تعویذ
کہانی کی کہانی
’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو خود کو کسی راجہ صاحب کا آدمی بتاکر ایک ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک بچی بھی ہوتی ہے۔ مگر اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ اپنے خرچ کے لیے بھی وہ ہوٹل کے مالک سے کسی نہ کسی بہانے سے پیسے مانگتا رہتا ہے۔ آخر میں وہ اسے ایک تعویذ دے کر ہوٹل سے چلا جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد جب وہ اس تعویذ کو کھول کر دیکھتا ہے تو اس کی ساری حقیقت اس کے سامنے کھل جاتی ہے۔‘‘
’’چار نمبر صاحب دو روپے مانگتے ہیں۔‘‘
بیرے کا مطلب یہ تھا کہ جو صاحب کمرہ نمبر 4 میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ دو روپے طلب کرتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوا اور غصہ بھی آیا کہ یہ شگوفہ کیسا؟ جو مسافر ہوٹل میں قیام پذیر ہو اس سے ہم روپیہ وصول کرنے کے عوض الٹا اسی کو اپنی گرہ سے روپے ادا کریں۔
میں نے بوٹوں کے تسمے کستے ہوئے پوچھا ’’کیوں؟‘‘
’’وہ تار دینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ہم کا جانی۔۔۔ حجور‘‘
بیرے کے اس جواب سے جھنجلاہٹ تو ہوئی۔ لیکن اس سے زیادہ بات چیت کرنی فضول تھی۔
’’اچھا تو تم جاکر کہو کہ خود مالک آ رہے ہیں۔‘‘
کچھ تو کام مندا ہو رہا تھا اور کچھ اس قسم کے مسافر پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔ لیکن ہوٹل کا بزنس ایسا کہ ہر قسم کے انسان سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔
نیچے پہنچ کر میں نے ملازم سے کہا کہ چار نمبر صاحب کو دفتر میں ہی بلا لاؤ۔ میں نے منیجر کی جانب متوجہ ہو کر پوچھا۔
’’یہ کس قسم کا مسافر ہے؟‘‘
منیجر نے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا ’’مسلمان ہے۔‘‘
منیجر کا لب و لہجہ عجیب تھا۔ اس کا جواب بھی خلاف امید تھا۔ قدرے تامل کے بعد میں نے کہنا شروع کیا ’’اجی بڑا رعب گانٹھتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں بہت پرانا آدمی ہوں۔ بڑی نکتہ چینی کرتا ہے اور اپنے آپ کو کسی راجہ صاحب کا مصاحب بتاتا ہے۔‘‘
مالک نے اس کی ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ کیونکہ ہوٹل میں اکثر ایسے لوگ بہت آیا کرتے تھے مجھے ان سے نبٹنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
اسی اثنا میں حضرت موصوف آ گئے۔ ان کی صورت خلاف امید بالکل فدوی قسم کی دکھائی دی۔ پچاس کے قریب سن۔ ناٹا قد، داڑھی مونچھ غائب۔ یہاں تک کہ ابرو کا بھی صفایا کر ڈالا۔۔۔ اور ان پر یورپین لیڈیز کے مانند آئی برو پنسل سے خطوط کھینچ دیے گئے تھے۔ آنکھوں میں کاجل، پتلیاں رقصاں، بند گلے کا کوٹ، پتلون نما پائجامہ، صورت مضحکہ خیز لیکن تیور سنجیدہ تھے۔
آتے ہی بھرپور آواز میں بولے ’’آداب عرض کرتا ہوں۔‘‘ میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کرسی کی جانب اشارہ کیا ’’تشریف رکھیئے‘‘
آپ نے سر تسلیم خم کیا اور پھر تشریف فرما ہو گئے۔
میں کچھ کہہ نہ پایا تھا کہ وہ بول اٹھے۔
’’بھائیں (یعنی میں۔۔۔) آپ کو پہچانتا ہوں۔ آپ۔۔۔ آپ شاید مجھے نہیں پہچانتے۔ بھائیں اکثر آپ کے یہاں قیام پذیر ہوتا ہوں۔ آپ کے منیجر بھی نئے آئے ہیں۔۔۔ اتفاق کی بات بھائیں جب کبھی آیا تو معلوم ہوا کہ حضور باہر تشریف لے گئے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں بعض اوقات میں باہر بھی چلا جایا کرتا ہوں۔‘‘
’’زہے نصیب آج آپ کی زیارت حاصل ہو گئی۔ میرا نام شاہا ہے۔‘‘
شاہا۔۔۔ عجیب نام تھا شاید اس کے بتانے میں غلطی ہوئی ہے کچھ۔ ’’آپ کا نام شاہ ہے۔‘‘
’’جی نہیں شاہ نہیں۔ شاہا۔ شاہ اور ہا۔۔۔ شاہا۔‘‘
’’اچھا تو شاہا صاحب آپ نے مجھے یاد فرمایا تھا۔‘‘
’’جی جی جی۔۔۔ میں پانگرے سرکار کے حکم سے لکھنؤ گیا تھا وہاں سے یہاں آیا ہوں۔ حضور پانگرے سرکار کو ایک باورچی۔‘‘
’’یہ پانگرے صاحب کون ہیں؟‘‘
’’آپ پانگرے سرکار کو نہیں جانتے؟ نہیں آپ ضرور جانتے ہوں گے۔ پانگرے سرکار وہی جون پور ریاست کے راجا۔ اب تو دیسی راج میں ان کی ریاست بھی ختم ہو گئی۔ ورنہ انگریز بہادر کے راج میں دُھر ولایت تک ان کی دھوم تھی۔ اب بھی ان کی شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اب انہوں نے کئی قسم کے کارخانے اور ملیں جاری کر دی ہیں جن کے ذریعے سے انھیں لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے ہر ماہ۔ ہیں تو ہندو لیکن تعصب چھو کر نہیں گیا سنہ 1947 میں اتنے فسادات ہوئے لیکن ہم ہمیشہ سرکار کے ساتھ رہے۔ کیا مجال جو کسی کا بال بھی بیکا ہوا ہو۔ سچ مچ سرکار صحیح معنی میں گریٹ ہیں۔‘‘
یوپی میں ہر چھوٹا بڑا زمیندار راجہ کہلاتا تھا۔ اس لیے مجھے ان سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے مطلب کی بات دریافت کی ’’اچھا تو آپ۔۔۔‘‘
’’جی میں سرکار کا مصاحب ہوں۔‘‘
اس پر میں نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ اس کا لب و لہجہ کسی حد تک شستہ ضرور تھا لیکن شخصیت ایسی نہیں تھی کہ اس پر یقین کیا جا سکے۔۔۔ یا پھر ان کی صورت سے راجہ صاحب کی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
’’ہاں تو بھائیں عرض کر رہا تھا کہ مائیں ان مصاحبین میں سے ہوں۔۔۔‘‘
’’آپ کا کام کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’یہی سرکار کا دل بہلانا۔ چٹکلے سنانا، انھیں خوش رکھنا۔۔۔ جی تو سرکار کا مطلوبہ باورچی مجھے یہاں مل گیا تھا۔ بھائیں نے روپے کے لیے اسی ہوٹل کا پتہ لکھا تھا۔ لیکن روپیہ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ اگر دو روپے عنایت کیجیے تو ایک تار روانہ کردوں۔‘‘
اس قسم کے مسافر ہمیشہ مشکوک ہوا کرتے ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا تو انہوں نے فوراً کہا ’’بھائیں تار کا مضمون لکھے دیتا ہوں آپ ملازم کو بھیج کر تار دلوا دیں بس مجھے روپے کی ضرورت نہیں ہے۔ پانگرے سرکار تار دیکھتے ہی روپیہ بھجوا دیں گے۔‘‘
اس کے اس بیان سے سچائی کی بو آئی۔ میں نے سوچا دو روپے کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اتنا سا اعتبار کر لینے میں کیا حرج ہے۔
ملازم کے جانے کے بعد شاہا صاحب نے گفتگو جاری رکھی۔
سردار صاحب‘ آپ کو دیکھ کر مجھے ایک اور سردار صاحب یاد آ رہے ہیں۔۔۔
میں چپ رہا لیکن شاہا صاحب جاری رہے۔
’’وہ پانگرے سرکار کے دوست ہیں وہ بھی کسی سکھ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ ہی کا سا ڈیل ڈول۔ یہ بھرپور اور با رعب چہرہ مضبوط جسم۔ آپ ہی کے ہم عمر۔ کیوں صاحب آپ کی عمر دریافت کر سکتا ہوں؟‘‘
میں نے خشک لہجے میں جواب دیا ’’یہی پچاس سال کے لگ بھگ۔‘‘
’’تعجب! تعجب! حالانکہ آپ کی اتنی عمر ظاہر نہیں ہوتی۔‘‘
’’اٹھائیس برس کا تو میرا لڑکا ہے۔‘‘
’’اچھا تو چھوٹے حضور کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’وہ ملٹری میں ہے اس سے چھوٹا جہاز رانی سیکھ رہا ہے اور اس سے بھی چھوٹا ابھی پڑھتا ہے۔‘‘
’’خوب خوب۔ اللہ نے صاحب زادیاں کتنی عطا فرمائی ہیں؟‘‘
’’اس باب میں سخت بد نصیب واقع ہوا ہوں۔ ایک لڑکی تھی۔ وہ بھی بچپن میں مر گئی۔‘‘
’’اللہ کی دین ہے، اللہ کے کام نیارے ہیں۔۔۔ جن سردار صاحب کا ذکر بھائیں کر رہا ہوں ان کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہوگی۔۔۔ صاحب آپ ان کے ہم عمر دکھائی دیتے ہیں۔ جناب وہ زمین پر کھڑے ہو کر شیر کا شکار کھیلتے ہیں۔ پانگرے حضور ان سے کہا کرتے ہیں ارے سردار صاحب آپ تو خود ہی شیر ہیں۔ ہا ہا ہا ہا۔‘‘
اس کے بعد چار دن گزر گئے۔ پانگرے سرکار نے تار کا جواب تک نہ دیا۔ روپے بھیجنے تو رہے درکنار۔
ایک بار جب کہ میں شاہا کے کمرے کے آگے سے گزرا تو خیال آیا کہ اس سلسلے میں پوچھ گچھ کر لوں۔ میں عموماً مسافروں کے کمروں میں جانے سے احتراز کرتا ہوں۔ لیکن یہ معاملہ ذرا مشکوک تھا۔ دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے میں نے آواز دی۔
’’شاہا صاحب۔‘‘
ادھر شاہا صاحب تہبند لہراتے دکھائی دیے۔ مجھے دیکھتے ہی فرش پر بچھ گئے۔ باچھیں کھل گئیں۔ ’’آئیے آئیے تشریف رکھئے‘‘
ادھر ادھر کی سرسری باتوں کے بعد میں نے کہا ’’آپ کا بل بڑھ رہا ہے۔ تار کا جواب بھی نہیں آیا۔‘‘
’’کچھ مضائقہ نہیں معلوم ہوتا ہے سرکار شکار پر چلے گئے ہیں۔‘‘
اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ وہ بہت دنوں تک نہیں آ سکیں گے۔
’’جی نہیں‘ ایسی بات نہیں ہے، سرکار جنگلوں میں مارے مارے نہیں پھرتے ہیں وہی راجاؤں والا حساب ہے۔ جنگل میں کل انتظامات ہو جانے پر ہی جاتے ہیں اور دو دن دھائیں دھائیں کر کے لوٹ آتے ہیں۔‘‘
یہ گویا اشارہ اس امر کی طرف بھی تھا کہ میں شاہا نہیں ہوں۔ سچ مچ اس کا بات چیت کا انداز بڑا دلکش تھا۔۔۔ آنکھوں اور نقلی بھوؤں سے کام لینا وہ خوب جانتے تھے ہنستے تو مضبوط پیلے دانت اور بد صورت مسوڑھے دکھائی دینے لگتے۔ اس وقت میرا دھیان ان کی باتوں کی جانب نہیں تھا۔ بلکہ اب میں ان کی کرسی کے پاس بچھے ہوئے پلنگ پر بیٹھی ہوئی ایک لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی عمر بہ مشکل بارہ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ لیکن اس قدر سنجیدہ مانوں کہ ساٹھ برس کی بڑھیا ہو۔ اس کا رنگ ذرا کھلتا ہوا سا سانولا۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور اداسی کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ ہونٹ ترشے ہوئے۔ وہ خوبصورت تو نہیں۔ البتہ پرکشش بچی تھی۔
میرے دریافت کرنے پر شاہا نے سر گھما کر بچی کی جانب دیکھا اور تعارف کرایا کہ یہ میری بچی ہے۔ اٹھو بیٹی سردار صاحب کو سلام عرض کرو۔‘‘
اس پر بچی اٹھ کر مؤدبانہ کھڑی ہو گئی اور اپنا دبلا پتلا ہاتھ پیشانی تک لے جا کر آہستہ لہجہ میں بولی۔ ’’سلام عرض کرتی ہوں۔‘‘
مجھے اس پر بڑا پیار آیا۔ سوچا باپ نے بچی کو اچھی تربیت دی ہے۔ میں نے کمزور شانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے قریب کھینچا اور اس کی پیشانی چوم کر بولا۔ ’’تم تو بڑی اچھی سی بچی ہو۔‘‘ شاہا صاحب مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔
اس پر شاہا نے دعا مانگنے کے انداز میں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے اس کی آنکھوں کی پتلیاں بھی کھٹ سے اوپر کو چڑھ گئیں اور نصف حد تک غائب ہو گئیں۔ پھر اس نے دردناک لہجے میں کہا۔ ’’یا اللہ! یا رسول پاک تیرا ہزار ہزار شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘
شاہا اسی انداز میں بیٹھے کچھ دیر تک آسمان کی جانب تکتے رہے پھر انھوں نے پتلیوں کو جلد جلد جھپکایا جیسے آنسو پی جانے کی کوشش کر رہے ہوں اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کربولے ’’سردار صاحب‘ یہ بچی فرشتہ ہے فرشتہ۔‘‘
میں نے ایک بار پھر بچی کے معصوم چہرے کا جائزہ لیا اور تہ دل سے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’بے شک بےشک۔‘‘
دن گزرتے گئے۔ شاہا کا بل بڑھتا جا رہا تھا۔ میں اکثر ان کی بچی عائشہ سے ملنے جایا کرتا تھا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی تھی۔ میں شاہا سے کہا کرتا تھا ’’کاش مجھے بھی بچی ہوتی۔ شاہا باتوں کے بادشاہ تھے۔ وہ نہ صرف ہاں میں ہاں ملاتے اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتے یہاں تک کہ یہ یاد ہی نہ رہ جاتا کہ اصل بات کہاں سے شروع ہوئی تھی۔
مادہ پرستی کے بڑھتے ہوئے زور پر اظہار تاسف کرتے رہے وہ اکثر کہتے کہ دنیا میں نت نئے جھگڑوں اور دکھوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبیوں کی تعلیمات بھول گئے ہیں۔ کسی کو کیا کہوں۔ خود مسلمان وہ مسلمان نہیں رہے۔ سرور کائنات حضرت محمدﷺ کی سوانح حیات ملاحظہ فرمائیے تو حیران و ششدر رہ جائیے۔ حضور کی زندگی میں سے ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا ہوں حضور کا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد ایک کوچے سے ہوتے ہوئے گھر لوٹ آتے تھے وہاں ایک نہایت بد ظن خاتون رہتی تھی۔ وہ حضور کی تعلیمات کو نعوذ باللہ پسند نہیں کرتی تھی اور اس کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ آنحضرت ادھر سے گذرتے تو وہ خبیثہ مکان کی کھڑکی میں سے کوڑے کا بھرا ہوا ٹوکرا حضور پر دے مارتی۔ مصاحبین مارے غضب کے کانپنے لگے۔ لیکن آنحضرت ان کو نہ روکتے اور کمال ضبط سے کام لے کر اپنے لبادے اور ریش شریف کو کوڑے کرکٹ سے پاک کرتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ ان پر کوڑے کا ٹوکرا نہیں پھینکا گیا۔ آنحضرت کے قدم رک گئے اور انھوں نے مصاحبین میں سے ایک کو اشارہ کیا کہ معلوم کرو۔ ’آج خاتون موصوف نے عنایت کیوں نہیں کی؟ مصاحب خبر لایا کہ آج اس خاتون کا انتقال ہو گیا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر شاہا نے پر آب آنکھوں سے میری جانب دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’آپ کو معلوم ہے اس پر آنحضرت نے کیا کہا۔۔۔؟ آنحضرت بنفس نفیس تعزیت کے لیے مکان پر چڑھ گئے۔‘‘
اس کے بعد شاہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
خود میری آنکھیں بھی پرنم ہو گئیں۔
کیا آج کل کی دنیا میں کریکٹر کی ایسی اعلیٰ مثال ڈھونڈنے سے بھی مل سکتی ہے۔
عائشہ کی موجودگی اور شاہا سے اس قسم کی باتوں کا نتیجہ تھا کہ میں نے بل کی ادائیگی کے لیے سختی سے تقاضا نہیں کیا۔ یوں بھی مجھ سے آنکھیں چار ہوتے ہی شاہا محجوب ہوکر اظہار تاسف کرنے لگتا۔ نہ جانے سرکار خاموش کیوں ہیں سرکار نے پہلے تو کبھی ایسا نہیں کیا ممکن ہے سرکار طویل دورے پر چلے گئے ہوں۔ سردار صاحب! سرکار نے بڑا اعلیٰ دماغ پایا ہے۔ انھوں نے پہلے ہی سے بھانپ لیا تھا کہ حکومت ہند ریاستوں کو ختم کر دےگی۔ چنانچہ انھوں نے ایسے ایسے کاروبار شروع کر دیے کہ ماہانہ لاکھوں کی آمدنی پیدا کر رہے ہیں۔‘‘
غرض اس طرح گیارہ دن بیت گئے۔
ایک روز دوپہر کے وقت میں ان کے کمرے کے آگے سے گزرا تو ان کا دروازہ نیم وا پایا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے دستک دی۔ شاہا صاحب ہیں کیا؟
قدرے سکوت کے بعد عائشہ کی شیریں آواز سنائی دی۔ باہر گئے ہیں۔‘‘
میں نے اندر جھانک کر دیکھا کہ عائشہ زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر دو زانوں بیٹھی ہے۔ میں نے تعجب سے دریافت کیا۔
’’کیا تم نماز بھی پڑھ لیتی ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ اس نے شرما کر جواب دیا۔ ابا نے سکھائی ہی نہیں۔ لیکن میں دو زانو ہو کر خدا سے دعا مانگ لیا کرتی ہوں۔‘‘
میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے عائشہ کو اپنے قریب بلایا اور پیار سے پوچھا۔ ’’اچھا تو تمھیں نماز پڑھنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ اس کی آواز بے حد شیریں اور لب و لہجہ بہت پیارا تھا۔ میں نے اس کے بالوں کو پیشانی سے ہٹاتے ہوئے اس کے ٹھنڈے رخسار کو چوم لیا اور کہا۔ ’’عائشہ تم ہماری بیٹی بن جاؤ۔‘‘
’’بہتر۔‘‘
مجھے اس کا لفظ ’’بہتر‘‘ کہنے کا انداز بہت بھلا معلوم ہوا۔ پھر ہم تمھیں نمازپڑھنے کا طریقہ سکھانے کے لیے کسی اچھے مولوی صاحب کو بلا دیں گے۔‘‘
’’بہتر۔‘‘
’’بھئی یوں نہیں، ہمارا دل خوش کرنے کی باتیں نہ کرو۔ سچ کہو، ہماری بیٹی ہو نا تم؟‘‘
’’جی بالکل‘‘ اس نے قطعاً اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
اسی شام شاہا صاحب مجھے الگ ایک گوشے میں لے گئے اور بولے ’’میں بے حد شرمندہ ہوں، نہ جانے اب تک روپئے کیوں نہیں آئے۔ زیادہ عرصے تک یہاں رہنا میرے لیے دوبھر ہو رہا ہے۔ ایک تجویز عرض کروں؟‘‘
یہ کہہ کر شاہا نے پر خلوص انداز سے میری جانب دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ اب یہ چڑیا پُھر سے اڑنا چاہتی ہے۔ شاہا صاحب بولے۔
’’آپ اجازت دیں تو میں لوٹ جاؤں۔ وہاں پہنچتے ہی آپ کے روپے بھجوا دوں گا۔‘‘
میں سوچ میں ڈوب گیا۔ ایسے نازک موقع پر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ قانون کا سہارا لینا بےکار تھا۔ نہ شاہا صاحب کے پاس قیمتی سامان ہی تھا۔ وہ پھر بولے۔
’’سردار صاحب، ایک زحمت دینا چاہتا ہوں ریلوے کا کرایہ ادا کرنا ہوگا آپ کو۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے ایک بار پھر کمال خلوص سے مجھ سے نظریں ملائیں۔
’’بھائیں درحقیقت بہت شرمندہ ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ میرا اعتبار کر سکتے ہیں۔‘‘
تجربہ یہی کہتا ہے کہ ایسے موقع پر ایک دمڑی تک وصول نہیں ہو سکتی۔ ننانوے فی صدی یقین تھا کہ اب یہ روپے مجھے نہیں مل سکیں گے لیکن بزنس جوا ہی تو ہے۔
’’سردار صاحب! میری ننھی بچی کا ہی خیال کیجیے۔‘‘
میں رضا مند ہوگیا۔
اس پر شاہا نے جیب میں سے سلولائیڈکی بنی ہوئی پیلے رنگ کی ایک ڈبیا نکالی اور پھر میری جانب پر آب آنکھوں سے دیکھ کر آگے بڑھایا۔ ’’یہ لیجیے درویش کی نشانی اس میں ایک تعویذ ہے، اسے سنبھال کر رکھیے۔ اللہ بہت دےگا۔‘‘
یہ سن کر میں بدکا۔ سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ محض درویش کی نشانی۔ میرے پاس رہ جائے اور درویش کا کچھ پتہ ہی نہ چلے۔ چنانچہ میں نے ڈبیا کی طرف سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ دیکھیے شاہا صاحب! بزنس بزنس ہے، تعویذ رہنے دیجیے میں بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ جاتے ہی میرا روپیہ مجھ کو روانہ کر دیجیےگا۔‘‘
’’انشاء اللہ! انشاء اللہ! آپ کا روپیہ فوراً روانہ کر دینا تو میرا فرض ہے اور آپ دیکھیےگا کہ میں اپنا فرض کس طرح پورا کرتا ہوں۔ رہا یہ تعویذ تو اسے محض درویش کی نشانی سمجھ کر قبول فرما لیجیے۔ آپ اس کی تاثیر دیکھ کر حیران رہ جائیےگا۔‘‘
میں اس فضول حرکت پر ہچکچا رہا تھا۔ لیکن شاہا نے بصد اصرار ڈبیا میرے ہاتھ میں تھما دی۔
اس رات شاہا صاحب نے مجھ سے بیس روپے نقد لیے اور بل چکانے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ دن گزرتے گئے شاہا صاحب نے کوئی خبر نہیں بھیجی اور نہ روپیہ بھیجا۔ میرا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ شاہا صاحب تو گئے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
البتہ ایک بات بہت عجیب معلوم ہوئی وہ یہ کہ جب سے وہ تعویذ میرے قبضے میں آیا تھا آمدنی سچ مچ بڑھ گئی تھی۔ دکانداری چمک اٹھی تھی۔ میری بیوی کہتی تھی کہ یہ اسی تعویذ کی برکت ہے۔
لیکن میں اسے محض اتفاقی امر سمجھتا تھا۔ بھلا شاہا جیسے آدمی میں کوئی کرامات کہاں سے آ سکتی تھی۔
شاہا کے دیے ہوئے پتے پر چند خطوط لکھے گئے جواب ندارد کا معاملہ تھا سوچا قانونی چارہ جوئی کی جائے اس سے روپیہ بھلے ہی نہ ملے شاہا صاحب کو پریشانی تو ہوگی۔
وکیل سے مشورہ لینے سے پہلے میں بیوی کے پاس گیا۔
بیوی نے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھتے کیا ہیں اس میں آیت لکھی ہوگی کوئی۔‘‘
میں نے کچھ کہے بغیر کاغذ کھولا یہاں تک کہ فل اسکیپ کا پورا کاغذ میرے سامنے تھا جن کے بیچوں بیچ خوب موٹے حرفوں میں لکھا تھا کہئے کیسا بنایا۔ آپ کا شاہا۔
یہ بات میری امید کے مطابق ہی تھی۔ تب میں بیوی کے بھولے پن اور تعویذ کی اصلیت پر ایک زوردار قہقہہ لگانے ہی والا تھا کہ کاغذ کے ایک کونے میں کچھ
بہت ہی چھوٹے چھوٹے اور ٹیڑھے میڑھے حرف دکھائی دیے لکھا تھا۔
’’میں اپنے خدا سے ہر روز آپ کے سکھ کے لیے دعا مانگا کروں گی۔‘‘
اور یکایک میرا قہقہہ حلق میں پھنس کر رہ گیا۔ مقدمہ چلانے کا خیال چھوڑ کر میں نے تعویذ بیوی کی طرف بڑھایا تو اس نے پوچھا کیا آیت ہی لکھی ہے نا بے شک! میں نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.