Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تتلی سہیلی حویلی

خورشید حیات

تتلی سہیلی حویلی

خورشید حیات

MORE BYخورشید حیات

    روح کی انگنائی میں/حنائی رنگ ساعتوں میں/نرم انگلیوں کے پوروں پر/پھول– خوشبو منظر لکھ/ پھر سے اڑ گئی تتلی۔ پہلی بار جب اس نے اسے دیکھا تھا تو ایک خواب نے پرندوں کی طرح اپنے پر پھیلائے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ اب وہ زندگی کی راہ کے آخری چھْور تک صرف اسی کا ہو کر رہ جانے گا– باغ میں، بارش کے بعد دھیرے دھیرے پاؤں پسارتی دھوپ میں وہ ساتھ ساتھ بھیگے بدن کی رطوبت کو دور کرے گا اور کبھی طلوع آفتاب کے وقت آسمان پر لہراتے سرمئی– نیلے رنگ دوپٹے کو، راگ راگنی کی طرح رنگ بدلتے دیکھےگا۔

    اسے نہیں پتا تھا کہ تتلی کی طرح ادھر سے ادھر اڑتی ہوئی جس گلابی شلوار جمپر اور اپنے سر کو راجستھانی چْنری سے ڈھانپنے والی، لباس کے خوبصورت ضابطوں کو ساتھ لئے، اپنی باتوں سے صندلی خوشبو بکھیرنے والی لڑکی کو وہ دیکھ رہا ہے، وہ ایک دن اس کی زندگی کی پکی سہیلی بن جائیگی– سہیلی تو وہ آج بھی ہے مگر غیرمعمولی تیز رفتاری سے وہ نیلے آسمان پر ابھر آئے قوس قزح رنگ میں اپنے پروں کو رنگنے چلی گئی–

    تتلی ہو یا سہیلی وہ زیادہ عمر لے کر کہاں آتی ہے؟

    شاید کہ اس کی وجہ ان کا رنگ ریز سے بہت گہرا رشتہ رہا ہو۔

    شاید کہ اس کی وجہ باغیچہ کے بعض پھولوں میں تیزی سے رچتی بستی جا رہی زہریلی خوشبو رہی ہو۔

    باغیچہ کے پھول بدن کی خوشبو بھی تو آج کے انسان کی طرح رنگ بدلنے لگی ہے۔ اب تو باغیچہ کے مخملی احساس والے نقوش بھی تاریخ کی طرح مٹتے سمٹتے چلے جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں راجہ نے ہر باغیچہ کو درباریوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس جہاں کے ہر راجہ کو راگ درباری پسند آتے ہیں اور یہ درباری خود کو راجہ کے قریب پا کر صغیر سے عظیم اور عظیم سے عظیم تر سمجھنے لگتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ ماں کی ہری بھری، نرم احساس والی پاٹھ شالا میں جس دو شالہ کو اوڑھے ان کی آنکھیں نیلے آسمان کی وسعتوں کو اپنے اندر سمو لیتی تھیں اس میں کیکٹس اگ آتے ہیں۔ ان کے سامنے کے چار نوکیلے دانت جانوروں کی نہیں آدمیوں کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں اور سارے علاقے میں گناہ کی صورت لئے بچہ مرد جوان ہونے لگتا ہے اور آس پاس کے علاقوں میں دعاؤں کی ہتھیلی سے الامان الامان، الجبار الجبّار کی صدائیں ابھرنے لگتی ہیں۔

    الوہی طاقت اور صلیبی جنگ تتلیاں اب آسمانوں میں اڑتی ہیں۔

    صاحبو! کہانی خود کو خود سے ورق ورق پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئی ہے۔ بےوفائیوں کے موسم میں عشق تہذیب کو ایک دائمی زرد پوشاک دینے کی خاطر کہ چاندنی رات میں، خزاں کے موسم میں درخت کی شاخوں سے جدا ہوئے زرد پتوں کا سنگیت شعور قدس کو سجدے میں لے جاوے ہے۔

    میرے سامنے ابھی ایک حویلی ہے۔ حویلی بھی کچھ ایسی کہ جہاں مکین کی صورت میں رہتا ہے اب صرف ایک چہرہ۔ چہرہ بھی کچھ ایسا کہ موسم کے بدلتے مزاج کا اس پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔

    اس حویلی میں رہنے والا وہ کون ہے۔ جس سے حویلی کی جھالریں میٹھے درد کی نیلی رگوں کے ساتھ بھی روشن روشن ہیں۔؟

    میں نے بچپن میں سلبٹے کی موسیقی سے جڑی دادی ماں سے سن رکھا تھا کہ مکان کی رونق مکین سے ہوتی ہے، مکین نہیں تو مکان ایک پراسرار کھنڈر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے ہوتا یہ ہے کہ دیواروں کی سیلن اور دراریں الگ الگ داستان بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ دادی ماں نے جب یہ بات کہی تھی تو اس زمانے میں رشتے کی ڈور بہت مضبوط ہوا کرتی تھی۔ ایک نیند سے جاگتا تھا تو دوسرے کی آنکھوں میں خواب اْگ آتے تھے۔ ایک کا پاؤں جمتا تھا برف کی طرح تو دْوسرے کے پاؤں سے ندی کی دھارا بہہ نکلتی تھی۔ لیکن اب کے موسم کا مزاج بدل بدل سا گیا ہے۔ کتاب کائنات کے ہر ورق کو پڑھنے کی فرصت آج کسی کے پاس نہیں۔ سامان سے لے کر سوانگ تک سبھی پہیوں پر چل رہے ہیں اور قلی ائے قلی کی آواز بھی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ بادشاہ کی حویلی اور حویلی میں رہنے والی کنیزوں کی طرح۔ بیگمات کے گلاب پنکھڑی چہروں کی طرح۔ یہ چہرے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ اپنے ساتھ ایک داستان لئے پھرتے ہیں اور ہم ہیں کہ انھیں پڑھ نہیں پاتے۔ شانوں پر بیٹھے دو جانے پہچانے مگر اندیکھے چہروں کی طرح ہر وہ شئے جسے محسوس کیا جا سکے مگر دیکھا نہیں جا سکے، اسے دیکھنے اور ملنے کی تمنا زندگی کو اک نئی رفتار اور اک نیا اعتبار دے جاتی ہے۔ میں نے بھی اس حویلی سے جڑے کئی قصے سن رکھے تھے۔ جس نے مجھے لمبی ہوتی رات میں آج لا کھڑا کیا تھا۔

    ایک ایسی حویلی کے قریب میں کھڑا تھا جہاں رات کے اندھیارے پر اجیارا اپنا پر پھیلائے کی کوشش میں لگا تھا۔ باہر پھلواری میں نرم گھاسوں کے سلسلے تھے۔ پھولوں کی کیاریاں تھیں تتلیاں تھیں اور اموا کی ڈالی پر کویلیا کی کوہو کو ہو تھی۔ بڑے بڑے دالان میں بنے روشندان میں چڑیوں کے گھونسلے تھے۔ وہ حویلی آج بھی پچھلے موسم کی نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سنوری زمین سے لگی بیٹھی تھی کہ محبت، حویلی کو کھنڈر نہیں بننے دیتی۔

    عشق

    آنگن

    تتلی آسن

    سرسوں پھول

    مسرت ہجرت

    جسم حویلی

    روح، سہیلی

    کہانی ابھی ادھوری ہے کہ حویلی کے اندر تتلی آسن چہرہ دو کا دو ، دو دونی چار کے پر شور پہاڑا سے بےخبر عشق عبادت میں مصروف ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے