وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں میں اس نے اپنے شو کئے تھے۔ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتی تھی، اس نے کہانی سنانے کے فن کو بلندیاں عطا کی تھیں۔ وہ شاندار قصّہ گو تھی۔ اس کی تخلیق کردہ کہانیاں بے حد دلچسپ اور نرالی ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی کہانیاں سنانے کے لئے داستانوی انداز اختیار کیا تھا۔ اسٹوری ٹیلر کے خیال میں لوگ وہاٹس اپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر مصروفیات سے اکتا چکے تھے۔ اس نے کتابیں لکھنے اور فلم یا ٹی وی کے لئے اسکرپٹ لکھنے کے بجائے اسٹوری ٹیلنگ کا طریقہ اختیا ر کیا۔
وہ ایک پروگرام کی بڑی رقم وصول کیا کرتی تھی۔ اس کے شو بڑی بڑی کمپنیاں منعقد کراتی تھیں۔ جس کے ٹکٹ مہنگے دام میں فروخت ہوتے تھے۔ پروگرام کے منتظمین کو با مشکل تمام اس کی تاریخ ملا کرتی تھی۔ اس کی شہرت امیر اور اعلی طبقے میں زیادہ تھی۔ وہ معاشرے کی ہائی سوسائٹی کے لئے تفریح اور لطف اندوز ہونے کا نیا انداز بن کر ابھری تھی۔ اس کے مداحوں میں بڑے آفیسر، ڈاکٹر، بزنس مین، فنکار، اسپورٹس مین اورفلم اسٹار بھی شامل تھے۔ اس کے شو دیکھنے والوں کو سماج میں عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
آج کی اس کی یہ اسٹوری ٹیلنگ ایک بڑے ملک کی راجدھانی کے ایک عظیم الشان آڈیٹوریم میں منعقد کی جا رہی تھی۔ وہ اس ملک میں اپنی داستان پہلی بار سنا رہی تھی۔ لوگ بے قراری سے اسٹوری ٹیلر کے اسٹیج پر جلوہ افروز ہونے کے منتظر تھے کہ پروگرام کا آرگنائزر اسٹیج پر آیا اور سامعین سے مخاطب ہوا،
”دوستوں! آپ کا انتظار اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کے لئے، ہم سب کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ اسٹوری ٹیلر نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک میں شو کرنے کی منظوری دی۔ اب آپ کچھ ہی دیر میں اسٹوری ٹیلر آپ سے روبرو ہونگی۔ ہم اپنے ملک کی طرف سے، اپنی کمپنی کی طرف سے اور آپ سب کی طررف سے اسٹوری ٹیلر کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ تو صاحبوں استقبال کریں اسٹوری ٹیلر کا۔“
ارگنائزر شکریہ ادا کر کے چلا گیا تو اسٹوری ٹیلر اپنے مخصوص انداز میں اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئی، وہ بے حد حسین اور دلفریب لگ رہی تھی۔ اس کا چست لباس اس کی دلکشی کو ابھار رہا تھا۔ اس نے ایک ادائے دلربائی سے سامعین کی طرف فلائنگ کس اچھالی۔ مگر اسے بے حد حیرانی ہوئی کہ ناظرین محض اسے دیکھے جا رہے تھے۔ اسے اپنی کس کا کوئی بھی ردِعمل ان کی طرف سے نہیں ملا۔ ایسے موقعوں پر اکثر ناظرین سیٹیاں بجانا شروع کر دیتے تھے اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے ہال کی دیواریں دہل جاتی تھیں۔
”دوستوں!“ اسٹوری ٹیلر نے کان میں لگے مائک کو اپنے ہونٹوں کے آگے درست کرتے ہوئے کہا۔۔۔
”امید ہے کہ میری آج کی یہ کہانی، یہ تخلیق آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ آپ اس سے یقینا لطف اندوز ہوں گے۔
میری آج کی کہانی کا نام ہے ٹی او ڈی۔“
اس نے چند لمحے سامعین پر نگاہ دوڑائی تاکہ کہانی کے عنوان کا تاثر جان سکے، سارا مجمع دم بخود تھا۔ سب کی سانسیں تھم سی گئی تھیں۔ ایک سکوت کا عالم تھا۔ اسٹوری ٹیلر کو عجیب سا محسوس ہوا۔
اس نے کہانی سنانی شروع کی۔
”ایک بہت عظیم الشان ملک تھا۔ جس کا نام گلستان تھا۔ اس کی شاندار تاریخ، اس کی تہذیب و تمدّن، ثقافت، اس کی شان و شوکت اور عظمت کا چرچہ دنیا بھر میں تھا۔ مگر چند دہائیوں سے جن حکمرانوں نے ملک کی ذمہ داری سنبھالی تھی وہ اس کی عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے تھے۔“
یہ کہہ کر اسٹوری ٹیلر نے چند لمحوں کے لئے خاموشی اختیار کی اور ہال میں موجود لوگوں کی جانب نگاہ دوڑائی۔ خاموشی
مکمّل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے آگے کہا۔۔۔ ”پھر اس ملک کی باگ ڈور ایک ایسے شخص نے اپنے ہاتھوں میں لے لی جو مکّار، چالاک اور موقع پرست تھا۔ اس نے اپنے آس پاس خوشامد کرنے والوں فوج تیّار کر رکھی تھی، جو اس کے اشارے پر کام کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ملک کے کچھ دانشوروں کی خیال میں وہ بہت بڑا احمق تھا۔ اسی مناسبت سے وہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں احمق ہی مشہور ہو گیا تھا۔۔۔ احمق کی ”حماقت“ کے چرچے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں بھی ہونے لگے تھے۔۔۔ ملک جادونگری کو اس کی حماقتوں کا علم ہوا تو اس کے حاکم جادوگر نے فوراََ حکمتِ عملی تیار کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے احمق کے ملک کے سفر کا ارادہ کیا اور احمق کو بھی جادونگری میں آنے کی دعوت دی۔“
اسٹوری ٹیلر کچھ دیر رکی اور لمبا سانس کھینچ کر پھیپھڑوں کو تازگی بخشنے کے بعد گویا ہوئی۔۔۔ ”معزز حاضرین! یہ بات واضع رہے کہ جادونگری نے اپنی جادوگری سے کئی ملکوں پر غیر اعلانیہ قبضہ کر لیاتھا۔ جادوگر تمام دنیا پر اپنا جادو چلانا چاہتا تھا۔۔۔ اب اس کی نظریں گلستان پر تھیں۔ اس کے لئے یہ سنہری موقع تھا۔ جادوگر گلستان پر اور بالخصوص احمق کی کارگزاریوں پر گدھ کی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ ملک گلستان کی بائیں بازو کی خفیہ رپورٹ تو یہ بھی بتاتی تھی کہ احمق کا گلستان کا حاکم بننے میں جادوگر کا ہاتھ تھا۔ احمق نے اب جادو نگری کی چوکھٹ پر حاضری دینا شروع کر دی تھی۔
اس بار جب احمق جادونگری کے سفر پر گیا تو جادوگر اسے اپنے طلسماتی محل کے خفیہ کمرے میں لے گیا اور بولا۔۔۔ ”دیکھئے حاکمِ گلستاں! ہم چاہتے ہیں کہ گلستان ترقی کرے، مگر۔۔۔“ جادوگر خاموش ہو گیا۔
”مگر کیا حضور۔۔۔“ احمق نے اپنی نہ نظر آنے والی دم ہلاکر وفاداری کا ثبوت دیا۔۔۔ ”آپ تو بس حکم کریں۔۔۔“
”دراصل بات یہ ہے کہ گلستان کی عوام بیدار مغز نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے، اپنی خیالی دنیا سے باہر ہی نہیں آتی۔“ جادوگر نے اپنے چہرے پر زبردستی فکر کے تاثرات لاتے ہوئے کہا۔
”میں جانتا ہوں حضور، مجھے اپنے ملک کی عوام کی نادانیوں کا اعتراف ہے۔“ احمق نے مایوسی کا اظہار کیا۔ ”حضور، آپ کچھ مدد کریں، میری رہنمائی فرمائیں۔“
ہاں ہاں کیوں نہیں۔“ جادوگر کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔ اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔۔۔ ”اگر آپ چاہتے ہیں تو میں مدد کو تیار ہوں۔ اس کے لیے آپ کو اپنی عوام سے ایک ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس ٹیکس کی وصولی کے لیے جس طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہوگی جادونگری کرے گی۔“
ایک اور نئے ٹیکس کے نام پر احمق خوش ہو گیا، اسے جنتا پر نئے نئے ٹیکس لگانے کا خبط تھا۔
”حضور! اب یہ بھی بتا دیجئے، یہ ٹیکس کس طرح کا ہوگا اور مجھے کیا کرنا ہے؟“ احمق نے پوچھا۔
”دیکھئے، ہم چاہتے ہیں کہ۔۔۔“ جادوگر نے نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ”دنیا کا ہر ملک ترقّی کرے۔ پسماندہ ملک ہو یا پھر ترقی پذیر۔ ترقی کرنا، آگے بڑھنا، ہر انسان، طبقے، قوم اور ملک کا حق ہے۔ ہم نے ”عالمی جادوئی تنظیم“ میں بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ عوام کو ایک دوسرے سے نفرت اور خود غرضی سے دور رکھا جائے اور عالمی سطح پر بھی امن اور بھائی چارہ پھیلے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک خوب آگے بڑھے، کیوں کہ آپ ہمارے دوست ہیں۔“ جادوگر نے ٹیبل سے مشروب اٹھا کر احمق کی طرف بڑھایا۔ جادوگر کے اس رویّہ میں مہمان نوازی کا عنصر کم اور شکار کو پھانسنے کا معاملہ زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔ جادوگر نے آگے کہا۔۔۔
”دیکھیے حاکم ِ گلستاں! جادونگری کے ایک سائنسداں نے ایک ایسی ایجاد کی ہے، جس سے کسی بھی انسان کے خوابوں کو ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بہت چھوٹی سی چپ کو جس انسان کے بازو میں معمولی سے آپریشن کے ذریعے فٹ کر دیا جائے گا، وہ جب بھی کوئی خواب دیکھے گا، ایک مخصوص کمپیوئٹر میں ریکارڈ ہو جائے گا، وہ خواب جاگتی آنکھوں کا ہو پھر نیند میں آنے والا خواب ہو۔“
”تو پھر۔۔۔؟“ احمق نے اپنی حماقت دکھائی۔
”پھر کیا۔۔۔ سمجھو۔۔۔“ جادوگر نے جھنجھلا کر کہا۔ ”پھر یہ کہ آپ کو اپنے ملک کے ہر باشندے کے بازو میں یہ چپ فٹ کرانی ہوگی اور تب جو بھی کوئی دیکھے گا، اس سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے دو فائدے ہوں گے، اوّل یہ کہ ٹیکس کی رقم سے فلاحی کام کرائیے گا اور دوسرے آپ کی عوام خوابوں سے نکل کر عملی دنیا میں میں آجائے گی۔ آپ کا ملک تیز رفتاری سے ترقّی کرے گا۔“
یہ سن کر احمق کو کچھ تشویش ہوئی، اس نے اپنی ساری ہمّت و حوصلہ سمیٹ کر کہا۔۔۔ ”حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔۔۔؟ اس چپ کا استعمال آُ پ اپنے ملک کی عوام پربھی کر رہے ہیں؟“
جادوگر نے احمق کو ایسے دیکھا جیسے یہ سمجھنے کوشش کر رہا ہوکہ اتنی سمجھداری کی بات اس کے دماغ میں آئی کیسے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا جواب دوں۔۔۔ ”جادونگری کی عوام خواب نہیں دیکھتی عمل کرتی ہے۔“ یہ جملہ تیزی سے کہہ کر جادوگر نے میٹنگ کے خاتمے کا اشارہ کر دیا۔
احمق نیا سبق سیکھ کر اپنے ملک گلستان واپس آیا۔ اس نے فوراََ ایمرجنسی میٹنگ بلائی۔ جس میں اس نے تمام وزیروں اور عہدِ داروں کو اس چپ کی اطلاع دی۔ پھر اس نے باضابطہ اعلان کیا۔۔۔ ”ایک نیا محکمہ خواب و خیال قائم کیا جائے۔ اس محکمے کی تمام ذمہ داریاں میں خود سنبھالوں گا۔ اس کی ضروری کاروائیاں جلد سے جلد شروع کی جائیں، اس کام میں کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔“
کہانی سناتے سناتے اسٹوری ٹیلر اچانک خاموش ہو گئی، وہ مجمع پر نگاہیں دوڑانے لگی۔ ہر طرف خاموشی تھی، پوری طرح سنّاٹا۔ اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا، وہ سوچ رہی تھی کہ لوگ اس پر سوال کریں گے، بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر خاموشی بتا رہی تھی کہ انھوں نے اس بات کو قبول کر لیا ہے۔
اسٹوری ٹیلر نے اپنے مخصوص انداز میں دونوں ہاتھوں کو اوپر لے جا کر نیچے جھٹکا اور آگے کہا۔۔۔ ”اورجب یہ خبر عوام تک پہنچی تو پورے ملک میں ہنگامہ ہو گیا۔ اس نئے قانون کی زبردست مخالفت کی گئی۔ لوگ یہ ٹیکس دینے پر کسی صورت راضی نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا ہم یہ آپریشن کرائیں گے ہی نہیں۔
مرکزی سطح پر جو محکمہ خواب خیال قائم کیا گیا تھا، اس کی صوبائی شاخیں بنائی جانے لگیں۔ ساتھ ہی ہر ضلع میں اس کے مراکز قائم کئے گئے۔ ہر ضلع کے سرکاری اسپتالوں میں اس کا مخصوص شعبہ تیار کیا جانے لگا۔ حکومت نے اس کام کو تحریک کی شکل دے دی تھی۔ دیگر محکموں سے بھی مدد لی جا رہی تھی۔ عوام الناس سے سیدھا تعلق بنانے کے لئے سرکاری کارندے جو نئیر ڈاکٹر کے ہمراہ گھر گھر جا کر آپریشن کرکے گیہوں کے دانے کے برابر چپ ہر شخص کے بازو میں لگا رہے تھے اور اس کا رابطہ ضلع کے محکمہ خواب وخیال کے دفاتر میں رکھے کمپیوٹر سے جوڑا جا رہا تھا تاکہ دیکھے گئے خوابوں کو ریکارڈ کیا جا سکے اور اس کا بل بناکر رقم وصول کی جائے۔
ظاہر ہے یہ کوئی معمولی اور چھوٹا کام نہ تھا۔ اس کے لئے وقت درکار تھا۔ اس کام میں خرچ ہونے والی رقم کے لئے جادونگری فنڈنگ کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس نے اس کام کے لئے سائنس داں، ڈاکٹر اور دیگر ”ماہرین“ کا بھی انتظام کیا تھا۔
دوسری طرف حکومت میں بائیں بازو کی طاقت اس ٹیکس کے سخت خلاف تھی۔ مگر ان کی ایک نہ چلی۔ حکومت کا کام جاری رہا۔ عوام میں زبردست ہلچل تھی، اس کے خلاف جلسے، جلوس اور دھرنا پردرشن ہو رہا تھا۔ ملک کا ذہین دانشور طبقہ بھی سڑکوں پر اتر آیا تھا۔ ہر شہر کے پبلک پارکوں میں آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔
دفتروں اور چائے خانوں میں بھی اسی کا ذکرہو رہا تھا۔ ایک دفتر میں بڑے بابونے کہا۔۔۔ ”میرے خیال میں اس ٹیکس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔“
”جناب! آپ کس بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں؟“ دوسرے بابو نے مخالفت کی۔
”دیکھو بھائی، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ملک کا حکمراں اور اس کی ٹیم بہت قابل لوگ ہیں۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کرہی کیا ہوگا۔“ پاس میں بیٹھے کلرک نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”وہی تو میں کہہ رہا ہوں۔“ بڑے بابو نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔۔۔ ”ہم سب کو خوابوں کی دنیا سے باہر نکلنا ہی ہوگا۔“
”یہ مت بھولو، دنیا میں جس کسی طرح کی بھی ایجادات ہوئی ہیں یا انسان نے کامیابی حاصل کی ہے اس کے پیچھے انسانوں کے خواب ہی تھے۔“ کلرک نے فائل کو ایک طرف کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ سے کہا۔
”مگر میرے بھائی ایسے لوگ دنیا میں چند ہوتے ہیں، جن کے خواب انسانی نسل کے لئے مفید ہوں۔“ دوسرے بابو نے کہا۔
”ہمارے ملک کی عوام جس خوابوں کی دنیا کی دنیا میں رہتی ہے، وہ بے حد خطرناک ہے۔“ بڑے بابو بولے۔
”آپ درست فرما رہے ہیں۔ خوابوں پر ٹیکس لگنا ہی چاہئے۔“ کلرک نے چاپلوسی والے انداز میں کہا۔
”خوابوں پر ٹیکس۔۔۔ اونہہ۔۔۔“ دوسرے بابو نے جھنجھلا کر اخبار کو ٹیبل پر پٹخ دیا اور دفتر سے باہر چلا گیا۔
ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی اس کے خلاف چرچے ہو رہے تھے۔ ملک کی ایک مرکزی یونیور سٹی میں برابر احتجاج ہو رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم آزادی کا پرچم اٹھائے نعرے لگاتے گھوم رہے تھے۔۔۔
”ہم کیا چاہیں، آزادی!“
”سپنے دیکھنے کی آزادی“
”جینے کی آزادی“
”آزادی۔۔۔ آزادی۔۔۔ آزادی۔۔۔“
مگر ان سارے ہنگاموں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔“
اسٹوری ٹیلرنے دائیں جانب دیکھا جہاں کونے میں ٹیبل پر پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں رکھی ہوئیں تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹیبل کے قریب گئی۔ اس نے پانی کی بوتل اٹھائی ایک ہی سانس میں بوتل خالی کر دی۔ اس کے حلق سے پانی اندر جانے کی ”غڑپ غڑپ“ کی آوازیں کان میں لگے مائک کی وجہ سے سب کو سنائی دے رہی تھیں۔
اسٹوری ٹیلر بہت پریشان تھی آخر کیوں آج کوئی ہاتھ اٹھا کر سوال نہیں کر رہا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کہانی پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوا؟ دوسرے ملکوں میں تو اس کہانی پر کئی اعتراض ہوئے تھے۔۔۔ وہ آگے بولی۔۔۔ ” اور دوستوں آخر کار وہی ہوا جو احمق چاہتا تھا۔۔۔ غریب اور لاچار عوام پر ایک اور ٹیکس لاد دیا گیا۔۔۔ خواب دیکھنے کا ٹیکس۔ جی ہاں ٹی او ڈی۔ یہ ٹیکس دو قسم کا تھا، ایک جاگتی آنکھوں والے خوابوں کا ٹیکس اور دوسرا نیند میں آنے والے خوابوں کا ٹیکس۔ دوسرے قسم کے ٹیکس کی رقم، پہلے والے ٹیکس سے کم تھی۔
سرکاری خزانے میں لگاتار رقم جمع ہو رہی تھی۔ لوگ خود کو خواب دیکھنے سے باز نہیں رکھ پا رہے تھے۔ وہ بہت کوشش کرتے کہ خواب نہ دیکھیں مگر۔۔۔ بے خیالی میں خوا بوں میں کھو جاتے اور گھر پر لگا خوابی میٹر چل پڑتا۔ غریب لوگ جتنا کماتے تھے، اس کا زیادہ تر حصّہ ٹیکس میں چلا جاتا تھا۔ کبھی کبھی آمدنی سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ تا تھا۔ امیر اور اعلی طبقے کے لوگوں کو شروع میں ٹیکس ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی مگر بعد میں وہ بھی لگاتار پیسہ دیتے دیتے اکتا چکے تھے۔ تب ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب کبھی کسی بھی حالت میں خواب نہیں دیکھیں گے۔“
اسٹوری ٹیلر کا گلا خشک ہو چکا تھا۔ وہ تھکان محسوس کر رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر پانی پیا۔ اور نئی توانائی کے ساتھ کہانی کو آگے بڑھایا۔
”تو دوستوں آپ کو کیا لگتا ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا۔۔۔؟“
اسٹوری ٹیلر خاموش ہوگئی اور جواب کا انتظار کرتے ہوئے، آگے کی قظار میں بیٹھے لوگوں کا چہرہ تکنے لگی۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔ اسٹوری ٹیلر کو اس بات کی بالکل توقع نہیں تھی۔ وہ مایوسی کے انداز میں کہانی کو اختتام کی طرف لے جانے لگی۔
”کئی لوگوں پر تو اس بات کا ہی ٹیکس لگا دیا گیا کہ وہ خواب دیکھنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔۔۔ تو پھر دوستوں! چند سالوں میں ہی صورتِ حال کچھ اس طرح ہو گئی کہ امیر اور اعلی طبقے کے لوگ غیر ممالک میں جا بسے۔ متوسط طبقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں خود کشی کر لی۔ بے شمار لوگ حکومت سے بغاوت کرنے، فسادات اور بھوک سے مارے گئے۔
ایک سروے کے مطابق کل ۳۳ فیصد آبادی باقی رہ گئی تھی جس نے بنا خوابوں کے جینا سیکھ لیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایک مشین میں تبدیل ہو چکے تھے، ان میں انسانی احساسات و جذبات ختم ہو چکے تھے۔ یہ لوگ سانس لیتے تھے، مشین کی طرح کام کرتے تھے، مشین میں ڈالے جانے والے تیل، پیٹرول کی طرح کھانا کھاتے تھے اور جس طرح مشینوں کی کبھی کبھی صفائی ہوتی ہے، اس انداز میں سیکس کرتے تھے۔ کچھ دیر بستر پر آرام کے لئے ایسے جاتے تھے جیسے مشین چلتے چلتے گرم ہو جاتی ہے تو اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے معمولی وقت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے۔ ترقّی تنزلّی، عزّت، ذلّت، اچھّائی برائی ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ تمام طرح کی جمالیاتی حس سے وہ ناواقف ہوچکے تھے۔“
اسٹوری ٹیلر ایک بار پھر خاموش ہو گئی۔ اس نے مایوسی کا ایک لمبا سانس چھوڑا۔۔۔ اور بولی۔۔۔ ”احمق جو ایک بار پھر ملک کا حکمراں منتخب ہو گیا تھا۔ ، وہ جادونگری کی چوکھٹ پر بیٹھا اپنے ملک کی بربای کے لئے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔
”میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں سرکار، اب میں کیا کروں۔۔۔ تمام طرح کی صلاحتیں گلستان سے ناپید ہو گئی ہیں، اب گلستان برباد ہو چکا ہے۔“
یہ سن کر جادوگر مسکرایا اور بولا۔۔۔ ”ارے تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟ہم گلستان کی حفاظت کے لئے نہ کہ صرف یہ کہ اپنی فوجی طاقت کو آپ کے یہاں بھیجیں گے بلکہ ساتھ ہی ہر طرح کی صلاحتیں بھی بھیجیں گے اور یہی نہیں بلکہ ملک کو نئے سرے سے آباد کرنے کے لئے ہم جادونگری کی عوام بھی وہاں بھیجیں گے۔۔۔ اب تو خوش ہو نہ حاکمِ گلستاں۔۔۔ اور بولو۔۔۔“
یہ سن کر احمق خوش ہو گیا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے جادوگر کے جوتے اپنی قمیض کی دامن سے صاف کرنے لگا۔“
اسٹوری ٹیلر نے ایک لمبی سانس چھوڑی اور تھک کر قریب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
”بس اتنی سی تھی یہ کہانی۔“
اسٹوری ٹیلر کہانی مکمّل کر چکی تھی۔ مگر اسٹوری ٹیلر کے لئے مقامِ حیرت تھا کہ سامعین میں سے کسی نے تالیاں نہیں بجائی تھیں، کسی بھی طرح کے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہر احساس سے عاری۔ سارے سامعین کہانی سن کر آڈیٹوریم سے اس طرح باہر نکل رہے تھے جیسے ان کے بازو میں بھی کوئی چپ نصب ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.