(۱)
اس ٹرمینس لین میں ہم آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ خوش آمدید! اب آپ آخری سانس تک ہمارے مہمان ہوں گے۔ ایک خاص مہمان جسے ہم دھیرے دھیرے اس کے آخری لمحے کے لئے تیار کریں گے۔ اگر آپ واپس جانا چاہیں تو اس کی آپ کو اجازت ہے۔ صرف میں اتنا بتا دوں زندگی کے اس آخری نہج سے آج تک کسی نے واپس جانے کے بارے میں نہیں سوچا، یا شاید اس سے پہلے ہی اس کا آخری لمحہ آن پہنچا۔ اکثر اس کوچے میں آنے کے بعد لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے کیونکہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں جو اسے کسی دوسرے کوچے یا پڑاؤ سے الگ کر سکے۔ یہاں کے گھروں کے دروازے اور دریچے آپ کے جانے پہچانے ہیں جنہیں آپ روز دیکھتے آئے تھے۔ یہاں درختوں کے نیچے بچے گیند یا کرکٹ کھیلتے یا کہیں کہیں کسی لان میں ٹریمپولن پر اچھلتے بھی نظر آئیں گے۔ مگر آپ ان کی آنکھوں میں نہ جھانکیں۔ ان میں آپ کو خود اپنی آنکھیں جھانکتی نظر آئیں گی۔ اگر ایک آدھ لڑکے لڑکیاں کسی پبلک پارک کے محفوظ گوشے میں کہیں رومانس کرتے نظر آئیں تو اس سے فریب کھانے کی ضرورت نہیں۔ اس ٹرمینس لین میں اس کی اجازت ہے۔ آپ جب یہاں آتے ہیں تو سماج اور حکومت کی ان تمام زنجیروں کو توڑ کر آتے ہیں جنھوں نے آپ کو زندگی بھر قید رکھا تھا۔ ایک آزاد انسان کی طرح جسے کہیں پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ یہاں کسی پولس یا ٹیکس کنسالٹنٹ یا اسٹیٹ ایجنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کے پاس مڑکر تاکنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سامنے جہاں تک آپ دیکھتے ہیں آپ سب کچھ اپنے مطابق پاتے ہیں۔ صرف آپ سے اتنی امید رکھی جاتی ہے کہ وقت کو گھوڑے کے نعل کی طرح اپنی طرف موڑنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ دیکھں گے وقت آپ کا بہترین ساتھی ہے۔ وہ تو آپ کے مزاج کا خاص خیال بھی رکھتا ہے، وقت جس کے لئے آپ کے پاس کبھی وقت نہ تھا، اس وقت کو آپ خود پر مہربان پائیں گے۔ یہاں سورج کے طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے تک اور پھر دوبارا طلوع ہونے تک جو کچھ ہوتا ہے کسی طئے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوتا۔ یہاں لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ نئی چیزیں ایجاد کریں، ان دنوں کو پھر سے جینے کی کوشش کریں جو ان کی انگلیوں سے ریت کی طرح نکل گئے۔ انھیں اس کی کھلی اجازت ہے کہ اپنی غلطیوں کو شعوری طور پر دہرائیں، وہ چاہیں تو رو سکتے ہیں۔ مگر اس ٹرمینس لین میں رونے کی آواز خود رونے والے کو سنائی نہیں دیتی اور اکثر لوگ اس بیکار کے عمل سے اکتا کر اپنی ٹھوری اپنے ہاتوں کے دو پایے پر رکھ کر دریچے سے گذرتے لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے پاس چھتریاں ہوتی ہیں، کچھ بچے ہیں جو سائکلوں پر ہوتے ہیں، کچھ بوڑھے ہیں جنہوں نے کتابیں کھول رکھی ہیں۔ یہاں ایک چینی جوڑا نظر آئےگا جو بانس پر ککرمتے اگانے کے آسان طریقے آزما رہا ہے۔ ایک اداکار، وہ بتائے گا کہ ایک ہی مکالمے کو مختلف موڈ میں کس طر ح ادا کیا جائے، یہاں تک کہ لفظوں کے بغیر بھی انھیں ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ایک خاکروب جس نے اس کوچے کو آئینے کی طرح صاف رکھا ہوا ہے۔ ایک نٹ، ایک فوجی کرنل، جس کا دماغ تھوڑا سا سنک گیا ہے، جو موسم کوئی بھی ہو ہمیشہ ایک بھاری بھرکم وردی کے ساتھ اپنی چھڑی ٹیکتا ہوا آ دھمکتا ہے جیسے وہ اب بھی شیاچن کی برفیلی وادیوں میں ہو۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، یہاں پر ہر کسی کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ ہے۔ اس ٹرمینس لین میں صرف ایک چیز کی اجازت نہیں۔ یہاں کسی ڈاکٹر کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ یہاں معالج اور مریض کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ نہیں، وہ آ سکتا ہے، بشرطیکہ کہ وہ اس ٹرمینس لین میں صحیح طور پر آیا ہوا ہو، پھر ہم اسے بھی خوش آمدید کہتے ہیں، عالی جناب سابق ڈاکٹر، اس ٹرمینس لین میں خوش آمدید، اب آپ آخری سانس تک ہمارے مہمان ہوں گے، ایک خاص مہمان، جسے دھیرے دھیرے ہم اس کے آخری لمحے کے لئے تیار کریں گے۔
(۲)
’’میگھ مالا۔۔۔ہمیں وقت کا احترام کرنا چاہئے۔‘‘ میگھ مالا اس لڑکی کا نام ہے جس نے ایک خوبصورت ساڑی پہن رکھی ہے۔ یہ ساڑی میگھ مالا کی پسندیدہ ساڑی ہے۔ اس میں منطقہ حارہ میں کھلنے والے بڑے بڑے بھڑکیلے رنگ کے پھول بنے ہیں۔ اس سے وہ لڑکا مخاطب ہے جس نے ایک خاکی جینزپر لہردار لکیروں والا چرمی جیکٹ چڑھا رکھا ہے اور اس کے لئے ایک پیلا گلا ب لایا ہے۔ ’’ہمارے محلے میں ایک جگادری کتا گھوما کرتا تھا جس سے ہم بچے بہت خائف رہتے۔ پھر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسے سبق سکھانے کی ٹھانی۔ مگر ہم صرف سوچتے رہے سوچتے رہے ۔ ہم نے وقت کا احترام نہ کیا اور وہ کتا اور بھی بھیانک ہوتا گیا اور بڑا ہوتا گیا اور بڑا ہوتے ہوتے وہ آسمان تک پہنچ گیا اور ہم اس کے پنجوں کے درمیان للی پٹ کے بونوں کی طرح کھڑے رہ گئے۔‘‘
میگھ مالا نے اپنے پیر کی انگلیوں پر کھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔
’’ہر بار تم ایک ہی کہانی دہراتے ہو۔‘‘ وہ بولی۔ ’’جو مجھے اچھا لگتا ہے۔ مگر اس ٹرمینس لین کا پتہ تمہیں کس نے دیا؟‘‘
’’میں۔۔۔میں بس نکل آیا۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’کیا اسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ کوچہ خود ہمیں نہیں ڈھونڈ نکالتا؟‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن میں تمہیں بتاؤں۔‘‘ اور اس نے آواز بالکل دھیمی کر لی جیسے اسے کسی سازش میں شریک کر رہی ہو۔ ’’کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہ ٹرمینس لین خود میری ایجاد ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ یہ ہر اس آدمی کی ایجاد ہے جو اسے ایجاد کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ اسے ایجاد نہیں کر سکتا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ ٹرمینس لین خود اسے ایجادکر لےگی۔‘‘
پھر لڑکے نے اس کی کمر کے گرد اپنی باہیں حمائل کر دیں۔ ’’لیکن میں تمہیں بتا رہا تھا کہ ہمیں وقت کا احترام کر نا چاہئے۔ یو ں بھی تمہارے کولھے بہت خوبصورت ہیں۔‘‘
(۳)
بوڑھا چینی جے ہونگ، اس نے اپنے ککرمتے سے سر اٹھاکر نکڑ سے تھوڑا اندر سڑک کے عین بیچوں بیچ نصب اس بھاری بھرکم چوبی تھم کی طرف دیکھا ہے جسے ایک دوسرا چینی چوب تراش جس کا نام تکاماسا ہے روز بروز تھوڑا تھوڑا تراش رہا ہے، منقش کر رہا ہے، اسے ایک ڈراگن کی شکل دے رہا ہے جو اپنے جبڑوں سے کسی بھی وقت آگ اگل سکتا ہے۔ تکاماسا کو یقین ہے چاند کے تہوار تک پہنچتے پہنچتے وہ اسے مکمل کر لےگا۔ تکاماسا کنٹونی ہے جو کربلا روڈ پر ایک فرنیچر کی دکان میں صندل کی الماریوں پر چینی پیکرات منقش کیا کرتا تھا۔ مگر پھر ان قیمتی الماریوں کا دور ختم ہو گیا اور کربلا روڈ کی تمام الماریاں پارک اسٹریٹ کے نیلام گھروں میں رکھ کر بھلا دی گئیں، مکڑیوں نے ان پر جالے بن دئے، کربلا روڈ کا نام بدل دیا گیا، کچھ سالوں تک تکاماسا ٹینگرا کی مہکتی گلیوں میں سگریٹ پھونکتے ہوئے بیکار گھومتا رہا۔ پھر ایک دن اسے لگا اس کا سربہت بڑا ہو گیا ہے۔ وہ کئی ہفتوں تک اپنے بڑے سے سر کو دونوں ہاتوں سے تھامے ایک بدبو دار نالے کے کنارے بیٹھا رہا۔ اس کے لوگوں نے سوچا تکاماسا پاگل ہو گیا ہے۔ وہ اسے ایک دماغی امراض کے ماہر کے پاس لے گئے جس نے اسے ایک نیورو سرجن کے پاس بھیجا۔ تکاماسا کے بڑے سے سر کو اس سے بھی بڑی ایک مشین کے نیچے رکھ کر دیکھا گیا اور لوگوں کو اس کے مغز کے اندر ایک بڑی رسولی کے بارے میں پتہ چلا جو نا قابلِ علاج ہو چکی تھی۔ اس ٹرمینس لین میں تکاماسا کا نام کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ اسے پاگل سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اب کسی سے کوئی بات نہیں کرتا، صرف اپنے سر کو دونوں ہاتوں سے تھامے بیٹھا رہتا ہے یا اپنے کام میں مصروف رہتا ہے، ایک ایسا کام جس کے لئے کسی نے اسے نہیں کہا ہے۔
’’یہ ککرمتا زہریلا ہے جسے کھا کر تم بیمار پڑ سکتی ہو۔‘‘ جے ہونگ نے اپنی بیوی سے کہا جو چھہارے کی طرح سوکھ گئی ہے۔ اس نے لانبا اسکرٹ اور بغیر بٹنوں والی پوری آستین کی قمیص پہن رکھی ہے۔ اس کی قلیل آنکھوں پر ہاتھی دانت کے فریم والی ایک عینک رکھی ہے۔
’’کیا ہم بیمار نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’اس ٹرمینس لین میں کسی قسم کی بیماری کے لئے جگہ نہیں ہے۔ یہاں آنے سے قبل ہم لوگ اپنی تمام بیماریاں پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔ تم نہیں دیکھتی یہاں ڈاکٹر وں کی اجازت نہیں ہے۔ ہم اس قید سے آزاد ہو چکے ہیں۔‘‘
’’اور یہ پابندیاں ہم پر کوئی عائد نہیں کرتا۔’’ بوڑھی عورت ملوث ڈھنگ سے مسکراتی ہے۔ دونوں چینی میں باتیں کر رہے ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے۔ ’’گرچہ اس کے باوجود اگر ہم ان پابندیوں کو نہ قبول کریں تو خود اپنے سمجھوتے کے تحت خود کو اس کوچے سے باہر پائیں گے، تم یہی کہوگے نا؟‘‘
’’میں کچھ بھی نہیں کہتا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لڑکی نہ صرف معصوم ہے بلکہ اس کے لئے بالکل انجانی ہے اور اس لڑکے کو کیپ کا استعمال کرنا چاہئے۔‘‘
’’تو اپنے ککرمتے کو زہریلا کہنے سے تمہارا مطلب یہ ہے۔ کیا اس ٹرمینس لین میں اس طرح کی حفاظتوں کی ضرورت ہے؟‘‘ بوڑھی عورت نے بانس سے کچھ ککرمتے ان کے تنوں سمیت اکھاڑ کر انھیں زمین پر پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’کیا یہ تمام زہریلے ہو چکے ہیں؟‘‘
’’باقی کے بارے میں مجھے تھوڑا سا انتظار کرنا ہوگا۔ ککرمتے پہلے اپنی پوری شکل میں تو آ جائیں۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، اگر پوری زمین ہی زہریلی ہو چکی ہو تو۔۔۔‘‘
پھر۔۔۔
(۴)
آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس ٹرمینس لین میں کہانیاں اپنے ڈھنگ سے بنتی ہیں۔ بالکل دھیرے دھیرے، جیسے زندگی واپس پرانے دنوں کو دہرا رہی ہو۔ کتنا کچھ ہوتا ہے پانے کے لئے جنہیں ہم اس وقت کوئی وقعت نہیں دیتے اور وہ ہماری لا علمی میں گذر جاتے ہیں۔ پھر ہم مڑ کر دیکھتے ہیں اور ہمیں صرف ریت پر ان کے گذرجانے کا نشان دکھائی دیتا ہے جو زیادہ دنوں تک قائم بھی نہیں رہتا۔ پھر اچانک ہم دیکھتے ہیں ہم نے جیسے تیسے ایک صحرا کو پار کر لیا ہے اور اب ہمارے سامنے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ مگر اس سمندر سے گزرنے کے لئے ہمارے پاس کیا ہوتا ہے، صرف گذرے ہوئے لمحوں کے فرعون جو ہمارا پیچھا کرتے ہیں اور ہمیں زیر کر لیتے ہیں اور واپس اس صحرا میں لے آتے ہیں جس سے ہم جیسے تیسے نکل بھاگے تھا اور ایک دن ہمیں پتہ چلتا ہے یہ ٹرمینس لین اس صحرا میں ایک ٹھنڈے پانی کے چشمے اور خمیدہ پیڑوں والے نخلستان کی طرح اگ آیا ہے۔ آپ مسکرارہے ہیں۔ شاید میں نے آپ کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیا ہے۔ آہ، جب شروعات ہو ہی گئی ہے تو آئیے ہم آپ کو اس ٹرمینس لین کی سیر کروائیں۔ اس کی حدود اربعہ کو آپ ذہن نشیں کر لیں، گرچہ یہ حد بندیاں اتنی سختی سے قائم رہنے والی چیزیں بھی نہیں، کیونکہ ان پر کسی بین لاقوامی سمجھوتے کے تحت ریزر کے تار نہیں کھینچے گئے ہیں۔ دراصل یہاں سب کچھ آپ پر منحصر کرتا ہے۔ تو آپ کا پہلا قدم اس ٹرمینس لین کے اندر بھی ہے اور باہر بھی اور آپ جس تیزی سے چلتے ہیں اتنی ہی تیزی سے قدم واپس بھی لیتے رہتے ہیں۔ یہ سفر اور قیام کا ایک انوکھا تجربہ ہے جو صرف اس جگہ اس ٹرمینس لین میں ممکن ہے اور یہ گھر ان کے دریچے، یہ خوشنما ٹائل کے چھپر، یہ کھمبے یہ پیڑ، یہ چینی، یہ سائکل دوڑاتے ہوئے بچے، آپ ان کے توسط سے خود تک پہنچتے ہیں۔ صرف آپ کو چندا صولوں کا خیال رکھنا پڑتاہے اور یہ سارے اصول و ظوابط آپ کے بنائے ہوتے ہیں۔ مگر میں آپ کو بتادوں، آپ ان اصولوں سے تجاوز کرنا چاہیں تو اس کی بھی آپ کو اجازت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں، یہ ٹرمینس لین آپ کو صحیح آزادی دیتی ہے۔ آپ کو اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اس ٹرمینس لین کی ایک لمبی کہانی ہے۔ ایک بہت ہی انوکھی کہانی جو ہمیں پریوں کے دیس میں لے جاتی ہے۔ کیا آپ اس کے لئے پیٹرپین کی طرح اڑنے کے لئے تیار ہیں؟ مگر ٹھہریے، میں نے آج تک یہ کہانی خود سے بھی بچا کر رکھی ہے۔ مجھ سے کہا گیا ہے یہ کہانی صرف ایک بار سنائی جا سکتی ہے جس کے بعد یہ حقیقت میں بدل جاتی ہے، حقیقت جو انسان کے کسی کام کی نہیں آتی، صرف سر درد پیدا کرتی ہے۔ اسی لئے میں اپنے مہمانوں سے استدعا کرتا ہوں، خوشامد کرتا ہوں کہ وہ اس کہانی کے لئے ضد نہ کریں۔ شاید اس کے بعد یہ ٹرمینس لین نہ رہے اور یہ زمین، خدا کی بنائی ہوئی یہ زمین آہوں اور فریادوں سے ڈھک جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میرے مسئلے کو سمجھا ہے۔ اس کے عوض میں آپ کو اس ٹرمینس لین میں ایک خاص دن ودیعت کرتا ہوں جس کی صرف مجھے اجازت ہے اور اس خاص دن کا انتخاب آپ کریں گے۔ تو ہم نے ٹرمینس لین کا یہ پہلا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ کہانی نہ سننے کا اور اس ٹرمینس لین میں دوسرا قدم؟ آہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے، جب ساری کنجیاں آپ کے قدموں پر ڈھیر کر دی جاتی ہیں اور یہ وہ کنجیاں ہیں جن سے ہر وہ دروازہ آپ کھول سکتے ہیں جن سے ساری عمر آپ گذرنے کے لئے ترستے رہے، ہر وہ قفل کھول سکتے ہیں جنھوں نے آپ کو پنجڑا در پنجڑا قید رکھا۔ ان ساری کنجیوں کو سینے سے لگا کر آپ کس قدر خوش ہیں! آپ کا کمزور سینہ کانپ رہا ہے۔ آپ اس لوہے کے بینچ پر بیٹھ جائیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کبھی آپ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں تھے اور آج کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی آپ کی آنکھوں میں خوشیوں کے موتی لرز رہے ہیں۔
(۵)
خاکروب ابھی ابھی اپنے گھر سے باہر آیا ہے۔ وہ زہریلے ککرمتے اس کے دماغ کو چبھ رہے ہیں۔ خاکروب نے ایک مانگی ہوئی پتلون اور کرتا پہن رکھا ہے۔ اس کے ہات میں ایک بانس کے تنکوں کا جھاڑو ہے جو ایک ڈنڈے سے بندھا ہے۔ وہ ککرمتوں کو جھاڑو لگاتا ہوا کوڑا دان تک لے جاتا ہے جسے اس نے اپنے ساتھ اس ٹرمینس لین میں لایا ہو ا ہے۔ مگر آخر میں اسے پتہ چلتا ہے کہ ککرمتے تو چور چور ہو کر زمین سے کب کے مل چکے ہیں۔ خاکروب کے حلق میں سوراخ ہے۔ وہ اپنی آواز کھو چکا ہے اور اب صرف اپنے دونوں کان اور جسمانی رد عمل کے ذریعے اس دنیا سے وابستہ ہے۔ وہ کوڑا دان کی دیوار سے پیٹھ لگا ئے سرخ آسمان کی طرف تاکتا رہتا ہے جس سے ایک جیٹ پلین اپنا دو دھاری دھواں چھوڑتا ہوا گذر رہا ہے جو دھیرے دھیرے زائل ہوتا جا رہا ہے۔ اسے اس پر حیرت ہوتی ہے کہ آسمان ہر بار کس تیزی سے اپنی گندگی خود بخود صاف کر لیتا ہے جب کہ اسے انسانوں کو زمین پر اتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اسے ریٹائرڈ کرنل کی وردی نظر آتی ہے جس کے بٹن پیتل کے ہیں۔ کرنل کی موچھوں کا ہر بال باغیانہ لہجے میں ہر سمت نکلا ہوا ہے۔ اس کی صفا چٹ داڑھی کو دیکھ کر خاکروب مسکراتا ہے۔ بیچارا کرنل خود اپنا خاکروب ہے۔
’’برفباری کے موسم میں ایک بار ایسا ہوا کہ دشمنوں کا دور دور تک پتہ نہ تھا اور ہمارے صرف تین خیمے رہ گئے۔ مگر ہمیں پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں تھا۔ شاید ہماری علامتی موجودگی وہاں ضروری سمجھی گئی تھی۔‘‘ ہر بار کی طرح کرنل نے اسے بتانا شروع کیا اس سے لا پرواہ کہ خاکروب کو اس سے دلچسپی ہے کہ نہیں۔ ’’مہینہ میں دوبار ہیلی کوپٹر رسد کا سامان، خوردنی اشیاء ، مشروبات، بیٹری اور گیس سلنڈر دے جایا کرتا۔ ایک بار ٹھنڈ سے ہمارا ایک ساتھی مر گیا۔ مگر اس بار برف کا طوفان اتنا شدید رہا کہ ایک ماہ تک کوئی ہیلی کوپٹر آ نہ پایا۔ ہم اس کی لاش کو اس کے کیمپ کی چارپائی پر رکھے اس کا انتظار کرتے رہے۔ اس کا چہرا کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہر تیسرے دن اس کا شیو بڑھ جاتا اور ہمیں گرم پانی سے اس کی شیونگ کرنی پڑتی۔ ہم کھانا کھاتے، شیو بناتے، ریڈیو پر گیت سنتے اور اپنی تنہائی کو آسان بنانے کے لئے ایک دوسرے کو لطیفے سناتے رہتے اس شرط کے ساتھ کہ کسی نے ہنسنے میں کنجوسی کی تو اگلے دن سنانے والے کے حصے کا پورا کام اسے کرنا پڑےگا اور اس پورے عرصے میں وہ مرا ہوا ساتھی ہمارے درمیان آنکھیں کھولے پڑا تھا۔ کبھی کبھی تو ہمیں اس پر حیرت ہوتی کہ وہ اٹھ کر بیٹھ کیوں نہیں جاتا؟ مگر ہم نے پورا خیال رکھا تھا کہ تابوت میں اس کی لاش ڈالنے سے قبل اس کے بال اور اس کے ہاتھ اور پیر کے ناخنوں کو جو اس پورے عرصے میں کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ چکے تھے،ٹھیک سے تراش دیں۔‘‘
’’وہ سڑ گیا ہوگا۔‘‘ خاکروب کی آواز سنے بغیر بھی کرنل کو اس کے ردعمل کا پتہ تھا۔
’’کیا پاگلوں جیسی باتیں کر رہا ہے خاکروب۔‘‘ کرنل بھڑک اٹھا۔ ’’اتنی ٹھنڈ اور برف باری میں؟ ارے تمہارا تو پیشاب تک فتق کے اندر برف بن جاتا۔‘‘
’’آہ، مجھے کیا پتہ۔‘‘ خاکروب نے نہ سنائی دینے والی آواز میں کہا۔ ’’میں تو ساری زندگی اس شہر میں اور اب اس گلی میں جھاڑو لگاتا رہا ہوں جہاں جاڑے میں بھی دھوپ کبھی کبھی اتنی گرم ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے پسینہ آ جاتا ہے۔ میں برف کے بارے میں کیا جانوں۔‘‘
(۶)
ٹرمینس لین میں کبھی کبھی دن کافی روشن اترتا ہے جب ایک شخص کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کی جاتی ہیں اور اس کے دونوں ہات سینے پر رکھ دئے جاتے ہیں اور یہ تو ایک بہت ہی خاص دن ہے۔ میگھ مالا کی بند مٹھی ایک پیلا گلا ب تھامے ہوئے ہے اور اس کی بند آنکھوں میں ایک دائمی مسکراہٹ کا گلاب ہے۔ اس کا عاشق وہاں نہیں ہے۔ کسی نے اس کے لئے نہیں سوچا ہے۔ ٹرمینس لین کے لئے یہ ایک خاص دن ہے۔ بوڑھی چینی عورت جھک کر اپنا ٹھنڈا ہات میگھ مالا کے سر پر رکھتی ہے۔ بوڑھا ایک ککرمتا جو کافی بڑی جسامت کا ہے اور ارغوانی رنگ لئے ہوئے ہے، اس کے پائتانے رکھ دیتاہے۔
’’قسمت ہر انسان کو ایک ہی سمت لے جاتی ہے۔‘‘ وہ چینی میں کہتا ہے۔ ’’ہمیں اس سے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
جے ہونگ اور اس کی بیوی سویانگ کی کہانی بہت اہم ہے۔ کلکتہ کے چائنا ٹاؤن میں ایک تنگ سڑک پر جہاں سے ہر دس منٹ پر ایک بوسیدہ ٹرام گذرتی ہے ان کے جوتے کی ایک بڑی دکان اور ور ک شاپ ہے۔ سات برس قبل جب جے ہونگ پر دل کا دورا پڑا ڈکٹروں نے انجیوپلاسٹی کے لئے کہا۔ بیلون کے ذریعے اس کے دل کی گرہیں کھول دی گئیں۔ پھر اس کے چھہ ماہ کے اندر اندر اس کی بیوی پر دل کا حملہ ہوا۔ پہلے ڈاکٹروں نے اوپن ہاٹ سرجری کے لئے کہا۔ پھر انھوں نے اسے غیر محفوظ پا کر کلوز ہاٹ سرجری کے بارے میں سوچا، پھر انھوں نے یہ ارادہ بھی ترک کر دیا۔ جے ہونگ نے اپنے کمزور دل کے ساتھ اپنے آباد و اجداد کی روحوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر لوبان جلائے، اگربتی روشن کی، اپنی بیوی کی زندگی کے لئے دعائیں مانگیں۔ دو سال تک دونوں ایک دوسرے کی محبت کے سہارے جیتے رہے۔ پھر وہ ڈاکٹر کے پاس چک اپ کے لئے گئے تو ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلایا، انھوں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں سات سمندر پار کے کچھ ٹرنک کال بھی شامل تھے اور آخر کار اعلان کیا، چلتے رہو، اب یہی علاج رہ گیا ہے۔ جے ہونگ جوڑا بے اولاد ہے۔ ان کی دکان اور ورک شاپ اب اس کے آبا و اجداد کی روحیں چلاتی ہیں جنھوں نے ایک چڑ چڑے بنگالی منیجر کی شکل دھار رکھی ہے جس کی عینک کے شیشے دھندلے پڑ گئے ہیں اور جو گاہکوں کو دیکھتے ہی اپنی تیوری چڑھا لیتا ہے اور اس دکان اور ورک شاپ کو دھیرے دھیرے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ٹرمینس لین میں اس طرح کی کہانیاں عام ہیں۔ مگر عالی جناب کیا اس سے کچھ فرق پڑتا ہے ان کو جو اس کوچے میں آتے ہیں یا ان کو جنھیں وہ پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔ شاید یہی چیزیں ہیں جوجے ہونگ جیسے لوگوں کی کہانی کو اہم بناتی ہیں۔
جے ہونگ کہاں رہتے ہیں؟ آپ یہی جاننا چاہتے ہیں نا؟ چینی اپنے مکانوں کو بہت ہی بھڑکیلے رنگوں سے رنگتے ہیں، آپ سوچ رہے ہوں گے۔ شاید آپ کو یہ بھی تجسس ستا رہا ہو کہ اس ٹرمینس لین میں آپ کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ یا خود میں کدھر سے نمودار ہوتا ہوں؟ آہ، میں یہ تو بتانا بھول گیا کہ ٹرمینس لین کا چہراہر روز بلکہ ہر پل بدلتا رہتا ہے۔ اس میں نئے نئے دریچے کھلتے ہیں، دروازے نمودار ہوتے ہیں، روشن دان جاگتے ہیں، معدوم ہوتے رہتے ہیں، غائب ہوتے جاتے ہیں، پھر سے نظر آنے لگتے ہیں۔ ان گھروں کے اوپر کا آسمان بھی بدلتا رہتا ہے۔ چاند اور تارے، صرف وہ نہیں بدلتے۔ شاید اس لئے کہ ہم ان کے ٹایم اس کیل پرٹھیک نہیں بیٹھتے یا شاید و ہ آخری جگہ ہے جہاں ہر شئے کو ہر انسان کو اپنی آخری شکل میں لوٹنا پڑتا ہے، اس لئے ان کا دائمی طور پر بنے رہنا لازمی ہے۔ آپ ایک آرام کرسی کو دریچے کے سامنے کھینچ کر گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ مگر ان کا سفر اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ آپ کے کمرے کی دیواروں پر سائے رینگتے ہیں، ہوا ایک آدھ پتے اڑا کر دریچے کے مستطیل خلاء سے گذر جاتی ہے۔ ایک دو قدموں کی چاپ، ایک آدھ پرندے کی پکار، کسی سائکل کی ٹنٹناہٹ، کتنا کچھ ہے آپ کے پاس اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ گھونسلا خود آپ کا بنایا ہوا ہے۔ تنکا تنکا اور آپ اپنی دسوں انگلیوں کو آپس میں باندھ کر انھیں سر کی پشت پر لے جاتے ہیں اور ایک لذیذ ٹھنڈی سانس بھر کر سوچتے ہیں، ٹرمینس لین، آہ، ساری عمر میں تو اسی کا خواب دیکھتا رہا۔
(۷)
ٹرمینس لین کی ہزاروں کہانیوں میں ایک کہانی میری بھی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آواز کی شکل میں میں اس کوچے میں اس سے پہلے سے موجود ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس ٹرمینس لین کے بغیر ہمارا وجود ممکن ہے؟ یہ تو اگر آپ آسمانی صحیفوں میں یقین رکھتے ہیں توآدم کو زمین پر اتارے جانے سے قبل موجود تھی اور اس کا انتظار کر رہی تھی بلکہ میرا خیال ہے آدم و حوا کی تخلیق بھی اسی کے سبب ہوئی تھی۔ کیا حوا صرف جنت کے لئے بنائی گئی تھی؟ پھر اسے رحمِ مادر سے کیوں نوازا گیا؟ تو آپ دیکھ رہے ہیں اس ٹرمینس لین کے وجود و عدم کا سوال ہی غلط ہے۔ ہمیں ان افواہوں پر دھیان نہیں دینی چاہئے۔ صرف کچھ لوگ ادھر سے گذرے اور انھوں نے اسے نظر انداز کر دیا اور کچھ لوگوں نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور دروازے دریچے، آسمان، پیڑ، پرندے، پہئے سب اپنی جگہ نظر آنے لگے۔ آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں جو کچھ بھی ہے وہ ہماری ذات کے بغیر ممکن نہیں بلکہ شاید خود اس کی اضافی شکلیں ہیں، آپ اپنی شخصیت کو واپس سمیٹ لیں ٹرمینس لین کہیں دکھائی نہ دےگی۔ تو، آئیے ، ہم ہات پر ہات ڈال کر ایک لمحہ کے لئے سوچیں، کیا یہ ممکن ہے، اس ٹرمینس لین کے دن رات ہماری زندگی سے الگ کر دئے جائیں؟ کیا یہ ایک انتہائی احمقانہ تصور نہیں ہے؟ کیا اس کے بعد بھی کسی قسم کے سوالات کے لئے کسی طرح کی گنجائش رہ جاتی ہے؟
مگر اس ٹرمینس لین کو آپ ہمیشہ محفوظ نہ سمجھیں۔ ایک ایسا بھی وقت آیا تھا جب نقاب پوش ڈاکٹر لیتھل انجکشن اٹھائے یا خدائی فوجدار جو انسانی اذیت کو جنت جانے کا واحد وسیلہ قرار دیتے ہیں، یا کم ظرف سیاست دان اور بے حس سرکاری عملے جو آپ کے زیر جاموں تک کے لئے قوانین بنانے سے نہیں جھجکتے، انھوں نے اس ٹرمینس لین کے خلاف ایک سازش، ایک جہاد، ایک دھرم یدھ کا اعلان کر دیا تھا، بلکہ وہ آج بھی اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان دنوں ہم لوگ اس کوچے میں کتنے اکیلے تھے۔ ڈرے سہمے، اپنے سائے سے ہراساں اور یہ وہ وقت تھا جب ہمیں اپنے چاروں طرف موت اور زندگی کے فرشتے متصادم نظر آتے۔ بچوں نے سائکل چلانا چھوڑ دیا تھا اور چینی جوتا ساز کے ککرمتے اگنا بند ہو گئے تھے یا ایک خاص دن تک سارے کے سارے زہریلے ہو جاتے۔ کئی دریچے تو خود بخود مندمل ہو گئے اور کئی دروازوں کے قبضے پگھل کر دائمی طور پر منجمد ہو گئے۔ ان دنوں سورج کتنے کم وقت کے لئے نکلتا، یا کتنے زیادہ وقت کے لئے، کتنے عجیب سے پرندے تھے جو ٹہنیوں پر نظر آتے اور بےجان ہو کر ٹپکتے رہتے اور بیچارا خاکروب ٹرمینس لین کو ان منحنی جسموں سے صاف کر تے کرتے تھک جاتا۔ مجھے یاد ہے میگھ مالا کا عاشق پیلے گلاب کے لئے مارا مارا پھرتا، مگر پھولوں میں اب وہ رنگ کہاں تھے۔ لیکن ایک دن وہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔ نقاب پوش کا نقاب اتار دیا گیا اور خدائی فوجدار کسی دوسری سمت مڑ گئے اور سیاست دان اور سرکاری عملے، ان کا وقت گذر گیا، یا شاید انھوں نے اس ٹرمینس لین کے باہر انسانوں کو زدوکوب کرنے کے نئے راستے دریافت کر لئے اور آج ہم اس لائق ہیں کہ اس ٹرمینس لین میں کھلی باہوں آپ کا استقبال کر سکیں اور کہہ سکیں خوش آمدید! یہ ٹرمینس لین آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ اب آپ آخری سانس تک ہمارے مہمان ہوں گے۔ ایک خاص مہمان جسے دھیرے دھیرے اس کے آخری لمحے کے لئے تیار کیا جائےگا۔
(۸)
ایک کہانی نٹ کی بھی ہے۔ نٹ ایک تیس سال کا آدمی ہے،جسے نیکر اور ٹی شرٹ پہناکر، بالوں کو چھوٹا چھوٹا تراش کر، اس کے کوتاہ قد کا فائدہ اٹھا کر، ایک لڑکا بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ سب کو اس کا پتہ ہے کہ نٹ بچہ نہیں ہے۔ وہ تو نٹ بھی نہیں ہے۔ نٹ تماشہ دکھاکر آخرمیں زمین پر اتر آتے ہیں۔ یہ نٹ تو جب دکھائی دیتا ہے رسی پرہی دکھائی دیتا ہے، ایک بانس اٹھائے، اس کے سہارے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے۔ اس کے لئے کوئی مداری ڈھولک تک نہیں بجاتایا وہ ہمیشہ بجا کر جا چکا ہو تا ہے۔ زیادہ تر بچے اس کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اس پر نظر ڈالے بغیر اپنی سائکلوں پر گذر جاتے ہیں۔ نٹ کے وارد ہونے کے بعد بہت سے گھروں سے رسیاں خود بخود تن گئی تھیں۔ شاید لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہ زمین پر اترے۔ دراصل نٹ نے ایک بچی کی عصمت دری کی تھی اور پھر اس کا خون کر دیا تھا۔ اس کی سزائے موت سپریم کورٹ کنفارم کر چکی ہے۔ اب اس کی رحم کی درخواست عزت ماب صدر مملکت کے حضور پیش ہے۔ اس معاملے کو ہیومن رائٹس والوں نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو اصولی طور پر سزائے موت کے خلاف ہیں۔ شاید یہ قانونی طور پر بھی ہے کہ اسے زمین پر اترنے کی اجازت نہیں اور جہاں تک قوانین کا تعلق ہے، ٹرمینس لین ان کا پورا پورا احترام کرتی ہے۔ ظاہر ہے اب نٹ رسی پر ہی اپنی زندگی گذارنے پر مجبور ہے اور مداری جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہمیشہ اس کے لئے ڈھولک بجا کر جا چکا ہوتا ہے اسی لئے وہ کبھی نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس انتظام سے نٹ خود بھی مطمئن ہے۔
کسی کو اس کا علم نہیں کہ رسی پر چلتے چلتے اس نے آسمان میں کچھ نئے ستارے ڈھونڈ نکالے ہیں جو ایک عام آدمی کو نظر نہیں آتے، جومشرق سے مغرب کی بجائے، جیسا کے خاک زادوں کو عام طور پر چلتے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے، مغرب سے مشرق کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ گھنٹوں ان نئے ستاروں کے طلسم میں گرفتار نظر آتا ہے۔ اس وقت اسے توازن کے لئے بانس کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے ان سیّار گانِ فلک کی کشش نے اسے رسی پر پوری طرح سنبھال رکھا ہو۔ نٹ کے لئے ایک دن معین ہے جس طرح ہر شخص کے لئے ایک دن معین ہے۔ مگر نٹ اس سلسلے میں زیادہ خوش نصیب ہے کہ نٹ کے شانوں پر اس دن کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ وہ کام ہے جسے بہت سارے لوگوں نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ مجسٹریٹ، جیلر، عدالت، ڈاکٹر، پروہت، ہیومن رائٹس کے لوگ، ٹی وی اور اخبارات کے رپورٹر اور مبصران۔ نٹ تو ان فکروں سے پوری طرح آزاد ہے۔ یہ لوگ اس خاص دن کی تیاری میں مصروف ہیں اور اس کے لئے جواب دہ ہیں۔ نٹ جب رسی پر چلتے چلتے تھک جاتا ہے تو بانس کو زمین پر ٹکا کر اپنے آپ کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس خود فریبی کے لئے ٹرمینس لین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرمینس لین میں ہر طرح کے فریب سے احتراز کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر انسان اپنے اندر سے ابھرتا ہے اور واپس اپنی ذات کے اندر لوٹتا ہے اور خدا! اسے ٹرمینس لین کے باہر کے لوگوں کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔
’’آپ میرا کھیل دیکھنے کے لئے یہاں کھڑے ہیں۔‘‘ نٹ تماشائیوں سے کہتا ہے جو نیچے سڑک اور فٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے ہیں۔ ’’مگر آپ بہت جلد اکتا جائیں گے، شریمان حضور مائی باپ حکم اور پھر یہ بھی ہے کہ منہ کا مزا بدلنے کے لئے آپ کو ایک نئے تماشے کی ضرورت ہوگی۔ مگر میرے پاس صرف ایک تماشہ ہے اور یہ بھی ہے کہ دیکھتے دیکھتے میں یہاں سے جا چکا ہونگا۔‘‘ لوگوں کے پاس زیادہ تر اس کی باتوں کے لئے وقت نہیں ہوتا نہ اس کے تماشے کے لئے۔ وہ تو اسے دیکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب وہ انھیں نظر بھی نہیں آتا۔ بس ایک رسی کو وہ لوگ آسمان پر لکیر کھینچتے دیکھتے ہیں جو کبھی کبھار ایک دراڑ کی شکل اختیار کر لیتی ہے، ایک پتلی سی دراڑ جو بہت زیادہ صاف بھی نظر نہیں آتی ہے مگر پھر بھی سارا آسمان دو حصّوں میں منقسم نظر آتا ہے جیسے یہ دو نوں حصے کسی بھی وقت سر پر آن گریں گے۔
’’شاید ابھی میرے کھیل کا وقت نہیں آیا۔‘‘ نٹ مایوسی سے سوچ رہا ہے۔ ’’میں ہمیشہ وقت سے پہلے آ جاتا ہوں یا وقت کے بعد پہنچتا ہوں۔ میں اس بدنصیبی کے ساتھ جی رہا ہوں اور اسی کے ساتھ مر جاؤں گا۔ اس بچی کی طرح جس کا گلا میں خوف کے عالم میں دیر تک دباتا رہا دباتا رہا اس کے باوجود کہ وہ بہت پہلے مر چکی تھی۔‘‘
نٹ، ابھی اس کے بارے میں سوچنا بیکار ہے۔ ابھی تو اس نے اپنے آخری کھیل کا اعلان بھی نہیں کیا ہے۔
(۹)
اس ٹرمینس لین میں نیشنل انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے ایک وفد آیا ہوا ہے جو تمام کے تمام حساس اور اسی کے سبب ناکامیاب سیاست دان، عمر دراز وکیل، بوڑھے دانشوروں، مذہبی رہنماؤں جن کا خدا ہمیشہ التوا پر ہوتا ہے اور ڈاکٹروں پر مشتمل ہے جنھیں لوگ صرف اسی کام کے لئے جانتے ہیں۔ یہ دل کے اچھے لوگ ہیں جو کبھی کبھار اپنی لا علمی میں برے لوگوں کے ذریعے استعمال کر لئے جاتے ہیں، کبھی واقعی کسی نیک مقصد کے لئے کبھی محض دنیا کو فریب دینے کے لئے۔ ٹرمینس لین میں لوگ ان سے لا پرواہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ خود میں اپنی وکٹوریا کے پہیوں کی مرمت کرتا رہتا ہوں یا گھوڑوں کے ساز میں نئی زریاں اور موتی پروتا رہتا ہوں۔ ابھی فالحال میں پٹرولیم کی چکنائی انگلیوں میں لپیٹ کر پہیوں کے بال بئیرنگ پر ڈال رہا ہوں، پہئے کو چکر دے رہا ہوں جب کہ گھوڑے زمین پر ڈلی ہوئی گھاس کے ڈھیر پر منہ مار رہے ہیں۔ میں نے ابھی ابھی ایک دوست کو پبلک ٹیلی فون بوتھ سے فون کیا ہے۔ مجھے اس کے پیسے لوٹانے ہیں جنہیں میں نے ایک سیف میں ڈال رکھا ہے جو دیوار میں چنا ہوا ہے۔
’’پیسے میرے پاس زیادہ دنوں تک نہیں رہتے، وہ پر لگاکر اڑ جاتے ہیں۔‘‘ میں فون میں کہتا ہوں۔ ’’تم دیر نہ کرنا ورنہ خالی ہات لوٹنا پڑےگا۔‘‘
خالی ہات! وہ میرا دوست کبھی اپنا پیسہ لینے نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے میں اس وکٹوریا کا کتنا شوقین تھا۔ اس کے لئے میں نے جانے کتنی رقم اکٹھی کی ہوگی اور اسے گھوڑے کی لید اور باسی چارا سے مہکتے ہوئے ایک گلی کے نکڑ سے خریدا تھا جہاں کے مکانوں کی کھڑکیاں سب کی سب چوکور اور سرخ تھیں اور جہاں بوڑھے گھوڑے ایک بڑے سے بیف رستوران کے باہر آنکھوں پر پٹیاں باندھے، ساز پہنے کھڑے رہتے کیونکہ انھیں ہمیشہ کسی برات یا سیر کے شوقین کسی سیلانی یاکسی پیشہ ور فوٹو گرافر کے لئے تیار رکھا جاتا۔ میں نے اس وکٹوریا پر کافی خرچ کیا ہے، ریس کورس سے اس کے لئے دو گھوڑے خریدے ہیں جو ریس کے لئے اب غیرکارآمد قرار دئے گئے ہیں۔ کوچوان بوڑھا ہے اور اس کا حلقوم غیرفطری طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے نتھنوں سے بال تنکوں کی طرح باہر نکلے ہوئے ہیں جن کی نوکوں پر رطوبت کے گلوبچے چمکتے ہیں۔ اس کی آنکھوں پر ایک دبیز شیشوں والا چشمہ چڑھا ہوا ہے جس پر اس کے بالوں سے خشکی گرتی رہتی ہے۔ اس شہر کی کثافت کے سبب اس کی آنکھیں دائمی طور پر دھندلی ہو چکی ہیں۔ وہ وکٹوریا میں اپنی اونچی جگہ پر بیٹھا چابک سٹکتا رہتا ہے اور گھوڑوں کی نعلیں ٹرام کی پٹریوں کی اینٹوں سے ٹکراتے ہوئے چنگاریاں چھوڑتی رہتی ہیں۔ مگر گھوڑے اپنی تمام تر تیز رفتار ی کے باوجود ٹرمینس لین کی حدود و اربعہ سے باہر جا نہیں پاتے۔ ان معنوں میں نہیں کہ آپ وکٹوریا کے پہیوں کو ٹرمینس لین کے باہر نہیں دیکھتے۔ دراصل یہ ٹرمینس لین وکٹوریا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے، پھیلتی رہتی ہے، واپس سکڑتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے آپ اس پر سوار دنیا کے کسی بھی گوشے سے گذریں ہمیشہ خود کو اس ٹرمینس لین کے اندر پاتے ہیں۔ یہ گھوڑے جانے کتنی بار افق سے گذر جاتے ہیں، کتنے آسمان اس کے راستے میں حائل ہوتے ہیں، کتنے ستارے ان کی ٹاپوں سے بکھر تے رہتے ہیں مگر وہ ہمیشہ اس ٹرمینس لین کے اندر ہی نظر آتے ہیں۔
’’کیا یہاں لوگ اپنی مرضی سے۔۔۔میرا مطلب ہے کیا یہاں جینا آسان ہے اور لوگوں کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔‘‘ وفد کا چےئر مین پوچھتا ہے۔ وہ ایک بھاری چہرے والا آدمی ہے جو ایک ناواجب دنیا کا بوجھ اپنے ضمیرپر اٹھائے ہوئے ہے۔ ’’ٹرمینس لین کے خلاف آس پاس کے علاقوں سے بہت ساری شکایتیں آئی ہیں جنہیں ہوم منسٹری نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ انھیں شبہ ہے کہ یہاں معاملہ قدرے پیچیدہ ہے اور بہت سے سوالات ابھی تک تشنہ ہیں۔‘‘
’’لوگوں کو ہمیشہ جلدی ہوتی ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں اور اس ٹرمینس لین میں جو کچھ بھی ہے یا اس کی جو بھی صدائیں ہیں یہ اس کی اپنی ہیں۔ آپ انھیں ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ یہ تو کسی بھی طرح باہر کی دنیا سے تجاوز نہیں کرتیں۔ مگر ممکن ہے کہ چونکہ ایک بلیک ہول کی طرح اس ٹرمینس لین کے اندر لوگ آ تو رہے ہیں مگر انھیں واپس لوٹتے کوئی نہیں دیکھ پاتا، یہ دیکھنے والوں کے اندر شبہات پیدا کرتے ہیں اور وہ انگلیاں اٹھا کر کہتے ہیں، وہ رہی ٹرمینس لین، اسے تلاش کرو، اس کے خط و خال واضح کرو۔ مگر ٹرمینس لین تو اپنی جگہ موجود ہے اور جناب چیئرمین اور وفد کے دوسرے معزز ممبران، اس ٹرمینس لین میں آپ کا استقبال کرتے ہوئے ہمیں انتہائی شادمانی اور ایک لا محدود طمانیت کا احساس ہو رہا ہے۔ یہاں ایک رستوران بھی ہے جہاں دبیز پردوں پر زمانہ قدیم کی تصویریں کشیدہ ہیں۔ ہم اس رستوران کے داخلے پر آپ کا خیر مقد م کرتے ہیں۔ اس رستوران میں کوئل کا گوشت کافی لذیذ بنتا ہے اور یہاں ویٹر ٹپ قبول نہیں کرتے۔ یہاں ٹرمینس لین کے باشندوں کے لئے میزیں مخصوص ہیں اور ویٹر کو پتہ ہے وہ دو ایک جام کے بعد ہی لڑھک جائینگے۔ آپ دیکھ رہے ہیں، اس ٹرمینس لین میں اپنے انداز سے سب کچھ پیش آتا ہے۔
جناب چیئرمین، میں نے ایک بار ایک باربر کو اس ٹرمینس لین کے بارے میں بتانے کی کوشش کی جو میرے بال تراش رہا تھا۔ وہ ایک بوڑھا شخص ہے جس کی دونوں آنکھیں ایک دوسرے کو تاکتی ہیں۔ جب اس نے اس ٹرمینس لین میں اپنا بہت ہی کامیاب کاروبار سجایا تو کسی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی حجامت کی دکان کے سامنے ایک لکڑی کا گھونٹا گاڑ دے جو لوگوں کی رہنمائی اس کی دکان تک کرے اور آپ یقین نہیں کریں گے، یہ دیو قد چوبی کھونٹا جو دراصل ایک قدیم پیڑ کا بدنما گانٹھوں سے ڈھکا ہوا شہتیر تھا دھیرے دھیرے اس ٹرمینس لین کا مرکز بنتا گیا اس کے باوجود کہ یہ اس کی سرحد پر نکڑ سے تھوڑا ہی اندر استادہ ہے۔ اب میرا کوچوان میری وکٹوریا اس کھونٹے سے موڑتا ہے جیسے وہ کوئی ٹریفک آئلینڈ ہو، نٹ اس تھم سے تھوڑا اوپر رسی پر کھڑا رہتا ہے اور اپنا زیادہ وقت اسی کے آس پاس گذارتا ہے۔ چوب تراش تکاماسانے، جس کے اندر کا فنکار اس ٹرمینس لین کے اندر آکر پھر سے زندہ ہو گیا ہے، اس کو تراش کر اس سے ایک ڈراگن کا سر اوردھڑ نکالنا شروع کر دیا ہے۔ اس تھم کی اب اپنی ایک الگ شناخت ہے، ایک الگ شخصیت ہے اور لوگ اب اسے اس باربر کی دکان سے الگ متصور کرنے لگے ہیں۔
مگر اس ٹرمینس لین میں اس باربر کی آمد بجائے خود ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ کسی نے اسے اس ٹرمینس لین کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ خود اس نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا تھا (جب کہ یہ ٹرمینس لین اس کرۂ ارض پر کھڑے ہر فرد کے ذہن کے نقشے پر محیط ہے۔) مگر جیسا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسے دھیرے دھیرے اپنی تنہائی کا احساس ستانے لگا۔ وہ جب گھر لوٹتا تو وہ ایک دوسرا انسان ہوتا جسے اس کے گھر والے سمجھ نہیں پاتے۔ ہر بار اس کے بچے اس کا انتظار کرتے نظر آتے اور اسے اس پر حیرت ہوتی۔ وہ اس انتظار کو سمجھ نہ پاتا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ اس کی بیوی جب کبھی رات کی تنہائی میں کپڑے اتار کر اس کے پاس آتی وہ اس کے قرمزی نپلز کو حیرانی سے تاکتا رہتا جس کے سارے گلیمر بچے سالوں سال چوس گئے تھے۔
’’تمہیں تو یہ بے حد پسند تھے۔‘‘ اس کی بیوی نچلے حصوں پر ہاتھ رکھ کر پستانوں کو ابھارتے ہوئے اس سے پوچھتی ہے مگر یہ پستان ہر بار ڈھلک جاتے ہیں۔
’’ہاں۔‘‘ وہ ہاتھ بڑھا کر ان نپلز کو چھوتا جو اسے اپنی انگلیوں میں سانپ کے جسم کی طرح ٹھنڈے محسوس ہوتے۔ ’’آئندہ تم میرے پاس اس طرح ننگی مت آیا کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ۔۔۔کیونکہ ۔۔۔‘‘ وہ خاموش اپنی بیوی کی طرف تاکتا رہتا ہے جو حقارت کے ساتھ اپنے کپڑے پہنتی ہے اور دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔
’’کیونکہ۔۔۔‘‘ اپنا آخری جملہ وہ خود سنتا ہے۔ ’’ہارا ہوا انسان ہمیشہ اپنی کینچلی چھوڑ جایا کرتا ہے۔‘‘
اس بار بر کے بعد فالحال اس ٹرمینس لین میں کچھ نہیں بچتا۔ آئندہ آپ اس ٹرمینس لین کے بارے میں سوچنے سے قبل اس باربر کے بارے میں ضرور سوچیں۔ باربر جس کا تھم ڈراگن کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب اس دور کی پہچان بن چکا ہے، بلکہ اس ٹرمینس لین کے بالکل کنارے ہوتے ہوئے بھی اس کا مرکز بن چکا ہے۔
(۱۰)
وکٹوریا تیزی سے پہاڑی راستے پر دوڑ رہی ہے۔ ٹرمینس لین سے نکل کر اچانک دنیا بدل گئی ہے، پیڑ پودے چٹان سنگ میل سب کچھ اجنبی سے لگ رہے ہیں۔ میرا کوچوان ایک جگہ میری ہدایت پر لگام کھنچتا ہے، گھوڑے نتھنوں سے پھنکارتے ہوئے، جھاگ اڑاتے ہوئے، ہمیں نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، مگر انھیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ وکٹوریا کے چاروں پہئے ایک ساتھ تھم گئے ہیں۔ میں چھلانگ مار کر نیچے آتا ہوں۔
معزز حضرات، وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک تلخ سچائی کا سامنا کریں۔ یہ نیچے پھیلا ہوا میدان جس میں یہ اپنا تاریخی شہر بسا ہے اور دور ابلتا سمندر جس میں شہروں کی غلاظت سے سیاہ ہو چکی ایک ندی ضم ہو رہی ہے ان سب کے باوجود ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ کر سکیں۔ اس لئے الوداع، ہم آج کے بعد ٹرمینس لین واپس لوٹ کر اس بات کا تہیہ کریں گے کہ ہم سچائی کو محض اس کے اندر ہی دریافت کریں۔
ٹرمینس لین جہاں جو کچھ ہوتا ہے اپنے ڈھنگ سے ہی ہوتا ہے۔
(۱۱)
شاید میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس ٹرمینس لین کی پوری کہانی بیان کر سکوں۔ واپسی پر میں وکٹوریا کو اچھی طرح سجا سنوار کر شہر کے سب سے بھیڑ بھاڑ والے علاقے سے گذرتا ہوں۔ وکٹوریا کے پہئے ٹرام کی پٹریوں سے ٹکراتے ہوئے ہمیشہ کی طرح چنگاریاں چھور رہے ہیں، گھوڑا ٹریفک کانسٹبل کی سیٹی کی آواز کو پہچانتا ہے، مگر اب اس کی یاد داشت اس سلسلے میں کچھ گڈ مڈ ہونے لگی ہے اسی لئے وہ کبھی کبھار اسے نظر انداز بھی کر دیتا ہے اور سرپٹ دوڑتا چلاجاتا ہے، سیاسی جلوس اس کے راستے سے ہٹتے جاتے ہیں کیونکہ یہ ٹرمینس لین کی گاڑی ہے اور اس کا سامنا ہونے پر لوگ اپنی آنکھوں میں خوف لئے نظر آتے ہیں۔ عزت ماب وزیر اعظم کی گاڑی بہت پہلے گذر چکی ہیں۔ ہمیں بہت دور ٹرمینس لین پہنچنا ہے، مگر میں ایک پل کے لئے رک گیا ہوں۔
’’ابھی ابھی ہمارے وزیرِ اعظم کی سواری ادھر سے گذری ہے اور اگلے موسم تک سارے معاملات سدھر جائیں گے۔ ‘‘ ایک راہگیر مجھ سے مخاطب ہے۔ اس نے ایک منحنی کاغذی ترنگا تھام رکھا ہے۔ ’’اس ضمن میں حضورِ اعلی کی رائے کیا ہے؟‘‘
’’کیونکہ مجھ سے اس شہر کے معاملات کے سلسلے میں کبھی کوئی رائے نہیں لی گئی۔‘‘ میں کہتا ہوں اور واپس وکٹوریا کے اندر بیٹھ جاتا ہوں۔ کوچوان گھوڑوں کو چابک لگاتا ہے، ان میں سے ایک کی گردن کی ایال ارغوانی ہیں۔ دوسرے کی مقعد تانبے کے رنگ کی ہے جو ریح خارج کرتے وقت کھل جاتی ہے۔
راستے میں میں خود سے پوچھتا ہوں، کیا اسی طرح ہر چیز اپنے اختتام تک پہنچتی ہے؟
(۱۲)
خزاں اپنے آخری مرحلے پر ہے۔ زیادہ تر پیڑننگے ہو چکے ہیں، ان کے اکے دکے گھونسلے نظر آنے لگے ہیں۔ خاکروب مردہ پتوں کو جھاڑو لگا کر ایک کنارے کر چکا ہے جہاں انھیں تا ابد سلگتے رہنا ہے۔ ٹرمینس لین کے مکانات کی کھڑکیوں پر دھوپ کی ملمع کاری ہے۔ کل تک اس سورج کی طرف لوگ تاک سکتے تھے۔ اب وہ آنکھوں کے لئے نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرمینس لین کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں۔ آسمان میں گِدھوں کی پرچھائیاں منڈلا رہی ہیں۔ یہ مردار خور، ان کے بغیر یہ انسانوں کی دنیا نہیں چل سکتی۔
’’کہیں پر کچھ ہو گیا ہے۔‘‘رسی پر کھڑا نٹ چھتوں کے بے رنگ اور ناہموار سلسلوں کے اوپر تاک رہا ہے جہاں مختلف جگہوں سے گاڑھا دھواں ابل ابل کر آسمان میں ضم ہو رہا ہے۔
’’اور یہی انسانی تاریخ ہے، ایک دھواں سے دوسرے دھواں تک کا سفر، ایک جنگ سے دوسری جنگ تک کی داستان۔۔۔‘‘ جانے یہ کس کی آواز تھی۔ ’’اور مرنے کے بعد انسان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا۔ صرف اس کی یاد کا لوگ جشن مناتے ہیں، اس کا کچومر نکالتے ہیں، اس کا بت ڈھالتے ہیں تاکہ کووں اور کبوتروں کو بیٹ کے لئے آسانی ہو۔‘‘
کچھ لوگ لڑکی کو ایک تختہ پر رکھے نظر آ رہے ہیں۔ اس کا عاشق ایک پیلا گلاب تھامے اس کی قیادت کر رہا ہے۔ اس بھیڑ میں کچھ نئے چہرے ہیں۔ کون ہیں یہ؟ کیا اس ٹرمینس لین میں آنے کا یہ بھی ایک آسان راستہ ہے؟ اس کے وداع کے لئے ڈراگن کے سامنے لوگ کھڑے ہیں جو اب مکمل ہو چکا ہے۔ جے ہونگ، اس کی بیوی، ریٹارڈ کرنل، خاکروب، باربر اور بھی دوسرے سینکڑوں لوگ، انھیں آپ جہاں تک چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ مردے کو ٹرمینس لین کے داخلے پر رکھ دیا گیا ہے۔ پیچھے دور تک ٹرمینس لین کے دروازے اور کھڑکیاں دھوپ میں روشن ہیں۔ سامنے وہ شاہراہ ہے جو مڑ کر ایک دھند سے لپٹے شہر کی طرف چلی گئی ہے جیسے مصور کے پاس رنگ اچانک کم پڑ گئے ہوں اور اس نے رنگوں میں پانی ملا کر کینوس کاباقی کام پورا کر لیا ہو۔ صرف اس شہر سے ابلتا دھواں حقیقی ہے جو اب مختلف جگہوں سے نکلنے لگا ہے، بل کھاتا ہوا، ہوا کی زد پر بکھرتا ہوا۔ بلکہ اب تو یہ دھوئیں مقدارمیں بڑھتے جا رہے ہیں اور بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں، کسی شیر خوار کے کجلائے ہوئے آنسو کی طرح۔ اس شاہراہ کے کھمبے اونچے ہیں، دونوں طرف کے فٹ پاتھ پر ایک بھی راہگیر نہیں جو اس وقت کے لئے غیرفطری ہے۔ دو رویہ دکانیں بند پڑی ہیں، صرف ان کے سامنے کتے اور بلّیاں لوٹ رہے ہیں۔ وہ انڈر ٹیکر کا انتظار کر رہے ہیں جو اپنی تابوت گاڑی کے ساتھ نظر نہیں آتا۔
’’اس شہر کو کچھ ہو گیا ہے کہ وہ ٹرمینس لین کا مردہ قبول کرنے میں اتنا وقت لگا رہا ہے۔‘‘ کوئی سرگوشی کرتا ہے۔ بچے جو اپنی سائکلوں پر ٹرمینس لین کے دہانے تک آ گئے ہیں، للچائی نظروں سے سنسان شاہراہ کو دیکھ رہے ہیں۔ مگر ان کی سائکلوں کے پہئے اس شاہراہ کے لئے نہیں بنے ہیں اور انھیں اس کا پتہ ہے۔ وہ اپنی گھنٹیوں کو رک رک کر بجا رہے ہیں، ان کی سائکلیں ڈراگن کے تھم کے گرد رہ رہ کر چکر لگا رہی ہیں۔ یہ زمین ان کی اپنی ہے، یہ آسمان، ایک دن انھیں وہاں اپنے نادیدہ پروں کے ساتھ لوٹنا ہے۔
’’اس گلی کے بچے اس کائنات کی مسکراہٹ ہیں۔‘‘سویانگ کہتی ہے۔ ’’مگر یہ بچے۔۔۔‘‘ اس کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو جھلملا اٹھے ہیں۔
’’یہ غلط ہے۔‘‘ جے ہونگ ان موتیوں سے نظریں ہٹا کر کہتا ہے۔ ’’اس ٹرمینس لین میں آنسو کے لئے اجازت نہیں ہے۔‘‘
شہر دم سادھے خاموش ہے۔ اس کے آسمان پر سورج چمک رہا ہے، گدھ اور چیل منڈلا رہے ہیں، دھوؤں کے بادل گذر رہے ہیں۔ نٹ اپنی رسی پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ پھر اسے دور شاہراہ کے بطن سے کوئی چیز نمودار ہوتی نظر آتی ہے اور وہ انگلی سے اس طرف اشارا کرتا ہے۔ یہ ایک گاڑی کا ہیولا ہے جو سنسان سڑک کو تیزی سے پار کرتا ہوا ٹرمینس لین کی طرف آرہا ہے جہاں ڈراگن آسمان کی طرف اپنا دہن کھولے کھڑا ہے۔ لوگ راحت کی سانس لیتے ہیں۔ آخر کار۔۔۔عاشق ایک دوسرا پیلا پھول لڑکی کے کنگھی شدہ بالوں میں پرو دیتا ہے۔ لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ بچے سائکلوں پر تھم گئے ہیں، اپنی ایک ٹانگ زمین پر ٹکائے کھڑے ہیں۔ وہ تیز آنکھوں سے شاہراہ حیات کی طرف تاک رہے ہیں جس پر گاڑی کا ہیولا بہت حد تک صاف ہو چکا ہے اور اب دیکھتے دیکھتے ایک پک اپ وین میں بدل گیا ہے۔ وین آکر ٹرمینس لین کے سامنے رکتی ہے، انجن ابھی بند نہیں ہوا ہے،اس سے نکلی ہوئی بھاپ کی نکاسی کی عمودی نالی خاکی مائل قرمزی دھواں چھوڑ رہی ہے۔ وین سے دو اشخاص کو د کر باہر آتے ہیں۔ وہ سفید چغوں میں ملبوس ہیں، سر پر سفید کیپ، چہرا ناک تک ماسک سے ڈھکا ہوا۔ وہ اونچے گم بوٹ پہنے ہوئے ہیں اور انھوں نے کہنیوں تک ربر کے دستانے چڑھا رکھے ہیں جو گیلے اور غلیظ ہو رہے ہیں۔ وہ گاڑی کے اندر سے ایک اسٹریچر نکالتے ہیں اور اسے اٹھائے ہوئے لڑکی کے مردے کے پاس آتے ہیں۔ ٹرمینس لین کے اندر ایک تیز سناٹا بول رہا ہے۔ اسٹریچر پر خون اور کالکھ کے نشان ہیں اور پک اپ وین سے ایک بدبو نکل کر ٹرمینس لین کے اندر آنا چاہتی ہے۔
’’یہ مردہ گاڑی ہے۔‘‘ رسی پر ڈولتے نٹ کی چینخ نکل گئی ہے کیونکہ اپنی اونچائی کے سبب اس نے وین کے ڈالے کو لبالب مردوں سے بھرا دیکھ لیا ہے۔ دونوں اسٹریچر بردار کے پاس اس طرح کی جذباتیت کے لئے وقت نہیں ہے۔ وہ جلدی جلدی لڑکی کے مردے کو اٹھا کر اسٹریچر پر ڈالتے ہیں یہاں تک کہ اس کا سر ایک طرف ڈھلک جاتا ہے، بال کھل جاتے ہیں اور عاشق کا پیلا گلاب زمین پر جا گرتا ہے۔ اسے کوئی نہیں اٹھاتا۔ یہ خاکروب کا مسئلہ ہے یا شاید سب لوگ سکتے میں ہیں۔ دونوں اسٹریچر اٹھائے پِک اپ وین کے پاس پہنچتے ہیں، اسٹریچر کو انھیں اپنے کندھوں تک اٹھانا پڑتا ہے جس کے بعد مردوں کے ڈھیر میں لڑکی کا مردہ منہ کے بل جا گرتا ہے۔ دونوں وین کے اندر چلے جاتے ہیں جہاں ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے اسٹریچر کے رکھنے کی جگہ ہے۔ دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ وین ہائی گیئر پر دوڑتی ہوئی شہر کی طرف چلی گئی ہے۔ اب اس کی جگہ سڑک پر وہ مستطیل نشان رہ گیا ہے جو وین کے ڈالے سے ٹپکتے لہو کے قطروں سے بن چکا ہے۔ وین کے ڈالے سے لڑکی کے بال لہراتے نظر آ رہے ہیں ۔ چیل اور گدھ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک تو ڈالا پر اتر بھی چکا ہے۔
’’یہ شہر اب پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘ کسی نے سرگوشی کی ہے۔ ’’اب اس میں مردار خوروں کی حکومت آ چکی ہے۔‘‘
’’سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘
وہ لوگ کھڑے دور شاہراہِ حیات پر مردہ گاڑی کو ہیولا میں بدلتے دیکھ رہے ہیں کہ ایک دھماکہ ہوتا ہے اور بچے خوشی سے سائکل کی گھنٹیاں بجانے لگتے ہیں۔ انھوں نے سائکلوں کو ڈریگن کے گرد تیزی سے گھمانا شروع کر دیا ہے اور ڈریگن۔۔۔
وہ اپنے دہن سے شعلے اگل رہا ہے!
’’آخرکار۔۔۔آخرکار۔۔۔ میں اس میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ تکاماسا اپنے سر کو دونوں ہاتوں سے تھامے ڈراگن کے نیچے ناچ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے آنسو ہیں۔ ناچتے ہوئے وہ بہت مضحکہ خیز نظر آ رہا ہے کیونکہ اس کے کشادہ دہن کے اندر تھوڑے سے ہی دانت بچے ہیں۔ یہ چینی کمال کا فنکار ہے، اس نے ایک گیس کا سلنڈر مقعد کے راستے ڈراگن کے شکم میں ڈال دیا ہے۔
اب اس ٹرمینس لین میں آنے کے لئے لوگوں کو اس ڈراگن سے اجازت لینی ہوگی، اس کی آگ کے نیچے سے گذرنا ہوگا۔ یہ آگ اگلتا ڈراگن اس ٹرمینس لین میں آنے والوں کی رہنمائی کے لئے ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں، اس ٹرمینس لین میں، ہر واقعہ ایک خاص ڈھنگ سے اپنے انجام تک پہنچتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.