یقینا ان تینوں میں سے کوئی ایک ہوگا۔ ڈھانچے کے روپ میں سہی میں نے اپنے محسن کے درشن کر لئے ہیں۔ میں اس کا احسان مند ہوں۔ میری احسان مندی کا اسے ضرور احساس ہوگا۔ پھر اچانک اسے ایک بات یاد آ گئی۔ اوپرویدی کے نیچے بھی تو ایک سوامی دفن ہے۔ کہیں وہی جٹادھاری نہ ہو۔ اسے ایک تکلیف دہ احساس ہوا کہ وہ اپنے محسن سے کسی بھی صورت میں نہیں مل سکتا۔ ہو سکتاہے اسے یہاں اس وقت لایا جائے جب میرا کام تما م ہو چکا ہو۔ یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ میں ڈھانچے کی صورت میں بھی اپنے ماضی کے درشن نہیں کر سکتا۔ آخر یہ الجھی ہوئی ان گنت ریکھائیں اچانک خود بخود ایک دوسرے سے جڑ گئی ہیں یا جڑتے جڑتے ایک دوسرے کے پاس نکل گئیں۔
آخر اس گورکھ دھندے کا مطلب کیا ہے۔ آخر یہ کیسا نظام ہے؟ ایک طرف تو ہر لمحہ ایک دھماکے کے ساتھ آسمان میں مہتا بیاں سی چھوڑتا ہے تو دسری طرف پرانے ماہ وانجم کو تباہ کر دیتا ہے۔ ایک طرف ہزار آنکھوں کی مالا اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے اور دوسری طرف انہیں توڑ پھوڑ کر جگہ جگہ ٹوٹے پھوٹے ڈھیلوں کی شکل میں بکھرا دیتا ہے۔ ایک طرف پتھر کو بھی پگھلا دینے والی آگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو دسری طرف لہو منجمد کر دینے والی سردی کا روپ دھارن کر لیتا ہے۔ یہ کیسا چکر ہے؟ کیا اس کا جواب کسی کے پاس ہے؟ یا اسے نہ جان پانا ہی اس کا جواب ہے؟ ہم زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں، بس پالتھی مارکر بے حس وحرکت بیٹھے چوڑی دندانے دار ہنسی ہنستے رہیں۔ یا پھر بے تعلق سے ایک آنے کی بیڑیاں پھونکتے بیٹھے رہیں۔ یا پھر اس چکر کی جھلسا دینے والی حرارت سے نجات پانے کے لئے کالی گولی، کا سہارا لیں۔
ہاں آخر یہی ہو سکتا ہے مگر یہ تو اس سوال کا جواب نہیں کیوں کہ یہ سب اس چکر کو خوردبین سے دیکھنے کے بعد نظر آنے والی معمولی شکلیں ہیں تو آخر میں باقی کیا رہتا ہے۔ صرف خوردبین جو سب کچھ دیکھتی دکھاتی ہے مگر خود ہر شئے سے لاتعلق رہتی ہے۔ سب سے مربوط سب سے جدا۔ ڈبیہ مل جانے کے بعد کچھ دیر تک وہ بڑا خوش رہا۔ خوب گہری نیند سویا۔ کھانا معمول سے زیادہ رہتا، تب بھی وہ کھا لیتا اگر انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے سرکا بوجھ کسی بھی وقت اتار کر پھینک سکتا ہے تو پھر بوجھ کی گرانی کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔
اس خیال نے اس کے اندر ایک تازگی بھر دی تھی۔ اس کے بعد کھانے کے کئی دور گزر گئے۔ تھالیاں آئیں اور گئیں۔ اس نے بڑے احتیاط سے اپنے ناخن تراشے، اب وہ غسل خانے میں کافی دیر تک گرم پانی کا لطف لینے لگا تھا۔ داڑھی اور سر کے بالوں میں وہ کنگھی کی طرح انگلیاں پھیرتا رہتا۔ کرتے کے داغوں کو بھی دھوکر صاف کیا۔ اس نے کمچھے کے باہر نکلے پھوسڑوں کو نکال پھینکا۔ اس نے طے کیاکہ جب وہ اپنے بستر پر آخری بار لیٹے گا تو وہاں کوئی ایسی چیز ہر گز نہیں ہوگی جو اسے ملول کر دے یا گندگی کا احساس دلائے۔ بلکہ خود مہنت کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے اس کی ذات کو غلط آنکا تھا۔ اسے پتا چلنا چاہئے کہ یہ آدمی یہاں بھی معمول کی زندگی جیتا رہا اور آخر میں اپنی موت کا سوتر دھار بھی خود ہی بنا۔ نہ وہ مرا، نہ ختم ہوا۔ صرف رک گیا تھا۔
اس دن غسل خانے جاتے ہوئے اس نے خود سے کہا آج تمہیں خوب مل مل کر نہانا ہے کیونکہ آج تمہارا نیا جنم ہے جنم دن لیکن؟ اس وقت رات ہے یا دن؟ جہاں دن کا ہی پتا نہ ہو وہاں جنم دن کیوں کر معلوم ہو سکتا ہے؟ اس لئے سچائی یہ ہے کہ تم جس دن طے کروگے وہی تمہارا جنم دن ہوگا اپنے اس خیال پروہ قدرے مسکرایا۔ پھر اس نے بڑے سکون سے غسل کیا۔ بدن پونچھا اور باہر آکر تنگ گلیارے میں کھڑ ا رہا۔ گیلے پیروں کو پوچھنے کے لئے جوں ہی جھکا یکایک جیسے اس کے پیروں کے پاس کوئی دھماکا ہوا ہو۔ وہ حیران رہ گیا۔ اس نے جو دیکھا اس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
اس نے دھیرے سے اپنے گھٹنے فرش پر ٹیکے اور دوبارہ غور سے دیکھنے لگا۔ غسل خانے کے کونے میں باہر کی طرف ایک ہلکی سی دراڑ تھی وہاں ایک انگل لمبی جنگلی بیل دراڑ سے جھانک رہی تھی۔ بیل کے ڈنٹھل پر پانچ گول پتے بھی لگے ہوئے تھے۔ وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔ یہ جگہ پاتال میں بہت گہرے زمین کے نیچے ہے۔ پختہ فرش ہے، پھر بھی یہ بیج ساری دنیا کو حقارت سے ٹھکراکر ایک بانکپن کے ساتھ باہر نکل آیا ہے۔ اس کا دل احترام کے جذبے سے بھر گیا۔ اسے لگا وہ گھٹنوں کے بل جھک کر اسے نہارتے ہوئے اس ننھے سے پودے کی عظمت کے آگے سرنگوں ہو گیا ہے۔ اس کے اندر جیسے مسرت کا ایک چشمہ سا پھوٹ پڑا اور وہ یک بیک ہنس دیا۔
اس نے پوجا کاچھوٹا سا ترشول لیا اور اس سے پودے کے آس پاس کی زمین کریدنے لگا۔ نیچے انگل پھر موٹی جڑ تھی۔ تھوڑی سی جگہ بنا لینے کے بعد اس نے وہاں چلو سے پانی ٹپکایا اور پتوں کی طرف فخر سے یوں دیکھنے لگا جیسے وہ اس کی ظفریابی کا پرچم لہرا رہے ہوں۔ سرخ روشنی میں بیل کی ٹہنی دھیرے دھیرے اوپر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اب پتے پانچ سے دس ہو گئے تھے۔ بیل کی ایک اور شاخ نکل آئی تھی۔ پیچھے کے دو ایک پتے جھڑ گئے تھے۔ نازک سرخ ڈنٹھل، پختہ ہو رہا تھا۔ اس نے جڑ کے پاس کی جگہ کرید کرید کر کافی چوڑی کر دی۔ اب بیل کی ڈنڈی چاہے جتنی موٹی ہو جائے کوئی پریشانی نہیں تھی۔
جیسے جیسے بیل بڑھ رہی تھی۔ اس کا جوش و اضطراب بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کافی دیر تک گھٹنے ٹیکے بیل کے سامنے بیٹھا رہتا گویا اس بیل کے رگ و ریشے میں سراسرتی قوت نمو کی آواز کو اپنے کانوں سے سننا چاہتا ہو۔ اس نے جھڑے ہوئے ایک پتے کو مسل کر اس کی بو سو نگھنے کی کوشش کی۔ اس پتے سے کچھ ایسی بو آرہی تھی جیسی بارش میں بھیگ کر گوٹھے میں آئی ہوئی گائے کے سامنے پڑے تازہ چارے سے آتی ہے۔ کون سی بیل ہے یہ؟ اسے پھول بھی آتے ہوں گے۔ کیسا رنگ ہوگا ان کا؟
یہ سوال تو صرف تجسس کے طور پر اس کے ذہن میں آئے۔ اصلی خوشی تو اسے بیل کے اس طرح لگاتار بڑھتے جانے سے ہو رہی تھی۔ بیل کی نئی کونپلیں بھی پھوٹ رہی تھیں۔ پوری ڈنڈی پتوں کے جھنڈ سے بھر گئی تھی۔ ہوا کی آمد ورفت کے لئے بنے ہوئے پائپ کا منہ وہاں سے صرف ایک ہاتھ کی دوری پر تھا۔ وہ بیتابی سے انتظار کر رہا تھا کہ بیل اس فاصلے کو جلد از جلد طے کرلے۔
آنکھ کھلتے ہی وہ اٹھ کر فوراً بیل کے پاس چلا جاتا۔ اگر اسے بیل میں کوئی اضافہ نظر نہ آتا تو وہ مایوس ہو جاتا، دودھ آتا، دوبار کھانے کی تھالیاں آتیں جاتیں، وہ نیند کے درمیان ایک رات آکر چلی جاتی۔ آخر بڑھتے بڑھتے اس ہوا دان تک پہنچ گئی۔ مارے خوشی کے وہ بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ اس دن اس نے پورا کھانا بھی نہیں کھایا۔ بیچ میں اٹھ کر بیل کے پاس چلا آیا۔ پتوں کو بڑی نزاکت سے ترشول کے سہارے اٹھاکر ہوا دان میں چھوڑ دیا۔ جٹادھاری نے اس ترشول کی پوجا کی تھی۔ اس نے اسی سے زمین کھو دی تھی اور اب یہی ترشول اس بیل کو زندگی کی سمت دکھانے میں ایک اہم کردار نبھا رہا تھا۔ بیل بڑھے گی، پھل لگیں گے اور پھر ایک دن بیل کے وزن سے ترشول زمین پر گر جائےگا۔ مری طرح بنا پھل پھول اگائے۔
بیل کو دیکھ کر وہ سوچوں میں ڈوب گیا۔ اس کے پھول اور پھل کیسے ہوں گے؟ میں انہیں دیکھ نہیں سکوں گا۔ بیل کا مستقبل طے ہے مگر میرا تو حال میرے اختیار میں نہیں۔ پتوں کو اندر سرکاتے اچانک اس کا ہاتھ رک گیا۔ یہ پتے تو اوپر نکل جائیں گے۔ پھر میرے لئے یہاں کوئی سبزہ نہیں بچےگا۔ اس خیال سے وہ تھوڑا ملول ہو گیا۔ اسے لگا جیسے کوئی چیز پوری طرح ختم ہو رہی ہے۔ وقت کا ایک حصہ بے جان ہو گیا ہے۔
وہ لوٹ آیا اور آسن پر بیٹھ گیا اس نے سوچا بیل اس کی محتاج نہیں ہے۔ کسی کی بھی نہیں۔ وہ تو اس کی عدم موجودگی میں بھی بڑھتی رہےگی۔ اس میں نئی نئی کونپلیں پھوٹیں گی اور ایک دن پورا ہوا دان بھر جائےگا اور بیل اوپر آسمان کی جانب روشنی کی دنیا میں داخل ہو جائےگی۔
ہوا دان کے بھر جانے کے خیال سے اس کی سرخوشی کا پارہ اچانک نیچے آ گیا۔ جیسے پیچھے سے کسی استخوانی پنجرنے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔ وہ ایک دم ساکت ہو گیا۔ اسی وقت کھانے کی تھالی آ گئی وہ اس جانب صرف دیکھ کر رہ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا بیل تو اوپر روشنی میں چلی جائےگی مگر قیمت تو اسے چکانی پڑےگی۔ اس کے بدلے اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑےگا۔ یہ بات اب تک اس کے دھیان میں نہیں آئی تھی۔ بیل تو روشنی میں نہا جائےگی مگر ہوا دان سے آنے والی ہوا کا منہ بند ہو جائےگا اس کا مطلب یہ ہوا وہ اپنی جان کا خراج ادا کرکے ہی بیل کو زندہ رکھ سکتا ہے۔
سفید، پیلی، ہری، روشنیوں سے گزرتا ہوا، اس سرخ اندھیرے میں ڈھکیلا گیا مجھ جیسا آدمی زندہ رہےگا یا پھر ایک عزم کے ساتھ اندھیرے کا سینہ چیرتی روشنی کی طرف بڑھنے والی یہ بیل زندہ رہےگی۔ اسے لگا بجلی کا وہ سرخ گولا اور اس کی سرخ روشنی میں بدہیئت دکھائی دینے والی تھالی کی کنار اس سے یہی سوال پوچھ رہے ہیں۔ شاید تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھے ہوئے وہ تینوں استخوانی پنجر بھی اس کا جواب سننے کے لئے بے چین ہیں۔ اس نے تھالی سے دو ایک نوالے لئے لیکن اب اس کی بھوک مر چکی تھی۔
آخر اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اور بےفکر ہو گیا۔ اب اس کے دل میں پہلے دن کا سا خوف تھا نہ تھوڑی دیر پہلے کی سی سرمستی تھی۔ اس کا دل ڈھلتی شام کے جھٹ پٹے کی مانند پر سکون تھا جس کے سارے شوخ رنگ اڑ گئے ہوں۔ اس نے تھالی کو پرے سرکا دیا۔ جبے پر کاڑھی ہوئی بیل سے دھاگے کا ایک تارنکال کر اسے چاول کے دانوں سے ہوادان کے منہ پر چپکا دیا۔ پائپ سے خارج ہوتی ہوا کی وجہ سے دھاگا زمین کے متوازی تیرتا ہوا تھرانے لگا۔ اس نے سوچا یہ دھاگا اب میرے لئے میری نبض کا کام کرےگا۔
اب جوں ہی آخری وقت آئےگا الوداع کہنے کے لئے میں تیار ہوں۔ اس کے بعد اس نے اپنے روزکے معمولات جاری رکھے۔ روز نہانا، تھالی کے آتے ہی کھانا کھا لینا، اس کی نیند میں بھی کوئی خلل نہیں پڑا۔ مگر اسے لگ رہا تھا یہ سب وہ نہیں کر رہاہے، کوئی اور ہے جو اس سے یہ سب کروا رہا ہے، وہ تو محض ایک سائے کی طرح مشاہدہ کر رہا ہے، دھیرے دھیرے اس میں ایک طرح کی لاتعلقی پیدا ہونے لگی۔ پہلے وہ جس طرح اس بیل کو دیکھنے کے لئے مضطرب رہتا تھا اب نہیں رہتا۔ البتہ پانچ چھ بار اس تھرتھراتے دھاگے کو ضرور دیکھ لیتا ہے۔ مگر اسے دیکھتے ہوئے بھی اس کی نظر میں ایک خالی پن رہتا۔ اسے معلوم تھاکہ وہ دھاگا اس کی سرخ رنگ سے بھری زندگی کی نبض ہے۔ جو رفتہ رفتہ ایک طے شدہ نتیجے کے طور پر کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
دھاگا اب فرش کی طرف جھک رہا تھا، بستر پر لیٹے لیٹے وہ سوچتا رہتا۔ بیل اب کتنی بڑی ہو گئی ہوگی، کیا اس میں پھول آئے ہوں گے؟ یا اس میں پھول اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک سورج کی روشنی اسے چھو نہ لے۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے خیال پارے اس کے تصور میں تیرتے رہتے۔ کبھی کبھی یہ خیال پارے ہلتے پانی میں بڑی پرچھائیں کی طرح لرز کر ٹوٹ جاتے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتا، ٹین کی ڈبیہ کو کھول کر دیکھتا، خود کو دلاسا دیتا اور پھر سکون سے ایک بار دھاگے کو دیکھ آتا۔
ایک دن اسے محسوس ہوا کہ اندر کی ہوا ایک دم گھٹی گھٹی سی اور بھاری ہو گئی ہے۔ غسل خانے تک جانے میں بھی جیسے سینے پر ایک بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا اور سانس پھولنے لگا تھا وہ لوٹ کر آسن تک آیا جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ ہونے والا ہے اس سے وہ واقف تھا پھر بھی یہ دیکھ کر وہ چونک سا گیا کہ دھاگا ہوا دان کے منہ کے پاس بےحرکت پڑا ہے۔ بس رہ رہ کر پرکاہ کی مانند اس میں ہلکی سی لرزش ضرور ہو جاتی تھی۔
اس نے دل ہی دل میں تیاری کرلی وہ غسل خانے میں گیا۔ احتیاط سے اپنے ناخن تراش لئے۔ انگلیوں سے بالو ں کو ٹھیک کیا۔ ٹھنڈے پانی کا نل کھولا، اس نے نیچے تھالی کو ترچھاکر دیوار سے ٹکا دیا۔ پانی قطر ہ قطرہ تھالی پر ٹپک کر پھسلتا ہوا بیل کی جڑ کی طرف بہنے لگا تھا، جڑ اب کلائی جتنی موٹی ہوکر ڈھٹائی کے ساتھ اوپر آ گئی تھی۔ اس نے ایک بار جڑ کو چھو کر دیکھا، غیر محسوس طریقے سے اس پر انگلیاں پھیریں، وہ لوٹ کر بستر پر آ گیا، چادر پر پڑی سلوٹوں کو ٹھیک کیا۔ ہاتھ جوڑ کر سامنے دیوار کو نمسکار کیا اور زیر لب بڑ بڑایا۔
تم میں جٹا دھاری جو بھی ہو، مگر مجھ پر تمہارا زبردست احسان ہے۔ تم نے مجھے سکھایا ہے کہ چراغ کی لو کو بجھنے سے پہلے چٹکی سے مسل کر کس طرح بجھایا جا سکتا ہے۔ وہ پالتھی مار کر بستر پر بیٹھ گیا۔ یہاں ہوا بےحد بھاری ہو گئی تھی۔ تنفس اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی کھردرے کپڑے کے پٹے کو زور زور سے سینے کے اندر باہر کھینچ رہا ہو لیکن اب اس کی نظروں کے سامنے ایک ہی منظر تھا۔ اس کی بیل سبز پتوں سے لدی نمو کی شدید خواہش لئے اوپر ہی اوپر اٹھتی جا رہی تھی۔
اس نے دل ہی دل میں کہا،
اے بیل! تو اسی طرح اوپر ہی اوپر اٹھتی جا
اندھیرے کی تنگنائے سے نکل کر تیری زندگی
غیر محنتم جوش کے ساتھ اوپر جاکر وقت کے کسی آسودہ
پل میں روشنی کو گلے لگا لےگی
تجھ میں پھول آئیں گے
سونے کے ننھے ننھے پیالیوں جیسے پھول
جن کے زرد زیرہ دانوں کو چھوتے ہی انگلیاں
خوشبو سے مہک اٹھیں گی
جب تجھ میں پھول آئیں
ہزارں پھولوں سے جلو میں تو
اپنے سر پر جھکے آسمان کے روبرو جا
اور اسے گواہ بناکر اپنے پھولوں کی پیالیوں میں سورج کی روشنی بھرلے
اگر تجھے پھل لگیں
اور میری تمنا ہے کہ تیرے ہر پتے کے نیچے ایک
سرخ پھل لگے اور وہ اس قدر رسیلا ہوکہ
ہر پھل کے سرخ رنگ میں، سورج کی روشنی کا
ایک ایک ذرہ، گھل مل کر
ایک جان ایک رس جائے
جب تیری گود پھولوں سے بھر جائے
افق کی جانب دیکھنا
کیوں کہ تو اسی کی تلاش میں
اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آئی ہے
لہٰذا اپنے پھلوں کو ان کے بیجوں کو
اپنی فتح کی علامت کے طور پر
چاروں طرف بکھر جانے والے
اگر کوئی معمولی جگنو بھی دکھائی دے
تو اس کا استقبال کر
کیوں کہ اپنی نوک سوزن کے برابر روشنی کے دم پر
اس نے رات کے پیکراں اندھیرے کو
للکارا ہے کم سے کم اندھیرے کے ایک ذرے پر قابص ہو گیا ہے
آسمان میں اڑتا ہو کوئی ننھا سا پرندہ دکھائی دے جائے
تو اس کی قدر کرنا
کیوں کہ وہ اپنے دو نازک پروں کی مدد
سے پورے اعتماد کے ساتھ آسمان کی
وسعتوں کو ناپ رہا ہے
اگر کوئی بچہ تیرے برگ سبز کو توڑلے اور اسے موڑ کر آئینے کی شکل دے
یا تیرے زرد پھولوں کو چن لے
اور ان کا پیلا رنگ اس کی انگلیوں سے چپک جائے
یا تیرے پھل کو توڑ کر اسے اپنی دو انگلیوں
کے بیچ میں اس طرح دبائے کہ ایک
رسیلا تار سا نکل آئے
تب تو اس پر خفا مت ہونا
کیا پتا وہ ان کروڑوں میں ایک ایسا
بچہ ہو جو اپنے اطراف کے بےپایاں اندھیرے
کی دیوار کو ڈھاکر روشنی کو پانے کی
کوشش کر رہا ہو
اگر ایسا ہے تو پھر جانے لے کہ۔۔۔
اس بچے کا اور تیرا رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ گہرا ہے
اس لئے تو اس سے خفا مت ہو
ایک پتے کے ٹوٹ جانے سے تیرا دامن خالی نہیں ہو جائےگا
ایک پھول کے توڑے جانے سے تیرے حسن میں کوئی کمی نہیں آئےگا
ایک پھل کے گر جانے سے تو کنگال نہیں ہو جائےگا
میری دعا ہے کہ تو خوب پھلے پھولے
تیرے پھلنے پھولنے سے ہی میری خوشی میری زندگی وابستہ ہے
کیوں کہ تیرے ہر پتے سے میری ایک ایک
سانس بندھی ہے
گویا تیری ہستی
میری ذات سے عبارت ہے
میری ذات تیرے وجود میں سما گئی ہے
میں مرا نہیں ہوں، صرف میرا روپ بدل گیا ہے
تو اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ دنیا پر آشکار ہوجا
اور دنیا والو ں کو بتا دے کہ
میں اس سرخ اندھیر ے میں دب کر ختم نہیں ہوا ہوں
بلکہ سبز فوارے کی شکل میں باہر آ گیا ہوں
لہٰذا تو اسی طرح اوپر جا
اور اوپر۔۔۔‘‘
اس کے بعد اس نے ڈبیہ کھول کر گولی منہ میں ڈال لی اس وقت صرف ایک دھندلا سا خیال سورج کی روشنی میں پرندے کے عکس کے مانند اس کے دل کی سطح پر لہرا کر گزر گیا۔ میرے پیش رو سوامی نے مجھ پر یہ احسان کیا لیکن میں اپنے بعد کے آنے والے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا میں زندگی بھر دوسروں کے احسانات کا بوجھ ڈھونڈتا رہا اور اب آخر میں بھی کسی کے احسان سے اپنا خاتمہ بالخیر کر رہاہوں اس بیل میں اپنی سانسیں شامل کرکے میں اوپر جا رہا ہوں کیا وہاں اپنے احسانات کا قرض ادا کر سکوں گا؟
وہ اسی طرح لپٹا رہا، اب اوپر کی دیوار نیچے سرک کر اسے بھینچ رہی تھی۔ اتنے دن خاموشی سے انتظار کرتی دیوار کا گوشہ گوشہ مضبوط ہاتھوں میں بدل گیا اور اسے دبانے لگا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اتنے میں اسے ڈھول کی آواز سنائی دی، ڈھم، ڈھم، ڈھماک۔ آج پہلی بار اسے باہر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کیا روشنی کی دنیا میں اس ننھی بیل کا خیر مقدم کیا جا رہا تھا۔ اس خیال سے وہ بھی جوش سے بھر گیا۔ اس کے ہونٹ ہلے۔
’’توجا۔۔۔اسی طرح اوپر کی طرف جا
اپنے پھولوں میں سورج کی روشنی کو
جذب کر لے، آسمانوں کے سامنے سینہ سپر ہوجا
جا اوپرجا۔۔۔‘‘
ڈھول کی آواز اب قریب آتے آتے اچانک بڑھ گئی تھی۔ ساتھ ہی چاروں طرف سرخ رنگ کی موجیں اٹھنے لگیں۔ رفتہ رفتہ اس کی آواز ڈوبتی چلی گئی۔ صرف ہونٹ ہلتے رہے۔ ہلتے رہے۔
بالآخر نیند کے دبیز پروں کے سایے میں وہ اپنے جبڑوں کے نیچے سے ابلتی ہنسی کو اپنی آخری مسکراہٹ کے نیچے دباکر ہمیشہ کے لئے بےحس و حرکت ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.