Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تلاش

سبین علی

تلاش

سبین علی

MORE BYسبین علی

    وہ ایک شاعر اور مصور تھا جو بھٹکتا ہوا اس بستی میں آن پہنچا تھا جہاں اس کے اطراف میں موجود کل کائنات مٹی دھول اور اندھیروں سے اٹی تھی۔ اس کے ارد گرد نہ تو حسین چہرے تھے اور نہ ہی رنگا رنگ فطری مناظر جنہیں وہ کینوس پر اتار لیتا۔ اس نے اپنی تصویروں میں گرد آلود پاٶں، سوکھے پھول خاردار جھاڑیاں، خالی ڈبے، ٹوٹے ہوئے بنچ اور گہری رات کا سکوت پینٹ کر دیا۔ اپنے شعروں میں کھوٹے سکوں، جانوروں، کالے بد شکل اور محروم انسانوں کے قصیدے لکھ ڈالے۔ اس نے ایک پرانے کھمبے کی مدھم ہوتی روشنی میں بیٹھ کر تصویریں بنائیں تھیں، وہ کھمبا اس کا ہم راز تھا۔ مناسب دیکھ بھال اور گھاس پھوس سے محروم باغ کے جس بنچ پر وہ بیٹھا کرتا تھا وہ بھی اس کا رفیق بن چکا تھا۔

    اس کی زندگی میں اس کی پینٹنگز کبھی نہ بک سکیں نہ ہی کوئی اس کے اشعار کا مداح پیدا ہوا۔ وہ کاغذوں میں پڑا رہا اور وقت کی دیمک ایک دن اسے نگل گئی۔

    کچھ عرصہ کے بعد بستی کے لوگوں نے اس پرانے کھمبے کو جو زنگ آلود ہونے لگا تھا اکھاڑ کر فونڈری میں گلا دیا گیا جِس کی دھات سے تار بنائے گئے اور ان تاروں کو پھر مختلف سازوں میں جوڑ دیا گیا۔ بعد مدت کے ہر تار سے اس شاعر کے نغموں کی اداس دھنیں گونجیں اور سماعتوں کو نئے ذوق سے ہم کنار کر گئیں۔ باغ میں پڑے لکڑی کے پرانے بینچ پر پرندوں کی ٹولیاں آکر بیٹھنے لگیں اور اس کی تصویروں کو نئی معنویت عطا کرنے لگیں۔ لوگ یہ سب منظر دیکھتے حیران ہوتے رہے۔ رفتہ رفتہ اس کی تمام پینٹیگز کھوجی گئیں اور عجائب گھروں کی زینت بنیں۔ خستہ کاغذوں پر لکھے اس کے اشعار زبان زد خاص و عام ہوئے۔ کینوس کے قطعات پر بنے مناظر ایک دوسرے کو کئی سوالیہ نشان لیے تکتے اور کاغذوں میں لکھے الفاظ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ آخر لوگوں کو اس فنکار کے مرنے کے بعد ان کاغذ کے ٹکروں اور کینوس کے قطعات میں کس شے کی تلاش ہے؟ شاید آرٹسٹ کی موت کی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے