تین سال
علی جان کو اپنے ماتھے پر بندھے سہرے کی لڑیاں لوہے کی زنجیروں سے بھی زیادہ وزنی اور خوفناک لگ رہی تھیں۔ وہ پھولوں میں منہ چھپائے کچھ اس طرح سہما ہوا بیٹھا تھا جیسے چڑیا کا بچہ سر پر باز کواڑتے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا مجید اپنے ساتھ گائوں کے پردھان، داروغہ جی اور کچھ سپاہیوں کو لے کر اس کے گھر میں داخل ہو رہے ہیں تو وہ کانپ اٹھا۔
’’ارے میرا لال۔۔۔ علی جان۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔‘‘
ماں کی چیخ اس کے کانوں میں دیرتک گونجتی رہی اور پھر آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔
منہ پر پانی کی چھینٹیں پڑتے ہی اس نے آنکھیں پھڑپھڑائیں اور گردن گھماکر دیکھا۔ بیگم مرزا سرہانے بیٹھی پنکھا جھل رہی تھیں۔ مرزا مجید اس کے اوپر جھکے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے ۔
’’بیٹھے آنکھیں کھولو۔۔۔ شاباش۔‘‘
پھر اس کی کلائی پکڑکر بخار دیکھنے لگے۔ بیگم بولیں۔
’’اتنا محنتی بچہ ہے، ذرا کام بتا دو پھر، دھوپ ہو یا بارش، کام پورا کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اب دیکھونا لکڑی اوپر ڈالنے کے لیے کہا تھا، دن بھر اسی میں لگا رہا۔ لو لگ گئی نا آخر۔‘‘
علی جان نے غنودگی کے عالم میں تھوڑی سی آنکھیں کھولیں اور دالان کی چھت کو گھورنے لگا مگر اسے چھت نظر ہی نہ آئی۔
محسوس ہوا کہ دور تک آسمان پھیلا ہوا ہے اور سفید بادل کے ٹکڑے ادھر ادھر اڑ رہے ہیں۔
بادل؟
نہیں یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ تاگے سے بندھے کاغذ کے ٹکڑے۔۔۔ ہاتھ سے بنائی پتنگیں اور تاگے؟۔۔۔ مرزا مجید کے لحاف گدوں سے نکالے ہوئے تاگے۔
ایک راز جب بیگم مرزا نے لحاف گدّے دھوپ میں ڈالنے کے لیے ٹانڈسے اتارے تو ان میں ڈورے غائب تھے۔ مرزا نے علی جان کو ڈانٹا مگر بیگم فوراً ہی بول پڑیں۔
’’کیا ہوا اگر ڈورے نکال لیے۔ بچہ ہی تو ہے۔ ویسے بھی سردیوں میں روئی بدلوانی ہے۔‘‘
بہت دیرتک پتنگیں اڑتی رہیں، پھر اسے لگا کہ ساری پتنگیں ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں اور سیاہ ہوتی جارہی ہیں۔ کچھ دیر بعد وہاں ایک بھی پتنگ نہیں تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے کڑیوں سے پٹی مرزا مجید کے دالان کی چھت تھی جسے وہ گھورے جا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی نگاہیں دالان کی چھت سے سرکتی ہوئی بڑے سے آنگن میں رینگنے لگیں۔ ایک کونے میں چوکی پر بیٹھی بیگم مرزا دوپٹے پر سچے گوٹے کی گوٹ ٹانک رہی ہیں ۔اسے سچا گوٹا کتنا اچھا لگتا ہے۔ وہ اکثر بیگم مرزا کی تلے دانی سے گوٹا نکال کر کرتے کے دامن پر رکھ کر بار بار دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ بیگم مرزا ایسا کرتے دیکھ لیتی ہیں توبھی کچھ نہیں کہتیں۔ کہیں بھی کیسے، اسے تو اپنی اولاد کی طرح پالا ہے۔ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ مگر اولاد سے محروم ہیں۔ علی جان سچے گوٹے کو کلائی سے لپیٹ لیتا ہے اور اپنے ہاتھ میں ہتھکڑی۔۔۔!
داروغہ جی نے اس کے ہاتھ میں بندھی رسی کو جھٹکا دے کر کھینچا اور رسی سپاہی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولے۔
’’اے رام داس، اس حرام زادے کو چوکی لے کر چل۔ میں مرزاجی کے ساتھ آتا ہوں۔۔۔‘‘
مرزاجی کا گھرانا گائوں کا معزز گھرانا تھا۔ ان کامکان گائوں کے دوسرے گھروں کے مقابلے میں بڑا اور خوبصورت تھا۔ آنگن اور برآمدے کے فرش اور زینے کے علاوہ بیت الخلاء کے قدمچے بھی پکی اینٹوں کے بنے تھے۔ باقی پورا مکان کچی اینٹوں کی چوڑی چوڑی دیواروں پر قائم تھا۔ کچی اینٹوں پرچکنی مٹی کا لیپ اور اس پر چونے کی پتائی، یوں محسوس ہوتا جیسے مٹی کے ڈھیلوں کے بیچ چاندی کا کٹورا پڑا ہو۔ بالائی منزل پر دو بڑے بڑے کمرے تھے، جن کے سامنے والی چھتیں بھوسے کی گوڑی ملی چکنی مٹی سے لسی ہوتیں۔ مرزا صاحب کی جائیداد کا کافی حصہ بک گیا تھا۔ اب ان کی آمدنی کا ذریعہ کچھ زمین تھی، جو بٹائی پر دے رکھی تھی اور ایک آم کا باغ تھا، جس سے سال بھر کی ضروریات پوری ہو جاتیں۔ اولاد کوئی تھی نہیں، محلے کے بچوں کو قرآن پڑھانے میں بیگم مرزا کا دن کٹ جاتا۔ علی جان بھی ان سے قرآن پڑھنے آیا کرتا۔ اس کا باپ رسول خاں میواتی، علاقے کا نامی ڈکیت تھا۔ جو کئی سال سے جیل میں ایک قتل کی سزا کاٹ رہا تھا۔ علی جان کا گھر مرزا مجید کے مکان سے بالکل ملا ہوا تھا۔ اس کی ماں کھجور کے پتوں کی چنگیریاں اور پنکھے بناکر گھر کا خرچ چلا لیتیں۔ بیگم مرزا بھی علی جان کے گھر کا پورا خیال رکھتیں۔ علی جان لڑائی جھگڑے، چوری چکاری سے دور بھاگتا تھا۔ اس کا دل پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ مائل تھا۔ کئی سپارے شوق سے ختم کر چکا تھا۔ جس دن رسول خاں کی سزا پوری ہوئی اور وہ رہا ہوکر گھر لوٹا تو اس نے علی جان کو پڑھنے سے اٹھا لیا۔
’’بزدل بنےگا کیا؟ ان مرزائوں کی صحبت نے تجھے کسی دین کا نہیں چھوڑا ۔بہادری سے جی۔۔۔ عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر کوئی میواتی جیا ہے کبھی؟ اور تو ہے کہ میری ناک کٹوانے پر تلا ہے۔۔۔ حرام زادے۔‘‘
علی جان لرز گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اب رسول خاں اکیلا نہیں، کئی لوگوں کے درمیان کھڑا نظر آیا۔ پھر علی جان کول گا کہ رسول خاں کے گروہ کے آدمی اسے زبردستی پکڑکر جنگل کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔ بادل گرجتے ہیں تو اس کی رگوں میں خون جم جاتا ہے۔ اچانک ایک گڈھے میں اس کا پیر پڑگیا۔ وہ چیخنے لگا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے چھوڑدو۔‘‘
کالے خاں نے اس کی گدی پر ایک مکا جمایا۔ وہ لڑکھڑا کرگرنے ہی والا تھا کہ رسول خاں کی کڑک آواز اس کے کانوں میں آئی۔
’’سیدھا چل نامراد۔۔۔ بہت عیش کی کاٹ لی۔‘‘
وہ گرتا پڑتا آگے بڑھا ۔چاروں طرف گھور اندھیرا تھا۔ اس نے دیکھا سفید سفید کپڑے پہنے کئی آدمی ایک کھیت میں لیٹے ہوئے ہیں۔ رسول خاں کے ساتھ کالے خاں نے اس کے ہاتھ میں ایک کلہاڑا دے دیا۔
’’یہ لے۔۔۔ اور ان سب کو ایک طرف سے ختم کر دے۔‘‘
’’ایں!۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں کے بچے ۔۔۔‘‘
رسول خاں نے دونوں ہاتھ سے بال پکڑکر اسے زمین پر گرا دیا اور گھسیٹنے لگا اور ان سفید پوش انسانوں کے قریب لاکر کھڑا کر دیا۔ اس نے غورسے دیکھا۔ مرزا مجید۔۔۔ ایک نہیں بہت سے مرزا مجید سفید کپڑے پہنے کھیت میں لیٹے ہوئے تھے۔
’’نہیں بابا۔۔۔ میں مرجائوں گا۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘
وہ زور سے چیخا۔ اسے محسوس ہوا کہ گلے کی ساری نسیں پھٹ گئی ہیں اور اس کی چیخ رکنے کانام ہی نہیں لیتی۔ وہ چیختا ہی رہا بہت دیرتک اور پھر رسول خاں نے اسے زور سے جھنجھوڑ دیا۔ خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا اور رسول خاں کی آواز کانوں میں پڑی۔
’’کیوں مرا جا رہا ہے۔۔۔ اٹھ۔۔۔‘‘
علی جان کی ماں کھڑی رو رہی تھی ۔رسول خاں نے لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو شک ہے کہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے یا کسی اور کا۔۔۔‘‘
پھر رسول خاں اپنے ماتھے کو پکڑتے ہوئے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا، جیسے سارے جتن بیکار چلے گئے ہوں اور بولا۔
’’اچھا تو ایسا کر۔۔۔ کل سے ابراہیم لوہار کے یہاں کام کرنے جایا کر۔ وہ کل ہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہتھوڑا پیٹنے کو ایک لڑکے کی ضرورت ہے۔‘‘
گرمی بہت ہے۔ علی جان کے پورے بدن سے پسینے کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ ابراہیم لوہار کے ٹھِیے پر ہتھوڑے کی چوٹیں مارتے مارتے دونوں بازو سن ہو گئے ہیں۔
پسینہ خشک ہو رہا ہے ۔بیگم مرزا کو پسینہ آتا بھی بہت ہے ۔وہ ان کے سرہانے بیٹھا پنکھا جھل رہا ہے۔ بیگم نے کروٹ لی اور آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔
’’سوتا کیوں نہیں علی جان۔۔۔ جابر آمدے میں سوجا۔ اچھالے یہ کنگن اور ہار لے جاکر تحویل میں رکھ دے۔ کم بخت گرمی میں زیور پہننا بھی عذاب ہے۔‘‘
چابی کا گچھا اور زیور علی جان کے حوالے کرکے بیگم نے آنکھیں بند کر لیں۔ علی جان نے تجوری میں گنگن اور ہار رکھ کر چابیاں بیگم کے تکیے کے نیچے رکھ دیں۔
’’تونے سنڈانسی کہاں رکھی علی جان؟‘‘
’’آپ کے سرہانے ۔۔۔‘‘
’’ایں۔۔۔؟‘‘
ابراہیم لوہار چونک پڑا۔
ایک ڈکیتی کے جرم میں رسول خاں کو پھر تین سال کی سزا ہو گئی۔ علی جان کو موقع مل گیا۔ اس نے لوہار کو سلام کیا اور مرزا کے گھرآن پہنچا۔ دالان کے درسے چپٹ کر کھڑا ہو گیا اور انگلیوں پر کچھ حساب لگانے لگا۔
’’تین سال۔۔۔ یعنی چھتیس مہینے ۔۔۔‘‘
پھر خوش ہوکر بیگم مرزا سے پوچھنے لگا۔
’’چاچی کیا تین سال میں قرآن ختم ہو جائےگا۔؟‘‘
’’کیوں نہیں بیٹا۔۔۔ تم محنت سے پڑھوگے تو دو سال ہی میں۔۔۔‘‘
وہ اچھلنے لگا اور پھر اچھلتے اچھلتے اس کے پائوں اس ڈھب سے پڑنے لگے جیسے مجذوب کو حال آ گیا ہو۔
’’دو سال میں قرآن مجید ختم۔ بچا ایک سال۔۔۔ ایک سال میں تو کئی بار دہراکر پکا کر لوں گا۔۔۔‘‘
سپاہی نے اس کے ہاتھ بندھی رسی کو زور سے کھینچا۔
’’تیز تیز چل۔۔ ۔یہ اونگھ کیوں رہا ہے؟‘‘
اس کا حلق بالکل خشک ہے، بہت زور کی پیاس لگی ہے۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ دھوپ مرزا کے صحن کی دیوار میں بنی گھڑونچی سے ہوکر منڈیر تک پہنچ گئی ہے۔ علی جان بالٹی میں پانی بھر کر چھت پر چڑھ گیا ہے۔ دن بھر کی تپتی ہوئی چھت پر جب چھڑکائو کیا تو مٹی سے سوندھی سوندھی خوشبو پھوٹنے لگی۔ زمین کی تپش کم ہوئی توا س نے کمرے سے دو پلنگ نکال کر بچھا دیے اور وہیں ایک چارپائی پر لیٹ کر اس طرح کروٹیں لیتا رہا جیسے وہ نہیں، مرزا مجید لیٹے ہوں۔ کچھ دیر بعد نیچے اترکر گھڑونچی سے ایک گھڑا اٹھا لایا اور اس پر پیتل کا کٹورا ڈھک کر چھت پر رکھ دیا۔ چھت کی قد آدم منڈیر یں بارش سے دھل دھل کر بالکل ختم ہو چکی تھیں اور محلے کی تمام چھتیں مل کر ایک میدان سابن گیا تھا۔ مرزا اور بیگم گرمیوں میں چھت پر سوتے تھے۔ گائوں میں چوپالیں اور بڑے بڑے میدان ہونے کی وجہ سے چھت پر سونے کا رواج نہیں تھا، اس لیے محلے کی دوسری چھتیں سونی پڑی رہتیں، بات کچھ بھی ہو مرزا منڈیریں اونچی نہ کرانے کی یہی وجہ بتاتے۔۔۔
سورج غروب ہونے کے بعد بیگم روٹی ہنڈیالے کر چھت پر ہی آ جایا کرتیں۔ محلے کی تمام عورتیں اپنی اپنی چھتوں سے ہوکر بیگم مرزا کے پاس آ بیٹھتیں۔ بیگم ان کی خاطرداری پان سے کیا کرتیں۔ عورتیں پان چبڑچبڑ چباکر وہیں پیکوں کے ڈھیر کر دیتیں اور علی جان چپ چاپ منڈیر پر بیٹھا پیکوں کو دیکھ دیکھ کر کڑھتا رہتا۔ جیسے ہی مرزا دروازے کی کنڈی بجاتے وہ بھاگ کر کواڑ کھول دیتا۔ تمام عورتیں چلی جاتیں۔ مرزا اوپر ہی کھانا کھاتے اور کھانے سے فارغ ہوکر خبریں سنا کرتے۔ علی جان بھی منڈیر پر بیٹھا غور سے ریڈیو سنتا اور اس طرح سر ہلاتا جیسے سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ اچانک بیگم مرزا کی آواز اسے چونکا دیتی۔
’’جائو بیٹا، بہت رات ہو گئی ہے۔ تمہاری اماں راہ دیکھ رہی ہوں گی۔‘‘
اور علی جان بسم اللہ کی چھت سے اترکر چلا جاتا۔ لیکن صبح مرزا اور بیگم کے اٹھنے سے پہلے ہی بیلے کے پھول باغ سے توڑکر لے آتا اور ہار بناکر گھڑوں کی گردنوں میں پہنا دیتا۔ کچھ پھولوں کے گجرے بناکر بیگم کے لیے رکھ دیتا۔ بیگم اٹھتیں تو کانوں میں گجرے پہن لیتیں۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔
’’تیز تیز چل۔۔۔‘‘ سپاہی نے پھر علی جان کے ہاتھ بندھی رسی کو زور سے کھینچا۔ علی جان جیسے کھنچتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب وہ انیس سال سے اوپر نکل چکا ہے۔ اس کے باپ کو گزرے کئی سال ہو گئے ہیں۔ ماں سمجھاتے سمجھاتے گونگی ہوتی جا رہی ہیں۔
’’اب تو کہیں جاکر کمانگوڑے۔۔۔ اب تو جوان ہو گیا ہے۔ مرزاجی کے پاس بھی اتنا کہاں ہے کہ تیرے لیے کچھ کر سکیں۔ تو ہے کہ ہٹا کٹا پھرے ہے۔ کمانے کے نام پر ڈھیر۔ مٹے میواتیوں میں شادی بیاہ کا الٹاہی رواج ہے ۔لڑکے والے کو پیسے دینے پڑے ہیں لڑکی بیاہ کر لانے کے لیے۔ میرے پاس کہاں روکڑدھری ہے جوگوناکر لائوں گی۔ تیرے بابا تو چھوٹے خاں کی لونڈیا کے سنگ سگائی کرکے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ مجھے طعنے سننے پڑے ہیں۔ دو دو کوڑی کی لگائیاں کہتی پھرے ہیں کہ ’لگے ہے سگائی توڑنی پڑےگی‘۔۔۔ اور تیرے کان پہ جوں تک نہ رینگے ہے۔‘‘
اس کی ماں بڑبڑاتی رہیں اور وہ اٹھ کر چل دیا مگر اب محسوس کرنے لگا تھا کہ ماں کی باتیں ہر وقت اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ اسے اپنے اندر ایک انجانی سی کھلبلی کا احساس ہوا۔
مریم، چھوٹے خاں کی بیٹی مریم۔۔۔ اور ایک موٹی رقم کی مانگ۔۔۔
جب اس کے چھوٹے چچیرے بھائی کی شادی ہوئی تو لگا کہ مریم اس کے دل میں ادھرسے ادھر بار بار کروٹ بدل رہی ہے۔ دل بیٹھنے لگا۔ مریم۔۔۔ عورتوں کے طعنے۔۔۔ شادی۔۔۔مگر روپیے۔۔۔؟ اس کی گانٹھ میں تو دو روپلی بھی نہیں تھیں۔
جاڑوں کی سیارہ رات تھی۔ وہ گاڑھے کی رضائی میں سرچھپائے سو رہا تھا۔ چچیرے بھائی کے بسترسے ابھرنے والی کھسر پھسر کی آواز سے اس کی آنکھ گھل گئی۔ کان لگاکر میاں بیوی کی باتیں سننے لگا۔ اسے اپنے جسم کے ہر حصے میں ان کی باتیں جذب ہوتی محسوس ہوئیں۔ کھسر پھسر آوازیں تیز ہو گئیں۔
مریم۔۔۔!
اسے بار بار لگتا کہ مریم دلہن بنی سامنے کھڑی ہے اور وہ سینہ تانے اس کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اچانک ا س کے کندھے جھک جاتے جیسے کسی نے روپیوں کی گٹھری اس کے کندھوں پر لاد دی ہو۔ وہ پھر کان لگا کر کوٹھری میں گونجتی آواز سننے لگتا ہے۔ رضائی کے اندرا س کادم گھٹنے لگا تومنہ سے رضائی ہٹاکر پھینک دی۔ کوٹھری میں سرسوں کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ اس نے گردن اٹھائی اور ٹاٹ کے پھٹے پردے سے جھانک کر اپنے چچیرے بھائی کے بستر کی طرف دیکھا۔ اس کی جورواس سے چمٹی ہوئی لیٹی تھی اور اپنی بھاری بھرکم ران اس کے پیٹ کے اوپر رکھے ہوئے تھی۔ علی جان نے منہ ڈھانپ لیا اور اپنی ہونے والی جورو مریم کا تصور کیے رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ خدا خدا کرکے جاڑوں کی رت بیت گئی اور کھسر پھسر کی آوازوں سے چھٹکارا مل گیا۔ اب وہ اپنی کھاٹ آنگن میں بچھا کر سوتا۔
آج علی جان کے دل کی طرح موسم میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اندھیری رات اور اس پر بادل کی گرج کے ساتھ بجلی کی چمک۔ علی جان کے جسم میں بھی بجلی چمک رہی ہے اور باربار اسے اپنے اندر گرج سی محسوس ہوتی ہے۔ بدن سلگ رہا ہے، بادل گرج رہے ہیں اور موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔جب علی جان بارش میں بھیگ گیا اورجاڑے سے کپکپانے لگا تو اس نے کھاٹ چھپر کے نیچے کھینچ لی۔ چھپر میں لٹکی لالٹین سے بدن سینکنے لگا لیکن لالٹین اس کے جسم کو گرم نہ کر سکی، اسے تو مریم کی گرمی چاہیے تھی اور مریم کو پانے کے لیے جیب کی گرمی۔۔۔ وہ رات بھر چھپر کی تھنکیا سے لگا کانپتا رہا اور چھپر کے پھٹنے کی دعا مانگتا رہا۔
علی جان کے سرسے سہرے کی لڑیاں ٹوٹ کر زمین پر گر پڑی تھیں۔ چاروں طرف بہت سے لوگ جمع تھے جو سپاہی کو روکے کھڑے تھے اور اس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا، لوگ جوتوں سے بیلے کے پھول مسلتے ہوئے گزر رہے ہیں۔
بیلے کے پھول!
وہ حسب معمول بیلے کے پھولوں کے ہار گھڑوں کی گردنوں میں پہنا چکا تھا۔ مرزا ناشتے کے بعد باہر جانے ہی والے تھے کہ کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی۔ علی جان بھاگ کر دروازے پر جا پہنچا اور کواڑ کھول دیے۔
’’کون، نتھو چاچا؟ اچھا آم لے کے آئے ہیں۔‘‘
نتھو رام نے آموں سے بھرا پٹھو نیچے رکھا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’مرزاجی گھر میں ہیں؟ باغ کے پیسے دینے ہیں۔‘‘
مرزا مجید نے آواز دی۔
’’کون ہے؟علی جان اندر بلا لو۔‘‘
نتھورام اندر آ گئے اور مرزا کے ہاتھ میں سو سو کے نوٹوں کی گڈی تھماکر بولے۔
’’یہ لو مرزاجی بیعانہ کاٹ کر باقی کے۔ اب حساب بےباق۔‘‘
نتھو ٹھیکے دار اٹھ کر چلے گئے ۔مرزا مجید کے ہاتھ میں روپیوں کی گڈی ہے۔ علی جان کو لگا کہ مرزا مجید کے پیچھے کہیں مریم چھپی ہے۔ وہ بار بار ان کی طرف اچٹتی سی نظر ڈالتا مگر اس کی نظر بری طرح کانپنے لگتی۔ مرزا مجید نوٹوں کی گڈی بیگم کو تھماکر باہر چلے گئے۔ بیگم نے نوٹ گنے اور ازاربند سے چابی کا گچھا کھول کر علی جان کو دیتے ہوئے کہا۔
’’لو بیٹے چابی لو اور روپیے تحویل میں رکھ دو۔ سنبھال کے رکھنا پورے سال کا خرچہ ہے۔‘‘
علی جان نے گڈی کو مُٹھی کی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ چابیاں لے کر تجوری کی طرف بھاری بھاری قدموں کو ڈھکیلتا ہوا بڑھا لیکن اس کے قدم مرزا کے گھر کی دیواروں کو پھلانگ جانا چاہتے تھے۔ اس نے تجوری کے تالے میں بڑی سی چابی گھمائی لیکن چابی تالے میں نہیں اس کے ذہن میں گھوم رہی تھی۔ اب اس کے ذہن کے وہ کواڑ کھل گئے جو پیدائش سے اب تک بند تھے۔ وہ ذہن پر جمی میل کی اس پرت کو کھرچ کر پھینک دینا چاہتا تھا جسے آج تک ایمانداری اور وفاداری کا مقدس دوشالہ سمجھتا آیا تھا۔ تجوری کے دونوں پٹ کھل گئے۔ وہ بھی اس کی جیب کی طرح خالی تھی۔ وہ نوٹوں کی گڈی کو اس میں رکھتے رکھتے رک گیا کہ اسے چھوٹے خاں کی پھیلی ہوئی جھولی نظر آرہی تھی ۔وہ جھولی، جواس سے نوٹوں کی شکل میں اس کی وفاداری اور ایمانداری کے خون کی بھیک مانگ رہی تھی۔
چھوٹے خاں کی بہو کے طعنے۔۔۔ اس کی بوڑھی ماں کی عزت۔۔۔ چچیرے بھائی کی جورو کی بھاری بھرکم ران۔۔۔
’’کیا وہ نوٹوں کی گڈی چھوٹے خاں کی جھولی میں ڈال دے؟‘‘
اس نے جلدی سے گڈی کو اپنے تہہ بند میں اڑس لیا۔
’’بیٹے یہ لو۔۔۔ سنبھال کے رکھنا، پورے سال کا خرچہ ہے۔‘‘
اسے لگا کہ تہہ بند کی گانٹھ ہولے ہولے کھلتی جا رہی ہے۔ وہ گانٹھ کسنا چاہتا تھا کہ بیگم کی آواز کانوں میں گونجی۔
’’یہ لے بیٹا۔۔۔ میں نے تیرے لیے کرتہ سی دیا ہے اور باہر چھینکے پر کھیر رکھی ہے، اپنی ماں کے لیے لیتے جانا۔‘‘
اچانک تہہ بند کی گانٹھ کھل گئی اور گڈی فرش پر گرپڑی ۔گڈی کی ہلکی مگر خوفناک آواز نے اس کے جسم میں لرزہ پیدا کر دیا۔جھک کر گڈی اٹھائی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کمرے کی دیوار پر لگی مرزاکی تصویر اسے گھور رہی تھی۔ وہ تصویر سے آنکھیں نہ ملا سکا اور سہم گیا۔ نوٹوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکر غور سے دیکھنے لگا۔ نوٹوں سے ہٹ کر اس کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی۔ اپنے ہاتھ کالے نظر آئے۔ آنکھیں بند کیں تو مریم کے ہاتھ پیلے دکھائی دیے۔ آنکھیں کھولتا تو کالا اور بند کرتا تو پیلا رنگ اس کے وجود میں اتر جاتا۔ جب اپنے ہاتھ کالے نظر آتے تو نگاہیں تجوری کی جانب اٹھ جاتیں، مگر جب مریم کے ہاتھ پیلے ہونے لگتے تواسے تہہ بند کی گانٹھ ہی دکھائی دیتی۔ کبھی پیلے تو کبھی کالے ہاتھوں کو دیکھتے دیکھتے اس نے پھر ایک بار مرزا کی تصویر دیکھی۔ اب اسے ان آنکھوں میں اپنے مرحوم باپ کی تصویر نظر آ رہی تھی، جو اس سے بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ علی جان نے ہمت کی اور تہہ بند میں نوٹوں کو رکھ کر مضبوطی سے انٹی کس لی اور چابی کا گچھا بیگم کو واپس کرکے چلا گیا۔ دوسرے دن مرزا نے پوچھا۔
’’بیگم آج علی جان نہیں آیا، کیا بات ہے؟
بیگم نے کہا۔
’آیا تھا، کچھ طبیعت خراب تھی، اس لیے چلا گیا۔‘‘
کئی روز تک علی جان نہیں آیا۔ بیگم مرزا پریشان ہونے لگیں۔
’’کہیں طبیعت زیادہ خراب تو نہیں ہو گئی؟‘‘
وہ بسم اللہ کی چھت سے اترکر علی جان کو دیکھنے گئیں۔ دیکھا کہ علی جان کے گھر کچھ لوگ جمع ہیں اور وہ دولھا بنا ہوا ہے۔ انھیں ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا۔
’’مگر مجھے مدعو کیوں نہیں کیا گیا۔۔۔؟ مجھے اطلاع تک نہیں اور یہاں۔۔۔ آخر علی جان پر میرا بھی توکچھ حق ہے۔‘‘
انھیں لگا کہ ان کے سامنے چھوٹے چھوٹے بہت سے سانپ رینگ رہے ہیں۔
’’مگر میواتیوں کے رواج کے مطابق شادی کے لیے لڑکے والوں کو ایک رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ راتوں رات علی جان کے ہاتھ یہ رقم کہاں سے لگ گئی؟‘‘
اب ان کی آنکھوں کے سامنے بہت موٹا سا اژدہا منہ کھولے کھڑا تھا۔ پھرا نھیں یاد آیا کہ کچھ دن پہلے باغ کے روپیے علی جان کو تجوری میں رکھنے کے لیے دیے تھے، کہیں وہی تو نہیں۔۔۔؟
’’نہیں نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ کبھی گھر کی ایک کیل بھی ادھرسے ادھر نہیں کی۔ میں تو زیور، روپیہ پیسا، سب اسی سے رکھواتی تھی۔‘‘
بیگم مرزا یہ سوچ ہی رہی تھیں کہ علی جان کی نظر بھیڑ کو چیرتی ہوئی ان پر پڑی اور وہ چونک کر رہ گیا۔ اس نے سر پر بندھے سہرے سے اپنا منہ چھپا لیا۔ اس کے چہرے پر تو پردہ پڑ گیا مگر بیگم مرزا کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ آہستہ آہستہ سرکنے لگا۔ انھیں محسوس ہوا کہ آج وہ پھول، جو علی جان برسوں سے ان کے گھڑوں کی گردنوں میں پہناتا چلا آیا ہے، سمٹ کر اس کے سہرے کی لڑیوں میں آ گئے ہیں۔ وہ الٹے پائوں گھر آئیں اور لگیں تجوری کھکھوڑنے۔ تجوری خالی تھی۔ ان کے پائوں تلے زمین نکل گئی اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔اتنے میں مرزا جی بھی آ پہنچے۔
’’کیا بات ہے بیگم، تم پریشان کیوں ہو؟‘‘
بیگم نے تجوری بند کی اور کہا۔
’’کچھ بھی تو نہیں۔۔۔‘‘
مگر مرزا نے تجوری کو کھول کر دیکھا، وہ خالی تھی۔
سپاہی نے گائوں کے لوگوں کودھتکارا۔ ’’بھیڑ کیوں لگا رکھی ہے، چلو اپنا کام کرو۔‘‘ اور علی جان کو دھکے مار مار کر اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ علی جان کی ماں پچھاڑیں کھاتی ہوئی آئیں اور بلک بلک کر رونے لگیں۔
’’ارے میرے لال کو کہاں لے جا رہے ہو؟ اس نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’یہ تو تب پتا چلےگا، جب تین سال جیل میں چکی پیسےگا، پورے تین سال۔۔۔‘‘
جب علی جان گلی میں مرزا مجید کے گھر کے سامنے سے گزرا تو بیگم مرزا کواڑ کی آڑ میں کھڑی جھانک رہی تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ علی جان رک گیا اور اپنی خشک آنکھوں کو اس طرح پونچھنے لگا جیسے اپنی نہیں بیگم مرزا کی آنسو بھری آنکھیں پونچھ رہا ہو اورپھر انگلیوں پر کچھ حساب لگانے لگا۔
’’تین سال۔۔۔ یعنی چھتیس مہینے۔۔۔‘‘
بیگم مرزا نے کانپتا ہوا ہاتھ منہ پر رکھا اور دھڑ سے دروازہ بند کر لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.