Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تلاش

ہما فلک

تلاش

ہما فلک

MORE BYہما فلک

    وہ بہت ہنستی تھی۔ بات بات پر کھلکھلا کر ہنستی۔ میری عادت ہے کہ میں کسی سے بہت جلد گھلتی ملتی نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے دن کا بڑا حصہ اس کے ساتھ گزرتا تھا۔ تو پہلے روز سے ہی اس کی خوش مزاجی نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ کچھ ہی دنوں میں اجنبیت کا احساس مٹ گیا۔

    اس کا تعلق مراکو سے تھا۔ ہم دونوں کتابوں کی ایک چھوٹی سی پرائیویٹ دکان پر کام کرتے تھے۔ دکان کا مالک اندر دفتر میں ہوتا۔ ہم باہر دکان میں مختلف قسم کے

    کام کرتے۔ جن میں کتابوں کی ترتیب، جھاڑ پونچھ اور فروخت کا کام شامل تھا۔ ایک چھوٹا سا کافی کارنر بھی تھا۔ جہاں کتابیں پڑھنے کی سہولت بھی تھی۔ اگر کوئی کافی کی فرمائش کرتا تو اسے کافی بنا کر دے دیتے۔ اس کا نام نیسہا تھا۔ وہ پینتالیس سے پچاس کے درمیان ایک خوبصورت عورت تھی۔

    اس کے چہرے پر سب سے نمایاں اس کی سیاہ کالی موٹی موٹی بہت چمکدار آنکھیں تھیں۔ سانولی مگر پر کشش رنگت اور سیاہ کالے گھنگھریالے بال۔ لمبا قد، کسا ہوا جسم۔ مجموعی طور پر وہ ایک پرکشش عورت تھی۔

    جس وقت دکان میں کوئی نہ ہوتا اور کام بھی کوئی خاص نہ ہوتا تو ہم دونوں بیٹھ کر خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ مالک اچھا آدمی تھا اور بے جا روک ٹوک کا قائل نہیں تھا۔

    اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ اکا دکا گاہک بھی مشکل سے ہی آئے تھے۔ ہم دونوں کافی کارنر میں جا کر بیٹھ گئے۔ جہاں پڑھنے والوں کے لئے آرام دہ صوفے پڑے ہوئے تھے۔ دروازے پر گھنٹی لگی تھی جو کسی کے اندر داخل ہونے پر بجتی اس لئے ہم بےفکری سے باتیں کر رہے تھے۔

    نیسہا کسی بات پر ہنسی تھی اور جب وہ اس طرح بے تحاشا ہنستی تو اس کی آنکھوں میں پانی آ جاتا۔ اس کی کاجل لگی موٹی موٹی آنکھوں میں گلابی پن سا جھلکنے لگا تھا۔ میں مبہوت سی ہو کر اس کی آنکھیں ہی دیکھے گئی۔

    ’’نیسہا! تمہاری آنکھیں اس وقت اتنی خوبصورت لگ رہی ہیں میرا یہ حال ہے، تمہارا شوہر تو تمہیں پاس بٹھا کر صرف تمہاری آنکھیں ہی دیکھتا رہتا ہوگا۔‘‘ میں نے بےساختہ تعریف کی تھی۔ مگر میری بات پر اس کا رد عمل اتنا غیرمتوقع تھا کہ کچھ دیر کو تو میں حیران ہو گئی۔ وہ بےساختہ قہقہہ لگا کر ہنسی تھی اور کتنی ہی دیر اسے اپنی ہنسی پر قابو پانے میں لگی۔

    ’’تمہیں کیا ہوا؟ کیا میں نے کوئی لطیفہ سنا دیا؟’’ جب اس کی ہنسی تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تو میں نے پوچھا۔

    ’’کون سا شوہر پہلا والا کہ دوسرا والا؟ اس نے رک کر بے ساختہ پوچھا اور پھر ہنسنے لگی۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ میں یہ تو جانتی تھی کہ اس کا ایک تیرہ برس کا بیٹا علی ہے مگر اس سے زیادہ اس کی نجی زندگی کے بارے میں نہ کبھی اس نے بتایا نہ ہی کبھی میں نے پوچھا۔

    ’’کیا مطلب۔۔۔؟ ‘‘

    یہی کہ کون سا شوہر پا س بٹھا کر آنکھیں دیکھتا ہے اور ان کی تعریفیں کرتا ہے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں کرتے؟’’ مجھے اس کی بات ہی سمجھ نہیں آرہی تھی اس لئے میں کچھ کنفیوز سی تھی۔

    ’’مردوں کو صرف ایک چیز کی خواہش ہوتی ہے اس کے علاوہ انہیں دوسری کسی بات سے دلچسپی نہیں ہوتی اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ہوس ختم ہی نہیں ہوتی ان کے لئے اندھیرے میں سب عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘‘ اس نے پہلے تلخ لہجے میں کہا پھر کھلکھلا کے ہنس دی۔

    اس لمحے میں، میں یہ فیصلہ نہ کر پائی کہ اس کے ہنسنے میں اس کا ساتھ دوں یا کچھ کہوں۔ مجھے کسی کی ذاتیات میں دخل دینا پسند نہیں تھا نہ ہی کرید کرید کر باتیں پوچھنے کا شوق تھا۔ لیکن اس وقت جانے کیوں لگا۔ کہ وہ مجھے کچھ بتانا چاہتی ہے، یا یہ توقع کر رہی ہے کہ میں اس سے پوچھوں۔

    ’’تمہارا پہلا شوہر۔۔۔‘‘ مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس سے کیا پوچھوں۔

    ’’میں نے اس سے طلاق لی تھی۔۔۔‘‘ اس نے میری مشکل آسان کر دی۔

    ’’ایک نمبر کا حرامی اور آوارہ تھا۔’’

    ’’اوہ۔۔۔‘‘

    ’’اس میں افسوس کی کیا بات ہے؟ تمہارے خیال میں اس کے ساتھ رہتی اور اس سے خاموشی سے مار کھاتی رہتی؟‘‘

    ’’مارتا تھا ؟ یہاں جرمنی میں رہ کر؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’نہیں میری پہلی شادی مراکو میں ہوئی تھی تب میری عمر بیس سال تھی۔ ہم لوگوں میں رواج ہے جب شادی کرنی ہو تو لڑکا، لڑکی کے ماں باپ کو رقم دیتا ہے۔ شادی کے وقت اس نے بھی دی تھی۔ مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس نے مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسے جوئے اور شراب کی لت تھی اور اس مقصد کے لئے اسے پیسہ چاہیئے تھا۔ ہمارے پہلے دو سال اچھے گزرے تھے۔ اس کی اپنے کام پر لڑائی ہوئی تو اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔ پھر وہ اکثر اوقات گھر پر رہنے لگا اور ہمارے درمیان تلخیاں شروع ہو گئیں۔ اسے گھر کے آرام کی عادت پڑ گئی تھی اگر میں کچھ کہتی تو پہلے مارتا پھر غصے میں باہر نکل جاتا۔ وہ چاہتا تھا میں اپنے باپ سے پیسہ مانگوں لیکن میرے بڑے بھائی نے قطعا منع کر دیا تھا کیونکہ وہ میرا حصہ شادی پر بطور زیور دے چکے تھے۔ جو کہ آہستہ آہستہ سب بک گیا۔ میں نے کچھ دن ایسے بھی گزارے کہ گھر میں کچھ کھانے کے لئے بھی نہیں تھا۔ اس دوران۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے رک گئی۔ میں بہت غور سے اس کی بات سن رہی تھی۔ اس کے یوں رک جانے پر مجھے لگا کہ شاید وہ نہیں بتانا چاہ رہی۔ یا شاید دیکھنا چاہ رہی ہے کہ میں اس کی بات توجہ سے سن رہی ہوں یا نہیں۔

    ’’اس۔۔۔ دوران۔۔۔؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں اس کے الفاظ دہرائے۔

    ’’اس دوران میرے اندر ایک اور وجود نے پرورش پانا شروع کر دیا۔ اسے جب پتہ چلا تو بہت چیخا چلایا۔ میں اس سب کے لئے خود بھی ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ لیکن جب مجھے پتہ چلا تو مجھے لگا کہ اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن جگمگائی ہے۔ میں نے اپنے اور اپنے بچے کے لئے کوشش شروع کر دی۔ ایک قریبی بیکری پر مجھے روٹی بیلنے کا کام مل گیا۔ کام سخت تھا، لیکن میں اب جینا چاہتی تھی۔۔۔ اور پھر۔۔۔ ایک دن۔۔’’

    وہ پھر سے رک گئی اور وہ ایسے موڑ پر رکتی تھی کہ میں بے ساختہ سوال کر دیتی۔

    ’’مجھے اس دن اپنی تنخواہ ملی تھی۔ اس نے مجھ سے پیسے مانگے۔ میں نے دینے سے انکار کر دیا۔۔۔ اس نے مجھے۔۔۔’’

    فضا بہت بوجھل ہو چکی تھی۔ میں نے اسے اتنا سنجیدہ پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ضبط کے تکلیف دہ مرحلے میں ہے۔ اس مقام پر رک جانا دہری تکلیف کا باعث ہوتا۔ میں چاہتی تھی وہ اب سب کہہ دے۔

    ’’اس نے مجھے اتنا مارا کہ۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘ اس نے ایسے آنکھیں بھینچ لیں جیسے تصور میں در آنے والے اس منظر کو دیکھنے سے خود کو روکنا چاہتی ہو۔میرا دل بھی جیسے اس پل کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا۔ اس وقت اس کے چہرے کا کرب بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ہولے سے دبایا۔ اس کے چہرے پر کرب آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔اس نے اپنی انگلی سے آنکھ کا کنارا صاف کیا اور بولی۔

    ’’وہ جا چکا تھا، مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں نے مشکل سے اپنے باپ کو فون کیا۔ اس کے بعد مجھے تین دن بعد ہوش آیا۔ دکھ اور تکلیف کے وہ دن اس نے جھرجھری سی لی۔

    پھر تم جرمنی کیسے آئیں؟ میں نے اسے اس منظر سے باہر نکالنے کی کوشش میں سوال کیا۔

    میری بہن اور بہنوئی جرمنی سے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے میرے نکلنے کے انتظامات کئے اور چھ ماہ بعد میں ان کے پاس آ گئی۔‘‘

    ’’تو اس کا کیا ہوا اسے سزا نہیں دلوائی گئی۔ اس پر کیس نہیں کیا؟‘‘

    ’’اتنا کافی تھا کہ اس نے طلاق دے دی۔ اپنے پیسے کا مطالبہ نہیں کیا۔ بھائیوں کو کوئی دل چسپی نہیں تھی اور میرے والد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ عدالتوں

    کے چکر لگاتے۔‘‘

    ’’ہمم۔۔۔’’ میں نے کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے خود کو بمشکل باز رکھا۔

    ’’اور پھر تم اپنی بہن کے گھر رہنے لگی۔؟‘’

    ’’ہاں وہاں میں چھ مہینے رہی۔ ان کا گھر چھوٹا تھا اور ان کے ہاں بھی ایک فرد کا اضافہ ہونے والا تھا، واضح طور پر میری وجہ سے انہیں مسئلہ ہو رہا تھا۔ پھر عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے بہنوئی کا کولیگ تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور شادی کے لئے اصرار کرنے لگا۔ اس کے پاس جرمن نیشنیلٹی تھی۔ بہن اور بہنوئی کا بہت بڑا مسئلہ حل ہو رہا تھا اور خود مجھے بھی اس میں کوئی حرج نطر نہیں آیا۔ زندگی ایک دم سے خوبصورت لگنے لگی تھی۔

    وہ اچھا کماتا تھا اور بہت خوبصورت تھا۔‘‘

    ’’تمہارا بیٹا بھی کافی خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’ہاں اور اسے اپنی خوبصورتی کا بہت احساس تھا۔

    میری کسی بات پر کبھی اعتراض نہ کرتا تھا، اور میرے ساتھ اس کا رویہ بھی ٹھیک ہی رہا۔ پھر جب علی پیدا ہونے والا ہوا۔ تو اس کے رویے میں اور بھی تبدیلی آ گئی وہ میرا بہت خیال رکھنے لگا۔دن میں تو کام پر ہوتا۔

    شام میں گھر آتا تو میرے کاموں میں ہاتھ بٹاتا اورخاص طور سے رات میں تو مجھے کچھ نہ کرنے دیتا۔مجھے دودھ کا مگ لا کر دیتا اور کچن کی صفائی کرتا تھا۔‘‘

    ’’واہ۔۔۔ یہ تو آئیڈیل ہسبینڈ والی باتیں ہیں۔‘‘ مجھے اس کی باتیں بہت دلچسپ لگ رہی تھیں۔

    ’’ہاہاہا۔۔۔ آئیڈیل ہسبینڈ۔۔۔‘‘ اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا۔

    ’’ہاں اور کیا چاہیئے ؟ مجھے تو سب سے مشکل کام رات کو کچن کی صفائی کا ہی لگتا ہے۔‘‘

    ’’ایک دن میرا دل بہت متلا رہا تھا، مگر میں جانتی تھی کہ اگر دودھ نہ پیا تو عبداللہ ناراض ہوگا۔‘‘ اس نے

    میری بات نظر انداز کر کے کہنا شروع کیا۔

    ’’اس لئے جیسے ہی وہ مجھے دودھ دے کر کچن میں گیا۔ میں نے واش بیسن میں دودھ بہا کر اس پر کچھ دیر پانی چلایا اور آکر بستر میں لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد عبداللہ کمرے میں آیا اور مجھے ہلکی سی آواز دی۔‘‘

    ’’اور تم سوئی بن گئی ہے نا۔۔۔؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔

    ’’ہاں میں جانتی تھی کہ اگر جواب دیا تو وہ دودھ کا پوچھےگا اس لئے سوئی بن گئی۔ اس نے دروازے کے پاس کچھ دیر رک کر میرے جواب کا انتظار کیا اور پھر اندر آ گیا۔

    ایسا لگ رہا تھا، وہ میرے بہت قر یب آ گیا ہے

    اور مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔ مجھے اس کی یہ حرکت کچھ عجیب بھی لگی لیکن اب میں خود کو بیدار ظاہر نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے میں جیسی تھی ویسے ہی لیٹی رہی۔‘‘

    ’’میں تو ایسے وقت میں ہنس پڑتی۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ جانے کیوں اس وقت مجھے کچھ عجیب سا احساس ہوا۔۔۔ اور۔۔۔ ‘‘وہ بات کرتے کرتے رکی تو مجھے بےچینی سی محسوس ہوئی۔

    ’’وہ اپنی تسلی کر کے مڑا۔۔۔ اور بہت آہستہ سے چلتا ہوا دروازے کی طرف گیا۔ اس نے لائٹ بند کی اور بہت احتیاط سے دروازہ بھی بند کر دیا۔‘‘

    ’’اسے احساس ہوگا کہ تمہاری نیند نہ ٹوٹ جائے۔‘‘ وہ رکی تو میں نے کہا۔

    *

    ’’تھوڑی دیر بعد مجھے گھر کے باہر کا دروازہ بہت آہستگی سے کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔‘‘ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

    ’’اوہ۔۔۔ تو تمہیں سلا کر حضرت باہر نکل گئے تھے۔‘‘

    ’’ہاں اور۔۔۔ پھر تقریباََ تین چار بجے کے قریب گھر آیا۔ میری کیفیت عجیب سی تھی۔ تجسس، خوف، حیرت اغصہ اور دکھ کی ملی جلی کیفیت جس کی وجہ سے مجھے نیند ہی نہیں آئی۔‘‘

    ’’تو تم نے اس سے کچھ کہا نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں اس سے اتنی جلدی کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی۔‘‘ اور پھر روز یہی ہونے لگا۔ یہ یقین کرنے کے بعد کہ میں سو گئی ہوں وہ باہر چلا جاتا۔‘‘

    ’’وہ کہاں جاتا تھا، تم نے پتہ کیا؟‘‘

    ’’ہاں جب تین چار دن یہی معمول رہا تو ایک دن جب وہ سیڑھیاں اتر گیا تو میں بھی جیکٹ پہن کر دبے پاؤں اس کے پیچھے چل دی، وہ اپنے دھیان میں چلا جارہا تھا، پھر ہماری بلڈنگ سے تین چار اگلی بلڈنگ میں سے ایک کے پاس رکا ہی تھا، کہ بلڈنگ کی لائٹ جل گئی اور دروازے کا الیکٹرانک لاک کھلنے کی آواز آئی۔میں وہاں پڑے کچرے کے بڑے سے کنٹینر کی اوٹ میں ہو گئی۔‘‘

    ’’ہاہاہا۔۔۔ نیسہا۔۔۔ تم تو پوری جیمز بانڈ ہو

    تمہیں ڈر نہیں لگا ؟ ‘‘

    ’’نہیں ڈر کس بات سے؟ اس وقت میرے دماغ پر صرف ایک ہی بات سوار تھی کہ اس بات کا سراغ لگاؤں کہ وہ ہر روز کہاں جاتا ہے۔ یہ بات تو کنفرم تھی کہ وہ دودھ میں کچھ ایسی چیز ملاتا تھا کہ میں جلد سو جاتی۔‘‘

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ یہاں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ایسی دوا کا حصول ممکن نہیں۔‘‘ وہ جس انداز سے بتا رہی تھی، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی جاسوسی ناول کی کہانی سن رہی ہوں اس لئے میری دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔

    ’’اس کے لئے سب ممکن ہے، اس نے کرلیا ہوگا کوئی انتظام۔۔۔‘‘

    ’’پھر؟ تم نے دیکھا کہ وہ کہاں گیا؟‘‘

    ’’نہیں اس دن جب وہ اندر چلا گیا تو میں کچھ دیر رک کر اوپردیکھتی رہی۔ ساری بلڈنگ کی لائٹس آف تھیں صرف دوسری منزل کی ایک کھڑکی سے روشنی آرہی تھی۔ میں نے اسے ذہن میں رکھا اور گھر آ گئی۔‘‘

    ’’بہت ہمت والی ہو نیسہا،۔۔۔‘‘ میں واقعی متاثر ہوئی تھی۔

    ’’ہمت نہیں۔۔۔ میں بس اس کی حد دیکھنا چاہتی تھی۔ دو تین دن میں نے اس کی نگرانی کی، ایک دن سر شام ہی جاکر اس بلڈنگ کے دو تین گھروں کی گھنٹی بجائی۔ کئی دفعہ لوگ بغیر تصدیق کے مین ڈور اندر سے کھول دیتے ہیں۔ یہی سوچ کر میں نے بھی ایک کوشش کی تھی جب کسی نے دروازہ کھول دیا۔ تو میں نے ہلکی سی جھری بناکر دروازے میں چھوٹا چپٹی لکڑی کا ٹکڑا پھنسا دیا جو پہلی نظرمیں دکھائی بھی نہیں دیتا اور دروازہ غیر محسوس طریقے سے کھلا رہ جاتا۔‘‘

    ’’ہاں وہ لکڑی عام طور سے اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتی ہے جب دروازے کو عارضی طور پر کھلا چھوڑنا ہو۔‘‘میں اس سارے منظر کو جیسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی تھی۔

    ’’اب مجھے بس یہی فکر تھی کہ رات تک کسی کو اس کا احساس نہ ہو جائے۔ جب رات ہوئی اور عبداللہ دوبارہ نکل کر گیا تو میں بھی معمول کے مطابق اس کے پیچھے چل دی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تو کچھ دیر رک کر میں بھی خاموشی سے اندر چلی گئی۔ تب تک وہ اس کمپارٹمنٹ میں جا چکا تھا۔ مجھے اوپر دروازے کے بند ہونے کی آواز آئی۔‘‘

    ’’ افف نیسہا میرا دل دھک دھک کر رہا ہے۔‘‘ وہ ذرا رکی تو میں نے کہا۔ وہ مسکرا دی اور بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔

    ’’میں نے جا کے ان کے دروازے کی گھنٹی بجا دی اور خود ایک طرف ہو کے کھڑی ہو گئی تاکہ وہ دروازے میں بنے۔۔۔ سوراخ ( peephole)۔۔۔ سے مجھے دیکھ نہ سکیں۔ کچھ دیر رک کر میں نے دوبارہ بیل دی۔پھر دروازہ کھلا تو ایک عام سی شکل و صورت کی لڑکی نے باہر جھانکا۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے۔ میں نے اپنا اعتماد بحال رکھتے ہوئے اس سے کہا عبداللہ کو بلاؤ میں اس کی بیوی ہوں۔ وہ ایک دم چونکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا، اتنے میں عبداللہ بھی دروازے پر آ چکا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ بھی چونکا۔‘‘

    ’’اس بےچارے کا تو برا حال ہو گیا ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ایسے ڈھیٹ لوگوں پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ الٹا مجھ پر ہی ناراض ہونے لگا کہ میں نے اس کا پیچھا کرنے کی جراء ت کیسے کی۔ جب کہ مجھے دھوکہ اور بےوفائی کے احساس نے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ میں نے بھی رونا اور چلانا شروع کر دیا۔ اتنی رات کو ہمارے شور سے ہمسائیوں نے پولیس کو بلوا لیا۔

    اوہ تو پولیس نے کیا کیا ؟

    کچھ بھی نہیں ساری صورت حال معلوم ہونے پر انہوں نے پوچھا تم اپنے گھر جانا چاہتی یو یا کہیں اور تو میں اپنی بہن کی طرف آ گئی۔

    ہاں یہاں ایسی بات پر وہ اسے کچھ کہہ تو نہیں سکتے تھے، اس نے کون سا کوئی جرم کیا تھا۔

    یہاں اگر کسی کو کسی کے پاس آنے جانے سے منع نہیں کیا جا سکتا تو مجھے بھی اپنا حق استعمال کرنے کی آزادی تھی۔ میں نے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا۔‘‘

    ’’اس نے معافی مانگنے یا صلح کی کوشش نہیں کی۔؟‘‘

    ’’وہ اپنی کوئی غلطی مانتا تو معافی مانگتا۔۔۔ وہ تو الٹا مجھے الزام دے رہا تھا اور اگر ایسی کوشش بھی کرتا تو میں نہ مانتی، جسمانی تکلیف سے زیادہ ذہنی اذیت ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اس کے لہجے میں کرب کی آمیزش تھی۔

    مجھے گورنمنٹ کی طرف سے رہائش بھی دی گئی۔ میں وہ شہر چھوڑ کر یہاں آ گئی اور اب اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں۔‘‘

    ’’ہاں یہاں کم از کم عورتوں کے لئے کافی سہولتیں ہیں اور انہیں اپنے حقوق کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’وہ اپنے بیٹے سے ملتا ہے۔۔؟‘‘ میرے ذہن میں یہ سوال بہت دیر سے کلبلا رہا تھا۔ تو پوچھ لیا۔

    ’’نہیں اس نے اپنے بیٹے کو آج تک ایک بار بھی

    نہیں دیکھا، بس عدالت نے جو ایک اماؤنٹ مقرر کی ہوئی ہے وہ ہر ماہ میرے اکاؤنٹ میں آ جاتی ہے۔

    ’’اتنے مشکل حالات سے گزر کر بھی تم ہنستی رہتی ہو اور خوش رہنے کا ہنر جانتی ہو یہ بات بہت اچھی ہے۔ اب تو سکون ہے نا تمہاری زندگی میں نہ کسی کی بے وفائی کا ڈر۔۔۔ نہ کوئی دوسرا خوف۔۔۔ نہ کوئی پریشانی۔‘‘

    ’’نہیں میں کوئی بھی پریشانی اپنے سر پر سوار نہیں کرتی اس سے انسان جلدی بوڑھا ہو جاتا ہے اور ان مردوں کے پیچھے کیا کوئی خود کو خوار کرے سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے تلخ لہجے میں کہا۔

    *

    ’’ظاہر ہے جیسی زندگی اس نے گزاری تھی اس میں ایسی سوچ کا پروان چڑھنا کچھ تعجب خیز بات نہ تھی۔

    کچھ دن بعد وہ جب دکان پر آئی تو بہت خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا۔ بال بھی بہت سلیقے سے بنائے ہوئے اور ہلکا ہلکا میک اپ اس کے حسن میں اضافہ کر رہا تھا۔

    ’’واہ۔۔۔ آج تو بہت تیاری کی ہوئی ہے کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘ میں نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    ’’ہاں خاص ہی ہے آج باس سے چھٹی لے کر ڈیٹ پر جاؤں گی۔ اس نے راز داری سے بتایا۔ جب

    کہ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔

    ’’اچھا واقعی کس کے ساتھ۔۔۔؟؟’’

    ’’ہے ایک بندہ۔۔۔بہت زبردست ہے۔۔۔ اس نے شادی کی آفر کی ہے۔‘‘ نیسہا کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔

    ’’تو تم کر لوگی اس سے شادی۔؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ مجھے اس کے کچھ دن پہلے کے سنائے گئے قصے یاد آئے تھے۔

    ’’ہاں کیوں نہیں ؟ انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں تو رہتا ہی ہے۔۔۔ ویسے بھی مرد کے بغیرزندگی بھی کوئی زندگی ہے ؟‘‘

    اور میں حیرت زدہ سی اسے دیکھتی رہ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے