Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تکمیل

MORE BYسلطان جمیل نسیم

    الطاف۔۔۔ چھوٹی چھوٹی اور مڑی تڑی پرچیوں کی بند مٹھیاں کھول کر ان میں سمٹی ہوئی سامنے پھیلے ہوئے سادہ کاغذ کی ہتھیلی پر جمع کرتا جا رہا تھا۔ یہ حساب کتاب کرتے اچانک اسے یاد آ گیا کہ کتنے سال اور کتنے مہینے بیت گئے ہیں جو وہ اپنے دوستوں سے نہیں ملا ہے۔ خاص طور سے وہ دوست جو بہت قریب تھے مگر اسی کی بے مروتی کے سبب دور ہو گئے ہیں۔ دوستوں کا دھیان آتے ہی اس کا بےاختیار جی چاہنے لگا کہ وہ ان کو ملے۔ ان کے درمیان بیٹھ کر معمول کے مطابق فضول قسم کی باتیں کرے تاکہ۔۔۔ ہوئی، ایک مدت سے اپنے ہی ماحول میں بند رہنے سے تعلقات پر کائی کی طرح بیگانگی چھا گئی ہے اس میں شگاف پڑے اور جس اکیلے پن نے اندھے کنویں میں رہنے والے جن کی صورت اختیار کر لی ہے اسی وجہ سے دوست تو الگ رہے اس کے رشتہ دار بھی اس کو مغرور یا سنکی سمجھ کر الگ الگ ہی رہے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں مشہور ہوتی ہوئی اس بدگمانی کو دور کر دے۔ سب سے میل ملاقات کرے اور بتا دے کہ کچھ مجبوریاں تھیں جن کی بنا پر وہ اپنی ہی ذات سے بیگانہ و کے رہ گیا تھا۔

    دنوں بعد الطاف کو محسوس ہوا کہ ذہن پر ہمہ وقت چھائی رہنے والی دھندچھٹ رہی ہے۔ اس بوجھل سی کیفیت سے نجات پانے کے خیال ہی سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا تھا۔

    دوستوں سے ملاقات میں اتنے طویل وقفے کی وجہ اس کی مصروفیت تھی اور اس کا سبب اس کی بیوی۔

    الطاف نے والدہ کی منت کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور پھر دھمکیوں کے سامنے سرجھکا کر نکا ح پڑھوا لیا تھا اور شادی کی پہلی ہی رات صاف صاف لفظوں میں بیوی کے سامنے اپنی مالی حالت بیان کر دی تھی اور بیوی کو بتا دیا تھا کہ اگر اسے دنیا میں کسی بات سے شدید نفرت ہے تو وہ قرض ہے۔ وہ بھوکا رہ سکتا ہے اور رہا بھی ہے مگر قرض مانگنے کے لیے اس نے کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا۔ قرض سے نفرت کا سبب بھی بیان کر دیا تھا۔ قرض محبت کی کتر بیونت نہیں کرتا بلکہ قرض خواہ کے چہرے پر ایسی مقراض بن کر بیٹھ جاتا ہے جس کو دیکھ دیکھ کر ادھار لینے والے کا دل کھٹکتا رہتا ہے۔ اس کے والد نے قرض لے کر کاروبار شروع کیا، قرض لے کر مکان بنایا اور جب زندگی کا قرض ادا کرکے وہ پردہ پوش ہو گئے تب۔۔۔قرض خواہوں نے جو رویہ اختیار کیا اس رویے نے انسان کا ایک ایسا روپ دیکھایا کہ وہ ڈر گیا۔ پھر اس نے تمام کاروبار کو ختم کیا۔ ایک چشم فروش کمپنی میں ملازمت کی۔ مکان بیچا۔ پھر بھی قرض کی تھوڑی بہت صورت بعض لوگوں کے چہروں سے ایسے جھانکتی رہی کہ اس کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ تب اس نے رت جگے کیے۔ فاقے کاٹے۔ اپنی تعلیم چھوڑی، کتابیں تک بیچیں۔ اب وہ انسان کو صرف اپنے عزیزوں اور دوستوں کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے الطاف نے شادی کے پہلے ہی روز اپنی بیوی سے محبت کا اور وفاداری کا وعدہ لینے کی بجائے اس بات کا عہد لیا کہ وہ کبھی کسی سے بھی قرض نہیں لےگی۔

    شادی ہوئے تیرہ برس گزر گئے۔ تین بچے بھی ہو گئے۔ بیوی کے ساتھ مختلف معاملات پر تلخ وترش باتیں بھی ہوئیں۔ دوچار دن بول چال بھی بند رہی۔ مگر الطاف کو یہ شکایت کبھی نہ ہوئی کہ بیوی نے آمدنی کم ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہیں سے قرض لے کر اپنی کوئی ضرورت پوری کی ہو۔ اس تیرہ برس کے عرصے میں الطاف کی تنخواہ تین گنا بلکہ چار گنا بڑھ گئی تھی مگر وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ تنخواہ کے ساتھ مہنگائی کا فاصلہ بھی وہی رہا ہے جو اب سے تیرہ برس پہلے تھا بلکہ تنخواہ کو پیچھے چھوڑ کر مہنگائی دس بیس قدم آگے ہی رہی ہے۔

    قرض نہ لینے کی وجہ سے اور لگی بندھی آمدنی میں سگھڑ پن سے گزرا کرنے کے باعث الطاف کو اپنی بیوی ساری تنک مزاجی اور کم عقلی کے باوجود بہت عزیز تھی۔ لیکن ایک دن سارا بھرم کھل گیا۔

    الطاف کی بیوی ایسے بھائیوں کی بہن ہے جن کا وسیع کاروبار ہے۔ متمول لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے جہیز کے نام پر اپنی اکلوتی بہن کو مکان تک دیا ہے۔۔۔تقریبات یا تہواروں پر اب بھی اس کے بیوی بچوں کو اچھی خاصی رقم دے دی تھی۔ الطاف کو اس کبھی کبھار کے لین دین پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ ہاں شادی کے شروع کے دنوں میں ان لوگوں نے کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ ہی رہے۔ تب الطاف نے انکار کیا تھا پھر انہوں نے کئی بار اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ الطاف اپنی موجودہ ملازمت چھوڑ دے اور ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو جائے۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ قرض دار کی اور احسان مند کی آنکھوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ وہ گردن جھکانے کا قائل نہ تھا تو ایسا ٹھکانا کیسے پسند کر لیتا۔ چنانچہ اس پیشکش کو بھی اس نے قبول نہیں کیا۔

    چند روز پہلے بیٹے نے ضد کی کہ وہ سائیکل لےگا۔ الطاف کو اس کی کفایت شعاری نے بچوں کو بہلانا بھی سکھا دیا تھا سو اس نے چند میٹھی میٹھی باتیں کر کے بیٹے کو میٹھی گولی کھلا دی۔ مگر دوسرے ہی دن گھر میں سائیکل کی گھنٹی بج رہی تھی۔

    ’’ابو میری سائیکل آ گئی‘‘۔ بیٹے کے لہجے سے خوشی چھلک رہی تھی۔

    ’’کہاں سے۔۔۔ ماموں نے دلوائی ہے؟‘‘

    ’’نہیں ۔۔۔ امی لائی ہیں‘‘۔

    ’’تمہاری ماں!‘‘

    ’’جی۔۔۔‘‘

    اب اس نے بیوی سے تصدیق چاہی تو اس نے لحظہ بھر کے لیے آنکھیں جھکا لیں۔ ’’ہاں۔ میں نے گھر کے خرچ میں سے کچھ پیسے بچائے تھے‘‘۔

    الطاف بیوی کے جھجکتے انداز سے سمجھ گیا کہ آج پہلی بار اس سے کوئی بات چھپائی جا رہی ہے، تب اس نے بیوی کو قریب بٹھا کے سچ بات کہنے کی ہمت دلائی۔

    بیوی رونے لگی۔ پھر تیرہ برس کی ساری شکایتیں ایک ایک کر کے اس کی زبان پر آ گئیں۔ بیوی نے اعتراف کرلیا کہ ایک مرتبہ اپنے بھائیوں سے الطاف کی کم تنخواہ کا گلہ کیا تھا تب سے ہر مہینے وہ اتنی رقم دے جاتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کبھی تنگ نہیں ہوتا۔

    الطاف کے لیے یہ اطلاع تکلیف دہ حد تک چونکا دینے والی تھی۔ وہ جس بیوی کے توکل پر مان کرتا تھا اور اپنے دفتری ساتھیوں کے درمیان بیٹھ کر فخریہ انداز میں جس کی تعریف کرتا رہتا تھا وہ اپنے ہی بھائیوں کے سامنے ہاتھ پھیلاکر اس کی تذلیل کا باعث بنےگی۔ اس بات کا تو الطاف کو گمان بھی نہیں تھا۔ بیوی کے شکوے کو اس نے اپنی ہتک جانا۔ تقریبات کے بہانے جو تحفے تحائف دئیے جاتے تھے وہ ان کے حق میں بھی نہیں تھا۔ اس کھلی زیادتی کو کیسے قبول کر لیتا۔ الطاف کا سر گھومنے لگا اس کو اپنا اصول ہی نہیں بلکہ اپنا وجود بھی تڑختا ہوا محسوس ہوا۔ وہ کمرہ بند کرکے بیٹھ گیا۔ اس ماہانہ امداد کو وہ کیا سمجھے بھیک یا قرض۔ بھیک سمجھ کر وہ خود اپنی تحقیر کرنی نہیں چاہتا تھا۔ جتنا سوچتا اسے اپنی بیوی پر اتنا ہی غصہ آتا۔ اس شدید جذباتی ہیجان کے عالم میں بھی اس نے دو راستوں کے متعلق سوچا۔ ایک یہ کہ بیوی کو اس کے بھائیوں کے پاس چلتا کر دے پھر زندگی بھر اس کی صورت نہ دیکھے۔ دوسرا یہ کہ اس امداد کو قرض تصور کرلے اور جتنی جلدی بھی ممکن ہو سکے وہ یہ قرض ادا کردے۔ محض بچوں کا خیال کرتے ہوئے اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

    اس نے بیوی سے کہا۔

    ’’میں بہت صبر اور ضبط کا آدمی ہوں۔ میرے ساتھ اتنے عرصے رہ کر تم نے بھی اندازہ لگا لیا ہوگا۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ میری اس خوبی کو میرے بعض دوست یا رشتہ دار ذہنی بیماری سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے بہت زیادہ دکھ اس بات سے ہوا ہے کہ تم نے بھی میرے بارے میں ایسی ہی رائے قائم کرکے میرے اصولوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ حالانکہ میں اپنے بچوں کو اپنے اصولوں کی حد میں رکھ کر اس ذہنی اذیت سے بچانا چاہتا ہوں جس سے میں خود گزرا ہوں۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب تم سے صرف یہی چاہتا ہوں کہ تم نے اب تک جتنی رقم میرے علم میں لائے بغیر اپنے بھائیوں سے مانگی ہے مجھے اس کا حساب دے دو‘‘۔ جب اس کا شمار کیا گیا تو وہ لاکھوں تک پہنچی۔ موجودہ آمدنی میں سے اس کی ادائیگی ممکن ہی نہیں۔ اس نے اپنے بچوں کو بھی بلا کر سامنے بٹھا لیا۔

    دیکھو بھئی۔ ذرا غور سے میری بات سننا۔ اگر تم کو اپنی خواہشیں زیادہ عزیز ہیں تو پھر میں تمہارے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں اور اگر تمہیں اپنا باپ عزیز ہے تو پھر اس کے کہنے کے مطابق چلو۔ یاد رکھو خواہشیں پوری ہونے کے بعد اپنی کشش کھو بیٹھتی ہیں اور باپ مفلس ہونے کے باوجود، مرنے کے بعد بھی بہت یاد آتا ہے۔ تمہاری ماں نے جو قرض لیا ہے وہ میں اتارنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے تمہارا تعاون چاہیے‘‘

    کسی کی سمجھ میں کچھ بات آئی۔ کچھ نہیں آئی۔ لیکن وہ باپ کی موت بہرحال نہیں چاہتے تھے، اس لیے متفق ہو گئے کہ وہ اس کے کہنے پر چلیں گے۔

    الطاف نے پھر کہا۔

    تمہارے پاس جو کچھ ہے میں وہ چھیننا نہیں چاہتا۔ صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جب تک میں قرض ادا نہ کردوں۔۔۔ مجھ سے ایسی فرمائش نہ کرنا جو میں پوری نہ کر سکوں‘‘۔

    اس کے بعد الطاف نے خود کو محنت کے لیے وقف کر دیا۔ دفتر میں اوور ٹائم، اخبار میں کالم، پھر دو چار ٹیوشن۔۔۔ اب وہ سورج نکلنے سے پہلے کام میں مصروف ہوتا اور رات گئے لوٹتا۔ اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہا۔ سونے جاگنے میں فرق آ گیا۔ اس نے سوچا کہ زندگی کے چند سال اس محنت میں بے شک کھپ جائیں لیکن بقیہ عمر قرض کے احساس تلے دب کر نہ گزرے۔ الطاف کو اتنی محنت کرتے دیکھ کر اس کی بیوی مضطرب بھی ہوتی اور پشیمان بھی۔ کئی بار اس نے کہا۔

    ’’آپ زیور بیچ دیجئے۔ یہ مکان فروخت کر دیجئے۔ مگر خدا کے واسطے اپنی صحت کا خیال رکھیے‘‘۔

    ’’زیور اور مکان۔۔۔ سب کچھ تمہارا ہے۔ میں تو صرف قرض کو اپنا سمجھتا ہوں۔ جب تک نہ اتار دوں مجھے اپنی زندگی بوجھ معلوم ہو تی رہےگی‘‘۔

    جب اس کی بیوی کے بھائیوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ الطاف کو وہ جھکی اور سنکی تو سمجھتے ہی تھے مگر اب انہوں نے اس کے پاگل ہونے کا بھی اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنی بہن کو دوٹوک فیصلہ کرنے کا بھی مشورہ دیا۔

    ’’ایک پاگل کے ساتھ زندگی گزارنا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ ہم نے اسے شریف، ایماندار اور غریب سمجھ کر تم سے منسوب کیا تھا۔ بہتر یہی ہے کہ اب تم ہمارے ساتھ چل کر رہو۔ بچوں کو وہ تم سے کسی قیمت پر علیحدہ نہیں کر سکتا اس بات کی ضمانت ہم دیتے ہیں‘‘۔

    مگر الطاف کی بیوی نے اپنے بھائیوں کے مشورے پر کان نہیں دھرے۔

    ’’میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ اب تو مرنا جینا ان کے ساتھ ہے‘‘۔

    ’’تو پھر اس سے کہو کہ ہم لکھ کر دینے کے لیے تیار ہیں کہ ہم نے کچھ نہیں دیا ہے یا ہمیں سب کچھ مل گیا ہے یا ہمیں کچھ نہیں چاہیے‘‘۔

    ’’وہ میری غلطی کا خمیازہ بھگتے بغیر کوئی بات نہیں سنیں گے‘‘۔

    ’’پاگل ہے بالکل پاگل‘‘۔

    وہ اپنی بہن کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلے تو گئے لیکن کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنے سے غافل بھی نہیں رہے آخر انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ اپنی ہی فرم کے ایک ملازم کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے الطاف کی ٹیوشن لگائے اور زیادہ سے زیادہ فیس طے کر لے۔ ان کا یہ حیلہ کارگر ہوا۔ لیکن ٹیوشن ملنے کے بعد بھی الطاف نے اوورٹائم بند کیا نہ کالم نویسی چھوڑی اور نہ ہی دوسرے بچوں کو پڑھانا ختم کیا۔ اس پر تو ایک ہی دھن سوار تھی کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ ادھار چکا دے۔

    آخروہ دن آہی گیا جب اس نے اتنی رقم پس انداز کر لی کہ اپنی گردن میں ڈالا ہوا قرض کا جوا اتار پھینکے۔ دفتر میں بیٹھے بیٹھے اس نے وہ دن شمار کئے جو دوستوں کے ساتھ گزارنے کے بجائے دفتر کی موٹی موٹی فائلوں میں سر کھپاتے ہوئے گزارے تھے۔ روز و شب ان لمحوں کو گنا جو بیوی بچوں کے درمیان نہیں بیتے تھے بلکہ کند ذہن بچوں کو ان کی کتابیں رٹاتے صرف کیے تھے۔۔۔ سارا حساب لگانے کے بعد اس نے سوچا کہ اپنی زندگی کے کئی سال خرچ کرکے یہ رقم جمع کی ہے اور یہ سب کچھ میں اپنی بیوی کے بھائیوں کو یکمشت دے دینا چاہتا ہوں کہ وہ اتنی بڑی رقم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ہر ماہ بہن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیتے رہے تھے۔ کیا یہ قرض ہے؟ جس کو ادا نہ کرنے پر ان لوگوں کی شکلیں بگڑ سکتی ہیں۔ ان کے رویے میں فرق آ سکتا ہے۔۔۔ان کا تو مطالبہ ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے جو کچھ دیا وہ احسان کرنے کے خیال سے دیا اور نہ قرض کی نیت سے۔ یہ تو میں نے اپنی دانست میں قرض سمجھ لیا ہے اور میرے پاس اتنی رقم ہے کہ اگر وہ مانگیں تو ان کے منہ پر دے ماروں۔۔۔ تو۔۔۔تو اب اسی وقت دوں گا جب وہ طلب کریں گے۔ ورنہ پڑی ہے بینک میں۔

    اس خیال سے مطمئن ہو کر یہ سوچا کہ اس مسلسل اور انتھک محنت کا بدلہ چکانے کے بعد کچھ عرصے آرام بھی کیا جائے۔ آرام کے تعلق سے گھر اور گھر کے حوالے سے بیوی آئے۔ اس عرصے میں اگر اس نے محنت کی ہے تو بیوی بچوں نے بھی اپنا دل مار کر اس کا ساتھ دیا ہے۔ ٹھیک ہے اب وہ اوور ٹائم نہیں کرےگا مگر زیادہ فیس دینے والے بچوں کی ٹیوشن نہیں چھوڑےگا۔ علی الصباح اٹھ کر کالم لکھا جا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی بند نہیں کرےگا، دو ایک ٹیوشن جہاں فیس کم ہے ان کو چھوڑ دےگا۔ یوں ذرا دم لینے کا موقع مل جائےگا اور گھر بھر کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ نہیں ابھی کوئی ٹیوشن ختم نہیں ہوگی اور محنت کر لی جائے کہ ابھی جسم کے ساتھ حوصلہ بوڑھا نہیں ہوا ہے۔ گھر میں اجالا پھیلےگا تو شاید بچے اس فرق کو محسوس کر سکیں جو محنت کی کمائی اور ساہوکار کی دی ہوئی مراعات میں ہوتا ہے۔ الطاف کو ان خیالوں کے درمیان اچانک اپنے دوستوں کا خیال آیا۔

    اس نے بیٹھے بیٹے انگڑائی لی تو یہ احساس بھی ہوا کہ کئی سال کی محنت اب اس کے بدن میں تھکان بن کر اترنے لگی ہے۔ اس تھکن سے نجات کا ایک ہی طریقہ سوجھا کہ وہ کچھ دیر کے لیے سہی، اپنے روز کے معمول سے تھوڑا ہٹ جائے۔ پھردوستوں کا دھیان ۔۔۔ اس ہنستی مسکراتی محفل کا خیال جو یکایک اس کی مصروفیت کی دھند میں چھپ گئی تھی۔ الطاف جانتا تھا کہ اس کے اچانک مصروف ہو جانے کو دوستوں نے ذہنی رو بہک جانے سے تعبیر کیا تھا اور جب اس نے ان لوگوں کے مسلسل رابطہ رکھنے کے باوجود ان سے ملنے میں اپنی مصروفیت کو حائل پایا تو پھر ان دوستوں نے حریص اور دولت کمانے کا دھنی سمجھ کر اس کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ مگر وہ اپنے ساتھیوں کی فطرت سے واقف تھا۔ ایک شام بھی ان کے ساتھ گزارنے کے لیے جا بیٹھے تو وہ اسے صبح کا بھولا سمجھ کر معاف کر دیں گے۔۔۔ ان دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر صرف ایک شام گپ شپ میں گزار دی جائے تو اس تمام تھکن کا احساس ہی رفو چکر ہو جائےگا۔ وہ پھر تازہ دم ہو جائےگا۔ نئے سرے سے توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک شام کی مصروفیت ترک کر دینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ الطاف نے یہ طے کرتے ہی اپنے سامنے پھیلی ہوئی فائلیں سمیٹیں اور دفتر سے نکل آیا۔

    وہ اپنی روز و شب کی لگن میں ایسا مگن ہوا تھا کہ اپنی ظاہری ہئیت سے بھی بے نیاز ہو گیا تھا جو مل گیا اور جیسا مل گیا کھا لیا۔ کپڑے میلے ہو گئے تو بدلنے کا ہوش نہیں۔ شیو بڑھ گیا تو کوئی پروا ہ نہیں۔ قرضہ اتارنے کی دھن شروع ہوتے ہی پہلے سستے برانڈ کی سگریٹ شروع کی۔ پھروہ بھی چھوڑ دی۔ آج دفتر سے باہر آتے ہی اس نے تھکن کا تناؤ کم کرنے کے لیے پہلے ایک انگڑائی لی۔ پھر بڑھے ہوئے شیو کو کھجایا پھر بدن ڈھیلا چھوڑ کر لمحہ بھر کے لیے سڑک کے کنارے کھڑا رہا۔ کوئی شخص قریب سے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے گزرا تو اس کے اندر بھی سگریٹ کی طلب چیخنے لگی۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ جب چھوڑ ہی دی ہے تو اب منہ لگانے سے کیا فائدہ۔ پھر یہ خیال کرکے کہ آج مدت کے بعد بچھڑے دوستوں میں بیٹھنے کا پروگرام ہے تو دوچار سگریٹ پی لینے میں کوئی نقصان بھی نہیں۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پوری ریزگاری نکال لی۔ایک روپیہ، دو روپیہ اور پانچ روپے کے سکے۔ پان والے کی دکان پر کئی لوگ موجود تھے اور پنواڑی بہت تیزی کے ساتھ پان لگا لگاکر خریداروں کو دے رہا تھا۔ الطاف کو فراغت کے یہ لمحے بہت عرصے بعد نصیب ہوئے تھے اس لیے وہ وہیں کھڑے ہو کر ان لوگوں کی خریداری مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی انتظار کی ۔۔۔خالی خالی نظروں سے سڑک پر آتے جاتے لوگوں اور بھاگتے ہوئے ٹریفک کو دیکھتے ہوئے غیرارادی طور پر ایک ہاتھ میں دبائی ہوئی ریز گاری کو دوسرے ہاتھ میں ایسے منتقل کرتا کہ ایک ہتھیلی اپنے ہی سامنے پھیل جاتی اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں سے ایک ایک۔۔۔ٹپکتے ہوئے قطروں کی صورت۔۔۔کھلی ہتھیلی میں گرنے لگتا۔ اس مشغلے میں ایک کے اوپر ایک گرتے ہوئے سکوں کی آواز بھی اسے بھلی لگنے لگی۔

    سگریٹ فروش کی دکان سے ایک صاحب فارغ ہوئے۔ دکان سے ذرا ہٹ کر اس نے پنواڑی سے لیے ہوئے بقیہ پیسوں میں سے نوٹ اپنی قمیض کی جیب میں ڈالے۔ سگریٹ کے پیکٹ اور ماچس کی ڈبیہ کو جیبوں میں ٹھونسا۔ پھر ان کی نظر الطاف کی طرف اٹھی جو دکان پر جمع لوگوں کو دیکھتے ہوئے اپنی ریز گاری سے کھیل رہا تھا۔ ان صاحب نے پڑیوں سے بھرے لفافے کو چٹکی سے تھاما اور اپنے ہاتھ میں پڑے ہوئے چند سکے اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھے اور آگے بڑھ گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے