تارِ عنکبوت
کتنے ہی عرصہ سے ایک خواہش اس کے اندر بڑی شدت سے سراٹھارہی تھی۔ عجیب سی خواہش جو رفتہ رفتہ ارمان بنتی جارہی تھی۔
اس گھر کے کسی کونے میں چھت اور دیوار کے کسی جوڑ میں مکڑی کا ایک جال لگانظر آجائے۔ خاکستری سادھوانسا، دھوانسا ساجالا جو کتنے ہی دن تک ایک مقام پر لگا بڑھتا جائے، بڑھتا جائے۔ پھر ایک دن وہ ایک لمبا سا بانس لے کر اس کے سرپر بہت سا گودڑ باندھ کر جالے لپیٹتا پھرے، شور مچاتا ہوا۔ دیکھو تو کتنی مکڑیاں ہوگئی ہیں۔ جالے لٹکنے لگے ہیں۔۔۔ بالکل اسی انداز میں جیسے مہینے دومہینے بعد اماں جان گھر کے ملازم چھوکرے کے ہاتھ میں گودڑ بندھا بانس تھماکر شور مچاتی پھرتی تھیں۔ ارے یہ۔۔۔ یہ دیکھو بھئی ادھر یہ۔۔۔ دیکھو!
ہر نئے جالے کو د یکھ کر نئے سرے سے مکڑیوں پر ناراض ہونے لگتیں۔ ان کی شکایتیں کرنے لگتی تھیں بغیر کسی کو مخاطب کیے، ’’دیکھو تو! کتنے جالے لگا لیتی ہیں یہ کم بخت مکڑیاں۔‘‘
اور یہ بھی عجیب بات تھی کہ ان کا یہ پروگرام ہمیشہ چھٹی کے روز شروع ہوتا۔ جمعہ کا دن کیا طلوع ہوتا کہ ہفتہ صفائی شروع ہوجاتا۔ دراصل ریٹائر ہوجانے کے بعد بھی اماں جان کو سارے کام اور ساری صفائیاں جمعہ ہی کے دن نبٹانے کی عادت پڑی ہوئی تھی پھر وہ آکر اس کے کمرے میں کھڑی ہوجاتیں۔
’’بس آج چھٹی کا دن بستر ہی میں گزاروگے؟ پوستی نہیں تو۔ چلو نکلو یہاں سے، د یکھو تو کمرے میں کتنے جالے لٹک آئے ہیں۔ تم تو ہوش ہی نہیں لیتے۔‘‘
’’اماں جان ان غریبوں کو کہیں تو چین لینے دیا کرو۔‘‘ ہاتھ میں توٹھ برش پکڑے پکڑے وہ ان کے گلے سے چمٹ جاتا۔
’’اچھا! چین لینے د یا کروں، انہیں؟ گھر جالوں سے بھروالوں۔۔۔ نفرت ہے مجھے ان بھوسلی۔۔۔ بھوسلی۔۔۔ نکمی مکڑیوں سے۔ نہ جانے اللہ میاں نے یہ مخلوق کس مقصد سے بنائی ہے۔‘‘
کندھے پر تولیہ ڈالے غسل خانے میں جاتے جاتے وہ بھی ان کی تخلیق کے مقصد کے بارے میں مشکوک ہوا اور سوچنے لگا۔ ایویں ای فضول، اللہ میاں نے بندوں پر رعب ڈالا ہوا ہے کہ ہم نے تو کوئی چیز بے مقصد بنائی ہی نہیں۔۔۔ او راب دیکھو ایک چیز تو ہم نے پکڑ ہی لی، ’مکڑی۔ ‘ وہ فاتحانہ غسل خانہ کی دیواروں کے جوڑمیں لگے ننھے سے گول گول خاکستری جالے کو دیکھ کر مسکراتا اور اوپر کو دیکھتا رہا تھا۔
پھر ایک دن ککو نے عجیب بات کہہ دی۔ جمعے کا روز تھا۔ اماں حسبِ عادت شکورے کے ہاتھ میں بانس تھمائے جالے لیتی پھر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا میرے قلب پر جالے پڑنے لگتے ہیں، مکڑی کے ان جالوں کو دیکھ کر۔ بھئی ہے یہ کہ خدا کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں لیکن یہ مکڑی والی حکمت اور فائدہ ہماری سمجھ میں تو آیا نہیں۔ برآمدے کے کونے والے تخت پر ککو اپنا مکینوسیٹ سنبھالے بیٹھا اوورپل بنارہا تھا۔ ایک اسکرو کستے کستے اس کا ہاتھ رک گیا، ’’امی جان ہے کیوں نہیں، بہت بڑا مقصد ہے۔‘‘
تیرہ سالہ ککو کو انیمل ورلڈ (ANIMAL WORLD) سے بڑی دلچسپی تھی۔ سب ہی سمجھ رہے تھے کہ وہ تھیلے میں سے ایسی ہی کوئی بلی نکالے گا، مگر وہ گمبھیر آواز میں پختگی سے کہنے لگا، ’’ہوسکتا ہو کہ مکڑی کا مقصد یہ ہو کہ جب کسی خدا کے بندے پر اس کی زمین تنگ ہوجائے اور اسے وہاں رہنے نہ دیا جائے اور وہ کسی غار میں جاکر چھپنے کی کوشش کرے اور نکالنے والے وہاں بھی اس کا پیچھا کریں تو اس وقت مکڑی جالا تن کر غار کا منہ بند کردے اور کبوتر جالے میں انڈے دے دیں اور پیچھا کرنے والے یہ سوچ کر واپس چلے جائیں کہ۔۔۔‘‘
اماں جانی کا ہاتھ بھی رک گیا اور زبان بھی۔ انہوں نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لے لیا، ’’صلی اللہ علیک یا رسول اللہ۔‘‘
تخت کے کونے پر وہ ٹک گئیں اور بغور ککو کو دیکھنے لگیں۔ گویا کہتی ہوں، ’’یہ جنریشن ہم سے کہیں آگے ہے۔‘‘ اس وقت ان کو اپنی ساری ڈگریاں اور ملازمت کا تیس سالہ تجربہ سب اتنا محدود اور بے معنی نظر آرہا تھا۔
یہ اور ایسی کتنی ہی باتیں میرے ذہن کے پردوں پر ابھری ہیں۔ یادوں کے آنگن میں چراغاں سا کردیتی ہیں (مگر میرے گھر میں تو کوئی آنگن ہی نہیں اور یہ آنگن اور کڑوے تیل سے لبریز مٹی کے چراغ یہ سب باتیں تو اب خواب و خیال ہیں) اور پھر سنتھیا تو میرے خیالوں اور خوابوں میں بھی شرکت نہیں کرسکتی۔ اس نے تو وہ گھر دیکھا بھی نہیں جہاں جمعے کے جمعے اماں جان صفائی کی مہم کا آغاز کرتی تھیں۔ وہ تو ان سے ملی بھی نہ تھی۔ نہ اس کے دل میں میرے لوگوں سے ملنے کی کوئی خواہش اور تمنا تھی۔ بس اس کی مصروفیتیں ہی اس نوعیت کی ہیں کہ ہزار بار ترغیب دینے پر بھی وہ پاکستان کے سفر پر آمادہ نہ ہوسکی۔ سلمیٰ باجی کی شادی پر بھی میں اکیلا ہی گیا۔ (بارہ برس میں میں نے کل دوسفر پاکستان کے کیے) وہ دوسرا سفر ابا میاں کی برسی تھی۔
دونوں بچوں کی ولادت نے سنتھیا کو مجھ سے، اپنے آپ سے اور بچوں سے ا تنا بیزار کردیا تھا کہ میں کسی سفر وفر کی تجویز ترغیب کے قابل ہی نہ رہا۔ سنتھیا کا خیال تھا کہ سنجیدہ (ماں اسے ہمیشہ ایلین کہتی ہے) اور نورٹن (میں نے اس کا باقاعدہ عقیقہUSA میں کرکے عروج نام رکھاتھا) دونوں اس کی حماقت اور کمزوریوں کا نتیجہ ہیں۔ اور یہ کہ میں نے اور بچوں نے مل کر باقاعدہ ایک سازش کے تحت اس کے کیرئر میں رخنہ ڈالا اور ہمارے یہاں تو باوفا اور بااصول شوہر اپنا آپریشن کروالیتے ہیں اور نس بندی کے ٹیکے لگواتے ہیں اور ایک میں تھا حیوانوں کی سی جبلت والا انسان (جب ہی تو تم لوگ ہر وقت پیالے لیے کھڑے رہتے ہو، ہمیں یہ دو ہمیں وہ دو۔ ایٹمی پلانٹ چل کر نہیں دے رہا ہے وغیرہ وغیرہ) اور میں اس کی تقریر کے دوران اپنے ایرانی دوست مجتبائی کو یاد کرتا رہا جس کی حسین و جمیل چپ رہنے والی بیوی میکے جانے کے بہانے اسٹیٹس گئی اور اس کی پانچ سالہ ناقابل یقین حدتک حسین بیٹی منیژہ کو بھی لے بھاگی اور ننھے اسفندیار کو وہ اپنے بازوؤں میں اٹھائے پان امریکن کے جمبو جیٹ میں بیٹھا بمشکل سنبھال رہا تھا کہ ایئرہوسٹس کو اس پر ترس آگیا اور بچہ اس نے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا اور اس وقت تک سنبھالے رہی کہ جب تک کہ طہران کی طیران گاہ پر اس کی دادی نے اس کی گود سے اپنے بازؤں میں نہ سنبھال لیا (اور مجتبائی بھی اب ایک بھولی ہوئی کہانی ہے اور ایران کے گلی کوچوں میں بہت خون بہہ گیا ہے۔)
اور یہاں پر آکر اس نے سوچا ہم سب ہی بھولی بسری کہانیاں ہیں۔ کل من علیھا فان۔ ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ اچھا پھر رہو اکیلے۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم تو کل خوابِ عدم میں ہوں گے۔ تم اپنی کہو کہ نہ تم کو نیند آتی ہے اور نہ خیر خبر۔ تمہارے لیے تو ارض و سما ہیں، عرش و کرسی ہیں اور کن فیکون ہے۔ تو آؤ اے اہل دل اور انصاف کرو کہ اس کے بعد میں جو کچھ کرتا رہا وہ کیا غلط تھا؟
(یعنی بات اصل میں یہ تھی کہ کیا میں بچوں کے جھمیلے میں پڑجاتی او را یشیائی احمق عورتوں کی طرح اپنی ریسرچ مکمل نہ کرتی۔ جی ہاں میں سنتھیااحمد۔ ظاہر ہے پاکستانی لوگوں کو احمد اور محمد اور حسین اور علی جیسے نام رکھنے کا کریز ہے اور میں کر بھی کیا سکتی ہوں اپنے آپ کو سنتھیا آمڈ کہنے کے علاوہ۔)
دُر فٹے منہ، دادی جان اگر مجھے گھرداری کرتے اور بچوں کی پرداخت کرتے اور اپنی ملازمت کے علاوہ وہ خوش دامن کی ریٹائرمنٹ اور پھر ان کے اولڈ ہاؤس میں داخلے کے مسائل سے نبٹتے دیکھ لیتیں تو ان کے منہ سے خود کار طریقے پر یہی نکلنا تھا۔ جی! میری دادی خاص الخاص چکوال ضلع جہلم کی تھیں۔ اور میری ماں کو میرے والد صاحب میجر شاہباز سنبھل مرادباد سے بیاہ کرلائے (جی ہاں دوسری جنگ عظیم کے طفیل ایسے پیوند کئی لگے) اور میرے نانکوں کا خیال تھا کہ یہ اجتماعِ ضدین ہے اور یہ نبھنے والی بات نہیں ہے، یہ کہ جب ساس لمبا سا کرتا لاچے پر پہن کر کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کے منہ پر ہاتھ نچانچا کر طعنے دے گی تو صاحبزادی کا دماغ چاق ہوجائے گا اور چند مہینوں کی بات ہے کہ واپسی کا ٹکٹ لے کر واپس گھٹنے سے آلگیں گی (نانی اماں کے رونے پیٹنے پر ناناجان کہ ان کے آموں کے بہت باغ تھے، اور بیٹی نہایت خودسر بوجہ پڑھنے علی گڑھ میں، ان الفاظ میں ان کو سمجھاتے رہے تھے) مگر ہوا یوں کہ وہ خودسر خاتون لاچا بندھی ساس سے ایسی شیر و شکر ہوئیں کہ فرصت کے اوقات میں وہ ایک دوسری کے سر میں تیل چسنے، جوئیں د یکھنے کے علاوہ اپنے اپنے خاندانی دکھڑوں سے بھی ایک دوسری کو آگاہ رکھتیں۔
تو میں سنتھیا احمد یہ کہہ رہی تھی کہ میں اپنے بچوں کی پرداخت سے یوں قاصر تھی کہ بدھ مذہب اور شنٹو کے ادیان کی جڑیں اور پھنچیاں تلاش کر رہی ہوں اور بچوں کا کیا وہ تو پل ہی جاتے ہیں اور مر بھی سکتے ہیں۔ اور جینے کی حالت میں بگڑ بھی سکتے ہیں مگر یہ ڈیسی ٹیشن تو مجھے ابدیت بخشے گا۔ لازوال شہرت اور اس میں انسان دوستی کا زبردست پہلو بھی ہے۔ اور مجھے لازماً تین سال تو انڈیانا یونیورسٹی میں گزارنے ہیں اور پھر وہ آگے جو بھی فیصلہ کریں اور ممی کی ریٹائرمنٹ اور اولڈ ہاؤس جانے کا سوال اپنی جگہ پر اہم ہے۔۔۔
تاہم اس کی خوشدامن اس کے حال پر اس حدتک ضرور مہربان رہیں کہ موسمی تعطیلات میں آکر داماد کا ہاتھ بٹاتی رہیں۔ بڑی بی مزاجاً گھردار اور رقیق القلب تھیں اور ان کی موجودگی میں بچوں سے زیادہ خود اس کو سنتھیا کی عدم موجودگی کا اتنا احساس نہ ہوتا لیکن یہ اور بات تھی کہ اب ان کی ریٹائرمنٹ اور اولڈ ہاؤس جانے کے دن تیزی سے قریب آرہے تھے اور ان کا انہماک اس قسم کے مسائل میں بڑھ رہا تھا۔
اس نے ان سے منتیں کیں کہ وہ اس کے پاس قیام کریں اور اولڈ ہاؤس میں جاکر نہ پڑیں۔ اور یہ جو ہم نے اتنا بڑا گھر خرید کر ڈال دیا ہے وہ کس کام آئے گا، اس میں رہنے بسنے والا کون ہے۔ اور سنتھیا۔۔۔ میں نے تو سنتھیا کو سمجھایا تھا کہ یہ مسلمان پاکستانی لڑکے کہ جن کو مذہب نے ایک سے ز یادہ نکاح کا پروانہ دیا ہوا ہے (جی ہاں میں سنتھیا کی مم یعنی سابق مسز ہنری وولف آپ سے مخاطب ہوں۔ جی میرے خاوند اپنی سکریٹریز جلد جلد بدلتے تھے۔)
اور حقیقت یہ ہے کہ ان حسین و جمیل لڑکیوں کے مقابلے میں میں زیادہ ذہین اور سپاٹ سی خاتون ثابت ہو رہی تھی اور کام کی زیادتی کی وجہ سے خود کو کچھ اعصاب زدہ غائب دماغ ہی محسوس کرنے لگی بلکہ ہمارا یہ فیصلہ کہ اب ہم کو بچھڑجانا چاہیے اور سنتھیا کو ہوسٹل میں بھیج دینا چاہیے۔ میرے حق میں زیادہ بہتر ثابت ہوا کہ اب کم از کم میں اپنی ملازمت سے تو انصاف کرسکتی ہوں۔۔۔ اور پھر جب میں ایک تحقیق کے سلسلہ میں مشرقِ بعید اور پھر برصغیر کے علاقوں میں گئی تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوئی کہ وہاں کی نصف آبادی یعنی عورتوں کی تعداد کا بڑا حصہ چولھا، چکی، برتن بھانڈے سنبھالنے میں منہمک ہے اور جب دن ڈھل جاتا ہے تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کچے صحنوں میں چھڑکاؤ کرکے بان کی چارپائیاں ڈالتی ہیں اور اپنے چھ چھ سات ساتھ بچوں کے درمیان بطخوں کی طرح بیٹھ جاتی ہیں اور انہیں کہانیاں سناتی ہیں اور ساتھ ہی ایک عدد گود والے بچے کو اس کی فیڈ بھی دیتی ہوتی ہیں۔
بوتل سے نہیں بھئی۔۔۔ اور اس صورت حال پر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے تھے (جی میں عورت کی برتری اور وقار کی حامی ہوں اور مجھ سے عورت کا استحصال نہیں دیکھا جاتا، مگر میرا ایک ٹرانسکرائبر (TRANSCRIBER) عجیب ذلیل انسان تھا۔ اس کا نام سلطان تھا اور وہ بہت جلد ادھیڑ عمری کی منزل میں داخل ہونے والا تھا۔ وہ خاصا پڑھا لکھا تھا مگر کمینے قسم کا۔ تو چنانچہ وہ میرا تجزیہ یوں کرتا تھا۔ مسز ہنری یہ دراصل رشک و حسد کا جذبہ ہے جو بادی النظر میں عورت کی ہمدردی بن کر آپ کی آنکھوں میں ڈبڈباتا ہے۔ رشک و حسد ان کی بے فکری، فراغت اور ممتا کی فراوانی پر جو غربت، افلاس اور تنگی کے باوجود موجود ہے) بہرحال میرے داماد کی پیش کش میں خلوص ہے، مگر میرے اپنے مسائل ہیں اور سنتھیا بھی اس خیال کو پسند نہیں کرتی۔ اور اگر یہاں میرا ٹرانسکرائبر سلطان اپنی تمام تر کمینگی کے ساتھ موجود ہوتا تو یقیناً یہی کہتا کہ سنتھیا اپنے ہوسٹل میں جاکر پڑنے اور گھر کے ٹوٹنے کا انتقام اس طرح لے رہی ہے کہ اب وہ تم کو اولڈ ہاؤس میں بند کرواکر رہے گی، مگر خیرسلطان بھی اپنے چھ بچوں اور ساتویں بیوی کے درمیان ضعیف ہوچکا ہوگا اور اسی کچے آنگن میں بڑھیا کے ساتھ زندگی کے باقی دن گزارے گا۔۔۔ خیر مرضی ہے اپنی اپنی۔۔۔
سنتھیا کا خیال تھا یہ دو بچوں کی دو بیڑیاں ایک ہنگامی قسم کی ذہنی کیفیت کا نتیجہ تھیں (جی ہاں سنتھیا ان دنوں شدت سے مشرقی بیوی کا پارٹ ادا کرنے کی دھن میں تھی) اور اس طرح اس کے کیرئر میں رخنہ پڑا اور وہ اس سلسلے میں کچھ مجھ سے ناراض بھی تھی۔ اور اسی سلسلے میں عید پر اس نے بچوں کو اپنے پاس بلوالیا تھا اور میں عید کی نماز اکیلا ہی پڑھنے M.S.A کی مسجد میں گیا جہاں بے شمار پاکستانی، ترک، بھارتی، عرب، ملائی اور انڈونیشی لوگ اپنی اپنی بیگمات او ر بچوں کے ساتھ عید منانے آئے مگر میں اور میرے جیسے کئی دوسرے دوگانہ عید ادا کرکے ایک ایک پیالی کافی حلق سے اتار کر اپنے اپنے گھروں میں جاپڑے تھے اور اس وقت میں بڑی شدت سے اپنے دوست آقائے مجتبائی کو یاد کر رہا تھا کہ اس نے منیژے کے بغیر عیدیں منائی ہوں گی۔ اس نے اور اسفندیار نے عید منائی ہوگی۔ بشرطیکہ۔۔۔ بشرطیکہ۔۔۔ ساواک کے حملے اور پھر انقلاب کی خون آشامی اور پھر عراق ایران جنگ کی پائیداری کے باوجود وہ بقیدِ حیات ہوں گے۔۔۔ اور اب منیژے کہاں ہوگی۔ شکر ہے کہ سنجیدہ اور عروج تصور کرسکتے ہیں کہ اس وقت ان کا باپ کہاں ہوگا۔ مگر منیژے POOR DARLING منیژے تیرا معصوم اور ہوشربا حسن آج بھی میری آنکھوں میں بسا ہے۔ منیژے۔۔۔ منی۔۔۔ ژے میرے دل نے پکارا ہے۔ ننھی دوست تو کہاں ہے؟ ارض و سما کے درمیان ایک صدا بھری ہے بہت اونچی اور آشفتہ۔
منیژہ منم دختر افراسیاب
منیژہ منم۔۔۔ منیژہ منم۔۔۔
’’اور ان کی مثال مکڑی کی سی ہے۔ وہ بھی ایک طرح کا گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش یہ اس بات کو جانتے۔ یہ جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں، خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے۔ (سورۂ عنکبوت)‘‘
آج جمعہ کی نماز میں یہ سورۃ پڑھتے پڑھتے پیش امام پھوٹ پھوٹ کر روپڑا تھا۔۔۔ اور میں اس کی صورت تکنے لگا تھا، پھر میں چونک پڑا کہ میں تو اس کا مقتدی ہوں اور گھر میں مجھے سب ککو کہتے ہیں۔ میں گھر بھر میں لاڈلا بیٹا کہاجاتا تھا۔۔۔ آتی دفعہ میں نے گنا تھا گھر میں کل کتنے افراد رہ گئے تھے۔ صرف ایک امی جان، خانساماں اور شکورا۔ اور آتی دفعہ میرا کتنا جی چاہا تھا کہ بھائی جان سے ملاقات ہوجائے۔۔۔ مگر وہ تو امریکہ ایسا گئے اور سنتھیا کے ڈیسی ٹیشن نے اس کو اس چکر میں ڈال دیا ہے کہ اب شاید ان سے ملنے کے لیے وہیں جانا پڑے اور آپ دیکھ رہے ہیں میری حالت کہ میں حالتِ قیام و اقتدا میں کھڑا ہوں۔ اور پیش امام اس آیت پر آکر روپڑا ہے۔
کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش یہ اس بات کو جانتے اور خدا کی قسم مکڑی کے تمام کمزور گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ اور ان گھروں کے نام مختلف ہیں۔ مذاکروں کے، قراردادوں کے، کنونشنوں اور افہام و تفہیم کے سارے گھر ایک کے بعد ایک ٹوٹ رہے ہیں۔ اور بس سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔ حدیہ کہ انسان نام کا جو مکڑی کا گھر بنا وہ بھی ٹوٹا اور بکھرا۔ اس کی اَنا بھی ٹوٹی۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ سارے گھر تمام ہوئے اور میرے سر پر فقط ایک تارعنکبوت لٹک رہا ہے خیال کے تسلسل کا۔
اور اب میرا خدا مجھ سے پوچھ سکتا ہے۔ بے شک ڈانٹ کر کہ تم جو بیروت میں میکنیکل انجینئرنگ پڑھانے پر مامور ہوکر آئے تھے۔ اب یہاں صابرہ کی مسجد میں کیسے کھڑے ہو۔ تو میں بھی ڈٹ کر جواب دوں گا کہ ’’حضّت آپ نے وہ مکڑیاں بنانا کیوں چھوڑ دیں جو غاروں کے منہ پر اس قدر مضبوط گھر بنادیا کرتی تھیں کہ کبوتر اس میں انڈے دے جاتے تھے۔ اور اب یہاں بے حد و حساب مکڑیاں ہیں کہ جن کے گھر ٹوٹ گئے ہیں اور وہ سرگرداں پھرتی ہیں اور سرحدوں کے ادھر حسرت کی نگاہوں سے اپنی متروکہ زمینوں کو دیکھتے ہیں کہ ان پر دوسروں کی فصلیں کھڑی ہیں اور وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ یہ دور سے اپنی زمینوں کو تکنے والے لوگ یہ نہ اپنی زمینوں پر قدم رکھ سکیں گے اور نہ چاند پر جائیں گے (کیوں بھئی، اب میں آپ سے پوچھتا ہوں حضت کہ اگر چاند پر جانا اتنا ہی ضروری تھا تو آپ نے اس میں آکسیجن وغیرہ کیوں نہ پیدا کی)
تو اب آپ سوچیں حضت! سوچیں! اور انصاف کریں مکڑیوں کے گھر ٹوٹ چکے ہوں تو کیا بندے پر لازم ہے کہ وہ یونیورسٹی کی ایئرکنڈیشنڈ اور اسٹریم لائنڈ کلاسوں میں بیٹھا تھیوریاں پڑھاتا رہے اور شامیں خوشبودار قہوے کی خوشبوؤں سے معمور ریستورانوں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف گزارے اور لبنان اور بیروت کے حسن سے آنکھیں سینکتا رہے۔ تو اب میں یہاں صابرہ کی مسجد میں کھڑا ہوں (اور اب سوری سر! ایکسکیوزمی پلیز! اب کام ختم ہو رہا ہے اور اب ہمیں رکوع کی حالت میں جانا ہے۔)
عید کے دن منہ اوندھائے پڑا دیکھ کر بڑی بی کا دل پسیجا تو تھا اور انہوں نے اس کی لاعلمی میں بڑا زبردست لنچ تیار کیا کہ عید کا کیک تک سجادیا اور انہوں نے ہیپی عید کہہ کر اس کی پیشانی پر بوسہ تک دیا مگر وہ کیک کی قاش پلیٹ میں رکھے سوچتا رہا۔ اماں جانی شیرخورمہ اور سویوں کا زردہ کیسا نفیس بناتی تھیں (ایک اور تارعنکبوت) بڑی بی اس دن بڑی دیر چہکتی رہی تھیں اور ہنری وولف اور سنتھیا اور پپا کے ساتھ منائے ہوئے کرسمسوں کا ذکر کرتی گئیں (پھر وہی تارعنکبوت خاصا لمبا کھینچ رہا ہے اور تمام گھر مکڑی کے گھر کی طرح کمزور تھے خیر۔)
لوہا اس وقت خاصاگرم تھا۔ بڑی بی رقت کے موڈ میں تھیں کہ اس نے پیش کش کی کہ آپ اولڈ ہاؤس نہ جائیں موم۔ بچوں سے زیادہ میں مس کروں گا (جانتی ہوں جانتی ہوں ڈیئر) دل میں افسوس کہ یہ لوگ جو الفت کے دھاگوں میں موتیوں کی طرح پروئے رکھتے ہیں اپنے آپ کو کبھی چاند پر نہ اتریں گے اور سلطان کی ذلالت اور اکھڑپن کی انتہا یہ تھی کہ نہایت اکھڑپن سے آئیڈیا ہی کو رَد کردیتا۔ کیوں جی یہ ہماری دنیا میں کیا خرابی ہے جو چاند پر جائیں۔ کروڑوں روپے خرچتے ہیں تو دوبندے اترتے ہیں چاند پر اور ان نسلوں کی ننگ اور بھوک کا حساب کون دے گا جو وہاں جانے کے شوق میں ننگی اور بھوکی رکھی جائیں گی۔ پھر وہ یہ بھی کہتا تھا، تم جاؤ شوق سے سوبسم اللہ۔
خیر تو پیش کش پر پہلے تو آنکھیں چمچمانے لگی تھیں۔ چہرے پر عجب تذبذب تھا۔ پر فوراً ہی سنبھل گئیں۔ بار بار کہتی BUT SYNTHIA WONT LIKE THE IDEA دراصل اس میں اس کی ذلت تھی۔ لوگ مذاق اڑاسکتے تھے کہ بوڑھی ماں کو گھر بٹھارکھا ہے۔ ہم ANTIQUES تو جمع کرسکتے لیکن کہنہ اور فرسودہ ماں باپ! معاذ اللہ۔
بس ایسے ہی وسوسوں سے خوفزدہ ہوکر انکار کیے گئیں۔ اور دن وہ بھی چڑھا کہ بڑی بی سنجیدہ اور عروج کو اور اس کو تنہا چھوڑ کر اولڈ ہاؤس میں جاپڑیں۔۔۔ سنجیدہ نے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اٹھاکر سوال کیا تھا۔ وہ ہمیں کیوں چھوڑگئیں۔ گرینی اولڈ ہاؤس کیوں چلی گئیں۔
بیٹے ان کو وہاں جانا تھا۔ جانا پڑتا ہے بوڑھے لوگوں کو۔
عروج جسے ماں نے ہمیشہ نورٹن کہا، سوچ میں پڑگیا۔
ابو، ڈیڈ آپ بوڑھے ہو جائیں گے تو آپ کو بھی جانا پڑے گا۔
عروج کی اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ واقعی زندگی میں ایک روز ایسا بھی آسکتا ہے۔
مگر عروج کی بات کا جواب دینا ضروری تھا۔
ہاں بیٹا اگر مجھے یہاں رہنا پڑا تو پھر جانا ہی پڑے گا۔
’’جانا پڑے گا! یہ کیا بات ہوئی مگر اب وہ ایسی ہی باتیں اکثر اپنے خطوں میں لکھنے لگا ہے۔ اب زندگی بڑے سکون سے چل رہی ہے تو وہ خطوں اور ٹیلی فونوں پر ایسی باتیں کرکے میری زندگی کو بے سکون کرنا چاہتا ہے۔ جی میں سنتھیا یعنی سنتھیا احمد اپنی چھب سے مطمئن ہوں۔ ٹھیک ہے میں اتنے عرصے میں صرف دو مرتبہ ایک ایک ماہ کے لیے جاتی رہی ہوں۔ اور کیا اس عجلت اور سرعت کی زندگی میں اتنی مہلت کم ہے کہ انسان ا پنے لوگوں میں رہ سکے۔‘‘
ٹھیک ہے سنتھیا تم اپنے ڈیسی ٹیشن کی تیاری اور تکمیل کے سلسلہ میں گھر کے منظر سے دوسال غائب رہیں۔ پھر شنٹو اور بدھ مت کی تہذیبی جڑوں کی تلاش میں تمہیں شرقِ بعید کا سفر کرنا پڑا، میں نے انتظار کیا۔ تم نے پھر دوسال برما، سری لنکا اور انڈونیشیا میں قیام کیا اور پھر اچانک ہی تمہارا خط بنگلہ دیش سے آگیا کہ۔۔۔ وہ جگہ تمہیں بہت پسند آگئی۔ خوبصورت مرطوب جنگلات کا حسن اور ملیریا سے بھرے ہوئے ڈنکوں والے مچھر۔۔۔ اور وہاں کے لوگوں کے مزاج۔۔۔ اور میں یہاں۔۔۔ ایک عذاب میں گرفتار رہا ہوں کہ تمہاری ممی اب۔۔۔ ہلو۔۔۔ ہلو۔۔۔ آواز نہیں آرہی ہے۔ ہاں میں احمد بول رہا ہوں۔ اور اب دیکھو، تم نے آرام سے لکھ دیا کہ تم کو بالکل مخالف سمت میں کام ملا ہے اور تم نے دوسال کا کنٹریکٹ بھی کرلیا ہے مگر میں اس مکان کا، بچوں کی پڑھائی اور خود اپنی پسندیدہ ملازمت کا کیا کروں۔۔۔ میں سب ترک کردوں تمہارے ساتھ۔۔۔ ہلو۔۔۔ ہلو تم سن رہی ہو۔۔۔ دوسال گزارنے کے لیے۔۔۔ ہلو۔۔۔ سنتھیا۔
اُف میرے خدا اس نے ٹیلیفون بند کردیا ہے۔۔۔ اور یہ رابطہ جو کتنی مدت بعد قائم کیا تھا ایک تارعنکبوت ثا بت ہوا۔ بات تو سنتی ہی نہیں، اپنی کہے جاتی ہے۔ چلو ٹھیک ہے سوچتا تھا بچوں سے بات کرواؤں گا، مگر۔۔۔ خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ اور خیر۔ پھر وہ گھر سے باہر نکل آیا اور اپنے مختصر سے باغ میں کھڑا ہوا اور اس پر چھائے ہوئے فلک ناہنجار کی جانب دیکھا کہ کبھی شمس اور کوکب و نجوم سے مزین جھمکتا اور کبھی بادلوں سے بھرجاتا اور کبھی ایک شفاف ردائے نیلگوں کی صورت کمیونیکیٹ کرتا۔ اور اس سب کے پیچھے مالک الملک تھا کہ جس کے قبضے میں اس کی تقدیر اور جان تھی۔
اور گویا لوح محفوظ پر رقم کردیا گیا تھا کہ اب کے بعد تم اس خاکستری مکڑی کے جالے کی دید کو ترس جاؤگے (یہاں لوگ بہت صفائیاں کرتے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کو جینے نہیں دیتے اس لیے کہ وہ جین اور بدھ مذاہب کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان پر تحقیق کا انتھک سلسلہ جارہی رکھتے ہیں) کہ تم نے اپنے لیے وہ رزق انتخاب کیا جو ایک گرین کارڈ یعنی سنتھیا کے حوالے سے۔۔۔
اور سنتھیا۔۔۔ گروہِ اشقیا سے تعلق رکھتی ہے کہ اس نے عیسائی اور موسائی شریعتوں اور اخلاقیات کو رد کیا۔ اور کہا کہ ہم صرف خدا کو مانتے ہیں اور دین کا حوالہ دیتے شرماتے ہیں کہ ان کا مذہب انسانیت ہے اور صابرہ، شیتلا اور بقا میں جو کچھ ہوگا۔۔۔ وہ ہونا ضروری ہے (مجھے بالکل خبر نہ تھی کہ ککو صابرہ کی مسجد میں حالتِ قیام میں ہے اور آگے پیش امام کھڑا روتا ہے۔ اور سورۂ عنکبوت پڑھتا ہے۔)
اور میری مثال بھی مکڑی کی سی ہوئی کہ میں نے مستقبل اور اچھی رہائش کے خیال سے ایک گھر خریدا اور بچوں کو بہترین اسکولوں میں ڈالا اور پھر ان کی گرینی کو نزدیک ترین اولڈ ہاؤس میں ڈمپ کیا۔
اور ممی نے ہم کو لکھا تھا کہ تم گرینی کے پاس ہیپی کرسمس وش کرنے جانا تو گلاب کی کلیاں ضرور لے جانا (ممی ان دنوں کٹھمنڈو میں ہیں کسی دَورے کے سلسلے میں) گرینی کے پاس جانا مسئلہ بن گیا۔
جی! میں سنجیدہ بول رہی ہوں۔۔۔ اور میں عروج ہوں۔ سنجیدہ نوسال کی اور میں آٹھ سال کا ہوں۔
اور ممی کٹھمنڈو جانے سے پہلے ہمیں خدا حافظ کہنے آئیں تو ہمیں دیکھ کر روپڑیں۔
’’وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ تم کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہو میرے بچو!‘‘
اب مسئلہ یہ تھا کہ گرینی کے لیے سیب لے جانا بیکار تھا کہ وہ بالکل پوپلی ہوچکی ہیں۔ سوہم ان کے لیے شمپئین کی بوتل، کرسمس پڈنگ، کیک اور نارنگیاں لے گئے۔ جی! اب تو وہ روسٹ بھی نہیں کھاسکتی ہیں۔ (جی میں سنجیدہ۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو ممی میں ایلین ہوں) ڈیڈ ان کے لیے اسکارف، دلچسپ میگزین اور موزے لے گئے تھے۔ پر ممی۔۔۔ گرینی نے تو ہم کو شناخت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ سنجیدہ کیسٹ میں روداد سناتے سناتے روپڑی ہے اور اس لیے اب میں کیسٹ بند کرتا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ ملاقات بھی عجب دردناک ہی رہی کہ پہلے تو وہ بت کی بت بیٹھی ترش نگاہوں سے بچوں کو خاموش اور مؤدب بیٹھے رہنے کے اشارے کرتی رہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مجھے ڈاکٹر صاحب سمجھ رہی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سنتھیا سخت بیمار ہے اور وہ اس کی تیمارداری میں مصروف ہیں۔ بڑی تفصیل سے اس کی تمام تکالیف بیان کرتی رہیں۔
پھر اچانک رونے لگیں اور دوزانو بیٹھ کر حمد گاتی اور آسمانی باپ سے سنتھیا کی صحت یابی کی دعا کرتی رہیں، البتہ کنکھیوں سے گلاب کی کلیوں کو دیکھ کر مسکرائی بھی تھیں۔
اور یہ بھی ایک تعجب خیز امر تھا (میرے لیے) کہ وہ تو ہمیشہ یہ اعلان کرتی رہی تھیں میں مذہب کو مانتی نہیں اور خدا با لکل مشکوک ہے۔ میرا مذہب انسانیت ہے اور اب کیسی حمدیں گارہی ہیں (شاید انسانیت پر سے ان کا یقین اٹھ چکا ہے۔)
سنتھیا! کیا تم واقعی بیمار ہو! مجھے وہم سا ہو رہا ہے۔ ماں کا دل ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ میں ممی کے بارے میں یہ انکشافات کیسے کروں۔ تم نے تو مدت سے ان کو دیکھا ہی نہیں لیکن ہم ان کے ساتھ بہت سا اچھا وقت گزار چکے ہیں۔ اور میں نے ہی ان کے تمام کاغذات مرتب کیے تھے۔ اور جب وہ اولڈ ہاؤس میں منتقل ہوئی تھیں، ہم نے شاندار رخصتی تقریب کی تھی۔ ان کے سب دوستوں کو بلایا تھا (بقول تمہارے سنتھیا کہ ہم لوگ تقریبیں بہت مناتے ہیں اور پھر ایٹمی پلانٹوں کے لیے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں) وہ کرسمس تو ا یسے آئے کہ ہم جان کر ان کو دو دن پہلے ہی گھر لے آئے اور انہوں نے وہ دونوں کرسمس بڑے اہتمام سے منائے۔ کرسمس ٹری، کیک، پڈنگ، ٹرکی روسٹ مڈنائٹ ماس، کرسمس کبرل، آتشدان کی بھوبل میں بھنے ہوئے سیب اور اخروٹ۔۔۔ غرض یہ کہ پورا جشن۔۔۔ تاہم دوسرے کرسمس پر میں نے نوٹ کیا تھا کہ ان کے ہاتھوں میں خفیف سا رعشہ تھا۔۔۔ اور رہ رہ کر آنکھوں میں نمی سی چمکتی تھی۔
سنتھیا! تم اس کرسمس پر بھی حسب دستور غیر حاضر تھیں، تاہم اس سب کی رپورٹ تصویروں، سلائڈوں اور کیسٹوں کی شکل میں تمہیں ارسال کردی گئی تھی۔
البتہ تیسرے کرسمس کے موقع پر وہ اڑگئیں۔ مجھے ایک بسیط و بلیغ لیکچر د یا۔ اس پوز میں کہ کمر پر دونوں ہاتھ مضبوطی سے جمے ہوئے اور سیدھی کھڑی خطاب کرتی تھیں ٹمٹماتے ہوئے چہرے کے ساتھ۔ تقریر کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے۔
میں ایک آزاد شہری ہوں!اور یہ میرا حق ہے کہ میں جہاں چاہوں کرسمس مناؤں، میں اپنے ساتھیوں کے درمیان کیوں نہ مناؤں۔۔۔ اور تم! تیسری دنیا کے خودغرض لوگ تمہیں تو دوسروں کی ذات کی بیساکھیاں لگاکر خوشیاں خریدنا ہوتی ہیں۔۔۔ تم عورت کو پابند کرتے ہو۔۔۔ اور دوسری طرف ایف سولہ مانگتے ہو۔۔۔ خیر یہ تو ہمیشہ ہی سے واضح تھا کہ خوش دامن صاحبہ آزادیٔ نسواں اور فرد کے حقوق کی زبردست حامی اور وکیل۔ اور اس ضمن میں ساس داماد کے درمیان جھڑپیں بھی رہیں گاہے گاہے، مثلاً جب ان کو اولڈ ہاؤس جانے سے روکا تو وہ تڑ سے بولیں، کیوں! کس واسطے تاکہ تمہارے گھر اور بچوں کی خبرگیری کرتی کرتی مرجاؤں۔ اچھا۔۔۔ یہ بتاؤ۔ میری نگرانی اور دیکھ بھال کس نے کی۔۔۔ بس یوں ہی پل گئی تھی۔ بارہ سال کی عمر سے میں نے اپنی ذمہ داری خود اٹھائی اور سنتھیا بھی ہمیشہ خود مختار رہی۔ اور اب میں بیٹھ کر تمہاری ہاؤس کیپری کروں!نو! نو IMPOSSIBLE یو آر ریئلی مین۔
اس سے اگلے کرسمس پر ایک حادثہ ہوگیا۔ ان کے ساتھ والے کمرے والی بڑی بی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ ان کے دوسرے پڑوسی نارمل اور خوش باش اپنے اعزا اور اقارب سے مل رہے تھے۔۔۔ اور وہ تھیں کہ باقاعدہ ماتمی لباس زیب تن کیے، موم بتی کی روشنی میں بیٹھی بائبل کی تلاوت کر رہی تھیں، بدقت اٹھ کر آئیں۔۔۔ ہونٹوں پر انگلی رکھے۔۔۔ بات کرنے کی قطعی اجازت نہیں تھی، مگر خود گفتگو جاری تھی۔
’’اس کی روح تنہا محسوس کرے گی۔‘‘ (روح جب زندہ تھی تو اس سے لڑتی رہتی تھیں)
مگر گرینی یہاں اتنے لوگ ہیں۔ وہ تنہا تو نہ رہے گی۔ ہیں! مگر سب خودغرض اپنے اپنے خول میں بند۔ اپنی ذاتوں کے خول میں۔۔۔ نہیں! نہیں میں نہیں جاسکتی۔۔۔ وہ بن کہے مجھ پر یہ فرض عاید کر گئی ہے۔
باہر نکل کر عروج نے کنپٹی پر انگلی رکھ کر گھمائی۔۔۔ اب اسکرو بالکل ڈھیلا ہوچکا ہے۔
اگلے کرسمس پر بچے سنتھیا کے پاس انڈیانا چلے گئے۔ میں نہ گیا۔۔۔ کرتا بھی کیا جاکر مگر بچوں کی واپسی کے ساتھ سنتھیا کا پیغام آیا موم سے جاکر ضرور ملو۔ وہ خواب میں مجھے برابر نظر آتی ہیں۔ میں کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ اتنی جلدی ٹوٹ اور جھک جائیں گی۔ اس مرتبہ تو انہوں نے بچوں کے علاوہ مجھے بھی حیران کردیا تھا۔
واپسی پر عروج نے عجیب بات کہی۔ وہ اتنی جھک گئی ہیں! اور جب وہ شیلف پر بائبل رکھنے گئی تھیں تو میں ڈر ہی گیا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ تو بالکل بڑی سی مکڑی نظر آرہی تھیں۔
عروج! ایسی باتیں نہیں کرتے۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’مگر۔۔۔ مگر میں نے خود دیکھا ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی وہ تک بندیاں کرنے لگا۔ POEM بن گئی ہے۔۔۔ ایلین ذراسنو تو۔
ایک تنہا مکڑی
سیاہ لباس اور بالکل تنہا
بوڑھی ناتواں
مکڑی
اتنی ناتواں کہ
اب وہ ایک جالا بھی نہیں تن سکتی
اب وہ اپنا گھر کبھی نہیں بناسکے گی۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب وہ
گھر کا راستہ بھی بھول چکی ہے۔
’’یہ لڑکا کتنا سنگ دل یا حقیقت پسند ہے۔‘‘ مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔
سنجیدہ چپ تھی۔
گھر آکر میں نے مدت بعد قرآن اٹھاکر کھولا۔
’’ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک طرح کا گھر بناتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ سب سے کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش یہ اس بات کو جانتے۔ مکڑی کے گھر کا تانا بانا کب سے ٹوٹ رہا ہے۔ (سورۂ عنکبوت)‘‘
قرآن کو میں نے گردانا، آنکھوں سے لگایا اور رکھ دیا۔ تمام شہر کے گرجوں میں ایک ساتھ گھنٹے بج اٹھے۔ میں تنہا بیٹھا سوچتا ہوں۔ امن اور سلامتی کا شہزادہ (اور اب اس کے بارے میں بھی روایات تیزی سے بدلی جارہی ہیں) ٹھیک اسی وقت پیدا ہوا اور یہ ایک فیصلے کی گھڑی تھی۔ میرے لیے بھی یہ گھڑی فیصلہ کن تھی۔
کوٹھی کا گیٹ جابجا سے شکستہ ہو رہا ہے۔ ہم بلا اطلاع ہی آگئے ہیں۔ باغ کی دیوار خستہ اور کائی زدہ نظر آرہی ہے۔ احاطے اور باغ کی گھاس نہ جانے کب سے نہیں چھیلی گئی ہے۔ اب اس کے منہ میں ایک دانت بھی نہیں رہا اور سر پر دھنکی ہوئی روئی کا۔۔۔
یہ ہمارا بوڑھا خانساماں ہے۔
اس کی مارے خوشی کے گھگی سی بندھ گئی ہے۔
’’ارے! ارے! دیکھو! ڈڈا اس پاگل سے بڈھے کے گلے چمٹ کر رو دیے ہیں۔‘‘
’’علی حسین! اماں جان گھر ہی پر ہیں نا۔‘‘
چلونا۔۔۔ اندر ہی تو ہیں۔ اس نے سوٹ کیس کھینچنا شروع کردیا۔
’’ککومیاں کا سن کر آئے ہونا۔‘‘
علی حسین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
میت تو اس کی تھی پر بیگم نے لکھ دیا۔ اس نے جس مٹی پر جن کے درمیان شہادت پائی ہے، حشر کے دن اسی مٹی سے اٹھنے دو اسے۔ ان ہی کے درمیان انہی کے ساتھ سوگیا ہے۔ اب اس کو نہ جگاؤ۔ وہ کئی دن تک ذرا ذرا دیر پر آپ ہی آپ بولتی رہی تھیں۔
ککو۔۔۔ ککو۔۔۔ ہائیں۔۔۔ تم ایسے تھے۔۔۔ اور میں۔۔۔ میں۔۔۔ ایسا۔۔۔
میرے قدم اٹھنا بھول گئے۔
اور مامی۔۔۔ وہ بچوں سے مخاطب تھا۔ ویئر از ممی۔
WHERE IS MUMMY?
بچوں نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔
تو یہ میرا اپنا گھر ہے۔۔۔ بوسیدہ بدرنگ۔ فرنیچر، ہر شے پر خستگی اور افسردگی۔۔۔ تو ککو۔۔۔ تم ایسے تھے اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔۔۔ کون دیتا۔ وہ ماں تو اس کو زندوں میں شمار کرتی ہوگی۔ وہ جو نماز کی چوکی پر دستِ دُعا اٹھائے بیٹھی تھی۔ چہرے پر صبر جمیل کی خنک تحریر لیے۔ میں نے چمٹ چمٹ کر ان کو پیار کیے۔۔۔ مگر وہ بے حس سی بیٹھی مجھے تکتی تھیں۔ پھر ایک دم بول پڑیں۔ تمہیں پتہ ہے نا، ککو میرا صابرہ میں تھا۔ ہائی آن بتیوں کے درمیان۔۔۔ احمد سچ کہیو اس وقت میں بیروت کا موسم کیسا رہا ہوگا۔ جب انہوں نے پانی کی سپلائی کاٹ دی تھی۔ کیا اس وقت میں پیاسے سوکھے گلے بہت تڑختے ہوں گے۔۔۔‘‘ ان کی آنکھیں بالکل خشک تھیں۔
کھانے کے بعد بچوں کو خواب گاہ میں سونے کے لیے بھیج کر میں چپ چاپ ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھا رہا تھا۔ عروج شب خوابی کے لباس میں باہر آگیا بیزار سا۔ وہ۔۔۔ وہ بہت رو رہی ہے۔ ایلین۔۔۔ میرا مطلب ہے سنجیدہ۔۔۔ ہمیں ڈر لگ رہا ہے۔ وہاں بہت مکڑیاں اور جالے ہیں۔
روز روز کے تبادلوں سے تنگ آکر اباجان نے ان کے لیے یہ گھر بنادیا۔ پھر خود چل دیے، مگر وہ بڑے حوصلے اور گہماگہمی سے ملازمت کے ساتھ ساتھ ہمارے سارے فرائض ادا کرتی رہیں۔ اور۔۔۔ اور اب اس اتنے بڑے ڈھنڈھار گھر میں دستِ دُعا اٹھائے بیٹھی ہیں۔۔۔ اور مکڑی کے جالے اتروانا بھی بھول چکی ہیں۔
میں اٹھ کر عروج کے ساتھ کمرے میں جاکر سوگیا۔
اگلا دن
ایک بانس کے سرے پر بہت سا گودڑ بندھوائے جمعدار کے لڑکے کو ساتھ لیے گھر بھر کے جالے صاف کرواتی پھر رہی ہیں۔
لان کی گھاس کٹوارہی ہیں۔
کچن میں کھڑی علی حسین کو بچوں کے ناشتے کے بارے میں ہدایات دے رہی ہیں۔ علی حسین بھی مستعد اور مصروف ہوکر بڑے پراعتماد نظر آرہے ہیں۔ گھر میں ایک رونق اور گہماگہمی کااکھوا سا جیسے پھوٹ رہا ہے۔ سر اٹھا رہا ہے۔ اور عروج چپکے چپکے سنجیدہ سے کہہ رہا ہے۔ شکر ہے یہ اولڈ ہاؤس نہیں گئیں۔۔۔ ورنہ یہاں ہماری دیکھ بھال کون کرتا۔ اور میں سوچ رہا ہوں سنتھیا، وہ گھر جو میں نے اور تم نے بنایا مکڑی کے جالے کی طرح بودا ثابت ہوا۔۔۔ اور اس کا ایک ہی تار باقی ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔
اور وہ ہے تمہاری یاد۔
سنتھیا میں نے تم سے محبت کی تھی۔۔۔ اور کرتا رہوں گا۔ تم میرے حافظے کی عمارت میں ایک تارعنکبوت بن کر ہمیشہ لٹکتی رہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.