کہانی کی کہانی
انسانی فطرت میں انتقام و حسد کے جذبے اور اس کی زہرناکی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ رام سوارتھ پرساد سیدھے سادے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر اور ایک گاؤں کے پردھان تھے، جو اپنی اصول پسندی کی وجہ سے ایک غربت زدہ زندگی گزارتے تھے۔ ایک دن جنگل میں ان کو ترچھ نے کاٹ لیا، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا کاٹا ہوا بچتا نہیں ہے۔ رام سوارتھ کو پنڈت رام اوتار نے زہر کے تریاق کے طور پر دھتورے کے بیج ابال کر پلا دیے تھے، جس کی وجہ سے ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا اور شہر کی بھیڑ نے انہیں پاگل سمجھ کر پتھروں ڈھیلوں سے لہو لہان کرکے مار ڈالا۔
(ترچھ: گرگٹ کی نسل کا ایک زہریلا جانور جسے وِش کھا پر بھی کہا جاتا ہے۔)
اس قصے کا تعلق پتا جی سے ہے۔ میرے خواب سے ہے۔ اور شہر سے بھی ہے۔ شہر کی بابت جو ایک پیدائشی ڈر ہوتا ہے، اس سے بھی ہے۔
پتاجی تب پچپن سال کے ہوئے تھے۔ دبلا جسم، بال بالکل مکئی کے بھوئے جیسے سفید، سر پر جیسے روئی رکھی ہو۔ وہ سوچتے زیادہ تھے، بولتے بہت کم۔ جب بولتے تو ہمیں تسلی ہوتی، جیسے دیر سے رکی ہوئی سانس نکل رہی ہو۔ ساتھ ساتھ ہمیں ڈر بھی لگتا۔ ہم بچوں کے لیے وہ ایک بہت بڑا راز تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ دنیا بھر کے سارے علم کی تجوری ان کے پاس ہے۔ ہم جانتے تھے کہ دنیا کی ساری زبانیں وہ بول سکتے ہیں۔ دنیا ان کو جانتی ہے اور ہماری ہی طرح ان سے ڈرتی ہوئی، ان کا ادب کرتی ہے۔
ہمیں ان کی اولاد ہونے پر فخر تھا۔
کبھی کبھی، ویسے برسوں میں ایک آدھ بار ہی ہوتا، وہ شام کو ہمیں اپنے ساتھ ٹہلانے کہیں باہر لے جاتے۔ چلنے سے پہلے وہ منھ میں تمباکو بھرلیتے۔ تمباکو کی وجہ سے وہ کچھ بول نہیں پاتے تھے۔ وہ چپ رہتے۔ ان کی خاموشی ہمیں بہت گمبھیر، پروقار، حیران کن اور بھاری بھرکم لگتی۔ چھوٹی بہن کبھی ان سے راستے میں کچھ پوچھنا چاہتی تو فوراً میں اس کاجواب دینے کی کوشش کرتا تاکہ پتاجی کو نہ بولنا پڑے۔
ویسے یہ کام کافی مشکل اور جوکھم بھرا ہوتا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ اگر میرا جواب غلط ہوا تو پتاجی کو بولنا پڑجائے گا۔ بولنے میں انہیں پریشانی ہوتی تھی۔ ایک تو انہیں تمباکو کی پیک نکالنی پڑتی تھی، پھر جس دنیا میں وہ رہتے تھے وہاں سے نکل کر یہاں تک آنے میں انہیں ایک کٹھن دوری طے کرنی پڑتی تھی۔ ویسے بہن کے سوالوں میں کوئی خاص بات ہوتی نہیں تھی۔ جیسے وہ یہی پوچھ لیتی کہ سامنے چھیولے کی سوکھی ٹہنی پر بیٹھی اس چڑیا کو کیا کہتے ہیں۔ میں چوں کہ ساری چڑیوں کوجانتا تھا اس لیے بتاسکتا تھا کہ وہ نیل کنٹھ ہے اور دسہرے کے دن اسے ضرور دیکھنا چاہیے۔ میری پوری کوشش رہتی کہ پتاجی کو آرام رہے اور وہ سوچتے رہیں۔
میری اور ماں کی، دونوں کی پوری کوشش رہتی کہ پتاجی اپنی دنیا میں سکھ چین سے رہیں۔ وہاں سے انہیں زبردستی باہر نہ نکالا جائے۔ وہ دنیا ہمارے لیے بہت پراسرار تھی، لیکن ہمارے گھر کے اور ہماری زندگی کے بہت سے مسئلوں کو پتاجی وہیں رہتے ہوئے حل کرتے تھے۔ مثلاً جب میری فیس کی بات آئی، اس وقت ہمارے پاس کاآخری گلاس بھی گم گیا تھا اور سب لوگ لوٹے میں پانی پیتے تھے۔ پتاجی دو دن تک بالکل چپ رہے۔ ماں کو بھی شک ہوتا تھا کہ پتاجی فیس کی بات بالکل بھول گئے ہیں یا پھر اس کاحل ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن تیسرے دن صبح صبح، پتاجی نے مجھے ایک چٹھی لفافے میں رکھ کر دی اور شہر کے ڈاکٹر پنت کے پاس بھیجا۔ مجھے تعجب ہوا جب ڈاکٹر نے مجھے شربت پلایا، گھر کے اندر لے جاکر اپنے بیٹے سے ملوایا اور سو سو کے تین نوٹ مجھے دیے۔
ہم پتاجی پر فخر کرتے تھے، ان سے ڈرتے تھے اور ان کے ہونے کا احساس ایسا تھا جیسے ہم کسی قلعے میں رہ رہے ہوں۔ ایسا قلعہ جس کے چاروں طرف گہری نہریں کھدی ہوئی ہوں، برجیاں بہت اونچی ہوں، دیواریں سخت لال چٹانوں کی بنی ہوئی ہوں اور ہر بیرونی حملے کے لیے ہمارا قلعہ ناقابل شکست ہو۔ پتاجی ایک خوب مضبوط قلعہ تھے، ان کی فصیل پر ہم سب کچھ بھول کر کھیلتے تھے اور رات میں مجھے خوب گہری نیند آتی تھی۔
لیکن اس دن، شام کو، جب پتاجی باہر سے ٹہل کرآئے تو ان کے ٹخنے میں پٹی بندھی تھی۔ تھوڑی دیر میں گاؤں کے کئی لوگ آگئے۔ پتا چلا کہ پتاجی کو جنگل میں ایک ترچھ نے کاٹ لیا ہے۔ ہم سب جانتے تھے کہ ترچھ کے کاٹنے پر آدمی بچ ہی نہیں سکتا۔ رات میں، لالٹین کی دھندلی مٹ میلی روشنی میں، گاؤں کے بہت سے لوگ ہمارے گھر کے آنگن میں جمع ہوگئے تھے۔ پتاجی ان کے بیچ میں تھے، زمین پر بیٹھے ہوئے۔ پھر پاس کے گاؤں کاچٹوانائی بھی آیا۔ وہ ارنڈ کے پتے اور کنڈے کی راکھ سے زہر اتارتا تھا۔
ترچھ ایک بار میں نے دیکھا تھا۔
تالاب کے کنارے جو بڑی بڑی چٹانوں کے ڈھیر تھے اور جو دوپہر میں خوب گرم ہوجاتے تھے، ان میں سے کسی چٹان کی دراڑ سے نکل کر وہ پانی پینے تالاب کی طرف جارہا تھا۔ میرے ساتھ تھا نوتھا۔ اس نے بتلایا کہ وہ ترچھ ہے۔ کالے ناگ سے سوگنازیادہ اس میں زہرہوتا ہے۔ اسی نے بتایا کہ سانپ تو تب کاٹتا ہے جب اس کے اوپر پیر پڑ جائے یا جب کوئی بلاوجہ اسے تنگ کرے لیکن ترچھ تو نظر ملتے ہی دوڑتا ہے۔ پیچھے پڑجاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کبھی سیدھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ ٹیڑھے میڑھے چکر کاٹتے ہوئے گول مول دوڑناچاہیے۔
دراصل جب آدمی بھاگتا ہے تو زمین پر وہ صرف اپنے پیروں کے نشان ہی نہیں چھوڑتا بلکہ ہر نشان کے ساتھ وہاں کی دھول میں اپنی بو بھی چھوڑجاتا ہے۔ ترچھ اسی بو کے سہارے دوڑتا ہے۔ تھانونے بتلایا کہ ترچھ کو چکما دینے کے لیے آدمی کو یہ کرنا چاہیے کہ پہلے تو وہ بالکل پاس پاس قدم رکھ کر جلدی جلدی کچھ دیر دوڑے، پھر چار پانچ بار خوب لمبی لمبی چھلانگیں لگائے۔ ترچھ سونگھتا ہوا دوڑتاآئے گا۔ جہاں پاس پاس پیر کے نشان ہوں گے وہاں اس کی رفتار خوب تیز ہوجائے گی، اور جہاں سے آدمی نے چھلانگ ماری ہوگی وہاں آکر وہ الجھن میں پڑجائے گا۔ وہ اِدھر اُدھر تب تک بھٹکتا رہے گا جب تک اسے اگلے پیر کا نشان اور اس میں بسی بو نہیں مل جاتی۔
ہمیں ترچھ کے بارے میں دوباتیں اور معلوم تھیں۔ ایک تو یہ کہ جیسے ہی وہ آدمی کو کاٹتا ہے، ویسے ہی وہ وہاں سے بھاگ کر کسی جگہ پیشاب کرتا ہے اور اس پیشاب میں لوٹنے لگتا ہے۔ اگر ترچھ نے ایسا کرلیا تو آدمی بچ نہیں سکتا۔ اگر اسے بچنا ہے تو ترچھ کے پیشاب میں لوٹنے سے پہلے ہی اسے مار دینا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ترچھ کاٹنے کے لیے تبھی دوڑتا ہے جب اس سے نظر ٹکراجائے۔ اگر ترچھ کو دیکھو تو کبھی اس سے آنکھ مت ملاؤ۔ آنکھ ملتے ہی وہ آدمی کی بو پہچان لیتا ہے اور پیچھے لگ جاتا ہے۔ پھر چاہے آدمی پوری زمین کا چکر لگالے، ترچھ پیچھے پیچھے آتا ہے۔
میں بھی تمام بچوں کی طرح اس وقت ترچھ سے بہت ڈرتا تھا۔ میرے ڈراؤنے خوابوں کے سب سے خطرناک کردار دوہی تھے :ایک ہاتھی اور دوسرا ترچھ۔ ہاتھی تو پھر بھی دوڑتا دوڑتا تھک جاتا تھا اور میں پیڑ پر چڑھ کر بچ جاتا تھا یا پھر اڑنے لگتا تھا، لیکن ترچھ۔۔۔ اس کے سامنے تو میں جیسے کسی اندر جال میں پھنس جاتا تھا۔ میں خواب میں کہیں جارہا ہوتا تو اچانک ہی کسی جگہ وہ مل جاتا، اس کی جگہ طے نہیں ہوتی تھی۔ کوئی ضروری نہیں تھا کہ وہ چٹانوں کی دراڑ میں، پرانی عمارتوں کے پچھواڑے یا کسی جھاڑی کے پیچھے دکھے۔۔۔ وہ مجھے بازارمیں، سینما ہال میں، کسی دکان یا میرے کمرے ہی میں دکھ سکتا تھا۔
میں خواب میں کوشش کرتا کہ اس سے نظر نہ ملنے پائے لیکن وہ اتنی مانوس آنکھوں سے مجھے دیکھتا کہ میں اپنے آپ کو روک نہیں پاتا تھا، اور بس، آنکھ ملتے ہی اس کی نظر بدل جاتی تھی۔ وہ دوڑتا تھااور میں بھاگتا تھا۔
میں گول گول چکر لگاتا، جلدی جلدی پاس پاس ڈگ بھر کر اچانک خوب لمبی لمبی چھلانگیں لگانے لگتا، اڑنے کی کوشش کرتا، کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا، لیکن میری ہزار کوششوں کے باوجود وہ چکما نہیں کھاتا تھا۔ وہ مجھے بہت گھاگ، سمجھدار، چالاک اور خطرناک لگتا۔ مجھے لگتا کہ وہ مجھے خوب اچھی طرح سے جانتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے پہچان کی جو چمک تھی، اس سے مجھے لگتا کہ وہ میرا ایسا دشمن ہے جسے میرے دماغ میں آنے والے ہر خیال کے بارے میں پتا ہے۔
میرا سب سے خوف ناک، تکلیف دہ، بھیانک اور بے چین کردینے والا خواب یہی تھا۔ بھاگتے بھاگتے میرا پورا جسم تھک جاتا، پھیپھڑے پھول جاتے۔ میں پسینے میں لت پت ہوکر بے دم ہونے لگتا اور ایک بہت ہی ڈراؤنی، سن کردینے والی موت میرے بالکل قریب آنے لگتی۔ میں زور زور سے چیختا، رونے لگتا، پتاجی کو، تھانو کو یاماں کو پکارتا او رپھر میں جان جاتا کہ یہ خواب ہے۔ لیکن یہ پتا چل جانے کے باوجود میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ تب بھی میں اپنی اس موت سے نہیں بچ سکتا۔۔۔ موت نہیں، ترچھ کے ہاتھوں ہونے والے اپنے قتل سے۔۔۔ اور ایسے میں میں خواب ہی میں کوشش کرتا کہ کسی طرح جاگ جاؤں۔ میں پوری طاقت لگاتا، خواب کے اندر آنکھیں کھول کر پھاڑتا، روشنی کو دیکھنے کی کوشش کرتا اور زور سے کچھ بولتا۔ کئی بار بالکل عین موقعے پر میں جاگنے میں کامیاب ہوجاتا۔
ماں بتلاتیں کہ مجھے خواب میں بولنے اور چیخنے کی عادت ہے۔ کئی بار انہوں نے مجھے نیند میں روتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ایسے میں انہیں مجھ کو جگادینا چاہیے، لیکن وہ میرے ماتھے کو سہلاکر مجھے رضائی سے ڈھک دیتی تھیں اور میں اسی خوف ناک دنیا میں اکیلا چھوڑدیا جاتا تھا۔ اپنی موت، بلکہ اپنے قتل سے بچنے کی کمزور کوشش میں بھاگتا، دوڑتا، چیختا۔
ویسے، دھیرے دھیرے تجربے سے میں نے یہ جان لیا تھا کہ آواز ہی ایسے موقعے پر میرا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے میں ترچھ سے بچ سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہر بار اس ہتھیار کی یاد مجھے بالکل آخری وقت میں آتی تھی، تب جب وہ مجھے بالکل پالینے والا ہوتا۔ اپنی موت کی سانسیں مجھے چھونے لگتیں، موت کے نشے سے بھرے ایک سنسان لیکن ڈراؤنے اندھیرے سے میں گھرجاتا، لگتا میرے نیچے کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے، میں ہوا میں ہوں، اور وہ پل آجاتا جب میری زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہوتا۔ تبھی، بالکل اسی ایک بہت ہی چھوٹے اور نازک پل میں، مجھے اپنے اس ہتھیار کی یاد آتی اور میں زور زور سے بولنے لگتا۔ اور اس آواز کے سہارے میں خواب سے باہر نکل آتا۔ میں جاگ جاتا۔
کئی بار ماں مجھ سے پوچھتیں بھی کہ مجھے کیا ہوگیا تھا۔ تب میرے پاس اتنی زبان نہیں تھی کہ میں انہیں سب کچھ، ایک ایک چیز اسی طرح بتا پاتا۔ اپنی اس بے بسی کے بارے میں مجھے خوب پتا تھا اور اسی وجہ سے میں ایک عجیب سے تناؤ، بے چینی اور بے چارگی سے بھرجاتا۔ آخر میں ہار کر میں اتنا ہی کہہ پاتا تھا کہ ’’بہت ڈراؤنا خواب تھا۔‘‘
جانے کیوں مجھے شک تھا کہ پتاجی کو اسی ترچھ نے کاٹا ہے جسے میں پہچانتا تھااور جو میرے خوابوں میں آتا تھا۔
لیکن ایک اچھی بات یہ ہوئی تھی کہ جیسے ہی وہ ترچھ پتاجی کو کاٹ کر بھاگا، پتاجی نے اس کا پیچھا کر کے اسے مارڈالا تھا۔ طے تھا کہ اگر وہ فوراً اسے نہ مارپاتے تو وہ پیشاب کرکے ضرور اس میں لوٹنے لگتا۔ پھر پتاجی کسی حال میں نہ بچتے۔ یہی وجہ تھی کہ پتاجی کے بارے میں مجھے اتنی فکر نہیں رہ گئی تھی بلکہ ایک طرح کی تسکین اور آزادی کا احساس میرے اندر دھیرے دھیرے پیدا ہو رہا تھا۔ وجہ، ایک تو یہی کہ پتا جی نے ترچھ کو ترنت مارڈالا تھا اور دوسرے یہ، میرا سب سے خطرناک، پرانا، جانا پہچانا دشمن آخر کار مرچکا تھا۔ اس کا خاتمہ ہوگیا تھا اور اب میں اپنے خواب کے اندر کہیں بھی، بناکسی ڈر کے، سیٹی بجاتاگھوم سکتا تھا۔
اس رات دیر تک ہمارے آنگن میں بھیڑ لگی رہی۔ پتاجی کی جھاڑ پھونک چلتی رہی۔ کاٹے کے زخم کو چیر کو خون بھی باہر نکالا گیا اور کنویں میں ڈالنے والی لال دوا (پوٹاشیم پرمیگنیٹ) زخم میں بھری گئی۔ میں مطمئن تھا۔
اگلی صبح پتاجی کو شہر جانا تھا۔ عدالت میں پیشی تھی۔ ان کے نام سمن آیا تھا۔ ہمارے گاؤں سے لگ بھگ دوکلومیٹر دور سے نکلنے والی سڑک سے شہر کے لیے بسیں گزرتی تھیں۔ ان کی تعداد مشکل سے دن بھر میں دو یا تین تھی۔ غنیمت ہوا کہ پتاجی جیسے ہی سڑک تک پہنچے، شہر جانے والا پاس کے گاؤں کا ایک ٹریکٹر انہیں مل گیا۔ ٹریکٹر میں بیٹھے ہوئے لوگ پہچان کے تھے۔ ٹریکٹر دوڈھائی گھنٹوں میں شہر پہنچ جانے والا تھا، یعنی عدالت کھلنے سے کافی پہلے۔
راستے میں ترچھ والی بات چلی۔ پتاجی نے اپنا ٹخنہ ان لوگوں کو دکھایا۔ ٹریکٹر میں پنڈت رام اوتار بھی تھے۔ انہوں نے بتلایا کہ ترچھ کے زہر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی یہ چوبیس گھنٹے بعد، ٹھیک اسی وقت جس وقت پچھلے دن ترچھ نے کاٹا ہو، اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اس لیے ابھی پتاجی کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ ٹریکٹر کے لوگوں نے پتاجی کا دھیان ایک اور بڑی غلطی کی طرف دلایا۔ ان کاکہنا تھاکہ یہ تو پتاجی نے بہت ٹھیک کیا کہ ترچھ کو فوراً مارڈالا لیکن اس کے بعد بھی ترچھ کو یوں ہی نہیں چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اسے کم سے کم جلاضرور دینا چاہیے تھا۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ بہت سے کیڑے مکوڑے اور دوسرے جاندار رات میں، چاند کی روشنی میں، دوبارہ جی اٹھتے ہیں۔ چاندنی میں جو اوس اور ٹھنڈک ہوتی ہے اس میں امرت ہوتا ہے، اور کئی بار ایسا دیکھا گیا ہے کہ جس سانپ کو مراہواسمجھ کر رات میں یوں ہی پھینک دیا جاتا ہے، اس کاجسم چاند کی ٹھنڈک میں بھیگ کردوبارہ جی اٹھتا ہے اور وہ بھاگ جاتاہے۔ پھر وہ ہمیشہ بدلہ لینے کی تاک میں رہتا ہے۔
ٹریکٹر کے لوگوں کو شک تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رات میں جی اٹھنے کے بعد ترچھ پیشاب کرکے اس میں لوٹ لگالے۔ ایسا ہوا تو چوبیس گھنٹے بیتتے بیتتے، ٹھیک گھڑی کے آنے پر، ترچھ کا جان لیوا زہر پتاجی پر چڑھنا شروع ہوجائے گا۔ ان لوگوں نے صلاح بھی دی کہ پتاجی کو یہیں سے واپس لوٹ جانا چاہیے اور اگر اتفاق سے ترچھ کی لاش اسی جگہ پڑی ہوئی ہو تو اسے اچھی طرح جلاکر راکھ کردینا چاہیے۔ لیکن پتاجی نے انہیں بتایا کہ پیشی کتنی ضروری ہے۔ یہ تیسرا سمن تھا اور اگر اس باربھی وہ عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو غیرضمانتی وارنٹ نکلنے کا ڈر تھا۔ پیشی بھی ہمارے اسی مکان کے سلسلے میں تھی جس میں ہمارا کنبہ رہ رہاتھا۔ وکیل کو پچھلی دوپیشوں میں فیس بھی نہیں دی جاسکی تھی اور کہیں اگر اس نے لاپروائی دکھلادی اور جج سنک گیا تو وہ ہماری قرقی ڈگری بھی کرواسکتاتھا۔
عجیب حالت تھی کہ اگر پتاجی اس ترچھ کی لاش کو جلانے کے لیے ٹریکٹر سے اتر کر وہیں سے گاؤں لوٹ آتے تو غیرضمانتی وارنٹ کے تحت گرفتار کرلیے جاتے اور ہمارا گھر ہم سے چھن جاتا، عدالت ہمارے خلاف ہوجاتی۔
لیکن پنڈت رام اوتار ایک وید بھی تھے۔ جیوتش، پنچ انگ کے علاوہ انہیں جڑی بوٹیوں کی بھی بڑی گہری جانکاری تھی۔ انہوں نے سمجھایا کہ ایک طریقہ ایسا ہے جس سے پتاجی پیشی میں حاضر بھی ہوسکتے ہیں اور ترچھ کے زہر سے چوبیس گھنٹے کے بعد بچ بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چرک کانچوڑ اس اصول میں ہے کہ زہر ہی زہر کی کاٹ کرتا ہے۔ اگر دھتورے کے بیج کہیں سے مل جائیں تو وہ ترچھ کے زہر کی کاٹ تیار کرسکتے ہیں۔
اگلے گاؤں سامت پور میں ٹریکٹر روک دیا گیا اور ایک تیلی کے کھیت میں دھتورے کے پودے آخر کار کھوج نکالے گئے۔ دھتورے کے بیجوں کو پیس کر، تانبے کے پرانے سکے کے ساتھ ابال کر کاڑھا تیار کیا گیا۔ کاڑھا بہت کڑواتھا اس لیے اسے چائے میں ملایا گیا اور پتاجی کو وہ چائے پلادی گئی۔ اس کے بعد سب مطمئن ہوگئے۔ ایک بہت بڑے خطرے سے پتاجی کو نکالنے کی کوشش ہو رہی تھی۔
ویسے مجھے ترچھ کے بارے میں تیسری بات بھی معلوم تھی، جو پتاجی کے جانے کے کئی گھنٹے بعد یاد آئی۔ یہ بات سانپ کی اس بات سے ملتی جلتی تھی جس کے نمونے پر آگے چل کر کیمرے کی ایجاد ہوئی تھی۔
مانا جاتا تھا کہ اگر کوئی آدمی سانپ کو مار رہا ہو تو اپنے مرنے سے پہلے وہ سانپ آخری بار اپنے قاتل کے چہرے کو پوری طرح سے، بہت غور سے دیکھتا ہے۔ آدمی اسے قتل کر رہاہوتا ہے اور سانپ ٹکٹکی باندھ کر اس آدمی کے چہرے کی ایک ایک باریکی کو اپنی آنکھ کے اندرونی پردے پر درج کر رہاہوتا ہے۔ سانپ کی موت کے بعد سانپ کی آنکھوں کے اندرونی پردے پر اس آدمی کی تصویر ہو بہو محفوظ ہوجاتی ہے۔ بعد میں، آدمی کے جانے کے بعد، اس سانپ کا دوسرا جوڑا آکر اس مرے ہوئے سانپ کی آنکھوں کے اندر جھانکتا ہے اور اس طرح وہ قاتل پہچان لیا جاتا ہے۔ سارے سانپ اسے پہچاننے لگتے ہیں۔ پھر وہ کہیں بھی چلاجائے، وہ اس سے بدلہ لینے کے فراق میں رہتے ہیں۔ ہر سانپ اس کا دشمن ہوتا ہے۔
مجھے شک تھا کہ مرے ہوئے ترچھ کی آنکھ کے اندرونی پردے پر پتاجی کا چہرہ درج ہوگا، کوئی دوسراترچھ آکر اس لاش کی آنکھ میں جھانکے گا اور پتاجی وہیں پہچان لیے جائیں گے۔ میرے اندر اس بات پر بے چینی پیدا ہوئی کہ پتاجی نے یہ احتیاط کیوں نہیں برتی۔ انہیں ترچھ کو مارنے کے ساتھ ہی کسی پتھر سے اس کی دونوں آنکھوں کو کچل کر پھوڑ دینا چاہیے تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا؟ پتاجی شہر جاچکے تھے اور میرے سامنے الجھن اور یہ چیلنج تھا کہ گاؤں کے پاس پھیلے اتنے بڑے جنگل میں جس جگہ ترچھ کو مار کر چھوڑا تھا، وہ جگہ میں کھوج نکالوں۔
میں تھانو کے ساتھ بوتل میں مٹی کا تیل، دیا سلائی اور ڈنڈا لے کر جنگل میں ترچھ کی کھوج میں بھٹکتا رہا۔ میں اسے اچھی طرح سے پہچانتا تھا، بہت اچھی طرح۔ تھانو مایوس تھا۔
پھر مجھے اچانک ہی لگنے لگا کہ اس جنگل کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ایک ایک پیڑ میرا جانا پہچانا نکلے گا۔ اسی جگہ سے کئی بار خواب میں میں ترچھ سے بچنے کے لیے بھاگا تھا۔ میں نے غور سے ہر طرف دیکھا، بالکل یہی وہ جگہ تھی۔ میں نے تھانو کو بتایا کہ ایک تنگ سا نالا اس جگہ سے کتنی دور دکھن کی طرف بہتا ہے۔ نالے کے اوپر جہاں بڑی بڑی چٹانیں ہیں، وہاں کیکر کاایک بہت پرانا پیڑ ہے جس پر بڑے بڑے شہد کے چھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کئی صدیوں پرانے ہیں۔ میں اس بھورے رنگ کی چٹان کو جانتا تھا جو برسات بھرنالے کے پانی میں آدھی ڈوبی رہتی تھی اور بارش کے بیتنے کے بعد جب باہر نکلتی تھی تو اس کی کھوہوں میں کیچڑ بھرجاتی تھی اور عجیب عجیب و نس پتیاں (نباتات) وہاں سے اگ آتی تھیں۔ چٹان کے اوپر ہری کائی کی ایک پرت سی جم جاتی تھی۔ اسی چٹان کی سب سے اوپر والی دراڑ میں ترچھ رہتا تھا۔ تھانو اس بات کو میرا وہم سمجھ رہاتھا۔
لیکن بہت جلد ہمیں وہ نالا مل گیا۔ کیکر کا وہ بوڑھا پیڑ بھی جس پر شہد کے چھتے تھے، اور وہ چٹان بھی۔ ترچھ کی لاش چٹان سے ذراہٹ کر زمین پر گھاس کے اوپر چت پڑی ہوئی تھی۔ بالکل، یہ وہی ترچھ تھا۔ میرے اندر وحشت، جوش اور خوشی کی ایک سنسنی دوڑ رہی تھی۔
تھانونے اور میں نے سوکھے پتے اور لکڑیاں اکٹھی کیں، خوب سارا مٹی کاتیل اس میں ڈالا اور آگ لگادی۔ ترچھ اس میں جل رہا تھا۔ اس کے جلنے کی چراندھ ہوا میں پھیل رہی تھی۔ میرا من زور سے چلانے کو ہوا لیکن میں ڈرا کہ کہیں میں جاگ نہ جاؤں اور یہ سب کچھ خواب نہ ثابت ہوجائے۔ میں نے تھانو کی طرف دیکھا۔ وہ رورہاتھا۔ وہ میرا بہت اچھادوست تھا۔
میرے خواب میں اسی جگہ سے نکل کر اس ترچھ نے کئی بار میرا پیچھا کرنا شروع کیا تھا۔ تعجب تھا کہ اتنے لمبے عرصے سے اس کے اڈے کو اتنی اچھی طرح سے جاننے کے باوجود میں نے کبھی دن میں آکر اسے مارنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔
میں آج بے تحاشا خوش تھا۔
پنڈت رام اوتار نے بتلایا تھا کہ ٹریکٹر نے پونے دس بجے کے لگ بھگ شہر کا چنگی ناکا پار کیا تھا۔ وہاں انہیں ناکے کاٹول ٹیکس چکانے کے لیے کچھ دیر رکنابھی پڑا تھا۔ وہاں پر پتاجی ٹریکٹر سے اترکر پیشاب کرنے گئے تھے۔ لوٹنے پر انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا سر کچھ گھوم سا رہا ہے۔ تب تک پتاجی کو دھتورے کا کاڑھا پیے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔ ٹریکٹر نے پتاجی کو شہر میں دس بج کر پانچ سات منٹ کے آس پاس چھوڑ دیا تھا۔ ٹریکٹر ہی میں بیٹھے پلڑا گاؤں کے ماسٹر نندلال کاکہنا تھا کہ جب شہر میں منرواٹا کیز کے پاس والے چوراہے پر پتاجی کوٹریکٹر سے اتارا گیا تب انہوں نے شکایت کی تھی کہ ان کاگلا کچھ سوکھ سا رہاہے۔ وہ تھوڑا پریشان بھی تھے کیوں کہ عدالت جانے کاراستہ انہیں معلوم نہیں تھا اور شہر کے لوگوں سے پوچھ پوچھ کر کہیں جانے میں انہیں بہت تکلیف ہوتی تھی۔
پتاجی کے ساتھ ایک دقت یہ بھی تھی کہ گاؤں یا جنگل کی پگڈنڈی تو انہیں یاد رہتی تھی، شہر کی سڑکوں کو وہ بھول جاتے تھے۔ شہر وہ بہت کم جاتے تھے۔ جانا ہی پڑجائے تو آخروقت تک اسے ٹالتے رہتے تھے، تب تک جب تک جانا بالکل ہی ضروری نہ ہوجائے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ پتاجی سارا سامان لے کر شہر کے لیے روانہ ہوئے اور بس اڈے سے لوٹ آئے۔ بہانہ یہ کہ بس چھوٹ گئی۔ جب کہ ہم سب جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا۔ پتاجی نے بس کودیکھا ہوگا، پھر وہ کہیں بیٹھ گئے ہوں گے، پیشاب کرنے یا پان کھانے۔ پھر انہوں نے دیکھا ہوگا کہ بس چھوٹ رہی ہے۔ انہوں نے ذرا سااور انتظار کیا ہوگا۔ جب بس نے رفتار پکڑ لی ہوگی تب وہ کچھ دور تک دوڑے ہوں گے، پھر ان کے قدم دھیمے پڑگئے ہوں گے اور وہ افسوس اور غصہ ظاہر کرتے لوٹ آئے ہوں گے۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں خود بھی لگاہوگا کہ بس سچ مچ چھوٹ گئی ہے۔ ایسے میں جب کہ ہم مان چکے ہوتے کہ وہ شہر جاچکے ہیں، وہ لوٹ کر ہمیں حیران کردیتے۔
ٹریکٹر سے منرواٹاکیز کے پاس والے چورہے پر، سندھ واچ کمپنی کے ٹھیک سامنے، لگ بھگ دس بج کر سات منٹ پر اترنے کے بعد سے شام چھ بجے تک پتاجی کے ساتھ شہر میں جو کچھ بھی ہوا، اس کاصرف ایک دھندلا سا اندازہ ہی لگایا جاسکتاہے۔ یہ معلومات بھی کچھ لوگوں سے بات چیت اور پوچھ تاچھ کے بعد ملی ہیں۔ کسی کی موت کے بعد، اگر وہ موت حادثاتی اور دردناک ڈھنگ سے ہوئی ہو، ایسی معلومات مل ہی جاتی ہیں۔ اس دن، بدھ ۱۷مئی ۱۹۷۲ء کو، صبح دس سے لے کر شام چھ بجے تک، لگ بھگ پونے آٹھ گھنٹے میں، پتاجی کہاں کہاں گئے، کہاں کہاں ان کے ساتھ کیا کیا ہوا، اس کا بہت صحیح اور بالکل درست احوال ملنا تو مشکل ہے ؛ جو اطلاع یا معلومات بعدمیں ملیں، ان کے ذریعے ان واقعات کاصرف اندازہ ہی لگایا جاسکتاہے۔
جیسا کہ پلڑا گاؤں کے ماسٹر نند لال کا کہنا تھا، جب پتاجی ٹریکٹر سے اترے تبھی انہوں نے گلا سوکھنے کی شکایت کی تھی۔ اس کے پہلے چنگی ناکے کے پاس جب پتاجی پیشاب کرکے لوٹے تھے تو انہوں نے سر گھومنے کی بات کی تھی۔ یعنی پتاجی پر دھتورے کے بیجوں کے کاڑھے کااثر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ویسے بھی شہر پہنچنے تک پتاجی کو کاڑھا پیے ہوئے لگ بھگ دو گھنٹے ہوچکے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ اس وقت پتاجی کو پیاس بہت لگی ہوگی۔ گلا بھگونے کے لیے وہ کسی ہوٹل یا ڈھابے کی طرف گئے بھی ہوں گے لیکن جیسا کہ مجھے ان کے سبھاؤ کے بارے میں پتا ہے، وہ وہاں کچھ دیر کھڑے رہے ہوں گے اور پھر ایک گلاس پانی مانگنے کا فیصلہ نہ کرسکے ہوں گے۔ ایک بار انہوں نے بتایا بھی تھا کہ کچھ سال پہلے گرمیوں کے دنوں میں جب انہوں نے کسی ہوٹل میں پانی مانگا تھا تو وہاں کام کرنے والے کسی نوکر نے انہیں گالی دی تھی۔ پتاجی بہت خوددار تھے، اس لیے انہوں نے اپنی پیاس کو دبایا ہوگااور وہاں سے چل پڑے ہوں گے۔
سوادس سے لے کر لگ بھگ گیارہ بجے تک کے عرصے میں، پینتالیس منٹ تک، پتاجی کہاں کہاں گئے، اس کی کوئی اطلاع کہیں سے نہیں ملتی۔ اس دوران کوئی ا یسا خاص واقعہ بھی نہیں ہوا جس سے کوئی کچھ کہہ سکے۔ پھر شہر میں سڑک پر آتے جاتے لوگوں میں سے کسی نے ان پر دھیان دیا ہو، انہیں دیکھا ہو، اس کا پتا لگانا بھی مشکل ہے۔ ویسے میرا اپنا اندازہ ہے کہ اس دوران پتاجی نے کچھ لوگوں سے عدالت جانے کا راستہ پوچھا ہوگا اور ان کے دماغ میں یہ بات بھی رہی ہوگی کہ وہ اپنے وکیل ایس این اگروال سے پانی مانگ لیں گے۔ لیکن ان کے پوچھنے پر یا تو لوگ چپ رہ کر تیزی سے آگے بڑھ گئے ہوں گے یا کسی نے اتنی بوکھلاہٹ اور جلدبازی میں انہیں کچھ بتایا ہوگا کہ پتاجی ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے ہوں گے اور صرف خجل، دکھی اور پریشان ہوکر رہ گئے ہوں گے۔ شہر میں ایسا ہوتا ہی ہے۔
پتاجی گیارہ بجے شہر میں دیش بندھو مارگ پر واقع اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی عمارت میں گھسے تھے۔ وہ وہاں کیوں گئے، اس کی وجہ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی۔ ویسے ہمارے گاؤں کا رمیش دت شہر میں بھومی وکاس سہکاری (لینڈ ڈویلپمنٹ کوآپریٹو) بینک میں کلرک ہے۔ ہوسکتا ہے پتاجی کے دماغ میں صرف بینک رہا ہو اور وہاں سے گزرتے ہوئے اچانک انہوں نے اسٹیٹ بینک لکھا دیکھا ہوا اور ادھر گھوم گئے ہوں۔ انہوں نے اب تک پانی نہیں پیا تھا اس لیے انہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ رمیش دت سے پانی بھی مانگ لیں گے، عدالت کا پتا بھی پوچھ لیں گے اور اسے بتا بھی سکیں گے کہ ان کا سر گھوم رہاہے، یہ بھی کہ انہیں کل شام ترچھ نے کاٹا تھا۔
اسٹیٹ بینک کے کیشئر اگنی ہوتری کے مطابق وہ اس وقت کیش رجسٹر چیک کر رہاتھا۔ اس کی میز پر لگ بھگ اٹھائیس ہزار روپوں کی گڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اس وقت گیارہ سے دوتین منٹ اوپر رہے ہوں گے، تب ہی پتاجی وہاں آئے۔ ان کے ماتھے پر دھول لگی ہوئی تھی، چہرہ ڈراؤنا تھا اور اچانک ہی انہوں نے زور سے کچھ کہا تھا۔ اگنی ہوتری کا کہنا تھا کہ میں اچانک ڈر گیا۔ عموماً ایسے لوگ بینک کے اتنے اندر، کیشئر کی ٹیبل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اگنی ہوتری کا کہنا یہ بھی تھا کہ اگر وہ پتاجی کوایک آدھ منٹ پہلے سے اپنی طرف آتا ہوادیکھ لیتا تب شاید اتنا نہ ڈرتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پوری طرح سے کیش رجسٹر کے حساب میں ڈوبا ہوا تھا، اچانک پتاجی نے آواز نکالی اور سراٹھاتے ہی انہیں دیکھ کر وہ ڈر گیا اور چونک پڑا۔ اس نے گھنٹی بھی بجادی۔
بینک کے چپراسیوں، دوچوکیداروں اور دوسرے ملازموں کے مطابق، اچانک ہی کیشئر کی چیخ اور گھنٹی کی آواز سے وہ سب لوگ چونک گئے اور اس طرف دوڑے۔ تب تک نیپالی چوکیدار تھاپا نے پتاجی کو دبوچ لیا تھا اور مارتا ہوا کامن روم کی طرف لے جارہاتھا۔ ایک چپراسی رام کشور نے، جس کی عمر پینتالیس کے آس پاس تھی، کہاکہ اس نے سمجھا کوئی شرابی دفتر میں گھس آیا ہے یا پاگل، اور چوں کہ اس کی ڈیوٹی بینک کے صدر دروازے پر تھی اس لیے برانچ منیجر اسے چارج شیٹ کرسکتا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب پتاجی کو مارا جارہا تھا، تب ہی انہوں نے انگریزی میں کچھ بولنا شروع کردیا۔ اسی وجہ سے چپراسیوں کاشک بڑھ گیا۔ اس دوران شاید اسسٹنٹ برانچ منیجر مہتا نے یہ کہہ دیا کہ اس آدمی کی اچھی طرح سے تلاشی لینا، تبھی باہر نکلنے دینا۔ ویسے چپراسی رام کشور کا کہنا تھا کہ پتاجی کاچہرہ عجیب طرح سے ڈراؤنا ہوگیا تھا، اس پر دھول جمع ہوگئی تھی اور الٹی کی باس آرہی تھی۔
بینک کے چپراسیوں نے پتاجی کو زیادہ مارنے پیٹنے کی بات سے انکار کیا، لیکن بینک کے باہر ٹھیک دروازے پر جو پان کی دکان ہے، اس پر بیٹھنے والے بنو کا کہنا تھا کہ جب ساڑھے گیارہ بجے کے آس پاس پتاجی بینک سے باہر آئے تو ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور نچلا ہونٹ کٹ گیا تھا، جہاں سے خون نکل رہاتھا۔ آنکھوں کے نیچے سوجن اور کتھئی چکتے تھے۔ ایسے چکتے بعد میں بینگنی یانیلے پڑجاتے ہیں۔
اس کے بعد، یعنی ساڑھے گیارہ بجے سے لے کرایک بجے تک کے عرصے میں، پتاجی کہا ں کہاں گئے، اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔ ہاں، اسٹیٹ بینک کے باہر پان کی دکان لگانے والے بنونے ایک بات اور بتائی تھی، حالانکہ اس بارے میں اسے پوری طرح یقین نہیں تھا، یا ہوسکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ملازموں کے ڈر سے وہ صاف صاف بتانے سے کترا رہاہو۔ بنونے بتلایا تھاکہ اسٹیٹ بینک سے باہر نکلنے پر شاید (وہ ’’شاید‘‘ پر بہت زور دے رہا تھا) پتاجی نے کہا تھا کہ ان کے روپے اور کاغذات بینک کے چپراسیوں نے چھین لیے ہیں۔ لیکن بنو کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے پتاجی نے کوئی اور بات کہی ہو، کیوں کہ وہ ٹھیک سے بول نہیں پارہے تھے۔ ان کانچلا ہونٹ کافی کٹ گیا تھا، منھ سے رال بہہ رہی تھی اور ان کادماغ ٹھکانے نہیں تھا۔
میرا اپنا اندازہ ہے کہ اس وقت تک پتاجی پر کاڑھے کااثر بہت زیادہ ہوچکا تھا۔ حالانکہ پنڈت رام اوتار اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ ان کاکہناتھا کہ دھتورے کے بیچ تو ہولی کے دنوں میں بھنگ کے ساتھ بھی گھوٹے جاتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آدمی بالکل پاگل ہوجائے۔ پنڈت رام اوتار کاخیال ہے کہ یاتو ترچھ کا زہر اس وقت پتاجی کے جسم میں چڑھنا شروع ہوگیا تھااور اس کانشہ ان کے دماغ تک پہنچنے لگا تھا، یا پھر بہت ممکن ہے کہ جب اسٹیٹ بینک میں پتاجی کو تھاپاچوکیدار اور چپراسیوں نے مارا پیٹا تھا، تب ان کے سر کے پیچھے کی طرف کوئی چوٹ لگ گئی ہو اور اس دھکے سے ان کا دماغ سنگ گیا ہو۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک پتاجی کو تھوڑا بہت ہوش تھا اور وہ پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح شہر سے باہر نکل جائیں۔
شاید روپے اور عدالت کے کاغذات بینک میں چھن جانے کی وجہ سے انہوں نے سوچا ہو کہ اب یہاں رہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے شاید ایک آدھ بار سوچا بھی ہوگا کہ واپس اسٹیٹ بینک جاکر اپنے کاغذات توکم سے کم مانگ لائیں، پھر ایسا کرنے کی ان کی ہمت نہیں پڑی ہوگی۔ وہ ڈرگئے ہوں گے۔ انہیں ان کی زندگی میں پہلی بار اس طرح سے مارا گیا تھا، اس لیے وہ ٹھیک سے سوچنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہوں گے۔ ان کاجسم بہت دبلا تھا اور بچپن ہی سے انہیں اپنڈی سائٹس کی شکایت تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک ان پر کاڑھے کااثر اتنا زیادہ ہوچکا ہو کہ وہ ایک چیز پر دیر تک سوچ ہی نہ پارہے ہوں اور دماغ میں ہر پل پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے بلبلوں جیسے خیالوں یا نئے نئے جھٹکوں کے بس میں آکر اِدھر سے اُدھر چل پڑتے رہے ہوں۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے دماغ میں گھر لوٹ آنے اور شہر سے نکل جانے کی بات۔۔۔ ایک یقینی، بار بار اندھیرے سے ابھرنے والی، بھلے ہی بہت موہوم اور بہت دھندلی بات۔۔۔ ضرور رہی ہوگی۔
پتاجی لگ بھگ سوا ایک بجے شہر کے پولیس تھانے پہنچے تھے۔ تھانہ شہر کے باہری گھیر پر سرکٹ ہاؤس کے پاس بنے وجے استھمب (مینار فتح) کے پاس ہے۔ تعجب یہ ہے کہ تھانے سے بہ مشکل ایک کلومیٹر دور عدالت بھی ہے۔ اگر پتاجی چاہتے تو یہاں سے پیدل ہی دس منٹ میں عدالت پہنچ سکتے تھے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پتاجی اگر یہاں تک پہنچے تھے، کیا تب تک ان کے دماغ میں عدالت جانے کی بات رہ بھی گئی تھی۔ ان کے پاس کاغذات تو رہ نہیں گئے تھے۔
تھانے کے ایس ایچ او راگھویندر پرتاپ سنگھ نے کہاکہ اس وقت ایک بج کر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔ وہ گھر سے لائے ہوئے ٹفن کو کھول کر لنچ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ آج ٹفن میں پراٹھوں کے ساتھ کریلے رکھے ہوئے تھے۔ کریلے وہ کھا نہیں پاتے اور اسی الجھن میں تھے کہ اب کیا کریں۔ تبھی پتاجی وہاں آئے تھے۔ ان کے جسم پر قمیص نہیں تھی۔ پینٹ پھٹی ہوئی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کہیں گرے ہوں گے یا کسی گاڑی نے انہیں ٹکر ماری ہوگی۔ تھانے میں اس وقت ایک ہی سپاہی گجادھر پرساد شرما موجود تھا۔ سپاہی کا کہنا تھا کہ اس نے سوچا کہ شاید کوئی بھک منگا تھانے میں گھس آیا ہے۔ اس نے آواز بھی دی لیکن پتاجی تب تک ایس ایچ او راگھویندر پرتاپ سنگھ کی ٹیبل تک پہنچ چکے تھے۔ ایس ایچ او نے کہا کہ کریلوں کی وجہ سے ویسے بھی ان کاموڈ آف تھا۔ تیرہ سال کی شادی شدہ زندگی کے باوجود بیوی یہ نہیں جان پائی تھی کہ انہیں کون سی چیزیں بالکل ناپسند ہیں، اتنی ناپسند کہ وہ ان چیزوں سے نفرت کرتے ہیں۔
انہوں نے جیسے ہی نوالہ منھ میں رکھا، پتاجی بالکل ان کے قریب پہنچ گئے۔ پتاجی کے چہرے پر اور کندھوں کے نیچے الٹی لگی ہوئی تھی اور اس کی بہت تیز بو اٹھ رہی تھی۔ ایس ایچ او نے پوچھا کہ بات کیا ہے تو جواب میں پتاجی نے جو کچھ کہا اسے سمجھنا بہت مشکل تھا۔ ایس ایچ او، راگھویندر سنگھ، بعد میں پچھتارہے تھے کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ یہ آدمی بکیلی گاؤں کاپردھان اور ریٹائرڈ ہیڈماسٹر ہے تو وہ اسے تھانے ہی میں دوچار گھنٹے بٹھالیتے، باہر نہ جانے دیتے لیکن اس وقت انہیں لگا کہ یہ کوئی پاگل ہے اور انہیں کھاتے ہوئے دیکھ کر یہاں تک گھس آیا ہے، اس لیے انہوں نے سپاہی گجادھر شرما کو غصے میں آوازدی۔ سپاہی پتاجی کو گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا۔ گجادھر شرما کاکہنا تھا کہ اس نے پتاجی کے ساتھ کوئی مارپیٹ نہیں کی اور اس نے دیکھا تھا کہ جب وہ تھانے آئے تھے تب ان کانچلا ہونٹ کٹا ہوا تھا، ہڈی پر کہیں رگڑا کھاکر گرنے سے کھرونچ کے نشان تھے اور کہنیاں چھلی ہوئی تھیں۔ وہ کہیں نہ کہیں گرے ضرور تھے۔
یہ کوئی نہیں جانتا کہ تھانے سے نکل کر لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے پتاجی کہاں کہاں بھٹکتے رہے۔ صبح دس بج کر سات منٹ پر، جب وہ شہر آئے تھے اور منرواٹاکیز کے پاس والے چوراہے پر ٹریکٹر سے اترے تھے، تب سے لے کر اب تک انہوں نے کہیں پانی پیا تھا یا نہیں، یہ جاننامشکل ہے۔ اس کا امکان بھی کم ہی ہے۔ ہوسکتا ہے اس وقت تک ان کادماغ اس قابل نہ رہ گیا ہو کہ وہ پیاس کو بھی یاد رکھ سکیں۔ لیکن اگر وہ پولیس تھانے تک پہنچے تو ان کے ذہن میں، نشے کے باوجود، کہیں بہت کم زور سا، اندھیرے میں ڈوبا یہ خیال رہا ہوگا کہ کسی طرح وہ اپنے گاؤں جانے کا راستہ وہاں پوچھ لیں، یا اس ٹریکٹر کاپتا پوچھیں یا پھر اپنے روپے اور عدالتی کاغذات چھن جانے کی رپورٹ وہاں لکھا دیں۔ یہ سوچنے کے قریب پہنچنا ہی بری طرح سے بے چین کرڈالنے والا ہے کہ اس وقت پتاجی صرف ترچھ کے زہر اور دھتورے کے نشے ہی کے خلاف نہیں لڑ رہے تھے بلکہ ہمارے مکان کو بچانے کی فکر بھی کہیں نہ کہیں ان کے نشے کی نیند میں سے بار بار سر اٹھارہی تھی۔ شاید انہیں اب تک یہ لگنے لگا ہوگا کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے، صرف ایک خواب ہے۔ پتاجی اس سے جاگنے اور باہر نکلنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہوں گے۔
سوادوبجے کے آس پاس پتاجی کو شہر کے سب سے اتری چھور پر بسی سب سے خوشحال کالونی، اتواری کالونی میں گھسٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ یہ کالونی صرافہ کے جوہر یوں، پی ڈبلیو ڈی کے بڑے ٹھیکے داروں اور ریٹائرڈ افسروں کی کالونی تھی۔ کچھ آسودہ حال صحافی شاعر بھی وہاں رہتے تھے۔ یہ کالونی ہمیشہ پر سکون اور ہنگامے سے محفوظ رہتی تھی۔ جن لوگوں نے یہاں پتاجی کو دیکھا تھا، انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک ان کے جسم پر صرف ایک پٹے دار جانگیا بچاتھا جس کاناڑا شاید ٹوٹ گیا تھا اور وہ اسے اپنے بائیں ہاتھ سے بار بار سنبھال رہے تھے۔ جس نے بھی انہیں وہاں دیکھا اس نے یہی سمجھا کہ کوئی پاگل ہے۔ کچھ نے کہا کہ وہ بیچ بیچ میں کھڑے ہوکر زور زور سے گالیاں بکنے لگتے تھے۔
بعد میں اسی کالونی میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ تحصیل دار سونی صاحب اور شہر کے سب سے بڑے اخبار کے چیف رپورٹر ستیندر تھپلیال نے بتایا کہ انہوں نے پتاجی کے بولنے کو ٹھیک سے سنا تھا اور دراصل وہ گالیاں نہیں بک رہے تھے بلکہ بار بار کہہ رہے تھے، ’’میں رام سوارتھ پرساد، ایکس اسکول ہیڈ ماسٹر۔۔۔ اور ولیج ہیڈ آف۔۔۔ گرام بکیلی۔۔۔‘‘ شاعر اور صحافی تھپلیال صاحب نے دکھ ظاہر کیا۔ دراصل اسی وقت وہ امریکی سفیر کی کسی خاص پارٹی میں سنگیت سننے دلّی جارہے تھے، اس لیے جلد بازی میں وہ چلے گئے۔ ہاں تحصیل دار سونی صاحب کا کہنا تھاکہ ’’مجھے اس آدمی پر بہت ترس آیا اور میں نے لڑکوں کو ڈانٹا بھی۔ لیکن دوتین لڑکوں نے کہا کہ یہ آدمی رام رتن صراف کی بیوی اور سالی پر حملہ کرنے والاتھا۔‘‘ تحصیل دار نے کہا ایسا سننے کے بعد انہیں بھی لگا کہ ہوسکتا ہے یہ کوئی بدمعاش ہو اور ناٹک کر رہا ہو۔ لڑکے انہیں تنگ کرنے میں لگے تھے اور پتاجی بیچ بیچ میں زور زور سے بولتے تھے، ’’میں رام سوارتھ پرساد ایکس اسکول ہیڈماسٹر۔۔۔‘‘
اگر حساب لگایاجائے تو منروا ٹاکیز کے پاس والا چوراہا، جہاں پتاجی ٹریکٹر سے صبح دس بج کر سات منٹ پر اترے تھے، وہاں سے لے کر دیش بندھو مارگ کا اسٹیٹ بینک، پھر وجے استھمب کے پاس کا تھانہ اور شہر کے باہری اتری چھور پر بسی اتواری کالونی کو ملاکر وہ اب تک تیس بتیس کلومیٹر کی دوری تک بھٹک چکے تھے۔ یہ جگہیں ایسی ہیں جو ایک ہی سمت میں نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پتاجی کی دماغی حالت یہ تھی کہ انہیں ٹھیک ٹھیک کچھ سوجھ نہیں رہاتھا اور وہ اچانک ہی کسی بھی طرف چل پڑتے تھے۔ جہاں تک صراف کی بیوی اور سالی پر ان کے حملہ کرنے کی بات ہے، جسے تھپلیال صاحب سچ مانتے ہیں، میرا اپنا اندازہ ہے کہ پتاجی ان کے پاس یاتو پانی مانگنے گئے ہوں گے یا بکیلی جانے والی سڑک کے بارے میں پوچھنے۔ اس ایک پل کے لیے پتاجی کو ہوش ضرور رہاہوگا۔ لیکن اس حلیے کے آدمی کو اپنے اتنا قریب دیکھ کر وہ عورتیں ڈر کر چیخنے لگی ہوں گی۔ ویسے پتاجی کی داہنی آنکھ کے اوپر ماتھے پر جو چوٹ تھی اور جس کاخون رس کر ان کی آنکھ پر آنے لگا تھا، وہ چوٹ ان کواتواری کالونی ہی میں لگی تھی، کیوں کہ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ لڑکے بیچ بیچ میں انہیں ڈھیلے مار رہے تھے۔
وہ جگہ اتواری کالونی سے بہت دور نہیں ہے جس جگہ پتاجی کو سب سے زیادہ چوٹیں لگیں۔ نیشنل ریسٹورنٹ نام کے ایک سستے سے ڈھابے کے سامنے کی خالی جگہ پر پتاجی گھر گئے تھے۔ اتواری کالونی سے لڑکوں کا جو جھنڈ ان کے پیچھے پڑگیا تھا، اس میں کچھ بڑی عمر کے لڑکے بھی شامل ہوگئے تھے۔ نیشنل ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے نوکر ستے کا کہنا تھاکہ پتاجی نے غلطی یہ کی تھی کہ ایک بار انہوں نے غصے میں آکر بھیڑ پر ڈھیلے مارنے شروع کردیے تھے۔ شاید انہیں میں ایک ڈھیلا سات آٹھ سال کے لڑکے وِکی اگروال کو لگ گیا تھا، جسے بعد میں کئی ٹانگے لگے تھے۔ ستّے کا کہناتھا کہ اس کے بعد جھنڈ زیادہ خطرناک ہوگیا تھا۔ وہ ہلا مچارہے تھے اور چاروں طرف سے پتاجی پر پتھر مار رہے تھے۔
ڈھابے کے مالک سردار ستنام سنگھ نے بتایا کہ اس وقت پتاجی کے جسم پر صرف پٹے والی ایک چڈی تھی۔ دبلے بدن کی ہڈیاں اور چھاتی کے سفید بال دِکھ رہے تھے۔ پیٹ پچکا ہوا تھا، وہ دھول اور مٹی میں لتھڑے ہوئے تھے، سر کے سفید بال بکھر گئے تھے، داہنی آنکھ کے اوپر سے اور نچلے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ ستنام سنگھ نے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہا، ’’میرے کو کیا معلوم تھا کہ یہ آدمی سیدھا سادا، عزت دار، ساکھ رسوخ کا انسان ہے اور نصیب کے پھیر میں اس کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ ’’ویسے ڈھابے میں کپ پلیٹ دھونے والے نوکر ہی کا کہنا تھا کہ بیچ بیچ میں پتاجی بھیڑ کو انٹ شنٹ گالیاں دے دے کر ڈھیلے مارنے لگتے تھے۔ ’’آؤ سسرو، آؤ۔۔۔ ایک ایک کو مار ڈالوں گا بھوسڑی والو۔۔۔ تمہاری ماں کی۔۔۔‘‘ لیکن مجھے شک ہے کہ پتاجی نے ایسی کوئی گالی دی ہوگی۔ ہم نے کبھی بھی انہیں گالی دیتے نہیں سناتھا۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، کیوں کہ پتاجی کومیں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں، کہ اس وقت تک انہیں کئی بار لگا ہوگا کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقیقت نہیں ہے، ایک خواب ہے۔ پتاجی کووہ سارے واقعات اول جلول، اوٹ پٹانگ اور بے مطلب لگے ہوں گے۔ وہ اس سب پراعتبار نہیں کر رہے رہوں گے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ یہ سب کیا بکواس ہے۔ وہ تو گاؤں سے شہرآئے ہی نہیں ہیں، انہیں کسی ترچھ نے نہیں کاٹا ہے۔ بلکہ ترچھ تو ہوتا ہی نہیں ہے، ایک من گھڑت اور اندھا اعتقاد ہے۔۔۔ اور دھتورے کا کاڑھا پینے کی بات تو مضحکہ خیز ہے، وہ بھی ایک تیلی کے کھیت میں اس کا پودا کھوج کر۔ انہوں نے سوچا ہوگا اور پایا ہوگا کہ بھلا ان پر کوئی مقدمہ کیوں چلے گا۔ انہیں عدالت جانے کی کیا ضرورت ہے۔
میں جانتا ہوں کہ سرنگ جیسا لمبا، حیران کن لیکن ڈراؤنا خواب جیسا مجھے آتا تھا، پتاجی کو بھی آتا رہا ہوگا۔ میری اور ان کی بہت سی باتیں بالکل ملتی جلتی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک پتاجی پوری طرح سے مان چکے ہوں گے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، سب جھوٹ اور ناقابل یقین ہے۔ اس لیے وہ بار بار اس خواب سے جاگنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہوں گے۔ اگر وہ بیچ بیچ میں زور زور سے کچھ بولنے لگتے تھے، یا شاید گالیاں بکنے لگتے تھے، تو اسی کٹھن کوشش میں کہ وہ اس آواز کے سہارے اس ڈراؤنے خواب سے باہر نکل آئیں۔ نیشنل ریسٹورنٹ کے نوکروں اور مالک سردار ستنام سنگھ نے جو کچھ بتایاتھا اس کے مطابق اس جگہ پتاجی کو بہت چوٹیں آئی تھیں۔ ان کی کنپٹی، ماتھے، پیٹھ اور بدن کے دوسرے حصوں پر کئی اینٹیں اور ڈھیلے آکر لگے تھے۔ سڑک کا ٹھیکا لینے والے ٹھیکے دار اروڑا کے بیس پچیس سال کے لڑکے منجو نے انہیں دو تین بار لوہے کی راڈ سے بھی مارا تھا۔ ستے کا تو کہنا تھا کہ اتنی چوٹوں سے کوئی بھی آدمی مرسکتا ہے۔
مجھے یہ سوچ کر ایک عجیب سی راحت ملتی ہے اور میری پھنسی ہوئی سانس پھر سے ٹھیک ہوجاتی ہے کہ اس وقت پتاجی کو کوئی درد محسوس نہیں ہوتا رہا ہوگا۔ کیوں کہ وہ اچھی طرح سے، پوری منطقیت اور گہرائی کے ساتھ، یقین کرنے لگ گئے ہوں گے کہ یہ سب خواب ہے اور جیسے ہی وہ جاگیں گے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آنکھ کھلتے ہی آنگن بُہارتی ماں نظر آجائے گی یا نیچے فرش پر سوتے ہوئے میں اور چھوٹی بہن دِکھ جائیں گے۔۔۔ ہوسکتا ہے انہیں بیچ بیچ میں اپنے اس عجیب و غریب خواب پر ہنسی بھی آئی ہو۔
اگر پتاجی نے غصے میں لڑکوں کی طرف خود بھی ڈھیلے مارنے شروع کردیے تو اس کے پیچھے پہلی وجہ تو یہی تھی کہ انہیں یہ بہت اچھی طرح سے پتا تھا کہ یہ ڈھیلے خواب کے اندر جارہے ہیں اور ان سے کسی کو کوئی چوٹ نہیں آئے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پوری طاقت سے ڈھیلا مار کر وہ بے تابی اور بے چینی سے یہ انتظار کرتے رہے ہوں کہ جیسے ہی وہ جاکر کسی لڑکے کے سر سے ٹکرائے گا، اس کا ماتھا نشٹ ہوگا اور ایک ہی جھٹکے میں اس ڈراؤنے خواب کے ٹکڑے بکھر جائیں گے اور چاروں طرف سے حقیقی دنیا کی بے تحاشا روشنی اندر آنے لگے گی۔ ان کازور زور سے چیخنا بھی دراصل غصے کی وجہ سے نہیں تھا؛ وہ اصل میں مجھے، چھوٹی بہن کو، ماں کو یا کسی کو بھی پکار رہے تھے کہ اگر وہ اپنے آپ اس خواب سے جاگ پانے میں کامیاب نہ ہوپائیں تب بھی کوئی آکر انہیں جگادے۔
ایک سب سے بڑی بدقسمتی بھی اسی بیچ ہوئی۔ ہمارے گاؤں کی گرام پنچایت کے سرپنچ اور پتاجی کے بچپن کے پرانے دوست پنڈت کندھئی رام تیواری لگ بھگ ساڑھے تین بجے نیشنل ریسٹورنٹ کے سامنے، سڑک سے گزرے تھے۔ وہ رکشے پر تھے۔ انہیں اگلے چوراہے پر سے بس لے کر گاؤں لوٹنا تھا۔ انہوں نے اس ڈھابے کے سامنے اکٹھی بھیڑ کو بھی دیکھا اور انہیں یہ پتا بھی چل گیا کہ وہاں پر کسی آدمی کو مارا جارہا ہے۔ ان کی یہ خواہش بھی ہوئی کہ وہاں جاکر دیکھیں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے رکشارکوا بھی لیا۔ لیکن ان کے پوچھنے پر کسی نے کہا کہ کوئی پاکستانی جاسوس پکڑا گیا ہے جو پانی کی ٹنکی میں زہر ڈالنے جارہا تھا، اسی کو لوگ مار رہے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت پنڈت کندھئی رام کو گاؤں جانے والی بس آتی ہوئی دِکھی اور انہوں نے رکشے والے سے اگلے چوراہے تک جلدی جلدی رکشا بڑھانے کے لیے کہا۔ گاؤں جانے والی یہ آخری بس تھی۔ اگر اس بس کے آنے میں تین چار منٹ کی بھی دیر ہوجاتی تو وہ یقیناً وہاں جاکر پتاجی کو دیکھتے اور انہیں پہچان لیتے۔ صوبائی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی وہ بس آدھاپون گھنٹہ لیٹ رہا کرتی تھی لیکن اس دن، اتفاق سے، وہ بالکل صحیح وقت پر آرہی تھی۔
ستنام سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ بھیڑ نیشنل ریسٹورنٹ کے سامنے سے تب ہٹی اور لوگ تتر بتر ہوئے جب بڑی دیر تک پتاجی زمین سے اٹھے ہی نہیں۔ اینٹ کاایک بڑا سا ڈھیلا ان کی کنپٹی پر آکر لگاتھا۔ ان کے منھ سے خون آنا شروع ہوگیا تھا۔ سر میں بھی چوٹیں تھیں۔ ستنام سنگھ نے بتایا کہ جب پتاجی بہت دیر تک نہیں ہلے جلے تو لڑکوں کے جھنڈ میں کسی نے کہا کہ لگتا ہے یہ مرگیا۔ جب بھیڑ چھٹنے کے دس پندرہ منٹ بعد بھی پتاجی نہیں ہلے جلے تو ستنام سنگھ نے ستے سے کہا تھا کہ وہ ان کے منھ پر پانی کے چھینٹے مار کر دیکھے کہ اگر وہ صرف بے ہوش ہیں تو ہوسکتا ہے کہ اٹھ جائیں۔ لیکن ستّا پولیس کی وجہ سے ڈر رہا تھا۔ بعد میں ستنام سنگھ نے خود ہی ایک بالٹی پانی ان کے اوپر ڈالا تھا۔ دور سے پانی ڈالنے کی وجہ سے زمین کی مٹی گیلی ہوکر پتاجی کے بدن سے لتھڑ گئی تھی۔
سردار ستنام سنگھ اور ستے دونوں کا کہنا تھا کہ لگ بھگ پانچ بجے تک پتاجی اسی جگہ پڑے ہوئے تھے۔ تب تک پولیس نہیں آئی تھی۔ پھر ستنام سنگھ نے سوچا کہ کہیں اسے پنچ نامہ اور گواہی وغیرہ میں نہ پھنسنا پڑجائے، اس لیے اس نے ڈھابا بند کردیا تھا اور ڈیلائٹ ٹاکیز میں ’’آن ملو سجنا‘‘ فلم دیکھنے چلا گیا تھا۔
اس وقت لگ بھگ چھ بجے تھے جب سول لائنز کی سڑک کی پٹریوں پر ایک قطار میں بنی موچیوں کی دکانوں میں سے ایک موچی گنیشوا کی گمٹی میں پتاجی نے اپنا سر گھسیڑا۔ اس وقت تک ان کے جسم میں چڈی بھی نہیں رہ گئی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل کسی چوپائے کی طرح رینگ رہے تھے۔ بدن پر کالک اور کیچڑ لگی ہوئی تھی اور جگہ جگہ چوٹیں تھیں۔
گنیشوا ہمارے گاؤں کے تالاب کے پاروالے ٹیلے کاموچی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں بہت ڈر گیا اور ماسٹر صاحب کو پہچان ہی نہیں پایا۔ ان کاچہرہ ڈراؤنا ہوگیا تھا اور پہچان میں نہیں آتا تھا۔ میں ڈر کر گمٹی سے باہر نکل آیا اور شور مچانے لگا۔ دوسرے موچیوں کے علاوہ وہاں کچھ اور لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تھے۔ لوگوں نے جب گنیشوا کی گمٹی میں آکر جھانکا تو گمٹی کے اندر، اس کے سب سے اندر کے کونے میں، ٹوٹے پھوٹے جوتوں، چمڑے کے ٹکڑوں، ربڑ اور چیتھڑوں کے بیچ پتاجی دبکے ہوئے تھے۔ ان کی سانس تھوڑی بہت چل رہی تھی۔ انہیں وہاں سے کھینچ کر باہر، پٹری پر نکالا گیا۔ تبھی گنیشوا نے انہیں پہچان لیا۔ گنیشوا کا کہنا تھاکہ اس نے پتاجی کے کان میں کچھ آوازیں بھی لگائیں لیکن وہ کچھ بول نہیں پارہے تھے۔ بہت دیر بعد انہوں نے ’’رام سوارتھ پرساد‘‘ اور ’’بکیلی‘‘ جیسا کچھ کہا تھا۔ پھر چپ ہوگئے تھے۔
پتاجی کی موت سوا چھ بجے کے آس پاس ہوئی تھی۔ تاریخ تھی ۱۷ مئی ۱۹۷۲ء۔ چوبیس گھنٹے پہلے لگ بھگ اسی وقت انہیں جنگل میں ترچھ نے کاٹا تھا۔ چوبیس گھنٹے پہلے کیا پتاجی ان واقعات اور اس موت کا اندازہ کرسکتے تھے؟
پولیس نے پتاجی کی لاش شہر کے مردہ گھر میں رکھوادی تھی۔ پوسٹ مارٹم میں پتاچلا تھا کہ ان کی ہڈیوں میں کئی جگہ فریکچر تھا، دائیں آنکھ پوری طرح پھوٹ چکی تھی، کالر بون ٹوٹی ہوئی تھی۔ ان کی موت دماغی صدمے اور زیادہ خون بہہ جانے کے سبب سے ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان کا معدہ خالی تھا، پیٹ میں کچھ نہیں تھا۔ اس کامطلب یہی ہوا کہ دھتورے کے بیچوں کا کاڑھا الٹیوں کے ذریعے پہلے ہی نکل چکاتھا۔
حالانکہ تھانو کہتا ہے کہ اب تو یہ طے ہوگیا کہ ترچھ کے زہر سے کوئی نہیں بچ سکتا؛ ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد اس نے اپنا کرشمہ دکھایا اور پتاجی کی موت ہوئی۔ پنڈت رام اوتار بھی یہی کہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پنڈت رام اوتار اس لیے ایسا کہتے ہوں کہ وہ خود کو یقین دلاناچاہتے ہوں کہ دھتورے کے بیجوں کاپتاجی کی موت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
میں سوچتاہوں، اندازہ لگانے کی کوشش کرتاہوں کہ شاید آخر میں، جب گنیشوا نے اپنی گمٹی کے باہر پتاجی کے کان میں آواز دی ہوگی تو پتاجی خواب سے جاگ گئے ہوں گے۔ انہوں نے مجھے، ماں کو اور چھوٹی بہن کو دیکھا ہوگا، پھر وہ داتن لے کر ندی کی طرف چلے گئے ہوں گے۔ ندی کے ٹھنڈے پانی سے انہوں نے اپنا چہرہ دھویا ہوگا، کلا کیا ہوگا، اور اس لمبے ڈراؤنے خواب کو بھول گئے ہوں گے۔ انہوں نے عدالت جانے کے بارے میں سوچا ہوگا۔ ہم لوگوں کے مکان کی فکر نے انہیں پریشان کیا ہوگا۔
لیکن میں اپنے خواب کے بارے میں بتانا چاہتاہوں جو مجھے اکثر آتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ میں کھیتوں کی مینڈھ، گاؤں کی پگڈنڈی سے ہوتا ہواجنگل پہنچ گیا ہوں۔ میں رَکسا نالے، کیکر کے پیڑ کو دیکھتا ہوں۔ وہ بھوری چٹان وہاں، اسی جگہ ہے جو ساری بارش نالے کے پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ترچھ کی لاش اس کے اوپر پڑی ہوئی ہے۔ مجھے ایک بے تحاشا خوشی اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ آخر وہ ماراگیا۔ میں پتھر لے کر ترچھ کو کچلنے لگتا ہوں، زور زور سے اسے مارتا ہوں۔ میرے پاس تھانو مٹی کا تیل اور ماچس لیے کھڑا ہے۔ تبھی، اچانک ہی میں پاتا ہوں کہ میں اس چٹان پر نہیں ہوں۔ تھانو بھی وہاں نہیں ہے۔ وہاں کوئی جنگل نہیں ہے بلکہ میں دراصل شہر میں ہوں۔ میرے کپڑے بہت ہی میلے، پھٹے اور چیتھڑوں جیسے ہوگئے ہیں۔ میرے گالوں کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں، بال بکھرے ہیں۔ مجھے پیاس لگی ہے اور میں بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید میں بکیلی، اپنے گھر جانے کا راستہ پوچھناچاہتا ہوں اور تبھی اچانک چاروں طرف شور اٹھتا ہے۔۔۔ گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔۔۔ ہزاروں ہزاروں گھنٹیاں۔۔۔ میں بھاگتا ہوں۔
میں بھاگتا ہوں۔۔۔ میرا جسم بے دم ہونے لگتا ہے، پھیپھڑے پھول جاتے ہیں۔ میں پاس پاس قدم رکھ کر اچانک لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوں، اڑنے کی کوشش کرتاہوں، لیکن لگتا ہے بھیڑ میرے پاس پہنچنے والی ہوتی ہے۔ ایک عجیب سی، گرم اور بھاری ہوا مجھے سن کردیتی ہے۔ اپنے قتل کی سانسیں مجھے چھونے لگتی ہیں۔۔۔ اور آخر کار وہ پل آجاتا ہے جب میری زندگی کاخاتمہ ہونے والا ہوتا ہے۔۔۔
میں روتا ہوں۔ بھاگنے کی کوشش کرتاہوں۔ میرا پورا بدن نیند میں ہی پسینے میں ڈوب جاتا ہے۔ میں زور زور سے بول کر جاگنے کی کوشش کرتاہوں۔۔۔ میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خواب ہے۔۔۔ اور ابھی آنکھ کھولتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ میں خواب کے اندر اپنی آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ہوں۔۔۔ دور تک۔۔۔ لیکن وہ پل آخر آہی جاتا ہے۔۔۔
ماں باہر سے مجھے دیکھتی ہیں۔ میرا ماتھا سہلاکر وہ مجھے رضائی سے ڈھانپ دیتی ہیں اور میں وہاں اکیلا چھوڑ دیاجاتاہوں۔ اپنی موت سے بچنے کی کوشش میں جوجھتا، بے دم ہوتا، روتا، چیختا اور بھاگتا۔
ماں کہتی ہیں مجھے اب بھی نیند میں بڑبڑانے اور چیخنے کی عادت ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں، اور یہی سوال مجھے ہمیشہ پریشان کرتا ہے، کہ مجھے آخر اب ترچھ کاخواب کیوں نہیں آتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.