گارڈ نے وسل دے دیا تھا اور سبز جھنڈی لہرا دی تھی، جب ایک نوبیاہتا جوڑا اس کے سامنے کی سیٹوں پر آ کر بیٹھ گیا اسے ایسا لگا جیسے وہ آرام دہ سیٹ پر نہیں بیٹھا تپی ہوئی ریل کی پٹڑی پر اوندھے منہ پڑا ہے۔
لڑکی اسے دیکھ کر یوں ہکا بکا رہ گئی جیسے وہ راولپنڈی جانے والی ریل کار کی بجائے ملتان جانے والی ریل کار میں سوار ہو گئی ہو۔
اس کے شوہر نے رومال سے اس کے لئے سیٹ صاف کرتے ہوئے بڑی محبت سے کہا۔
’’بیٹھو انجی۔‘‘
’’انجی۔۔ انجی۔۔ انجی ‘‘
اس پر چاروں طرف سے پتھر برسنے لگے۔
اس کا سارا بدن لہولہان ہو گیا اسے ایسے لگا جیسے تیز رفتار ریل کار کا انجن اس کے اوپر سے گزر گیا ہو اور اس کے جسم کی بوٹیاں ہوا میں اُڑ رہی ہوں۔ وہ اپنی سیٹ پر کھڑکی کی طرف منہ کر کے بیٹھا تھا لیکن ایک تیسری آنکھ اس کی کنپٹی پر اُگ آئی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کی موجودگی سے وہ پریشان ہو گئی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے اور منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا ہے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر کہیں کوئی سیٹ خالی نظر نہ آئی۔ اس قدر طویل سفر کھڑے ہو کر طے کرنا مشکل کام تھا وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا پھر اس نے تہہ کیا ہوا اخبار، جس کا ایک ایک لفظ وہ پہلے ہی پڑھ چکا تھا، نکالا اور اپنے جسم کو اخبار کے اوراق کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
ریل کار کے آہنی پہئے حرکت میں آئے۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی، پلٹ کر اپنے شوہر سے باتیں کرنے لگی۔ اور وہ۔۔ وہ بظاہر اخبار پڑھ رہا تھا مگر اس کے اندر کوئی طاقت ور انجن جلدی جلدی کانٹے بدل رہا تھا۔ اخبار چھوڑ کر اس نے کھڑکی کے باہر کے منظر میں پناہ لی۔۔ دور دور تک ریل کی پٹڑیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ریل کے خالی، فالتو اور بےکار ڈبے کونوں میں چپ چاپ کھڑے تھے اور کانٹے بدلتی فاصلے طے کرتی ہوئی ریل کار کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
ریل کی بے شمار پٹڑیاں دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اگر وہ ریلوے انجن ہوتا تو بوکھلا جاتا اور یقیناً کسی غلط پٹڑی کا انتخاب کر کے کسی دوسرے انجن سے ٹکرا جاتا۔ ٹکرانے کے خیال سے اسے لذت ملی اور اس کا جی چاہنے لگا کہ کاش وہ واقعی کوئی طاقتور انجن ہوتا جو کسی غلط پٹڑی پر دندناتا، شور مچاتا، چنگھاڑتا اور خس و خاشاک کو اپنے ساتھ اڑاتا کسی دوسرے انجن سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا۔ انجن کے نیچے آ کر کچلے جانے اور انجن بن کر کسی دوسرے انجن سے ٹکڑا کر پاش پاش ہو جانے میں کتنا فرق تھا۔
ریل کار اب راوی عبور کر رہی تھی۔
بوٹنگ کرتے ہوئے لوگ نظر آئے تو اس نے تڑپ کر لڑکی کی طرف دیکھا۔ مگر اس نے کوئی توجہ نہ دی وہ اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں مصروف تھی۔
راوی کسی خوبصورت لمحے کی طرح گزر گیا۔۔ مگر اس کے دل میں دیر تک چپو چلتے رہے۔
اور ابھی وہ ایک سرد آہ بھی نہیں کھینچ سکا تھا کہ کھجوروں میں گھری ہوئی مقبروں کی عمارتیں ایک حسین سپنے کی طرح دکھائی دینے لگیں۔ جہانگیر اور نور جہاں کے مقبرے قریب قریب تھے، مگر ان میں ریل کی پٹڑیاں حائل ہو گئی تھیں۔ وہ زنجیر کھینچے بغیر تیز رفتار ریل کار سے اتر گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا پانچ برسوں کا طویل سفر طے کرنے لگا۔
پانچ سال پہلے ایک شام مری میں اسے اس کا تار ملا تھا کہ فوراً لاہور پہنچو۔ اس نے لباس تبدیل کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ سخت پریشانی کے عالم میں وہ اسی وقت لاہور کے لئے روانہ ہو گیا تھا۔ جب وہ اگلی صبح خیبر میل سے اتر کر بغیر منہ ہاتھ دھوئے بغیر ناشتہ کئے اور بغیر اپنے لباس سے گرد جھاڑے گرلز ہوسٹل پہنچا تو وہ اسے گیٹ کے قریب اپنی منتظر ملی۔ نوخیز کلی کی طرح ابھی ابھی چٹکی ہوئی۔ نئی وضع کے خوش رنگ لباس میں جگمگاتی اور چھلکتی گنگناتی۔ وہ پریشان تھا اس نے اسے تار دے کر کیوں بلایا تھا۔ ایسی کیا بات تھی۔ خدا خیر کرے وہ راستہ بھر سوچتا اور دعائیں مانگتا آیا تھا۔ مگر جب اسے پتہ چلا کہ آج چھٹی تھی اور وہ اس کے ساتھ آؤٹنگ کے لئے جانا چاہتی تھی تو اس کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ وہ بہت خوش ہوا مری سے لاہو ر تک کا فاصلہ سمٹ کر ایک نقطہ بن گیا۔ راستے کی ساری گرد زر گل تھی اور بس اور ٹرین کا اکتا دینے والا طویل سفر پینگ کا ایک ہلارا محسوس ہو رہا تھا۔ اپنا شکن آلود لباس اور گرد سے اٹے ہوئے بال اسے اچھے لگ رہے تھے، جیسے اس نے ہیرو کا رول فلم بند کرانے کے لئے میک اپ کر رکھا ہو۔۔ اور سچ مچ وہ نگاہوں کے کیمرے سے اس کی تصویریں اتار رہی تھی۔ پھر جب وہ واپس مری چلا جائےگا تو تنہائی کے بند کمرے میں وہ اس فلم کو ڈب کرے گی اور سارے نیگیٹوز یادوں کی کسی ایسی الماری میں چھپا دے گی کہ وہ لاکھ سر پٹختا رہے کبھی اس کے ہاتھ نہ آئیں گے۔
وہ حیران تھا وہ ایکا ایکی اس پر اس قدر مہربان کیسے ہو گئی تھی وہ تو ہمیشہ ہر تصویر اس سے چھپا کر رکھتی تھی پھر آج؟۔۔ شائد وہ اب تک اسے آزما رہی تھی۔ شائد آج وہ اس کانٹے کا بھی ذکر کر دے جو اسے اندر ہی اندر لہولہان کرتا رہتا مگر وہ بظاہر ہنستی مسکراتی دکھائی دیتی تھی۔ کوئی انجانا سا اندیشہ اسے خوشی کے لمحوں میں بھی اداس رکھتا تھا مگر وہ کچھ نہ بتاتی تھی، پوچھنے پر جھوٹ ہنسی ہنسنے لگتی تھی۔
ہوٹل میں چائے کی میز سے اٹھ کر وہ باتھ روم چلا گیا ہاتھ منہ دھویا بال درست کئے اور پھر اس کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا وہ خوشی سے کھلی جا رہی تھی۔
مجھے یقین تھا تم ضرور آؤ گے۔
میرا اندازہ تھا تم خیبر میل سے پہنچوگے۔
میں جانتی تھی تم ناشتہ میرے ساتھ مل کر کروگے۔
میں جانتی تھی تم گاڑی سے اتر کر سیدھے میرے پاس آؤگے۔
میں جانتی تھی۔۔ مجھے معلوم تھا۔۔ مجھے یقین تھا۔
میں جانتی تھی۔۔ میں جانتی تھی۔۔ میں جانتی تھی۔
’’تم نہیں جانتی ہو انجی۔۔ میں نے ولایت میں اتنا عرصہ کیسے گزارا۔‘‘ اس کے شوہر نے کہا۔
’’میں جانتی ہوں۔ میں جانتی ہوں۔‘‘ وہ کوئی جواب نہ دے سکی۔
ریل کار بھاگتی جا رہی تھی، مڑ کر نہیں دیکھتی تھی۔ مڑ کر نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اس کا جی چاہا اپنے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹ کر دیکھے کہ کہیں اس کا جسم سن تو نہیں ہو گیا۔ اس نے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹنے کے لئے ہاتھ کو تلاش کیا مگر اس کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے پھر اس نے دیکھا اس کی دونوں ٹانگیں بھی نہیں تھیں۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم کو تلاش کی مگر وہ سیٹ جو اس نے اپنے لئے ریزرو کروائی تھی اب خالی پڑی تھی۔ اسی لمحے اس کے کہیں قریب ہی کوئی کلی چٹکی۔۔ جانی پہچانی مہک کا ہلکا سا جھونکا آیا اور وہ یہ جان کر مطمئن ہو گیا کہ وہ جسم کے بغیر بھی سونگھ سکتا ہے۔
پھر سونے کی چوڑیوں کی سرد سرد سی کھنک سنائی دی اس کا مطلب ہے وہ سن بھی سکتا ہے ہاں وہ سونگھ سکتا ہے سن سکتا ہے، سوچ سکتا ہے، رو سکتا ہے اور گا سکتا ہے!
وہ گانے لگا۔
’’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں، مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے‘‘
وہ گاتا رہا۔۔ درخت،گاؤں، کچے پکے راستے، فصلیں، تالاب اور ریلوے اسٹیشن ایک ایک کر کے گزرتے رہے۔ ہیر وارث شاہ سے اسے بہت سے اشعار یاد تھے۔ ایک بند ختم ہوا تو اس نے دوسرا شروع کر دیا:
’’وارثؔ، رن،فقیر، تلوار،گھوڑا چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں۔‘‘
اس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ اس کی آواز میں بڑا سوز اور درد تھا۔ مگر پورے ڈبے میں کسی نے اس کے گانے کی طرف توجہ نہیں دی شائد سب لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بیٹھے تھے۔ وہ دونوں برابر سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اس کے گانے سے ذرا ڈسٹرب نہیں ہوئے۔وہ خاموش ہو گیا۔ اس کا دل بیٹھ گیا اور کان کھڑے ہو گئے۔
کہیں مڈل ایسٹ اور ویت نام،کہیں روس اور امریکہ اور کہیں سوشلزم پر بحث ہو رہی تھی۔کہیں ہنی مون کا اور کہیں مری کے مناظر کا ذکر ہو رہا تھا۔ اسے ڈائننگ کار کے بیرے پر بڑا ترس آیا اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا اس کا جی چاہا بیرے کو اپنے پاس بٹھا کر ہیر وارث شاہ کے اشعار سنائے۔ اسی وقت مری، سوات اور ہنی مون کے الفاظ کا شور اس قدر پھیل گیا کہ مڈل ایسٹ، ویت نام، روس، امریکہ، سوشلزم اور ڈائننگ کار کے بیرے کی آواز سب کچھ دب کر رہ گیا۔ اس نے اس شور سے بچنے کے لئے کانوں میں گاڑی کے پہیوں کا شور بھر لیا اور ٹیلیفون لائن کے کھمبے گننے لگا۔ ابھی وہ بارھویں کھمبے تک گن سکا تھا کہ دو ایک کھمبوں کا گھپلا ہو گیا۔ نہ جانے یہ تیرھواں کھمبا تھا یا چودھواں۔ وہ اسی الجھن میں تھا کہ دو ایک کھمبے اور گزر گئے۔ اب جو کھمبا سامنے تھا خدا جانے یہ سولھواں تھا یا سترھواں۔ اگر چودھواں دراصل تیرھواں تھا تو یہ پندرھواں یا پھر سولہواں کھمبا ہوگا۔ مگر پندرھواں تو دراصل چودھواں تھا اور چودھواں، چودھواں کہاں تھا وہ تو اصل میں تیرھواں تھا، اس لحاظ سے۔۔؟
’’میری صرف پندرہ چھٹیاں رہ گئی ہیں انجی۔‘‘
تو اس لحاظ سے بیسواں دراصل پندرھواں، نہیں انیسواں ہوا اور سولہواں تو اس نے بالکل غلط گنا تھا۔ وہ اصل میں پندرھواں ہی تھا۔ دراصل کھمبے پندرہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ ہر پندرہ کھمبوں کے بعد پھر پہلا کھمبا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ کل کھمبوں کو گن کر پندرہ پر تقسیم بھی تو کر سکتا ہے۔ اسے یاد آیا،اس نے بچپن میں بہت سی چیزیں گنی تھیں۔ ستاروں کی تعداد تو اب اسے یاد نہیں آ رہی تھی لیکن ایک میل میں شائد سترہ کھمبے تھے۔ اس نے سترہ کھمبوں سے ایک سو پچھتر میلوں کو ضرب دی۔دس میل لمبی اس ضرب میں بہت سی چیزیں شامل ہو گئیں۔
درخت، فصلیں، پیدل جاتے ہوئے دیہاتی آدمی، کھیتوں میں چرتے ہوئے مویشی، بستی کو لوٹتے ہوئے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور ریلوے لائن کے متوازی جاتی ہوئی شاہراہ اعظم کی بسیں، ٹرک، کاریں، بیل گاڑیاں اور شیشم کے درخت،اس حساب سے نہ جانے کتنی بھیڑیں، کتنے ٹرک، کتنے درخت اور کتنے کھمبے حاصل ضرب تھا اور نہ جانے اس حاصل ضرب کو پندرہ میلوں پر تقسیم کرنا تھا یا پندرہ بکریوں پر۔ مگر وہ تو کھمبے گن رہا تھا بارہ کھمبے اس نے ٹھیک طرح سے گن لئے تھے۔ تیرھویں کھمبے کا گھپلا ہو گیا تھا۔ اسے شمار میں نہ آ سکنے والا کھمبا یاد آیا۔ بےچارہ تیرہواں کھمبا۔ بارہ برس پیچھے تو کوڑی کے بھی دن پھر جاتے ہیں۔ لیکن اس بیچارے کھمبے کے دن کبھی نہ پھرے۔اسے پتہ ہی نہ چلا،
وہ پھر گانے لگا ہے۔رت پھری پر دن ہمارے، پھرے نہ، پھرے نہ، پھرے نہ۔
پھر اسے تین اور تیرہ کی کہاوتیں اور طعنے یاد آئے۔
’’تین بلائے تیرہ آئے دے دال میں پانی‘‘
’’نہ تین میں نہ تیرہ میں۔‘‘
’’نو نقد نہ تیرہ ادھار۔‘‘
’’چناب آ گیا انجی!‘‘ اس کے شوہر نے کہا۔ ’’ اور چائے بھی، چکن سلائس اور شامی کباب۔‘‘
’’اونہہ یہ کیسی باس ہے میں نہیں کھاتی۔‘‘
’’بھئی مچھلی کے کباب ہیں آج گوشت کا ناغہ ہے نا۔‘‘
’’بڑی خراب سی بو ہے شائد باسی مچھلی کے ہیں۔‘‘
اس کی ران میں درد ہونے لگا۔ اس کا جی چاہا چیری ہوئی ران سے ساری پٹیاں اتار کر اسے دکھائے اور کہے:
’’طوفان کی وجہ سے مجھے آج کوئی مچھلی نہ ملی اور میں نے اپنی ران چیر کر تمہارے لئے کباب تلے مگر تمہیں بو آتی ہے تم اسے باسی کہتی ہو۔‘‘
مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔
وہ چکن سلائس کھاتی اور چائے پیتی رہی۔ اس کے شوہر نے کہا۔
’’ہاں انجی۔ ستار مجھے بھی بہت پسند ہے۔ میرا ایک دوست خوب بجاتا ہے کبھی سنیں گے۔‘‘
اس نے ریل کار میں بیٹھے بیٹھے ٹیلیفون لائن کے کھمبے اکھاڑے۔ پھر ان کو آگے پیچھے کر کے اس طرح گاڑا کہ ڈھیلے ڈھالے تار تن گئے۔ پھر وہ کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر ستار بجانے لگا۔ ستار بجاتے بجاتے اس کی انگلیاں لہو لہان ہو گئیں۔ گجرات سے جہلم تک ٹیلی فون لائن کے سارے تار سرخ ہو گئے۔ مگر اسے کسی نے داد نہیں دی۔ جہلم ریلوے اسٹیشن پر ریل کار رکی تو اس کا شوہر کسی کام سے نیچے اتر گیا۔ اس کا جی چاہا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسری طرف اتر جائے اور اسے واپس لے جا کر وہ سارے تار دکھائے جو سرخ ہو گئے تھے۔ پھر وہ دونوں ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بکھرے ہوئے وارث شاہ کے مصرعے چنیں اور گنتی میں نہ آ سکنے والے تنہا اداس اور ویران کھمبے سے جا کر لپٹ جائیں اور اتنا روئیں کہ اس کھمبے کے چاروں طرف اور کچھ نہیں تو گھاس ہی اگنے لگے۔ پھر اس نے چاہا کہ وہ کوئی تڑپا دینے اور دل جلا دینے والا مکالمہ بولے جیسے فلموں کے ولن بولتے ہیں مگر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ وہ بے چینی سے برابر اس دروازے کی طرف دیکھے جا رہی تھی جس سے اس کا شوہر پلیٹ فارم پر اترا تھا۔ تب اسے یاد آیا کہ وہ اس لڑکی کو بالکل نہیں جانتا۔
اس کا شوہر آیا تو وہ الجھ پڑی۔ ’’اتنی دیر لگا دی آپ نے؟‘‘
’’اوہ انجی۔۔ تم تو بچوں کی طرح پریشان ہو جاتی ہو؟‘‘
شام گہری ہو گئی تھی۔
وہ کھڑکی کے شیشے میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے پس منظر میں ٹنڈ منڈ درخت، اداس کھمبے اور خشک پہاڑیاں تھیں۔ اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا اور جس قدر اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا کھڑکی کے شیشے میں اس کی تصویر اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ مگر وہ اندھیرے سے سہمی جا رہی تھی جیسے اس کے آس پاس انسان نہیں بدصورت چڑیلیں شور مچا رہی ہوں۔ وقت ایک سیاہ عفریت کی طرح اس کے چہرے کے پس منظر میں ساتھ ساتھ بھاگا جا رہا تھا۔ وہ خود بھی خوف زدہ سا ہو گیا۔وہ کھڑکی کے شیشے میں یہ تصویر دیکھنا نہیں چاہتا تھا، وہ یہ تصویر دیکھنے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اس نے سیٹ چھوڑ دی اور دروازے میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس طرف دونوں کی پیٹھ تھی۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر اسے یقین تھا کہ سامنے کی سیٹ خالی ہوتے ہی اس نے اپنے مہندی سے رچے ہوئے پاؤں اس سیٹ پر رکھ لئے ہونگے اور اطمینان کا گہرا سانس لے کر باتوں میں لگ گئی ہوگی۔ اپنے وجود کی بے معنویت پر وہ کڑھنے لگا۔۔۔ اس کا جی چاہنے لگا کہ ریل کار سے کود کر سب لوگوں کو چونکا دے۔ مگر اسی لمحے ہوا کا ایک سرد جھونکا ادھ کھلے پٹ سے سسکتا ہوا اندر آیا اور اس سے لپٹ کر بولا۔
’’باہر بڑا اندھیرا ہے۔‘‘
اس نے دروازہ بند کرنا چاہا تو سرد ہوا کے کتنے ہی جھونکے دروازے پر دستکیں دینے لگے۔ اس نے دروازہ پھر کھول دیا۔ ہوا کے جھونکے سسکتے ہوئے آتے اور اس سے لپٹ لپٹ جاتے۔ تاریکی سے خوفزدہ ہو کر آنے والے ان جھونکوں کو اپنے جلتے ہوئے روشن بدن میں پناہ دے کر اسے بڑی راحت مل رہی تھی۔ اس نے اپنے بدن سے سگریٹ سلگایا۔ چنگاریاں اڑیں اور اپنے ہی سگریٹ کا دھواں اس کی آنکھوں میں گھس گیا۔ سرد ہوا کے جھونکوں کا سوت اس کے جسم سے لپٹتا جا رہا تھا اور ریل کار بے آب و گیاہ پہاڑیوں میں بھاگتی جا رہی تھی۔ ہر طرف تاریکی پھیل چکی تھی۔ کبھی کبھار کسی پہاڑی گاؤں میں کوئی دیا ٹمٹماتا نظر آ جاتا تھا۔ ریل کار پوری تیزی سے اندھیرے کے عفریت کو کچلتی اور سیٹیاں بجاتی بڑھتی جا رہی تھی۔ ڈبے میں شور اب بہت کم تھا۔ ہر شخص ہر بات سے اکتا کر اونگھ رہا تھا یا پھر تھکے تھکے لہجے میں ہمراہیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ اچانک ریل کار ایک دھچکے کے ساتھ رک گئی لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’سگنل نہیں ملا ہو گا؟‘‘
’’کوئی نیچے تو نہیں آ گیا؟؟؟‘‘
کسی کے نیچے آنے کی بات سن کر وہ لرز گئی۔اس کا رنگ فق ہو گیا اور منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
’’ہائے میں مر گئی۔۔ اس نے خودکشی کر لی۔‘‘
’’کس نے خودکشی کر لی اور تمہیں کیا ہوا ہے انجی۔‘‘
وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ دروازے کی طرف اشارہ کر کے اور سسک کر رہ گئی۔ اس کے شوہر نے پلٹ کر دیکھا وہ دروازے میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا اور ہوا کے جھونکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.