اے محبت زندہ باد
کہانی کی کہانی
عنفوان شباب میں ہونے والی شدید قسم کی محبت کی کہانی ہے جس میں تہذیبی اور ثفافتی قدروں کے زوال کا نوحہ بھی ہے۔ حویلی کے ماحول میں پرردہ ایک شخص جب شہر میں رہتا ہے تو اپنے اخلاق کی بنا پر چھوٹے بڑے کا ’’بھائی جان‘‘ بن جاتا ہے۔ نسی نام کی ایک لڑکی کے والد جب اس کی پسند کی شادی کرنے پر رضا مند نہیں ہوتے تو دونوں لوگ بھائی جان سے ایک دوسرے کو سمجھانے کی درخواست کرتے ہیں۔ بھائی جان نسی سے اپنا حق محنت طلب کرتے ہیں۔ بعض وجوہ کی بنا پر جب بھائی جان نسی کے باپ سے بات نہیں کر پاتے تو نسی سمجھتی ہے کہ حق محنت نہ ملنے کی وجہ سے وہ ٹال رہے ہیں اور ایک دن وہ آ کر ازاربند کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے پاس حق محنت دینے کے لئے سوائے اس کے کچھ نہیں ہے۔
کیوں نہ کرداروں کا تعارف کرانے سے پہلے راوی کا تعارف کرا دوں۔ راوی میں ہوں۔ میں ایک پرانے شریف کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ ہوں۔ مگر اب اس آنکھ کی بینائی کم ہو گئی ہے اور اس دیے کی روشنی مدھم۔ یعنی میں جو فارسی کا ایم اے ہوں، ایک تیل کے کارخانے میں چار سو روپیہ ماہوار پر ملازم ہوں۔ میری شریک حیات کپڑے دھوتی ہے، گھر کی صفائی کرتی ہے اور کھانا پکاتی ہے اور میں نوکری کرنے کے علاوہ بازار سے سودا سلف لاتا ہوں۔ یہ سب باتیں۔۔۔ یہ نوکری کرنا، کپڑے دھونا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا اور سودا سلف لانا میری عظیم خاندانی روایات کے برخلاف ہیں۔ اس خاندان میں آج تک کسی نے۔۔۔ میرا مطلب ہے مجھ سے قبل۔۔۔ نوکری نہیں کی اور اس خاندان کی کسی خاتون نے آج تک نہ کپڑے دھوئے، نہ جھاڑو لگائی اور نہ کھانا پکایا۔
میرا بچپن اور لڑکپن ایک بہت بڑی حویلی میں گزرا۔ جہاں خاندان کے افراد سے زیادہ نوکرچاکر ہوا کرتے تھے۔ لڑکے، لڑکیاں، مرد، عورتیں، بڈھے، بڑھیاں، پشتہا پشت سے یہ لوگ ہمارے گھرانے کی خدمت کرتے آئے تھے۔ شاید اسی لیےان کے ساتھ نوکروں کا سا سلوک نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں خاندان کے غریب افراد کا رتبہ حاصل تھا۔ ایک بڑی بی تھیں جن کا پوپلا منہ ہر وقت چلتا رہتا تھا اور جو بیٹھے بیٹھے سو جانے کی عادی تھیں۔ میں انہیں دادی اماں کہا کرتا تھا کیونکہ انہوں نے میرے والد صاحب کو پالا تھا۔ وہ انہیں بیٹا کہا کرتی تھیں اور والد صاحب ہمیشہ انہیں بوا کہا کرتے تھے۔ گھر کے ہر اہم معاملے میں میری والدہ ان سے مشورہ لیا کرتی تھیں۔
بڑا رعب تھا ان کا سارے خدمت گاروں پر۔ ایک دفعہ ڈانٹ دیتیں تو ڈانٹ کھانے والا نوکر کئی کئی دن ان کے سامنے آنے سے کتراتا تھا۔ ستر کے پیٹے میں تھیں مگر نظریں ابھی تک عقاب کی سی تھیں۔ کیا مجال تھی کہ کوئی نوکریا نوکرانی کوئی ایسی ویسی حرکت کر جائے اور انہیں پتہ نہ چلے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک نوجوان نوکرانی کی کوٹھری کے سامنے سے پچھلے پہر ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا۔ میرا مطلب ہے کہ بقول ان کے انہوں نے ایک سائے کو نوکرانی کی کوٹھری کے سامنے لہرا کر گزرتے دیکھ لیا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ بڑی بی کی آنکھوں یا ان کے ذہن کا قصور تھا، یا واقعی کوئی سایہ کوٹھری کے سامنے لہرایا تھا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوکرانی کو کھڑے کھڑے نکال دیا گیا اور گھر کے بزرگ بہت عرصے تک ایک قبول صورت نوکر کو مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے۔ میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ شادی کے بعد جب تک میں پیدا نہیں ہوا تھا ان کی اتنی ہمت نہ پڑتی تھی کہ بغیر لمبا سا گھونگھٹ نکالے بڑی بی کی موجودگی میں اپنے شوہر یعنی میرے والد صاحب کے سامنے آ جائیں۔
مگر یہ سب تو اب بھولی بسری باتیں ہو گئیں۔ اب نہ وہ حویلی ہے، نہ وہ نوکرچاکر اور نہ وہ بڑی بی کی عقابی نظریں۔ اب میں اس اتنے بڑے شہر میں ایک گنجان آباد علاقے میں، ایک دو کمرے کے فلیٹ میں اپنی شریک حیات اور تین بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ سب سے بڑی لڑکی ہے جو جوانی کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جس کو دیکھ کر ہم اکثر خاموشی سے ایک دوسرے کی نظروں میں جھانکنے لگتے ہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے میں اور میری نیک بخت۔
جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں اس میں بیس فلیٹ ہیں اور تین منزلیں۔ میں بیچ والی منزل میں سڑک کے رخ رہتا ہوں۔ جو فلیٹ ہمارے فلیٹ کے نیچے ہے، اس میں ایک بمبئی کے تاجر رہتے ہیں۔ جن کے گھر سے ہمہ وقت ریڈیو کی آواز آتی رہتی ہے۔ اتنی بلند کہ مجھے اپنے گھر میں ریڈیو کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ جو فلیٹ میرے فلیٹ کے اوپر ہے اس میں ایک انگریزی دوا فروش رہتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ لڑکی بڑی ہے اور لڑکا چھوٹا۔ لڑکی جوان ہے۔ سولہ سترہ، حد سے اٹھارہ برس کی ہوگی۔ میرے ہاں آتی جاتی ہے۔ میری لڑکی سے اس کی دوستی ہے۔ گہری یا سطحی۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ میری لڑکی مجھ سے شرماتی ہے اور کبھی کھل کر میرے سامنے بات نہیں کرتی۔۔۔ بس، ’’اچھا ابا جی۔۔۔‘‘
’’بہت بہتر ابا جی۔۔۔‘‘
’’نہیں ابا جی۔۔۔‘‘ میں اس کی شرم و حیاء کا لحاظ کرتا ہوں اور کبھی اس سے زیادہ باتیں نہیں کرتا۔
میری بلڈنگ کے سامنے یعنی سڑک کے اس پار ایک اور رہائشی بلڈنگ ہے۔ یہ بلڈنگ بھی سہ منزل ہے۔ اس بلڈنگ میں جو فلیٹ دوافروش کے فلیٹ کے بالکل سامنے ہے، اس میں ایک دفتری سپرنٹنڈنٹ رہتے ہیں۔ ان کے کئی بچے ہیں۔ سب سے بڑا لڑکا ہے۔ بائیس تیئس برس کا ہوگا۔ کالج میں پڑھتا ہے۔ اکثر کالی تنگ پتلون، چوخانے والی قمیص اور کالا نوکدرا جوتا پہنتا ہے، اس کے بال لمبے ہیں جن میں وہ کافی تیل لگاتا ہے۔ سامنے سے بال کچھ اس طرح بناتا ہے کہ چڑھتی ہوئی موج یاد آ جائے۔
یہ سب کے سب شریف اور نیک لوگ ہیں۔ میری مراد ہے ان لوگوں سے جو میری بلڈنگ میں، سامنے والی بلڈنگ میں اور آس پاس کی بلڈنگوں میں رہتے ہیں۔ نہ جانے کیوں، یہ سب لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ میرا انہیں بہت لحاظ ہے۔ ان میں سے اکثر عمر میں مجھ سے بڑے ہیں اور کئی تو اتنے معمر ہیں کہ ان کی بھویں تک سپید ہو گئی ہیں۔ مگر یہ سب مجھے بھائی جان کہتے ہیں۔ حالانکہ میری عمر صرف پینتالیس برس کی ہے اور یہ خطاب اب اتنا رواج پا گیا ہے کہ میں سارے محلے کا بھائی جان بن گیا ہوں۔ یعنی چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب مجھے بھائی جان کہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک حضرت جنہوں نے ابھی چند ہفتے ہوئے اپنی زبان کا استعمال برائے گفتگو سیکھا ہے۔ وہ بھی مجھے ’’بائیدان‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسا راوی ہے جو اپنی تعریفوں کا پٹارہ کھول کر بیٹھ گیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا مقصد خود ستائی ہرگز نہیں۔ ہماری حویلی میں خود ستائی کو بہت بری چیز سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے خود ستائی کی مجھے بالکل عادت نہیں۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے میں ایسی باتیں کہہ گیا ہوں جن کا کہانی سے کوئی خاص تعلق نہیں، یا جن سے خودستائی کی بو آتی ہو۔ اگر ایسا ہوا ہے تو میں معافی کا خواستگار ہوں اور امید ہے کہ آپ یہ مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں افسانہ نگار نہیں، میری ان باتوں کو نظرانداز کر دیں گے۔
اگر آپ نے مجھے معاف کر دیا ہو تو ایک بات اور کہہ دوں، وہ یہ ہے کہ محلے والے نہ صرف مجھے بھائی جان کہتے ہیں، بلکہ اکثر معاملات میں مجھ سے مشورہ بھی کرتے ہیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ خالص نجی قسم کے معاملات میں بھی مجھ سے رائے لینے سے یہ لوگ نہیں جھجکتے۔ میرے اور ان کے درمیان ایک رشتہ اعتماد قائم ہو گیا ہے۔ اس کا عمر اور بزرگی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ نئی پود بھی اکثر بلا جھجک مجھ سے اس طرح صلاح مشورہ کرتی ہے گویا میں بھی اسی پود کا ایک فرد ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ معاملات قلب و نظر میں بھی یہ لوگ، میرا مطلب ہے نئی پود کے لوگ میری رائے لینے سے نہیں جھجکتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں ان کی اس ذیل کی مشکلوں کا حل ڈھونڈنے سے قاصر رہتا ہوں۔ کیونکہ ان معاملات میں میرا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی صفر۔
ایک دن کا ذکر ہے، میری طبیعت خراب تھی اس لیے دفتر نہیں گیا تھا۔ میری شریک حیات غسل خانے میں کپڑے دھو رہی تھیں۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ محلے میں نسبتاً امن تھا۔ کام پر جانے والے کام پر اور اسکول اور کالج جانے والے اسکول اور کالج جا چکے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں بالکونی میں ایک آرام کرسی پر نیم دراز اخبار پڑھ رہا تھا کہ ایک پتھر آکر میرے سر پر لگا اور اتنی زور سے لگا کہ اخبار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا۔ پتھر اگر ننگا ہوتا تو یقیناً میرے سخت چوٹ آتی۔ آپ کہیں گے ننگا پتھر اور ملبوس پتھر کیا بات ہوئی۔ مگر بات کچھ ایسی ہی تھی۔ میرا مطلب ہے کہ پتھر ایک کاغذ میں لپٹا ہوا تھا۔ پتھر پر، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کاغذ پر جس میں پتھر ملبوس تھا، ایک نظر ڈال کر میں نے فوراً سڑک کے اس پار دیکھا، کیونکہ پتھر اسی سمت سے آ سکتا تھا۔ مگر وہاں پتھر پھینکنے والے کا نام و نشان تک نہ تھا۔
میں نے پتھر اٹھا لیا اور وہ کاغذ کھول کر جس میں وہ لپٹا ہوا تھا، پڑھنے لگا۔ القاب و آداب کچھ اس قسم کے تھے، ’’میری جین میسفیلڈ، میری میریلین منرو، جیو۔‘‘ القاب و آداب پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہو گیا کہ مکتوب الیہ میں نہیں ہوں، بلکہ نامہ راستہ بھول گیا ہے۔ مگر فوراً ہی خیال آیا خدا ناخواستہ یہ خط میری بیٹی کو تو نہیں لکھا گیا ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ میں دوسروں کا خط نہ پڑھنے والی نصیحت، جو مجھے بار بار حویلی میں کی گئی تھی یکسر بھول گیا اور جلدی جلدی خط پڑھنے لگا۔
’’مجھے تمہارے بھائی نے بتا دیا تھا کہ آج تم اسکول نہیں جاؤگی، اس لیے میں بھی آج کالج نہیں گیا، درد سر کا بہانہ کر دیا۔ ویسے یہ سچ بھی ہے، میرے سر میں سچ مچ درد ہو رہا ہے۔ پوچھو کیوں؟ میرے سرکار اس لیے کہ میں رات بھر نہیں سو پایا۔ پھر پوچھو کیوں؟ میری جان اس لیے کہ رات بھر تم۔۔۔ نہ پوچھو کس کس طرح سے یاد آتی رہیں اور میں کروٹیں بدلتا رہا۔ نیند نہیں آئی۔ آنکھوں میں کانٹے اگ آئے تھے۔ ہائے کیا عالم ہو جاتا ہے جب اپنی ڈورس ڈے سے دو تین دن تک نہیں مل پاتا۔۔۔‘‘
خط کے اس حصے پر پہنچ کر میں ٹھہر گیا۔ میں فلم نہیں دیکھتا۔ اس لیے نہیں کہ میں فلموں کے خلاف ہوں، بلکہ اس لیے کہ گھر کے بجٹ میں اس خواہش کو پوری کرنے کی گنجائش یا تو نکلتی نہیں یا بہت کم نکلتی ہے۔ لیکن پھر بھی میں میریلن منرو کے نام سے واقف ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ جین میسفیلڈ بھی میریلن منرو قسم کی کوئی شخصیت ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، یا تھا، لیکن جب مسماۃ ڈورس ڈے کا ذکر آیا تو میں ٹھٹک گیا کیونکہ یہ نام میں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنا تھا۔ لیکن یہ ٹھٹکنا مجھے بہت مہنگا پڑا، کیونکہ پھر میں آگے نہیں پڑھ سکا۔ اس ایک لمحہ توقف میں انگریزی دوا فروش کی صاحبزادی جن کا نام نسیمہ انجم جاوید ہے اور جنہیں ان کے گھر والے اور میرے گھر والے مع میرے صرف نسی کہہ کر پکارتے ہیں، آن دھمکیں۔
اگر میں کہانی کو اس مقام پر چھوڑ کر آپ سے یا کسی افسانہ نگار سے کہوں کہ میرے بھائی اب تم اسے آگے بڑھاؤ تو مجھے یقین ہے کہ آپ یا اور افسانہ نگار صاحب سلسلہ یوں جاری رکھیں گے کہ نسی بیٹی کو دیکھتے ہی میں نے خط کو چھپا لیا۔ اس پر بیٹھ کر یا اس کی پڑیا بناکر اسے اپنی جیب میں رکھ کر، یا منہ میں ڈال کر۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہوا یہ کہ نسی بیٹی بس ایک لمحہ بھر کے لیے جھجکیں، یعنی انہوں نے دو ایک بار پلکیں جھپکائیں۔ گردن کو ایک بہت ہی خفیف سا خم دیا۔ جھک جانے کی بہت ہی ابتدائی شکل تھی۔ ایک ہاتھ کو ذرا سا اوپر اٹھایا۔ اس انداز سے کہ دیکھنے والا اگر ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار بھی ہو تو وہ اندازہ لگالے کہ اگر یہ حرکت درجۂ تکمیل کو پہنچ جائے تو دانتوں سے بلاوجہ ناخن کاٹنے کی حرکت بن سکتی ہے اور پھر بولیں، ’’ہائے اللہ! بھائی جان آپ میرا خط پڑھ رہے ہیں۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ اگر نسی بیٹی خط پر اپنا حق نہ جتاتیں تو مجھے ہرگز پتہ نہ چلتا۔ کم از کم اندازہ تو نہ ہوتا کہ مکتوب الیہ وہ ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی نہ معلوم ہوتا کہ لکھنے والا کون ہے؟ کیونکہ خط کے اختتام پر لکھنے والے کا نام درج نہیں تھا۔ جی ہاں! آپ کا قیاس درست ہے۔ میں نے القاب و آداب کے بعد سب سے پہلے خط کے اختتام پر نظر ڈالی تھی۔ لیکن اس سے آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ مجھے اسی وقت لکھنے والے کا نام معلوم ہو گیا۔ نہیں۔ یہ تو بعد کی بات ہے۔ میں نے کہا، ’’تمہارا خط!‘‘ میرے لہجے میں حیرت کا شائبہ تھا۔
’’کہہ جو دیا میرا خط ہے۔‘‘ وہ اٹھلائیں اور قبل اس کے کہ میں یہ سوچتے ہوئے کہ حق بحقدار رسید، خط ان کی طرف بڑھاؤں، انہوں نے جھپٹ کر خط میرے ہاتھ سے لے لیا، بلکہ چھین لیا اور یہ جا وہ جا۔ مگر یہ جا وہ جا کا فعل مکمل کرنے سے قبل انہوں نے رک کر میری طرف دیکھا اور بولیں، ’’کسی سے کہیے گا نہیں میرے اچھے بھائی جان!‘‘ میں نے کسی سے نہیں کہا۔ مگر اس واقعہ کے کئی ماہ بعد ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ میری خاموشی بےسود ثابت ہوئی۔
ایک رات جب کہ محلے کا شور و غل قریب قریب ختم ہو چکا تھا، یعنی سب بستروں میں گھسنے والے تھے یا گھس چکے تھے۔ اچانک کچھ ایسی آوازیں میرے کان میں آئیں جن پر کسی ریڈیو پروگرام کا شبہ ہو سکتا تھا، نہ سودا بیچنے والوں کے نعروں کا، نہ میاں بیوی کے جھگڑے کا، نہ پڑوسیوں کی لڑائی کا اور نہ آوارہ لڑکوں کی تفریح کا۔ کئی آوازیں تھیں۔ ایک مرد کی، ایک عورت کی، ایک لڑکی کی۔ آہستہ آہستہ میرے ذہن نے نہ صرف ان آوازوں کی سمت کا تعین کر لیا، بلکہ یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ ان کے خالق کون ہیں۔ آوازیں نسی کے فلیٹ سے آ رہی تھیں اور یہ آوازیں نکل رہی تھیں اس کے والد صاحب، اس کی والدہ اور اس کے چھوٹے بھائی کے حلق سے۔
میرے فلیٹ کی بالکونی کے سرے پر کھڑے ہوکر اگر اوپر کی طرف دیکھا جائے تو نسی کے فلیٹ کی بالکونی کا منظر بخوبی نظر آ جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے، اگر وہاں کوئی منظر ہو تو۔ اس لیے میں دوڑ کر اپنی بالکونی میں آ گیا اور اوپر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس خاندان کے تین فرد نسی، اس کے والد صاحب اور اس کی والدہ بالکونی میں تھے۔ نسی کو دوافروش صاحب اور ان کی اہلیہ پکڑے ہوئے تھیں اور وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی، ’’مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے چھوڑدو۔۔۔‘‘ جہاں میں آسمانی بلاؤں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے کتے کی طرح منہ اوپر کیے کھڑا تھا، وہاں سے نسی کا بھائی نظر نہیں آ رہا تھا، مگر اس کی آواز صاف آرہی تھی۔ وہ رو رہا تھا زور زور سے، جیسے ڈر گیا ہو۔ سہم گیا ہو۔ آس پاس اور دوسری بلڈنگ کے فلیٹوں میں سے بھی لوگ اس منظر کو کھڑکیوں میں سے جھانک کر یا کھلے عام بالکنیوں میں کھڑے ہوکر دیکھ رہے تھے۔
ایک بار جو نسی نے زور لگایا تو تقریباً اپنے والد اور والدہ کی گرفت سے آزاد ہو گئی اور میرے پیروں تلے سے بالکنی کا فرش کھسک گیا۔ کیونکہ مجھے ایسا لگا کہ گویا بالکنی میں سے چھلانگ لگا کر نیچے سڑک پر گرنا چاہتی ہے۔ مگر فوراً ہی دوا فروش صاحب اور ان کی اہلیہ نے دوبارہ اسے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ لگا کر۔۔۔ یہ میں ٹھیک سے نہیں دیکھ پایا کہ طمانچہ ماں نے مارا تھا یا باپ نے۔۔۔ اسے گھسیٹتے ہوئے فلیٹ میں لے گئے۔ تھوڑی دیر تک نسی کے چیخنے اور چلانے کی اور اس کے بھائی کے رونے کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر یہ بھی بند ہو گئیں اور فلیٹوں کی کھڑکیاں ایک ایک کر کے بند ہونے لگیں۔ میں بھی آکر بستر پر لیٹ گیا اور اپنی شریک حیات سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے لگا کہ آیا مجھے اس وقت نسی کے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے یا نہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ مناسب وقت نہیں ہے۔ اس لیے میں ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔‘‘ کے زریں مقولے پر عمل پیرا ہوا اور لمبی تان کر سو گیا۔
مگر دوسرے دن بمبئی والے صاحب مجھے زینے پر مل گئے۔ سلام و دعا کے بعد یوں گویا ہوئے، ’’رات کا تماشا دیکھا آپ نے بھائی جان؟‘‘
’’کیسا تماشا؟‘‘میں نے ان کے سوال کا مفہوم سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اظہار لاعلمی کیا۔
’’وہی جو اوپر والے مالے میں ہوا تھا۔‘‘ ان کے تعلقات انگریزی دوا فروش صاحب سے کشیدہ تھے، اس لیے وہ ان کا نام لینے سے حتی المقدور گریز کرتے تھے اور اگر ان کا ذکر آ ہی جاتا تو ’’اوپر والا مالا‘‘ قسم کے اشاروں سے کام چلاتے تھے۔
’’جی ہاں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کچھ شور و غل ہو رہا تھا۔‘‘
’’آپ سور و گل بولتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ساری بلڈنگ نہیں سارا محلہ جاگ پڑا تھا۔‘‘
’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ آواز تو ہم نے بھی سنی تھی۔‘‘
’’ضرور سنی ہوگی۔‘‘ انہوں نے مسکراہٹ کو چہرے کے بقیہ حصوں پر پھیلاتے ہوئے کہا، ’’بائی بچ گئی۔‘‘ ان کی مراد نسی سے تھی۔ میں نے پہلی مرتبہ ان کی گفتگو میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
’’کیوں۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟‘‘
’’کھد کسی کر رہی تھی۔‘‘
’’سچ!‘‘
’’اور کیا۔ بالکنی پر سے کود رہی تھی۔ میں نے کھد دیکھا تھا۔ آدھی سے جیاستی لٹک گئی تھی۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’یہ اپن کو ٹھیک سے نہیں معلوم۔ سنا ہے عاسکی والی بات ہے۔‘‘
میں نے انہیں زیادہ نہیں کریدا، کیونکہ اول تو یہ میری فطرت نہیں اور دوسرے مجھے دفتر جانے کی جلدی تھی۔ لیکن سورج ڈھلے نسی کے والد صاحب نے میرے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پریشان اور متفکر نظر آ رہے تھے۔ کہنے لگے، ’’آپ سے ایک معاملے میں مشورہ کرنا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘ بولے، ’’کل رات نسی خودکشی کا اقدام کر بیٹھی تھی۔‘‘ میں چپ رہا۔
’’یہ جو سامنے ماما بلڈنگ ہے نا۔‘‘ انہوں نے بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس میں جو سپرنٹنڈنٹ صاحب رہتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے نے اسے۔۔۔‘‘ یہاں پہنچ کر وہ ٹھٹک سے گئے۔ اس لیے میں نے کہا، ’’جی میں سمجھ گیا۔‘‘ میری بات نے وہ مرحلہ طے کرا دیا جس پر وہ ٹھٹک گئے تھے۔ بولے، ’’بھائی جان آپ ہی بتائیے۔ یہ رشتہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟‘‘ جب تک میں اس رشتے کے ناممکن ہونے کی توجیہ نہ سن لیتا، کیا کہتا۔ اس لیے چپ رہا۔
’’وہ لوگ پٹھان ہیں اور اگر سید بھی ہوتے تب بھی ہمیں ان کے طور طریقے پسند نہ آتے اور بھائی جان سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ لڑکا ہمیں بالکل پسند نہیں۔ آوارہ ہے۔‘‘ میں ’’ہوں‘‘ کر کے تھوڑی دیر چپ رہا۔ پھر بولا، ’’مگر ظاہر ہے کہ نسی بیٹی کو اس سے بہت گہرا اور مخلصانہ لگاؤ ہے۔ ورنہ وہ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھاتی۔‘‘
’’یہی تو مشکل ہے۔ ابھی کم عمر ہے برے بھلے کی تمیز نہیں۔ جذبات سے مغلوب ہو گئی ہے۔ اگر آپ اسے سمجھائیں تو۔‘‘
’’آپ نے سمجھایا؟‘‘
’’ہم لوگ تو کئی دن سے سمجھا رہے تھے۔ اسی دن سے جس دن اس نے بلاجھجک اپنی والدہ سے کہہ دیا تھا کہ اس کی شادی اس لڑکے سے کر دی جائے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ اتنی جرأت کرےگی اور وہ بھی اس عمر میں۔ کل رات یہی سلسلہ جاری تھا کہ یہ اقدام کر بیٹھی۔ اب آپ ہی بتائیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ نہ جانے کیا جادو کر دیا ہے اس لونڈے نے میری معصوم بیٹی پر۔ شاید آپ کے سمجھانے سے مان جائے۔‘‘ میں ہامی نہ بھرتا تو کرتا کیا۔
’’آپ اس پر زیادتی نہ کریں۔ میں موقع دیکھ کر اس سے گفتگو کروں گا۔‘‘ زیادتی نہ کرنے کی بات میں نے اس لیے کی تھی کہ وہ دوران گفتگو بتا چکے تھے کہ کل رات سے انہوں نے نسی کو ایک کمرے میں بند کر رکھا ہے۔ نسی سے گفتگو کرنے کا موقع مجھے تین چار دن بعد ہی مل گیا۔ موقع خود اسی نے فراہم کیا۔ یعنی اس بار وہ مجھ سے صلاح و مشورہ کرنے آدھمکی۔ ترشے ہوئے بال، تنگ شلوار، تنگ قمیص، آنکھوں میں سرمہ، ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک، پہلے تو ذرا جھجکی۔ پھر بولی، ’’بھائی جان آپ ہمارا ایک کام کر دیں تو ہم آپ کی غلامی لکھ دیں۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘ میں اسے چھیڑنے کے لیے ہمیشہ اس سے نیم سنجیدہ لہجے میں گفتگو کرتا ہوں۔ آخر میری بیٹی سے صرف چند سال ہی تو بڑی ہے۔
’’میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘
’’ہٹائیے بھی بھائی جان۔ آپ کو تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔‘‘
’’ارے بھئی۔ اس میں مذاق کی کیا بات ہے۔ میں خدمت کے لیے حاضر ہوں۔‘‘
’’جائیے، ہم آپ سے نہیں بولتے۔‘‘ اور اس نے سچ مچ منہ پھلا لیا۔
’’ارے پگلی۔۔۔ ناراض ہو گئی۔‘‘ میں نے اس کے رخسار پر ہلکے سے تھپڑ لگاتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرا دی، ’’آپ بابا سے بات کیجیے۔‘‘ وہ اپنے باپ کو بابا کہتی ہے۔
’’میں تمہارے بابا سے اکثر بات کرتا ہوں۔‘‘ اس کا منہ پھر پھولنے لگا تو میں نے فوراً لہجہ بدل کر کہا، ’’اچھا بھئی مذاق بند۔ کہو کیا کہنا چاہتی ہو۔‘‘
اس کی فرمائش صرف اتنی تھی کہ میں اس کے باپ پر اپنا اثر ڈال کر ان سے اس رشتے کی منظوری حاصل کر لوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اور اس کا دل کش چہرہ بےحد سنجیدہ ہو گیا تھا۔ مجھے اچانک احساس ہوا کہ میرے سامنے ایک رس بھری لچکیلی شاخ نہیں، بلکہ ایک خشک ٹہنی ہے، جسے اگر زیادہ جھکانے کی کوشش کی گئی تو ٹوٹ جائےگی، جھکے گی نہیں۔ اس کی آواز میں ارادے کی پختگی تھی اور اس کے لہجے میں لگن کا کرب تھا۔ اس لڑکی کو سچی محبت ہے۔ میں نے سوچا اور یکلخت اس وعدے کو بھول گیا جو میں نےاس کے باپ سے کیا تھا۔ اس نے مجھے جیت لیا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح اس کے باپ سے بات کروں کہ وہ مان جائیں۔ میں نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’تم فکر نہ کرو نسی۔ میں ضرور تمہارے والد سے بات کروں گا۔‘‘
’’وعدہ؟‘‘ وہ ابھی تک سنجیدہ تھی۔
’’پکا وعدہ۔‘‘ میں بھی سنجیدہ ہوگیا۔ وہ مسکرائی۔ پھر ہنسنے لگی، ’’میرے اچھے بھائی جان!‘‘
’’میرے اچھے بھائی جان۔‘‘ میں نے اس کی نقل کی۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مٹک کر چل دی۔
’’مگر۔۔۔‘‘
وہ رک گئی اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’مجھے کیا دوگی؟‘‘
’’کیا دوں گی!‘‘
’’ہاں بھئی۔ حق محنت۔‘‘
اس نے لمحے بھر رک کر سوچ کر کہا، ’’منہ مانگا انعام۔‘‘ اور یہ جا وہ جا۔
اتفاق ایسا ہوا کہ نسی سے وعدہ کرنے کے بعد کئی دن تک میں اس کے باپ سے بات نہ کر سکا۔ کسی دن مجھے دفتر سے آنے میں دیر ہو گئی، کسی دن انہیں۔ کسی دن ان کے ہاں مہمان آ گئے، کسی دن میرے ہاں۔ کسی دن وہ باہر چلے گئے کسی دن میں۔ اس عرصہ میں کئی مرتبہ نسی سے مڈبھیڑ ہوئی اور ہر دفعہ اس نے مجھے میرا وعدہ یاد دلایا۔ شروع شروع میں وہ تو شاید میرے وعدہ پورا نہ کر سکنے کے اسباب قبول کرتی رہی۔ مگر بعد میں مجھے کئی بار شبہ ہوا کہ وہ مجھے جھوٹا سمجھ رہی ہے۔ یا یہ سمجھ رہی ہے کہ میں اسے ٹال رہا ہوں۔
’’دیکھیے بھائی جان! آپ وعدہ خلافی کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے ایک دن منہ پھلا کر کہا۔
’’نہیں نسی۔ موقع نہیں ملا۔ بس کچھ دن اور انتظار کرو۔‘‘ اس کا منہ بدستور پھولا رہا اور اس کے ماتھے پر فکر کی شکنیں بدستور پڑی رہیں تو میں نے اسے چھیڑا، ’’اور میرا انعام؟‘‘
پھر ایک دن جب کہ میری شریک حیات معہ میرے بچوں کے اپنی بہن کے گھر گئی ہوئی تھی۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے چھٹی کا دن تھا۔۔۔ نسی میرے فلیٹ میں آن دھمکی۔ میں لیٹا ہوا تھا۔ آکر میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا، ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ پلنگ پر میرے پاس بیٹھ گئی۔ چپ تھی اور مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف کروٹ بدلتے ہوئے کہا، ’’مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو۔‘‘ وہ پھر بھی چپ رہی۔
’’کیا چپ کا روزہ رکھا ہے۔‘‘ اس کا سکوت پھر بھی نہیں ٹوٹا۔
’’مجھ پر رعب ڈال رہی ہو کیا؟‘‘ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’آپ نے انعام مانگا ہے۔ حق محنت!‘‘
’’مانگا تو ہے۔‘‘
’’اور جب تک آپ کو انعام نہیں مل جائےگا آپ میرا کام نہیں کریں گے؟‘‘ ظاہر ہے کہ اس کا خیال بالکل غلط تھا۔ مگر میں نے اسے چھیڑنے کے لیے کہا، ’’بالکل درست!‘‘
’’اسی لیے آپ ٹال مٹول کر رہے ہیں؟‘‘
’’بالکل اسی لیے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
اس طویل ’’ہوں‘‘ کے بعد لمحے بھر خاموشی رہی اور پھر نسی بیٹی بولی، ’’میرے پاس آپ کو دینے کے لیے اور تو کچھ نہیں سوائے۔۔۔‘‘ وہ رکی اور اس لمحہ توقف میں اس کا دایاں ہاتھ اس کی پوشاک کے ایک گرہ دار بند کی طرف بڑھا اور پھر اس نے جملہ مکمل کیا، ’’سوائے اس کے۔۔۔‘‘ اور بمبئی والے صاحب کے فلیٹ سے کسی نئے فلمی گانے کی فلک شگاف آواز آ رہی تھی، ’’اے محبت زندہ باد!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.