Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹوٹم

MORE BYسفینہ بیگم

    پورے ملک میں افراتفری کا ماحول تھا، ہاہاکار مچی ہوئی تھی، ہر شخص اس بات سے خوف زدہ تھا کہ اموات کا یہ سلسلہ انھیں اپنے نرغے میں نہ لے لے۔ ہر ایک کو اپنی فکر لاحق تھی۔ بدحواسی کے عالم میں لوگ اسپتالوں کا رخ کررہے تھے، شاید اس متعدی بیماری سے بچ جائیں جس کے باعث پے در پے موت کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بلا ان کے سروں سے ٹل جائے۔ ہر شخص حیرت زدہ تھا کہ آخر اتنی تیزی سے یکِ بعد دیگرے، لوگ، بغیر کسی مرض یا ناگہانی آفت کے موت کے منھ میں کیونکر چلے جارہے تھے۔

    ایک ہفتے کے اندر ان اموات کی تعداد بیس ہزار کے قریب پہنچ گئی۔ کچھ لوگ اسے خدا کی مرضی سے تعبیر کررہے تھے لیکن کچھ منطقی اور استدلالی سوچ کے حامل افراد اسے متعدی بیماری بتا رہے تھے اور احتیاطی تدابیر کرنے کے لیے عوام کو مختلف ویڈیو کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھے لیکن جیسے موت کی یہ وبا پورے ملک میں پھیل چکی تھی اور بعض مقامات سے تو کچھ اس قسم کی عجیب و غریب خبریں سننے میں آرہی تھیں کہ اچانک کسی فرد کے ایک ہاتھ نے کام کرنا بند کردیا اور دیکھتے دیکھتے یہ تعداد بڑھتی گئی، کسی کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی ہے تو کسی کی زبان تالو سے چپک کر رہ گئی ہے، کسی کا ایک پاؤں پیچھے کی جانب گھوم گیا ہے، دل اور دماغ نے اپنی جگہیں تبدیل کرلی ہیں لوگوں کو اپنا دل سر کے اوپری حصے میں دھڑکتا محسوس ہورہا ہے، کسی کے کانوں کے سوراخ بند ہونے لگے ہیں جس سے ان کی قوت سماعت میں فرق آگیا ہے۔ اس سے ان افراد کی جسمانی ہیئت بدل گئی تھی لیکن حال یہ کہ اس پر نہ کسی کو تکلیف، نہ درد، نہ آہ و بکا۔ یہ لوگ جس جگہ سے بھی گزرتے کسی نہ کسی شکل میں اپنی چھاپ اس علاقے پرچھوڑ جاتے، جس سے وہاں کی عوام میں بھی اس کے اثرات نمودار ہونے لگتے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ زمین بھی اپنی شکل بدلنے لگی اور زمین کے الگ الگ حصے انسانی بیماری کی چپیٹ میں آنے لگے، زمین کے جس حصہ کو یہ بیماری لگ جاتی وہ علاقہ انسانی فضاکے لیے بنجر ہو جاتا۔ بات تو یہاں تک سننے میں آرہی تھی کہ مشرقی علاقہ کے کسی گاؤں میں لوگ گروہ کی شکل میں سر جوڑے بیٹھے ہوئے تھے اور موجودہ ماحول پر تبادلہ خیال کررہے تھے اس میں ہر عمر ہر طبقے اور ہر قوم سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے تبادلہ خیال کرتے کرتے اچانک ان کی شکلوں کے رنگ بدلنا شروع ہو گئے یہاں تک کے کچھ لوگوں کے چہرے پر پپڑی جمنے لگی اور کھردراپن آگیا جس کی وجہ سے انہیں بولنے میں مشکل پیش آنے لگی کیونکہ جیسے ہی وہ بولنے کے لیے منھ کھولتے ان کے ہونٹوں کے کناروں سے خون کی لکیریں نمایاں ہو جاتیں مگر اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے وہ پپڑی کو منھ سے تقریباََ نوچ کرزمین پر پھینک دیتے لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوبارہ پورے چہرے پر جمنے لگتی اور وہ اسے نوچ کر پھینکنے کا عمل کئی مرتبہ دوہراتے۔ کچھ افراد کے چہروں پر پیپ اور خون سے بھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے دانے ابھرنے لگتے جس کو وہ بہ آسانی دبا کر گندا مواد زمین پر ٹپکا دیتے اور پھر پرزور اندازسے اپنے خیالات لوگوں کے گوش گزار کرنے لگتے۔ اسی قسم کے کئی واقعات کی خبریں پورے ملک سے موصول ہونے لگیں اور کچھ عرصہ بعد زمین نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا جس کے باعث گھروں کے ارد گرد مختلف رنگوں کی ان مٹ پپڑی زدہ خشک باریک لکیریں نظر آنے لگیں جو دن بدن پھیلنے لگیں، کہیں پر ان لکیروں نے لجلجے ملغوبے کی شکل اختیارکرلی مگر کچھ ہی عرصے میں یہ لکیریں سخت چھوٹی دیوار میں تبدیل ہوگئیں، لوگ اپنے گھروں سے نکل کر اس خودساختہ شے کو دیکھتے اور بغیر کسی ردعمل کے واپس اپنے گھروں میں بند ہوجاتے۔ آہستہ آہستہ اس عجیب و غریب شے نے غیر مرئی شکل اختیار کرلی اور پورے ملک کو اپنے آہنی شکنجے میں کَس لیا۔

    ریسرچ سینٹر میں لوگوں کے خون کی جانچ کی جارہی تھی اور بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کے ممکنہ عوال سے مدد لی جارہی تھی، کئی اسپتالوں سے تو یہ خبریں بھی نشر ہونے لگیں تھیں کہ یہ امراض کسی خاص قسم کا محلول پینے کے بعدلاحق ہوئے ہیں، بعض کا کہنا تھا کہ فضا میں کچھ خاص قسم کے جراثیم پیدا ہوگئے ہیں جو لوگوں کی سانس کے ذریعہ ان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد الگ الگ انداز سے ردعمل ظاہر کررہے ہیں جس کے سبب لوگ بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں لیکن حقیقی اور بنیادی عناصر تک ہر کوئی پہنچنے سے قاصر تھااور مبنی برقیاس باتوں سے عوام کو مطمئن کیا جارہاتھا۔ خوف و ہراس کے باعث لوگ دہشت زدہ تھے، بظاہرلوگوں میں میل جول لیکن داخلی طور پر اندیشوں نے ہر ایک کو اپنے حصار میں لے رکھا تھااور ایک ان دیکھی فصیل تھی جو انسان کو انسان سے دور کررہی تھی۔ کچھ ہی عرصہ میں یکساں مرض میں مبتلا لوگوں نے گروہ کی شکل اختیار کرلی اور ہر گروہ دوسرے امراض میں مبتلا گروہوں سے کنارہ کشی کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی جاتے ایک جتھے کی شکل میں، خود کو برتر ثابت کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے، اب یہی مرض ان کے لیے تمغہ امتیاز تھا۔ ملک میں یہ افواہ عام ہو چکی تھی کہ یہ امراض لاعلاج ہیں بلکہ اب تو یہ ذات کا ناگزیر حصہ بن چکے ہیں، ابتدا میں صحیح وسالم افراد ان کی طرف دھیان نہ دیتے مگر ایک ایک کرکے انھوں نے، ان پر توجہ دینا شروع کردی اور ان کے مرض کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ شے سمجھنے لگے لہذا جو فرد جس گروہ میں شامل ہوتا وہ اسی کی شکل اور اسی کا عیب اختیار کرلیتا، یہاں تک کہ پورا ملک مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگیا اور اپنی بدہیئتی اور وجود میں در آئے نقص کے باوجود احساسِ شان کے ساتھ برتری کا جھنڈا اٹھائے حکومت کا اعلان کرتا ہوانظر آتا، جلسے جلوس کے ذریعے طاقت کا اظہار کرتا، جس کے گروہ میں مریضوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی وہ اتنا ہی اعلی و بلند مرتبت سمجھا جاتا۔ برتری کی اس کیفیت کے سبب وہ دوسرے گروہ کو حقیر جانتا اور کفِ پا سمجھتا، خود کو صحیح اور حق پر ثابت کرنے کے لیے مابعدالطبعیات سے دلائل اور مثالیں پیش کرتا جس کو بیان کرنے میں اس کی آواز چیخوں میں تبدیل ہوجاتی، منھ سے خون اور تھوک کی آمیزش لیے ایک بوچھار نکلتی، چہرہ پسینے سے شرابور ہوکر زیادہ خوف زدہ معلوم ہونے لگتا لیکن جلسہ ختم ہونے تک اس کی بات لوگوں کی سمجھ میں آجاتی۔

    آہستہ آہستہ ایک گروہ جس میں مریضوں کی تعداد زیادہ تھی اپنا پرچم لہرانے کے لیے تیزی سے کوشش کرنے لگا اس کے لیے کئی اہم خفیہ منصوبے ترتیب دیے گئے یہاں تک کہ اس نے دوسرے گروہ کے افراد کے درمیان سازشی جال بننا شروع کردیااپنے مرض کو بہتر بتانے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کرنے کے لیے پورے ملک میں اپنے کارندے پھیلادیے جو اشتعال انگیزتقریروں کے ذریعہ ہجوم کومتوجہ کرتے اور نوبت یہ آگئی تھی کہ یہ بیماری ماہرین امراض اور ریسرچرزکو بھی اپنے چپیٹ میں لے رہی تھی اور وہ بآسانی ان امراض کی حمایت کرتے نظر آرہے تھے۔ اگر ملک میں کسی مخلوق پر اس وبا کا اثر نہیں پڑا تھا تو وہ حیوانات تھے جو لوگوں کو خوف وہراس سے آنکھیں پھاڑے دیکھتے، جب کچھ سمجھ نہیں آتا توسر نیچے ڈال دیتے اور گھنٹوں سڑک کے کنارے پڑے رہتے، اس وبا سے بچنے کے لیے یکایک پالتو جانوروں کا ایک بہت بڑا ہجوم گھنے جنگلوں کی طرف جاتا ہوا نظر آیا اور بستی کی بستی سڑاند زدہ بدبو سے بھر گئی۔ دیکھتے دیکھتے موت کا سلسلہ پھر جاری ہوگیا یہاں تک کے ہر گروہ کے چند افراد کی موت واقع ہونے لگی، مگر کسی کو کسی کی فکر نہیں، پورے ملک میں بدامنی اور انتشار کا ماحول پھیلنے لگا۔ جگہ جگہ سے طبعیاتی اموات کی خبریں بھی آنے لگیں اور شناخت کرنے پر بتایا گیا کہ مرنے والے تمام اشخاص ہر اعتبار سے ثابت و سالم تھے لیکن ان کی موت کی صحیح اور حقیقی وجہ کوئی سمجھ نہیں پارہا تھا۔ بنجر زمین پر گرے ہوئے مختلف رنگ، بکھرے ہوئے چتھڑے، پھیلی ہوئی کرچیاں اور آڑی ترچھی لکیریں بھی شاید ان کی موت کا سبب بتانے سے قاصر تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے