چاروں جانب حد نظر تک صحرا ہی صحرا تھا۔ جدھر نظر اٹھتی ریت اور پتھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ سورج جیسے ہمارے سروں کو چھو رہا تھا۔ سورج کی شعاعیں اتنی تیز تھیں کہ نظر اوپر نہیں اٹھتی تھی۔ اگر سرجھکا کر چلتے تو بھی سورج سے مفر ممکن نہیں تھا۔ ریت کا ایک ایک ذرہ سورج کی طرح ہی چمک رہا تھا۔ انتہائی گرم لو کے تھپیڑے لہروں کی شکل میں ریت پر رقصاں نظر آتے تھے۔ یہ لہریں ہمارے چہروں اور ہمارے جسموں کو چھوتی تھیں تو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ بھڑکتے شعلے ہمیں چھو رہے ہوں۔ یہ شعلے ہمیں جلائے دے رہے تھے۔ ہمارے جسموں میں موجود پانی کا ایک ایک قطرہ پسینہ بن کر مساموں سے خارج ہوتا اور پھر لمحوں میں صحرا کی تپش سے خشک ہو جاتا۔ اس تپش سے ہمارے چہرے جیسے دہک رہے تھے اور آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں۔ جب یہ تپتی لہریں ہمارے جسم کے ننگے حصوں سے ٹکراتیں تو شدید تپش اور جلن کا احساس ہوتا۔
اس تپتے صحرا میں دور دور تک ہم دونوں کے سوا کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا تھا۔ نہ انسان، نہ حیوان، نہ چرند، نہ پرند، کچھ بھی تو نہیں تھا۔ کوئی درخت، کوئی جھاڑی، کوئی پہاڑی، کوئی سایہ نہیں تھا۔ جب ہم سانس لیتے تھے تو اس کی بازگشت سنائی دیتی تھی یا جب ہم چلتے تھے تو ہمارے فوجی بوٹوں کی ریت اور پتھروں پر کھڑ کھڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ اس کے علاوہ مکمل سناٹا تھا۔ بے آب و گیاہ صحرا کا سناٹا۔
یوں لگتا تھا کہ ہم بھٹک کر کسی ویران سیارے پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صحرا کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا تھا کہ ہم اسی زمین کے ایک حصے میں موجود ہیں جہاں اربوں انسان بستے ہیں۔ جہاں درخت ہیں، پھل ہیں، باغات ہیں، سمندر، پہاڑ، دریا، ندیاں، نالے اور سبزہ ہے۔ جہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ جہاں بادل برستے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ کوئی ملہار سنا رہا ہو۔ جہاں کوئل کوکتی ہے اور جہاں گھنے پیڑوں کے نیچے مٹیاریں جھولے جھلتی ہیں۔
یہ سب چیزیں اسی زمین پر ہیں اور ہم بھی اسی زمین کے ایک حصے میں موجود ہیں۔ جہاں ان سب چیزوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ جہاں تپتا سورج، گرم ریت اور دہکتے پتھر ہیں۔ اس بے آب و گیاہ صحرا میں ہم دو زندہ انسان اس طرح پھنس گئے کہ یہاں سے نکلنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ ہمیں نہ تو اس صحرا سے نکلنے کے راستے کا علم ہے اور نہ سمت کا اندازہ۔ اس پرمستزاد یہ ہے کہ نہ تو ہمارے پاس کھانے کے لئے خوراک ہے اور نہ پینے کے لئے پانی۔
اس مصیبت میں ہم اچانک ہی پھنسے تھے۔ صرف ایک دن پہلے، کل تک ہم آباد دنیا میں تھے۔ ہاں یہ کل ہی کی بات ہے کہ ہم اپنے خوبصورت کیمپ کے ایئر کنڈیشنڈ اور آرام دہ کمروں میں رہ رہے تھے۔ ان کمروں کے سامنے رنگ برنگے پھولوں کے تختے تھے اور گھنے سایہ دار درخت تھے۔ ٹھنڈے پانی کے کولر تھے اور میس میں تازہ تازہ گرم کھانا کھاتے تھے۔ یاروں کی محفل جمتی تھی۔ ہم ہنستے تھے، کھیلتے تھے کہ ہنستی بستی دنیا میں رہتے تھے۔ اور آج صرف ایک دن بعد وہ دنیا ہم سے کتنی دور چلی گئی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم دوبارہ اس دنیا میں نہیں جا سکیں گے۔ بلکہ اس صحرا میں ہی مر کھپ جائیں گے۔ ایسے انجام کے بارے میں تو ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا۔
میں نے صرف تین ماہ پہلے منسٹری آف ڈیفنس، سلطنت آف عمان جوائن کی تھی۔ کراچی جیسے انتہائی بارونق شہر سے نکلا تو عمان کے سب سے بڑے شہر مسقط سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ایک چھوٹے قصبے نزوہ سے ملحق فوجی چھاؤنی میں جا پہنچا۔ نزوہ کے ایک طرف بڑے بڑے پہاڑ تھے تو دوسری طرف خشک میدانی علاقہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ان خشک علاقوں میں آبادی بہت کم تھی۔ میلوں تک بے آباد اور چٹیل علاقہ پھیلا ہوا تھا۔ کہیں کہیں جھاڑیاں، خال خال درخت اور کسی کسی جگہ تھوڑی بہت سبز گھاس دکھائی دیتی تھی۔ تاہم جہاں جہاں گاؤں آباد تھے اس کے اردگرد سبزہ اور باغات ضرور موجود تھے۔ خصوصاً کجھور کے باغات۔ یہ سبزہ اور باغات ٹیوب ویل کے پانی اور انسانی محنت کے مرہونِ منت تھے۔ ان باغات اور سبزے اور طرز تعمیر کی بدولت گاؤں کے مکانات اندر سے ٹھنڈے اور آرام دہ تھے۔ تاہم گاؤں سے باہر نکلیں تو پھر وہ صحرائی منظر سامنے آجاتا تھا جو اس علاقے کا خاصا ہے۔
میں پہلی دفعہ گھر والوں سے دور اور ملک سے باہر گیا تھا۔ میری جاب بھی آسان تھی اور کھانے پینے، رہنے سہنے کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ پھر بھی مجھے اپنا وطن اور گھر والے بہت یاد آتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کہاں عروس البلاد کراچی کی رونقیں اور کہاں یہ ویران صحرائی ملک، بقول شاعر۔ دشت کو دیکھا تو گھر یاد آیا۔
شاعر کا شایددشت میں اپنا فارم ہاؤس تھا۔ لیکن میری گھر کو یاد کرنے کی وجہ مختلف تھی۔ یوں بھی یہاں دشت نہیں صحرا تھا۔ جو صرف قیس کی پسندیدہ جگہ تھی، جس سے میری رشتہ داری بالکل نہیں ہے۔
میری جاب میں چھاؤنی میں موجود مکینیکل انجینئرنگ سے متعلق مشینری کی دیکھ بھال پر مامور عملے کی ڈیوٹیاں لگانا اور ان کے کام پر نظر رکھنا تھا۔ یہ مشکل کام نہیں تھا۔ کیونکہ پاکستان، ہندوستان، سری لنکا اور دوسرے ملکوں سے آنے والا عملہ ماہرین پر مشتمل تھا۔ وہ اپنا کام بخوبی جانتے تھے۔ تاہم مقامی عمانیوں سے کام لینا ٹیڑھی کھیر کے مترادف تھا۔ خوش قسمتی سے ان کا تناسب کم تھا۔ لہذا مجھے کام میں کبھی مشکل پیش نہیں آئی۔
گاہے گاہے ہمیں اپنی چھاؤنی کے علاوہ آرمی اور ائر فورس کے دوسرے کیمپوں میں بھی جانا پڑتا تھا۔ وہاں کام ختم کرکے کبھی اسی دن اور کبھی دوسرے تیسرے دن ہم واپس اپنے کیمپ میں آجاتے تھے۔
دو دن قبل ہمارے کیمپ کے دو آدمی ایک صحرائی کیمپ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ کیمپ نزوہ سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر صحرا میں واقع ہے۔ مناسب سڑک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پہنچنے کے لئے پانچ چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس دور میں چند بڑی شاہراؤں کو چھوڑ کر عمان کی تمام سڑکیں کچی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ پتھروں پر رولر پھیر کر انہیں قدرے ہموار کر لیا جاتا تھا۔ بارشیں کم ہونے کی وجہ سے یہ سڑکیں بھی خاصی معقول ہوتی تھیں۔ تاہم بعض کم استعمال ہونے والی سڑکیں خاصی خطرناک تھیں۔ اکثر پتھروں پر گاڑیاں الٹ جاتی تھیں۔
ہمارے کیمپ کے دو آدمی جن میں سے ایک کا تعلق بھارت سے تھا اور اس کا نام سبھاش تھا اور دوسرے کا تعلق سری لنکا سے تھا اور اس کا نام تلکارتنا تھا۔ وہ صبح سویرے کیمپ سے نکلے لیکن شام تک اس صحرائی کیمپ میں نہ پہنچے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ تین چار بجے تک دوسرے کیمپ میں پہنچ جانا چاہیئے تھا۔ جب وہ رات تک وہاں نہیں پہنچے تو ہمارے کیمپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وہاں نہ پہنچنے کے کئی مطلب ہو سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا راستے میں ایکسیڈنٹ ہو گیا ہو۔ یا ان کی گاڑی خراب ہوگئی ہو یا پھر وہ راستہ بھول کر کسی صحرا میں نہ بھٹک گئے ہوں۔
ان تینوں صورتوں میں انہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی تھی جو رات کے اندھیرے میں مشکل تھی۔ کیونکہ مدد کے لئے جانے والی گاڑی کا اندھیرے میں سفر خطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہ کام اگلے دن صبح تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں گاڑی کے ذریعے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جانی تھی۔ اگر اس میں کامیابی نہ ہو ئی تو پھر اگلے مرحلے میں ائرفورس کے ہیلی کاپٹر کی مدد طلب کی جا سکتی تھی۔
دوسرے دن جو لوگ ان کی تلاش میں جارہے تھے اس میں ہمارے کیمپ کا ایک پاکستانی نوجوان رفاقت علی تھا اور اس کے ساتھ میں جارہا تھا۔ رفاقت علی کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ وہ ایک اچھا مکینک تھا۔ میں نے رضاکارانہ طور پر رفاقت کے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوا۔ رفاقت کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے شافع (کیمپ کا نام) جانے والے راستے کا علم تھا۔
میرے جانے کی وجہ یہ تھی کہ رفاقت اس کیمپ میں میرا سب سے قریبی دوست تھا۔ ہمارے کیمپ میں زیادہ تر پاکستانی ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے۔ میری اور رفاقت کی عمر کے نوجوان نہ ہونے کے برابر تھے۔ رفاقت سے میرا مزاج خوب ملتا تھا۔ مطالعہ ہمارا مشترکہ شوق تھا ہم نے پاکستان سے کئی ہفتہ وار اور ماہانہ رسائل لگوا رکھے تھے۔ ہمارے پاس نوائے وقت روالپنڈی بھی باقاعدگی سے آتا تھا جو چھپنے کے دوسرے یا تیسرے دن مل جاتا تھا۔ علاوہ ازیں تیراکی اور سیرو سیاحت بھی ہمارے مشترکہ مشاغل میں شامل تھے۔ سیرو سیاحت کی یہ لگن ہی مجھے رفاقت کے ساتھ صحرا نور دی کے لئے لے گئی تھی۔
جولائی کا مہینہ تھا اور عمان کی گرمی عروج پر تھی۔ ہم صبح چھ بجے کیمپ سے نکلے پہلے ڈیڑھ دو گھنٹے ہم ایک پکی روڈ پر ڈرائیو کرتے رہے جہاں رفاقت نے گاڑی کو سو کلومیٹر کی رفتار سے خوب بھگایا۔ لیکن دو گھنٹے کے بعد ہم اس پکی سڑک سے اتر کر پتھروں سے اٹے آدھے کچے آدھے پکے راستے پر آئے تو پھر تو جیسے گاڑی کے بھی چھکے چھوٹ گئے۔
دو سال پرانی ٹویوٹا پک اپ پتھروں پر اچھل اچھل کر چلنے لگی۔ ان پتھروں پر رولر پھیر کر کرش کیا گیا تھا۔ یوں یہ بڑے پتھر نہیں تھے۔ پھر بھی ہموار سڑک سے اتر کر پتھروں کے فرش پر چلتے ہوئے گاڑی کا احتجاج غلط نہ تھا۔ اس احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے رفاقت نے یہاں بھی سپیڈ چالیس کے لگ بھگ رکھی۔ ایسی سڑک پر موڑ کاٹتے ہوئے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے گاڑی الٹ سکتی ہے۔
چھوٹے چھوٹے پتھر اچھلتے تھے تو ڈر لگتا تھا کہ گاڑی کی ونڈ سکرین سے نہ ٹکرا جائیں۔ سڑک سیدھی تھی اور گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ کافی وقفے کے بعد کو ئی گاڑی مخالف سمت سے آتی دکھائی دیتی تھی تو دونوں گاڑی کے ڈرائیور ہاتھ ہلا ہلا کر ایک دوسرے کو سلام دعا کرتے گزرتے تھے۔
سڑک کے دونوں اطراف بھی یہی پتھر بھرا منظر تھا۔ چھوٹے اور بڑے پتھر، ناہموار ٹیلے، جھاڑیاں نما درخت اور تیز روشن دھوپ چہار جانب پھیلی نظر آتی تھی۔ سورج بلند ہوا تو ہر چیز تپتی محسوس ہونے لگی۔ ہم نے کھڑکیاں بند کرکے اے سی چلایا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے اے سی بند کرنا پڑتا تھا کیونکہ گاڑی پر لوڈ بڑھ جاتا تھا اور وہ بہت زیادہ گرم ہونے لگتی تھی۔
آگے چل کر میں نے ڈرائیونگ سنبھال لی۔ اس وقت میری ڈرائیونگ بہت اچھی نہیں تھی۔ لیکن اس ویرانے میں کون سی ٹریفک تھی۔ بس بڑے پتھروں سے بچ کر چلنا پڑتا تھا۔ تھوڑی سے جھجک کے بعد میں مزے سے گاڑی چلانے لگا۔ اچانک ہمارے دائیں جانب ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں نظر آیا۔ گاؤں سے باہر بکریاں اور گدھے چرتے نظر آئے۔ گاؤں کے اردگرد کا علاقہ قدرے سرسبز تھا۔ کھجور اور دوسرے پھلوں کے باغات بھی تھے اور مکئی کے کھیت بھی تھے۔ ہم نے گاڑی کا رخ گاؤں کی جانب جانے والے راستے کی طرف موڑ لیا۔ گاؤں کے باہر کھجوروں کا باغ تھا ہم نے گاڑی وہیں روک لی۔ ابھی ہم گاڑی سے نکل کر باہر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ باغ میں موجود ایک کچے کمرے سے نکل کر ایک عمانی ہماری طرف چلا آیا۔ کھچڑی داڑھی اور نسواری رنگ کے قندورے میں ملبوس اس ادھیڑ عمر عمانی نے آتے ہی کہا، ”اسلام و علیکم! اہلاََ و سہلاََ“
ہم نے وعلیکم السلام کہہ کر اس سے مصافحہ کیا۔ علیک سلیک کے بعد رفاقت نے اس سے گم شدہ ساتھیوں کے بارے میں پوچھا۔ میں اس وقت عربی روانی سے نہیں بول سکتا تھا تاہم کا فی حد تک سمجھ لیتا تھا اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا ماضی الضمیر بیان کر سکتاتھا۔ رفاقت دو اڑھائی سال سے عمان میں تھا اور خاصی روانی سے عربی بول لیتا تھا۔ اس لئے اس عمانی سے جس کا نام سالم تھا، وہی گفتگو کر رہا تھا۔ سالم نے ہمارے تھیوں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس نے بتایا کہ کل سے اس طرف ایسی کوئی گاڑی نہیں آئی ورنہ اسے ضرور علم ہوتا۔
ہم واپس جانے لگے تو سالم نے ہمیں روک لیا۔ وہ ہمیں اپنے حجرے میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ ہم اس کے ساتھ چل پڑے۔ گھنے سایہ دار درختوں میں گھرے اس کچے کمرے میں داخل ہوئے تو یوں لگا کہ کسی یخ بستہ ائر کنڈیشنڈ کمرے میں آگئے ہوں۔ حالانکہ وہاں بجلی ہی نہیں تھی کہ ائرکنڈیشنڈنگ کا سوال پیدا ہوتا۔ دراصل کچی دیواروں، کھجور کی چھال اور مٹی کے لیپ والے دبیز چھت اور درختوں کی گھنی چھاؤں نے کمرہ ٹھنڈا رکھا ہوا تھا۔ کمرے کے اندر فرنیچر نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ فرش پر چھال بچھی تھی اور اس کے اوپر چٹائی تھی۔ تاہم دو تکیے موجود تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک بڑے سارے تھال میں کھجوروں کا ڈونگا، چائے کا تھرماس، پانی کے گلاس، اور چھوٹی چھوٹی بغیر گنڈے والی پیالیاں رکھی تھیں۔ تھال کے پاس ہی پانی کیصراحی دھری تھی۔ سالم نے پہلے تو ہمیں پانی پلایا جو ٹھنڈا اور مزیدار تھا۔ پھر کھجوروں کا ڈونگا کھول کر ہمارے آگے رکھا۔ اس دوران اس نے تین پالیوں میں گرم عمانی چائے انڈیلی۔ دو پیالیاں ہمارے آگے رکھیں اور ایک اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ ہم مزے سے کھجوریں کھانے لگے اور ساتھ میں کالی اور کڑوی چائے پینے لگے۔ پہلے گھونٹ کی کڑواہٹ کے بعد یہ مزہ دینے لگی۔ میں نے وہ چھوٹی سی پیالی ختم کی ہی تھی کہ سالم نے اس میں مزید چائے انڈیل دی۔ اس دوران رفاقت اور سالم نے دو دو پیالیاں پی لی تھیں۔ چائے کے ساتھ ساتھ ہم سالم سے باتیں بھی کر رہے تھے۔ سالم نے بتایا، ”ہمارا یہ گاؤں، اس کے لوگ اور یہ باغات ٹیوب ویل کے مرہون منت ہیں۔ یہاں کی زمین تلے پانی تو صدیوں سے موجود تھا۔ لیکن پہلے صرف کنویں تھے جن سے بمشکل بنیادی ضرورت کی حد تک پانی دستیاب تھا۔ سلطان قابوس نے ہمیں ٹیوب ویل لگوا دیئے ہیں۔ جس کی وجہ سے گاؤں اور اس کے اردگرد کا علاقہ سرسبز و شاداب ہوگیا ہے۔ پھلوں کے باغات اور دوسرے فصلوں سے لوگوں کو خوشحالی ملی ہے۔ میرا گھر گاؤں کے وسط میں ہے۔ لیکن میرا دن یہیں باغ میں گزرتا ہے۔‘‘
میں نے سالم سے پوچھا، ”یہاں سکول یا ہسپتال ہے؟“
سالم نے بتایا، ”نہیں ہمارا گاؤں چھوٹا ہے۔ یہاں سکول نہیں ہے۔ ہمارے بچے پندرہ بیس کلو میٹر دور ایک دوسرے گاؤں میں پڑھنے جاتے ہیں۔ وہیں ایک ڈسپنسری ہے۔ سرکاری بس سکول کے بچوں اور دوسرے لوگوں کو مفت لاتی اور لے جاتی ہے۔ ویسے لوگوں کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں بھی ہیں۔ وہ بھی استعمال ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
ہم باغ سے نکلے تو سورج جیسے سوا نیزے پر تھا۔ دھوپ میں کھڑی گاڑی اتنی تپ گئی تھی کہ سیٹوں پر بیٹھنا مشکل تھا۔ سٹیئرنگ پر ہاتھ رکھا تو ہاتھ جیسے جل گیا ہو۔ ہم نے گاڑی سٹارٹ کی۔ ائر کنڈیشنڈ چلایا اور تھوڑی دیر تک باہر کھڑے اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ گاڑی کچھ ٹھنڈی ہوئی تو میں سٹئرنگ سیٹ پر بیٹھا۔ یو ٹرن لیا اور صحرا کی طرف چل پڑا۔
جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے توں توں آبادی کے آثار کم ہوتے جارہے تھے۔ اگلے ایک گھنٹے میں صرف ایک گاڑی نظر آئی۔ وہ ہمارے مخالفت سمت جارہی تھی۔ ہم نے انہیں روک لیا اس پک اپ میں دو عمانی بیٹھے ہوئے تھے ایک جوان تھا اور ایک بوڑھا۔ سلام دعا کے بعد ہم نے ان سے اپنے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
ہم آگے بڑھتے رہے۔ اب یہ کچی سڑک بھی، سڑک کی بجائے میدان محسوس ہوتی تھی۔ سڑک اور بقیہ میدان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ہم بہت غور سے گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات اور ٹوٹے پتھر دیکھ کر اس راستے پر چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کہیں کہیں تو یہ نشانات بالکل غائب ہو جاتے اور لگتا تھا کہ ہم کھلے صحرا میں بے سمت اور بے نشان چلے جارہے ہیں۔ پھر کہیں ٹائروں کے موہوم سے نشانات نظر آتے تو کچھ تسلی ہوتی۔ دراصل اس راستے پر رولر بھی نہیں پھیرا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ ریت اڑ اڑ کرنشان راہ مٹادیتی تھی۔
اب ڈرائیونگ سیٹ رفاقت نے سنبھال لی۔ رفاقت کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا۔ اس کے قبیلے میں حصول تعلیم کا رواج تھا اور نہ ہی یہ سہولتیں میسر تھیں۔ نوجوان کی اکثریت نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ صرف گنے چنے خاندان تھے جو اپنے بچوں کو دور دراز کے قصبوں اور شہروں میں بھیج کر پڑھاتے تھے۔ رفاقت علی کا خاندان ان میں سے ایک تھا۔ رفاقت پشاور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں مکینکل انجینئرنگ کر رہا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا طوفان آیا جو اسے بہا کر عمان لے آیا۔ وہ انجینیئر بنتے بنتے مکینک بن گیا۔
رفاقت پچھلے اڑھائی برس سے یہاں عمان میں تھا۔ وہ انتہائی سنجیدہ، محنتی اور کام سے کام رکھنے والا کم گو نوجوان تھا۔ دراز قد، گوری رنگت اور پرکشش شخصیت کا مالک رفاقت دوسروں سے بہت مختلف تھا۔ مجھ سے پہلے اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ اس کی وجہ وہ خود تھا ایک تو وہ بہت مصروف رہتا تھا اور اس کے پاس فالتو وقت نہیں ہوتا تھا کہ دوستیاں پالتا پھرے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ تنہائی پسند تھا۔ جب اس کے پاس فالتو وقت ہوتا تو وہ اپنے کمرے میں رہ کر پڑھتا رہتا تھا یا پھر کسی کی یاد میں گم رہتا۔
ابتداء میں مطالعہ کا شوق، کتابوں کا تبادلہ اور پھر علمی اور ادبی گفتگو ہماری دوستی کی بنیاد بنی۔ اور صرف چند ہفتوں میں رفاقت نے مجھے اپنی زندگی کے ان اوراق کی جھلک دکھا دی جو اس سے پہلے دو اڑھائی برس میں اس نے کسی کو نہیں دکھائی تھی۔
رفاقت کے ایک چچا نے وکالت پاس کر رکھی تھی اور پشاور میں پریکٹس کرتا تھا۔ رفاقت کے والد نے میٹرک پاس کیا ہوا تھا۔ یوں معاشی اور سماجی لحاظ سے اس متوسط گھرانے نے اپنے علاقے کے علمی لحا ظ سے بنجر میدان میں ایک چھوٹا سا نخلستان سجا رکھا تھا۔ رفاقت اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ نہ صرف اس کے والدین بلکہ باقی خاندان نے بھی اس سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ اس کے گاؤں اور برادری کے لوگ اس میں مستقبل کا سیاست دان دیکھ رہے تھے۔ جو ان کی خدمت کرے گا۔ جبکہ والدین کی آنکھوں میں بہت سارے خواب سجے ہوئے تھے۔ والدین کے خوابوں کی تعبیر اور گاؤں کے لوگوں کی امیدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کے راستے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ چند سالوں میں اسے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری مل رہی تھی۔ مشکل مرحلے جیسے ابتدائی تعلیم، انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ اور گھر سے دور پشاور میں بچپن اور لڑکپن گزارنا، گزر چکے تھے۔ اگلے چند برس نسبتََا آسان تھے اور پھر شاندار مستقبل اس کے سامنے تھا۔
رفاقت کے دل کی دنیا بھی رنگ و خوشبو سے سجی تھی۔ وہ بچپن سے اپنی خالہ کی بیٹی شازیہ کو چاہتا تھا۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک کے سفر میں یہ محبت ماند نہیں پڑی بلکہ مزید پروان چڑھی۔ شازیہ رفاقت سے دو برس چھوٹی تھی۔ گاؤں میں ہی پلی بڑھی تھی۔ وہ سکول تو نہ جا سکی تاہم اس نے گھر میں ہی اردو لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن اس کا باپ اور رفاقت کا خالو ملک سکندر خان ایک روایتی قبائلی مرد تھا۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور آزادی کے سخت خلاف تھا۔ ملک سکندر کا شمار علاقے کے بڑے ملکوں میں ہوتا تھا۔ ویسے بھی گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ اس لئے شازیہ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ تاہم وہ اردو کی اچھی اچھی کتابیں منگوا کر پڑھتی رہتی تھی۔ یہ کتابیں زیادہ تر رفاقت ہی لے کر آتا تھا۔ اس مطالعے سے اس کے علم، شعور اور وسعت خیالات میں اضافہ ہوتا رہا۔ یوں بھی وہ بہت سمجھ دار اور درد دل رکھنے والی لڑکی تھی۔ شکل و صورت میں بھی دور دور تک اس کا ثانی نہیں تھا۔ پورے گاؤں میں شازیہ کے جوڑ کا ایک ہی لڑکا تھا اور وہ رفاقت علی ہی تھا۔ رفاقت کے والدین اور اس کی خالہ کی بھی یہی مرضی تھی۔ قبائلی علاقے کی روایتی پابندیوں کے باوجود رفاقت شازیہ سے ملتا رہتا تھا۔ وہ جب بھی پشاور سے گاؤں واپس جاتا، خالہ کے گھر ضرور جاتا تھا۔ جب تک وہ شازیہ کو نہ دیکھ لیتا اس کے دل کو قرار نہ آتا۔ ادھر شازیہ کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ وہ دل کی آنکھوں سے رفاقت کی راہیں دیکھتی رہتی۔ پیشتر اس کے کہ محبت کی یہ کہانی یوں ہی پروان چڑھتی رہتی اور پھر ایک دن دو دلوں کے ملاپ کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی۔ اس میں خطرناک بلکہ خوفناک موڑ آگیا۔
ولن نمبر ایک شازیہ کا باپ سکندر تھا۔ اسے بیٹی سے زیادہ دولت عزیز تھی۔ وہ اپنی حسین و ہونہار بیٹی کے دام کھرے کرنا چاہتا تھا۔ ولن نمبر دو گاؤں کا ایک اور ملک دلاور خان تھا۔ دلاور خان کی عمر پچاس سے تجاوز کر چکی تھی۔ وہ شادی شدہ تھا اور دو جوان بچوں کا باپ تھا۔ اب اس عمر میں ہوس کا یہ پجاری گاؤں کی سب سے حسین لڑکی شازیہ کو بیس لاکھ روپوں کے عوض خریدنا چاہتا تھا۔ چمکتے سکوں کو دیکھ کر ملک سکندر کی رال ٹپک پڑی۔ اسے شازیہ اور اس کے جذبات کا کوئی خیال نہیں تھا۔ یہ ظلم کی انتہا تھی۔ شازیہ جیسی نرم و نازک لڑکی جو پھولوں اور شعروں کی دلدادہ تھی۔ جو کوئل کی کوکو اور بہتی ندی کی موسیقی کی عاشق تھی۔ جو نازک بدن اور نازک خیالات کی مالک تھی۔ جو بچپن سے رفاقت کی رفاقت کے خواب دیکھتی آئی تھی۔ اسے پھولوں، ندی کے جھرنوں کی موسیقی، فراز کے شعروں اور رفاقت سے چھین کر ایک ظالم شخص اپنے پنجرے میں قید کرنا چاہتا تھا۔ صرف اس وجہ سے کہ اس کے پاس دولت تھی۔ اس دولت کے بل بوتے پر وہ ایک جیتی جاگتی انسان اور جذبوں سے معمور لڑکی کو خرید کر اپنے گھر میں سجانا چاہتا تھا۔
اس خرید و فروخت میں اہمیت تھی تو بیچنے اور خریدنے والے کی۔ اہمیت تھی تو کھنکتے سکوں کی۔ اہمیت تھی تو طاقت و جبر کی۔ اہمیت تھی تو فرسودہ روایات کی۔ اس خریدو فروخت میں بکنے والے کے جذبات، خیالات اور مرضی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ شازیہ کی ماں اور اس کے بہن بھائی سب اس ظلم کے خلاف تھے۔ لیکن ملک سکندر نے کسی کی نہیں سنی اور شازیہ کا سودا کر دیا۔
اس وقت رفاقت علی انجینئرنگ کے پانچ سالہ کورس کے تیسرے سال میں تھا۔ وہ اپنی پڑھائی میں مگن رہتا تھا یا پھر ہر ماہ گاؤں واپس جا کر شازیہ سے ملاقات کے خوشگوار تصور میں گم رہتا تھا۔ یہ خبر اس کے لئے دھماکے سے کم نہ تھی۔ اسے جب یہ خبر ملی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اسے اپنی محبت کو کھونے کا جتنا غم تھا اس سے زیادہ غم شازیہ کے تاریک بلکہ ہولناک مستقبل کا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کومل جذبوں سے معمور یہ لڑکی دلاور جیسے درندہ صفت شخص کے ظالم ہاتھوں میں پھڑ پھڑا کر دم توڑ دے گی۔ وہ وہاں ایک دن بھی جی نہیں پائے گی۔ دلاور جیسے ظالم شخص کو نرم و نازک جذبات کا بھلا کیا خیال آئے گا۔ جبکہ شازیہ سرتاپا محبت ہی محبت تھی۔ فطرت سے محبت، پہاڑوں سے محبت، پھولوں، پودوں اور پرندوں سے محبت اور رفاقت کی محبت۔ وہ کئی دفعہ رفاقت کو بتا چکی تھی، ”اگر مجھے آپ سے جدا کر دیا گیا تو میں ایک دن بھی جی نہیں پاؤں گی۔‘‘
رفاقت جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے وہ واقعی اپنی جان دے گی لیکن ملک دلاور جیسے شخص کی دلہن نہیں بنے گی۔
رفاقت گاؤں پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ وہ سیدھا ملک دلاور کے گھر گیا۔ ملک دلاور کی حویلی گاؤں کی چند بڑی حویلیوں میں سے ایک تھی۔ حویلی کا صدر دروازہ کھولا گیا تو رفاقت نے کسی اور کی طرف دیکھا بھی نہیں، وہ آندھی اور طوفان کی طرح ملک سکندر کے کمرے میں گھس گیا۔ ملک دلاور کمرے میں موجود تھا۔ رفاقت علی کی آنکھوں سے لپکتے شعلوں کو دیکھ کر ملک سکندر گھبرا گیا۔ اس نے جھٹ سرہانے کے نیچے سے پستول نکال کر رفاقت پر تان لیا۔ رفاقت علی کمرے کے وسط میں ایسے کھڑا تھا کہ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور اس کی سانسوں کی پھنکارر باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ رفاقت علی کے یہ تیور دیکھ کر ہاتھوں میں پستول ہونے کے باوجود ملک سکندر کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔ اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں گیلی ہوگئیں۔ اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ حالانکہ یہی ملک سکندر پورے علاقے میں اپنی شجاعت کے حوالے سے مشہور تھا۔ شاید اس کا واسطہ اس سے پہلے رفاقت علی جیسے سرپھرے سے نہیں پڑا تھا۔
”ملک سکندر تمہیں بیٹی کا سودا کرتے شرم نہیں آئی۔‘‘ رفاقت علی کی گونج دار آواز باہر تک سنائی دے رہی تھی۔
اتفاق سے اس وقت گھر میں صرف عورتیں تھیں جو سہمی کھڑی تھیں۔ ملک سکندر نے کہا، ”وہ میری بیٹی ہے میں جہاں چاہوں اس کی شادی کروں گا تم کون ہوتے ہو دخل دینے والے۔‘‘
”وہ تمہاری بیٹی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اسے گائے بکری کی طرح بیچ ڈالو۔ وہ انسان ہے۔‘‘ رفاقت کے لہجے کی پھنکار ویسے ہی تھی۔
”میں کوئی انوکھا کام نہیں کر رہا۔ ہمارے یہاں صدیوں سے ایسا ہوتا آرہا ہے۔ میں نے جب تمہاری خالہ سے شادی کی تھی تو اس وقت میں نے تمہارے نانا کو ہزاروں روپے دیئے تھے۔‘‘
”وہ وقت اور تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ تمہاری بیٹی پڑھی لکھی ہے۔ تم جانتے ہو میرے گھر والے اسے پسند کرتے ہیں۔ تم نے ایک دفعہ بھی اس کی مرضی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی“رفاقت نے اسی لہجے میں کہا۔ اسے اپنے اوپر تنے ریوالور کا ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ بلکہ الٹا ملک سکندر خوف زدہ نظر آ رہا تھا۔
”ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی مرضی نہیں پوچھی جاتی۔ وہ میری بیٹی ہے۔ اسے پالنے پر خرچ میں نے اٹھایا ہے۔ ملک دلاور مجھے بیس لاکھ روپے دے گا۔ شازیہ کی شادی تم سے کرا کر مجھے کیا ملے گا؟“
ملک سکندر اس وقت پورا بیوپاری بنا ہوا تھا جو اپنے بہترین جانور کی من پسند قیمت چاہتا ہے۔ رفاقت علی بھی اس معاشرے کا پروردہ تھا۔ یہ اس کی پسند اور غیرت کا سوال تھا۔ ملک سکندر کا چیلنج سن کر اس سے چپ نہ رہا گیا اس نے کہا، ”اگر بیٹی کے رشتے کا تمہاری نظر میں روپیہ ہی معیار ہے تو پھر میں تمہیں پچیس لاکھ روپے دوں گا۔ اپنی پھول سی بیٹی کو ملک دلاور کے حوالے کرنے کا ظلم نہ کرو۔ وہ مرجائے گی۔‘‘
رفاقت نے اپنی اوقات سے بڑھ کر ملک سکندر کو پیش کش کر دی تھی۔ ملک سکندر اچھی طرح جانتا تھا کہ رفاقت علی کے پاس پچیس تو درکنار پانچ لاکھ بھی نہیں ہیں۔ اسے رفاقت سے جان چھڑانے کا آسان موقع مل گیا۔ اس نے کہا، ”مجھے منظور ہے۔ تم پچیس لاکھ روپے لے آؤ میں شازیہ کا نکاح تم سے کر دوں گا۔ لیکن میں دس سال تک بیٹی کو گھر میں بٹھا کر نہیں رکھ سکتاکہ تم پہلے ڈگری مکمل کرو، پھر نوکری ڈھونڈو اور پھر روپیہ روپیہ جمع کرنے بیٹھ جاؤ۔ میں تمہیں تین سال کا وقت دیتا ہوں۔ پہلے دو سال آٹھ لاکھ سالانہ تم مجھے ادا کرو گے اور تیسرے سال کے اختتام سے پہلے نو لاکھ مزید لے کر آؤ گے تو شازیہ تمہارے حوالے کردوں گا۔‘‘
رفاقت نے اتنا بڑا چیلنج اور اتنی کڑی شرائط ایک لمحہ ضا ئع کئے بغیر منظور کر لیں۔ اس نے کہا، ”مجھے تمہاری ساری شرائط منظور ہیں۔ سال ختم ہونے سے پہلے تمہیں آٹھ لاکھ مل جائیں گے اور تین سال مکمل ہونے سے پہلے پچیس لاکھ کی رقم تمہیں مل چکی ہوگی۔ لیکن یاد رکھو شازیہ اب تمہارے پاس میری امانت ہے۔ اس امانت میں کسی قسم کی خیانت میں بالکل برداشت نہیں کروں گا۔“
رفاقت علی یہ کہہ کر جس طرح آندھی اور طوفان کی طرح وہاں سے گیا تھا اسی طرح ملک سکندر کے گھر سے نکل آیا۔
رفاقت علی کے گھر والے اس کی شادی شازیہ سے کرانے کے متمنی تھے لیکن اس قیمت پر نہیں۔ وہ یہ قیمت ادا کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ رفاقت کی پڑھائی پر خرچ ہوگئی تھی۔ رفاقت کے اس فیصلے سے انہیں بہت بڑا دھچکا لگا۔ انہیں رفاقت سے متعلق اپنے خواب بکھرتے محسوس ہوئے۔ وہ اپنا گھر بار بھی بیچ دیتے تو اتنی رقم اکٹھی نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری طرف رفاقت کی جو حالت تھی وہ بھی ان سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔ رفاقت کے والدین اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ وہ نہ اسے روک سکتے تھے اور نہ اس کی مدد کر سکتے تھے۔
دوسرے دن صبح رفاقت علی نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ انجیئنرنگ یونیورسٹی چھوڑ رہا ہے۔ رفاقت کا یہ اعلان اس کے والدین، خصوصا والد کے لئے کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ انہوں نے رفاقت سے بہت ساری امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ امید کا یہ دیا اسی وقت روشن ہونا تھا جب رفاقت انجینئر بن جاتا۔ رفاقت کو اس منزل تک پہنچانے کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی تھیں۔ بہت سے خواب دیکھے تھے۔ رفاقت کا روشن مستقبل ہی ان کی منزل تھی۔ یہ منزل اب زیادہ دور بھی نہیں تھی بلکہ سامنے نظر آرہی تھی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ایسی آندھی چلے گی جو ان کے خوابوں کے محلوں کو مسمار کر دے گی۔ ان کی منزل کھو جائے گی۔ اور ہر سو ایک گھٹا ٹوپ تاریکی پھیل جائے گی۔
رفاقت کے اعلان سے اس کے والد کو صدمہ ضرور ہوا لیکن اس نے رفاقت کو اس کے فیصلے سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ انہیں بہرحال بیٹا عزیز تھا۔ وہ جانتے تھے کہ رفاقت سمجھدار نوجوان ہے۔ اپنا اچھا برا جانتا ہے۔ اور ماں باپ کے جذبات کو بھی بخوبی سمجھتا ہے۔ اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ شازیہ کے اوپر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کے رفاقت کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔ اگر وہ کوئی فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب تو اس نے ملک سکندر کو زبان دے دی ہے اب اگر اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔
چند دن بعد ہی رفاقت کراچی چلا گیا۔ وہ کسی عرب ملک میں ملازمت کا خواہاں تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے رات دن ایک کر دیئے۔ ڈیڑھ دو ماہ کی بھاگ دوڑ کے بعد اسے اوورسیز پاکستان فاؤنڈیشن کے توسط سے وزارت دفاع سلطنت آف عمان میں نوکری مل گئی۔ دو ہفتے کے بعد وہ مسقط پہنچ گیا۔ پاکستان سے عمان پہنچتے ہی اسے ایسا لگا کہ گلزار سے نکل کر صحرا میں آگیا ہو۔ نہ پاکستانی شہروں جیسی رونقیں، نہ سبز میدان، نہ ہرے بھرے جنگل اور پہاڑ اور نہ وہ ماحول۔ صرف ایک گھنٹہ دس منٹ کی مسافت پر بالکل مختلف دنیا آباد تھی۔ تپتے ریگزار، سبزے سے عاری پہاڑ، چٹیل میدان، نک چڑھے عمانی اور مشینی زندگی اس کی منتظر تھی۔ اس ملک میں اگر کوئی شے پرکشش تھی تو وہ عمانی رالس تھے ان ریالوں کے چکر میں ہزاروں لوگ اپنے اپنے ملک چھوڑ کر یہاں آباد تھے۔
رفاقت کی تنخواہ تقریبا پچاس ہزار روپے ماہانہ تھی۔ 1989 ء میں یہ خاصی معقول رقم تھی لیکن رفاقت کا ہدف کچھ اور تھا جو اس تنخواہ سے پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس میں سے میس کا بل بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ دیگر چھوٹے چھوٹے اخراجات بھی ہوتے تھے۔ اگر بہت زیادہ کنجوسی سے کام لیا جائے تو پھر بھی چالیس ہزار ماہانہ سے زیادہ بچت نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ سالانہ چھٹی نہ لے تو ایک اضافی تنخواہ مل سکتی تھی۔ یہ سب کچھ کرکے بھی سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ تک ہی جمع ہو سکتے تھے۔ جبکہ رفاقت کا ہدف نولاکھ کا تھا۔ گویا ساری بھاگ دوڑ کے بعد بھی اس کا مقصد، جو اس کے لئے اب مقصد حیات تھا، پورا نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال نے رفاقت کو چکرا کر رکھ دیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے۔ وہ دوسرے لوگوں کی طرح اپنے خاندان کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے یہاں نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس کا مقصد کچھ اور تھا۔ اگر وہ سالانہ آٹھ لاکھ روپے بھی جمع کر لیتا تو بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اسے ہر حال میں نو لاکھ سالانہ جمع کرنے تھے۔ وزارت دفاع کی اس ملازمت میں اوقات کار بہت مختصر تھے۔ ساڑھے سات سے شروع ہو کر ڈیڑھ بجے تک کام اور بس۔ جمعرات جمعہ چھٹی تھی۔ گھر میں بھی کچھ کام نہیں ہوتا تھا کہ کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور صفائی کے لئے عملہ موجود تھا۔ اس طرح بہت سا فالتو وقت ہوتا تھا جو عموماََ لوگ آرام میں، گپ شپ میں، فلمیں دیکھ کر، کھیل کود میں اور تاش اور لڈو میں صرف کرتے تھے۔ ملازمت کی شرط کے مطابق پارٹ ٹائم جاب کی اجازت نہیں تھی ورنہ لوگ دوسری جاب کے لئے نکل پڑتے۔
رفاقت نے انگریز ڈسٹرکٹ مینجر سے وقت لیا۔ اسے اپنی کہانی سنائی اور درخواست کی کہ اسے پارٹ ٹائم جاب کی اجازت دی جائے۔ یہ انگریز جس کا نام ٹیلر تھا بالکل ویسا ہی تھا جیسا دیسی فلموں میں انگریز حاکموں کو دکھایا جاتا ہے۔ فربہ جسم، فرنچ کٹ داڑھی، آنکھوں پر نازک سا چشمہ توند نکلی ہوئی اور ہاتھ میں سگار لے کر جب دفتر کی طرف جارہا ہوتا تھا تو لوگ اس کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ وہ انتہائی نک چڑھا، مغرور اور دوسروں کی نہ سننے والا افسر تھا۔ ہر وقت دوسروں پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار بیٹھا رہتا تھا۔ ٹیلر سے بات کرتے ہوئے سب لوگ ڈرتے تھے۔ حالانکہ پاکستان کی نسبت عمان میں افسر شاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ افسروں اور نچلے عملے میں فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔ افسر کو سر کہہ نہیں بلکہ نام لے کر پکارا جاتا ہے چاہے وہ جتنا سینئر ہو۔ کوئی افسر اپنے محدود اختیارات سے تجاوز نہیں کرتا۔ جس ملازم کا جو حق ہوتا ہے وہ کسی درخواست کے بغیر خود بخود مل جاتا ہے۔ مثلا سالانہ چھٹی لیتے ہوئے کسی افسر کو درخواست نہیں دینی پڑتی بلکہ دفتر کے کلرک کو چھٹی کی تاریخیں لکھوانی پڑتی ہیں۔ باقی کام خود کار انداز میں ہوتا ہے۔ چھٹی سے چند دن پہلے پاسپورٹ اور ٹکٹ آپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ کوئی افسر اپنے کسی ماتحت کو ذاتی کام کے لئے نہیں کہہ سکتا۔ گویا یہاں ماتحت کو بھی انسان سمجھا جاتا ہے اور افسر خدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود کچھ انگریز افسر اپنے آپ کو وائسرائے سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ تاہم ان کا سارا زور برصغیر سے آنے والے ملازمین پر ہوتا تھا۔ وہ مقامی عمانیوں سے نہیں الجھتے تھے۔ ان کی ساری افسری پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے لئے ہوتی تھی۔ ٹیلر بھی ایسا ہی افسر تھا۔ اسے کبھی مسکزاتے اور نرم لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا گیا۔
اسی ٹیلر کے ہاتھ میں رفاقت کی قسمت کا فیصلہ آگیا تھا۔ رفاقت نے اسے بتا دیا کہ وہ اپنا کام بدستور پوری محنت اور ایمانداری سے کرتا رہے گا۔ صرف فالتو وقت میں دوسرا کوئی کام کرے گا۔ اس نے ٹیلر کو یہ بھی بتا دیا کہ اگر اسے پارٹ ٹائم جاب کی اجازت نہیں ملی تو مجبوراََیہ نوکری چھوڑنی پڑے گی۔
ٹیلر جو پائپ منہ میں لئے رفاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اے گھور کر دیکھ رہا تھا، اچانک مسکرا اٹھا۔ اس کی گھنی سنہری داڑھی اور بڑی بڑی مونچھوں کے بیچ میں اس کے دانت نمایاں ہوئے تو وہ بالکل مختلف ٹیلر لگا۔ وہ یوں گویا ہوا، ”ویل ڈن ینگ مین! تمہاری کہانی انتہائی دلچسپ اور تمہارا جذبہ قابل ستائش ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ آج کل کے دور میں بھی دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ تم دونوں ایک دوسرے کو پیار کرتے ہو۔ تم دونوں کو ایک ہونے سے کوئی کیسے روک سکتا ہے یہ تو بہت بڑی ناانصافی ہے۔ تمہاری گرل فرینڈ کا باپ بہت ظالم ہے۔ اس کے خلاف قانونی ایکشن کیوں نہیں لیا؟“
رفاقت نے کہا، ”ہمارے علاقے میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی قانون ہے بھی تو وہ پیار کرنے والوں کے خلاف ہے۔ لڑکی کا باپ اور اس کے بھائی آزاد ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، لڑکی کو ہر صورت میں قبول کرنا پڑتا ہے۔ چاہے وہ اس کی موت کا پروانہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ہاں لڑکی یا اس کے چاہنے والے کی نہیں سنی جاتی بلکہ اسے سزا دی جاتی ہے مجھے تو شاید اس لئے بخش دیا گیا کہ وہ میری کزن تھی۔ اگر کوئی غیر ایسا دعوی کرتا تو شاید اسے جان سے مار دیا جاتا۔‘‘
”ویل مسٹر علی! تمہارا مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے۔ میں اپنی ہائی کمان سے تمہارے لئے خصوصی اجازت لینے کی کوشش کروں گا۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ آج تک کسی کو یہ اجازت نہیں ملی۔ میں پوری کوشش کروں گا اور جلد ہی تمہیں اس کے نتیجے سے آگاہ کروں گا۔‘‘
رفاقت مایوس لوٹ آیا۔ اُسے امید نہیں تھی کہ اُسے خصوصی اجازت ملے گی۔ ٹیلر نے دو دن بعد اسے اپنے دفتر میں بلایا تو وہ ایسے گیا جیسے پھانسی کی سزا پانے والے رحم کی اپیل کا فیصلہ سننے جاتے ہیں۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس فیصلے سے اس کی زندگی کا رخ بدل سکتا تھا۔ اس کا احساس اسے بخوبی تھا۔ اس لئے اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی جارہی تھیں۔ اس نے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور اپنی قسمت کا فیصلہ سننے ٹیلر کے دفتر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔
ٹیلر کا چہرہ حسب معمول پتھر کی طرح تھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری سنجیدگی اور ماتھے پر بل تھے۔ وہ کافی دیر تک گھور کر رفاقت کو دیکھتا رہا۔ ادھر رفاقت کی سانس اٹکی ہوئی تھی۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر ٹیلر کو دیکھے جارہا تھا۔ یکایک جیسے بم پھٹا۔ ”you have done it‘‘ ٹیلر یہ کہہ کر کھڑا ہوا اور رفاقت کی طرف اپناہاتھ بڑھا یا۔ رفاقت کو کافی دیر تک جیسے اپنے سماعت پر یقین ہی نہیں آیا۔ وہ بدستور بت بنا ہوا تھا۔ ٹیلر کا ہاتھ رفاقت کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ دھیرے دھیرے رفاقت کا دماغ معمول پر آیا۔ وہ آگے بڑھا اور ٹیلر کے گلے لگ گیا۔ اس وقت دفتر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتیں۔ یہ وہی ٹیلر تھا جو کبھی نرم لہجے میں بات تک نہیں کرتا تھا۔ آج اس نے ایک عام ملازم کو گلے لگایا ہوا تھا۔
ٹیلر نے کہا، ”مسٹر علی میں نے تمہارے لئے خصوصی اجازت حاصل کر لی ہے۔ اس کے لئے میں ہیڈ آفس میں انجینئرنگ ڈویژن کے باس سے خود جا کر ملا تھا۔ تم کام کے اوقات کے بعد اور جمعرات جمعہ کی چھٹی والے دن کوئی اور کام کر سکتے ہو۔ یاد رہے یہ کام آپ کیمپ سے باہر جا کر کریں گے۔ اس کام کی وجہ سے آپ کے سرکاری کام کا حرج بالکل نہیں ہونا چاہیئے۔ جونہی آپ کا ٹارگٹ پورا ہو جائے گا، دوسری جاب ختم کرنی پڑے گی۔“
رفاقت علی کے لئے یہ بہت بڑی خوش خبری تھی۔ یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اسے ایسے لگا جیسے اس کے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دیئے گئے ہوں۔ حالانکہ ابھی بہت سے چیلنج باقی تھے۔ اس نے فوری طور پر دوسری نوکری کے لئے کوشش شروع کر دی۔ چند ہی دنوں میں کیمپ سے باہر نزوہ شہر کے مرکز میں ایک ورکشاپ میں اسے مستری کی نوکری مل گئی۔ رفاقت کے عمانی مالک نے اسے دوپہر تین بجے سے رات نو بجے تک کام کرنے کی اجازت دے دی۔
اب رفاقت کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ وہ صبح میس میں ناشتہ کرتا، ساڑھے سات بجے سے ڈیڑھ بجے تک سرکاری فرائض انجام دیتا۔ ڈیڑھ بجے کام ختم ہوتا تو سب لوگ سیدھے میس میں جاتے جہاں دوپہر کا کھانا تیار ملتا۔ کھانے کے بعد اکثر لوگ اپنے کمروں میں جا کر ائرکنڈیشنر آن کرتے اور سو جاتے۔ شام پانچ چھ بجے اٹھ کر وہ تفریحی مشاغل میں حصہ لیتے تھے۔ دوپہر کی شدید گرمی میں کمروں سے بہتر جگہ کوئی نہیں تھی۔ کچھ منچلے ویڈیو روم میں جا کر فلموں سے دل بہلانے لگتے۔ اس وقت باہر نکل کر دیکھو تو پورے کیمپ میں سناٹا نظر آتا تھا۔
رفاقت کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آتا۔ کپڑے تبدیل کرتا اور دوسری جاب کے لئے نکل پڑتا۔ رات نو بجے جب وہ واپس آتا تو میس بھی بند ہو چکی ہوتی تھی۔ اس کا کھانا ایک ٹیبل پر رکھا ہوتا تھا۔ رفاقت کھانا کھاتا اور اپنے کمرے میں جا کر سو جاتا کہ اگلے دن پھر وہی عمل دہرانا ہوتا تھا۔ جمعرات کا پورا دن وہ دوسری جاب کو دیتا تھا۔ تاہم جمعہ والے دن اس کی چھٹی ہوتی، جس میں وہ کمرے کی صفائی کرتا، اپنے کپڑے استری کرتا، تیراکی کرتا اور آرام کرکے پورے ہفتے کی تھکن اتارتا۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنی محنت کے باوجود اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نہیں ہوتے تھے۔ دن کے اوقات کا ر میں اکثر لوگ ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگتے۔ بعض ناشتہ کرنے کے بہانے کمرے میں جا کر بیٹھ جاتے۔ بعض مصروف نظر آتے تھے لیکن وہ دراصل کام نہیں کر رہے ہوتے تھے بلکہ صرف ایسا ظاہر کرتے تھے۔ لیکن رفاقت پوری محنت اور جانفشانی سے مسلسل کام کرتا تھا۔ حالانکہ اس کا کام صرف نگرانی کرنا تھا۔ لیکن وہ خود مکینک بن کر سارا دن لگا رہتا تھا۔ ایک ساتھی کی مدد کرکے ہٹتا تو دوسرے کی شروع کر دیتا تھا۔ اس کو کبھی فارغ نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ٹیلر جسے نک چڑھے انگریز نے اس کی درخواست رد نہیں کی تھی اور مروجہ طریقے سے ہٹ کر اس کی مدد کی تھی۔ اسے رفاقت کی محنت اور صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ تھا۔ باقی لوگ ہر سال چھٹیوں پر اپنے اپنے ملکوں میں جاتے تھے۔ آنے جانے کا ٹکٹ مفت تھا اور چھٹیوں میں بھی پوری تنخواہ ملتی تھی۔ رفاقت پچھلے اڑھائی برس سے یہاں تھا۔ یوں اس کو سال میں تیرہ تنخواہیں ملتی تھیں۔ علاوہ ازیں عیدین پر آٹھ دس چھٹیاں ہوتی تھیں۔ رفاقت ان چھٹیوں میں بھی باہر والی ورکشاپ میں کام کرتا رہتا تھا۔ وہ مالک کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ پرانی گاڑیاں خریدتا، ان کی مرمت کرکے بیچتا تو اس سے بھی کچھ رقم بچا لیتا تھا۔ اس کے کمرے کے باہر اکثر کوئی نہ کوئی قابل فروخت گاڑی کھڑی نظر آتی۔ غرضیکہ روپیہ جمع کرنے کے لئے وہ رات دن ایک کئے ہوئے تھا۔ رفاقت دو قسطوں میں ملک سکندر کو سولہ لاکھ بھیج چکا تھا۔ چھ ماہ باقی تھے۔ اس کے بعد اس نے نو لاکھ ادا کرنے تھے۔ اور پھر اس کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ جانا تھا۔ اس کے خوابوں کی جنت اب زیادہ دور نہیں تھی۔
رفاقت کی اس کہانی کا علم ہمارے کیمپ میں صرف دو آدمیوں کو تھا۔ ایک ٹیلر تھا جس نے اسے جز وقتی کام کی خصوصی اجازت دلوائی تھی۔ دوسرا میں تھا جو اس کا راز دار تھا۔ باقی لوگ رفاقت کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے رہتے تھے۔ لیکن انہیں اصل کہانی کا علم نہیں تھا۔ رفاقت کی پیروی کرتے ہوئے کئی دوسرے لوگوں نے بھی جز وقتی کام کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ اجازت کسی اور کو کبھی نہ ملی۔
رفاقت کے دل کا حال مجھے معلوم تھا کیونکہ یہ غبار وہ صرف میرے سامنے ہی نکالتا تھا۔ صحرا کے اس سفر میں بھی رفاقت نے اپنی بے چینیوں کا ذکر کیا۔ اسے شازیہ سے دور ہوئے اڑھائی سال ہوگئے تھے۔ یہ عرصہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بن گیا تھا۔ ایک طرف تو اس نے ملک سکندر کے مطالبے کو پورا کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائی ہوئی تھی۔ دوسری طرف وہ جس کی چاہت میں یہ سب کچھ کر رہا تھا اس سے ہزاروں میل دور پردیس میں بیٹھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسی ہے کس حال میں ہے۔ رفاقت کے آنے کے بعد اس پر کیا گزری؟ گھر والوں کا اس کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ رفاقت کے پاس فالتو لمحات کم ہی ہوتے تھے۔ اگر کوئی لمحہ خالی ملتا تو وہ اس کے سامنے آکھڑی ہوتی۔ پھر تصور جاناں میں لمحات برق رفتاری سے گزر جاتے۔ بقول شاعر،
دن مشقت کی نذر تو رات یادوں کی چبھن
شازیہ کی یادوں اور اس کی باتوں میں رفاقت مگن ہوتا تو اسے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔ ہمیں اس گاؤں سے نکلے تین گھنٹے ہونے والے تھے لیکن ابھی تک شافع (کیمپ کا نام) کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ حد نظر تک صحرا پھیلا ہوا تھا۔ ہم نے راستہ کھو دیا تھا۔
یہ انتہائی خطرناک صورت حال تھی۔ دراصل یہ صحرائی راستے کسی سنگ میل یا نشان راہ سے عاری ہوتے ہیں۔ صرف پہلے گزری گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات دیکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ عجیب سا صحرائی علاقہ تھا۔ اس میں مکمل صحرا کی طرح صرف ریت ہی ریت نہیں تھی بلکہ چھوٹے اور بڑے پتھر، صحرا کی جھاڑیاں اور ریت شامل تھی۔ جب ہوا تیز چلتی تھی تو ریت اڑ کر گاڑیوں کے نشانات کو معدوم کر دیتی تھی۔ صحرا میں ڈرائیو کرنے والے ڈرائیوروں کو ان نشانات کو ڈھونڈنا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہوتا تھا۔ لہذا ڈرائیور کی نظر کسی اور چیز کی بجائے ان نشانات پر لگی رہتی تھی۔ ہم نے یہ نشانات گنوا دیئے تھے اور نہ جانے کب سے بے نشان اور بے سمت چلے جارہے تھے۔ گاڑی پہلے سے زیادہ ہچکولے کھا رہی تھی۔ پتھر اڑ اڑ کر گاڑی سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ دیر تک تو رفاقت اس امید پر ڈرائیو کرتا رہا کہ شاید گزری ہوئی گاڑیوں کے گمشدہ آثار پھر سے نظر آجائیں۔ لیکن جب کافی دیر تک یہ نشان نظر نہ آئے تو اس نے گاڑی روک دی۔ ”لگتا ہے ہم راستے سے بھٹک کر کھلے صحرا میں آگئے ہیں۔ میں پہلے دو دفعہ شافع جا چکا ہوں اس لئے نشانِ راہ دیکھے بغیر گاڑی چلاتا رہا میں پراعتماد تھا کہ درست راستے پر جارہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں تھا“رفاقت کے لہجے میں تشویش تھی۔
ہم گاڑی سے باہر نکل آئے۔ پھر مختلف سمتوں میں جا کر کسی گزری ہوئی گاڑی کے پہیوں کے نشانات ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن لگتا تھا کہ اس پورے علاقے سے پہلے کسی انسان کا گزر نہیں ہوا تھا۔ میں نے کہا رفاقت واپس اسی راستے پر جانے کی کوشش کرو جہاں سے ہم آئے ہیں ورنہ ہم صحرا میں بھٹک کر رہ جائیں گے۔ رفاقت نے گاڑی واپس موڑ لی اور اپنی ہی گاڑی کے ٹائروں کے نشانات دیکھ کر اس کے اوپر ڈرائیو کرنے لگا۔ اس وقت سہ پہر کے چار بج چکے تھے۔ ہمیں اپنے کیمپ سے نکلے دس گھنٹے گزر چکے تھے۔ اگر ہم سیدھے راستے پر جاتے تو بہت پہلے شافع پہنچ جاتے۔ گاڑی کے انجن کے درجہ حرارت والی سوئی بار بار سرخ حصے یعنی خطرے کے نشان کو چھو رہی تھی۔ خود ہمارے چہرے جیسے تپ رہے تھے اور بدن سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ اس گرم صحرا میں گاڑی کے ائرکنڈیشنگ کا اثر بھی جیسے کم ہوگیا تھا۔ یوں بھی ہم وقفے وقفے سے ائرکنڈیشنر کو آن اور آف کر رہے تھے۔ یکایک رفاقت نے گاڑی روک دی۔ اس نے اپنا سر سٹیرنگ پر ٹکا لیا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ”خیریت تو ہے۔‘‘
اس نے گاڑی کے فیول گیج کی طرف اشارہ کیا۔ فیول گیج دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ گاڑی میں پٹرول ختم ہو چکا تھا۔ ریزرو ٹینک میں بچے کھچے پٹرول سے ہم چند کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں جا سکتے تھے۔ یہ انتہائی تشویش ناک بلکہ خطرناک صورت حال تھی۔ ”ہمارے پاس فالتو پٹرول نہیں ہے کیا؟‘‘ میں نے پوچھا،
”نہیں‘‘ رفاقت نے مایوسی سے کہا۔ ”عام حالات میں فالتو پٹرول کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ٹینک بھرا ہو اور ہم سیدھے راستے پر جارہے ہوں تو آرام سے شافع پہنچ سکتے تھے۔ اگر ہم صحیح راستے پر ہوتے تو کسی گزرنے والی گاڑی سے مدد لی جا سکتی تھی۔ لیکن اب ہم بری طرح پھنس گئے ہیں۔ ہم اپنے راستے سے نہ جانے کتنا دور ہیں۔ گاڑی کسی بھی وقت بند ہو سکتی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر تک ہم خاموش ہوگئے۔ دل میں بُرے بُرے خیالات آرہے تھے۔ اس دوران گاڑی جھٹکے لینے لگی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ گاڑی بند ہوگئی۔
ہم دونوں سراسیمہ ہو کر بیٹھ گئے۔ دونوں یہی سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اس صحرا میں بھوکے پیاسے مر جائیں گے۔ اپنے وطن اور پیاروں سے دور اس طرح کی بے بسی کی موت کے تصور سے ہی دل لرزا جارہا تھا۔ دوسری طرف امید کی شمع بھی گل نہیں ہوئی تھی۔ شاید کہیں سے کوئی مدد آجائے۔ شاید ہمارے محکمے کے لوگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم تک پہنچ جائیں۔ ہم کسی اور کی مدد کے لئے نکلے تھے۔ ان کو تو ہم نہ ڈھونڈ سکے، اُلٹا خود مدد کے منتظر تھے۔ بالآخر میں نے کہا، ”رفاقت ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہاں بیٹھ تو نہیں سکتے۔ اس مصیبت سے نکلنے کے لئے کچھ تو کرنا ہوگا۔‘‘
رفاقت نے جھکا ہوا سر اٹھایا تو اس کا چہرہ مایوسی سے اٹا ہوا تھا۔ میں نے اسے اس قدر مایوس کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ زندگی نے اسے بہت بڑا چیلنج دیا تھا اور اس نے اس چیلنج کو مردانہ وار قبول بھی کیا تھا۔ لیکن آج وہ انتہائی مایوس نظر آرہا تھا، ”ہم بری طرح پھنس گئے ہیں۔ اس صحرا سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ ہمارے پاس پانی کی صرف دو بوتلیں اور چند بسکٹ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ستر اسی کلو میٹر صحرا کے اندر آگئے ہیں۔ ہم اگر سیدھے اسی راستے سے واپس جائیں تو واپسی کے لئے تین چار دن درکار ہوں گے۔ اتنی گرمی میں پانی اور خوراک کے بغیر یہ ناممکن ہے۔‘‘ رفاقت کے ایک ایک لفظ سے پریشانی عیاں تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے اتنا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا، جتنا خوف زدہ رفاقت نظر آرہا تھا۔ شاید مجھے حالات کی سنگینی کا صحیح اندازہ نہیں تھا یا اپنے اوپر کچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا۔ بہرحال جب میں نے یہ محسوس کیا کہ رفاقت بالکل ہی ہمت ہار رہا ہے تو میں نے اسے تسلی دی، ”فکر نہ کرو ہمارے محکمے کے لوگ ہماری مدد کو ضرور آئیں گے۔ آخر ہم آرمی کے لوگہیں۔ یہ اتنا بڑا ادارہ ہے۔ ان کے پاس ہیلی کاپٹر سمیت بہت سارے وسائل موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ ہمیں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔‘‘
”طارق تم ابھی نئے ہو۔ اس سے پہلے ہمارے ہی محکمے کے کتنے لوگ اس خونی صحرا کی نذر ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے صحرا میں ہیلی کاپٹر کے لئے بھی ہمیں ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بہرحال تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہاں بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ ہم اسی راستے پر پیدل واپس جائیں گے جس راستے سے یہاں آئے ہیں۔‘‘
ہم نے پانی کی بوتلیں، بسکٹ کا ڈبہ اور دیگر ضروری کاغذ وغیرہ ایک بیگ میں رکھے، گاڑی پر الوداعی نظر ڈالی اور صحرا میں پیدل چل پڑے۔
وہ بھی کیا منظر تھا۔ آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو جیسے رونگٹے سے کھڑے ہو جاتیں ہیں۔ حد نظر تک صحرا ہی صحرا تھا۔ اُونچے نیچے ٹیلے تھے۔ کالے اور بھورے پتھر تھے۔ اُڑتی ریت تھی۔ لہریں لیتی دھوپ تھی۔ کہیں کہیں کانٹے دار جھاڑیاں تھیں اور بس۔ دھوپ میں اتنی تپش تھی کہ چہرہ جلاجاتا تھا۔ ہم نے رومال سے چہرے ڈھانپنے کی کوشش کی تو سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ فوجی وردی کے نیچے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ یہ پسینہ خشک ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ اتنا پسینہ بہنے کے باوجود جسم پھر بھی تپ رہا تھا۔ ہمارے پاس ایک ایک لیٹر پانی والی دو بوتلیں تھیں، جو آدھی سے زیادہ خالی ہو چکی تھیں۔ گاڑی میں سفر کرتے وقت ہم وقفے وقفے سے ایک دو گھونٹ پیتے رہے تھے۔ اگر ہمیں اس ناگہانی مصیبت کا ذرا سا بھی اندازہ ہوتا تو پانی کا استعمال احتیاط سے کرتے۔ پھر خیال آتا اگر اس مصیبت کا پہلے سے اندازہ ہوتا تو اس میں پھنستے ہی کیوں۔
چلتے چلتے ہماری ٹانگیں دُکھنے لگیں۔ یہ سیدھا اور آسان سفر نہیں تھا۔ ناہموار زمین، بے شمار پتھر اور ریت راہ کی رکاوٹ تھیں۔ جب ہوا تیز چلتی تو گرم لو کے ساتھ ساتھ ریت اڑ کر چہرے، گردن اور جسم کے ننگے حصوں سے ایسے ٹکراتی جیسے چنگاریاں ٹکرا رہی ہوں۔ پسینے کی وجہ سے یہ ریت جسم کے ساتھ چپک جاتی تھی۔ جہاں ہاتھ لگاؤ وہاں چپچپاہٹ سی محسوس ہوتی تھی۔
اس صحرا میں چلتے چلتے پانچ گھنٹے ہوگئے تھے۔ اب سورج مغرب کی جانب جھکتا جارہا تھا۔ مزید چلنے کی ہمت نہیں تھی، لیکن موسم بہتر ہونے کی وجہ سے ہم ایک گھنٹہ مزید چلتے رہے۔ اب سورج ڈوب چکا تھا اور آسمان پر تارے چمک رہے تھے۔ اگر منزل سامنے ہوتی تو ہم مزید چلتے رہتے لیکن ابھی تو منزل دور تھی بلکہ منزل کا پتہ تھا نہ درست سمت کا اندازہ۔ اس لئے تھکن جسم و جان پر غالب آگئی اور ہم نے ایک ٹیلے کے اوپر ڈیرے ڈال دیئے۔
یہ ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا جو چھوٹے بڑے پتھروں سے اٹا ہوا تھا۔ ہم نے کچھ پتھر ہٹائے اور اپنے لیٹنے کی جگہ بنائی۔ پھر ایک انوکھا منظر ہمارے سامنے تھا۔ اتنا وسیع آسمان اور اتنے بے شمارے تارے ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان تاروں نے صحرا کو روشن کر رکھا تھا۔ صحرا کی رات بالکل مختلف محسوس ہوئی۔ ادھر گرمی کی جگہ خنکی نے لے لی تھی۔ موسم کی یہ یکایک تبدیلی حیران کن تھی۔ تھوڑی دیر پہلے بدن کو جھلسانے والی لو کا سامنا تھا۔ اس گرمی سے نجات ملی تو بڑھتی ٹھنڈ نے ہمارے لئے ایک اور مشکل کھڑی کر دی۔ اس ٹھنڈ سے بچنے کے لئے وہاں کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔
ہم دونوں لیٹے اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ آج کے آدھے دن کے سفر نے ہی ہماری چولیں ہلا دیں تھیں۔ نہ جانے کتنا مزید سفر باقی تھا۔ ہمارے جسم سے پانی کا ایک ایک قطرہ پسینہ بن کر نکل گیا تھا۔ دوسری جانب پانی تقریباََ ختم ہو گیا تھا۔ حالانکہ ان پانچ گھنٹوں میں ہم نے پانی پیا ہی نہیں۔ صرف اکڑی زبان کو تر کرنے کے لئے چند قطرے حلق میں ٹپکاتے رہے تھے۔ ان چند قطروں سے ہی ہماری بوتلیں تقریباََ خالی ہوگئی تھیں۔ دونوں بوتلوں میں صرف چند گھونٹ بچے تھے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے ہم نے بسکٹ کھانے سے بھی گریز کیا۔ ڈر تھا کہ گلے میں اٹک کر نہ رہ جائیں۔ میں ٹیلے پر لیٹا کھلے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ دور دور تک تاروں کی بارات سجی ہوئی تھی۔ چاند کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے باوجود صحرا قدرے روشن تھا۔ اونچے نیچے ٹیلے ہاتھیوں کی طرح نظر آتے تھے۔ جب ہوا تیز چلتی تو سیٹیاں سی بجنے لگتیں۔ اگر ہم اس مصیبت میں نہ پھنسے ہوتے تو اس وقت یہ منظر کتنا حسین دکھائی دے رہا ہوتا۔ لیکن اب حالات مختلف تھے۔ سچ ہے کہ حسن، شاعری اور موسیقی بھرے پیٹ کو ہی بھاتی ہے۔ خالی پیٹ یہچونچلے اچھے نہیں لگتے۔ ہم بھوکے اور پیاسے تھے اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ اس مصیبت سے جان چھوٹے گی یا نہیں۔
آج سارا دن ہم آپس میں بھی بہت کم بولے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری زبانیں سوکھی ہوئی تھیں اور بولنا مشکل لگتا تھا۔ کہنے کے لئے کچھ تھا بھی نہیں۔ منزل کا اتا پتا نہیں تھا اور نہ ہی وہاں پہنچنے کی اُمید تھی۔ اگر امید کی کوئی کرن تھی تو وہ آرمی کی مدد کی تھی۔ یہ تو ہم جانتے تھے کہ ہماری تلاش شروع ہو چکی ہوگی۔ لیکن اہم سوال یہ تھا کہ وہ ہمیں ڈھونڈ بھی پائیں گے یا نہیں۔ رات کی اس تاریکی میں تو کوئی امید نہیں تھی۔ دن کی روشنی میں شاید کوئی ہیلی کاپٹر ہمیں دیکھ سکے۔ اس اُمید نے کسی قدر حوصلہ دے رکھا تھا۔ ورنہ بغیر پانی کے اس صحرا سے پیدل نکلنا ناممکن تھا۔ پھر یہ خیال آتا کہ ان صحراؤں نے اب تک نہ جانے سینکڑوں ہزاروں جانیں لی ہوں گی۔ وہ لوگ بھی دم توڑتے وقت تک کسی نہ کسی امید اور مدد کا انتظار کرتے رہے ہوں گے۔ پھر ایک وقت آتا ہوگا جب امید کے تمام چراغ گل ہو جاتے ہوں گے۔ اس بے آب و گیاہ صحرا میں بے یارو مددگار بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دینے کے منظر کے تصور سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں ان بداندیشوں کو ذہن سے جھٹک کر امید کا چراغ روشن کرنے کی کوشش کرنے لگتا تھا۔ امید، وہم، وسوسوں اور اندیشوں بھرے ان خیالات میں کھوئے کھوئے سردی سے سکڑا اور سمٹا نہ جانے کب میں نیند کی مہربان آغوش میں چلا گیا۔
میری آنکھ رفاقت کی کراہوں کی وجہ سے کھلی۔ گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو صبح کے چار بجے تھے۔ اردگرد وہی صحرا کی رات کا منظر تھا۔ ایک فرق یہ تھا کہ چاند نکلا ہوا تھا۔ جس سے پورا صحرا چاندنی میں نہایا ہوا تھا۔ میرے قریب ہی رفاقت سکڑا پڑا تھا۔ سردی سے اس پر کپکپی طاری تھی۔ میں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وہ تپ رہا تھا۔ اُسے سردی یا کسی اور وجہ سے بخار ہوگیا تھا۔ یہ انتہائی تشویش ناک صورت حال تھی۔ ہم پہلے ہی بے سرو سامان اور بھوکے پیاسے صحرا میں پھنسے ہوئے تھے۔ اوپر سے رفاقت کی یہ اچانک بیماری ہم دونوں کے لئے ایک بڑی مصیبت کا پیش خیمہ تھی۔ ہمارے پاس دوا دارو تو درکنار پینے کے لئے پانی تک نہیں تھا۔ اوپر سے کبھی گرمی کا عذاب اور کبھی سردی کا عذاب درپیش تھا۔ یا اللہ تو نے ہمیں کس آزما ئش میں لا کرکھڑا کر دیا۔ میں نے اپنی قمیض اُتار کر رفاقت پر ڈال دی اور اس کا سردبانے لگا۔ مجھے بھی سردی لگ رہی تھی لیکن میں برداشت کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ رفاقت کی بوتل اس کے پاس خالی پڑی ہے۔ اس میں ایک قطرہ بھی نہیں بچا تھا۔ رات کے نہ جانے کس پہر رفاقت نے اپنا بچا کھچا پانی پی لیا تھا، شاید طبیعت بگڑنے کی وجہ سے۔ میں نے اپنی بوتل سے چند قطرے اس کے منہ میں ٹپکائے تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت افق پر سرخی ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔ رفاقت نے آنکھیں کھولیں تو میں نے پوچھا، ”اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟“
”میں ٹھیک نہیں ہوں۔ سخت ٹھنڈ لگ رہی ہے اور میرے سینے میں درد بھی ہے۔‘‘ رفاقت نے بتایا،
”شاید اسی وجہ سے تم نے پانی بھی پیا لیا۔ بہرحال ہمت کرو۔ ابھی موسم بہتر ہے ہمیں چل دینا چاہئیے۔ سورج بلند ہوگیا تو گرمی اور دھوپ میں سفر مشکل ہوگا۔‘‘
”طارق کوئی فائدہ نہیں!ہمیں نہ سمت کا اندازہ ہے نہ صحرا سے نکلنے والے راستے کا علم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم صحرا کے مزید اندر جارہے ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ تیز ہواؤں نے ہماری گاڑی کے پہیوں کے نشانات بھی مٹا دیئے ہیں۔‘‘ رفاقت نے نقاہت اور مایوسی سے کہا۔
”پھر بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ ہم کوشش جاری رکھتے ہیں باقی اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نے ہمیں زندہ رکھنا ہوا تو خود ہی درست راستے پر ڈال دے گا۔‘‘ میں نے اس کی ہمت بندھانے کی کوشش کی۔
رفاقت نے میری قمیض واپس کر دی۔ ہم گرتے پڑتے ایک سمت کو چل دیئے۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ جس سمت سے صحرا میں آئے تھے اسی راستے پر واپس چلتے جائیں۔ لیکن یہ یقینی نہیں تھا کہ ہم اسی سمت میں جارہے ہوں۔ ہمارا اندازہ غلط بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ دوسری سمت میں صحرا سے نکلنا شاید زیادہ آسان ہو۔ لیکن کاش ہمیں علم ہوتا۔ بغیر کسی علم کے یہ رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ لہذا ہم نے واپسی کا سفر جاری رکھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد سورج مشرق سے طلوع ہوا تو اس کی کرنیں بغیر کسی رکاوٹ کے براہ راست ہمارے جسموں سے ٹکرائیں۔ ہم رات بھر کے ٹھٹھرے ہوئے تھے اس لئے شروع میں یہ نرم اور نیم گرم کرنیں بھلی محسوس ہوئیں۔ انہوں نے ہمارے جسموں کی کھوئی ہوئی حرارت لوٹا دی۔ رفاقت کی طبیعت اب قدرے بہتر معلوم ہو رہی تھی ہم ایک متوازن رفتار سے نوکیلے پتھروں کو روندتے چلے جارہے تھے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے توں توں سورج کی تپش بڑھتی جارہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ نرم کرنیں روپ بدل کر نیزوں کی طرح چبھنے لگیں۔ اُدھر پیٹ خالی ہونے کی وجہ سے نقاہٹ بڑھتی جارہی تھی۔ ہم نے ایک بسکٹ رات میں کھایا تھا اور ایک صبح۔ ایک چھوٹے سے بسکٹ سے بھلا کیا بننا تھا۔ اس لئے پیٹ اس وقت چاروں قل پڑھنے میں مصروف تھا۔ سب سے بڑا اور سب سے تشویش ناک مسئلہ پانی کا تھا۔ میری بوتل میں ایک دو گھونٹ سے زیادہ پانی نہیں تھا۔ صبح سے اسے ہم نے چھوا بھی نہیں تھا۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ یہ ایک دو گھونٹ کسی برے وقت کے لئے چھوڑ دیئے جائیں اس گرمی، اس تپش اور حد نظر تک پھیلے اس صحرا میں وہ برا وقت دور نہیں تھا۔
رفاقت بار بار بیٹھ جاتا تھا۔ میں جب بھی اس سے اس کی خیریت دریافت کرتا وہ یہی کہتا تھا کہ میں ٹھیک ہوں۔ لیکن وہ ٹھیک نہیں تھا۔ اس کے سوکھے ہونٹ اس کی آنکھوں کی وحشت اور اس کی چال بتا رہی تھی کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آج ہماری رفتار بہت سست تھی۔ ہم نے بمشکل آٹھ دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوا ہوگا کہ سورج جیسے سوا نیزے پر آگیا۔ وہ ہمارے سروں کو چھوتا محسوس ہو رہا تھا۔ لوُ چلتی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ بہت سی چڑیلیں چیخ رہی ہوں۔ یہ لو دکھائی بھی دیتی تھی۔ اب ہم مزید چلنے کی بجائے کسی جائے پناہ کی تلاش میں تھے۔ ایک چھوٹا سا جھاڑی نما درخت نظر آیا تو ہم اس کی طرف بڑھے۔ اس جھاڑی پر پتے نہ ہونے کے برابر تھے۔ کانٹوں بھری اس جھاڑی کے نیچے دھوپ سے بچت نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر بھی یہ جھاڑی ہمیں غنیمت محسوس ہوئی اور اس کے نیچے لیٹ کر سستانے لگے۔
میرزا غالب دلی کی گرمی کا ذکر نواب امین الدین احمد خان کو اپنے ایک مکتوب میں یوں کرتے ہیں۔ ”یہاں کا حال کیا لکھوں؟ بقول سعدی الرحمتہ نہ ماند آب جز چشم دریتیم۔ شب و روز آگ برستی ہے یا خاک۔ نہ دن کو سورج نظر آتا ہے نہ رات کو تارے۔ زمین سے اٹھتے ہیں شعلے آسمان سے گرتے ہیں شرارے۔ چاہا تھا کہ کچھ گرمی کا حال لکھوں۔ عقل نے کہا دیکھ نادان قلم انگریزی دیا سلائی کی طرح جل اٹھے گی اور کاغذ کو جلا دے گی۔ بھائی ہوا کی گرمی تو بڑی بلا ہے۔ گاہ گاہ جو بند ہو جاتی ہے تو وہ اور بھی جاں گزا ہے۔‘‘
میں سوچتا ہوں کہ میرزا غالب نے دلی کی گرمی کا نقشہ ایسا کھینچا ہے۔ اگر انہیں ہماری طرح اس صحرائے خشک میں اس جان لیوا گرمی کا سامنا کرنا پڑتا تو پھر کیا کچھ نہ لکھ ڈالتے۔ رفاقت آج بالکل خاموش تھا۔ وہ جب لیٹا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی سانس اٹک اٹک کر آرہی ہے۔ ہر سانس کے ساتھ وہ چھاتی پر ہاتھ رکھ لیتا تھا۔ اس کے سینے کی کھڑ کھڑاہٹ محسوس کی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کے اندر کا درد وہ خود ہی جانتا تھا۔ اس کے ہونٹ سوکھے، آنکھیں زرد اور چہرہ کمہلایا ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے اس وقت میرا چہرہ بھی اس سے مختلف نہ ہو۔ لیکن میری سانسیں قابو میں تھیں۔ میں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو وہ تپ رہا تھا۔ صبح یہ بخار قدرے کم ہوا تھا۔ اب پھر بڑھ گیا تھا۔ اسی بخار کی وجہ سے اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ میری تشویش بڑھ گئی۔ رفاقت کو فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔ ورنہ یہ بیماری اگلے چند گھنٹوں میں خطرناک شکل اختیار کر سکتی تھی۔ کسی بھی امداد کے لئے ہماری نظریں آسمان کی طرف اٹھتی تھیں۔ اپنے پروردگار کے بعد دوسرے نمبر پر ہمیں آرمی کی مدد کا انتظار تھا۔ چونکہ ہماری وردیوں کے رنگ خاکستری تھے۔ اس لئے اندیشہ تھا کہ اوپر سے ہمیں دیکھنے میں انہیں کوئی دقت نہ پیش آئے۔ اس خطرے کے پیش نظر ہم نے اپنی سفید بنیانیں اتار کر سر پر باندھ لی تھیں۔ لیکن کل سے آج تک کسی ہیلی کاپٹر کی شکل تک نظر نہ آئی۔ سہ پہر چار بجے تک ہم وہیں لیٹے رہے آج کی دوپہر ہمیں کل سے زیادہ ظالم محسوس ہوئی۔ سورج کی انتہائی تیز کرنیں، گرم لو کے تھپیڑے اور ہوا کی خشکی ہمیں جلائے دے ر ہی تھیں۔ اوپر سے پانی کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں گیا تھا۔ جسم کے اندر پانی کی جو کمی ہوگی وہ تو ہوگی لیکن ہونٹ، زبان اور حلق سوکھی لکڑی کی طرح اکڑے ہوئے تھے۔ منہ میں لعاب تک سوکھ چکا تھا۔
چار بجے ہم اس جھاڑی کے پاس اٹھے تو آ دھاآدھا گھونٹ لے کر زبان تر کی۔ اس پانی سے حلق اور جسم کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ یہ وہاں تک پہنچا ہی نہیں۔ اس دفعہ رفاقت کے قدم متوازن نہیں تھے۔ وہ انتہائی سست رفتار سے تقریباً ڈگمگا تا چل رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اپنے اُوپر جبر کرکے چل رہا ہے اور کسی بھی وقت گر جائے گا۔ اس خدشے کے پیش نظر میں اس کے پیچھے چلرہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ہم تیز قدم اٹھا کر جلد سے جلد صحرا سے نکلنے کی کوشش کریں لیکن اپنے ساتھی کی بیماری کی وجہ سے میں معذور تھا۔
میں طالب علمی کے زمانے سے کھیلوں کا شوقین تھا۔ یہ شوق اتنا زیادہ تھا کہ کسی ایک کھیل تک محدود نہیں تھا۔ سکول کے زمانے میں بیک وقت ہاکی، فٹ بال اور والی بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ تینوں کھیلوں کے انچارج مجھے اپنی ٹیم میں لینا چاہتے تھے۔ لیکن مقابلوں کے وقت کسی ایک کھیل کا انتخاب کرنا ضروری تھا۔ لہذا میں نے ہاکی کا انتخاب کیا۔ ہاکی ٹیم میں رہ کر میں نے اپنے سکول کی نمائندگی ضلع کی سطح تک کی۔ سکول سے نکلنے کے بعد کالج اور پھر ملازمت کے دوران ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، تیراکی اور سکواش جیسے کھیلوں میں بھی میں نے مہارت حاصل کی۔ یہاں عمان میں کھیل کود کے تمام وسائل مفت میسر تھے۔ میں ہر صبح کا آغاز چھ کلو میٹر کی دوڑ سے کرتا تھا اور شام کو سپورٹس کمپلیکس کی تقریبا ًہر کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ سکواش کھیل کر ہٹتا تو بیڈ منٹن کھیلنے لگتا، وہاں سے نکلتا تو سوئمنگ پول میں جا کر تیراکی کرنے لگتا۔ پھر جمنازیم میں جا کر کسرت کرنے لگتا۔ شام چار بجے سے آٹھ بجے تقریباً چار گھنٹے میں روزانہ سپورٹس کمپلیکس میں گزارتا تھا۔ اسی لئے میں جسمانی طور پر بہت فٹ اور چاک و چوبند تھا۔ اس فٹنس کا فائدہ مجھے اس صحرا میں پھنس کر ہوا۔ بھوکا پیاسا ہونے کے باوجود میرے جسم میں اتنی توانائی باقی تھی کہ میں میلوں پیدل چل سکتا تھا۔ چوبیس گھنٹے سے تقریبا ًخالی پیٹ ہونے کے باوجود ناتوانی نے میرے اوپر غلبہ حاصل نہیں کیا تھا۔ شاید اسی لئے میرے اندر ہمت اور اُمید بھی زندہ تھی۔ لیکن میرے پاؤں رفاقت کی وجہ سے بندھے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ سے میں تیز اور مسلسل نہیں چل سکتا تھا۔ میری دعا تھی کہ خدا اس کو ہمت اور طاقت دے تاکہ ہم دونوں اس خونی صحرا سے باہر نکل سکیں۔
شافع جانے والے جس کچے راستے سے بھٹک کر ہم صحرا میں داخل ہوئے تھے میرے اندازے کے مطابق وہ جگہ ہماری گاڑی سے اسی نوے کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں ہونی چا ہیے تھی۔ ہماری ابتدائی منزل وہی راستہ تھا۔ ایک دفعہ اس راستے تک پہنچ جاتے تو وہاں سے امداد ملنے کی کافی امید تھی کیونکہ اس راستے پر گاہے گاہے گاڑیاں گزرتی رہتی تھیں۔ اگر ہم سیدھے راستے پر چلتے رہتے تو دو تین دن میں وہاں پہنچ سکتے تھے۔ لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔ ہم راستے کا تعین کھو چکے تھے۔ خوراک اور پانی ختم ہو چکا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میرا ساتھی شدید بیمار تھا۔ اب منزل بہت دور ہو چکی تھی۔ لگتا تھا کہ ہم کبھی بھی اس منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
ہم سست رفتاری سے چلے جارہے تھے۔ رفاقت کا ایک بازو میرے کندھے پر تھا اور میں نے اسے سہارا دیا ہوا تھا۔ اس کا بخار بڑھتا ہی جارہا تھا۔ سانس اور کھانسی کی تکلیف بھی بڑ ھ رہی تھی۔ میرے پاس ایک دو گھونٹ پانی بچا تھا۔ میں نے رفاقت سے کہا، ”رفاقت یہ پانی تم پی لو۔ ہو سکتا ہے اس سے تمہاری طبیعت بہتر ہو جائے۔‘‘
رفاقت نے بڑی مشکل سے بولتے ہوئے کہا، ”نہیں ابھی نہیں، میں ٹھیک ہوں۔ ایسا کرو تم مجھے چھوڑو اور اکیلے چلے جاؤ۔ میرے لئے اب چلنا دشوار ہے۔ تم اگر بچ گئے تو مجھے بھی بچانے کی کوشش کر سکتے ہو۔ ورنہ ہم دونوں اس صحرا کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔‘‘
”نہیں رفاقت‘‘ میں نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے سختی سے کہا، ”میں تمہیں اس حال میں چھوڑ کر بالکل نہیں جا سکتا۔ مجھے نہ راستے کا علم ہے اور نہ خیریت سے پہنچنے کا یقین۔ ایسی حالت میں میں تمہیں بھی اکیلا چھوڑ دوں تو ہم دونوں کا حشر تو ایک ہی ہوگا لیکن الگ الگ۔ اِس برے وقت میں ہم دونوں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے۔ اس لئے میں تمہیں چھوڑ کر ہر گز نہ جاؤں گا۔“
”طارق ضد نہ کرو! میں تمہیں حقیقت بتاؤں تو میرا بچنا اب مشکل ہے۔ میں بہت مشکل سے سانس لے رہا ہوں۔ میرے سینے میں شدید درد ہے۔ یہ تکلیف مسلسل بڑھ رہی ہے۔ میرا انجام سامنے ہے۔ تم اگر مسلسل چلتے رہے تو یقیناًصحرا سے نکل سکتے ہو۔‘‘ رفاقت نے بمشکل اپنی بات ختم کی۔
”جب تمہیں اپنی بیماری کی شدت کا اندازہ ہوگیا ہے تو ایسی حالت میں میں تمہیں بے یارو مددگار کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں۔ اگر ہماری زندگیاں باقی ہیں تو خدا خود ہی کوئی وسیلہ پیدا کرے گا۔ اور اگر مرنا ہی ہے تو پھر کوئی ہمیں بچا نہیں سکتا۔ ہم اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کل سے اچھا خاصلہ فاصلہ طے کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے اب منزل قریب ہی ہو یا پھر آرمی کا ہیلی کاپٹر ڈھونڈتا ہوا ہم تک پہنچ جائے۔‘‘ میں نے حتمی طور پر کہا تو رفاقت خاموش ہوگیا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے مزید بولنے کی اس میں ہمت نہ رہی ہو۔ ہم ہر آدھے گھنٹے بعد پانچ دس منٹ رُکتے اور پھر دھیرے دھیرے چل پڑتے۔ میں دور دور تک نظر دوڑاتا کہ کہیں انسانی آثار نظر آجائیں اور نہیں تو کہیں پانی دکھائی دے جائے۔ ہماریے لئے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت پانی تھا۔ میں آنکھیں بند کرتا تو ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ میرے تصور میں در آتا۔ ایسا چشمہ جس میں پہاڑوں کی برف کا پانی بہتا ہو، جو صاف اور شفاف جھرنوں سے ہوتا ہوا اچانک میرے سامنے آجائے، جس کے دونوں طرف سبزہ اُگا ہو اور پھول کھلے ہوں۔ جس کے ارد گرد گھاٹیاں ہوں، جہاں سر سبز درخت، پھولوں اور پھولوں کے پودے اور برف جیسی اون والی گول گول بھیڑیں چر رہی ہوں میں چشم ِتصور میں اس پانی سے اٹھکیلیاں کرتا، اس کے چھینٹے اُڑاتا، منہ اور سر گیلا کرتا اور جی بھر کر پانی پیتا اور پیتا ہی رہتا، جب تک طبیعت سیر نہیں ہو جاتی۔ آنکھ کھلتی تو وہی چلچلاتی دھوپ، گرم لو کے تھپیڑے، لوہے کی طرح چبھتے ہوئے پتھر اور ہماری خشک سانسیں ہوتیں۔ میں گھبرا کر پھر آنکھیں بند کر لیتا۔ اس دفعہ ماں کی شفقت بھری آواز کانوں میں رس گھولتی۔ بیٹا اٹھو یہ ٹھنڈی لسی پی لو۔ میں نے اس میں برف اور شکر ملائی ہے۔ اس کے اوپر مکھن کا پیڑا تیر رہا ہے۔ میں تصور ہی تصور ہی میں لسی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیتا۔ خشک اور کھردرے ہونٹ مجھے سپنے سے نکال باہر کرتے۔
پھر چشم تصور مجھے اپنی میس میں لے جاتی جہاں بیرا پوچھ رہا ہوتا صاحب آپ ٹھنڈی پانی پئیں گے یا گرم۔ میں اسے کہتا ہوں نص نص یعنی آدھا گرم اور آدھا ٹھنڈا ملا کر۔ نہ بہت ٹھنڈا اور نہ نیم گرم۔ کبھی سمندر، کبھی دریا، کبھی ند ی، کبھی نالے اور کبھی بہتیجھرنے تصور میں آکر یاد دلاتے کہ میرے جسم میں پانی کا ایک ایک قطرہ سوکھتا جارہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تومیں عنقریب سوکھی لکڑی کی طرح چٹخ جاؤں گا اور میرے سوکھے ٹکڑے صحرا میں اڑتے پھیریں گے۔
یہ میرے تصور کی کارستانی تھی کہ بارہا کھلی آنکھوں سے بھی مجھے پانی کے چشمے اور تالاب نظر آنے لگے۔ یہ جھیلیں ہم سے بہت فاصلے پر ہوتیں۔ ہم جتنا ان کے قریب ہوتے جاتے یہ فاصلہ برقرار رہتا اور جھیل ہم سے دور ہی رہتی۔ ایک دفعہ تو پانی کی جھیل مجھے بالکل سامنے نظر آئی۔ میں نے آنکھیں جھپکیں، سرکو جھٹکا اور پھر سے دیکھا تو پانی سے بھری جھیل میرے سامنے موجود تھی۔ میں نے رفاقت کی طرف دیکھا کہ اسے بھی جھیل نظر آرہی ہے یا نہیں لیکن اس کی آنکھیں بند تھیں۔ میرے اندر ایک جوش سا بھر گیا۔ میں نے رفاقت کو سہارا دیا اور قدرے تیز چلنے لگا۔ چلتا گیا چلتا گیا لیکن وہ جھیل اتنے ہی فاصلے پر نظر آرہی تھی۔ میں مایوس ہوگیا۔ میں جان گیا تھا کہ سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہوں۔
ساڑھے سات بجے کے لگ بھگ سورج مغرب میں جا کر بڑے سے سونے کے تھال میں تبدیل ہوا۔ اور پھر یہ تھال تھوڑا تھوڑا کرکے ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے ایک گھنٹہ بعد بھی صحرا میں سرخی چھائی رہی۔ ہم دھیرے دھیرے چلتے رہے۔ نو بجے کے لگ بھگ جب صرف تاروں کی روشنی تھی تو ہم ایک ٹیلے کے کنارے رک گئے۔ اب رکنا ضروری ہوگیا تھا کیونکہ رفاقت سے بالکل نہیں چلا جارہا تھا۔ وہ لیٹا تو تقریباً بے ہوش ہو گیا۔ اس کے جسم میں توانائی بالکل نہیں بچی تھی۔ صرف ہمت کے سہارے چلتا رہا تھا۔ جسم میں پانی کی غیرموجودگی، ناتوانی، بخار، سانس کی تکلیف اور سینے میں درد کے باوجود وہ آج کافی چلا تھا۔ مجھے اس پر ترس بھی آتا تھا کہ اس تکلیف کے باوجود اور اتنی شدید گرمی میں چل رہا ہے۔ مجھے خوف بھی آرہا تھا کہ آج رات اس پر مزید بھاری ہوگی کیونکہ صحرا میں رات بہت ٹھنڈی ہوتی ہے۔ جہاں دن میں گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے وہاں رات کی سردی اس سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پچھلی رات کی سردی میں ہی اسے بخار شروع ہوا تھا۔ آج وہ سارا دن اس مرض میں مبتلا رہا تھا۔ آج وہ زیادہ کمزور اور لاغر تھا اور رات کو پھر ویسی ہی ٹھنڈکا سامنا تھا۔ رفاقت کے ہونٹوں پر پیپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ وہ سانس لیتا تھا تو اس کا پوراس جسم جھٹکا لیتا تھا خصوصاً سینے میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ میرے سامنے وہ بے جان لاشے کی طرح زمین پر پڑا ہوا تھا۔ میری حالت بھی کچھ بہتر نہیں تھی۔ منہ اور حلق سوکھ کر لکڑی کی طرح اکڑے ہوئے تھے۔ حلق میں کانٹے سے اُبھر آئے تھے۔ اب تو زبان بھی اپنی جگہ سے ہلنے سے انکاری تھی۔ بات کرنے کی کوشش کرتا تو منہ سے ہوا سی خارج ہوتی اور حلق سے سیٹی سی برآمد ہوتی۔ پانی کے بغیر جسم اکڑ سا گیا تھا۔ معدے میں جلن اور پیٹ میں گڑ گڑاہٹ ہوتی تھی۔ لگتا تھا کہ صدیوں سے ہم نے پانی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ میرے بیگ میں ابھی بھی د و بسکٹ موجود تھے جنہیں کھانے کی ہم دونوں میں ہمت نہیں تھی۔ کیونکہ سوکھے حلق میں اٹک جانے کا اندیشہ تھا۔ ہو سکتا ہے خوراک کی نالی بھی پانی کے بغیر سکڑ چکی ہو۔ بسکٹ نگلنے کی ہم میں تاب نہیں تھی۔ پھر بھی میں نے رفاقت کے چہرے پر ہلکی سی تھپکی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو میں نے اس کی طرف ایک بسکٹ بڑھایا، ”کھالو اس سے کچھ طاقت آئے گی۔‘‘
رفاقت نے سوکھے حلق کی طرف اشارہ کرکے منع کر دیا اس نے پھر سینے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا تو محسوس ہوا کہ ہر سانس کے ساتھ اسے جھٹکا سا لگ رہا ہے۔ اس کی سانس اٹک اٹک کر آرہی تھی۔ میں نے اس کی قمیض کے بٹن کھول کر اس کی چھاتی پر ہلکی سی مالش شروع کر دی رفاقت کے چہرے کی سرخی غائب ہو چکی تھی۔ اس کی جگہ پیلاہٹ نے لے لی تھی۔ آنکھوں میں بھی زردی ہی زردی کھنڈی تھی۔ رفاقت کی حالت خطرے میں تھی۔ دوسری طرف دو دن کے سفر کے بعد بھی منزل کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کوئی انسان، کوئی آبادی، کوئی امداد، پانی یا خوراک کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہم حیران تھے کہ صرف چند گھنٹے صحرا میں ڈرائیونگ کے بعد ہم آبادی سے کتنا دور چلے گئے تھے کہ دو دن کے سفر کے بعد بھی صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ مانا کہ آج ہم بہت زیادہ نہیں چل پائے تھے لیکن یہ کوئی صحرائے اعظم تو نہیں تھا کہ اس کا کوئی سرا ہی نہ ملے۔ ادھر ہمارے محکمے کے لوگ نہ جانے کہاں رہ گئے تھے۔ دو دن میں کوئی ہیلی کاپٹر تو درکنار کوئی پرندہ بھی نظر نہیں آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ لوگ ہمیں بھول گئے ہیں۔ انہوں نے ہماری تلاش ختم کر دی ہے اور ہمیں صحرا میں ہمیں مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ رفاقت کی نازک حالت کے پیش نظر ہمیں فوری امداد کی ضرورت تھی۔ میں اللہ سے دعا کرتا رہا کہ وہ ہمیں اس آزمائش سے نکالے۔
وطن، گھر والوں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے دور اس سوکھے پتھریلے اور تپتے صحرا میں بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دینے کے تصور سے ہی روح کانپتی تھی۔ ہمارے گھر والے اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں گے۔ انہیں علم ہی نہیں ہوگا کہ ہم کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ وہ جب فریج کا ٹھنڈا پانی پی کر پنکھے کی ٹھنڈی ہوا تلے آرام سے بیٹھتے ہوں گے، عین اسی وقت ان کے بیٹے صحرا میں پیاس سے جاں بلب ہوں گے، اس کا انہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔ لاعلمی بھی بعض اوقات کتنی نعمت ہوتی ہے۔ انہیں خیالوں وسوسوں اور اندیشوں میں گھرے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ ابھی ڈیڑھ دو گھنٹے ہی سویا ہوں گا کہ کسی انجانی حس نے مجھے بیدا کر دیا۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ تاروں کی مدہم روشنی میں اردگرد کا ماحول ڈراؤنا سا لگ رہا تھا۔ کالے کالے پتھر، اونچے نیچے ٹیلے اور خار دار جھاڑیاں سر اٹھائے کھڑی تھیں۔ میرے چاروں طرف ایک جیسا منظر تھا۔ تھوڑی دیر تک مجھے سمجھ نہیں آ یا کہ کس وجہ سے اچانک میری آنکھ کھلی ہے۔ اچانک مجھے رفاقت کا خیال آیا۔ میرا دھیان اس کی طرف ہوا تو دیکھا کہ وہ میرے پاس ہی سکڑا سمٹا پڑا ہے۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ کانپ رہا تھا۔ ہمارے بدن پر قمیض اور پینٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اپنے سروں کو دھوپ سے بچانے اور کسی امکانی امداد کو آسانی پہنچانے کی غرض سے ہم نے اپنی بنیانیں سر پر باندھی ہوئی تھیں، جنہیں اس وقت سر کے نیچے رکھ کر سونے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں نے فورا اپنی شرٹ اتار کر رفاقت کے اوپر ڈالی دی۔ اس کا سر تھام کر میں نے اپنی گود میں رکھ لیا اور اس کے سینے پر مساج کرنے لگا۔ اس وقت صحرا کی سردی عروج پر تھی میرا بدن پہلے ہی ٹھنڈا تھا۔ شرٹ اُتری تو سردی جیسے کاٹنے لگی۔ لیکن میری توجہ رفاقت کی جانب تھی اس کی سانس بہت آہستہ آہستہ آرہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں لیکن کسمساہٹ سے لگ رہا تھا کہ وہ سویا نہیں تھا۔ میں نے اسے آواز دی، ”رفاقت! رفاقت آنکھیں کھولو!مجھے بتاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے؟“
کافی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو کافی دیر تک اندھیرے میں مجھے بیگانہ سی نظروں سے دیکھتا رہا۔ میں نے پھر پوچھا، ”بتاؤنا تمہیں کہاں تکلیف ہے؟“
اس نے بولنے کی کوشش کی، لب ہلے مگر آواز نہ نکلی۔ مجھے یاد آیا کہ میری بوتل میں ایک ڈیڑھ گھونٹ پانی ابھی باقی ہے۔ شاید اسے کسی ایسے ہی نازک لمحے کے لئے ہم نے رکھ چھوڑا تھا۔ میں نے رفاقت کے حلق میں قطرہ قطرہ کرکے پانی ٹپکانا شروع کر دیا۔ پانی ختم ہوگیا۔ بوتل بالکل خالی ہوگئی۔ لیکن رفاقتکی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے آنکھیں موند لی تھیں۔ میں سخت گھبرا گیا۔ رفاقت کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میرا عزیز ترین دوست میرے ہاتھوں سے نکلا جارہا تھا۔
اس نے کیا کیا خواب نہیں دیکھے تھے اور ان خوابوں کی تعبیر پانی کے لئے کیاکیا جتن نہیں کئے تھے۔ شازیہ کو پانی کا خواب اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ اس خواب کو پانے کے لئے وہ اپنی پرآسائش زندگی ترک کرکے اپنا سنہرا مستقبل داؤ پر لگا کر پردیس کی خاک چھاننے نکل پڑا تھا۔ جہاں اس نے موسم کی سختی، اپنوں سے دوری، غیروں کے طعنے اور شب و روز کی جان لیوا مشقت صرف اس وجہ سے برداشت کی تھی کہ شازیہ کو اپنا سکے اور اس کوظالم دلاور خان کے چنگل میں جانے سے بچا سکے۔ اب جب کہ اس کی منزل دوگام باقی تھی۔ وہ کڑی آزمائش اور سخت امتحان میں سے سرخرو ہو کر واپس جانے والا تھا تو موت کا ظالم پنجہ اس طرح اسے جکڑلے گا کہ پلبھر میں سب کچھ خاک ہو جائے گا، خواب بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، دو دل ہمیشہ کے لئے بچھڑ جائیں گے، رفاقت کے ماں باپ اور شازیہ کو جیتا جاگتا رفاقت نہیں بلکہ اس کی لاش واپس ملے گی، ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ ظلم ہے، یہ زیادتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا۔ میرا دوست ایسے نہیں مر سکتا۔ وہ مجھے اسی صحرا میں یوں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ میری آنکھ سے نکلے آنسو رفاقت کے چہرے پر گررہے تھے۔ شاید ان آنسوؤں کا اثر تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اس مرتبہ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ پھر جیسے دور سے ایک ہلکی سی آواز آئی، ”طارق“
اس کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں ان میں مسکراہٹ تھی۔ ان کی آنکھوں میں کچھ خاص تھا میں بیان نہیں کر سکتا۔ جیسے غرور سے بھری ہوں۔ جیسے احساس سرخروئی سے معمور ہوں۔ جیسے کچھ پالینے کی مسرت سے لبریز ہوں۔ میں نے اسے اٹھا کر بٹھا لیا۔ اس دفعہ اس نے آنکھیں بند نہیں کیں۔ ”رفاقت میرے دوست! تم کیسے ہو؟“
میرے اشک اب بھی جاری تھے۔ ”میں ٹھیک ہوں میری فکر نہ کرو۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں تسلی دی۔
”بتاؤ تو سہی تمہیں کیا تکلیف ہے؟ کیا سردی زیادہ لگ رہی ہے؟“
اس نے مجھے روک دیا، ”طارق میری بات سنو! میں زیادہ نہیں بول سکتا۔“
”بولو بولو!میرے دوست بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور ہمہ تن گو ش ہو کر اس کی بات سننے لگا۔
وہ دو تین منٹ تک بولتا رہا، بتاتا رہا، سب کچھ بتاتا رہا۔ پھر اس کی آواز مدہم ہوگی اور آخر یہ آواز ڈوب گئی۔
میں نے اسے لٹا کر اس کے سینے پر سر رکھ کر کچھ سننے کی کوشش کی۔ اس کی نبض تھام کر کوئی خفیف سی حرکت محسوس کرنے کی کوشش کی۔ اسے آوازیں دے کر جگانے کی کوشش کی۔ اس بار میری آوازیں حتی کہ میرے آنسو بھی لاحاصل گئے۔ میری آواز صدا بالصحرا ثابت ہوئی۔ کیونکہ ان آوازوں کو سننے والا وہاں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میں تنہا تھا۔ رفاقت مجھے، اپنے ماں باپ اور اپنی شازیہ کو چھوڑ کر دور چلا گیا تھا۔ اتنا دور جہاں میری آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔ کتنی ہی دیر میں اسے پکارتا رہا۔ روتا رہا حتی کہ میری آواز نکلنا بند ہوگی۔ میرا حلق جواب دے گیا۔ میری سانسیں بے قابو ہونے لگیں اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ یہ اندھیرا دبیز ہوتا چلا گیا۔ بہت دبیز۔
مجھے ایسے لگا جیسے میرے اردگرد مکھیاں سی بھنبھنا رہی ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن گہری غنودگی نے روکے رکھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں کسی تالاب میں پڑا ہوں۔ میرے ا رگرد بہت سارا پانی ہے۔ یہ پانی میرے منہ، میری ناک، میری آنکھوں اور میرے کانوں میں داخل ہو رہا ہے۔ میرا چسم پانی میں ہلکولے لے رہا ہے۔ پانی ٹھنڈا ہے لیکن میرا بدن پھر بھی تپ رہا ہے۔ میرے تپتے بدن سے ٹکرا کر پانی بھی گرم ہو رہا ہے۔ لیکن اس کی ٹھنڈک میرے بدن کی آگ سرد کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہی۔ میں یہ سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کہاں ہوں؟ لیکن کچھ یاد نہیں آرہا تھا!
میں نے اپنے دماغ پر زور ڈالنا شروع کر دیا۔ یہ جاننے کے لئے کہ میں کہاں ہوں۔ سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں یہ پانی، یہ بدن کی حرارت، حقیقت ہے یا سپنا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ یہ مکھیاں سی کیا بھنبھناتی ہیں؟ کیسی ہیں یہ مکھیاں؟ اور میرے ہی گرد کیوں بھنبھنا رہی ہیں؟ سوچتے سوچتے میرا دماغ تھک گیا۔ غنودگی بڑھ گئی۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ بند ہوگئی یا پھر میں سوگیا۔
اس بار بارش کی پھوار میرا چہرہ گیلا کر گئی۔ اچھی لگی یہ پھوار۔ میں انتظار کرنے لگا کہ یہ پھوار ایک بار پھر میرے چہرے سے ٹکرائے۔ بلکہ میرے سارے بدن سے ٹکرا کر اسے گیلا کر دے۔ شاید میرے بدن کی جلن کچھ کم ہو۔ اگلی بار ہوا کے نرم تھپیڑے نے میرے گالوں کو چھوا۔ پھر یہ ہوا اور بارش کی پھوار بار بارمیرے چہرے سے بار بار ٹکرانے لگی۔ مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ میرا خوابیدہ ذہن آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا۔ ایک دفعہ پھر میں نے سوچنے کی کوشش شروع کر دی کہ میں کہاں ہوں اور کتنی دیر سے سو رہا ہوں؟ لیکن یاداشت کے در ابھی تک بند تھے۔ دماغ پر غنودگی کا غلبہ تھا۔ ادھر بارش کے چھینٹے اور ہوا کے تھپیڑے مسلسل مجھے چھیڑ رہے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے آنکھیں نیم وا کیں۔ تھوڑی دیر تک تو آنکھوں کے آگے جھلمل جھلمل ستارے سے ناچتے رہے۔ جیسے ٹی وی پر رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں تارے ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر کچھ غیر واضح تصویریں دکھائی دینے لگیں پھر ایک آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ”well done open your eyes‘‘
میں نے آنکھوں کو ایک دو بار جھپکا اور پھر آنکھیں کھول دیں۔ میرے سامنے سفید کوٹ میں ایک لمبا سا آدمی دکھائی دیا میں نے پوچھا، ”میں کہا ں ہوں؟“
اس بار ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ اس نے اردو میں کہا، ”آپ ہسپتال میں ہیں اور بالکل ٹھیک ہیں۔‘‘
میں نے آنکھیں گھمائیں تو میرے دائیں جانب سفید ہی لباس میں ایک خوبصورت خاتون نظر آئی۔ اس کے چہرے پر بہت دلکش مسکراہٹ تھی اس مسکراتی شکل نے کہا، ”آپ اب کیسا محسوس کر رہے ہیں؟“
”مجھے گرمی لگی اور پیاس لگی ہے۔‘‘ میں نے دھیرے سے کہا۔
”ٹھیک ہو جائے گی یہ گرمی۔ آپ کو یاد ہے آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘‘ اس نے پوچھا۔
میں نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صحرا میں پہنچ گیا۔ جلتے تپتے صحرا کا تصور آتے ہی میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا اور سب کچھ یاد آگیا۔ یاد آتے ہی میں نے تقریبا ًچیخ کر کہا، ”میرے ساتھی کا کیا ہوا؟ وہ کہاں ہے؟‘‘
اس بار مرد نے جو یقیناً ڈاکٹر تھا، میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور انگریزی میں بتایا، ”جب امدادی ٹیم آپ تک پہنچی تو اس وقت تک آپ کا ساتھی اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ مجھے افسوس ہے! شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔“
رفاقت نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا تھا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ ڈاکٹر نے رفاقت کی موت کی تصدیق کرکے میری بچیکچھی امید بھی ختم کر دی۔ رفاقت کی بے وقت موت کا تصور آتے ہی میری آنکھوں سے نمکین پانی بہہ کر میرا چہرہ بھگونے لگا۔ ڈاکٹر نے بتایا، ”آپ کا دوست بیمار تھا۔ صحرا کی گرمی، بھوک اور خصوصا ًپیاس نے اس بیماری کو اتنا بڑھا دیا کہ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ آپ کی طویل بے ہوشی بھی گرمی اور پیاس سے زیادہ صدمے کی وجہ سے تھی۔ ویسے آپ کو یاد ہے کہ آپ کس وقت تک ہوش میں تھے؟“
”تقریبا آدھی رات تھی جب رفاقت کی طبیعت بہت بگڑی گئی۔ اس کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وہ چل بسا۔ اس کے بعد مجھے بھی ہوش نہ رہا۔‘‘ میں نے بتایا۔
”اس کا مطلب ہے کہ آپ تقریبا ً چوبیس گھنٹے بے ہوش رہے۔ آپ کو آج صبح دس بجے کے قریب آرمی کی امدادی ٹیم نے ہیلی کاپٹر سے دیکھا اور یہاں مسقط ہسپتال پہنچایا۔ اس وقت رات کے گیارہ بجے ہیں۔ آپ کے جسم میں پانی کی شدید کمی تھی اور جسم اور سر میں گرمی اور لو کے گہرے اثرات ہیں۔ پانی کی کمی تو مسلسل ڈرپ لگانے سے کسی حد تک پوری ہوگئی لیکن جسم کی گرمی کے اثرات ختم ہونے میں چند دن مزید لگیں گے۔ معدے اور دوسرے کئی اعضاء بھی چند دن بعد نارمل ہو سکیں گے۔‘‘
”اور رفاقت؟‘‘ اس سے زیادہ مجھ سے کچھ نہ کہا گیا۔
”اس کا جسد خاکی اس ہسپتال کے سردخانے میں ہے۔ اسے پاکستان بھجوانے میں چند دن لگیں گے۔‘‘ ڈاکٹر نے بتایا تو میری آنکھوں میں پھر نمی اتر آئی۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اپنے اشک صاف کرنے چاہے تو نرس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، ”آپ کے بازو میں ڈرپ لگی ہوئی ہے، احتیاط سے کام لیں۔ اب آپ آرام کریں۔ ہم تھوڑی دیر بعد آئیں گے۔ آپ کو کچھ نرم غذا بھی دیں گے۔‘‘
ڈاکٹر اور نرس چلے گئے۔ میں سوچوں میں کھو گیا۔
صرف تین دن میں میری زندگی میں کتنا انقلاب آگیا تھا۔ تین دن قبل میں صحت مند خوش باش اور پرجوش تھا۔ رفاقت جیسے دوست کے ساتھ کتنا خوش تھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری زندگی میں اتنا بڑا بھونچال آئے گا جو مجھے موت کے منہ میں لے جائے گا۔ میں موت کے منہ میں تو جاتے جاتے بچ گیا تھا لیکن میرا جسم نچڑ کر رہ گیا تھا۔ میرا وزن کئی کلو کم ہو گیا تھا۔ چہرہ جھلس گیا تھا۔ آنکھوں کے ارگرد سیاہ حلقے بن گئے تھے اور ایک آگ سی سارے بدن کو جلا رہی تھی۔ یہ آگ اسپتال کے ائرکنڈیشنڈ کمرے اور بازو میں ڈرپ لگی ہونے کے باوجود کم نہیں ہو رہی تھی۔ اس بھونچال میں میں اپنا عزیز ترین دوست بھی کھو چکا تھا۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ رفاقت کی اس ناگہانی موت کی خبر جب اس کے گھر والوں تک پہنچے گی تو ان کی کیا حالت ہوگی۔ رفاقت ماں باپ کے بڑھاپے کا واحد سہارا تھا۔ قدرت نے یہ واحد سہارا بھی ان سے چھین لیا تھا۔ سب سے زیادہ مجھے شازیہ کی فکر تھی۔ شازیہ کے لئے رفاقت ہی سب کچھ تھا۔ وہ رفاقت جس نے شازیہ کے لئے سارے زمانے سے ٹکر لے لی تھی۔ جب اسے علم ہوگا کہ اس کا محبوب، اس کا غم گسار، اس کا مشکل کشا، اس کی زندگی، اب اس دنیا میں نہیں ہے تو اس پر کیا بیتے گی۔ رفاقت کی موت کی خبر شازیہ اور رفاقت کے گھر والوں کے لئے قیامت سے کم نہ ہوگی۔
تھوڑی دیر بعد نرس وارڈ بوائے کے ساتھ واپس آگئی انہوں نے مجھے جوس اور ایک سینڈوچ دیا۔ میں نے پانی طلب کیا تو نرس نے کہا آپ پانی احتیاط سے پیئیں کیونکہ آپ کی آنتیں اب نارمل نہیں ہیں۔ انہیں پہلی والی حالت میں لانے کے لئے وقت لگے گا۔ میں نے پانی کا گلاس تھاما، ایک گھونٹ لیا تو جیسے وہ گلے میں اٹک گیا۔ میں ایک سانس میں پورا گلاس پی لینا چاہتا تھا کہ پیاس اب بھی مجھے مارے دے رہی تھی۔ لیکن پانی تھا کہ گلے سے نیچے ہی نہیں اتر رہا تھا۔ تھوڑا تھوڑا کرکے میں نے گلاس ختم کر ہی لیا۔ مزید پانی طلب کیا تو نرس نے منع کر دیا، ”اس وقت اتنا پانی کافی ہے آپ سینڈوچ کھانے کی کوشش کریں۔‘‘
سینڈوچ نرم سا تھا۔ بس ٹوسٹ پر مکھن لگا تھا اور اس میں سلاد کے پتے تھے۔ یہ ٹھنڈا سینڈوچ میں نے تھوڑا تھوڑا کرکے اور ہر نوالے کے ساتھ جوس کا گھونٹ لے کر کھایا۔ میرے بازو پر ڈرپ بدستور لگی ہوئی تھی۔ اس میں گلوکوز کے ساتھ کچھ دوائیاں بھی ملی ہوئی تھیں۔ شاید انہی دواؤں کا اثر تھا کہ مجھے پھر نیند آگئی اور میں سو گیا۔
اگلے دن ڈرپ اتر گئی مجھے ہلکی غذا اور کچھ دوائیں دیتے رہے۔ اس دوران میرے کیمپ کے لوگ بھی ملنے آئے انہوں نے بتایا کہ جس گاڑی کو ڈھونڈنے ہم نکلے تھے اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ اس میں سوار دونوں آرمی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔ انہیں اسی دن شام ڈھونڈ لیا گیا تھا جس دن ہم ان کی تلاش میں نکلے تھے۔ ہم جس صحرا میں بھٹک کر داخل ہوئے تھے وہ اتنا بڑا نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے لمبے راستے کا انتخاب کیا تھا۔ اس راستے پر مزید چلتے ر ہتے تو قریباً بیس کلو میٹر کے فاصلے پر سڑک واقع تھی۔ یہ ایک دن سے بھی کم کا سفر تھا لیکن رفاقت کی بیماری اور پانی کی نایابی کی وجہ سے ہم منزل تک نہ پہنچ سکے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ہماری گاڑی ایک دن قبل ہی دیکھ لی گئی تھیں لیکن ہم دونوں کو وہ اس دن نہ ڈھونڈ سکے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم گاڑی کے پاس ہی رکے رہتے تو بارہ گھنٹے قبل امداد مل سکتی تھی۔ ہم نے تو اپنے طور پر پوری کوشش کر ڈالی تھی لیکن ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا اور تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
چار دن بعد مجھے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کے تین دن بعد کاغذی کارروائی مکمل ہونے پر رفاقت کی لاش پاکستان روانہ کر دی گئی۔ میری خواہش پر یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ میرے جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ میں اپنے دوست کا جسدِ خاکی خود لے کر جانا چاہتا تھا اور اپنے ہاتھوں اسے سپرد خاک کر نا چاہتا تھا۔ دوسری وجہ ایک امانت تھی جو رفاقت نے مرتے وقت میرے حوالے کی تھی۔ یہ امانت پہنچانے کے لئے میرا جانا ضروری تھا۔ مسقط سے کراچی اور کراچی سے پشاور ہم ایک ہی دن میں پہنچ گئے۔ پشاور ائر پورٹ پر رفاقت کا والد چچا اور ایک چچا زاد بھائی موجود تھے۔ ان کے ساتھ ان کے گاؤں کے دو اور نوجوان تھے۔ دو گاڑیوں میں چھ مسافروں اور ایک میت پر مشتمل یہ قافلہ پشاور سے چلا تو آگے کا سفر مشکل اور بہت طویل ثابت ہوا۔ اونچی نیچی ناہموار سڑک پر ہماری گاڑیاں ہچکولے کھاتی جارہی تھیں۔ میرا اس علاقے کا پہلا سفر تھا۔ کسی نئے مقام پر جاتے وقت مجھے ہمیشہ ایک جستجو، ایک مسرت اور ایک ولولہ سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس سفر میں یہ تمام جذبے ناپید تھے۔ میں اردگرد کے خوبصورت قدرتی مناظر سے بے خبر رفاقت کے گھر والوں اور خصوصاً شازیہ پر گزر جانے والی قیامت کے بارے میں سوچتا رہا۔ سب سے زیادہ مجھے اس امانت کا خیال تھا جو رفاقت نے مجھے سونپی تھی۔ ویسے بھی گاڑی میں رفاقت کا والد، اس کا چچا اور ایک نوجوان میرے ساتھ تھے۔ رفاقت کا والد جس کی عمر لگ بھگ پچاس سال ہوگی بظاہر اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ جوان بیٹے کی موت نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ میں نے دورانِ سفر انہیں اس حادثے کی تفصیل بتائی جس میں رفاقت کی جان گئی تھیں۔ رفاقت کا والد پتھر کے بت کی طرح میری باتیں سنتا رہا۔ اس کے اندر پتہ نہیں کتنی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی لیکن اس کی آنکھ سے کوئی اشک نہیں نکلا۔ شاید یہ ان کی روایت کے خلاف تھا۔ خدا خدا کرکے ہم اس چھوٹے سے گاؤں میں پہنچے جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے چند میل کا راستہ بہت خراب تھا۔ گاؤں کے باہر کچھ مرد اور بچے انتظار کر رہے تھے۔ ان کے پاس چار پائی تھی میت کو چارپائی پر لٹا کر چار لوگوں نے کاندھے پر اٹھایا۔ تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم رفاقت کی حویلی میں پہنچ گئے۔
ہم نے پوری رات اور آدھا دن مسلسل سفر کیا تھا۔ اس دشوار گزار راستے نے میرا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میں سخت تھکا چکاتھا۔ علاوہ ازیں تیس گھنٹے سے سویا بھی نہیں تھا۔ پہلے جہاز اور پھر جیپ میں نیند کے چند جھونکے سے لئے تھے۔ اب بھی سونے کا وقت نہیں تھا۔ تقریبا ًتین گھنٹے بعد رفاقت کی نماز جنازہ تھی۔ مجھے رفاقت کے چچا کی حویلی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ رفاقت کا چچا زاد بھائی گلزار خان میرے ساتھ تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد میں نے غسل کرکے کپڑے بدلے اور جنازے پر جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ رفاقت کے گھر سے جنازہ اٹھا تو اندر سے عورتوں کے رونے اور پیٹنے کی آوازیں باہر تک آرہی تھیں۔ تاہم کوئی عورت باہر نہیں نکلی۔ قبرستان تک صرف مرد ہی جنازے کے ساتھ چل رہے تھے۔ ان کی تعداد ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہوگی۔
نمازہ جنازہ کے بعد یہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ صرف ہم چند لوگ وہاں رہ گئے۔ رفاقت کی جگہ اب ایک مٹی کی ڈھیری تھی۔ قبرستان کی خاموشی تھی اور چند آنسو تھے جو قبر کی تازہ مٹی میں جذب ہوگئے۔ اس کے بعد ہم بھی آہستہ آہستہ گاؤں کی جانب چل پڑے۔ قبرستان سے نکلنے سے پہلے میں نے اپنے عزیز دوست کی آخری آرام گاہ کی جانب دیکھا۔ میری آنکھوں سے چند آنسو ٹپکے۔ الوداع! میرے دوست الوداع! میرے لبوں نے آخری بار اسے مخاطب کیا۔ کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے جب ہم گاؤں میں داخل ہورہے تھے تو سورج بھی پہاڑوں کے پیچھے اوجھل ہوتا جارہا تھا۔ ہم رفاقت کے گھر کی بیٹھک میں جا کر بیٹھے ہی تھے کہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔ وہاں میرا تعارف شازیہ کے باپ ملک سکندر سے کرایا گیا۔ ملک سکندر پچپن سے ساٹھ سال کے درمیان کا روایتی پٹھان تھا۔ اس کے سر پر بڑی سی پگڑی اور بدن پر کورے لٹھے کی شلوار قمیض تھی۔ بڑی بڑی مونچھوں اور دراز قد کا یہ پٹھان اس کہانی کا بہت اہم کردار تھا۔ اگر یہ شخص ہٹ دھرمی، لالچ، خودغرضی اور بے رحمی کا مظاہرہ نہ کرتا تو ایک گھر کا چراغ یوں بے وقت نہ بجھتا۔ دو دل یوں جدا نہ ہوتے کہ قیامت سے پہلے ان کا ملنا ناممکن ہو گیا تھا۔ مجھے اس شخص سے جو گردن جھکا کر یوں بیٹھا تھا جیسے اس معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، سخت نفرت محسوس ہوئی۔ یہ رفاقت کا قاتل تھا اپنی بیٹی کے ارمانوں کا قاتل تھا۔ رفاقت کے والدین کو زندہ درگور کرنے والا درندہ تھا۔
اس وقت مہمان خانے میں پندرہ بیس مرد بیٹھے تھے۔ یہ ایک وسیع بیٹھک تھی جس میں کارپٹ پر چادریں بچھی تھیں اور چاروں طرف تکیے رکھے تھے۔ میں نے ملک سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”میرے پاس تمہاری ایک امانت اور بہت اہم پیغام ہے۔ یہ پیغام رفاقت نے مرنے سے چند لمحے پہلے دیا تھا۔“
بیٹھک میں سناٹا چھا گیا۔ ملک سکندر نظریں جھپکائے بغیر مجھے دیکھ رہا تھا۔ بقیہ حاضرین کی آنکھوں میں تجسس لہرا رہا تھا۔ وہ سب جاننا چاہ رہے تھے کہ مرنے والے نے ملک سکندر کے لئے کیا پیغام چھوڑا ہے۔
میں نے واضح طور پر کہا، ”اس نے تمہاری شرط کے مطابق پچیس لاکھ روپے کا بندوبست کر لیا ہے۔ اس میں سے سولہ لاکھ تمہیں مل چکے ہیں بقیہ نو لاکھ میں لے کر آیا ہوں۔ یہ رقم رفاقت نے جمع کر رکھی تھی۔ یہ نو لاکھ سے کم تھے۔ رفاقت کی وصیت کے مطابق اس کی موت پر ملنے والی رقم سے سے یہ کمی پوری کی گئی ہے۔ یوں اس نے اپنی جان دے کر بھی اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔‘‘
میں نے نو لاکھ اس کے حوالے کر تے ہوئے کہا، ”رفاقت کا پیغام یہ تھا تمہیں تمہاری مطلوبہ رقم مل گئی ہے۔ اب شازیہ کو آزاد کر دو۔ اسے ملک دلاور یا کسی اور کے ہاتھ نہ بیچنا بلکہ اسے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق دے دو۔‘‘
میں نے دیکھا کہ ملک سکندر کا سر جھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔ میں نے مزید کہا، ”تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ رفاقت کو دو سال پہلے ہی پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا تھا۔ اس نے یہ مرض سرکاری ڈاکٹر، اپنے محکمے بلکہ سب سے چھپا کر رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مرض لا علاج ہے اور وہ نہیں بچ سکتا۔ پھر بھی رات دن محنت کرکے وہ یہ رقم اس لئے اکٹھا کرتا رہا کہ شازیہ کو ملک دلاور سے بچا سکے۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ شازیہ آزادی سے اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.