Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹائیگر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    خشک سالی سے ملک کے اکثر لوگ کمزور ہوکر محض کھال اور ہڈیوں کے ڈھانچے رہ گئے تھے مگر ٹائیگر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ خوش قسمت کتا!

    آرام کرتے ہوئے ٹائیگر کو دیکھ کر یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ کوئی کمبل میں لپٹی ہوئی بڑی سی گٹھری ہے۔ وہ دوغلی نسل کا پلا تھا جو شہر کی ایک نالی میں پیدا ہوا تھا۔ اسے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ اس کی یادداشت جہاں تک کام کرتی تھی، پولیس اسٹیشن اور اس کی چہاردیواری ہی اس کا گھر رہی تھی۔ بچپن سے وہ اسی چہاردیواری کے اندر آسمان کے چوکور ٹکڑے کو دیکھتے ہوئے کودتا پھاندتا رہا تھا۔

    وہ اتنا سمجھدار تھا کہ پولیس والوں اور جیل کے قیدیوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ ٹائیگر پولیس اسٹیشن کے ہر باسی کو جانتا تھا۔ انسپکٹر کے لیے وہ ایک مخصوص پاسداری کا بھی اظہار کرتا تھا۔ قیدی بھی انسپکٹر کی جابر آنکھوں اور ٹائیگر کی سرخی مائل بھوری آنکھوں کے تاثر کی مماثلت کا برملا تذکرہ کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ لوگ وہ اس تاثر کو ہرعام پولیس والے کی خصوصیت سمجھتے تھے۔

    ٹائیگر حوالات کے تمام قیدیوں کو، قاتل، اچکے اور سیاسی نظربند کی تخصیص کیے بغیر صرف ’’قیدی‘‘ سمجھتا تھا۔ جہاں تک خود اس کا تعلق تھا، اس کے نزدیک نوع انسان محض دو قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی، پولیس والے اور مجرم۔

    ہر حوالات میں پینتالیس قیدی تھے۔ ٹائیگر کے لیے یہ بات کسی اہمیت کی حامل نہیں تھی کہ ایک حوالات میں چار قیدی سیاسی کارکن تھے۔ اس نے صرف یہ دیکھا تھا کہ یہ سارے لوگ ایک ہی طرح کی تپتی ہوئی متعفن بھٹیوں میں رہتے ہیں، جن میں نہ روشی آتی ہے اور نہ ہی تازہ ہوا کا کوئی گذر ہوتا ہے۔

    کھٹملوں کے چبائے ہوئے، بدبودار چیتھڑوں میں لپٹے، بڑھی ہوئی داڑھیوں اور زرد چہروں والے یہ لوگ قابل نفرین، اذیت ناک زندگی گذار رہے تھے۔ روشنی اور اندھیرے کا احساس بھی اب ان کے اندرسے ختم ہو چکا تھا۔ کوٹھریوں سے نکلنے والی تکلیف دہ بدبو انسانی دل و دماغ کو گھن لگانے کے لیے کافی تھی مگر حیرت انگیز طور پر، اس بدبو کا قیدیوں پر کوئی اثر نہیں تھا۔ ان کے خیال کا محور، شب و روز، صرف کھانا تھا۔ کبھی آسودہ نہ ہونے والی بھوک ان کے پیٹوں کو ہر وقت کھرچتی رہتی تھی۔ وہ سونے جاتے تو صرف اس لیے کہ صبح اٹھنے پر انہیں چاول کی تھوڑی سی پیچ ملےگی۔ اسے کھانے کے بعد دوپہر کے کھانے کا انتظار کرنے لگتے اور پھر اس کھانے کا جو انہیں شام کو دیا جانے والا ہوتا۔

    حوالات کے تمام قیدی بڑے بےچینی سے اپنی سزا اور پھر جیل بھیجے جانے کے منتظر رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنی رہائی اور اپنے اوپر عائد کیے گیے الزاموں سے بری ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ جیل قیدیوں کے لیے جنت ہے اور حوالات دوزخ۔

    ٹائیگر جوحوالات میں مٹرگشت کرتا تھا، کبھی کبھی اس کے دروازے پر لیٹ بھی جاتا تھا۔ وہ قیدیوں کے غصے اور شدید ناراضگی کا ہدف رہتا تھا۔ ہر قیدی اپنے ان دلی جذبات کو اپنی آنکھوں سے ظاہر کر دیتا تھا، مگراس سے ٹائیگر کو کوئی پریشانی نہیں تھی۔

    انسپکٹر کے کھانا کھاتے وقت ٹائیگر دروازے پر پہرہ دیتا۔ خوب اچھی طرح اور بڑھیا کھانا کھانے اور اطمینان کی ڈکار لینے کے بعد انسپکٹر کیلے کے پتے کو لپیٹ کر ٹائیگر کے سامنے ڈال دیتا۔ کیلے کے اس پتے پر بچا ہوا اتنا کھانا ہوتا تھا جو ایک آدمی کے لیے کافی تھا۔ اس بچے ہوئے کھانے کو دیکھ کر قیدیوں کے منھ میں پانی آ جاتا تھا۔ ٹائیگر بہرحال اس کھانے کو دیکھتے ہی دیکھتے ہڑپ کر لیتا۔

    کوتوالی کے احاطے میں گلے ہوئے درختوں کے ٹھنڈے ٹھنڈے کنج میں تھوڑی دیر سونے کے بعد ٹائیگر آکر حوالات کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں سے ایک موہوم سے تبسم کا اظہار ہوتا، جیسے کہہ رہا ہو کہ وہ ان لوگوں کے سارے رازوں سے واقف ہے۔ مگر قیدیوں کے خلاف لگائے گئے زیادہ تر الزامات جھوٹے تھے اور انسپکٹر اور پولیس والوں نے رشوت لے کر گڑھے تھے۔

    ایک آدمی اگر ایک دفعہ چوری کا ملزم قرار پایا تو پھر زندگی میں ہر چوری کا ذمہ داروہی رہتا۔ ظلم اور زیادتیوں کے بوجھ تلے دب کر یہ لوگ ان جرموں کو بھی قبول کر لیتے جو ان سے سرزد ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ مجسٹریٹ کے سامنے بھی عدالت میں پولیس کی دہشت ناک موجودگی کی وجہ سے جرم کا اقرار کر لیتے۔

    جہاں تک پولیس والوں کی زبوں حالی کی بات ہے تو ان کی ماہانہ تنخواہ کسی قیدی کی روزانہ خوراک کے لیے مقرر کی گئی ماہانہ رقم کے تیسویں حصے سے بھی کم ہوتی ہے۔ تو پھر ایک پولیس والا دوسرے ذرائع سے اپنی آمدنی میں اضافہ کیے بغیر اپنے خاندان کی روٹی کا کیونکر انتظام کر سکتا ہے؟

    جھنجھلائے ہوئے قیدی اپنی کوٹھری کی سلاخوں سے اپنے ہاتھ نکال کر چربی چڑھے ہوئے اس کتے کو یہ کہتے ہوئے کچوکے دیتے، ’’یہ چربی ہمارے ہی کھانے کی بدولت ہے۔‘‘ ٹائیگر جواب میں دم ہلا کر ان کی طرف اس طرح دیکھتا گویا کہہ رہا ہو، ’’ہاں، یہ زندگی کی ستم ظریفیاں ہیں اور ان کو بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘

    شروع شروع میں کچھ قیدیوں نے شکایت کی کہ ان کو ملنے والی خوراک کی تعداد اس مقدار سے کم ہوتی ہے جو سرکار کی طرف سے ان کے لیے منظور ہوئی ہے۔ انہو ں نے اس حصے کا مطالبہ کیا جس کے وہ حقدار تھے۔ کھانے کے اس مطالبے پر انہیں ملا کیا؟ کانسٹبلوں کے گھونسے اور انسپکٹر کی لاتیں اور دبی آواز میں گالیاں، ’’سرکار نے منظور کیا ہے؟ سرکار سالی تمہاری باپ لگتی ہے نا؟‘‘ قیدیوں نے جواب دیا، ’’سرکار سالی تو ہر ایک کی باپ ہے۔ سرکار ٹائیگر ہے۔‘‘

    کیا یہ تشبیہ موزوں تھی؟

    سائیکل کے ہینڈل جیسی مونچھیں رکھے بڑے پیٹ والا ایک ٹھیکیدار قیدیوں کے لیے کھانا سپلائی کرتا تھا۔ اس آدمی نے بہت چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کیا تھا، مگر انہی قیدیوں کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے خوش حال ہو گیا۔ انسپکٹر اور محرر دونوں کو اس کے ہوٹل پر روزانہ کھانا اور کافی تو ملتی ہی تھی، اس کے علاوہ ٹھیکیدار انہیں ایک مقرر رقم بھی دیتا تھا۔ کاروبار میں اگر گھاٹا ہو جاتا تو اسے قیدیوں کے روزانہ راشن میں کمی کرکے پورا کر لیا جاتا۔ قیدی اگر بھوکے بھی مر جاتے تب بھی کون تھا جو اس پر سوال کر سکتا؟

    مجسٹریٹ سے شکایت کرنے کا اگر کسی کو خیال آتا تو اسے انسپکٹر کے بےرحم کوڑے یاد آ جاتے اور وہ خود ہی اچھے برے کا فیصلہ کر لیتا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے اپنی شکایتوں کا ذکر ہی چھوڑ دیا۔ مگر انہوں نے اپنا بدلہ ٹائیگر سے نکالا۔

    انسپکٹر کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ قیدی اس بیچارے کو ناپسند کیوں کرتے ہیں۔ یہ لوگ اسے تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور کتا ان کے ارادوں کا احساس ہوتے ہی رونا شروع کر دیتا تھا۔ رونے کی آواز سنتے ہی انسپکٹر بید لہراتا ہوا اپنے کمرے سے باہر آتا اور پوچھتا، ’’کون بدمعاش ہے جو ٹائیگر کو تنگ کر رہا ہے؟ ارے بدمعاشو! میں نے تم سے کہا نہیں ہے کہ اسے مت تنگ کیا کرو؟ چلو اب جس نے بھی یہ کیاہے اپنا ہاتھ پھیلائے۔‘‘

    سلاخوں میں سے ایک ہاتھ باہر نکلتا، انسپکٹر اس کی انگلیاں مضبوطی سے پکڑکر اس کی کلائی پر ضربیں لگانا شروع کر دیتا، چیخوں کی آواز آس پاس گونجنے لگتی اور نئے زخموں سے خون کی دھاریں بہنے لگتیں۔

    ٹائیگر آتا اور فرش پر ٹپکے ہوئے خون کی بوندیں اپنی زبان سے چاٹ کر فرش کو صاف کر دیتا۔ یہ سزا قیدیوں کو اکساتی کہ وہ ٹائیگر کو مزید تنگ کریں۔ وہ اپنی حماقت کو پھر دہراتے اور اس حقیقت کے باوجود کہ ان میں سے ہر ایک ٹائیگر کو چھیڑنے کی پاداش میں کبھی نہ کبھی ایسی سزا بھگت چکا تھا۔ کتے میں بھی اس غصے کو بھڑکانے کا رجحان تھا۔

    ٹائیگر بزدل تھا۔ پولیس چوکی کی چہاردیواری سے شاید ہی کبھی باہر نکلتا ہو۔ اگر کوئی آوارہ کتا کبھی چوکی کے احاطے میں آ جاتا تو وہ ا س پر بےپناہ بھونکتا تھا۔ ایسے وقت اس کی درندگی بالکل اصلی شیروں جیسی ہوتی تھی۔ اس کے برعکس اگر کبھی اتفاق سے اس کا سامنا اپنے محدود علاقے سے باہر کسی مریل کتے سے بھی ہو جاتا تو وہ فوراً اپنی دم دونوں پچھلی ٹانگوں کے بیچ میں دباکر واپس ہو لیتا تھا۔

    ایسا ایک منظر دیکھ کر ایک سیاسی قیدی نے کہا، ’’یہ ہیں ہمارے انسپکٹر صاحب!‘‘ اس کے ساتھی نے ایک بڑے فلسفیانہ انداز میں فرمایا کہ ہر شخص کے دل کے ایک گوشے میں ایک انسپکٹر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی اس بات نے اس کے اور اس کے تین ساتھیوں کے درمیان بڑی گرماگرم بحث چھیڑ دی۔

    جب بحث اپنے نقطہ عروج پر پہنچی، غیرمتوقع طور پر انسپکٹر آ گیا اور اس گرماگرمی کے بارے میں پوچھنے لگا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انسپکٹر نے سنتری سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا اور اس اچھی خبر کا اعلان کیاکہ ان لوگوں کے ملاقاتی آئے ہیں۔ فلسفی کے ملاقاتی بہت ے سنترے اوردوسری بہت سی کھانے کی چیزیں لائے تھے۔ دو سنترے تو فوراً ہی انسپکٹر نے چکھ لیے۔ باقی کھانا قیدیوں نے باتوں کے دوران کھا لیا۔

    ملاقاتیوں کے پاس سنانے کے لیے کوئی نئی خبر نہیں تھی۔ جو خبریں وہ لائے تھے وہ سب جانی ہوئی خبریں تھیں۔۔۔ جنگ کے بارے میں، بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں، قحط کے بارے میں۔ جس قیدی نے بحث کا آغاز کیا تھا، کہا کہ قحط سالی نے ان پر بھی اثر ڈالا ہے۔ ملاقاتیوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’تم؟ کیا تم ان خوش قسمت لوگوں میں سے نہیں ہو جنہیں خوب کھانا ملتا ہے اور جو باہر کی دنیا کے مسائل سے بالکل محفوظ ہیں؟‘‘

    دروازے کے پاس کھڑے ہوئے ٹائیگر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فلسفی نے کہا، ’’کاش ہم اس کتے جتنے ہی خوش قسمت ہوتے!‘‘ ہر شخص، بشمول انسپکٹر یہ سن کر ہنس پڑا۔

    اس شام یہ قیدی جیل سے ملنے والے کھانے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے اس لیے کہ ان کے پیٹ خوب بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے بچے ہوئے کھانے کو اکٹھا کیا اور ان لوگوں کی کوٹھریوں کے سامنے رکھ دیا جن کو اندر بند کیا جا چکا تھا۔

    سلاخوں کے پیچھے سے بائیس قیدیوں نے سامنے رکھے ہوئے کھانے کو بڑی والہانہ نظروں سے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے بڑی احتیاط سے کیلے کے پتے کو سلاخوں سے اندر کھینچ لیا۔ ایسا کرتے ہوئے کچھ کھانا فرش پر گر گیا۔ چشم زدن میں ٹائیگر اسے کھانے کے لیے وہاں موجود تھا۔ قیدیوں میں سے ایک نے کھانا تقسیم کیا، باقی لوگ پیچھے رہے۔ کرچھا بھر کھانا بھی ہر شخص کے لیے کافی نہیں تھا۔ صرف پانچ آدمیوں کو تھوڑا تھوڑا کھانا دیا جا سکا۔

    اس دوران ٹائیگر نے فرش اور کوٹھری کی سلاخوں پرگرے ہوئے سالن کو چاٹنا شروع کر دیا تھا۔ ایک قیدی نے اس کے منھ پر لات مار دی۔ مار سے و ہ اس طرح چلایا جیسے اس کی زندگی ہی خطرے میں پڑ گئی ہو۔ سنتری دوڑا ہوا آیا۔ اس کے پیچھے کچھ پولیس والے اور انسپکٹر۔ انسپکٹر نے ان قیدیوں کی ہتھیلیوں کے پیالوں میں جوتھوڑے سے چاول تھے وہ ان سے واپس کیلے کے پتے پر رکھوا لیے۔ قیدیوں کے لیے یہ ایسا ہی تھا جیسے ان کے دل نوچ لیے گئے ہوں۔ یہ سب جب ہو گیا تو کیلے کا پتا ٹائیگر کے سامنے رکھ دیا گیا۔

    تقریباً ان کے حلق سے کھانا نکال لینے پر بھی انسپکٹر کو اطمینان نہیں ہوا۔ اس نے سنتری سے کوٹھری کا دروازہ کھلوایا اور اندر جاکر بائیس کے بائیس قیدیوں پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی۔

    رات کے دس بجے ہوں گے کہ پولیس اسٹیشن کان کے پردے پھاڑ دینے والی کتے کے بھونکنے کی آواز سے گونج اٹھا۔ ٹائیگر مسلسل بھونکے جا رہا تھا۔ اس کی دردناک اور تکلیف دہ آواز سے ہر شخص جاگ گیا۔ ایک سنتری بھاگا ہوا موقع پر پہنچا۔ اس نے دو قیدیوں کو دیکھا کہ وہ ٹائیگر کے سر کو سلاخوں میں سے کھینچ کر کوٹھری کے اندر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس نے ان میں سے ایک کوچوری کے ایک معاملے میں ملوث قیدی کی حیثیت سے پہچان لیا۔

    انسپکٹر نے اس قیدی کو کوٹھری سے باہر نکلوایا اوراس پر تھپڑوں، گھونسوں اور لاتوں کی بارش شروع کر دی۔ قیدی کے سینے سے خون بہہ نکلا اور زمین پر بڑا سا لال دھبا بنتا گیا۔ قیدی کا ایک دانت بھی نکل کر وہاں گر پڑا۔ ٹائیگر پھر آیا اور اس نے چاٹ چاٹ کر فرش صاف کر دیا۔ اس منظر کو نو پولیس والوں اور پینتالیس قیدیوں نے دیکھا۔

    ’’دوسرا کون تھا؟‘‘ انسپکٹر نے پہلے مجرم سے پوچھا، مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی ٹانگیں لوہے کی سلاخوں کے بیچ سے نکال کر آپس میں باندھ دی گئیں۔ انسپکٹر نے پوری طاقت سے اس کے تلوؤں پر ضربیں لگانا شروع کیں۔ تلوے جگہ جگہ سے پھٹ گئے۔ ان شگافوں سے خون ابلنے لگا۔ ٹائیگر نے اپنی کھردری زبان سے خون کو چاٹنا شروع کر دیا۔

    آدمی ساکت پڑا ہوا ہے۔۔۔ بےہوش۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے