تیسری دنیا
کہانی کی کہانی
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے، جو ایک مجمع میں بیٹھا ہوا اپنی بیتی زندگی کی داستان سنا رہا ہے۔ لیکن مجمع میں جب بھی کوئی نیا شخص آتا ہے وہ اس سے کہتا ہے کہ اس نے ابھی تک اپنی داستان شروع نہیں کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجمع میں بیٹھے لوگوں سے شہادت بھی لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنی داستان شروع کرتا ہے اور تبھی کوئی نیا شخص مجمع میں آ جڑتا ہے اور وہ پھر سے اپنی بات کو نئے سرے سے شروع کرتا ہے۔
اسلام علیکم۔۔۔ آپ کےساتھ بیٹھنے میں مجھے کوئی عذر نہیں مگر میں کہیں بیٹھ جاتا ہوں تو لوگ میری داستان سنتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور مجھے شرمندگی ہونے لگتی ہے، میں کیسا مہمان ہوں کہ میرے میزبان مجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنے ہی گھروں سے باہر ہولیتے ہیں۔۔۔ لیجیے، بیٹھ گیا۔۔۔ پیرانہ سالی سےبراحال ہے کہیں بیٹھ جانے کا حیلہ مل جائے تو خدا کاشکر بجالاتا ہوں ورنہ کبھی وہ وقت تھا کہ لوگ باگ پیچھے سے آوازیں دے دے کر روک لینا چاہتے تھے مگر میں ہمیشہ آگے کی آوازوں کی جانب رواں دواں ہوتاتھا۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔ آئیے آپ بھی بیٹھ جائیے۔میں نے ابھی اپنی داستان شروع نہیں کی۔ دراصل میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنی داستان کی ابتدا کہاں سے کروں۔ بڑھاپے کی یہی ایک مصیبت ہے کہ ساری کی ساری عمر آدمی کے سامنے کھڑی ہوکے اس کے منہ چڑاتی ہے اور وہ لٹھ لے لے کے کھانستے ہوئے اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ کیا مجال، جو بے چارے کے ہاتھ اس کا بازو، کندھا، سر یا پاؤں آجائے۔۔۔ جو بیت گئی وہ بیت گئی۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جو بھی مجھ پر بیتی ہے، وہ مجھ پر نہیں بیتی۔۔۔ کئیوں پر بیتی، جو ایک کے بعد ایک روپوش ہوتے گئے۔ اب کس مردے کو کھود کر کھڑا کروں کہ آؤ بھئی، پہلے شہادت دو۔۔۔ ہاں، مجھے معلوم ہے آپ ان ہونی باتوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ شہادت کے بغیر ہی سبھی واقعات پر باور کرلیتے ہیں۔ لیکن آپ نے داستان سنتے ہوئے محض وقت کاٹنا ہوتا ہے، مجھے تو وقت جھیلنا ہوتا ہے جسے جھیلنا ہو وہ مری ہوئی شہادتوں کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کاجتن کرتارہتاہے، کہ کسی طرح جھیلنے سے بچ جائے۔۔۔ لیکن جھوٹ یا سچ کے محض اعلان سے کوئی بھوگتا ہے نہ مرتاہے، سچائی کی شہادت کی صورت تو جھیلتے چلےجانے سے ہوتی ہے۔ بڑی مشکل کاسامنا ہے مگر کیا کیجیے؟
اسلام علیکم! بیٹھیے۔ میں نے ابھی اپنی داستان شروع نہیں کی۔۔۔ کسی کو کسی اور کی داستان سنانا ہو تو وہ ایک ہی بے لاگ لمحے میں اسے فر فر بیان کردیتا ہے۔ داستانیں اوروں کی سنائی جاتی ہیں لیکن میں ہمیشہ اپنی ہی داستان سنانےپر مصر ہوجاتا ہوں اور کہیں سے شروع ہوکر کہیں اور ہی آنکلتاہوں۔۔۔ نہیں، میری جوانی میں ایسے نہیں ہوتاتھا۔ اس وقت تو میں کوئی بات شروع کرنا چاہتا تھا تو میرے کچھ کہے بغیر بات خود آپ ہی اپنے آپ کو اٹھالیتی تھی اور میں اس سےخفاہوجاتا تھا کہ اپنے آپ کو خود آپ ہی بیان کرنا تھا تو مجھے کیوں خواہ مخواہ بیچ میں لے لیا۔۔۔ جوانی کی باتیں چھوڑیے، اتنی خالی ہوتی ہیں کہ باتیں کرنے والا یہاں کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے اور اس کی باتیں غباروں کے مانند اپنے آپ بھر بھر کر وہاں آسمان میں پہنچی ہوتی ہیں۔۔۔ مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب آپ پیری میں بیان کی ذمہ داری قبول کرلیں۔ پیری میں آپ کو اپنی آواز اتنی وزنی معلوم ہوتی ہے کہ آپ اسے دل و دماغ سےاٹھاکر منہ تک بھی نہیں لاپاتے۔ میری عمر؟ آپ یقین نہیں کریں گے کہ جب میں پیدا ہوا اس وقت پورے ایک سو دوبرس کا تھا پھر یہ ہوا کہ میری عمر ہر سال کے بعد ایک ایک سال کم ہوتی گئی اور اس طرح آج پورے ایک سو دو برس بیت چکے ہیں، یعنی اپنی عمر کےحساب سے مجھے جتنا بھی جینا تھا، جی چکا اور اب جو جی رہاہوں اپنی عمر کے اوپر جی رہاہوں۔۔۔ میں تو بہت بوڑھا ہوں۔ مگر میرا خیال ہے کہ ہرشخص۔۔ بچہ یا بوڑھا۔۔۔ ہر دم اپنی عمر کھاپی کر اس سے اوپر ہی جی رہاہوتاہے۔ آپ میری لمبی عمر اور صحت کاراز جاننا چاہتے ہیں؟ راز واز کیا، بس اس لیے نہیں مرا کہ ابھی میری داستان ادھوری ہے۔۔۔ پھر بھی کیا؟ صحت بھی کوئی راز کی شئے ہے۔ میری ساری زندگی کھلے کھلے ہی گزری ہے۔ اچھی خوراک۔۔۔؟ اچھی خوراک کیا ہوتی ہے؟ جو بھی جب ملا اللہ کا شکر اداکرکے کھالیا۔۔۔ اورنہ ملا تو۔۔۔؟ ہاں نہ ملے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنا عزم کھارہے ہیں۔۔۔ ہاں، عزم کھانے سے پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر اسے کھاتے ہوئے دانت ٹوٹ جانے کااندیشہ رہتا ہے۔۔۔ ہاں، پیٹ بھر جانے کے باوجود بھوک نہیں مٹتی۔
السلام علیکم۔۔۔ کیا آپ بھی میری داستان سننے آئے ہیں؟ آئیے ابھی میں نے اپنی داستان شروع نہیں کی۔۔۔ نہیں، میں ٹال مٹول سے کام نہیں لے رہا ہوں۔ مجھے اپنی داستان تو سنانا ہی ہے۔ کسی نئے مقام پر اپنی ساری گزشتہ داستان کھول کر نہ سنالوں تو یہی لگتاہے کہ ابھی پرانے مقامات سے نکلنا نہیں ہوا اور جہاں آیا ہوں وہاں ابھی نہیں پہنچا۔۔۔ مگر عجیب بات ہے کہ جوں جوں ابد کی طرف قدم اٹھ رہے ہیں توں توں اپنا ازل ذہن سے محو ہوتا جارہا ہے۔ بس اتنا یاد ہے کہ ایک پیغام لے کر چلاتھا۔۔۔ نہیں، نظم میں ہوگا۔۔۔ ہاں، نظم میں ہی تھا، کیوں کہ میں اسے گنگنایا کرتا تھااور گنگناتے ہوئے مجھ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور میں رونے لگتاتھا۔ میری ماں اسی دم اچھل کر مجھے گود میں لے لیتی اور اپنا پستان میرے منہ میں ٹھونس دیتی اور اس کے دودھ کی بوندوں کو حلق میں ٹپکتے ہوئے محسوس کرکے میں روتے روتے مسکرانا شروع کردیتا۔۔۔ نہیں، تفصیلات مجھے یاد نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہوگا۔۔۔ ہاں، وہ پیغام نہایت اہم تھا، نامعلوم کس نے دیا تھا۔۔۔؟ اور کس کے نام تھا۔۔۔؟ ہاں، مجھے یہ احساس ضرور ہے کہ وہ پیغام بہت اہم تھا۔ کئی بار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ذہن پر پورا زور ڈالتا ہوں کہ کم سے کم اتنا ہی یاد آجائے کہ پیغام دینے والا کون تھا، یا یہ نہیں تو کم سے کم یہ، کہ مجھے وہ پیغام کس کے پاس پہنچانا تھا۔ شاید اسی سے پتہ چل جائے کہ وہ کہاں سے کس پیغام کا انتظار کر رہا ہے ہر ایک سے پوچھتا پھرتا ہوں، مگر سبھی میری طرف اس طرح دیکھتے ہیں گویا کوئی پاگل بول رہاہو۔۔۔
السلام علیکم! آئیے، ابھی میں نے اپنی داستان شروع نہیں کی۔۔۔ ٹھہریے۔۔۔ نہیں۔۔۔ کہیں آپ ہی تو وہ نہیں؟ کیوں کہ عین وقت پر وہی پہنچتا ہے جس کا ہمیں انتظار ہو۔۔۔ کیا آپ کہیں سےکسی نہایت اہم پیغام کی راہ تک رہے ہیں۔۔۔؟ ہاں۔۔۔ دیکھا آپ نے؟ جس کاہمیں انتظار ہتا ہے وہ عین وقت پر پہنچ جاتا ہے۔۔۔ ہم خواہ مخواہ مایوس ہوجاتے ہیں۔۔۔ واہ صاحب واہ! آپ کو پورے ایک سو دوبرس سے ڈھونڈ رہاہوں۔۔۔ نہیں، یوں نہیں، یوں کہیے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ اکیاون برس کے تھے، یعنی میرے اکیاون برس رہ گئے تو آپ پیدا ہوئے۔۔۔ ہاں، صاحب، اپنی پیدائش سے پہلے تو آپ ملنے سے رہے۔۔۔ لیکن نہیں ایسے بھی نہیں۔ ایک دفعہ واقعی میرا ایک ایسے گداگر سے ملنا ہوا جو ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔ میں نے بھی آپ کے مانند اس کی بات کو ہنس کر ٹال جانا چاہامگر وہ بڑی متانت سے گویا ہوا کہ زندگی بھر میری ایک بھی خواہش پوری نہیں ہوئی تو میں پیدا کیسے ہوگیا! میں سراسیمہ سی تضحیک سے اس کی طرف دیکھنےلگا تو وہ بولا، اگر آپ کو اطمینان کرنا ہو تو یہاں بڑی سے بڑی آگ بھڑکا کر ایک طرف کھڑے ہوجائے اور دیکھیے میں کس طرح ذرا بھی جلے بغیر اس میں سے نکل جاتا ہوں آدمی تو خواہش پوری ہونے سے وجود میں آتا ہے۔ جس کا وجود ہی نہیں اسے آگ کیا جلائے گی۔۔۔؟ میں نے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ قہقہے لگا رہا ہے مگر ان قہقہوں کی آواز مجھے سنائی نہ دے رہی تھی۔۔۔ نعوذباللہ! اس اکیلے راستے سے بھاگ کر میں نے ایک شاہراہ پر پہنچ کر دم لیا۔۔۔
خیر، یہ قصہ چھوڑیے، بات یہ ہو رہی تھی کہ اپنی پیدائش سے پہلے آپ مجھ سے کیونکر مل سکتے تھے۔۔۔ ٹھیک ہے، ملنا تو پیدائش کے بعد ہی ہوتا ہے، لیکن پیدائش کاانحصار بھی تو وصل پر ہوتا ہے۔عین ممکن ہے آپ کی پیدائش سے پہلے ہماری ملاقات ہوجاتی تو آپ اسی دم پیدا ہوجاتے۔۔۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ بالآخر ہماری ملاقات ہوگئی۔ اب آپ سوچ سمجھ کر بتائیے کہ آپ کو کس پیغام کاانتظار تھا۔ مجھے تو قطعاً یاد نہیں کہ میں آپ کے لیے کیا پیغام لے کر چلا تھا۔۔۔ جھجکیے نہیں، جو ہے سو بول دیجے، شاید باقی ساری بات مجھے آپ ہی یاد آجائے۔۔۔ کیا۔۔۔؟ کوئی ایسی بڑی بات نہیں؟ کیا مضائقہ ہے؟ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ بات تو صرف بات ہوتی ہے اور صرف کرنے کے لیے ہوتی ہے۔۔۔ آپ کی بیوی کے حمل ٹھہرا ہوا ہے۔۔۔؟ اور وہ بچے کی پیدائش کے لیے اپنے ماں باپ کے یہاں گئی ہوئی ہے۔۔۔؟ اچھا، آپ کو اپنے بچے کی آمد کی خبر کاانتظار ہے۔۔۔ نہیں، پھر وہ پیغام آپ کے لیے نہیں۔۔۔ شاید آپ کے وارث کے لیے ہو جس نے ابھی پیدا ہونا ہے۔۔۔ ہاں، کوئی وارث ہو تو اچھا ہی ہے مگر آپ اسے وراثت میں کیا دے کر مریں گے؟ اپنی بھوک۔۔۔؟ خفا نہیں ہوئیے، جواب دیجیے۔۔۔ لیکن نہیں، پہلے میری بات سن لیجیے۔ میں ابھی تک اسے روک کر بیٹھا تھا کہ آپ میں سے کسی کو آپ ہی سوجھ جائے گی اور میرے بولنے کی نوبت نہ آئے گی۔۔۔ بات یہ ہے کہ بھوک سےمیرا دم نکلاجارہاہے۔۔۔؟ تو شاید آپ کی بھوک سے ہی میرا یہ حال ہے۔۔۔ تو جو کچھ بھی ہے لے آئیے، باہم بیٹھ کر بسم اللہ کریں۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ کیا۔۔۔ کھانے کو کچھ بھی نہیں۔۔۔؟ ہہ ہہ ہا۔۔۔ ہاہہ۔۔۔ اسی لیے آپ سب اپنے آپ یہاں جمع ہوگئے ہیں۔ بھوکوں کو بلائیے نہ بلائیے، آپ ہی آپ دنیا بھر سے چلے آتے ہیں کہ شاید بھوک مٹنے کا سامان ہوجائے اور جہاں سامان ہوجائے وہیں سکونت اختیار کرلیتے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کے باوجود سچے ہم وطن معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ بھوک کا رشتہ بڑا گہرارشتہ ہوتا ہے صاحبین۔۔۔ بے حساب لوگوں میں اسی ایک درد اور اضطراب کارشتہ۔۔۔ ہاں، ماں باپ کا، بھائی بہن کا، بیوی، بچوں کارشتہ بھی اس رشتہ سےچھوٹا ہے۔۔۔ ٹھہریے میرا خیال ہے میرے ذہن میں وہ پیغام اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائے بے تحاشا چلا آرہا ہے ہاں، ہاں وہی ہے، پوری ایک صدی میرے ذہن کے بےکراں جنگل میں بھٹکتا رہا، اور اب اچانک وارد ہوگیا ہے۔۔۔ ٹھہریے صاحبین، بے صبر نہ ہوجیے۔ ہاں، ہاں یہ پیغام آپ سبھوں کے لیے ہے، نامعلوم کون سی ٹیڑھی میڑھی زبان بول رہاہےمگر سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ دوام میں کھانے پینے کو کچھ مہیا نہیں ہوتا، جیسے بھی ہو اسی دنیا میں اپنی روٹی روزی کی صورت کیجیے۔
السلام علیکم! آپ بھی آئیے، ابھی میں نے اپنی داستان شروع نہیں کی۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.