توجہ کی طالب
جس انسان کو اپنا دل نہ چاہے اس کا تو پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ لاکھ جی کو منائو وہ محبت کا جواب محبت سے دے ہی نہیں سکتا۔ نصرت بھی اپنے چاہنے والوں کے سینے کا بوجھ، گلے کا پھندا اور ضمیر کی کڑکی رہی۔ اس کے چاہنے والے سیاحوں کی طرح آتے اور پھر وقت بیتنے پر اپنے اپنے دیس لوٹ جاتے۔ پرانی پیالیوں جیسی سوغاتیں ٹوٹی پھوٹی یادیں بھی عموماً ان کے پاس نہ ہوتیں۔
نصرت نے کل آٹھ عشق کیے۔ لیکن زیادہ تو ان میں ایسے تھے جو اوور کوٹ کے اندر لگے ہوئے قیمتی استر کی طرح چھپے چھپائے، ڈھکے ڈھکائے ہی رہ گئے۔ نہ گھر میں دھماکا ہوا نہ دل میں۔ وجہ غالباً اتنی تھی کہ گھر کے جن ا سٹپنی نما لڑکوں پر نصرت نے توجہ کی ٹارچ ڈالی وہ یکسر نصرت کی محبت سے خالی تھے۔ ہر شعلہ زبردستی اسی نے انگیخت کیا لیکن چونکہ سلگنا سلگانا ان عاشق صفتوں کا اپنا اندرونی فعل نہ تھا، اس لئے وہ ہمیشہ جاندار رہے اور کوئی حرف محبت ان کی ذات سے جنم نہ لے سکا۔
نصرت دراصل آکسیجن گیس تھی۔ جتنی دیر وہ بھڑکاتی رہتی آگ لپکتی رہتی، جونہی وہ آزمانے یا ستانے کو خود علیحدہ ہو جاتی، عشق کا شعلہ چھوٹی چھوٹی تحقیقاتی کمیٹیوں کی طرح اپنی موت آپ مر جاتا۔ اتنے سارے عشق کرنے کے بعد جب وہ مکمل طور پر پچھاڑے ہوئے پہلوان کی طرح منہ سے بدنامی کی دھول پونچھتی ہوئی اٹھی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے جی کا جنجال تھی اور جس کو انسان کا اپنا دل نہ چاہے وہ چاہے ہیرے موتیوں سے بنا ہو، اس کا پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ گھر کے چچیرے، ممیرے، خالہ زاد، پھوپھی زاد سب بھائی قسم کے رشتے اس کے لیے بیکار تھے۔ عشق کی منزلوں سے وہ یوں فارغ ہوئی جیسے معمر عورت حیض کی لعنت سے فراغ پا جائے۔
نیم چھتی میں جہاں اَن گنت پرانے کھوکھے، ٹوٹے ہوئے بیڈ لمپ، ان کھولے مٹّی سے اَٹے صندوق، پیتل کے سبک رو بگلے، تیلیوں سے بنی ہوئی تصویریں، میڈیکل اور لاکی پرانی کتابیں، تین ٹانگوں والی کرسیاں، بغیر تانت والے ریکٹ، ادھڑی ہوئی نواڑ، ٹیڑھے کیرم بورڈ، سائیکلوں کی پرانی چینیں اور کاروں کے پنکچر ٹائر ٹھسم ٹھسا بھرے ہوئے تھے۔ وہیں ایک پرانا تخت پوش نانی اماں کے عہد کی نشانی بھی پڑا تھا۔ یہ شکستہ پھٹوں والا تخت پوش نصرت کی راجدھانی تھی۔ اس پرنیم دراز ہو کر وہ بڑی آزادی سے ہر قسم کی بات سوچ سکتی تھی۔ مذہب، جنس، خاندانی تعلقات، دوستی رشتہ داری، عید، شب رات کے معاملات، مغربی ممالک سے لوٹنے والے رشتہ دار، جنگ امن، ہندوستان، اسرائیل غرضیکہ سوچ کوکرئی سمت ایسی نہ تھی جو اس کے جہاں نما میں نہ سمائی ہو۔ یہاں لیٹ بیٹھ کر اس نے اپنے گھر والوں کے برہنہ، نیم برہنہ ایکس رے تیار کر رکھے تھے۔ یہاں اس کے پاس اپنے رشتہ داروں کے ایسے زائچے تھے جو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے مشابہہ نظر آتے تھے۔ اسی پر کیا موقوف تھا، سوچ نے تو خود اس کی اپنی ذات کو نہیں چھوڑا تھا۔ جب وہ اپنے آپ پر ترس کھاتے کھاتے ادھ موئی ہو جاتی تو پھر اس کے اندر والا اپنے ہی خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑا تا۔ وہ اپنے ہی وجود کے پیچھے یوں بھاگتی پھرتی جس طرح کمر ے میں اچانک گُھس آنے والے تتیاں کو مارنے کے لیے بچے سیلپر، ریکٹ مکّھی مار ہاتھوں میں لیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ اس کا اندر والا بھی تتیا کی طرح کبھی کسی شیشے سے ٹکراتا، کبھی کسی دیوار سے کبھی جالیوں میں پھنستا، کبھی بجلی کے پنکھے میں۔ نہ آزاد ہو سکتا نہ نصرت سے بچ ہی سکتا۔
ایسے ہی لمحوں میں جب تتیے سے جنگ ہو رہی تھی، نصرت پر اچانک ایک دن یہ عقدہ کھلا کہ اس کی ساری عمر اس اشتہار کی طرح بسر ہوگی جو کسی عمدہ کتاب کے آخری صفحے پر ہوتا ہے۔ کتاب کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے لیکن کتاب کے اصلی متن سے جس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ بھی اس گھر میں، کسی اور گھر میں، ان لوگوں میں کسی اور قسم کے لوگوں میں، اس شہر میں کسی اور شہر میں ہوگی، لیکن اس کا تعلق کسی گھر، کسی انسان، کسی شہر، کسی ملک، کسی مذہب کسی نظریے کے ساتھ اصلی متن کا سانہ ہوگا۔ اس کے سارے عشق ایسی آئس کریم کی مانند تھے جو پوری طرح جم نہ سکے اور تھالیوں پلیٹوں میں اتارتے اتارتے ایک بار پھر کسٹرڈ کی شکل اختیار کرلے۔ ان ساری محبتوں سے صرف اتنا پتہ چلا تھا کہ مرد سے محبت کرنے کا صرف ایک ہی گر ہے یہ ویسا ہی گر ہے، جو خالہ بلی نے شیر کو نہ سکھایا تھا۔ یعنی کہ جب مرد موڈ میں ہو اختلاط چاہے تنہائی کا آرزو مند ہو، اس وقت وہ مکمل سپردگی کے ساتھ گھڑا بھر شہد اس کے سر پر انڈیل دے۔ اس کے بعد گونگی، بہری، انجان لا تعلق بنی رہے۔ کسی بند چھتری کی طرح کسی الماری کے کونے میں چپ چاپ کھڑی رہے اور برسات آنے کی راہ دیکھے۔ اگر کبھی اس گُر کو عورت بھلانے بیٹھ گئی تو اُس کا بھی وہی حشر ہوگا جونصرت کا ہوا۔ یا پھر جو مجید اور نصرت کے عشق کا ہوا۔ ویسے سارے عشق کچھ تھوڑے بہت ہیر پھیر کے آخر اسی انجام کو پہنچے۔ وجہ معمولی تھی۔ عام طور پر وجہ بہت ہی معمولی ہوا کرتی ہے۔ جس روز مجید کو انٹرویو کی کال آئی، نصرت ایک شادی سے لوٹی تھی۔ شادی والے گھر میں عموماً لڑکیوں پر ایک کیمیاوی اثر ہو جاتا ہے۔ وہ حقیقت سے ایک خواب بن جاتی ہیں۔ شادی والے گھر میں جو ایک ہلڑ بازی، بے فکرا پن ہوتا ہے، ڈھولک پرشالا، بنے، ماہیاکے نام دوہراتے رہنے سے جو ایک گرمی اور جوش لہو میں پیدا ہو جاتا ہے، وہ نصرت کے انگ انگ پر چھایا تھا۔ وہ ذہنی طور پر آج خود دلہن بنی ہوئی تھی۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ آج اس کی سہیلیوں نے اس کے ہیر اسٹایل اور ساڑی کی بھی بہت تعریف کر دی تھی۔ شادی والے گھر سے جلد لوٹ آنے کی وجہ بھی یہی تعریف تھی۔ نہ اس کی سہیلیاں اسے یوں ساتویں آسمان پر چڑھاتیں، نہ اس کا جی چاہتا کہ اس کا یہ سارا جمال مجید بھی دیکھ لے۔ مجید کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے جچ جانے کے لئے اس نے سارے گھر والوں کو شادی والے گھر میں چھوڑا اور خود لوٹ آئی۔
اس روز مجید گھر میں اکیلا تھا۔ اس کی جیب میں انٹرویو کی کال تھی اور وہ بلیڈ کے ساتھ پائوں کے پرانے گھٹے صاف کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ انٹرویو کے وقت اسے کیا پہن کر جانا چاہیے۔ اگر باقی لڑکے ولایتی کپڑے کے سوٹ پہن کر گئے تو وہ اُن کے مقابلے میں ویسا سوٹ کیسے فراہم کرے گا اگر سادہ شلوار قمیض پہن کر جائے اور چیئرمین عوامی خیالات کا نہ نکلے تو پھر کیسی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
بالفرض انٹرویو لینے والے لباس کے معاملے میں فراخ دل ثابت ہوئے تو پھر بھی وہاں نشست و برخاست، آداب اور سلیقے کے وقت کیا کیا احتیاط لینی ہوگی؟ سوالات کی نوعیت کیا ہوگی اور ان سوالات کا جامع گائیڈ کہاں سے مل سکتا ہے؟ میرے ساتھ آنے والے جملہ امیدواروں کا آئی کیو کیا ہوگا؟اور ان کی فیملی بیک گرائونڈ کس حد تک تصدیق شدہ مانی جائے گی؟ چلیے اگر ان مرحلوں سے بھی نکل گیا تو آگے سفارش کی یہ لمبی، گہری اور ان جانی کھائی ہے۔ آخرسی ایس ایس کا امتحان ہے۔ شہر کے بڑے بڑے اکابرین لمبی لمبی گاڑیوں میں اپنے اپنے سپوتوں کے لیے بھاگیں گے۔ یہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ماموں نے اپنے گھر ٹھہرا کر امتحان دلوایا۔ اب وہ سفارش تھوڑا ڈھونڈتے پھریں گے۔ وہ تو کہیں گے بھیا MERIT پر نکلنا چاہیے آگے۔ مجھے کون پوچھے گا چھڑے نمبرو پر؟ مجھے کون بلائے گا صرف نمبروں کے حوالے سے۔ صرف نمبر لے کر میں چاٹوں؟
دراصل اس وقت نصرت اور مجید کی ذہنی فضا میں ہم کلامی نہ تھی۔ نصرت سمپورن راگ کی طرح سات سروں میں کھیل رہی تھی اور مجید کا وہی جی فلیٹ بج رہا تھا۔ انٹرویو۔ انٹرویو۔ انٹرویو!
نصرت نے آنگن کا دروازہ کھولا اور ایک فلمی ایکٹرس کی طرح اتراتی ہوئی آگے آئی۔ مجید نے مڑکر پیچھے نہ دیکھا اور گھٹے کو بلیڈ سے کھد یڑتا رہا۔ نصرت نے اپنے لمبے اور ٹھنڈے ہاتھوں سے پچھلی طرف آکر مجید کی آنکھیں بند کر لیں۔ اس بے احتیاطی میں تھوڑا سا بلیڈ مجید کو لگ گیا اور ایک سرخ بوند لہو کی چیچی انگلی پر ابھرآئی۔
’’کون ہے؟‘‘ مجید نے جھڑک کر کہا۔
نصرت چپ رہی۔ اس کا خیال تھا کہ مجید اچھی طرح سے اس کے ہاتھ پہچانتا ہے۔
’’کون ہے بھئی ایسا بدتمیز؟‘‘
بدقسمتی سے اسے بھی نصرت ادائے دلربا نہ سمجھتی رہتی۔
اب مجید نے بلیڈ پرے پھینکا اور پھر کر ختگی سے اُس کے ہاتھ پرے کرتے ہوئے کہا، ’’توبہ! یہ کیا بچکانہ حرکت ہے؟ پہلے ہی میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔‘‘
نصرت نے آنکھیں جھکا لیں۔ اسے عجیب قسم کی مذامت محسوس ہوئی۔ کچھ دیر مجید غور سے اپنے بائیں پائوں کی آخری انگلی پر آئی ہوئی لہو کی بوند دیکھتا رہا۔ پھر اس نے جیب سے رومال نکال کر پائوں صاف کیا اور اس کے بعد اٹھ کر غسل خانے میں چلا گیا۔ غسل خانے کا دروازہ کھلا تھا لیکن نصرت اندر جاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی۔ کافی دیرفلکہ چلتا رہا۔ پھر مجید کھانستا رہا۔ دوائیوں کی الماری میں سے کچھ نکالنے دھرنے کی آوازیں آتی رہیں۔ کافی دیر کے بعد مجید باہر نکلا تو اس کی چھنگلیا پر چھوٹی سی پگڑی بندھی تھی اور مجید سے ہلکی ہلکی ڈیٹول کی بو آرہی تھی۔
’’زیادہ چوٹ تو نہیں آگئی؟‘‘ نصرت نے چوربن کر پوچھا۔
’’نہیں۔ ٹھیک ہے۔‘‘ مجید نے احسان کا ٹوکرا اس کے سر پر لاد دیا۔ اس کی آواز میں کوئی ایسی چھپی ہوئی شکایت تھی گویا بہت زیادہ چوٹ لگ گئی ہو۔
پہلی ہی چال غلط پڑی۔ نصرت پر ایک قسم کی انفعالی کیفیت طاری ہوگئی۔ بھلا یہ کہاں کی شرافت تھی کہ دیکھے بغیر اس نے مجید کی آنکھیں بند کر لیں اور جو کہیں بلیڈ انگلی کے پار ہو جاتا تو؟
گھٹتی لڑائی میں اس نے ایک اور فن حرب میں غلطی کی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ مجید اس کے حسن کے سامنے ماضی، مستقبل، حال سب کے ہتھیار ڈال دے گاسہی احساس کے تحت نصرت نے اپنے پلّو کو مجید کے منہ پر لہرادیا۔
مجید اس وقت حاضر نہیں تھا۔ وہ چیئرمین کے سامنے بیٹھا، اس وقت اس سوال کا جواب سوچ رہا تھا کہ ویٹنام میں امریکی فوجوں کی کلی جمعیت کتنی تھی؟ اس نے ہاتھ سے پلّو پرے کرکے اوں ہوں کہا تو نصرت سوچ میں پڑگئی۔
نصرت ابھی تک بیاہ والے گھر میں پھر رہی تھی۔
’’ساری لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ یہ ہیراسٹائیل مجھے بہت سجا ہے۔ میرا چہرہ گول لگتا ہے اس جوڑے میں۔ ہیں؟‘‘
مجید کی طبیعت حاضر نہیں تھی۔ گیس کی بیماری میں مبتلا مریض کی طرح اُس کا چہرہ خالی خالی تھا۔
’’ہوں! ہاں۔ وہ تو ہے۔‘‘
نصرت پر تھوڑی سی اوس پڑگئی۔ پر اس نے ڈھٹائی سے پوچھا، ’’کیسی لگ رہی ہوں میں؟ سب مجھے بہت ADMIREکر رہے تھے۔‘‘ مجید نے اپنی طرف سے بات میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی اور بولا، ’’ہمارے ہاں سکینہ میراثن کی بیٹی کبھی کبھی شادی بیاہ کے موقعہ پر ساڑی پہن کر آیا کرتی ہے۔‘‘
باقی بات نصرت نے نہ سنی۔ کتنی دیر وہ چپ چاپ جستی ٹرنک پر بیٹھی سوچتی رہی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ واپس ان لڑکیوں کی طرف لوٹ جانا چاہیے جو مجھے زیبا ایکٹرس سے ملا رہی تھیں یا یہیں رہنا چاہیے سکینہ میراثن کی بیٹی بن کر۔
کچھ عرصہ بعد مجید نے صلح کی جھنڈی لہرائی۔
’’کیا کچھ ہوا وہاں شادی پر؟‘‘
’’دلہن بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ڈیڑھ سوکا تو جوڑا بنوایا اس نے۔ فلم اسٹار چاندنی دلہن بنانے آئی تھی اسے۔۔۔‘‘
ایک بار پھر نصرت شادی والے گھر میں پہنچ گئی۔ پتہ نہیں شادی والے گھر کی یہ تعریف سنکر مجید کو کیوں لگا گویا وہ انٹرویو میں فیل ہو جائے گا۔
’’تم لڑکیوں کو دولہن بننے کا اتنا خبط کیوں ہوتا ہے؟‘‘
’’بس ہوتا ہے۔ ہر مذہب، ہر ملک، ہر نسل کی لڑکی کو ہوتا ہے۔‘‘ اترا کر نصرت نے کہا۔
’’غالباً اور کوئی شوق نہیں ہوتا تمھیں۔ دراصل عورت ہوتی ہی ناقص العقل ہے۔ دلہن بننے سے زیادہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتی۔‘‘ مجید نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ نصرت کو یک دم اپنا سر چھوٹا ہوتا محسوس ہوا۔
’’عورت کی کھوپڑی دراصل حجلہ عروسی ہے۔ اس میں ہمیشہ ڈھولک بجتی ہے۔ سہرے بکھرے ہوتے ہیں۔ پھر کمبخت چاہتی ہے کہ اسے مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں۔ عورت پروفیسر ہو، چاہے وکیل، چاہے ملک کی ادیبہ ہو یا لیڈر اُس کے دماغ میں ہمیشہ عشق و عاشقی ہی ٹھنی رہتی ہے۔‘‘
نصرت نے چاہا کہ پوچھے کہ آخر اس میں برائی کیا ہے؟ لیکن مجید کا چہرہ ماسٹر جی کے بید کی طرح تنا ہوا تھا۔ پھر وہ شادی کے گھر سے آئی تھی۔ بحث مباحثہ کے لیے اس وقت اس کی طبیعت حاضر نہ تھی۔
مجید کو اس وقت یہ دبلی پتلی لڑکی بے حد مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔ اور وہ کسی قسم کی دان دکشنا کے موڈ میں بھی نہ تھا۔ چپ چاپ اٹھ کر وہ باورچی خانے میں چلا گیا اور پانی کی کیتلی بھر کر گیس کے چولہے کو جلا کر اس پر دھردی۔ کچھ دیر نصرت وہیں چپ چاپ کھڑی رہی۔ سوچتی رہی کہ چلو پھر کیا ہوا۔ خوب صورت تو وہ کبھی تھی نہیں نہ کبھی آئینے نے اس بات کی گواہی دی تھی، نہ ہی اس کے جان پہچان والوں نے۔ اگر مجید نے دو تعریفی جملے نہیں کہے تھے تو کون سی بری بات تھی، رہ رہ کر اسے اپنی ایک سہیلی کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ نادرہ کی ناک چپٹی، آنکھیں چندھی اور آدھی انچ کے ماتھے پر حبشیوں جیسے گھنگھریالے بال تھے۔ رنگ صرف سیاہ ہوتا تو بھی بات تھی، پر اس کے سیاہ چکنے چہرے پر ننھے ننھے ان گنت داغ دھبے اور گڑھے بھی تھے اور اس کا چاہنے والا جیسے محبت نامے اسے لکھتا تھا۔ وہ پڑھ پڑھ کر نصرت دنگ رہ جاتی تھی۔ موتیوں جیسی ہموار لکھائی میں ہر خط نادرہ کے حسن کا قصیدہ ہوتا۔ ایک دن اس نے نادرہ سے پوچھا تھا کہ جادو کا طریقہ کیا ہے تو وہ بولی تھی، ’’جادو وادو کچھ نہیں بھئی! عظیم کہتا ہے کوئی عورت نہ خوب صورت ہوتی ہے، نہ بدصورت۔ بس چاہنے والے کی نظر میں سب کچھ ہے۔‘‘
نصرت کا جی بھی چاہتا تھا کہ چاہنے والوں کی نظر میں کچھ ہوتا۔ لیکن آج تک تو ایسا معجزہ ہو نہ سکا تھا۔ کافی دیر وہ چپ چاپ کھڑی رہی۔ پھر ڈھیٹ بن کر باورچی جانے میں چلی گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ میز پر چائے کے برتن لگائے کہ پیچھے سے دونوں بازو ڈال کر مجید کو گھیر کر، نا کردہ گناہوں کی معافی مانگ لے۔ اس وقت نصرت سے ایک بڑی پھسلنی غلطی ہوگئی۔ اس نے مجید کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا اور آہستہ سے بولی، ’’میں جانتی ہوں مجید! مرد ہمیشہ خوب صورت عورتوں سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ لاڈ پیار، تعریف سب خوب صورت عورتوں کے لیے ہوتا ہے مجھ جیسی لڑکیوں کو ہمیشہ خود اظہار محبت کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں خود مرد کے پیروں میں بچھ بچھ جانا پڑتا ہے۔‘‘
مجید چولہے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایسی خاموشی اختیار کر رکھی تھی گویا نصرت کی ہر بات ٹھیک ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے کہا،‘‘ یہ چولہا بلیوفلیم کیوں نہیں دے رہا؟
نصرت نے حیرانی سے چولہے کی طرف دیکھا، پھر آخری بار غلط چال چلی، ’’میں جانتی ہوں تم مجھ سے کبھی کھل کر اظہار محبت نہیں کروگے۔ تم مجھے اتنا چوگا کھلاتے رہو گے کہ میں زندہ رہوں لیکن پھولنے پھلنے کے لئے یہ پھوارکافی نہیں۔ اسے مسلسل بارش چاہیے۔ ریگستان کی بارش نہیں چائے کے باغوں جیسی بارش۔ دھان کے کھیتوں جیسی بارش! مجید مجھے تم سے عشق ہے۔ خدا کی قسم امّاں چاہے مجھے قتل کر دیں، میری بوٹی بوٹی تمہاری ہے۔‘‘
یہ سب شادی والے گھر کا کیا دھرا تھا۔ ورنہ آج تک نہ نصرت نے محبت کی بھیک مانگی تھی نہ انپے عاشقوں کو دل کا سراغ دیا تھا۔ مجید کو یوں لگا جیسے نصرت کو انٹرویو کے بلاوے کا پتہ چل گیا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے تحفظ کی پہلی قسط ادا کر رہی ہے۔ وہ عورتوں کی چھٹی حس پر لعنت بھیجتا ہوا اٹھا اور صافی تلاش کرنے لگا۔
’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ بڑی دیر بعد مجید بولا۔
نصرت کو چپ سی لگ گئی۔ وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ چاہے دو دن کی محبت ہو لیکن فریقین ایک دوسرے کو ٹوٹ کر تو چاہیں۔ زندگی میں کبھی تو پیالہ منہ تک بھر جائے۔ ورنہ پھیکی شکنجبین پیتے پیتے تو اسے پورے آٹھ برس گزر چکے تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ میز پر برتن لگائے۔ اس سے پہلے جب کبھی مجید چولہے پر کیتلی رکھتا، وہ دو پیالیاں میز پر سجایا کرتی تھی۔ آج اس نے ایک پیالی پرچ رکھی اور چمچ لگانا بھول گئی کیونکہ وہ اور بہت کچھ سوچ رہی تھی۔
’’نصرت تم چائے نہیں پیوگی؟‘‘ پوری پیالی چائے کی ختم کرنے کے بعد مجید نے سوال کیا۔
’’نہیں میں شادی والے گھر سے پی آئی ہوں۔‘‘ نصرت نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو روکے۔
’’اچھا۔‘‘
خاموشی گہری گھاٹی کی طرح دونوں کے درمیان آبیٹھی۔
بڑی دیر تک مجید سگریٹ پیتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ دراصل زیادہ دیر تک ٹھنے رہنا نصرت کے بس کی بات نہ تھی۔ آہستہ آہستہ اسے مجید پر ترس آنے لگا۔ ہائے بِن ماں کا بچہ کتنی مصیبتوں سے پلا ہے، کبھی ہمارے گھر کبھی تمہارے گھر۔ جانے کتنی کتنی محرومیاں ہوں گی اس کے دل میں، اللہ جانے کیسی کیسی تلخ یادیں ہوں گی اس کے ماضی میں۔ نصرت کو جون آف آرک بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ سیاہی چوس ہے جو دوسرے لوگوں کے سارے غم اپنے وجود میں سمونے کی اہمیت رکھتی ہے۔
وہ ہمت کر کے اٹھی اور اپنے ڈایا فرام پر مجید کا سر رکھ کر بولی، ’’کیا بات ہے مجید۔؟ آج تمہیں ہوا کیا ہے؟۔‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ بجھی بجھی آواز آئی۔
نصرت مجید کا سر اپنے سینے پر رکھنا چاہتی تھی لیکن اپنے سینے کے متعلق اسے بڑا احساس کمتری تھا۔ اس احساسِ کمتری کو مٹانے کے لیے اس نے دو چار نقلی انگیا منگا رکھی تھیں اور جو بھی باڑہ یا لنڈی کو تل جاتا، اس کی بس ایک ہی فرمائش ہوتی کہ اچھی فش بونئز والی فوم لگی محرم میرے لیے لیتے آنا۔ اس وقت پسلیوں پر مجید کا سر رکھنے سے نہ تو مجید کو آرام ملا، نہ ہی نصرت کی تسلّی ہوئی۔ مجید نے کچھ دیر کے لیے اس لڑکی کے جسم کا فائدہ اٹھانے کی سوچی۔ پھر اسے ہمیشہ کی طرح خیال آیا کہ ماموں کے اتنے احسانات ہیں مجھ پر کیا میں انھیں اسی طرح چُکانے کے اہل ہوں؟
آہستہ سے مجید نے نصرت کے بازو پر بوسہ دیا۔ ٹھنڈا اور بے کیف بوسہ۔
مجید نے اس وقت نصرت کو اپنی انٹرویو کال کے متعلق سب کچھ بتانا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ یہ پھولدار ساڑی پہننے والی لڑکی ہے۔ یہ کیا سمجھے گی کہ انٹرویو کا خوف کیا چیز ہے؟
نصرت نے اسے شادی والے گھر کی باتیں بتانا چاہیں لیکن پھر یہ سوچ کر کہ مجید کوتو اپنی شادی کا شوق نہیں، وہ کسی اور کی شادی کو کیا سمجھے گا، چپ ہو رہی۔ دونوں جتنی دیر بیٹھے رہے، خود کلامی میں مصروف رہے۔ دل کے دروازے کھول کر ایک دوسرے کو بلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔
دوسری صبح جب مجید گھر سے روانہ ہوا تو سارے اسے برآمدے تک چھوڑنے آئے لیکن نصرت غسل خانے کی چٹخنی لگائے نہاتی رہی گاتی رہی، ہوائی جہاز کی ٹکٹ جیب میں ٹٹولتے ہوئے آخری وقت مجید غسل خانے کے دروازے تک آیا۔ اس وقت اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دروازہ کھل جائے اور بوندوں میں بھیگی نصرت کی ایک جھلک وہ دیکھ لے۔ آہستہ سے اس نے دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے؟‘‘ لمبی سی آواز آئی۔
’’میں ہوں۔ مجید۔ میں جارہا ہوں۔ ابھی دروازہ کھولو۔‘‘ اُس کی آواز جسمانی لذت کے احساس سے بوجھل ہو گئی۔
نلکہ بند ہوا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’مجید بھئی۔ ہوائی جہاز جانے والا ہے۔ جلدی دروازہ کھولو۔‘‘
نصرت نے امریکی فلم اسٹاروں کی طرح اپنے گرد تولیہ لپیٹا۔ چٹخنی تک ہاتھ لے گئی اور پھر رک کر بولی، ’’تمھیں دیر ہو رہی ہے؟‘‘
’’ہاں۔ خدا کے لیے دروازہ کھولو۔ ایک لمحہ بھر کے لئے۔‘‘
جسم جسم جسم۔ یہاں سب کچھ جسم تھا۔ جسم کی ایک جھلک۔ ایک رگڑ۔ ایک لمس۔
’’خدا حافظ مجید، میں نہا رہی ہوں۔‘‘
’’ذرا۔ ذرا سادروازہ کھولو پلیز۔ میں تمھیں آخری بار دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میری آنکھوں میں صابن لگ رہا ہے۔ خدا حافظ۔‘‘
کچھ دیر مجید دروازے سے ہونٹ لگائے کھڑا رہا۔
اندر نلکہ جاری ہوگیا۔
’’خدا حافظ۔‘‘ مجید نے بالآخر کہا۔
’’خدا حافظ۔‘‘
شاور کی بوندوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اس کے آنسو بھی شامل ہوتے رہے۔ وہ نہاتی رہی روتی رہی، اور سوچتی رہی۔ شاید محبت کا لمحہ آپہنچا تھا۔ لیکن اس کی کوتاہی نے یہ ٹرین بھی مس کر دی۔
اسی عشق جیسے اور کئی عشق تھے۔ یہ سارے عشق مرغی کے اُن انڈوں کی طرح اس کے اندر سے نکلا کرتے ہیں۔ ان کو مکمل ہونے کا اللہ کی طرف سے حکم ہی نہ ہوا۔ سب ہی اسقاط ہوئے۔ کوئی چھ ہفتے بعد، کوئی پانچ ماہ سات دن ٹھہر کر! ہر عشق کے دوران اسے اماں نے خوب مارا تھا۔ اماں اس کی عاشقانہ طبیعت سے بہت نالاں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک وہ کوئی صحیح برتلاش نہیں کر لیتیں، ان کی ہر بیٹی کو چھچھوندر کی طرح اندھی بن کر دیواروں کے ساتھ ساتھ چل کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ مجید کے معاملے میں تو اماں اور بھی آگ بگولہ ہو گئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مجید کے گھر والے چور بھی ہیں اور چتر بھی۔ تین سال سے مجید ان کے گھر پڑا تھا اور اس دیکھ ریکھ کے بدلے جو جو باتیں ان کی نند نے کی تھیں الامان!
جتنی بار اماں نے نصرت کی پٹائی کی، اتنی ہی بار کسی نہ کسی طرح نصرت مجید کے پاس ضرور پہنچی اور پتہ نہیں مجید کے ہاتھ میں کیا جادو تھا، جہاں وہ ہاتھ رکھ دیتا، زخم جاتا رہتا درد ختم ہو جاتا۔
اس میں کسی کا قصور نہیں تھا کہ مجید یوں لا تعلقی سے چلا گیا۔ سارا قصور نُصرت کا اپنا تھا۔ وہ خود آکسیجن گیس تھی۔ ہر شعلہ اس کی وجہ سے بھڑکتا تھا۔ ہر جگہ اس کی وجہ سے آگ لگتی تھی۔ یا یوں سمجھئے شعلے کے روپ میں وہ خود جلتی تھی۔ ادھر آکسیجن علیحدہ ہوتی، ادھر شعلہ خود بخود ختم ہو جاتا!
عشق کے مرحلوں سے حیض کی طرح فارغ ہو کر اب وہ جنسی، ذہنی اور جسمانی طور پر عجب سکون کے دن بسر کر رہی تھی۔ اپنے ہی پیچھے سلیپر لے کر بھاگنے میں عجب لطف ملتا تھا۔ پرائسچت کا لطف، خودترسی کا لطف، تیاگ کا لطف۔ اپنے آپ کو ملامتیہ فرقے سے ذہنی طور پر منسلک کرنے میں ایک بڑی اعلیٰ فرار کی راہ نکل آئی تھی۔ اب اس کے وجود پر اپنی انا کا بوجھ ذرا کم تھا۔ اب وہ گھر کا جو کر بن گئی تھی۔ بڑے سائز کے مردانہ سلیپر پہنتی، سر پر اخبار کی ٹوپی، جسم پر کسی بھائی بھتیجے کا کرتا۔ کھڑی غرارے کر رہی ہے، ٹرائی سائیکل چلا رہی ہے، ثابت پیاز مُٹھی مار کر توڑنے کے بعد چبارہی ہے۔ جہاں کہیں نوجوان لڑکے بیٹھے ہوں وہاں ہائیڈروجن پر آکسیڈپلیٹ میں ڈال کر بیٹھ جاتی اور پہروں بال برائون کرنے میں گزار دیتی۔ بالوں میں سرسوں کا تیل لگا کر دو دو دن نہ نہانا اس کی عادت بن چکی تھی۔ لمبی بگلاسی تو تھی، ایسے حلیے میں جو لوگ اسے بار بار دیکھنے لگے تو اس کی بدصورتی اور بدسلیقگی کی داستان دور دور تک جا پہنچی۔ اب وہ ہنستی تو پہروں ہنستی رہتی۔ رونے کو جی چاہتا تو نیم چھتی میں سسیکوں کاریڈیواسٹیشن کھل جاتا۔
اماں کی باقی لڑکیوں نے ادھربی اے کیا، ادھر گھر میں جوڑ توڑ، پھنس مرغا، ہیرا پھیری، پھندے غرضیکہ سیاست داں چانکیہ جیسی گرم بازاری شروع ہو جاتی۔ کوئی ایک توجہ مرکوز ہوتی لڑکیوں پر۔ دیکھنے والیاں آرہی ہیں، بازاروں میں سارا سارا دن گذر رہا ہے۔ کہاں روپیہ دو روپیہ کے لیے کئی کئی دن چخ چخ ہوتی تھی اور ابا کی چیک بک پر ہی گویا دسترس ہو جاتی۔ پسند نا پسند کے چرچے، آرام بے آرامی کا خیال، بیوٹی کلنک چکر۔ گھر کی لڑکیاں تو اس دور میں بالکل مہارانیاں معلوم ہوتیں۔
اللہ نے اگر راستہ بند کیا تو نصرت کا۔ خدا جانے یہ اس کا حلیہ تھا کہ اس کی بدقسمتی تھی یا یوں بھی اس کی ایک ہوا بندھ چکی تھی کہ جتنے رشتے اس کے لیے آئے، کسی کو چول ڈھیلی، کسی کیس اسپرنگ ناقص، کسی کے نٹ بولٹ پرانے۔ کوئی لوہے کا دروازہ اس کی خالی چوکھٹ پرفٹ نہ ہو سکا اور وہ نیم چھتی کے کاٹھ کباڑ کی طرح بن کر رہ گئی۔
ویسے بھی نصرت نے اپنے جملہ تجربات سے بہت ساری عبرت خیز باتیں سیکھ لی تھیں اور اسی لیے اب وہ ہمیشہ آسمان اور دل سے ڈرتی رہتی تھی۔ پہلے ہی عشق کے بعد جب جعفر نے سارے گھر والوں کے سامنے اماں کی ریشمی رضائی پر نصرت کے محبت نامے لا کر پھینکے تو وہ دنگ رہ گئی۔ ایک ایک خط پر سرتاج کی سرخی تھی اور ہر ایک خط ہمیشہ تمہاری نصرت پر ختم ہوتا تھا۔ خط باری باری سب کے ہاتھوں میں گئے حتّی کہ پانچ سال کے منے نے لفافوں پر سے پاکستان اینی درسری اور آرسی ڈی والی ٹکٹیں اتارلیں۔
اس عشق سے نصرت نے یہ سبق سیکھا کہ مر جائو پر کسی کو خط نہ لکھو ورنہ بوقت ضرورت انھیں کام میں لایا جائے گا۔ نعیم نے پہلے تو اَن گنت تحفے چوری چھپے نصرت کو دیے جن میں میڈورینا رسٹ واچ بھی شامل تھی۔ پھر جب نا چاقی ہوئی تو یہ سارے تحفے واپس طلب کرلیے۔ ساتھ ہی دھمکی دے دی کہ اگر اُس کے سارے تحفے مقررہ تاریخ تک نہ لوٹے تو وہ یو این اومیں رپورٹ درج کر دے گا۔ نصرت کو گھر کی یو این او سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس نے سارے تحفے بمع معانی نامے کے واپس کر دیے۔
اس عشق کے بعد تحفے تحائف لینا دنیا اس کے کوڈ میں حرام ہو گیا۔
اختر نے بظاہر اپنا تن من دھن اس کے سپرد کر رکھا تھا اور وہ بات بات پر مصر ہو جاتا کہ عاشقوں میں دوئی کیسی؟ اس لیے آدھی آدھی رات تک نصرت اس کی چارپائی میں اسی کا لحاف اوڑھے دوئی مٹاتی رہتی لیکن جب اختر نے ان تعلقات کا ذکر اپنے دوستوں میں فخریہ کرنا شروع کیا اور بات چلتے چلتے نصرت تک پہنچی تو اس نے یہ عبرت حاصل کی کہ دوئی کو بہر کیف شادی تک قائم رہنا چاہیے۔
اسی طرح چھوٹے چھوٹے کئی سبق تھے جنہوں نے اسے بڑاسہج سہانا کر دیا تھا۔ اب اس کے پاس تعریزاتِ عشق کی کافی جامع کتاب بن چکی تھی۔ وہ اتنے سبق سیکھ چکی تھی کہ اب سبق ہی سبق باقی تھے اور عشق کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ شادی سے پہلے عشق کرنے کا اب اسے خیال بھی نہ آتا تھا۔ اُس نے اپنے عبرت نامے کی مدد سے شادی کے بعد بھی اپنا ایک خاص پروگرام مرتب کر رکھا تھا۔ وہ سوچتی رہتی کہ شادی کے بعد عورت کو ایک ایورریڈی قسم کے سیل کی طرح ہونا چاہیے۔ جب اسے ٹارچ میں ڈالو، بٹن دبائو روشنی ہو جائے۔ ٹرانسسٹر میں لگائو کھٹ سے بولنے لگے، بچوں کے کھلونوں میں فٹ کر دو تو کار چلنے لگے ٹرین بھاگنے لگے ریچھ تالی بجا بجا کر ہلکا ن ہو جائے میم ناچ ناچ کر بائولی ہوجائے۔ سیل نکال کر رکھ دو تو ساری چیزیں بے جان ہو جائیں۔ وہ مرد کی بیٹری سے چارج ہونے والا سیل ہونا چاہیے تاکہ جب وہ چاہے چارج کرے نہ چاہے تو پھینک دے۔ بچے اس کا جستی خول اتار کر سارے گھر میں کاربن کی سیاہی اڑاتے پھریں۔۔۔ اور پھر کسی کو پتہ نہ چلے کہ اسی سیل میں نچانے، روشن کرنے اور بولنے کی قوت کبھی تھی؟
ابھی تو نیم چھتی میں اخبار کی ٹوپی پہن کر جانے وہ اپنے آپ سے کیسے کیسے بدلے لیتی کہ اچانک اللہ نے اُس پر چھپر پھاڑ دیا۔ راتو ں رات وہ پردہ سیمیں پر جگمگانے والی صف اوّل کی اداکارہ بن گئی۔
نُصرت کی اماں سارے گھر میں ویٹو کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اماں نے اپنے سسرال میں عجیب قسم کی زندگی بسر کی تھی۔ کچھ عرصہ اسے نئے برتن کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں رکھا گیا۔ شوہر نے چند سال جسمانی لذت کے لیے استعمال کیا اور پھر غافل ہوگیا۔ اماں نے ابا کو واپس لانے کے لئے ہزار جتن کیے لیکن اس کا کوئی بوم رنگ اس تک واپس نہ آیا۔ ایسے میں جب اس کے پاس دینے کو لاکھوں من محبت تھی اور اس جنس کے اصلی خریدار کو دوسری عورتوں سے فرصت نہ تھی۔ اماں نے اس محبت سے دوست دشمن پر کمندیں ڈالنا شروع کردیں۔ اب سارے گھر میں اس کی شفقتوں اس کی قربانیوں کے چرچے تھے۔ سارے خاندان میں شاید ہی کوئی ایسا رشتہ دار باقی ہو جس پر عصمت بیگم کی پوری توجہ نہ پڑی ہو۔ پلٹن بھر لڑکے اس گھر سے تعلیم حاصل کر کے رخصت ہوئے۔ کئی ٹیڑھی بینگی لڑکیوں کے ایسے ناطے کرا دیے کہ خود لڑکیوں کو باقی ساری عمر اپنی حوش نصیبی پر رشک آتا رہا۔ کئی پھوپھیاں، خالائیں عدت، زچگی بیماریوں کا عرصہ خوشی خوشی گزار کر گئیں۔ کئی اکھڑے ہوئے رشتہ داروں نے یہاں بیٹھ کر گھر تعمیر کیے بزنسیں سدھ کیں۔ بیرونی ممالک آنے جانے کے راستے کھولے۔ عصمت بیگم ساری عمر شوہر کے دل کی ایک کھڑکی نہ کھول سکی۔ لیکن اپنے دل کو اس نے ایک کُھلی غلام گردش بنا دیا، جس میں بسرام کرنے کا کوئی کرایہ نہ لگتا تھا۔ کوئی پاسپورٹ ویزا درکار نہ تھا۔
ایسی عورت جب اچانک بیمار پڑی تو سارے مغلیہ خاندان میں غدر مچ گیا۔ اتنے بڑے خاندان کی سر براہ خاتون جس روز بیمار ہوئی۔ اتفاق کی بات ہے جس روز اماں کو دورہ پڑا، اس روز گھر پر صرف نصرت اور ابا موجود تھے۔ باقی بہن بھائی بہاولپور چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے۔ طفیلی، مہمان، رشتہ دار حتی کہ پلٹن بھر نوکروں میں سے بھی گھر پر کوئی نہ تھا۔
نصرت برسوں پہلے جعفر کے واقعے کے بعد ہی سے اماں سے بچھڑ چکی تھی، اس وقت وہ اپنی نیم چھتی میں تخت پوش پر لیٹی ناول پڑھ رہی تھی۔ ہر ناول کو پڑھتے وقت نصرت دو حصوں میں بٹ جاتی تھی۔ ایک نصرت ہمیشہ ہیروئن کے عشق کا مذاق اڑاتی اسے احمق سمجھتی۔ دوسری نصرت کی آنکھوں میں ہیروئن کی خوش قسمتی کا پڑھ پڑھ کر پل پل آنسو آتے۔ اُسے یقین ہی نہ آتا کہ ایسی خوش نصیب لڑکی بھی کوئی ہو سکتی ہے جس کو اتنی شدت سے چاہا گیا۔ کیونکہ ہر کتاب کا عشق عموماً سچا، اکلوتا اور جان لیوا ہوا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے رال ٹپک ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
’’کون ہے۔۔۔؟’ اس نے خشگی کے ساتھ پوچھا۔
’’میں ہوں۔۔۔ ابا جی۔۔۔‘‘
نصرت نے سر سے کاغذی ٹوپی اتاری۔ سلیپر پہنے اور باہر نکل آئی۔ اس اجنبی معمر شخص کی موجودگی میں نصرت عموماً گھبرا جاتی۔ اس گول مول شخص کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی اور اس کا پیٹ پورے حمل کی طرح بوسکی کی قمیص میں باہر کو بڑھا ہوا تھا۔ نصرت کے لیے یہ مرد کسی اور مذہب، نسل کسی اور ملک کا باشندہ تھا۔ اگر وہ اپنی اور ابا جی کی ملاقاتوں کا کل میزان لگاتی تو چھ گھنٹوں سے کبھی زیادہ نہ نکلتا۔
’’جی۔۔۔‘ اُس نے سر پر خوف سے دوپٹہ لے لیا۔
ہر اجنبی سے ملنے کا اس نے سیدھا سا یہی فارمولا تیار کر رکھا تھا۔
’’تمہاری اماں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے؟ پیڑھی پر بیٹھی بیٹھی لڑھک گئیں وہ تو میں سامنے نہ ہوتا، تور گیس کے چولہے میں گر جاتیں۔‘‘
وہ ہرنی کی طرح کلانچیں بھرتی نیچے پہنچی۔
اماں پلنگ پر چت لیٹی تھیں۔ ان کے چہرے کا دایاں حصہ کچھ ٹیڑھا سا نظر آرہا تھا۔
’’امّاں۔۔۔! امّاں جی،‘‘
عصمت بیگم نے آنکھیں کھولیں، تھوڑی سی پہچان ان کی دائیں آنکھوں میں آئی اوگم ہو گئی۔
’’اماں۔۔۔ اماں۔۔۔ نصرت نے ان کو دایاں بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔ لیکن بازو گویا بے جان لکڑی کی مانند اُس کی گرفت میں گونگاہی بنا رہا۔ اس نے پلٹ کر اپنے اجنبی باپ کی طرف دیکھا جس کا ازار بند بوسکی کی قمیص کے نیچے لٹک رہا تھا۔ اتنی ساری عورتوں سے عشق کرنے کے باوجود یہ مرد بالکل اکیلا اور بیحد خوفزدہ تھا۔
’’کیا کریں ابّا جی۔۔۔۔ اب ہم کیا کریں؟۔۔۔‘‘
اُس نے ڈر کے مارے ابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اجنبی، معمّر، خوفزدہ بھولے بھالے باپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’ڈرو نہیں میں ابھی ایمبولنس لے کر آتا ہوں۔ تم اماں کے پاس رہو۔‘‘
جب تک باہر ایمبولنس نہیں آئی، وہ اماں کا بازو دباتی رہی، ہاتھ پائوں رگڑ رگڑ کر گرم کرتی رہی۔ لیکن اس وقفے میں ایک بار بھی اسے اماں کے وجود پر پیار نہ آیا۔ اسے اماں کی بیچارگی پر ترس آرہا تھا اور بس۔ اماں بچے کے جذباتی رشتے سے وہ کبھی کی آزاد ہو چکی تھی۔
گھر سے ہسپتال پہنچتے پہنچتے اماں کا دایاں حصہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ نصرت اور اس کا اجنبی باپ دو دن بڑے ہراساں رہے لیکن پھر سارے حالات نصرت کے قابو میں آگئے جس طرح لکڑی بانک میں پھنس کر پھسل نہیں سکتی، یہ موقع اسے خدا نے چھپر پھاڑ کر دیا تھا۔
یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ جب عصمت بیگم مفلوج ہو ئیں، نصرت کے علاوہ گھر پر اور کوئی عورت موجود نہ تھی۔ اس طرح پورے چار دن بلا شرکت غیر پرائیویٹ وارڈ میں نصرت اپنے ماں باپ پر مکمل طور پر قابض رہی۔ جو بھی نرس آتی، اسے مریض کی حالت نصرت کی زبانی پتہ چلتی۔ ابا جی بیچارے اعظم کلاتھ مارکیٹ میں بہت بڑی دوکان کے مالک تھے لیکن انگریزی بولتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ نصرت کا بی اے گوزنگ آلود ہو چکا تھا۔ لیکن چوبیس گھنٹوں میں اس نے اپنے لہجے کو برا سوکر کے خوب نکھار لیا تھا۔ اب جس وقت ابا جی ڈاکٹروں کے سامنے شرمائو سے بیٹھے رہتے، نصرت انگریزی بولتی مشورے کرتی ہر ڈاکٹر کے ساتھ دور تک برآمدوں میں چلی جاتی۔ ہر ہر بات میں جلد ہی نصرت نصرت ہونے لگی۔
دوسری رات کا ذکر ہے۔
اماں بیہوشی کے عالم میں ساری دنیا کی شہرت بھلائے لاش سی پلنگ پر پڑی تھیں۔ ان کے بائیں بازو میں گلوکوز لگا تھا۔ ابّا جی گلے میں صافہ ڈالے بڑے حواس باختہ گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھے بیٹھے تھے۔ یک دم غنودگی کی حالت میں جھولتے ہوئے نصرت کو یوں لگا جیسے قریب ہی کوئی سسکیاں بھر رہا ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی، چند ثانیے اسے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ وہ نیم چھتی میں ہے کہ ہسپتال میں اماں کے پلنگ پر بیٹھی ہے۔
رفتہ رفتہ جب وہ اپنے ماحول کو سمجھنے کے قابل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ سامنے والی کرسی پر ابا جی بیٹھے رو رہے ہیں اور ان کے آنسوگھٹنوں پر دھرے ہاتھوں پر بے تحاشا گر رہے ہیں۔
وہ اپنے ابا جی سے بے تکلف نہ تھی۔
لیکن اس وقت اسے اپنا باپ ایک ایسی معمر عورت نظر آرہا تھا جس کا اکلوتا بیٹا کام پر جا رہا ہو۔ وہ ٹپوسی مار کر اونچے پلنگ سے اتری اور ابا جی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی، ’’ابا جی خدا کے لئے آپ فکر نہ کریں جی۔ اماں ٹھیک ہو جائیں گی۔ ابا جی ہوش کریں پلیز۔ ڈاکٹر صاحب کہہ تو رہے تھے۔ اباجی۔۔۔ ابا جی۔۔۔!‘‘
ابا جی کی جھڑی جاری تھی۔ وہ ابوالہول کی طرح جامد بیٹھے تھے۔ صرف آنکھوں سے جھرنے بہ رہے تھے۔
’’میں ڈاکٹر فاروق سے ملی تھی، ۔۔۔ انہوں نے خود مجھ سے کہا تھا۔ ابا جی مجھے سب نرسیں کہہ رہی تھیں۔ آپ فکر نہ کریں میری بات پر اعتماد کریں ابا جی۔۔۔‘‘
اُسے خود تعجب ہوا کہ دو ہی دن میں وہ کتنی اہم ہوگئی ہے!
’’حوصلہ کریں ابا جی۔۔۔‘‘
بڑی دیر بعد ابا جی بولے، ’’اس کے سوا میرا دنیا میں اور ہے کون؟ یہ نہ رہی تو پرِوارنہ رہے گاخاندان نہ رہے گا، میری تو ساری جد چلتی ہے اس کے دم سے۔‘‘
’’آپ کو میری بات ماننا ہوگی ابا جی۔۔۔ اگر آپ کو اماں سے رتی بھر پیار ہے تو آپ کو چپ کرنا ہوگا۔ دیکھیے وہ کیسی پریشان ہو رہی ہیں آپ کے آنسو دیکھ کر۔۔۔‘‘
ابا آہستہ آہستہ بریک لگاتے لگاتے صبح کی اذان سے پہلے چپ ہو گئے۔ نصرت نے یہ پہلا شکار کیا!
اب وہ جس وقت چاہتی، جس طرح چاہتی ابا جی کو سمجھا نے بجھانے اور مشورے دینے لگ پڑتی۔ ساری عمر ابّا جی بھی کسی عورت کے نیچے نہیں لگے تھے۔ اب انھیں بھی جی حضوری میں عجب لطف ملنے لگا۔ دوائیوں کی خریداری سے پہلے وہ اچھی طرح نصرت سے سارے نسخے سمجھ کر جاتے۔ کبوتروں کی یخنی اور بیٹروں کی آش بنانے کے طریقے غور سے سمجھتے۔ اماں کو کروٹ دلانے سے پہلے وہ ایک آدھ مرتبہ مشورہ طلب نظروں سے نصرت کو ضرور دیکھتے۔
نصرت کو کھل جا سم سم کا منتر ہاتھ آگیا۔
’’ابھی اماں سوئی ہوئی ہیں۔۔۔‘‘
’’ابھی بیڈپین لگایا ہے۔۔۔‘‘
’’ابھی اماں نے قے کی ہے۔۔۔‘‘
جب وہ چاہتی دروازہ کھول کر اباجی کو اماں سے ملا دیتی۔ جب اُس کا جی چاہتا ایک اشارے میں ابا جی کو کرسی سے اٹھا دیتی۔ جس وقت بقایا خاندان وارڈ پر لوٹا، نصرت سارے حالات پر اس طرح قابض ہو چکی تھی جس طرح پرائیویٹ وارڈ کا یہ کمرہ ہائی جیک کیا ہوا طیارہ ہو۔
پہلا حملہ آور تائی جی تھیں۔
یہ بڑی دبلی پتلی سینک سلائی عارف دنیا خاتون تھیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ہر گھر میں جہیز بری کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہوتیں۔ رشتے ناطے ان کی رضا سے ہوتے۔ ہر مرگ میں لوگ زیادہ تر ان ہی کے گلے لگ کر رویا کرتے۔ ان کی گھرواری، سلیقے، اور ہانڈی روٹی کا شہرہ سارے خاندان میں تھا۔
آتے ہی انہوں نے بڑی معرفت کے ساتھ کہا ’’اچھا نصرت اب تم گھر جائو۔ جو ان لڑکی کا اسپتال میں کیا کام۔ اب تمہاری اماں جانے اور میں جانوں۔۔۔‘‘
نصرت کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔
سسٹروں سے باتیں کرنا، نرسوں پر حکم چلانا، ڈاکٹروں سے معتبری لڑانا، آیا جمعدارنی کو بچا کھچا کھانا دے کر مہربانیاں کرنا۔۔۔ اتنا سارا کچھ اس کے ہاتھوں سے سرکنے لگا۔
’’نہیں جی آپ تکلیف نہ کریں تائی جی۔ اماں کو بھلا میں اکیلی چھوڑ سکتی ہوں۔‘‘
’’ہوش کرو بیٹی۔ جوان لڑکی کو چھوڑ کر میں جاتی ہوں گھر۔ یہ بھلا ٹھیک لگتا ہے کوئی۔‘‘
’’ٹھیک کیوں نہیں لگتا تائی جی۔ آخر تین دن سے میں جوان لڑکی اکیلی ہی تھی اماں جی کے پاس۔‘‘
تائی جی بھی ہار ماننے والی عورت نہ تھی۔ پر اسی وقت ڈاکٹر فاروق آگئے اور نصرت انھیں کھٹا کھٹ انگریزی میں گذشتہ رات کی ساری کیفیت بتانے لگی۔
کتنا پیشاب کرای۔۔۔ کتنے سی سی؟
کتنا گلوکوز لگا۔۔۔ کتنے سی سی؟
بلڈرپورٹ۔۔۔ یکسیم کتنا اور مینیم کتنا؟
ایکس رے۔ گلے کی رپورٹ کلچر۔ آج اور کل کی کیفیت۔
ایک ایک تفصیل نصرت کو اچھی طرح یاد تھی۔ گویا ان ہی تفصیلات پر اُس کی زندگی کا دارومدار تھا۔
تائی دانہ اسپند کی طرح چند لمحے خوب بھڑکی، تڑکی اور پھر ٹھنڈی پڑگئی کیونکہ اس بار نصرت کی طرف ابا جی تھے۔
’’یہ اپنی ماں کی بیماری کو سمجھتی ہے۔ اب تم نئے سرے سے تکلیف کروگی بھابھی!‘‘
تائی کے لیے یہ زندگی کا پہلا موقعہ تھا کہ کوئی اور انسان اُن سے زیادہ کوئی معاملہ سمجھ رہا تھا۔ پرپانی ڈبائو تھا۔ دو ایک دن تو پرائیویٹ وارڈ کے باہر چٹائی بچھا کر سیکنڈ پوزیشن پر نصرت کے احکامات مانتی رہیں۔ پھر اچانک ان کی ڈاڑھ میں درد ہو گیا اور وہ اپنی بہن کے پاس چوبرجی چلی گئیں۔ افسوس یہ خاندان کا پہلا تاریخی واقعہ تھا جب تائی کا طنبور بے سر بجا۔
دوسرا وار اماں کے میکے والوں نے کیا!
اماں کو اپنا میکہ چھوڑے پورے تیس سال ہو چکے تھے۔ پر اب تک یہ مرہٹہ صفت لوگ یہی منوانے میں وقت صرف کرتے تھے کہ تیس سال پہلے انہوں نے اماں کو پالا پوسا اور جوان کیا تھا۔ اماں کی بڑی بہن اپنی بیٹی اور نواسی سمیت نرسنگ کے لیے آئیں۔ ان کے ساتھ مختلف سائز کی تھر موسیں۔ ٹفن کیرئر، بستر بند، ڈھاکے کی بنی ہوئی ٹفن باسکٹ، نماز پڑھنے کی چٹائی، اوپر اوڑھنے کے کمبل اور دو چار تکیے تھے۔ یہ سارا سامان انہوں نے پرائیویٹ روم کے سامنے قرینے سلیقے اور خودنمائی کے ساتھ برآمدے میں سجا لیا۔
لیکن نصرت بھی چوکس ہو گئی تھی اور سازوسامان سے پھردبکنے والی نہ تھی۔ اب اُس نے سسٹر کو کہہ کہ اماں کے کمرے کے سامنے ’’داخلہ ممنوع ہے‘‘ کا بورڈ لگوالیا۔ اب نصرت کو آسانی ہو گئی۔ وہ باری باری مہمان کو اندر لے جاتی۔ پانچ منٹ کے بعد گھڑی دیکھتی اور مہمان کو آنکھ کے اشارے سے باہر نکل جانے کا حکم دیتی۔
نصرت کے رویے سے تو سارے گھر میں گویا بھونچال آگیا۔ یہی موقعہ ہوتا ہے جب عام طور پر رشتے کی دوری نزدیکی واضح شکل میں سب کے سامنے آجاتی ہے۔ اب نصرت نے سب کو کیلے کی چھلکے کی طرح تار پھینکا تھا۔ اس کے اس رویے سے ایک اور مشکل یہ بھی پیدا ہو گئی تھی کہ وارڈ کے ملحق برآمدے میں جہاں اماں کی بڑی بہن نے لمبی سی دری بچھا رکھی تھی، رفتہ رفتہ سیاست کا میدان کھل گیا تھا۔ رشتہ دار عورتیں مریضہ کی خدمت کرنے سے معذور ہوئیں تو انھیں کئی کئی گھنٹے جوڑ توڑ کو ملنے لگے۔ اپنی اپنی محبت کا گراف سب بنا رہی تھیں اور اسی لیے بیشتر وقت ان کا ہسپتال میں ہی گز ررہا تھا، گو نصرت انھیں اندر جانے ہی نہ دیتی تھی۔
اب برآمدہ دو کیمپوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک گرودہ وہ تھا جو اماں کی بہن یعنی میکے والوں کے ساتھ مل کر مصر تھا کہ یہاں علاج بڑی سست روی سے ہو رہا ہے اس لیے جلد ہی مریضہ کو گھر منتقل کرانا چاہیے اور کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا جہامذیدہ مسیحا نفس حکیم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ دوسری پارٹی تائی کے اثر تلے تھی اور اسی بات پر اڑی ہوئی تھی کہ یہیں ہسپتال میں مریضہ کو رکھیے، چاہے کچھ سال ہی کیوں نہ گزر جائیں۔ دونوں کیمپ اس ٹاپک کے علاوہ جنسی مذاق، لڑکیوں کے رشتے، شوہروں کی بے وفائیاں اور کنجوسیاں، سسرالی رشتہ داروں کی ناگوار حرکتیں، قیمتوں کی گرانی، باڑے اور رلنڈی کوتل کے کپڑے، قمیصوں کی لمبائی اور پاینچوں کی چوڑائی، لڑکوں کی پڑھائی، نوکروں کی کام چوری، پنجابی فلموں میں عریاں ناچ، کھانے پکانے کی ترکیب اور دوسری عورتوں کی زیادتیاں اور ان کی اپنی کم زبانیاں یہ سب زیر بحث آتا تھا۔
ان دو گروہوں کے علاوہ نوجوان لڑکیاں، امتحانوں سے فارغ نو بالغ لڑکے اور چھوٹے بچے بھی بڑے شوق سے ہسپتال آیا کرتے تھے۔ لڑکوں کو گھر کی لڑکیاں جانچنے، آنکنے اور پھر اپنے ڈھپ پر لانے کا فکر رہتا تھا۔ لڑکیاں گھروں کے والدوں اور یکسانیت سے بچنے کے لئے چلی آتی تھیں۔ بچوں کو پھل فروٹ اور کھیلنے کا شوق ہسپتال لاتا۔ غرضیکہ پرائیویٹ وارڈ کے ملحق برآمدے میں ایک ایسا اردو بازار کھلا ہوا تھا کہ بہت کم لوگوں کو علم ہو سکا کہ اس لشکری کیمپ کا فائدہ صرف نصرت کو ہو رہا ہے۔ خود نصرت کے بہن بھائی تار ملتے ہی بہار لپور سے لوٹے تو چونکہ ان کی محبت قدرتی تھی، اس میں غلبہ پانے یا غلبہ اتارنے کا اندیشہ نہ تھا۔ اس لیے وہ سب یہ دیکھ کر خوش ہوئے کہ آلکس کی ماری، جلّی جھڈو نصرت بھی کسی کام آئی۔ وہ ہسپتال کا سارا کام نصرت کے ذمے لگا کر خود شام کو گھڑی کی گھڑی ملاقاتیوں کے وقت میں آتے۔ تھوڑی دیر بیٹھے روتے رہتے۔ پھر گھر جاکر ٹیلی ویژن دیکھتے۔ سونے سے کچھ دیر پہلے پھر اماں کی باتیں کر کے روتے اور پھر جوانوں اور بچوں کی میٹھی نیند سو جاتے۔
بغلی برآمدے میں جو پالیٹکس چل رہی تھی اس کی روح رواں اماں جی تھیں اور اماں جی پر نصرت قفل بنی بیٹھی تھی۔ اب جو بھی مدعا علیہ آتا اسے پہلے نصرت کے دوار پر ماتھا ٹیکنا پڑتا۔
’’کیا حال ہے خالہ جی کا۔۔۔؟‘‘ ممیرے چچیرے پھوپھی زادا سٹپنی نما لڑکے پوچھتے۔
نصرت جالی کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر بڑی میٹھی آواز میں کہتی، ’’اب تو رات سے بہتر ہے۔۔۔‘‘
’’کچھ کھایا پیا؟‘‘ پھوپھیاں، تائیاں، خالائیں پوچھتیں۔
’’تین چمچ شوربہ پیا تھا مجھ سے بس۔۔۔‘‘
’’کوئی بات کی تم سے۔۔۔؟‘‘ جوان لڑکیاں سوال کرتیں۔
’’ہائے ابھی کہاں۔۔۔؟‘‘ وہ دُکھ سے جواب دیتی۔
’’ہم آجائیں اندر جی۔۔۔؟‘‘ بچے سوال کرتے۔
’’شاباش۔۔۔ باغ میں جاکر کھیلو شاباش۔‘‘
اتنے سارے سوال اس سے کب کسی نے پوچھے تھے؟ اتنے سارے سوالوں کا جواب آج تک کبھی اسے درست آیا بھی کب تھا! سارا نسبی خاندان اس کی طرف اس طرح دیکھتا تھا جیسے وہ صبح چڑھنے والا سورج ہو جس کی آرتی اتارنا پوجا کرنا ضروری ہو۔
بی اے کا امتحان دیے پانچواں سال تھا لیکن ابھی تک کبھی کبھی جب نیم چھتی میں کھو چلے تخت پوش پر بیٹھی بیٹھی وہ اونگھ جاتی تو اسے خواب آتاجیسے وہ امتحان گاہ میں داخل ہو رہی ہے۔ پرچہ شروع ہوئے پونا گھنٹہ ہو چکا ہے۔ ساری ہم جماعت سر جھکائے کھٹا کھٹ لکھ رہی ہیں۔ حساب کا پرچہ ہے اور وہ تاریخ یاد کر کے آئی ہے۔ سارا پرچہ گڈمڈ ہے۔ کوئی سوال اسے نہیں آتا۔
سوال اتنے زیادہ ہیں کہ تین گھنٹوں میں ان کا جواب ممکن ہی نہیں۔ اس کے پاس پین نہیں۔ اگر ہے تو اُس میں سیاہی نہیں ہے۔ لڑکیاں پلٹ پلٹ کر اُس کی طرف دیکھ رہی ہیں، ممتحن اعلیٰ انگلی اٹھا اٹھا کر تنبیہ کر رہا ہے، ناظرِ امتحانات سپاہیوں کی طرح آجا رہے ہیں۔ گھڑی کی سویاں بھاگ رہی ہیں وہ چاروں طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی چاروں کنّیاں بالکل خالی ہیں۔ پر وہ کھڑی ہے۔۔۔ کھڑی ہے۔۔۔ کھڑی ہے۔
انصاف طلب نظروں سے نہیں، رحم طلب نظروں سے دیکھتی جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں سوچتی!
ان دنوں جیسے ہسپتال آتے ہی اس خواب کی تعبیر یک دم الٹ نکل آئی۔ اب وہ سارے جواب جانتی تھی۔ اب لوگ اس کی طرف دیکھتے تھے، اس کی توجہ چاہتے تھے۔ اتنی نگاہوں کا مرکز بنی تو بد صورتی یوکلپٹس کی چھال بن کر جھڑنے لگی۔ عورت کا سارا حسن ہی دراصل ان تو صیفی نگاہوں سے بنتا ہے جو اس پر وقتاً فوقتاً ہلکی پھوار کی طرح پڑتی رہتی ہیں۔ اب نصرت کانوں میں چاندی کے گول گول بالے لٹکائے لمبی زلفیں چھوڑے برآمدوں میں ڈاکٹروں سے باتیں کرتی نکل جاتی تو کئی لڑکوں کا دل کرتا کہ کبھی نصرت سے اس طرح ان سے بھی مخاطب ہو۔
’’کیا حال تھا رات خالہ بوا کا۔۔۔‘‘ لڑکا پوچھتا۔
’’ٹھیک تھیں۔ رات نیند نہیں آرہی تھی۔ میں نے ویلیم کھلائی تو سوگئیں بیچاری۔‘‘
تو صیفی نگاہ اس پر پڑتی۔ یک دم اُس کا دل بلبلے کی طرح اوپر اٹھتا۔
ہائے میں ویلیم کھلانے والوں میں سے تھی! مجھے ویلیم کھلانے کے لئے کسی گھر والے سے اجازت لینے کی ضرورت نہ تھی!
ان ہی دنوں مجید سے اُس کی ملاقات ہوئی، جو ان دنوں فارن سروس میں تھا اور جس کی بیوی اُس کے ساتھ تمغے کی طرح سجتی تھی۔
نصرت انھیں کمرے کے باہر ملی۔ مجید نے سگار جلا کر لمبے سائیڈبرن درست کرتے ہوئے اپنی بیوی کا نصرت سے تعارف کرایا۔
’’یہ میرے بہت ہی پیارے ماموں کی بیٹی نصرت ہے۔۔۔ میں تمھیں اس کے متعلق بتا چُکا ہوں نورین۔۔۔‘‘
’’سلام علیکم۔۔۔‘ لمبی لمبی پلکیں جھپکا کر مسز فارن سروس بولی۔
کیا بتا چکا ہے میرے متعلق یہ کراڑ آدمی!
’’ہم دونوں بڑے Friendsہوتے تھے۔ ہے نا نصرت۔۔۔ ہر بات ایک دوسرے سے کرتے تھے۔‘‘
’’مجید نے بڑی بے تکلفی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تاکہ اُس کی تلّے وانی کو یقین آجائے کہ اس رشتے تلے کبھی کوئی تکلف نہ تھا!
’’جی ہاں۔۔۔ بڑے۔ بڑے Friends۔‘‘ بالے جھلا کر نصرت بولی۔
’’دن میں کئی کئی مرتبہ ہم چائے بنایا کرتے تھے کیوں نصرت۔۔۔‘
’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔؟ واقعی! ۔۔۔‘‘
نصرت کے بالے ہل رہے تھے۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ مجید کے چہرے پر اشتیاق تھاجیسے کباڑی کی دوکان پر اپنی ہی بچی ہوئی کوئی کتاب مل جائے۔
’’ماسی جی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’بہتر ہیں پہلے سے۔۔۔‘‘
میں نے نورین سے کہا کہ فرانس جانے سے پہلے میں مامی جی سے ضرور ملوں گا۔ خدا قسم نورین You Should Meet Her۔۔۔ گریٹ گریٹ گریٹ۔۔۔‘‘
نورین نُصرت کو اشتیاق اور حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ جس طرح ہر وہ بیوی دیکھتی ہے جو اپنے شوہر کے ماضی، حال اور مستقبل میں دھاگے کی طرح پروئے جانے کی آرزو رکھتی ہو۔
’’مامی جی کو مل لیں ہم۔۔۔‘‘
نصرت نے لمحہ بھر کو سوچا پھر بولی‘‘ ہائے آئی ایم سوری۔ وہ تو ابھی سوئی ہیں۔ بھابھی آپ مائینڈ نہ کرنا پلیز۔۔۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے، جگا نہیں سکتے۔‘‘
نصرت نے دل ہی دل میں اونچا سا قہقہہ لگایا۔۔۔ اللہ! اب ہم بھی اس قابل ہوئے کہ مجید کچھ چاہے اور ہم نہ کریں!
مجید پر اس انکار کا عجب الٹا اثر ہوا۔ گویا اس مرتبہ آکسیجن کے بغیر آگ بھڑکی۔
’’چلو ہمارے ساتھ ذرا۔۔۔ انٹر کو نٹی نینٹل میں چائے پئیں گے۔۔۔‘‘
’’کون۔۔۔؟‘‘ نصرت نے پوچھا۔
’’ہم۔۔۔ تم اور میں۔۔۔ اور نورین۔‘‘
نُصرت مسکرائی۔
’’اور امّاں جی۔۔۔؟‘‘
ان کے پاس کسی کو چھوڑ دو بھئی۔ یہ کباڑ خانہ کتنا بھرا ہوا ہے۔۔۔‘‘
نصرت پر یہ نہر سویز کو فتح کرنے کا لمحہ تھا۔
’’ہائے اماں تو میرے بغیر ایک منٹ نہ رہ سکیں گی۔‘‘
’’اچھا پھر۔۔۔‘‘ مجید کے لہجے میں تھکان تھی۔
’’اچھا پھر۔۔۔‘‘ مسز فارون سروس بولی۔
’’خدا حافظ۔۔۔‘‘
’’خدا حافظ۔۔۔‘‘
پھر الیاس آیا!
کامران آیا!
جعفر آیا!
نصرت نے چھوٹے بڑے کُل آٹھ عشق کیے تھے۔ جن میں سے پانچ گریس لگے، پیکٹ بند، سلوفین کے کاغذ میں قرینے سے لپٹے اس نے دل کے موتھ پروف خانوں میں بند کر رکھے تھے۔ باقی تین عشق ایسے تھے جن کی تفصیلات سارے خاندان کو رَتّی رَتّی معلوم تھیں۔ یہ تین ڈھیری بند، سیل شدہ عشق اُس کے اندر اس طرح پڑے تھے جیسے کوئی جہاز سمندر برد ہو جائے اور پھر کپتان کے کیبن میں سے تین جواہرات سے بھرے صندوقچے سمندری خود روپودوں میں لڑھکتے پھریں کبھی یہاں کبھی وہاں! شعلے کا بھی ایک اصول ہوتا ہے، سوکھی چیز میں جلد حلول کر جاتا ہے۔ آکسیجن ملے تو بہت لہک لہک کر جلتا ہے۔ اس کے چاہنے والے رطوبت بھرے، پھپھوندی لگے، سیلے سیلے عاشق تھے۔ سیلی بیٹریوں کی طرح جلے۔ گیلے پائپ کی طرح سلگے اور پھر پاتھی کی طرح سارے راکھ میں بدل گئے۔ کوئی بجھا ہوا کوائلہ باقی نہ رہا۔
سارے عاشقوں میں کامران ابھی تک کنوارا تھا۔ لیکن دونوں کے درمیان وہ مقناطیسی قوت ختم ہو چکی تھی۔ جس کے ہوتے ہوئے کھٹ سے وہ دونوں شمالی اور جنوبی قطب بن کر ایک دوسرے کے سامنے آجایا کرتے تھے۔ اب تو بس دونوں لوہا تھے۔ وزنی۔۔۔ سیاہی ماٹل ٹھنڈا لوہا۔
’’کیا حال ہے خالہ جان کا۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک ہیں۔۔۔‘‘
’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘
کامران فلرٹ کرنے کے موڈ میں تھا۔
وہ ہمیشہ فلرٹ کرنے کے موڈ میں رہتا تھا۔ نصرت کو وہ دن یاد آگئے جب کامران پہلے پہل اس کی زندگی میں اسی خاصیت کے باعث داخل ہوا تھا۔ نصرت کا دل بھی ایک ہارسنگھار کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سے بارہ ماہ یادوں کے ننھے ننھے پھول گرتے رہتے تھے۔
کامران شاعر تھا لیکن نصرت کے عشق کو اُس نے گڈا بنا دیا۔ اس نے نصرت پر کبھی کوئی نظم یا گیت نہیں لکھا۔ لکھا ہی لکھا تو ایک چو مصرعی خاکہ!
پہلی شام جب کامران گھر آیا تو اس روز نُصرت بھی چنوں کا شوربہ بڑے ڈونگے میں اٹھائے لا رہی تھی۔
’’بطخ دیکھی ہے تم نے۔۔۔؟‘‘ کامران نے پاس بیٹھی طاہرہ سے پوچھا۔
’’جی۔۔۔‘‘
’’کیسی ہوتی ہے بھلا؟۔۔۔‘‘
’’سفید۔۔۔‘‘
’’غلط۔۔۔ خشکی پر تیرتی ہے اور پانی میں چلتی ہے۔ جو کبھی بیٹھی ہو تو لگتا ہے دونوں بغلوں تلے کچھ چھپایا ہوا ہے۔۔۔‘‘
پھر کامران نے نُصرت کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔ ’’کیوں بی بطخ پسند ہے آپ کو۔۔۔‘‘
نصرت کھلکھلا کر ہنس دی!
ان دنوں اس پر کھانے پکانے کا بھوت سوار تھا۔ وہ کبھی چینی شوربے پکاتی کبھی فرانسیسی سوفلے تیار کرتی۔ کبھی ایرانی کباب کو بیدہ کوٹتی۔ لیکن اس کے ہر کام میں آخری آنچ کی کسر رہ جاتی تھی۔ سارے گھر والے اس کی اس کمزوری سے واقف تھے۔ لیکن اعلانیہ صرف کامران اس کا بٹ بنایا۔
جو نہی وہ میز پر پہنچتا۔ ڈش اٹھا کر کہتا، ’’حاضرین یہ دو لمے ہے۔ غور سے دیکھیے۔ دولمے! ایران میں اسے ولمے برگ کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت آپ سب اسے بلا تکلف گوبر کہہ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم الصواب۔‘‘
کبھی کبھی وہ کھاتے کھاتے رک جاتا اور پکّا سامنہ بنا کر پوچھتا، ’’حضرت یہ کیا ہے؟‘‘
پھر وہ بڑی توجہ سے ساری ترکیب، ترکیب استعمال سب کچھ سنتا اور کہتا، ’’بی بی سیدھا آلو قیمہ کیوں نہ پکا لیا تم نے۔۔۔؟‘‘
شروع شروع میں یہ باتیں ہنسی مذاق میں ہوتی رہتیں۔ خود نصرت کو علم نہ ہوسکا کہ اس کے اندر ایک پن کشن تیار ہو رہا ہے۔ اس روز بھی معمولی دھوپ چڑھی تھی اور ایک عام سادن تھا۔ لیکن نصرت نے کئی عام دن خاص فیصلے کر کے بڑے علیحدہ کر لئے تھے۔ درزی اس کے لیے نیا بل بوٹم سی کر لایا تھا اور وہ اسے ٹرائی کرنے کے لئے پہن کر جا رہی تھی کہ کامران دانتوں سے اخروٹ توڑتا ہوا اسے نظر آگیا۔
’’واہ کیا پاجامہ ہے! کس کی گڈی کا اتارا ہے بھئی۔۔۔؟‘‘
’’یہ پاجامہ نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’ستار کا غلاف ہے پھر؟۔۔۔‘‘
’’آپ سے کسی نے پوچھا ہے کہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘
’’ذرا انفرمیشن بڑھ جائے گی میری۔ بتا دو پلیز یہ جو تم نے پہن رکھا ہے کیا نام ہے اس کا۔۔۔‘‘
کامران نے ہونٹ لٹکا کر پوچھا۔
’’بل بوٹم۔۔۔‘‘
’’ہائے بوٹم لیس بل۔‘‘
’’ہر بات میں رائے کون مانگتا ہے آپ سے خواہ مخواہ! ۔۔۔‘‘ نصرت روہانسی ہو کر بولی۔
’’میں پاکستان کا معزز شہری ہوں۔ مجھے یہاں کے ہر معاملے میں رائے دینے کا کلی اختیار ہے۔‘‘
’’تو رکھیے اختیار اپنی جیب میں ڈو میسائل سرٹیفیکٹ کے ساتھ۔۔۔‘‘
نصرت جھگڑ کر اندر چلی گئی اور بل بوٹم درزی کو لوٹا دیا۔ اسی پاجامے کے ساتھ ساتھ اس نے کامران کی ساری توجہ بھی واپس کر دی۔ یہی کامران دوسری لڑکیوں پر کیا خوبصورت نظمیں لکھتا تھا۔ ان کا لباس ان کی صورت، چال ڈھال سب کی تعریف کرتا تھا۔ کبھی کسی کو فرحادیبا سے ملا رہا ہے کبھی کسی کو ایواگارڈنر انگرڈبرگمن کی کاپی بتلا رہا ہے۔ کوئی اس کے نزدیک زیبا تھی کوئی مینا کماری۔ اس سارے عشق میں اُسے بطخ سے بہتر کوئی خطاب نہ مل سکا۔ نصرت چپ چاپ دور ہوتی گئی اور جب آکسیجن کافی دور ہو گئی تو شعلہ آپ سے آپ بجھ گیا۔
اب کامران ہسپتال کے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ اور فلرٹ کرنے کے موڈ میں تھا۔
’’کیسی ہیں۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہیں۔۔۔‘‘
’’کون بھلا؟‘‘
’’آپ کی پھوپھی۔۔۔‘‘
’’نہیں بھائی ہم پھوپھی زاد کو پوچھتے ہیں۔۔۔‘‘
نصرت نے منہ پھیر لیا۔ پتہ نہیں کیوں آج اس کی آنکھوں میں اتنی بات پر آنسو آگئے اس نے جالی کا دروازہ کھول دیا اور آہستہ سے بولی، ’’آپ خود جاکر مل لیں۔۔۔‘‘
کچھ لمحے کامران حیرانی سے اس خوب صورت سی لڑکی کو دیکھتا رہا اور پھر اندر پھوپھی کے پاس چلا گیا۔
اس سے پہلے بھی کئی بار گھر چلنے کا مشورہ ٹھہرا تھا۔ بلکہ زیادہ ووٹیں اسی بات کے حق میں تھیں کہ یہاں فالج کے مریض کو رکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ گھر پر چل کر علاج بدل لیا جائے۔ کون جانے اللہ شفا ہی دے دے۔ کامران سے ملنے کے بعد پتہ نہیں کیوں نصرت نے ایک بار بھی مدافعت نہ کی۔ کامران کو دیکھنے کے بعد اسے اماں کی خدمت کا چائو نہ رہا تھا۔
گھر آتے ہی وہ گھر والوں سے پھرکٹ گئی۔ جیسے پان لگانے والے قینچی سے سخت ڈنڈی کاٹ پھینکتے ہیں، اسی طرح اُس نے اپنا وجود گھر والوں سے کاٹ رکھا تھا۔ اس بار اس کا جی نیم چھتی میں بھی نہ لگا۔ ہر وقت جی اکساتا کہ نیچے چل۔ شاید ابا کوئی مشورہ چاہیں۔ شاید اماں کی کیس ہسٹری ہی بتانا پڑے۔ شاید اس کی خدمت گزاری، فرماں برداری کے چرچے ہو رہے ہوں۔
ادھر اماں اب چھڑی لے کر آہستہ آہستہ چلنے لگی تھیں۔ گھر میں سیوا کرنے والوں کا ایک ہلڑ مچا تھا۔ وہ اکیلی ایک ٹوٹے آئینے کے سامنے کھڑی رہتی۔ سارے زمانے میں ٹپہ کھانے کے بعد اس کی انا اب اسی کے گرد ٹھپ ٹھپ کر رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں ایک نئے عشق نے جنم لیا۔۔۔ اپنی ذات کا عشق۔
وہ پہروں بیٹھی اپنے ہی ہاتھ دیکھتی، اپنے جسم کے ایک ایک حصہ پر مساس کرتی۔
اس عشق کے باوجود دل کے کہیں اندر کوئی کہتا رہتا کوئی چیز اپنی ضرور ہونی چاہیے، ایک رسی ہی سہی جس سے انسان پھندالے کر مر جائے، ایک تیشہ ہی سہی جو اپنے آپ کو مار کر مر جائے ایک چٹکی زہر ہی سہی!
پھر ایک بارش کا ریلا آیا۔
ایک شام نیم چھتی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ابا جی سامنے کھڑے تھے اور ان کے گریبان کے دونوں بٹن کھلے تھے۔
’’نصرت۔۔۔‘‘
’’جی اباجی۔۔۔‘‘
’’تمہاری اماں کو پھر فالج کا دورہ پڑگیا ہے۔‘‘
جب وہ نیچے پہنچی تو اس کی اماں کا چہرہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ گھر والے زور زور سے بین کر رہے تھے۔ دروازے کے ساتھ ابا جی گم سم اس کے گریبان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک آشنا سی چمک تھی! غم آشنا چمک! اس کے قریب آنے کی ڈری ڈری سی چمک۔
نصرت نے ایک چیخ ماری اور اپنا گریبان پھاڑ ڈالا۔ اور ابا جی سے لپٹ گئی۔ اُسے یوں لگا گویا کوئی صبح کا بھولا گھر آگیا ہو۔
آج تک سب کہتے ہیں جیسا غم نصرت نے اپنی ماں کا کیا، پھر کسی گھر کی لڑکی کو نصیب نہ ہوا۔ لیکن نصرت جانتی ہے کہ ایک اس غم میں کئی اور غم بھی شامل تھے۔ نئے اور پرانے سب غم جو ایک ہی شاہراہ سے پگڈنڈیوں کی طرح ملتے تھے۔۔۔
اس سے پہلے وہ سمجھتی تھی کہ وہ عشق کی منزل سے فارغ ہو چکی ہے۔۔۔ لیکن اس کے بعد اسے پتہ چلا کہ اس منزل سے جیتے جی کوئی فارغ نہیں ہوتا۔ نہ اس منزل کی کوئی سمت ہوتی ہے نہ مقام۔۔۔ بس یہ بگولے کی طرح جہاں چاہے بیٹھ جاتی ہے۔ جہاں سے چاہے اٹھ کھڑی ہوتی ہے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.