Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹیڈی بیر نے کیا سوچا

انور قمر

ٹیڈی بیر نے کیا سوچا

انور قمر

MORE BYانور قمر

    سامنے کھیت ہیں اور ان کے پیچھے پہاڑ۔ کھیتوں میں فصل لہلہا رہی ہے اور پہاڑوں پر بادل منڈلا رہے ہیں۔ رنگ برنگے پرندے کھیتوں کے کسی حصے سے اچانک اڑتے ہیں اور حلقہ باندھ کر پھرتے ہیں اور پھر نیچے اترکر روپوش ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہوا فرحت بخش جھونکوں کی صورت چلتی ہے اور جنگل کی وحشی خوشبو اپنے دامن میں سمیٹ لاتی ہے۔ پہاڑوں پر بھیڑ بکریاں سیاہ سفید نقطوں کی طرح بکھری نظر آتی ہے اور جب یہ نقطے دھیرے دھیرے آگے سرکتے ہیں تو ان کے پیچھے پیچھے، سیاہ کمبل اوڑھے کوئی شخص اپنا لمبا لٹھ ٹیکتاآگے بڑھتا ہے۔

    میں یہ منظر اور اس جیسے سیکڑوں مناظر اس سلاخوں دار کھڑکی کے سامنے پڑی ہوئی کرسی پربیٹھے بیٹھے دیکھا کرتا ہوں۔ جب رات زمین پر اترآتی ہے تب بھی یہ کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ جب گھٹا اُمڈتی ہے اور پہاڑوں سے ٹکراکر برسنے لگتی ہے تب بھی یہ کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ جسم پر شروع شروع میں پانی کی پڑتی پھوار بھلی لگتی ہے لیکن اس کی زد میں آیا ہوا جسم مسلسل بھیگتا رہتا ہے تو مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے لیکن میں اپنے آپ کو وہاں سے ہٹا نہیں سکتا۔ اور جب سردیاں شروع ہوتی ہیں اور پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے اور جب وہاں ایک لمبے عرصہ تک کوئی سیاہ نقطہ نظر نہیں آتا تب بھی یہ کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ اور ہوا سائیں سائیں کرتی میرے جسم سے ٹکراتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اب یا تب برف کا تودہ بن جاؤں گا۔

    چونکہ وہ علاقہ سمندر سے دور ہے، اس لیے یہاں گرمی بھی شدت کی پڑتی ہے۔ سورج اپنی تیز اور نوکیلی کرنوں سے میرے جسم کو چھیدا کرتا ہے اور میں پہلو بدل کر کسمساکر رہ جاتا ہوں۔ میرے جسم کے ہر مسام سے پسینہ پھوٹ پڑتا ہے اور بہتے بہتے اس کرسی کو تر کردیتا ہے۔ نہ تو میں اپنی جگہ سے ہل سکتا ہوں نہ ہی وہ کھڑکی بند ہوتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں بچوں کی دل بستگی کا سامان ہوں۔ روئی کا بنا ہوا ریچھ جسے ٹیڈی بیر کہتے ہیں۔ میں ایک شخص کا دوست ہوں۔ وہ شخص اس مکان کا مالک ہے۔ آٹھ کمروں پر مشتمل یہ مکان اور اس مکان میں میں تن تنہا، مقید۔ یہ قید اور یہ تنہائی مجھے بہت کاٹتی ہے۔ آپ سمجھیں گے کہ مسلسل تنہائی اور قید کے کرب سے گزرتے ہوئے میں اس کا عادی ہوچکا ہوں گا۔ جی، میں عادی ہوچکا ہوں، اس لیے حرف شکایت زبان پر نہیں لاتا۔ میں نے اس تنہائی اور قید کے درد کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ مجھے یہ یقین ہوچکا ہے کہ میں اس دکھ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور اسی دکھ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا۔

    لیکن کبھی کبھار میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میری تنہائی دور ہو۔ میں اس قید سے آزاد ہوجاؤں اور کھلے آسمان کے نیچے چلا جاؤں اور کسی ایسے شخص کا ساتھی بن جاؤں جس کی رفاقت مجھے ہمیشہ میسر آتی رہے لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔

    بات ٹھیک ایک سال پرانی ہے۔ وہ جولائی کی اٹھائیس تاریخ تھی اور میرا دوست حسب معمول ۹بجے یہاں پہنچا تھا۔ مکان کے داخلی دروازے پر لگے ہوئے قفل کو وہ میرے قریب پڑی ہوئی میز پر رکھتا ہوا بولا، ’’یار آج تو میں محض اس لیے چلا آیا کہ اپنا سالہا سال کا یہ معمول نہ ٹوٹے۔‘‘

    مجھے دکھ ہوا۔ میں جس کا ۳۶۵دنوں سے منتظر تھا، وہ اپنی سالہا سال کی روایت کے مطابق مجھ سے ملنے نہیں آنے والا تھا۔۔۔ ہائے۔۔۔ میرا دوست ذرا بھی وفادار نہیں! خیر!

    ’’ہیپی برتھ ڈے۔‘‘ میں نے روکھے لہجے میں کہا۔

    سب سے پہلے میں ہمیشہ اسے سال گرہ کی مبارکباد پیش کیا کرتا تھا۔ اس مرتبہ بھی میں نے ایسا ہی کیا۔

    ’’تھینک یو۔‘‘ وہ اپنی کرسی میرے قریب کھسکاتا ہوا بولا۔

    ’’بارش کی وجہ سے راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘ میں بدستور سامنے دیکھتا ہوا بولا۔

    ’’نہیں۔ اب آدھے سے زیادہ راستہ پکا بن چکا ہے، اور بقیہ راستے پر پتھرکوٹ دیے گئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپ ہوگیا پھر بولا، ’’بات سے بات نکلتی ہے۔ میرے لڑکے نے سیول انجینئرنگ کے پہلے سال میں داخلہ لیا ہے۔‘‘

    ’’کس نے، بڑے نے؟‘‘

    ’’نہیں یار، تم تو جانتے ہی ہو کہ وہ شروع ہی سے پڑھائی کے معاملے میں ٹھس رہا ہے۔ دوسری کوشش میں بھی وہ میٹرک پاس نہ کرسکا۔‘‘

    یہ سن کر مجھے اس سے ہمدردی پیدا ہوئی۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا، اور اس ذرا سی ناخوشگوار بات کو میں نے نظرانداز کردیا۔

    ’’اسے تم دھندے میں کیوں نہیں شریک کرلیتے۔۔۔؟‘‘

    اس نے ابھی ابھی اپنے پیروں میں سے جوتے اتارے تھے اور اپنی انگلیوں کو بار بار سکیڑ سمیٹ رہا تھا۔

    ’’آخر میں وہی کرنا پڑے گا۔ بس، وہ میٹرک پاس کرلے۔‘‘

    وہ میری طرف زرا سا جھکتا ہوا بولا، ’’آئندہ ماہ میں جاپان جارہا ہوں۔ ایک بزنس ڈیل (BUSINESS DEAL) کے سلسلہ میں۔ پچھلے دنوں وہاں کی مشہور کمپنی SONY کا ایک وفد یہاں آیا تھا۔ انہوں نے اتفاق سے میری کمپنی کا دورہ کیا، بزنس کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ASSETSاور LIABILITESدیکھیں اور مطمئن ہوگئے۔ وہ دوکروڑ روپیہ اسٹیریوٹیپ ریکارڈر بنانے کے سلسلے میں میری کمپنی میں INVEST کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی دو سال تک اپنا ٹیکنیکل نوہاؤ(TECHNICAL KNOW HOW) بھی دیں گے۔ مشرقی یورپ اور جنوبی امریکہ میں میری فیکٹری کے بنے ٹیپ ریکارڈر فروخت کریں گے۔ تم ہی بتاؤ کیا میں اتنا بڑا بزنس بغیر اپنے بیٹوں کی مدد کے سنبھال پاؤں گا؟‘‘

    میں اس کے بزنس کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش ہوا۔ اب وہ ناخوشگوار بات میرے ذہن سے تقریباً محو ہوچکی تھی۔ ’’چھوٹا بجائے سول انجینئر بننے کے اگر الیکٹریکل انجینئر بن جاتا تو بہت اچھا تھا۔‘‘

    ’’اب کیا کیا جائے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا، ’’وہ سیول انجینئرنگ ہی میں رجحان رکھتا ہے۔ الیکٹریکل انجینئرنگ میں نہیں، تو میں نے سوچا کہ اس پر میں اپنی غرض کیوں لادوں۔ آں۔‘‘

    میں نے اس کے فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا، ’’کاش ہر ماں باپ ایسا ہی سوچیں تو ان کی نسل تباہ ہونے سے بچ سکتی ہے۔‘‘

    میں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ رنگ برنگے پرندوں کا جھنڈ ابھی ابھی کھیت کے ایک حصے سے اڑا تھا اور ایک دائرے میں چکرا رہا تھا۔

    ’’تم نے بڑی دیر سے سگریٹ نہیں پی، کیا بات ہے؟‘‘ مجھے یاد آیا کہ کھیت میں جب پہلی مرتبہ اس نے سگریٹ پی تھی تو ٹھسکوں سے دہرا ہوگیا تھا۔

    ’’ہاں یار، میں تمہیں بتانا بھول گیا کہ مجھے دل کا دورہ پڑا تھا۔ پچھلے برس بارش کی کمی کی وجہ سے جھیلوں میں پانی کا مناسب مقدار میں ذخیرہ جمع نہ ہوسکا۔ بارش کے بعد چار مہینے بھی بیت نہ پائے تھے کہ سرکار نے پانی کی قلت کا واویلا مچایا اور بجلی کے استعمال پر پابندی عاید کردی۔ شروع شروع میں ہفتہ میں پانچ روز فیکٹری چلانے کی ہمیں اجازت دی گئی تھی اور دو ہی مہینوں میں صرف چار روز کی پابندی ہم پر عائد کردی گئی۔ اس وجہ سے ہمارے پروڈکشن پر بڑا اثر پڑا۔ اندرونی اور بیرونی ملکوں کے آرڈر التوا میں پڑگئے۔

    ملکی ڈیلرس اور ایجنسیوں کو تو میں نے ریاست کی صورت حال سے آگاہ کردیا اور انہیں تسلی دی کہ وہ تھوڑا صبر سے کام لیں، حالات نارمل ہوتے ہی ان کے آرڈروں کی تکمیل کی جائے گی۔ لیکن بیرونی ملکوں کے خریداروں کو ہمارے مسائل سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ وہ توآرڈر وقت مقررہ پرپورے نہ ہوں تو آرڈر منسوخ کردیتے ہیں اور دوسرے ممالک کے مینوفیکچروں سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ہماری ساکھ کھوجاتی ہے بلکہ آئندہ آرڈر کا امکان بھی نہیں رہتا، اس لیے میں نے الیکٹرانکس کے چھوٹے چھوٹے مینوفیکچروں سے اپنے آرڈر س مکمل کرائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا ایک بھی EXPORT کا آرڈر منسوخ نہیں ہوا اور فرم نے پچھلے سال ساڑھے ساتھ لاکھ کا نیٹ پرافٹ کیا۔

    لیکن اس تگ و دو میں میری راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ وقت پر کھانا نصیب نہ ہوا۔ ذہنی انتشار نے مزاج چڑچڑا کردیا۔ اسی دوران میں، میں سگریٹ زیادہ پیتا رہا اور شام کو ذہن کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے لیے شراب سے کام لیتا رہا۔ اس بدعنوانی کا نتیجہ، ہائے کسے معلوم تھا کہ دل کے دورے کی صورت میں نمودار ہوگا۔ تب سے شراب اور سگریٹ سے پرہیز کرنے لگا ہوں۔‘‘

    میں نے اب اس کی طرف غور سے دیکھا۔ سر کے سامنے کے حصے کے بہت سے بال اڑچکے تھے۔ پیشانی اس کی مضحکہ خیز حد تک کشادہ نظر آرہی تھی۔ بالوں میں سفیدی نمایاں ہوگئی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑگئے تھے اور گالوں پر باریک جھریاں پڑچکی تھیں۔ ٹھوڑی کے پچھلے حصے پر گوشت کی پتلی سی جھلی لٹکنے لگی تھی۔ وہ پہلے کی بہ نسبت اب بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا۔

    اس نے اٹھ کر کمرے کے کونے میں رکھے اپنے بیگ کو اٹھایا اور اس میں سے سینڈوچ کے دوپیکٹ نکالے۔ ایک میری گود میں ڈال دیا اور دوسرا پیکٹ کھول کر سینڈوچ کھانے لگا۔

    ’’اچھے ہیں نا؟‘‘ وہ منہ چلاتا ہوا بولا۔

    ’’جب تمہیں پسند ہیں تو ظاہر ہے کہ اچھے ہی ہوں گے۔‘‘ میں مسکراتا ہوا بولا۔

    ’’بس اب اپنی خوراک سینڈوچ، ٹوسٹ، ابلی ہوئی سبزی، چائے، کافی اور دلیے پر موقوف ہوچکی ہے۔ فروٹس میں صرف سیب اور انگور کھانے کی اجازت ہے۔ ہاں ابلا ہوا انڈا اور انار بھی کھاسکتا ہوں۔‘‘

    کیوں کہ میں اس کے چٹورپن سے واقف تھا اس لیے حیرت سے پوچھ بیٹھا، ’’بس۔۔۔ اور کچھ نہیں؟‘‘

    اس نے مسکراکر نفی میں گردن ہلائی۔ اس کی آنکھوں میں نمی نمایاں ہو رہی تھی۔

    ’’تبھی تم اپنے ساتھ برتھ ڈے کیک نہیں لائے۔‘‘

    وہ ہنس دیا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

    ہم دونوں اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ چکے تھے اور میں اسے پچھلے پینتیس سالوں سے جانتا تھا۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ جب جنگ چھڑگئی تو میدے اور آٹے پر کنٹرول لگادیا گیا۔ اکثر بیکریاں اسی وجہ سے بند ہوگئی تھیں لیکن اس کے باوجود ۲۸جولائی کو اس کا برتھ ڈے کیک چوری چھپے ایک بیکری میں تیار کرایا گیا تھا اور اب میدے اور آٹے پر پہلے جیسی پابندی نہیں ہے لیکن۔۔۔ اس کی غذا پر بندش لگادی گئی ہے۔

    تھرماس میں لائی ہوئی کافی پی کر وہ اپنا منہ رومال سے پونچھتا اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے اپنی گود میں لے کر بولا، ’’چلو۔۔۔ ذرا سیر کرآئیں۔‘‘

    اس چار دیواری سے باہر آتے ہی آسمان کی وسعت، زمین کے پھیلاؤ، ہوا کے پرزور دباؤ اور نظر کی کشادگی نے میرے جسم میں آزادی کی بالکل ویسی ہی پرمسرت لہر دوڑا دی جیسی کہ اس کی انگلیوں نے چمڑے کے مضبوط جوتوں اور نائیلون کے کسے ہوئے موزوں سے باہر نکلنے پر محسوس کی ہوگی۔ وہ مجھے کبھی اپنے کندھے پر بٹھاتا کبھی اپنی گود میں اٹھائے چلتا رہا۔ ننگے پاؤں۔۔۔ کبھی وہ دوڑ پڑتا۔

    ’’کہاں چلے گئے تم۔۔۔؟ کہاں چلے گئے؟‘‘

    اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔

    ’’کہیں تمہیں کوئی پرندہ تو نہیں اٹھالے گیا؟‘‘

    ’’یا تم کھائی میں تو نہیں گرپڑے؟‘‘

    ’’کہاں ہو تم۔۔۔ کہاں ہو؟‘‘

    اس کا اضطراب بڑھ کر اب دکھ میں تبدیل ہوچکا تھا۔

    وہ ہر امکان پر غور کرتا رہا اور لمحہ بہ لمحہ میری عدم موجودگی سے متعلق زیادہ دکھی ہوتا رہا۔۔۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ برسوں کا ساتھی یوں غائب ہوجائے گا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اتنا لمبا ساتھ یا اپنی پرانی رفاقت کے باوجود میں اس سے جدا ہوجاؤں گا۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ مسلسل تنہائی اور قید کا عادی، اس تنہائی کا مداوا اور اس قید سے رہائی کا طلب گار ہوگا۔۔۔ وہ جامد و ساکت اسی ٹیلے پر بیٹھا رہا اور میں اس جھاڑی میں دبکا رہا۔ آخر شام کے سایے لمبے ہوگئے۔۔۔ پنچھی درختوں کے جھنڈ میں بسیرے کو آنے لگے۔ خنکی بڑھنے لگی تو وہ دردناک آواز میں چیخا،

    ’’کہاں ہو میرے دوست؟ کہاں ہو؟ کیا مجھ سے روٹھ گئے؟ کیا مجھ سے ناراض ہوگئے؟ کیا مجھے اکیلا ہی اس دنیا میں چھوڑ گئے؟ میں جانتا ہوں کہ میں نے تم پر کڑی تنہائی اور سخت قید مقرر کی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے تمہارے لیے یخ بستہ اندھیری رات میں کسی گرم بستر کا انتظام نہیں کیا تھا۔ مجھے احساس ہے کہ جلتی دوپہر اور بھیگی شاموں میں میں تمہاری تکلیف کا کوئی چارہ نہ کرسکا تھا۔ لیکن میں کیا کرتامیرے دوست! تم ہی تو میری شخصیت کاایک حصہ تھے۔ میرے ماضی کی شاندار یاد تم ہی تو تھے۔ اگر میں تمہیں اپنے ساتھ رکھتا، تو کوئی شک نہیں کہ تم دنیا کے تمام آرام و آسائش سے سرفراز ہوجاتے۔ لیکن مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ تم اس دنیا کی گندی مادیت سے اتنے ہی آلودہ ہوجاتے جتنا کہ میں ہوچکا تھا۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں، کیوں کر یقین دلاؤں کہ میں زندگی کی لاکھ ادھیڑ بن میں لگا رہا لیکن میں ۲۸جولائی کو کبھی نہیں بھولا۔ اس ۲۸جولائی کی منزل تک پہنچنے کی خاطر میں نے ہر سال ۳۶۵دنوں کا کڑیل سفر کیا ہے۔ چلے آؤ میرے دوست چلے آؤ۔‘‘

    یہ سنتے ہی میرا دل پسیج گیا۔ میں نے سوچا کہ میری قید اور میری تنہائی سے زیادہ سخت قید اور تنہائی کا وہ شکار ہوچکا ہے اس لیے مجھے اپنے دکھ درد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے غم و اندوہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بس یہی سوچ کر میں پھدک کر اس کے قدموں میں آپڑا۔ اس نے مجھے بے اختیار ہوکرچوما، بھینچ کر گلے لگایا۔ کچکچاکر پیار کیا اور پھر۔۔۔

    آج ۲۸جولائی ہے۔ میں نے اپنے دوست کی خوشنودی کی خاطر اپنی آزادی اور رفاقت قربان کردی ہے۔ نو بج چکے ہیں اور وہ اب تک نہیں آیا ہے۔ میں منتظر ہوں اس کا۔۔۔ نو بج چکے ہیں۔۔۔ لمحے بیتے جارہے ہیں اور وہ اب تک نہیں آیا ہے۔ کیا بات ہے؟ اب میں اسی سے پوچھتا ہوں۔

    ’’کیا تم پر کڑا پہرہ مقرر کردیا گیا ہے یا تمہاری تنہائی جان کش ثابت ہوئی ہے۔‘‘

    میرے سامنے کھیت ہیں اور ان کے پیچھے پہاڑ۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے