تیسری جنگ عظیم سے قبل
وہ سنگ دل گلچیں اپنے پر فریب محدّب شیشوں کی زہریلی شاعوں سے گل زمین کے لالہ فام پھولوں کو اپنا نشانہ بنا رہے تھے۔ چمنستان کے شاہین فطرت پرندے، ان مردہ خور کر گسوں کی بدطینت خصلت بھانپ گئے اور اپنے چمنستان کو ان مردہ خوروں کی پروازوں سے آزاد کرانے کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔ چمنستان کے یہ شاہین جب ان مردہ خور کر گسوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پر تولنے لگے تو اسیر فضا حیران، درندے پریشان، لیکن چند سے کیا ہوتا، وہ شکار بننے والے غافل پرندوں کو مدد کے لئے پکارتے رہے، اتحاد کی صدائیں دیتے رہے لیکن سب فضول۔ آپسی پھوٹ کی وجہ سے سب بزدل نکلے۔ موت سے خوف زدہ، خود داری سے محروم۔۔۔!
یہ شاہین فطرت پرندے ایک درخشان تہذیب کی نمائندہ علامت تھے۔ وہ تہذیب جس سے جدید دنیا کے سوتے پھوٹے تھے۔ وہ اسی پرا من، خوشحال اور پائیدار تہذیب کے پروردہ شاہین تھے۔ ان کے چمن میں ہرطرف خوشحالی کا دور دورا تھا ۔چمن کی فضا امن و سکون کی خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ باغی پرندوں کے گلستان کی یہ معطر ہوائیں، ان بدمست درندوں کو دیوانہ کر بیٹھیں۔ انھوں نے اپنی عفونت زدہ سانسون کو ان خوشبودار فضاؤں میں تحلیل کرنا شروع کر دیا اور اپنی بدصورت جو نچوں سے آزاد چمن کے نرم و نازک پھولوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ چمن کے شاہین اپنے پر امن چمن کو ان درندہ صفت کر گسوں کی تباہی سے بچانے کی خاطر مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو گئے کافی عرصہ تک وہ پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے کہتے ہیں کہ دو لومڑیوں نے بھی ایک خونخوار شیر کو مار گرا یا تھا، یہاں تو جدید دور کے طاقت ور درندوں کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔ انجام تو سب کو معلوم تھا، وہ بھی بے خبر نہیں تھے لیکن وہ خوددار تھے، باغیرت تھے، ان کی خود داری اور غیرت مندی نے انھیں جھکنے نہیں دیا۔ انھوں نے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ان درندوں کے سازشی آشیانوں کو بھی تباہ کر ڈالا، لیکن اس سب کے باوجود وہ فتح مندی کا سورج نہیں دیکھ سکے۔ ان کی نسل نے جب انھیں تنہا چھوڑ دیا تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہو گئے۔ ان کی غافل نسل دور سے کھیل کا نظارہ کرتے ہوئے لطف اندوز ہو رہی تھی، نتیجہ۔۔۔ ان کے آزاد چمن امن کے دعویداروں کے غلام بن گئے۔
غلاموں کی لگام کسنے کا کام بڑے درندے نے اپنے ہاتھ میں لے لیا وہ ابھی بےقرار تھا۔ اس کا سکون جنون میں تبدیل ہو رہا تھا کیونکہ باغی پرندوں کا سردار شاہین، اس کی پکڑ سے باہر تھا اور اسے سزا نہ دینا اس کے مغرور دماغ پر کوڑے برسنے کے مترادف تھا۔ تلاش جاری رہی۔ چمنستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئیں۔ کئی باغی پرندے شکا ر ہوئے اور کئی شکاری کے زہریلے پھندے میں پھنس گئے۔ انھیں درندے کی عدالتی پنجروں میں لایا گیا اور انھیں اپنے مقاصد کو بیان کرنے کا حکم ہوا۔ وہ شاہین فطرت پرندے موت کے پنجروں میں پھڑ پھڑانے لگے کہ؛
’’ہم آزاد چمن کے اسیر پرندے ہیں۔ ہم اپنے چمن کو آزاد دیکھنا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں غلامی سے سخت نفرت ہیں۔۔۔ ہم ہر کسی کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم غلامی کی ذلت آمیز زندگی پر آزادی کی باعزت موت کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔‘‘
مغرور درندے، شاہینوں کے عزائم دیکھ کر غُرائے :
’’آزادی دینا اور چھیننا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں۔۔۔ طاقتور ہیں۔۔۔ امن کے پیامبر ہیں۔۔۔ جمہوریت کے علمبردار ہیں۔۔۔ تم غلاموں کی یہ ہمت کہ تم ہمارے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔۔۔ تمہاری نسل کی سانسیں ہمارے رحم و کرم پر چل رہی ہیں۔‘‘
باغی شاہینوں کو جب موت کی سزا سنائی گئی تو بھی وہ آزادی آزادی پکا رتے رہے۔ ان کی گردن میں جب پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے شبنمی قطرے چمک رہے تھے۔ درندوں کا سردار خوشی سے چہک رہا تھا۔ وہ اپنی تہذیب کے گن گا رہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ آج وہ اس نسل سے صدیوں کا بدلہ لے رہا ہے لیکن وہ پھر بھی کبھی کبھی مایوس ہو رہا تھا کیونکہ ان باغی پرندوں کا سردار ابھی ان کے ہاتھ نہیں لگا تھا باغی پرندوں کی نسل کے کچھ پرندے خاموش احتجاج کرتے رہے، انھوں نے غلامی کی ذلت دیکھی تھی وہ احتجاج کے بغیر کرتے بھی کیا کیونکہ غلام کے پاس احتجاج کے بغیر ہوتا ہی کیا ہے۔
زمانہ گردش کرتا رہا۔۔۔ برسوں گزر گئے۔۔۔ وقت کا مزاج بدلتا رہا۔۔۔ درندروں میں پھوٹ پڑ گئی کیونکہ بڑا درندہ دوسرے درندوں پر اپنا تسلط جمانا چاہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے لگے۔۔۔ سارا جنگل آگ برسانے لگا۔۔۔ تمام خون خوار درندوں کے ٹھکانے اس آگ کی لپیٹ میں آگے۔۔۔ ہر طرف بربادی اور تباہی پھیل چکی تھی کیونکہ دنیا میں تیسری جنگ عظیم کا سائرن بج چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.