ٹام جیفرسن کے پنجرے
نوجوان لڑکا طوطے کو گالی سکھا رہا تھا۔
’’بول مٹھو۔۔۔ سالا۔۔۔!‘‘
سالا۔۔۔ سالا۔۔۔ سالا۔۔۔
طوطا خوش دلی سے دوہرانے لگا۔۔۔ بڈھے ٹام نے گردن موڑ کر لڑکے کو دیکھا۔
’’کیا کرتے ہو۔۔۔؟ میرے بچوں کو خراب کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘
نوجوان، ٹام کی بات نظر انداز کر کے اور اس کی طرف شوخی سے دیکھ کر پھر طوطے کو سکھانے لگا۔ ’’بول مٹھو حرامی۔۔۔ حرامی۔۔۔‘‘
طوطا جیسے لڑکے کو خوش کرنے پر آمادہ تھا۔ زور سے چیخا، ’’حرامی۔۔۔!‘‘
بڈھے ٹام نے چھڑی اٹھائی۔۔۔ ’’تم بھاگوگے کہ نہیں؟ میں ابھی تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں۔‘‘
اس کے چھڑی اٹھانے پر بڑے پنجرے میں بند، بندروں کے پریوار کا مکھیا کھوکھیایا۔ بڈھے ٹام نے اس کو ڈانٹا۔
’’حرامی کی اولاد، تم کیوں دانت نکوس رہے ہو۔ میں تو اس لڑکے کو پیٹنے جارہا ہوں، جس نے میرے بچوں کی عادتیں حراب کر دی ہیں۔‘‘
لڑکا برآمدے میں طوطے کے پاس کھڑا تھا۔ بڈھے ٹام کو چھڑی لے کر آتا دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اور بھاگتے ہوئے بولا، ’’انکل! تمہارے بچے میرے دوست ہیں۔ وہ تم سے زیادہ میری بات مانتے ہیں۔‘‘
ایک بندر اور ایک بندریا تھی اور اس کے دو بچے۔ آٹھ خرگوش تھے، سفید براق ریشم جیسے۔ ان کی لال لال خوبصورت آنکھوں میں خوف ہمیشہ جھانکا کرتا۔ وہ ذرا سی آواز پر چونک پڑتے۔ ایک لمحے کے لیے پلٹ کر دیکھتے، پھر بھاگ جاتے۔ پنجرے ان کے بھی تھے مگر وہ زیادہ تر کھلے رہتے۔ لڑکے دوڑاتے تو بھاگنے کی بجائے جھٹ زمین پکڑ کر بیٹھ جاتے۔ اس سے لڑکوں کو انہیں پکڑنے میں آسانی ہوتی۔ پھر وہ انہیں اپنی گرد میں لیے پھرتے، پکڑتے، پھر چھوڑ دیتے۔ کبھی کبھی بیٹھ کر اپنی جانگھوں پر رکھ کر ان کی پشت سہلاتے تو وہ اپنی سرخ خوبصورت آنکھوں کو بند کرکے آنند کی کسی دوسری دنیا میں کھو جاتے۔
عورتوں کو زیادہ دلچسپی بندروں سے تھی۔ وہ جب ایک دوسرے کی جوئیں نکال نکال کر کھاتے، عورتیں بہت ہنستیں۔ کبھی کبھی کوئی زیادہ جرات مند عورت اپنا سر ان کے حوالے کر دیتی تو نہایت مستعدی سے اس کی جوئیں نکالنا شروع کر دیتے۔ وہ عورت دینے کو تو اپنا سر دے دیتی مگر بے انتہا خائف رہتی۔ کیونکہ ایک بار ایک عورت نے سر دینے کے بعد فوراً ڈر سے سر ہٹانا چاہا تھا تو بندر نے ایک تھپڑ جڑ دیا تھا۔ دوسری عورتیں بندر کے غصے ہونے اور بندریا کے خوف کھانے سے کافی محظوظ ہوئیں۔ ان کا ایک خاندان میں مل کر ہنا بھی اچھا لگتا تھا۔ بندر کے دونوں بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، باپ کا باربار کھوکھیانا اور ماں کی ممتا۔ یہ سب کچھ ملا کر ایک دم گھریلو سا ماحول ہو جاتا۔عورتیں ان بندروں کے لیے مونگ پھلیاں اور پھل بھی لاتیں۔ دن کا بچا کچھا کھانا اور باسی سوکھی ہوئی روٹیاں بھی بوڑھے ٹام کے ان بے زبان بچوں کے لیے بھیج دی جاتیں۔ فصلوں کے موقعے پر اناج باندھ دیا گیا تھا۔ مرد کبھی کبھی بوڑھے ٹام کی پیسوں سے مدد کر دیا کرتے تھے۔
ٹام کا گھر قصبے کا چڑیا گھر تھا۔ قصبے کے بھولے بھالے معصوم لوگ عام طور پر شام کو بیوی بچوں کے ساتھ گھومنے بڈھے کے گھر آجاتے۔ بڈھا ہر آدمی کا استقبال ٹوپی سر سے اٹھا کے کرتا، جس کو وہ پتہ نہیں کب سے پہنتا آرہا تھا۔ گھر تو چھوٹا سا تھا مگر سامنے کھلی ہوئی کافی زمین تھی جس کے گرد مہندی کی باڑھ کھڑی کر کے احاطہ بنا دیا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ میں بیٹھنے کے لیے بنچ وغیرہ نہیں تھے۔ مگر فرش پر ہمیشہ ملائم دوب کا قالین بچھا رہتا، جس پر مرد اور عورتیں بلا تکلف بیٹھ جاتے۔ لڑکے دوڑیں لگاتے، گھا س پر لڑھکتے اور ادھر ادھر بھاگ رہے خرگوشوں کو پکڑتے۔
ٹام انہیں خوش خرم ہنستا بولتا دیکھ کر ایک دم آسودہ ہو جاتا۔ جیسے اس سے آگے زندگی میں اور کچھ نہ ہو۔
ٹام کی زندگی میں تو واقعی اس سے آگے کچھ نہیں تھا۔ چوالیس سال پہلے جنگ کی ہولناکیوں سے جھوجھتا بارود کے دھوئیں میں کھانستا دشمنوں کے لہو میں شرابور وہ یہاں پہنچا تھا۔ برما کے محاذ پر ٹریگر پر انگلیاں رکھے رکھے اور بندوق کا گھوڑا دباتے دباتے اس کی انگلیاں زخمی ہوگئی تھیں۔ انہیں انگلیوں کے علاج کے لیے اسے ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈ آفس رانچی کے مضافات میں ایک آرمی ہسپتال میں لایا گیا تھا۔
لوگ کہتے ہیں ہندوستان کی ہوائیں بڑی ساحر ہیں۔ آدمی کی مت مار دیتی ہیں۔سبزے سے ڈھکی ہوئی وادی کا جادو۔ بے حد پرسکون نرم رو زندگی کا جادو، بھولے بھالے معصوم بے ریا آدمی داسیوں کی چاہتوں کا جادو، وہ کتنے جادوؤں سے اپنے آپ کو آزاد کرتا، سو وہ بے بس ہو گیا۔ موہ میں آگیا۔
جنگ ختم ہوگئی۔ اپنی دو انگلیاں کٹوا کر وہ انگلینڈ چلا گیا۔ زمانہ بیت گیا۔ اس وقت کے بچے جوان ہوگئے۔کہ اچانک ایک دن وہ اپنا بوسیدہ جنگی تھیلا پیٹھ پر لٹکائے اسی وادی میں لوٹ آیا تھا۔ جنگ اس نے جیب لی تھی مگر دل ہار گیا۔ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اس نے جنگلوں سے ڈھکی ہوئی بے پناہ حسین وادی کو دیکھا۔ ہواؤں کی آغوش میں مچلتی سبزے کی خوشبو کو اپنے اندر اتر جانے دیا اور تب اس نے جانا کہ دھوئیں اور بارود کی شامہ کو مجروح کردینے والی بو کے علاوہ بھی کوئی خوشبو ہے۔ جو صرف پھیپھڑوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ رگ وپے میں اتر جاتی ہے، سرشار کر دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ زندہ رہنے کے لیے پرشور، تیزرفتار اور آسائشوں سے پر زندگی ضروری نہیں ہے۔ اگر مہاتما بدھ کو یہیں کہیں نروان ملا تھا تو اسے بھی یہیں پہلی بار زندگی گزارنے کامطلب سمجھ میں آیا۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹام جیفرسن کے مائی گریشن کے پیچھے دراصل ایک کالی لڑکی تھی۔ جن دنوں وہ آرمی ہسپتال میں زیر علاج تھا، اس کی ملاقات ایک آدی باسی لڑکی سے ہوئی تھی۔ وہ اسپتال کی سویپر تھی اور بہت چپکے سے مشرق نے مغرب کے دل کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور جب مغرب نے دروازہ کھولا تواپنے مشرق کے بے پناہ حسن کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ اے بلیک روز، اے پیس آف بلیک جوئیل۔۔۔
اگر ٹام جیفرسن سے اس سلسلے میں کوئی بات کرتا ہے تو وہ ہنستا ہے اور ایک الگ کہانی سناتا ہے۔
’’میں روبوٹوں کے بیچ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ میں انسان تھا، انسانوں کے بیچ رہنا چاہتا تھا۔ زندہ اورگرم انسانوں کے بیچ۔ وہاں ہر انسانی آواز مشینوں میں کھو گئی ہے۔ آدمی کا ہنسنا، آدمی کا رونا، آدمی کا بولنا، آدمی کا چیخنا، سب مشینوں کے شور میں غائب ہو گیا ہے، سارے انسانی رشتے ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔ سرد بے حس مشینوں کی طرح جسم لمس کی لذت سے محروم ہو گئے ہیں۔آدمی صرف اپنی پہچان ہی نہیں کھورہا ہے اپنا وجود کھورہا ہے اور ایک روبوٹ کی طرح جی رہا ہے۔
اس قصبے میں اس کی بات سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے لوگ اس کو جھکی سمجھتے ہیں۔ ٹھیک بات ہے، اگر وہ جھکی نہیں ہے تواپنا اتنا بڑا خوبصورت دیش چھوڑ کر اس جنگل میں کیوں آبسا ہے؟ جانوروں کے بیچ اس کا یہ پاگل پن بستی والوں کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے وہ اس کو اپنے سے بہت اونچا کوئی مافوق الفطرت شخص مانتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس کی عزت بھی کرتے ہیں۔
مگر طوطا اس کی ایک نہیں سنتا۔ وہ ایک دم شوخ ہو گیا ہے۔ جب ٹام کو اس کی خوراک دینے میں دیر ہو جاتی ہے تب وہ گالی بکنا شروع کر دیتا ہے،
بیٹا، بیٹا، بیٹا۔۔۔!
حرامی، حرامی۔۔۔!
سالا۔۔۔!
اس کو یہ گالیاں مالکم کجور کے بیٹے جوکھیم کجور نے سکھائی ہیں۔ جوکھیم بستی کا سب سے بدمعاش لڑکا ہے مگر سب سے تیز بھی ہے۔ رانچی کے کسی مشن اسکول میں پڑھتا ہے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک سائیکل خرید دی ہے۔ اسی سائیکل پر وہ روزانہ اسکول جاتا ہے اور روزانہ اسکول جاتے ہوئے اور اسکول سے واپس آتے ہوئے سائیکل کی گھنٹی زور زور سے بجاتا ہے۔ طوطا گھنٹی کی ہر آواز پر ایک گالی اچھالتا ہے اور ٹام اپنی چھڑی لہرا کر طوطے کو دھمکاتا ہے۔ طوطا اس سے نہیں ڈرتا جیسے جوکھیم نہیں ڈرتا۔
جس دن اسکول میں چھٹی ہوتی ہے اس دن جوکھیم سارا دن ٹام کا بھیجا چاٹتا ہے۔
’’آپ کو اکیلے در نہیں لگتا۔۔۔؟‘‘
’’میں اکیلا کب رہتا ہوں، یہ جو میرے ساتھ رہتے ہیں۔۔۔!‘‘ وہ جانوروں کی طرف اشارہ کرتا۔
’’یہ آدمی ہیں۔۔۔؟‘‘ وہ تعجب سے پوچھتا۔
’’یہ آدمیوں سے اچھے ہیں۔‘‘
’’مگر آدمی کو آدمیوں کے ساتھ رہنا چاہیے‘‘۔ لڑکا عقلمندی کا اظہار کرتا۔
’’آدمی جب روبوٹ ہو جائیں تو یہ جانور ہی بھلے۔۔۔!‘‘
جوکھیم دسویں کلاس کا طالب علم ہے۔ وہ روبوٹ کے معنی جانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ آدمی کب روبوٹ بن جاتا ہے۔ اس لیے وہ ٹام کو اگر پورا نہیں تو آدھا پاگل ضرور سمجھتا ہے۔ پھر وہ اپنی بات پلٹتا ہے۔
’’تمہیں تمہارا گھر نہیں یا دآتا۔۔۔؟ اور تمہارے بچے۔۔۔؟‘‘
ٹام کو کیا یاد آتا ہے کیا یاد نہیں آتا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ کسی کو بتاتا بھی نہیں۔ اس سے بارہا یہ سوال کیا گیا۔ بارہا لوگوں نے وہ وجہ جاننے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے اس نے اپنا ملک چھوڑا۔ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا وہ یہاں خوش ہے۔۔۔ وہ سارے سوالوں کے جواب دے سکتا ہے مگر دیتا نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ اس سلسلے میں کچھ بولےگا تو لوگ اس کو اور پاگل سمجھیں گے۔ مگر جوکھیم کو وہ بہت خوش دلی سے بتاتا ہے۔
’’میرا گھر یہیں ہے۔ میں پچھلے جنم میں یہیں پیدا ہوا تھا۔۔۔؟‘‘
’’آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ پچھلے جنم میں یہیں پید اہوئے تھے؟‘‘
’’مجھے معلوم ہے، یہاں ہمارا گھر تھا ایک، چھوٹا سامٹی کا اور اس میں تمہاری آنٹی رہتی تھی۔۔۔!‘‘
’’آنٹی۔۔۔؟ جوکھیم تعجب سے پوچھتا، ’’آنٹی بھی کیا آپ ہی کی طرح گوری تھی؟‘‘
وہ خوب ہنستا۔ پھر بتاتا ’’نہیں کالی تھی، ایک دم کالی، جیسے تم لوگ ہو۔ اے بلیک جوئیل۔۔۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟‘‘ وہ آگے جاننے کے لیے بےچین ہو جاتا۔
’’پھر آگے مجھے کچھ یاد نہیں آتا۔۔۔!‘‘
جوکھیم پوچھ پوچھ کر مایوس ہو جاتا تو طوطے کے پاس چلا جاتا۔
’’بول مٹھو، آنٹی کالی تھی۔۔۔!‘‘
ٹام بہت پیار سے طوطے کو اور پھر اسی پیار سے جوکھیم کو دیکھتا ہے۔ کہیں اندر تاریک گوشوں سے روشنی کی پھوہار سی گرنے لگتی ہے۔
رانچی شہر کے مضافات میں بسا ہوا یہ ایک آدی باسی قصبہ اتنا پرسکون ہے کہ لگتا ہے اس دور کی تہذیب کے مکار ہاتھوں نے اسے ابھی چھوا تک نہیں ہے۔ حالانکہ شہر سے س کا فاصلہ زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے مرد شہر میں کام کرتے ہیں۔ بہت سی عورتیں بھی اپنی روزی روٹی اسی شہر سے حاصل کرتی ہیں۔ کتنے ہی بچے شہر کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کبھی کبھی کیتھولک چرچ کے پادری بھی وعظ دینے آ جاتے ہیں، مگر جیسے ہر موج چڑھتی ہے اور اتر جاتی ہے، نہ کچھ دے جاتی ہے نہ کچھ لے جاتی ہے، سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ تہواروں میں لوگ چاول سے کشید کی جانے والی شراب ’راسی‘ پیتے ہیں۔ عورتیں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ناچ ناچتی ہیں۔ ڈھول اور مردنگ بجتے ہیں اور عام طور پر یہ سب کچھ ٹام صاحب کے احاطے میں ہوتا ہے۔ اس دن ٹام صاحب اپنا اکلوتا سوٹ نکال کر پہنتا ہے۔ جو دھلائی اور پریس نہ ہونے کی وجہ سے ایک دم بدرنگ اور بدوضع ہو گیا ہے۔ اس دن وہ چاول سے کشید کی جانے والی شراب بھی پیتا ہے اور ناچ کے دوران اور لوگو ں کے ساتھ ساتھ تالی بھی پیٹتا ہے۔ زندگی یہاں ایک ندی کی طرح پرشور نہیں بلکہ ایک جھیل کی طرح پرسکون ہے۔ پرسکون، گہری اور ناقابل تبدیل۔
مگر یہ ٹام صاحب کا بھرم تھا کہ یہاں کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ بہت آہستہ آہستہ، بہت زیریں سطح پر ایک تبدیلی رونما ہورہی تھی۔ لوگوں کی بات چیت میں، الفاظ میں، گانوں کے بول میں، لباس میں اور خیالوں میں بھی۔ ٹام جیفرسن جو اپنے احاطے سے کبھی باہر نہیں نکلتا تھا، اس کو کیا معلوم کہ سارا آدی واسی علاقہ آہستہ آہستہ کروٹ لے رہا ہے۔ جاگا نہیں ہے مگر نیند ٹوٹنے کی وہ کیفیت، جب رفتہ رفتہ حواس مجتمع ہونا شروع ہوتے ہیں اور دھیرے دھیرے ادراک پیدا ہونے لگتا ہے، تقریباً صاف دکھائی دے رہی ہے۔
اس بات کا احساس ٹام جیفرسن کو اس دن ہوا جس دن قصبے سے شہر کا کام کرنے گئی تین لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا۔ جب اندھیرا ہونے کے بعد بھی لڑکیاں واپس نہیں آئیں تو گاؤں میں بےچینی پھیل گئی۔ لوگ، جو اندھیرا گہرا نے کے فوراً بعد اپنے گھروں میں بند ہو جانے کے عادی تھے، باہر جگہ جگہ دودو چار چار کی ٹولیوں میں جمع ہوکر باتیں کرنے لگے۔ پھر نوجوانوں کی ایک ٹولی شہر پتہ لگانے کے لیے بھیجی گئی۔ ساری رات بستی میں کوئی نہیں سویا۔
صبح کو معلوم ہوا کہ تین لڑکیوں میں سے ایک کا قتل ہو گیا ہے۔ دو لڑکیاں بےہوش پائی گئیں۔ ڈاکٹری جانچ کے مطابق ان تینوں کے ساتھ کئی آدمیوں نے ریپ کیا تھا۔ ریپ کرنے والے کون تھے، اس کا بھی ایک حد تک پتہ چل گیا۔ یہ شہر کے کچھ ایسے بااثر لوگ تھے جن پر ہاتھ ڈالنے میں پولیس آناکانی کر رہی تھی۔ ایسی کوشش کی جا رہی تھی کہ معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے۔ کالج کے آدی باسی لڑکوں نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا اور مشتعل ہو کر پتھر برسانے لگے۔ جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ جس میں کئی لڑکوں کو چوٹیں آئیں۔
یہ ساری خبریں بستی والوں کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھیں۔ پہلے تو کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا۔ پھر جیسے دھیرے دھیرے آگ سلگنے لگی۔ دھواں اٹھنے لگا، گرمی بڑھنے لگی۔ لوگوں کے دل و دماغ دہکنے لگے۔ سائیکلیں قصبے سے شہر اور شہر سے قصبے دوڑنے لگیں۔ دوسرے دن سارا رانچی شہر بند ہو گیا۔ بند کا اعلان جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے کیا تھا۔ طے ہوا کہ اسی دن قصبے سے ایک جلوس نکال کر رانچی ڈپٹی کمشنر کے اجلاس میں احتجاج کے لیے جایا جائے۔ صبح سے آس پاس کے دیہاتوں سے، بلکہ دور دراز کی بستیوں سے پیدل اور ریل گاڑیوں میں لوگ آنا شروع ہوئے۔ جنگل کے انتہائی اندرونی علاقوں سے بھی لوگ پہنچے تھے۔ شانوں پر کمان سجائے، پیچھے پشت پر ٹنگے بانس کے ترکش میں تیروں کا گچھا لیے ڈھول بجاتے نقارے پیٹتے۔ دوپہر سے پہلے پہلے ساری بستی اجنبی لوگوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی۔ کہیں ذرا سی جگہ نہیں بچی تھی۔ ٹام جیفرسن کا احاطہ کچھا کھچ بھر گیا۔ پھر جیپو ں اور کرائے کی ٹیکسیوں پر لیڈروں کی آمد شروع ہوئی۔ نعروں کی گرج سے جیسے سارا ارض و سما بھر گیا۔
جھار کھنڈ راج۔۔۔ زندہ باد، زندہ باد۔
خون کا بدلہ۔۔۔ خون سے لیں گے۔
ہتیاروں کو۔۔۔۔ پھانسی دو، پھانسی دو۔
پھر ساری بھیڑ قصبے سے نکلنے والے راستے پر یوں بہنے لگی جیسے پانی کسی جھیل کا کنارہ توڑ کر بہہ نکلا ہو۔
جب جلوس دور چلا گیا اور سارا قصبہ تقریباً خالی ہو گیا، تب ٹام جیفر سن نے بند دروازے سے جھانک کر، ایک دم ویران احاطے کو دیکھا۔ سنسان قصبے پر نظر ڈالی اور پہلی بار گالی دی۔
’’حرامی۔۔۔!‘‘
طوطا زور زور سے چیخنے لگا۔
’’حرامی، حرامی، حرامی۔۔۔‘‘
بندر تیز آواز میں کھوکھیائے۔ ان کے بچوں نے بھی دانت نکوسے۔ ٹام کو سالہا سال کے بعد پہلی بار غصہ آیا۔ اس نے چھڑی اٹھائی اور سچ مچ بندروں پر برسانے لگا۔ بندر، جو اس فن کے ماہر ہوتے ہیں، ہر وار بچا جاتے۔ جب وہ تھک کر پسینے پسینے ہو گیا تو اس نے چھڑی پھینک دی۔
’’سالے، حرام زادے۔۔۔‘‘
طوطا چلانے لگا، ’’سالے۔۔۔ سالے۔۔۔ سالے۔۔۔‘‘
ٹام اس کی طرف لپکا۔۔۔ ’’آج میں تمہاری گردن مروڑ دوں گا‘‘۔۔۔ طوطا سہم کر پنجرے کے آخری سرے میں سمٹ گیا۔
وہ برآمدے سے نیچے اترا۔ احاطے میں بہت سی غیر ضروری چیزیں پڑی تھیں۔پکوڑیاں کھا کر پھینکے گئے پتے، پاؤ روٹی کا رنگیں ریپر، سگریٹ کا ایک آدھا خالی پیکٹ، اینٹیں اور چھوٹے پتھر تھے، جن کو لوگوں نے بیٹھنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ روندی ہوئی گھاس اور ایک خاموش پراسرار سناٹا۔ وہ لٹالٹا سا کھڑا رہا۔
برسوں بیت گئے اسی طرح کے ہنگاموں می۔ قصبے کی آہستہ خرام زندگی اچانک اتنی تیز ہو گئی کہ رفتار کی رو میں آس پاس کی چیزیں دکھائی بھی نہ دیتیں۔ ایسی ہی قریب کی چیزوں میں ٹام جیفرسن کا احاطہ بھی تھا۔اب اس احاطے میں محفلیں نہیں جمتی تھیں۔ عورتوں اور بچوں کی ٹولیاں اب اتوار کے دن بھی اس کے جانوروں کے ساتھ چہلیں کرنے نہ آتیں۔ عورتوں نے بچے ہوئے کھانے اور مردوں نے وقتاً فوقتاً کی جانے والی مالی مدد بھی بند کر دی تھی۔ اب انہیں پارٹی کے لیے طرح طرح کے چندے دینے پڑتے تھے۔
جوکھیم کجور کو ایک دن اچانک خیال آیا کہ اس کو ٹام جیفرسن کے پاس چلنا چاہیے۔ اس کو شہر میں ایک لاٹھی چارج میں چوٹ لگی تھی۔ پاؤں کی ہڈی ٹوٹی تو نہیں تھی مگر چوٹ نے اس کو ہفتوں کے لیے بیکار کر دیا تھا۔ انہی بیکاری کے دنوں میں ایک دن وہ چھڑی ٹیکتا ہوا ٹام کے احاطے میں جا پہنچا۔
اس کو یہ دیکھ کر افسوس سا ہوا کہ احاطے کی رونق ہی ختم ہو گئی ہے۔ اس نے سب سے پہلے طوطے کا پنجرہ ہلایا۔
’’بول مٹھو، حرامی۔۔۔‘‘
طوطا کچھ بولنے کی بجائے ایک طرف کو سمٹ گیا اور خائف نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کو بڑی حیرت ہوئی۔ پھر اس نے بندروں اور خرگوشوں کے پنجروں پر نظر کی تو چونک گیا۔ بندر کے دونوں بچے غائب تھے اور خرگوشوں میں صرف چار خرگوش باقی تھے۔ وہ بھی پنجرے میں بند، جبکہ ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔
’’بندر کیا ہوئے انکل۔۔۔؟‘‘ اس نے ٹام سے پوچھا، جو اس کو دیکھ کر اندر سے باہر نکل رہا تھا۔
’’بیچ دیے۔۔۔!‘‘
’’بیچ دیے۔۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘
’’کیا کرتا، کہاں سے کھلاتا انہیں؟ لوگوں نے یہاں آنا بند کر دیا۔ کوئی پیسوں کی مدد بھی نہیں کرتا۔ لوگوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی۔ اب وہ لیڈری کرتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں۔ بندوھوں کا آہوان اور چکہ جام، مظاہرے اور احتجاج۔ وہ چھوٹا ناگپور کی آزادی لیں گے۔ جھار کھنڈ۔۔۔‘‘
ٹام جیفرسن کے الفاظ میں نہیں، لہجے میں کچھ تھا۔ حقارت، یا کوئی ایسی چیز جس نے جو کھیم کو برافروختہ کر دیا۔ شایدوہ الجھ پڑتا۔ مگر اب و ہ بڑا ہو گیا تھا۔ کالج میں پڑھتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں نے اس کی عمر ہزاروں سال لمبی کر دی تھی۔ چنانچہ وہ خوش دلی سے بولا، ’’آزادی۔۔۔؟‘‘ یہ لفظ تو ہم نے چھوٹا ناگپور کے جنگلی درختوں کے ایک ایک پتے پر لکھ دیا ہے۔‘‘
ٹام جیفرسن کی نیلی آنکھیں ایک دم چھوٹی ہو گئیں۔ ہونٹ کھنچ گئے۔ اس نے ایسے پوچھا جیسے انگلینڈ، ہندوستان سے پوچھ رہا ہو، ’’تم آزادی کا مطاب جانتے ہو؟‘‘
جوکھیم نے مسکرا کر جواب دیا، ’’ہم آزادی کا مطلب جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، مگر غلامی کا مطلب ضرور جانتے ہیں۔ ان کی طرح۔۔۔!‘‘ اس نے پنجروں کے جانوروں کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ غلام ہیں۔۔۔؟ میں برسوں سے مختلف خطرات سے بچاتے ہوئے ان کی پرورش کر رہا ہوں۔ یہ تو میرے بچے ہیں۔۔۔!‘‘ جوکھیم ہنس دیا۔
’’اس طرح کے جملے تاریخ میں بار بار دوہرائے گئے ہیں۔ میری پرجا۔۔۔ میری رعایا۔۔۔ میری اولاد۔۔۔ مگر ان سب کے پیچھے ہمیشہ ایک جذبہ حکمرانی پوشیدہ رہا یا پھر خوف۔ سب کچھ تیاگ کر جنگل میں آ بسنے والا سنت بھی اس جذبے کو ذہنوں سے نکال نہ سکا۔۔۔!‘‘
’’تمہارا مطلب ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں وہی مطلب ہے میرا۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر کے لیے ایک دل آزار خاموشی چھا گئی۔ جوکھیم اٹھا، جانے کی اجازت چاہی۔ پھر جاتے جاتے پلٹ کر بولا، ’’جب طوطے بولنا چھوڑ دیں، بندر کھوکھیانا بند کر دیں اور خرگوش بھاگنا، تو سمجھنا چاہیے کہ۔۔۔‘‘
اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور چھڑی کے سہارے لنگڑاتا ہوا قدم قدم چل کر احاطے کے باہر ہو گیا۔
چار دنوں کے بعد یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ٹام جیفرسن مر گیا ہے۔ جوکھیم وہاں لنگڑاتا ہوا پہنچا تو اس سے پہلے بہت سے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ ٹام جیفرسن کی لاش کو فرش سے اٹھاکر اس کی ٹیم کھاٹ پر لٹا دیا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور منہ کھلا ہوا تھا۔ جوکھیم کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ٹام جیفرسن کے پنجروں کے سارے پٹ کھلے تھے اور سارے جانور غائب۔۔۔
اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹام جیفرسن نے ان پنجروں کے پٹ کھول دیئے تھے یا خود جانfور ہی نکل بھاگے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.