Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طنابیں

نگار عظیم

طنابیں

نگار عظیم

MORE BYنگار عظیم

    جب ذرینہ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا تو وہ نو برس کی تھی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے اس کی ماں شکیلہ کو کئی گھروں کے برتن مانجھنا پڑتے، لیکن کرایہ نہ دے سکنے کی وجہ سے سر چھپانے کی جگہ چھن گئی تھی۔ ماں کو در در بھٹکتے روتے سسکتے دیکھ دیکھ کر ذریعہ کا بچپن خوف زدہ ہوکر چپکے سے کہیں اور جا بسا۔

    مہینوں بعد ذرینہ کے باپ کے کسی ملنے والے کے ذریعہ اس کی ماں شکیلہ کو بیگم سجاد کے یہاں ملازمت بھی مل گئی اور رہنے کی جگہ بھی۔

    بیگم سجاد کے یہاں اور بھی ملازم تھے۔ ایک ملازمہ تو کوٹھی کی صفائی ستھرائی پر مامور تھی۔ دن بھر رہتی اور رات کو اپنے گھر چلی جاتی۔ کلوا اور اس کا بیٹا چھدا باورچی خانے کا تمام کام سنبھالتے۔

    بیگم سجاد اچھے گھرانے کی خداترس خاتون تھیں، لیکن مزاج کی ذرا تیز تھیں۔ کچھ بیماری کی وجہ سے چڑچڑی سی ہو گئی تھیں۔ بیماری بھی کیا تھی بس دن بہ دن ان کے وزن میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ انہیں ہر وقت ایک سہارے کی ضرورت تھی۔ شکیلہ نے نہ صرف بیگم صاحبہ کے بلکہ دیگر کام بھی بحسن و خوبی سنبھال لیے تھے۔ بیگم سجاد کی کوٹھی کے بڑے سے لان میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ذرینہ بھی بڑی ہونے لگی، لیکن ابھی تین ہی برس گزرے تھے۔ شکیلہ کی عمر نے بھی وفا نہ کی۔ نہ جانے کون سا بخار تھا جان لے کر ہی گیا۔ تین روز کے اندر چٹ پٹ شکیلہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ تب اللہ کے پیارے ہونے کا احساس ذرینہ کو باپ کے گزرنے سے بھی زیادہ ہوا تھا۔

    بیگم سجاد نے روتی بلکتی ذرینہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے کلیجے سے لگا لیا۔ تیرہ برس کی ننھی سی جان اپنے کمسن وجود سے بیگم سجاد کے سینے میں سمٹ گئی۔

    ذرینہ نے آہستہ آہستہ ماں کے تمام کام سنبھال لیے۔ وہ ہر وقت پھرکنی کی طرح بیگم سجاد کے اشاروں پر ناچتی رہتی۔ بیگم سجاد بھی پہلے سے زیادہ اس کا خیال رکھتیں۔

    وقت کا پنچھی کئی برس لے اڑا۔ ذرینہ اب سترہ برس کی ہو گئی تھی۔ سنجیدہ اور سمجھدار تو اسے وقت نے بنا دیا تھا۔ حسن و شباب نے بھی دستک دے دی تھی۔ جوانی کے اس موسم کی آمد کا احساس ذرینہ کو بھی ہو گیا تھا۔ بیگم سجاد کے کمرے میں لگے بڑے سے آئینہ میں جو ان کے بیڈ کے بالکل سامنے کے رخ پر تھا۔ ان کے پیر دباتے ہوئے خود کو دیکھا کرتی۔ نین نقش تو اس کے بچپن سے ہی تیکھے تھے۔ باپ پر گئی تھی لیکن رنگ و روپ ماں سے لیا تھا۔ گیہوں کی بالی جیسی سنہری رنگت پر لمبی لمبی گھنی پلکوں والی آنکھیں اس کے کتابی چہرے پر خوب پھبتی تھیں۔

    پہننے اوڑھنے کا سلیقہ بھی اسے خوب تھا۔ سال میں بنے دو جوڑی کپڑے اس کی سلیقہ شعاری کی وجہ سے جمع ہوکر کئی جوڑے ہو گئے تھے۔ عید اور بقرعید کے کپڑے تو وہ ایسے وقت کے لیے سنبھال کر رکھتی جب اسے بیگم صاحبہ کے ہمراہ کہیں جانا ہوتا۔ کبھی کبھی تو لوگ بیگم سجاد سے پوچھ بیٹھتے ’’آپ کی بیٹی ہے کیا؟‘‘ تب فخر سے ذرینہ کی خمار آلود آنکھوں میں غرور آجاتا۔

    بیگم سجاد کے کوئی بیٹی نہیں تھی۔ بس ایک بیٹا تھا وہ بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے دو برس سے ملک سے باہر تھا۔ شاید موٹاپے کے سبب بیگم سجاد دوسرا بچہ پیدا نہیں کر سکیں۔ خدا جانے لیکن کبھی کبھی وہ خدا سے شکوہ کرتی ضرور سنائی دیتیں۔

    ’’اے خدا تونے اس خاندان کو وارث دیا تیرا شکر ہے احسان ہے، لیکن میں تو تنہا کی تنہا ہی رہی۔‘‘ اور پھر وہ رونے لگتیں۔ تب ذرینہ کا بھی دل بھر آتا۔ وہ خود کو بیگم سجاد کی بیٹی کے روپ میں دیکھنے لگتی اور ان کا غصہ اور ڈانٹ پھٹکار ہنسی خوشی سہہ لیتی۔ بھلے ہی رات کی تنہائیوں میں اپنی محرومیوں پر آنسو بہا لیتی۔

    ایک دن باتھ روم سے بیگم سجاد کی چیخ سنائی دی۔ آواز سن کر ذریعہ بے تحاشا بھاگی۔ دوسرے کمرے سے سجاد صاحب بھی بیگم کی آواز پر دوڑے۔ بیگم سجاد باتھ روم سے باہر نکلتے ہوئے پھسل کر گرپڑی تھیں۔ جیسے تیسے سہارے دے کر بڑی مشکل سے انہیں سنبھالا۔ کہاں تھیں تم؟ وہ ذرینہ پر برس پڑے۔ ڈاکٹروں کی لائن لگ گئی۔ ان کے چیک اَپ کے لیے۔ تھوڑا بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا۔ خدا کا شکر تھا وہ سلامت تھیں ٹھیک ٹھاک تھیں، لیکن سجاد صاحب اب ٹھیک ٹھاک نہیں تھے۔ بیگم کو سنبھالتے سنبھالتے وہ خود لڑکھڑا گئے تھے۔ دراصل بیوی کے بھاری وزن کو سنبھالنے میں کچھ ایسی بے ترتیبی ہوئی کہ وہ ذرینہ سے چھو گئے اور بس۔ چند منٹ پہلے کا ذرینہ پر غصہ سب کافور ہو گیا۔

    دراصل بیگم سجاد بیگم زیادہ تھیں بیوی کم۔ ویسے بھی یہ شادی سجاد صاحب کی مرضی کی نہیں تھی۔ ان کے بڑوں کی تھوپی ہوئی تھی۔ سجاد صاحب کے والدین کا انتقال بہت جلد ہو گیا تھا۔ کھاتے پیتے زمیندار گھرانے کے اکلوتے چشم و چراغ تھے۔دولت کی فراوانی تھی۔ چچا نے پرورش اور تعلیم و تربیت تو اچھی کی لیکن گھر کی جائیداد باہر نہ جائے اس لالچ میں انہوں نے دو برس بڑی اپنی بیٹی سجاد صاحب کے گلے منڈھ دی۔ سجاد صاحب زبان نہ کھول سکے۔ عمر کے فرق کے علاوہ بھی دونوں کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ بیگم سجاد نے بہت کوشش کی کہ شوہر کے دل میں کسی طرح جگہ بنا لیں، لیکن سجاد صاحب کی ان کے تئیں سردمہری بڑھتی ہی گئی۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد سے دونوں نے اپنی منزل اسی کو جان کر شاید صبر کر لیا تھا۔

    بھوک جسم کی ہو یا پیٹ کی اگر فاقوں کی عادت پڑجائے تو آہستہ آہستہ بھوک خود ہی مر جاتی ہے۔ سجاد صاحب اپنے کاروباری کاموں میں مصروف رہتے اور بیگم سجاد اپنی بیماری، دوائیوں اور وزن کم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتیں۔ لیکن جب سامنے لذیذ کھانا ہو تو بھوک میں لالچ بھی شامل ہو جاتا ہے اور خود بہ خود خون میں سنسناہٹ دوڑنے لگتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اچانک سجاد صاحب کے ساتھ ہوا۔

    سجاد صاحب نے پہلی مرتبہ یوں بغیر دوپٹہ ہانپتی کانپتی ذرینہ کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ بیگم صاحبہ کو سنبھالنے میں ذرینہ نے پوری طاقت جھونک دی، اس کا چہرہ سرخ ہوکر پسینہ پسینہ ہو گیا۔ بیگم کی کمر کو سہارتے سجاد صاحب کے ہاتھ ذرینہ کے ہاتھوں سے چھوئے تو ان کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ سہارا دیتی جھکی ذرینہ کا یہ روپ دیکھ کر سجاد صاحب کے ہوش اڑ گئے۔ کسمساتی فاختائیں پھڑپھڑاتی ہوئی ان کے وجود میں داخل ہو گئیں۔ اس روز سے سجاد صاحب ٹہل ٹہل کر کروٹیں بدل بدل کر راتیں گزارتے۔ راتوں کو چپکے چپکے اٹھ کر ذرینہ کو تلاش کرتے۔ دن میں کسی نہ کسی بہانے بیگم کے کمرے کے چکر لگاتے، لیکن جب سے بیگم صاحبہ کے چوٹ لگی تھی ذرینہ انہیں کے کمرے میں سونے لگی تھی۔

    بیگم سجاد اپنے والد کی طرح بہت جہاں دیدہ خاتون تھیں۔ انہیں شوہر کی بے چینی سمجھنے میں رتی بھر بھی دیر نہیں لگی۔ کئی روز تک غور و فکر کرنے کے بعد بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے فیصلہ تو لے لیا لیکن ذرا سا ڈر تھا کہ ذرینہ راضی ہوگی یا نہیں۔ حالاں کہ انہیں خود پر پورا بھروسہ تھا۔

    جمعہ کا دن تھا۔ انہوں نے نماز کے لیے تیار ہوتے شوہر پر بھرپور نگاہ ڈالی اور بولیں ’’نماز کے بعد مسجد میں اعلان کرا دیجیےگا مغرب کے بعد نکاح ہے اور مولانا حافظ بدرالدین صاحب کو نکاح پڑھانے کے لیے غریب خانہ پر آنے کی دعوت بھی دیجیےگا۔‘‘

    نکاح؟ کس کا نکاح؟

    جی— چھدا اور ذرینہ کا۔

    کیا؟؟ عطر لگاتے لگاتے سجاد صاحب کے ہاتھ سے شیشی چھلک پڑی۔

    چھدا اور ذرینہ کا نکاح۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟

    آپ کو اپنی کاروباری مصروفیات سے وقت بچے تو دیکھیں۔ ماشاء اللہ دونوں جوان ہو گئے ہیں اور پھر وہ دونوں بھی اس فیصلے سے خوش ہیں۔

    سجاد صاحب کو لگا ان کے جسم کی تمام طنابیں یکایک ڈھیلی پڑ گئی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے