تیمارداری
پانچ چھ سال انگلستان میں رہ کر میں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ کچھ دن تک تو نتیجے کا انتظار رہا اور خوب ملک کی سیر کی۔ اب ارادہ ہو رہا تھا کہ کیوں نہ یورپ کے مشہور ممالک کی پہلی اور آخری مرتبہ سیر کی جائے۔ والد صاحب روپیہ جس تنگ دلی سے بھیجتے تھے، اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ہم پانچ بھائی ہیں اور آخر سب کو ہی ولایت دیکھنا تھا۔ میں نے چلنے سے پہلے لندن سے والد صاحب کو تار دیا کہ بس اب سو پونڈ اور بھیج دیجیے پھر نہ مانگیں گے۔ اس کا جواب خفگی کا تار آیا کہ نہیں بھیجیں گے۔ ادھر سے میں نے جواب دیا کہ خاکسار بغیر سو پونڈ کے آ ہی نہیں سکتا۔ مجبور ہے۔ حساب گھر آ کر دےگا۔ مجبوراً سو پونڈ ہمیں بھیجے گئے۔
ہم نے بیٹھ کر خوب لمبا چوڑا جتنا بھی ہماری وسعت میں تھا، یورپ کی سیر کا پروگرام بنایا اور جلد سے جلد اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ لندن سے پیرس اور وہاں سے برلن اور پھر وہاں سے ویانا، سوئٹزر لینڈ اور اٹلی کی سیر کرتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے۔ یہاں سے مصر پہنچ کر تمام عجائبات دیکھے اور پھر اسکندریہ سے سیدھے بیٹھ کر بمبئی کی راہ لی۔ اس سیر سپاٹے میں اتنا روپیہ خرچ ہوا کہ ہم نے جو حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ بمبئی پہنچ کر ہمارے پاس بمشکل اتنا رہ جائےگا کہ گھر تک کے کرایے کے لیے کافی ہو سکے۔ لہٰذا یہ سوچا کہ بمبئی میں زیادہ قیام نہ کریں گے۔
(۱)
جہاز بمبئی پہنچا تو اترنے چڑھنے کے جھنجھٹ سے فارغ ہو کر ایک تھرڈ کلاس ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل پہنچ کر جیب سے روپیہ کا بٹوا جو نکالا تو غائب۔ ٹامس کک سے اپنا کل رپیہ خرچ کر کے قریب پینتیس روپے زائد لے چکے تھے اور اب اپنے پاس ایک کوڑی تک نہ تھی۔ خیال کیا کہ والد صاحب کو تار دے کر منگا لیں۔ ہوٹل کے مالک سے موٹر والے کا کرایہ دلوایا اور انہیں سے دام لے کر والد صاحب کو تار دیا کہ بمبئی آ گیا ہوں اور روپیہ کا بٹوا کھو گیا۔ براہ کرم پچاس روپیہ بذریعہ تار فوراً روانہ فرمائیے۔ وہاں والد صاحب کی بس جان ہی تو جل گئی، کیونکہ سو پونڈ کے علاوہ کرایہ وغیرہ بھی لے چکا تھا اور شام تک کچھ تار کا جواب نہ آیا۔ شام کو ٹہلنے چلا گیا۔ پاس کوڑی تک نہ تھی۔ کچھ جی الجھا سا رہا تھا۔ دیر تک سمندر کے کنارے بیٹھا رہا۔ یہی سوچا کیا کہ دیکھو تو والد صاحب کی کفایت شعاری کہ کسی بھائی کو بمبئی ہمیں لینے تک کو نہ بھیجا اور نہ کوئی رشتہ دار آیا اور پھر یہ کہ روپیہ تار سے منگوایا تب بھی نہ بھیجا۔
رات گئے ہوٹل واپس آیا۔ سر میں کچھ خفیف سا درد تھا۔ صبح آنکھ کھلی تو حرارت تھی۔ اس پر غلطی یہ کی کہ حسب عادت نہا لیا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے ہی تیز بخار آ گیا اور رات تک بخار کی تیزی میں بے ہوش سا ہو گیا۔ ہوٹل والے نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلواؤں، مگر جب میں نے کہا کہ ’’میرے پاس روپیہ نہیں ہے تو اس نے کہا کہ ہم روپیہ نہیں دے سکتے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’آپ ایک جوابی تار میری طرف سے والد صاحب کو اس پتے پر دے دیجیے اور اس میں لکھ دیجیے کہ میں بیمار ہوں۔ جلد سو روپیہ بھیج دیں۔‘‘ یہ تار دیا گیا۔ ادھر والد صاحب کا حال سنیے۔ تار جو پہنچا تو کہنے لگے کہ ’’یہ دیکھو ابھی تو تار دیا کہ بٹوا کھو گیا۔ اور اب یہ لکھتا ہے۔‘‘ جواب دیا کہ ’’روپیہ تو بڑی چیز ہے۔ ایک کوڑی نہ بھیجی جائےگی۔ خواہ آؤ خواہ بمبئی میں پڑے رہو۔‘‘
نہیں کہہ سکتا میرا کیا حال ہوا۔ یہ میں سوچ رہا تھا کہ اپنی ایک گھڑی فروخت کر دوں گا، لیکن بخار کی شدت نے یہ حالت کر دی کہ مجھے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ ہوٹل والے نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے خیراتی ہسپتال میں پہنچانے کی فکر کی۔ اسباب اپنے قبضے میں رکھ کر مجھے غشی کے عالم میں ہسپتال پہنچا دیا گیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کہاں تھا اور کہاں آ گیا۔ در اصل مجھے میعادی بخار ہو گیا تھا۔
(۲)
دوسرے دن رات بھر اتنا تو یاد ہے کہ نہ معلوم کیا بکا کیا۔ صبح کو ذرا طبیعت ٹھکانے جو ہوئی تو میں نے معلوم کیا کہ ہسپتال میں ہوں۔ جنرل وارڈ یعنی عام وارڈ میں ایک لوہے کے پلنگ پر ہسپتال کے کپڑے پہنے ہوئے پڑا تھا کہ اتنے میں ایک کم رو سانولے رنگ کی نرس آئی۔ اس نے حرارت وغیرہ دیکھی۔ میں نے اس سے اپنے آنے کی تفصیل دریافت کی۔ اس نے سب قصہ سنایا کہ کس طرح ہوٹل والے نے بھجوایا ہے۔ مجھے سخت غصہ آ رہا تھا اور میں نے بھی جھنجھلاہٹ میں طے کر لیا کہ اب والد صاحب کو کچھ نہ لکھوں گا۔ چنانچہ نرس سے میں نے کہا کہ ’’بڑی مہربانی ہو کہ اگر میرا اسباب ہوٹل سے منگا کر مجھے آپ بجائے خیراتی وارڈ کے پرائیویٹ وارڈ میں بھرتی کرا دیں اور یہ کہ میرے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ چاہتا ہوں کہ میرے بکس میں ایک سونے کی گھڑی کی زنجیر رکھی ہے۔ اس کو نکال کر کسی طرح فروخت کرادیں اور ہوٹل کا بل ادا کرا دیں اور بقیہ روپیہ میری دوا اور علاج پر پرائیویٹ وارڈ کا ایک الگ کمرہ لے کر خرچ کیا جائے۔‘‘
حالانکہ یہ اس کی ڈیوٹی نہ تھی، لیکن اس نے ہوٹل والے کو کہلا بھیجا اور میرا اسباب بھی آ گیا اور ہم پرائیویٹ وارڈ میں بھی آ گئے۔ اب میں نے غور کیا کہ اپنے بکس کی کنجی تو دی ہی نہیں تھی۔ زنجیر فروخت ہو کر یہ روپیہ کہاں سے آیا۔ نرس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ’’میں نے اپنے پاس سے دے دیا ہے۔ آپ اطمینان سے دے دیجیےگا۔‘‘ میں نے اس ہمدردی کا بہت شکریہ ادا کیا اور کنجی دے کر پھر تاکید کر دی کہ زنجیر نکلوا لیجیے۔ اس نےکنجی واپس کر دی اور کہا کہ ’’ابھی مجھ کو زنجیر کے فروخت کرانے کی فرصت نہیں ہے۔‘‘
جس کمرہ میں اب آیا۔ یہ ایک چھوٹا کمرہ تھا مگر بڑا صاف اور ستھرا تھا۔ نرس خاص طور پر تیمار داری کر رہی تھی، لیکن دو چار ہی روز میں مرض نے کچھ صورت ہی دوسری اختیار کر لی۔ مرض کا وہ زور ہوا کہ کروٹ لینا بھی ناممکن ہو گیا اور دو تین ہی روز میں غشی یا ہذیان کی حالت میں وقت گزرتا تھا، مگر نرس بیچاری دن رات ایسی تیمارداری کر رہی تھی کہ اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہم مر چکے ہوتے۔ دوا کے وقت دوا دینا اور غذا کے وقت غذا دینا، ضروریات کا خیال رکھنا اور بار بار گندے کپڑے بدلنا غرض ساری خدمت یہی انجام دیتی تھی۔ رات کو جب کبھی میری آنکھ کھلتی تو اس کو جھکا پاتا اور بڑی ہمدردی سے یہ حال پوچھتی اور پھر گھنٹوں سرد باتی اور بے کلی کو دور کرتی۔ اس حالت میں میں نے بار بار اس سے زنجیر کا تقاضا کیا، لیکن وہ ٹال ٹال دیتی تھی۔ میں نے کہا کہ ’’آخر یہ خرچ کہاں سے چل رہا ہے۔‘‘
اس کا نام میری تھا اور اس نے کہا، ’’میں نے اپنے پاس سے دیا ہے۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ میں خود آپ کی زنجیر خرید لوں گی۔‘‘
’’اسے ابھی نکالو۔‘‘ میں نے کرب کی حالت میں کہا، ’’ابھی نکالو، ابھی نکالو۔‘‘
میری نے کنجی لی اور بکس کھول کر زنجیر نکالی۔
’’یہ کتنے کی ہوگی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
میری نے مسکرا کر کہا، ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ جتنے میں آپ نے خریدی ہے آپ مجھے دے دیجیے۔‘‘
میں نے کہا، ’’سسٹر تم کیوں اتنے دام دو، جتنی قیمت لگے، اتنی دے دو۔‘‘
’’مگر مجھ کو تو فرصت نہیں کہ خود لے جاکر اس کی قیمت معلوم کروں اور دوسرے پر مجھے اعتبار نہیں۔ جتنے میں آپ نے خریدی ہے۔ اتنے دام مجھ سے لے لیجیے اور اگر اس سے کم کی ہو تو بعد میں مجھے واپس کر دیجیےگا۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ میرے پاس آئی اور اس نے میرے ماتھے پر سے بال ہٹاتے ہوئے کہا، ’’آپ متفکر نہ ہوں۔ آپ کو باتیں نہ کرنا چاہیے۔‘‘ اس کی ہمدردی کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور کہا، ’’روپوں کے حساب سے میں نے تین سو میں لی تھی۔ تم کو دو سو میں دے دوں گا۔ اگر اس سے کم دام لگیں گے تو واپس کر دوں گا۔‘‘
’’مجھے منظور ہے۔ میں نے لے لی۔ اب تم خاموش ہو جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے زنجیر اپنی جیب میں رکھ لی اور کہا، ’’میں تمہارے اخراجات کا حساب رکھتی جا رہی ہوں۔ جتنا کچھ بچے گا۔ وہ تمہیں واپس کر دوں گی۔ اب تو تم بات نہ کرو۔‘‘
میں کچھ بولنے ہی کو تھا کہ اس نے میرے منہ کو آہستہ سے اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور مسکرا کر کہا، ’’تم اچھے مریض ہو۔ بس بات نہ کرو۔ چپ ہو جاؤ۔‘‘ میں چپ ہو گیا۔ بخار بے چین کر رہا تھا اور میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھا کر پکڑ لیا اور اس کو دیر تک اپنے بائیں ہاتھ میں دابے رہا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ میری پیشانی اور سر سہلاتی رہی اور میں سو گیا۔
(۳)
رات کو عجیب حال ہوا۔ بےہوشی کی حالت میں نہ معلوم کتنی دیر ہذیان کی سی حالت رہی۔ اتنا خیال ہے کہ بار بار میں اٹھتا تھا اور میری اور ایک اور نرس پکڑ پکڑ کر رکھتی تھیں۔ آج بجائے ایک کے دو نرسیں تھیں۔ میری کی ڈیوٹی ختم ہو جاتی تھی، مگر جب بھی وہ نہ جاتی تھی۔ بخار کی تیزی میں یہ دونوں پکڑ پکڑ کر لٹاتی تھیں۔ کبھی ہوش سا آ جاتا تھا اور کبھی پھر وہی بیہوشی اور بکنا اور اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرنا۔ ایک دم سے زور دے کر میں اٹھ بیٹھا کہ میری نے سنبھال کر لٹایا۔ وہ پٹی پر بیٹھی ہوئی تھی تاکہ میں اٹھنے نہ پاؤں۔ اس نے چارپائی کی دوسری پٹی پکڑ رکھی تھی اور خالی ہاتھ سے وہ میرا ماتھا صاف کر رہی تھی۔ دوسری نرس نے کپڑا برف میں بھگو کر سر اور پیشانی پر رکھ دیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک دم سے دماغ میں ٹھنڈک سی پہنچی۔ آنکھیں تھوڑی دیر میں کھل سی گئیں۔ میری بدستور پٹی پکڑے ہوئے میرا سیدھا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں ایسے لیے بیٹھی تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ میرے اوپر سے گزر کر پٹی پکڑے ہوئے تھا۔ فی الفور دوسری نرس نے کوئی دوا مجھ کو دی۔ جو میں نے ہوش میں پی لی۔ ذرا دیر بعد وہ نرس میری سے یہ کہہ کر چلی گئی کہ ’’دیکھو یہ اٹھنے نہ پائیں۔ برابر موجود رہنا اور سر کا کپڑا ٹھنڈا کر کے بدلنا۔‘‘
یہ دوا شاید نیند لانے کے لیے دی گئی تھی۔ تھوڑی سی دیر میں نیند کا غلبہ سا ہونے لگا۔ میری اس طرح جھکی ہوئی میری آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا سر بالکل سینے پر تھا۔ وہ شاید یہ دیکھ رہی تھی کہ میں آیا سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں۔ میں نے ذرا آنکھیں کھولیں تو اس نے آہستہ سے کہا، ’’سو جاؤ۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ سے میری آنکھیں ڈھک دیں۔ شاید میں فوراً ہی سو گیا ہوں گا۔
ابھی صبح نہ ہوئی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ میری اسی طرح بیٹھی تھی، مگر اس کا سر میرے سینہ پر ٹھوڑی کے پاس ہی رکھا تھا اور وہ غافل سو رہی تھی۔ کئی دن سے برابر جاگ رہی تھی اور آج تو رات بھر اسی طرح اس کو گزر گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹھے بیٹھے اس کو نیند آ گئی اور سر وہیں کا وہیں گر گیا۔ بخار اب بھی مجھے تیز تھا۔ مگر نیند لینے سے اور سر پر برف رکھنے سے ضرور اچھا اثر ہوا تھا۔ میں نے ہمدردی سے اس غریب کے چہرے کو دیکھا اور دل میں میں نے اس کی تیمارداری اور محنت کا اعتراف کیا۔ بوجہ کمزوری کے اور بخار کی تکلیف کے در اصل اس کے سر کا بوجھ میرے سینہ پر سخت گراں گزر رہا تھا، مگر میں چونکہ اس وقت بالکل ہوش میں تھا۔ لہٰذا میرا جی نہ چاہتا تھا کہ اس غریب کو آنکھ جھپکانے کا آرام بھی نہ لینے دوں۔
جو شخص رات دن جاگتا رہے، اس کو تو سولی پر بھی نیند آ جاتی ہے نہ کہ ایسے موقع پر۔ میں نے اس کو رہنے دیا، لیکن نہیں بیان کر سکتا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میرا تکلیف کے مارے کیا حال ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ در اصل اس کو تھوڑی ہی دیر ہوئی ہوگی اور میری آنکھ بھی قبل از وقت شاید اس کے سر کے بوجھ سے گھبرا کر کھل گئی۔ قصہ مختصر وہ بیچاری کچھ آرام نہ کرنے پائی اور مجبور ہو کر میں نے ارادہ کیا کہ اس کو جگا دوں، مگر کس طرح جگاؤں۔ بہتر صورت یہ معلوم ہوئی کہ تھوڑا سا کلبلانا چاہیے۔ چنانچہ یہی کیا مگر وہ تو گویا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی کیونکہ اس کو کئی دن سے متواتر سونا ہی نہ ملا تھا۔ جو وقت اس کی ڈیوٹی سے الگ ملتا تھا، وہ میری تیمارداری میں صرف کر دیتی تھی، جب مجھے زیادہ بے چینی ہوئی اور برداشت نہ ہو سکی تو میں نے آہستہ سے اپنا سیدھا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور اس کو ذرا سا اوپر کو کیا، مگر وہ بے طرح غافل تھی۔ تکلیف سے پریشان ہوکر آخر کو میں نے اسی طرح اسے ہوشیار کیا۔ وہ ایک دم سے چونک پڑی اور گھبراہٹ اور جلدی میں کہنے لگی،
’’میں سو گئی۔ مجھے نیند آ گئی۔ معاف کیجیےگا۔‘‘ وہ کچھ شرمائی ہوئی سی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور پھر میرا ہاتھ اور ماتھا دیکھ کر کہا، ’’آپ کو نیند آرہی ہو تو سو جائیے۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے اس بدتمیزی سے سوکر آپ کو جگا دیا۔ آپ کو اس سے بہت تکلیف پہنچی، معاف کیجیےگا۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں مجھ کو کوئی خاص تکلیف نہیں پہنچی۔‘‘ میری نے پھر کہا، ’’کیا بتاؤں میری آنکھیں نیند کی وجہ سے درد کر رہی تھیں اور مجھے پتہ بھی نہیں کہ کب میرا سر آپ کے اوپر گر گیا۔‘‘
’’آپ جا کر سو رہیے۔ میری طبیعت بہت ہلکی ہے۔‘‘ میں نےآرام کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’اس پر لیٹ جائیے۔‘‘ وہ آرام کرسی کی طرف چلی اور مسکرا کر کہنے لگی، ’’آپ اٹھ کے تو نہیں بھاگیں گے؟ رات کو آپ نے بہت کوشش کی ہے، مگر شکر ہے کہ آج آپ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے شکریے کے لہجے میں کہا، ’’خدا آپ کو اس ہمدردی کا نیک بدلہ دے، جو آپ نے میرے ساتھ کی ہے اور کر رہی ہیں۔‘‘
’’جو آتا ہے ہمیں دعائیں دیتا ہے۔ آپ اب خاموش ہو جائیے۔‘‘
مجھ کو واقعی کچھ تکان سی معلوم ہو رہی تھی اور میں دل میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ میں تجھے کوری دعائیں نہیں دوں گا۔ پانچ سو روپیہ بھی تیری ہمدردی کے صلہ میں دوں گا۔ میں نے دل میں پھر سوچا واقعی دنیا بھی کیا ہے۔ نقد کوئی نہیں دیتا اور صرف دعائیں دے کر اور زبانی جمع خرچ کر کے چلے جاتے ہیں۔ دوسرے روز طبیعت میں کچھ سکون تھا، مگر جوڑ جوڑ میں اور سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا۔ میری نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا اور کہا، ’’شکر ہے کہ بخار آج آپ کو کم ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کتنا ہے؟‘‘ میری نے مسکرا کر کہا، ’’مریض کو یہ باتیں بتائی نہیں جاتیں، ڈاکٹر صاحب کی سخت تاکید ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سرہانے سے نقشے کی تختی لی اور اس پر اندراج کیا۔ اور پھر کہا، ’’آج آپ کی طبیعت بہت اچھی ہے۔‘‘ میں نے کمزور آواز میں کہا، ’’میں بدن کے درد کے مارے مرا جا رہا ہوں۔‘‘
’’کیا زور سے ہو رہا ہے؟‘‘ میری نے پوچھا۔
’’زور سے نہیں ہو رہا ہے بلکہ میٹھا میٹھا درداس طرح ہو رہا ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتا اور خاص کر ہاتھ پیروں میں۔‘‘ یہ سن کر وہ قریب آ گئی اور میرا ہاتھ لے کر انگلی کے پوروں سے آہستہ آہستہ انگلیوں کو اس طرح بازو اور ہاتھوں پر چلاتے ہوئے کہا جیسے کہ کوئی ہارمونیم کو دھیرے دھیرے ذرا دباؤ سے بجائے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ سہلا کر مالش سی کرتی رہی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر پائنتی کی طرف گئی اور میرے پیروں کو دبانا چاہا۔ میں نے فوراً اپنا پیر گھسیٹ لیا اور کہا، ’’نہیں نہیں سسٹر یہ نہیں ہوگا۔‘‘ پاؤں کھینچنے سے اس کو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور اس نے بیٹھتے ہوئے کہا،
’’آپ کے ساتھ کچھ مجھے خصوصیت نہیں ہے۔ مریض کی تکلیف ڈاکٹر اور نرسوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ مجھے اپنی تکلیف میں کمی محسوس ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پاؤں آہستہ سے گھسیٹ کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ حالانکہ میں برابر نہیں نہیں کرتا رہا، مگر اس نے ایک نہ سنی اور بڑی دیر تک باوجود میرے مسلسل اور بار بار کے اعتراض کے اسی طرح میرے پیر بڑی محنت اور ہمدردی سے دابا کی، حتی کہ مجھے نیند آ گئی۔ اس کے بعد اس کا روز کا دستور ہو گیا کہ میرے ہر طرح سے منع کرنے پر بھی وہ میرے ہاتھ اور پیر برابر دابا کرتی اور میں دل میں یہی سوچتا کہ پانچ سو روپے اس کی محنت کا صلہ کم ہوں گے، لہٰذا اپنی سونے کی گھڑی بھی دوں گا۔
(۴)
اس بیماری سے مجھے یہ پتہ چلا کہ گھر پر علاج کرانےاور اسپتال میں رہ کر علاج کرانے میں کیا فرق ہے۔ وقت پر دوا اور وقت پر نپی تلی غذا، نہ زائد نہ کم اور پھر وقت مقررہ پر علاوہ اس کے سخت بیماری کی حالت میں بھی روزانہ وقت مقررہ پر غسل اور پھر صفائی، یہ چیزیں ایسی تھیں کہ دوا بھی ان کے آگے کوئی چیز نہیں۔ پھر اس پر تیمارداری۔ غرض بخار جاتا رہا اور محض کمزوری ہی رہ گئی۔ اس حالت میں اگر وقت مقررہ پر پاخانہ نہ آتا تو فوراً اس کی تدبیر ہوتی۔ دن میں چار مرتبہ چڑیا کی سی غذا ملتی تھی اور ہر وقت بھوک لگی رہتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ بھوک سے آدمی تندرست ہو سکتا ہے مگر مر نہیں سکتا۔ یہ کہتے تھے اور ستم یہ کہ اس پر عمل کراتے تھے۔ میری اسی طرح میری خدمت کر رہی تھی۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میری میرے ہاتھ کی انگلیاں داب رہی تھی کہ اتنے میں اسٹاف نرس آگئی۔ میری اٹھنے لگی تو اس نے اشارہ سے منع کیا کہ بیٹھی رہو۔ بڑے اخلاق سے اس نے میرا سب حال پوچھا اور پھر مذاق کی باتیں ادھر ادھر کی کرتی رہی۔ میری نے لیمونیڈ اور برف کا گلاس دیا۔ وہ برف ہلا ہلا کر پیتی جا رہی تھی اور باتیں کرتی جا رہی تھی۔ ہوتے ہوتے میں نے میری کی ہمدردی اور تیمارداری کا قصہ چھیڑ دیا۔ اسٹاف اسی طرح ہنس ہنس کے باتیں کرتی جاتی تھی کہ بولی، ’’میری! یہ مریض بھی تمہارا کہیں ویسا ہی نہ نکلے۔‘‘ میری نے اسٹاف کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا۔ پھر نظر الگ کرلی اور کچھ نہ بولی، لیکن کچھ بے چین سی ضرور معلوم ہوئی کہ اسٹاف نے پھر کہا کہ ’’میری! کیوں! بولتی کیوں نہیں۔ کہیں یہ مریض بھی ویسا ہی نہ نکلے۔‘‘
میں نے کہا، ’’کیسا؟‘‘ اسٹاف میری کی طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی اور اس نے مجھ سے اشارہ کر کے کہا، ’’میری سے پوچھو۔ میری سے پوچھو۔‘‘
’’کیوں سسٹر کیسا مریض۔ اس سے مطلب کیا ہے؟‘‘ میں نےمیری سے دریافت کیا۔ اسٹاف نے گلاس کو الگ رکھتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا، ’’شرما گئی، میری شرما گئی۔ یہ مریض ویسا نہیں ہے۔ میری ہر مریض کی بڑی خدمت کرتی ہے اور انہیں بھولتی بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کو خطوں۔۔۔‘‘
میری نےکہا، ’’خدا کے الیے اسٹاف صاحبہ رہنے دیجیے۔ آپ کیوں مجھے۔۔۔‘‘
’’اچھا میں جاتی ہوں۔ میں جاتی ہوں۔‘‘ اسٹاف نے کہا۔ وہ کھڑی ہوئی اور میری کے گال پر محبت میں ہلکے سے دو انگلیوں سے طمانچہ مار کر کہا، ’’بے وقوف لڑکی۔‘‘ یہ کہہ کر اسٹاف چلی گئی۔ میری نے جاتی ہوئی اسٹاف کو دیکھا۔ پھر دوسری طرف منہ کر لیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے آخر اور مریض کیسے تھے۔ تاکہ میں اندازہ لگا سکوں کہ میں خود کیسا ہوں۔ میں نےمیری سے کہا، ’’سسٹر سسٹر۔‘‘ اس نے جھٹ سے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے کہا،
’’کہیے! کیا ہے؟‘‘ میں نے اس غریب کو غور سے دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کچھ آنسو پونچھ ڈالے اور بقیہ ضبط کر لیے۔ مجھے اپنے ہمدرد کواس طرح غمناک دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔ میں نے متاثر ہو کر کہا۔ ’’سسٹر یہاں آؤ۔ تم کچھ رنجیدہ معلوم ہوتی ہو۔‘‘ وہ کچھ نہ بولی اور اسی طرح گردن نیچی کیے بیٹھی رہی کہ میں نے پھر کہا، ’’سسٹر یہاں بیٹھو۔‘‘ وہ آکر کرسی قریب کر کے بیٹھ گئی۔ وہ بےحد مغموم معلوم ہوتی تھی۔ میں نےاس کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، ’’کیا بات تھی۔ اسٹاف کیا کہہ رہی تھی؟‘‘
’’کچھ نہیں وہ مذاق کرتی رہتی ہیں۔‘‘ میری نے کہا۔ میں نے اس کا ہاتھ دبا کر کہا، ’’شاید یہ مذاق نہیں تھا۔ یہ تو کچھ اور تھا۔ آخر میرا ذکر کیوں آیا۔ میں ویسا نہیں ہوں جیسے تمہارے پہلے مریض تھے۔ اس سے کیا مطلب؟ وہ کیسے تھے اور کون تھے؟‘‘
’’آپ رہنے دیجیے۔‘‘ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر میری نے کہا، ’’میں فلک کی ستائی ہوئی ہوں، نہیں آپ ویسے ہرگز نہیں ہیں۔ آپ تو بہت شریف اور اچھے آدمی ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بےایمان اور دغاباز تھے۔‘‘ میری نے کچھ رک کر کہا۔
’’کیا بے ایمانی کی؟‘‘
’’نہیں کچھ بےایمانی نہیں کی۔ ان کی کچھ خطا نہیں۔ میری قسمت ہی ایسی ہے۔‘‘ میری نے درد بھری آواز میں کہا۔ میں اس غریب کی شکل دیکھ رہا تھا۔ وہ رنج و غم کی تصویر ہو رہی تھی۔ میں نے متعجب ہو کر کہا، ’’آخر معاملہ کیا ہے؟ شاید۔۔۔ انہوں نے آپ سے وعدہ خلافی۔۔۔‘‘
’’اور پھر مجھ سے معافی مانگ کر شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔‘‘ میری نے کہا۔
’’سسٹر تم میری ہمدرد ہو اور میں تم سے ہمدردی کروں گا کیونکہ در اصل تم نے ہی میری جان بچائی ہے۔ میرا خیال ہے تم بتا دوگی۔ کیا سب نے ہی ایسا کیا؟‘‘
’’جی ہاں تین آدمیوں نے۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ میں بدصورت ہوں اور کالی ہوں اور غریب ہوں اور آگے پیچھے میرے اس دنیا میں کوئی نہیں جو مجھ سے ہمدردی یا اخلاص سے پیش آئے۔‘‘
’’تم بدصورت ہرگز نہیں ہو اور نہ کالی ہو۔‘‘ میں نے اخلاقاً کہا، ’’سسٹر یہ تم سے کس نے کہا۔ تم تو بہت اچھی لڑکی ہو۔‘‘ میرے ہاتھ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ اپنا اور میرا ہاتھ اسی طرح میرے سینہ پر رکھ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ کیا مطلب ہے، لیکن پھر میں نے کہا، ’’سسٹر تم سے کس نے کہا کہ تم بدصورت ہو۔‘‘
اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ نظر نیچی کیے مغموم سی بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی انگلیاں میری انگلیوں میں سے نکالتے ہوئے کہا، ’’مجھے جانے دیجیے۔‘‘ اور یہ کہہ کر کھڑی ہوگئی۔ میں نے جھٹ سے ہاتھ پکڑ کے پھر اسی طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور کہا، ’’نہیں تم بیٹھو۔‘‘ اس نے میری طرف سے پیٹھ موڑ لی اور بایاں ہاتھ اپنے منہ پر لے گئی۔
’’ارے یہ کیا۔ یہ کیا! سسٹر تم کیوں مغموم ہو۔ یہ کیوں؟‘‘ یہ کہہ کر میں نے اس کو اپنے برابر پلنگ پر بٹھا لیا اور وہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھی۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ منہ پر سے ہٹانے کی کوشش کی اور ہمدردی سے کہا، ’’تم کیوں رنج کرتی ہو۔ تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘ اس نے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے کہا، ’’میرا دل کٹا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے مجھے اس وقت چلا جانے دیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔ میں نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ اس کو روکوں۔ وہ سیدھی اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی۔
میں اب دل ہی دل میں اس غریب لڑکی کی حالت پر غور کر رہا تھا۔ اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا۔ جن کے ساتھ اس نے ہمدردی کی تھی، انہوں نے خواہ مخواہ اس کو دھوکہ دے کر اس کا دل توڑ دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی میں دنیا میں سب سے بدصورت لڑکی ہو ں اور مجھ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کس طرح اس نے میری خدمت کی تھی۔ میں نے غور کیا کہ کس طرح دن اور رات اس نے میرا پیشاب اور پاخانہ اٹھایا اور کس طرح لونڈیوں کی طرح میری خدمت کی۔ یہ سب اس کی سرشت میں داخل تھا۔ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کر چکی تھی جس کا اس کو کیا کچھ صلہ مل چکا تھا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نرسوں کے وارڈ کی خادمہ آئی اور اس نے مجھے دو خط دیے کہ یہ مس صاحبہ نے دیے ہیں۔ میں نے خط لیتے ہوئے کہا، ’’وہ کیا کر رہی ہیں؟‘‘
’’وہ تو بڑی بری طرح سے رو رہی ہیں اور اپنے بستر میں منہ دیے ہوئے بیٹھی ہیں۔‘‘
’’کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے ہنس کر کہا، ’’آپ کو نہیں معلوم؟ وہ تو اکثر رویا کرتی ہیں۔ ان کی شادی دو تین جگہ لگ لگ کر چھوٹ گئی ہے اور ان کی ساتھ والیاں سب یہی کہہ کے انہیں چھیڑتی ہیں کہ اب تیری شادی کہیں نہ ہوگی اور تو کالی اور بدصورت ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مذاق میں کہتی ہوں گی۔‘‘
’’جی ہاں! مگر ان کو خواہ مخواہ دق کرنے سے انہیں سب باتیں یاد آجاتی ہیں کہ کس طرح انہیں کئی دفعہ دھوکا ہوا۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح ایک مریض آیا اور اس کی انہوں نے خدمت کی اور کس طرح خود ہی اس نے ان سے شادی کی درخواست کی اور پھر کس طرح ان کی ایک دوسری نرس دوست سے اس نے ان کو چھوڑکر شادی کر لی۔ ایک اور بھی شخص آیا جس کو انہوں نے مصیبت کے وقت روپیہ پیسہ بھی دیا اور پھر اس نے بھی چھوڑ دیا اور پھر ایک اور آیا جو عرصے تک خط و کتابت کرتا رہا اور پھر اس نے بھی وعدہ خلافی کی۔
وہ یہ بیان کر کے چلی گئی۔ میں خط پڑھنے لگا۔ ایک تو بہن کا تھا جس میں یہ سب لکھا تھا کہ کس طرح والد صاحب خفا ہیں کہ پہلے تو یہ بہانہ کیا کہ بٹوا کھو گیا اور پھر یہ بہانہ کیا کہ بیمار ہو گیا۔ یہ خط میری بیماری کے زمانے میں آئے تھے اور ڈاکٹر صاحب کے حکم سے کھول کر پڑھ لیے گئے تھے، لیکن مجھے اب ملے تھے۔ کیونکہ بیماری کے زمانے میں خط مریض کو نہیں دیتے۔ میں نے بھی دل میں کہا کہ نہ بھیجیں خرچ۔ میں بھی اب کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے گھر نہ جاؤں گا۔ تھوڑی دیر اپنی حالت پر غور کرتا رہا اور پھر میری کی حالت پر غور کرتا رہا۔ پھر سو گیا۔
(۵)
میں سو کر اٹھا ہی تھا کہ میری پہنچی۔ اس کے چہرے سے بشاشت ٹپک رہی تھی۔ اس نے آتے ہی مزاج پوچھا اور میرا منہ دھلانے کے لیے جگ اور صابون اٹھایا۔ میں منع کرتا رہا مگر وہ نہ مانی۔ میں نے ہاتھ منھ دھویا۔ پھر باتیں کرنے لگا۔ وہ اس وقت بہت خوش تھی۔ کرسی گھسیٹ کر بالکل میرے پلنگ کے قریب بیٹھ گئی اور میری انگلیاں چٹخا کر باتیں کر رہی تھی۔ کہنے لگی، ’’تم اب کل پرسوں تک کسی پہاڑ پر جانے کا انتظام کرلو۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم سب قصہ سن ہی چکی ہو۔ میرے پاس روپیہ ہی نہیں ہے۔ زنجیر کے روپوں میں سے ساٹھ روپیہ تم نے کہا تھا اور رہ گئے ہیں۔‘‘
’’مگر تمہاری تندرستی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔‘‘ میری نے کہا۔
’’مگر مجبوری ہے بلکہ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ گھر تو جاؤں گا نہیں۔ آخر کہاں جاؤں اور کیونکر خرچ چلےگا۔‘‘
میری نے کہا، ’’تم ضرور پہاڑ پر جاؤ۔ روپیہ مجھ سے لے لینا۔ پھر جب ہو تو دے دینا۔‘‘
میں نے متحیر ہو کر شکریہ کے لہجہ میں کہا، ’’سسٹر تم کیسی باتیں کرتی ہو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ میری نے کہا، ’’تم پھر واپس کر دینا۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے تم بڑی روپے والی ہو۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’میرے پاس تیرہ سو روپیہ ہے۔‘‘ میری نے بھی مسکراکر کہا۔ میں نے کہا کہ ’’میں روپیہ لے کر تمہارا غائب ہو جاؤں تو کیا کروگی؟‘‘
’’کچھ پروا نہیں۔‘‘ میری نے کہا، ’’تم سے بدتر لوگ لے کر چلے گئے۔ نہیں تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’تم کو کیا خبر میں کیسا ہوں؟‘‘
’’میرا دل گواہی دیتا ہے۔‘‘ میری نے کہا، ’’تم ضرور مجھ سے روپیہ لے لو۔ تمہاری تندرستی کے لیے ازحد ضروری ہے۔‘‘ میں اس غریب کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہے، واقعی دل سے کہہ رہی ہے۔ وہ پھر بولی، ’’بولو کچھ ہرج ہے؟ میں نے تمہاری وہ تیمارداری کی ہے کہ بس میں ہی جانتی ہوں اور اگر تم بالکل تندرست نہ ہوئے تو میری محنت ادھوری رہ جائےگی۔ تم کو لینا پڑےگا۔‘‘
’’ایک شرط پر۔‘‘ میں نے میری سے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’وہ یہ کہ تم کو دوگنا واپس لینا پڑےگا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مجھے منظور ہے۔ اب بولو؟‘‘
’’مجھے بھی منظور ہے۔ مگر یاد رکھنا میں مذاق نہیں کرتا۔‘‘
’’میں نے پانچ سو روپیہ ڈاک خانہ سے کل ہی نکلوا کر رکھ لیا ہے۔ لے آؤں؟‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑی ہوئی گئی اور میں اس کو روکتا ہی رہا۔ ذرا دیر بعد وہ آ گئی اور نوٹ میرے ہاتھ میں دے دیے۔ میری کی اس وقت عجیب حالت تھی۔ مجھ کو اول تو سخت شرمندگی سی تھی اور پھر نہ معلوم کس سوچ میں تھا۔ وہ اسی طرح بیٹھ گئی۔ میں نے سنجیدگی سے اس سے کہا کہ ’’تم نے اس خوفناک مرض سے میری جان بچائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے شکریے کے طور پر اس کا ہاتھ دبایا اور دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور کہا، ’’اور پھر اتنا روپیہ دے رہی ہو، میں قسم کھا کر کہتا ہوں۔ اس کا دوگنا تم کو لینا پڑےگا۔‘‘
’’میں نے کہہ دیا نا کہ میں لے لوں گی۔ بس اب جھگڑا کیا رہا؟‘‘ میری نے مسکرا کر کہا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سوچ بول رہی ہے اور لے لے گی۔ میں نے میری سے اس کا ہاتھ پکڑ کر غور سے اس کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میری! خفا تو نہیں ہوگی۔ ایک بات کہتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم سے جو شادی کرےگا وہ بڑا خوش قسمت ہوگا۔‘‘
’’آپ اس کا ذکر نہ کیجیے۔‘‘ میری نے ایک دم سنجیدہ ہو کر مغموم لہجہ میں کہا۔
’’آخر کیوں؟‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’آخر کیوں؟ بتاؤ تو سہی۔‘‘
میری نے پھر مغموم ہو کر کہا، ’’آپ خود جانتے ہیں۔‘‘
’’بیوقوف لڑکی۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم کیوں مغموم رہتی ہو، تم یہ سمجھتی ہو کہ کیا اب تم سے کوئی شادی نہ کرےگا؟‘‘
’’میں اس لیے ہرگز مغموم نہیں رہتی۔ آپ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ میں تو یہ کہتی ہوں کہ میرا کوئی نہیں ہے جو میر خوشی اور غم کا شریک ہو۔‘‘ یہ کہنے میں اس کی آواز کچھ بیٹھ سی گئی۔ میرا دل پسیج گیا اور میں نے کہا، ’’میری اگر دنیا میں تمہارا کوئی نہیں تو میں آج سے تمہارے لیے موجود ہوں۔ تم مجھے اپنا سمجھو۔ بولو مجھے اپنا سمجھوگی۔ تم آج سے میری ہو جاؤ۔‘‘ وہ پھر کچھ نہ بولی۔ بلکہ میری طرف عجیب معصومیت سے دیکھنے لگی۔ اس کی نظریں کہتی تھیں کہ وہ دل میں کہہ رہی تھی کہ میں اس کو دفع الوقتی کے لیے خوش کر رہا ہوں۔ میں دل کی بات سمجھ گیا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف گھسیٹ کر آہستہ سے اس کے کان کے پاس اپنا منہ کر کے کہا، ’’میری تم مجھ سے شادی کر لو تو میری قسمت بن جائے۔‘‘
وہ ایک دم سے چونک سی پڑی اور کہنے لگی، ’’نہیں نہیں۔ تم ضرورت سے زیادہ اچھے ہو۔ تم سے میں دوستی منقطع نہ کروں گی۔‘‘ میں نے اور متاثر ہو کر کہا، ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میری میں سچ کہتا ہوں۔ تم نے میری جان بچائی ہے اور ایسی خدمت کی ہے کہ مجھے زر خرید بنا لیا ہے۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا اور کبھی دل میلا نہ ہونے دوں گا۔‘‘
’’نہیں نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ میری نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’تم مجھے چھوڑ دوگے۔‘‘
’’ہرگز نہیں بلکہ۔۔۔‘‘
’’تمہارے ماں باپ چھڑا دیں گے۔ نہیں میں ایسا یقین نہیں کرتی۔ تم میرا دل نہ دکھاؤ۔ بس میرے ہمدرد دوست رہو۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں چاہتی۔‘‘ میں پریشان سا ہو گیا اور بےتاب ہوکر میں نے اس کو اپنی طرف کر کے کہا، ’’کیوں مجھے دیوانہ کیے دیتی ہو۔ میں بغیر تمہارے زندہ نہیں رہ سکتا اور۔۔‘‘
’’خدا کے واسطے!‘‘ اس نے کھڑے ہوکر کہا، ’’میرے زخمی دل کو مت چھیڑو۔۔۔ اچھا تم پہلے خوب سوچ لو اور مجھے اس وقت جانے دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر سیدھی چلی گئی اور مجھ کو ایک عجیب حال میں چھور گئی۔ میں واقعی اس کم رو لڑکی کے لیے اپنے دل میں ایک عجیب جگہ محسوس کر رہا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر اس نےانکار کر دیا تو میری زندگی تلخ ہو جائےگی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ اسٹاف آئی اور اس نے مجھ سے کہا، ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘
’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا۔ اسٹاف نے مسکرا کر کہا، ’’میری رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میری قسمت خراب ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟ آخر کچھ تو کہیے۔‘‘ اسٹاف نے مسکرا کر کہا، ’’وہ کہتی ہے کہ یہ مریض بھی ویساہی نکلا اور ویسی ہی باتیں کرتا ہے۔‘‘ میں نے کچھ جھنجھلا کر کہا، ’’ان کا خیال غلط ہے۔‘‘ اسٹاف نے کہا، ’’مسٹر آپ برا نہ مانیےگا۔ بہتر ہے کہ آپ اس قسم کی باتیں نہ کریں۔ کیا آپ واقعی اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا محض اس کو چھیڑ کر کھلونا بنا رہے ہیں؟‘‘ میں نے کچھ برا مان کر کہا، ’’آپ میری محسنہ ہیں اور آپ مجاز ہیں کہ جو کچھ بھی سخت و سست الفاظ چاہیں مجھے کہہ لیں۔‘‘
’’تو پھر آپ کو چاہیے کہ آپ شریف آدمی کا سا وعدہ کریں نہیں، بلکہ کل ہی اس سے باضابطہ نکاح کرلیں ورنہ خواہ مخواہ اس کو۔۔۔‘‘
’’میں ابھی تیار ہوں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کو یا ان کو خواہ مخواہ میری طرف سے شک ہوا۔‘‘
اسٹاف نے کہا، ’’آپ بے انصافی کر رہے ہیں۔ میرا یا اس کا شبہ حق بجانب ہے۔ دراصل وہ ایک بہت غریب لڑکی ہے جس کے پاس خوبصورتی نہیں۔ لہٰذا جب آپ کا سا شخص اس سے کہے تو ضرور وہ یہی سمجھے گی کہ خواہ مخواہ کا اس سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ بھگتے ہوئے ہے اور اس کو تجربہ ہے۔‘‘
’’ٹھیک، ٹھیک، ان کا شبہ حق بجانب ہے۔ مگر میں آپ سے بالکل صحیح عرض کرتا ہوں کہ مجھے خوبصورتی یا حسن قطعی درکار نہیں۔ مجھے وہ بے حد پسند ہے۔‘‘
’’میں ابھی جاکر بھیجتی ہوں۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔
(۶)
’’میری! یہاں آؤ۔‘‘ میں نےاسے دروازے پر دیکھ کر کہا۔ وہ آئی اور میں نے اس کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ ’’میں تمہیں بھلا دھوکا دوں گا۔ بولو کیا میں تمہیں دھوکا دوں گا؟‘‘ میں نے بااصرار پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’پھر مجھ سے شادی کرنے میں تمہیں کیوں انکار ہے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ میں غریب ہوں۔ آپ امیر ہیں۔ میں کالی ہوں۔ بدصورت ہوں اور آپ کو خدا نے روپیہ پیسہ شکل اور صورت۔۔۔‘‘ میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور کہا، ’’خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو، میں تم کو اپنی آنکھوں پر رکھوں گا، کبھی تم کو رنج نہ پہنچاؤں گا اور ہمیشہ تمہاری خدمت کروں گا۔‘‘ وہ رو رہی تھی۔ میں نے اس کو گلے سے لگا لیا اور ہزاروں قسمیں کھا کھا کر اس کو خوشامد سے خاموش کر کے راضی کیا۔
(۷)
میری سے شادی کرنے کے بعد میں کوہ آبو گیا۔ وہ بھی ساتھ تھی۔ قسمت کی خوبی دو مہینے کے اندر ہی اندر ریلوے انجینئرنگ محکمہ میں مجھ کو ملازمت مل گئی۔ گھر بھی جانا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اور والد صاحب سے بھی ملنا ہو گیا، مگر ایک مصیبت درپیش ہے۔ دنیا کے زور پ ڑچکے اور پڑ رہے ہیں کہ میری کو چھوڑ دو۔ والدہ صاحبہ سے بات چیت ہوکر خاتمہ رسید ہوا کہ ’’مجھے دوزخ میں جانا منظور ہے اور آپ کے سب احکام منظور ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری چھوٹ جائے۔‘‘ والدہ صاحبہ خفا ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ تیرا منہ اس وقت تک نہ دیکھوں گی جب تک کہ اس عیسائی لڑکی کو چھوڑ کر دوسری جگہ نہ شادی کرےگا، جہاں وہ طے کر چکی تھیں۔
یہ سب کچھ ہے مگر میرا خیال ہے کہ اگر میری سی بیوی مجھ کو نہ ملتی تو میری زندگی ہیچ ہوتی۔ جو خدا کو اپنے بندوں کی عبادت سے لطف آتا ہوگا وہ مجھ کو اپنی بیوی کی خدمت اور محبت سے حاصل ہے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہو کہ خدائے مجازی کون ہے تو وہ مجھے اور پھر میرے پرستار کو دیکھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.