Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

توتیا من موتیا

تسنیم منٹو

توتیا من موتیا

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    شمع اور بختیار کی شادی عام روایتی شادیوں جیسی تھی۔ اس قدر رواجی کہ شمع اور بختیار کی عمروں کا پندرہ سال کا تفاوت بھی مد نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ بختیار ایک لاابالی اور پختہ عادات و اطوار کا مالک تھا۔ اس روایتی مرد کے دل میں بیوی کی شناخت محض ایک ذاتی وجود کے حوالے سے تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ مرد حق شوہریت کو عادتاً استعمال کرتا رہتا ہے جب کہ عورت مرد کے ساتھ گزرے اول اول لمحوں کی وارفتگی کی تلاش میں خود کو گم کر دیتی ہے۔ شمع ایک مفلوج معاشرے میں محصور تھی یہ معاشرہ عورت کو اس کی ذات کی شناخت عطا کرنے کا اہل نہیں تھا۔ سو شمع نے وقت کے ہاتھوں کیے گئے استحصال کو قبول کیا اور خود کو زندگی کے بےنام سانچے میں ڈھالنے میں جت گئی۔ اس نے خود کو گھر داری میں اس طور پھنسایا جیسے کوئی دیہاڑی دار مزدور۔ تین سال کی مدت گدلے پانی کے مانند ٹھہری ٹھہری گزری۔ لیکن محمد کی پیدایش کے ساتھ ہی شمع کی ذہنی ناآسودگی ہمہ تن آسودگی میں بدل گئی۔ دن بھر وہ محمد کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بولائی بولائی پھرتی۔ جب محمد سو جاتا تو شمع کی نیند بھی گہرے اور ٹھہرے سمندر کی سی ہوتی۔ جب جاگتی تو ہشاش بشاش ہوتی۔ یوں بھی ان گزرے سالوں میں یہ شعور اور آگہی پالی تھی کہ شادی چاہے ہم عمری کی ہو رواجی یا روایتی ہو یا حاصل محبت ہوشنید ہے کہ بیوی کو ’’میری جان‘‘ کہنے کا عرصہ بہت تنگ ہوتا ہے۔ محمد کی پیدایش شمع اور بختیار کی شادی کی سالگرہ سے دو روز پہلے ہوئی تھی۔

    وقت گزرتا رہا وہ چلنے لگا کھیلنے لگا۔ دادی اس کی مالش کرتیں۔ شمع نہلاتی ،بال سنوارتی تو اس کی ٹیڑھی مانگ نکالتی سر کے دونوں جانب گیلے گیلے بالوں کی پٹیاں جما دیتی اور وہ سانولا سلونا سا محمد اسے دنیا بھر سے خوب صورت لگتا۔ شمع اس کا منہ چومتے نہ تھکتی۔ بختیار اس کے لیے طرح طرح کے کھلونے لاتا۔ گول پٹڑی والی ٹرین کو محمد خوب گھماتا اور بھگاتا۔ ذرا بڑا ہوا تو گھر میں چھوٹا سا بیٹ اور بال لائے گئے۔ شمع باؤلنگ کراتی اور وہ بیٹنگ کرتا اور ہر بال پر کہتا ’’ماما، یہ چوکا تھا نا۔ ماما! یہ چھکا تھا نا‘‘۔ چوکوں اور چھکوں کی شد بد اسے بختیار نے سکھائی تھی۔ محمد چار برس کا تھا تو ایک پریوں کی سی سج دھج والی اس کی بہن بھی آ گئی جس کو دیکھنے سے دیکھنے والے کی آنکھوں میں تازگی آتی تھی۔

    محمد سکول جانے لگا۔ دوپہر یا رات کو سونے سے پہلے دادی سے لوری یا کہانی سننے کی عادت پکی ہوئی۔ بازار میں لوک کہانیوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی خوب صورت تصویروں سے سجی کتابیں عام دستیاب تھیں۔ ان بہت سی کہانیوں میں سے اسے ننھی تنو کی کہانی اچھی لگی یا پھر شمع کے اپنے بچپن کے وقت کی بانی ’’توتیا، من موتیا‘‘ بہت بھائی جو شمع کو اس کی ماں نے سنائی تھی۔ کچھ دنوں بعد تنو بی بی کی کہانی اسے بوسیدہ لگنے لگی جب کہ ’’توتیا، من موتیا‘‘ کے ردھم سے اسے مزہ اور نیند آنے لگ جاتی۔ یہ بانی محمد نے تقریباً پانچ برس تک سنی تھی اور ہر بار اسے یہ نئی لگتی تھی۔ دونوں ماں بیٹا بستر پر لیٹ جاتے۔ محمد کروٹ کے بل لیٹ کر ماں کو اپنے منے سے بازو کے کلاوے میں لینے کی کوشش کرتا اور شمع بانی یوں شروع کرتی:

    توتیا! من موتیا

    میں آکھدی، میں ویکھدی

    توں ایس گلی نہ جا

    ایس گلی دے جٹ برے

    لیندے پھاہیاں پا

    توتا، توتی کی تسلی کے لیے جواب دیتا ہے:

    توتیے! من موتیے

    میں جیوندا، میں جاگدا

    میں امرت ڈالی بیٹھا

    جوار میوہ کھاتا

    توں چل گھر، میں آتا

    جب شمع بانی کے دوسرے بند پر آتی تو محمد اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا اور کہتا توتیے من موتیے، مت کہو ماما! ایسے کہو اور پھر خود سے بولتا:

    ماما! میں جیوندا! میں جاگدا

    میں امرت ڈالی بیٹھا

    جوار میوہ کھاتا

    توں چل گھر میں آتا

    توں چل گھر میں آتا۔ توں چل گھر میں آتا۔ اس کو وہ بار بار دہراتا اور آخر کار وہ ماں سے لپٹ کر سو جاتا۔

    وقت شپاشپ گزر رہا تھا۔ محمد بڑی جماعتوں میں چلا گیا اور اب وہ شکر دوپہروں میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لیے گھنٹوں گھر سے غائب رہتا۔ اس کے دوستوں میں کوئی چیکو تھا، کوئی پیچو اور کوئی گگا۔ وہ بسوں پر،ویگنوں میں سوار ہوتا دوستوں کے ساتھ لنڈے بازار سے شاپنگ کرتا۔ گھر آ کر دادی اور ماں کو دکھاتا۔ دونوں سنتیں اور واری صدقے ہوتیں۔

    محمد بڑی کلاسوں میں گیا پھر کالج اور پھر یونی ورسٹی۔ وقت بڑے رسان سے گزر رہا تھا۔ محمد جو اپنے بچپن میں عام سی شکل و صورت کا بچہ تھا جوان ہوا تو اس نے اور ہی سج دھج نکالی۔ چھ فٹ دو انچ قامت، سانولی رنگت، چمپئی رنگت میں بدل گئی، کھلاکھلا ڈیل ڈول، ذرا سا جھک کے چلنے کا انداز۔ آواز میں بھاری پن اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں شرارت سے پیدا ہونے والی ہنسی کی چمک، چھوٹی، بڑی کزنز میں مقبول ہوا اور محمد بھائی، محمد بھائی کا چرچا عام ہوا۔ وہ صدا لگاتا جس نے چونی لینی ہے وہ جوتی پالش کر دے اور اگر کسی نے اٹھنی لینی ہے تو وہ میرے بالوں میں تیل لگا دے۔ چھوٹی چھوٹی کزنز دوڑ دوڑ کر یہ کام کرتیں لیکن نہ کبھی کسی کو چونی ملی نہ اٹھنی۔ محمد سے چار چھ سال بڑی کزنز اس پر احسان جتاتیں۔ ’’محمد تمھیں خبر ہے کہ بچپن میں تم کس قدر کم شکل تھے لیکن ہم پھر بھی تمھیں پیار کرتی تھیں۔ اب تو تم خود کو بڑا فلاں سمجھتے ہو، محمد یہ تبصرے سنتا اور مسکراتا رہتا۔ یونی ورسٹی سے فارغ ہوا تو نوکری کی تلاش میں نکلا۔ دو ایک جگہ انٹرویو دیے۔ آخرکار کراچی میں ایک بینک میں اسے ملازمت ملی۔ یونی ورسٹی کے زمانے میں لڑکیاں اسے محض دوست سمجھ کر بےتکلفی سے ملتی تھیں۔ وہ کبھی کسی لڑکی کے لیے دیوانہ نہ ہوا۔‘‘

    کراچی کی رہایش کے دوران وہ اپنی زندگی کے اہم موڑ پر پہنچا۔ مائرہ کو اس نے اپنے دوست کی شادی میں دیکھا۔ منہدی کی رسم تھی۔ خوب ہلا گلا اور شور شرابا تھا۔ بیسیوں لڑکیوں میں سے محمد کی نظر صرف مائرہ پر پڑی۔ عام شکل و صورت، درمیانی قامت، گندمی لیکن قدرے کھلا ہوا رنگ، خوب صورت متناسب ڈھلا ہوا جسم، ہنستے ہوئے سامنے کے دانت نظر آتے جو ہموار اور خوب صورت تھے۔ شوخی شرارت میں اس کی آنکھیں اس کا پورا پورا ساتھ دیتیں۔ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی آنکھیں بھی ہنس رہی ہوں۔ بےاختیار ہنسی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھنے کی ادا بھی اچھی لگتی۔ وہ خوب صورت نہیں تھی لیکن اس کے سراپے میں ایک جاذبیت تھی۔

    ڈھولک پر گیتوں کی وساطت سے لڑکی والے لڑکے والوں کو برا بھلا کہ رہے تھے۔ جواب میں لڑکے والے بھی کچھ سنا رہے تھے۔ خوب ہنسی مذاق ہو رہا تھا۔ اسی ہنسی مذاق کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد نے مائرہ سے بات کرنے کی ہمت کر ڈالی۔ مائرہ کو قطعاً محسوس نہ ہوا کہ یہ لمبا، اونچا اچھا سا لڑکا اس میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔ مائرہ نے بڑے نارمل انداز میں ہنستے ہوئے کہا، ’’اچھا! اچھا! تو آپ لڑکے والوں کی طرف سے ہیں۔ تبھی!!‘‘ ہنستے ہوئے مائرہ نے حسبِ عادت اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھا۔ محمد یہ دیکھ کر شوخی سے مسکرایا۔ وہ اسے بہت اچھی لگی۔

    بات آگے بڑھی کچھ ملاقاتیں اچانک ہوئیں۔ کچھ ملاقاتوں کے بہانے بنے اور پھر ان دونوں نے زندگی ساتھ ساتھ گزارنے کا پیمان باندھا۔ محمد نے اپنے گھر والوں سے ذکر کیا۔ مائرہ نے اپنے والدین کو بتایا۔ دونوں گھرانے خوشدلی سے ایک دوسرے سے ملے۔ ایک دوسرے کو پسند کیا اور چھ اپریل محمد اورمائرہ کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ چھ اپریل محمد کی پیدایش کا دن بھی تھا جب کہ 6اپریل کو بچے شمع اور بختیار کی شادی کی سالگرہ بھی مناتے تھے۔

    برسوں پر پھیلا وقت ایک لمبی اڑان لے چکا تھا۔ مارچ کا اوائل ہے کہ کھیتوں اور گھروں میں جا بجا رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں اور سبزہ بہار کی پھوار میں نہایا نہایا سا لگتا ہے۔ شمع کے گھر میں چہار جانب خوشی اٹھلا رہی ہے۔ شمع کی آواز بہت اچھی تھی اور اکثر محفلوں میں دوست اصرار کر کے کچھ نہ کچھ سنتے تھے۔ یہ گزرے وقت کی بات تھی لیکن آج محمد کی بری کے جوڑے سنبھالتے، سمیٹتے ہوئے شمع کے لبوں سے ایک پرانی غزل کے بول خود بخود ادا ہونے لگے:

    غیروں پہ کھل نہ جائے، کہیں، راز دیکھنا!

    میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

    اڑتے ہی رنگ رخ مری نظروں سے تھا نہاں

    اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا!

    دوپہر کے گیارہ بارہ کا عمل ہے۔ فاطمہ کی شادی ایک سال پہلے ہو چکی ہے اور وہ لاہور میں ہی ہے۔ فاطمہ، خالائیں، ممانیاں، چچی، پھپھیاں، کزنز۔ سب لوگ لدے پھندے آ رہے ہیں۔ آج سب نے شمع کو ’’ہتھ بھرے‘‘ کے جوڑے دینے ہیں۔ شمع بہت خوش ہے۔ سب سے جوڑے وصول کر رہی ہے اور ساتھ یہ انتخاب بھی جاری ہے کہ کون سا جوڑا میلاد پر پہنوں گی کون سا مایوں پر، پھر منہدی، پھر شادی کا دن اور پھر ایک اور جوڑا ولیمے کے لیے۔ سب لوگ اپنا اپنا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ فاطمہ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بہت کچھ لے کر آئی ہے اور اب دوسری کزنز کی مدد سے سب کے لیے میز پر چاے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ محمد ویک اینڈ پر آیا ہوا ہے اورسب سے پوچھ رہا ہے کہ آپ لوگ مجھے اور مائرہ کو کتنی کتنی سلامی دیں گے۔ محمد کے ان سوالوں پر سب ہنس بھی رہے ہیں اور بتا بھی رہے ہیں کیوں کہ محمد کا کہنا ہے کہ ہم نے یعنی مائرہ نے اور میں نے اپنا بجٹ بنانا ہے۔

    واہ بھئی! واہ! ابھی سے بجٹ بننے لگے ہیں۔

    اچھا تو بجٹ بنے گا!!

    محمد تم بڑے تیز نکلے بھئی ہمیں تو یہ عقل آج تک نہ آئی۔

    ہر ایک کوئی نہ کوئی فقرہ کس رہا ہے۔ محمد خاموش سن رہا ہے اور مسکرا رہا ہے۔ شمع اور بختیار پاس پاس بیٹھے ہیں اور مسرور ہیں۔

    آج ہی کی تاریخ میں چھبیس سال قبل اپریل میں فیصل آباد کے ایک گھرانے میں بختیار کی بارات اتری تھی اور آج ربع صدی اور ایک برس بعد کراچی کے ایک صاف ستھرے علاقے میں محمد کی بارات آئی ہے۔ آج محمد کی سالگرہ کا دن بھی ہے اور شمع اور بختیار کی شادی کی سالگرہ بھی ہے۔

    گھر میں ایسی رونق ہے جیسے سب کے دلوں میں بسنت بہار کی ترنگ رچ بس گئی ہو۔ مائرہ ہر روز ایک نیا لباس پہنتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ارد گرد پھیلی بہار کی چھایا اور خوشبو نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ رکھا ہے۔ محمد کی محبتوں کا عکس شیشے کے مانند اس کے چہرے کے گرد ہالہ بنائے ہوئے ہے۔ کھلکھلاتے میں مائرہ کی منہ پر ہاتھ رکھنے کی ادا کو محمد میٹھی نظروں سے محویت سے تکتا ہے تو مائرہ بوکھلانے لگتی ہے۔ بختیار مسرور ہے۔ شمع کام کرتے میں گنگناتی پھرتی ہے۔ دادی کے ساتھ محمد کی چھیڑ چھاڑ رہتی ہے۔ دادی ہر روز شمع کو آواز دے کر ایک ہی پیغام دیتی ہیں کہ ’’اپنی بہو سے کہو آج بری کے جوڑوں میں سے کوئی جوڑا پہنے۔‘‘ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ لیکن شمع جواب میں ’’جی اچھا‘‘ کہ دیتی ہے۔

    شمع جھاڑ پونچھ میں مشغول تھی۔ محمد نے پیچھے سے آ کر ماں کے کندھوں سے پکڑ کر اپنے بازوؤں میں لے لیا اور بولا! ’’ماما!ہماری پیکنگ شروع کر دیں۔ پرسوں ستائیس کو مجھے آفس جائن کرنا ہے‘‘۔

    ’’کیا؟‘‘ شمع حیرت سے بولی ’’کیا!!!؟ چھٹی ختم پیسا ہضم۔‘‘ محمد نے چٹکی بجاتے ہوئے ہنس کر ماں کو بتایا۔

    ’’اتنی جلدی!‘‘۔ شمع ابھی تک حیران تھی۔

    ’’کیا مطلب؟ جلدی کیا؟ آج پورے پچیس روز ہوئے ہیں۔ اس سے زیادہ دفتر والے مجھے اورکتنی چھٹی دیں گے۔ ماما! کام جمع ہو جاتا ہے نا!‘‘ محمد نے ایک لمحے کو شمع کے چہرے کی جانب دیکھا اور جھپا کے سے کمرے سے نکل گیا۔

    گھر میں سناٹا دوڑ آیا۔ بختیار، شمع ، دادی سب بجھ سے گئے۔ فاطمہ آتی تو کچھ دیر کے لیے گھر بھرا بھرا سا لگنے لگتا۔ بہر حال دستور حیات یہی ہے کہ ہر ایک کو اس کا رزق انگلی پکڑے کہیں نہ کہیں لیے پھرتا ہے۔ مائرہ اور محمد کے فون آتے۔ محمد ماں کو لمبا فون کرتا اور اس کومزید چڑانے کے لیے کہتا ’’ڈیڈی کا خیال رکھیں‘‘، ’’تمھیں بہت خیال ہے ڈیڈی کا‘‘ وہ جواب میں اور چڑاتا ’’ہم نہیں اپنے ڈیڈی کا خیال رکھیں گے تو اور کون رکھےگا، وہ’’ اپنے ‘‘پر زور دیتا۔ پھر ہنستا اور پھر شمع سے پوچھتا،’’ آپ اپنی دوائی باقاعدگی سے لے رہی ہیں نا۔ بس ماما! ریلیکس رہا کریں نا۔

    بختیار جونہی گھر میں قدم رکھتا پہلی خبر یہ سنائی جاتی کہ محمد کا فون آیا تھا۔ بختیار اس پانچ سات منٹ کے فون کے بارے میں دسیوں بار پوچھتا! ’’اچھا اور کیا کہتا تھا محمد؟‘‘ اور شمع بیسیوں بار سنائی بات کو دہرا کر ایسے سناتی کہ جیسے پہلی بار سنا رہی ہو۔ دادی روز بروز مضمحل ہوتی جا رہی تھیں۔ اب گھر کے معاملات سے ان کی دلچسپی یکسر معدوم ہو گئی تھی۔ ایک صبح شمع جب دلیا لے کر ان کے کمرے میں گئی اور ان کو جگانا چاہا تو اس رات دادی جاگنے کے لیے نہیں سوئی تھیں۔ شمع سناٹے میں آ گئی۔ بختیار نے چپ سادھ لی۔ بہرحال یہ واقعہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ محمد کی ٹرانسفر کوئی بیس ایک روز پہلے کراچی سے دبئی ہو چکی تھی۔ اسے خبر دی گئی لیکن وہ نوکری کی مجبوری کی وجہ سے نہ آ سکا۔ بےحد اداس ہوا۔ دادی سے اس کا اپنا ایک الگ رشتہ تھا جس میں کھیل، چڑچڑاہٹ، دونوں کا ضدی پن اور دادی کی ہر وقت کی یہ فکریں: محمد نے دودھ پیا۔ محمد نے کھانا کھایا؟ یہ فکر کہ تپتی دوپہر میں کرکٹ کے لیے تو نہیں نکل گیا۔ جواب میں محمد انھیں چڑاتا: دودھ نہ پی کر، کھانا نہ کھانے کی دھمکی، دوپہر کو باہر نکلنے کی دھمکی اور پھر دادی کو گاڑی میں بٹھا کر زگ زیگ چلانا۔ وہ شور مچاتیں اور دھمکاتیں کہ میں بختیار جی کو بتاؤں گی۔ جب محمد بڑا ہوا۔ ملازمت ملی، شادی ہوئی تو دادی نے اسے بھی آپ ہی آپ محمد جی کہنا شروع کر دیا۔ اب ان کے لیے محمد ایک کھلنڈرا بچہ نہیں بل کہ معزز آدمی تھا۔ محمد کو یہ سب یاد آیا۔ گھر کے وہ کونے یاد آئے جہاں دادی مستقلاً بیٹھتی تھیں۔ ’’اب ماڈل ٹاؤن جاؤں گا تو گھر کتنا خالی لگےگا اور اب ماما اور ڈیڈی بھی تو بہت اکیلے ہو گئے ہیں۔ شکر ہے فاطمہ لاہور میں ہی ہے‘‘۔ محمد یہ سب سوچتا۔ ماں باپ کے لیے آزردہ ہوتا۔ اب ماں کو لمبے لمبے فون کرنا اس کا معمول بن گیا۔ اس چھوٹے سے خاندان کی زندگی کا دریا آہستہ خرامی سے بہہ رہا تھا۔ زندگی کی فضاؤں میں تازہ ہواؤں اور رنگ برنگ پھولوں کی مہک کا احساس تھا۔ ایسے میں خوب صورت موسموں کا ثمر مائرہ اور محمد کے گھر دو بیٹیوں کی صورت میں ہوا۔ پھر ایک بیٹا اور پھر زین جس کے بارے میں دونوں شرمندہ ہوتے اور ہنستے تھے کہ یہ نہ معلوم کیسے آ گیا ہے؟ ہمیں تو کچھ خبر نہیں۔

    محمد دبئی میں نہ معلوم کتنی مدت رہا۔ بڑی بیٹی ماشاء اللہ اب سولہ سال کی تھی اور اسی حساب سے دوسرے دونوں بچے بھی بڑے ہو چکے تھے۔ فقط زین دس ماہ کا تھا۔ اس دوران محمد پاکستان آتا رہا۔ دوستوں کا جمگھٹا لگتا۔ وہ ماں کے فریزر سے گوشت کی تھیلیاں چراتا اور کڑاہی گوشت بناتا۔ دوستوں کے ہمراہ پھجے کے پائے کھانے جاتا۔ وہ ایک بڑے عہدے پر تھا لیکن اپنے ماضی سے دست بردار نہیں ہو سکا تھا۔ ماڈل ٹاؤن کی نئی مارکیٹوں کو وہ ابھی بھی ’’اڈا‘‘ کہتا کہ ’’میں ذرا اڈّے تک بال کٹوانے جا رہا ہوں‘‘۔ وہ اپنی شاپنگ عزیز اور لطیف کے کھوکھوں سے کرتا۔ اس نے دنیاوی زندگی میں خوب ترقی کی لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک عام اور شرمیلا سا انسان تھا۔

    دو برس پیشتر اسے ترقی دے کر لندن پوسٹ کر دیا گیا۔ لندن جانے سے پہلے دونوں ایک ہفتہ کے لیے لاہور آئے۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے ملے۔ ماما سے لندن آنے کا وعدہ لیا۔ ڈیڈی نے تو جانا ہی جانا تھا۔ لندن میں وقتی طور پر ایک چھوٹے سے گھر میں ڈیرا جمایا اور اب اپنی ضرورت کے مطابق گھر ڈھونڈنا شروع کیا۔ تقریباً روز ہی فون آتا اور محمد ہنس ہنس کر ماں کو بتاتا ’’ماما! گورے کہتے ہیں کہ تمھارے بچے بہت زیادہ ہیں۔ ہم تمھیں گھر نہیں دے سکتے۔ لہٰذا ابھی تک تو ہمیں اپنی ضرورت کے مطابق گھر نہیں ملا۔‘‘ شمع بچوں کے لیے ماشاء اللہ کہتی اور گوروں کو برا بھلا کہتی۔

    ایک روز مائرہ کا فون آیا۔ شمع نے سنا اور بولی ’’ہم سب ٹھیک ہیں بیٹے! لیکن تم نے کیوں فون کیا؟ فون تو محمد عموماً آفس سے کرتا ہے۔ کدھر ہے وہ؟ محمد کدھر ہے؟‘‘ شمع نے گھبراہٹ میں بہت سے سوال کر ڈالے۔ مائرہ نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ ’’محمد تو آفس میں ہیں۔ ہم پاکستان آ رہے ہیں!‘‘

    ’’کیوں؟ کیوں؟ ابھی تو آپ لوگ گئے ہو۔‘‘

    ’’بس ماما محمد کہتے ہیں چلو گھر چلیں۔ ماڈل ٹاؤن چلیں۔‘‘ مائرہ نے بات جاری رکھنے کے لیے گلا صاف کیا۔ ’’میں نے بچوں کی چھٹیوں وغیرہ کا بندوبست کر لِیا ہے۔ ویسے بھی سردی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ سکول تو بند ہو ہی جائیں گے۔‘‘

    شمع دم سادھے سنتی رہی۔ مائرہ نے خدا حافظ کہا اور فون بند کردیا۔ اس کی آواز میں معمول کی چمک اور چھنک نہیں تھی۔ بختیار آیا تو اس نے بھی یہی کہا کہ کیوں آ رہے ہیں؟ میرے خیال میں تو ابھی محمد کو چھٹی بھی نہیں مل سکتی۔ چلو خیر۔ شاید ان کے کچھ اپنے قوانین ہوں اور چھٹی مل سکتی ہو۔ بختیار نے اپنے فکر اور تجسس کو چھپانے کی کوشش کی۔

    اگلے سے اگلے روز صبح کی فلائیٹ سے وہ سب پہنچ گئے۔ فاطمہ اور بختیار کی گاڑی ائیرپورٹ گئی تھی۔ گھر پہنچے۔ شمع نے سب بچوں اور بہو کو پیار کیا۔ محمد ماں کے قریب آیا۔ اسے دونوں کندھوں سے پکڑا اور اپنی چندھی چندھی مسکراتی آنکھوں سے شمع کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ کو ہمارا آنا اچھا نہیں لگا۔‘‘ شمع حیران سی ہوئی اور کہا ’’کیوں میری جان! مجھے کیوں اچھا نہیں لگا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے شمع نے محمد کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور ماتھے پر پیار کیا۔ پیار کرتے ہوئے اسے محمد کا ماتھا گرم گرم سا لگا۔ اس نے سوچا سفر کی تکان ہے شام تک ٹھیک ہو جائےگا۔

    محمدگھر کیا آیا دوستوں کابازار لگ گیا۔ رونق، کھپ، رولا، تاش، رمی اور رمی کے ساتھ لوازمات۔ شمع جیسے رونقوں کے رنگ میں نہا گئی۔

    شمع جب بھی محمد کو چھوتی یا محمد جب کبھی ماں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھاتا تو شمع کو وہ گرم لگتا۔ آخر شمع نے کچھ روز متواتر چیک کیا تو باقاعدہ ہلکا ہلکا بخار نکلنے لگا۔ چھوٹی موٹی دوائی دی گئی، گھڑی دو گھڑی کو بخار اتر جاتا پھر دوبارہ چڑھ جاتا۔ آخر کار بلڈ ٹیسٹ ہوا۔ کلچر ہوا، الٹرا ساؤنڈ ہوا، اور آخر میں سی۔ ٹی سکین سے یہی ظاہر ہوا کہ محمد کی بازی مات ہے۔ محمد کے اندر لگی دیمک یا گھن کو کسی طور بھی کھرچا نہیں جا سکتا کہ یہ مرض کے اس مقام پر ہے جہاں جگر کی ٹرانس پلانٹیشن بھی نہیں ہو سکتی۔ لاہور کے ماہر ڈاکٹروں نے محمد کی زندگی کوچھ ماہ پر پھیلایا اور لندن جانے کو کہا کہ وہاں بھی آپ اپنی تشفی کر لیں۔ لندن والوں نے خود تشخیص کرنے کے بعد لاہور کے ڈاکٹروں کی تشخیص کی تصدیق کی۔ انھوں نے بھی محمد کی زندگی محض چھ ماہ قرار دی۔ زندگی کو یوں آسانی سے کون اپنے ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔ علاج شروع ہوا۔ وہی کیمو تھراپی، ریڈی ایشن، تبدیلی خون، اس علاج کاری ایکشن بخار، متلی، الٹیاں اور نہ معلوم کیا کیا کچھ۔ لیکن اس کے باوجود وہ دفتر جاتا رہا کہ بچوں کے لیے کچھ تو چھوڑ کر جانا تھا۔ کوئی بچہ بھی تو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا تھا۔ محمد کی زندگی جس کہانی میں ڈھلتی جا رہی تھی اس کی تفصیل شمع اور بختیار کو اس وقت بتائی گئی جب فاطمہ محمد کو بیمار دیکھ کر لندن سے واپس آئی۔ فاطمہ نے سوچا کہ یہ بات اب ماما اور ڈیدی سے زیادہ دیر تک چھپائی نہیں جا سکتی۔ مائرہ اور محمد یہ سب پہلے سے جانتے تھے۔ لندن سے واپسی پر تیسرے روز فاطمہ نے اپنی ماما اور ڈیڈی کو اپنے گھر بلایا اور بغیر نظر ملائے محمد کی بڑھتی ہوئی بیماری کا ذکر کیا۔ بیماری کا نام لینے کے لیے اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور تقریباً ہسٹریائی حالات میں وہ مسلسل بولتی رہی۔ ماما!! ایسے ہی ہو جاتا ہے۔ زندگی میں ایسے بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے ناخن نیلے پڑ گئے ہیں، بال بھی تواتر گئے ہیں نا، پر ڈیڈی اس بیماری میں ایسے ہی ہو جاتا ہے۔ فاطمہ اپنی گفتگو کو بس اسی قدر طول دے سکی اور اپنی کیفیت اور آنسو چھپانے کے لیے اس نے جھک کر چائے بنانی شروع کردی۔ وہ ایک بہادر لڑکی تھی لیکن ماں باپ کے سامنے وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ شمع اور بختیار گنگ تھے۔ ہونقوں کی طرح بیٹھے رہے۔ وہ بولنے کے قابل بھی نہ رہے تھے۔

    لندن سے جواب ملنے کے بعد مائرہ اسے امریکا لے گئی۔ اداسیوں اور ذہنی بے سرو سامانی کے رخت سفر کے ساتھ ہیوسٹن پہنچے۔ وہاں بھی ڈاکٹروں نے خوب لوٹا اور تجربے کر کر کے اپنے علم میں اضافے کیے اور آخر میں معذرت پیش کر دی۔ لہٰذا وہ واپس لندن آ گئے۔ محمد ذہنی اور جسمانی تکان سے نڈھال تھا۔ ایک روز اس نے مائرہ سے کہا ’’مائرہ! میں گھر جانا چاہتا ہوں لاہور، ماڈل ٹاؤن۔ تم ابھی ادھر ہی ٹھہرو لڑکیوں کے امتحانات ہیں۔ فارغ ہو جائیں گی تو تم بھی آ جانا۔ مجھے اب مزید علاج کی خواہش نہیں رہی لیکن ڈیڈی کا فون آیا تھا کہ لاہور میں جڑی بوٹیوں سے علاج کی آج کل بہت شہرت ہے۔ دو ایک ڈاکٹروں نے بھی اسے کامیاب دوا کہا ہے۔ مائرہ بولی’’ ٹھیک ہے محمد۔ آپ جائیں۔ یقیناًیہ دوائی کامیاب ہوگی۔

    مائرہ سوچ رہی تھی کہ بازی تو میں ہار ہی چکی ہوں۔ پر مجھے محمد کے بچوں کے لیے بہادری اور حوصلے کا لبادہ اوڑھنا پڑےگا۔ سو محمد اپنے بیمار اور بکھرے وجود کے ساتھ اپنے گھر ماڈل ٹاؤن میں آ گیا۔ ائیر پورٹ پر فاطمہ کے میاں نے اس کی ممکنہ سہولت اور آرام کے انتظامات کر رکھے تھے۔ فاطمہ بھائی کودیکھ کر دہل گئی۔ کبھی روتی تھی، کبھی ہنستی تھی اور وہ اپنے بہنوئی سے کہ رہاتھا ’’یار! یہ دیکھو! یہ بیوقوف لڑکی پاگل تو نہیں ہو گئی۔‘‘

    گھر آئے تو شمع اور بختیار نیم مردہ سے ہوگئے۔ زبان اور لفظ دغا دے گئے جیسے کسی نے سونا بنانے کا جھانسا دے کر ان کاسب کچھ لوٹ لیا ہو۔ لیکن نہ معلوم شمع جو بات بےبات پھس پھس ہو جایا کرتی تھی اس نے دل میں کیا سوچا کہ خود کو مضبوط کیا۔ خوب خوب سنبھالا اور آگے بڑھ کربیٹے کے گلے ملی، گلا رندھا ہوا تھا لیکن وہ منہ پھیر کر وہاں سے ہٹ گئی۔

    قرائن اور شواہد یہی بتا رہے تھے کہ پورا سورج ڈوب چکا ہے۔ شفق کی ایک باریک سی لکیر ابھی باقی ہے لیکن اندھیرے میں مدغم ہونے کو ہے۔ انسان اپنے رب سے بہت کچھ مانگتا ہے لیکن ایک دعا اتنی بار مانگی جاتی ہے جتنے آسمان پر تارے اور یہ دعا ایک ماں اپنے بچے کی زندگی کے لیے مانگتی ہے۔ سو چوبیس گھنٹے ایسی ہی دعائیں شمع کے لبوں پر تھیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ اس کا پورا یقین تھا کہ موجودہ وقت میں سلگتی تپتی دوپہر کے بعد سر شام چھما چھم بارش ضرور ہوگی۔

    محمد کا جڑی بویٹوں والی دوائی سے علاج ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر کہتا افاقہ ہے لیکن گھر والوں کو کچھ افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ نہ معلوم محمد کا کیا کیا کھانے کو جی چاہتا۔ وہ اپنی خالاؤں، چچی، پھپھو اور ممانی سب کو کہتا کہ بھنڈی پکا دو اور وہ بھنڈی پکانے کی ترکیب بھی خود ہی بتاتا۔ یہ ڈالنا، وہ نہ ڈالنا، کیسے بھوننا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب بھنڈی تیار کر کے اس کے سامنے لائی جاتی تو کھا نہ پاتا۔ ایک آدھ نوالہ لے کر چھوڑ دیتا۔ پھر بھی دن بھر شمع اور فاطمہ کی کوشش ہوتی کہ اس کے اندر کچھ نہ کچھ جاتا رہے۔

    چند روز بعد بچے اورمائرہ آ گئے۔ محمد بچوں کودیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ان دنوں محمدہسپتال میں جا چکا تھا۔ مائرہ ہسپتال گئی تو اس نے لپ سٹک لگائی ہوئی تھی بل کہ شمع نے ہی اسے کہا تھا کہ ذرا فریش ہو کر جاؤ۔ محمد نے مائرہ کو دیکھا تو ہنس کر کہا، ’’بڑی لپ سٹک لگائی ہوئی ہے۔‘‘

    ’’کیوں نہ لگاؤں۔ کیوں نہ لگاؤں؟‘‘ مائرہ نے چڑ کر رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ لگاؤ۔ لگاؤ، یار میں نے کیا کہا ہے، ادھر آ جاؤ، کرسی کو ذرا قریب کر لو۔ مائرہ کرسی کو چھوڑ کر اس کے بستر کے سرہانے بیٹھ گئی، ایک ماہ بعد دونوں ملے تھے۔ محمد مائرہ کی خاطر کر رہا تھا۔مائرہ نے محمد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ انگلیوں سے بال ہموار کیے اور دوسری جانب منہ موڑ لیا۔ محمد نے مائرہ کے ہاتھ کو ہلکے سے دبایا اور کہا ’’ایسے نہیں کرتے‘‘ شام گئے مائرہ گھر واپس جانا چاہ رہی تھی کہ زین دادی کے پاس تھا اور کسی سے بھی مانوس نہیں تھا لیکن محمد نے اسے روک لیا کہ جو ہاسپٹل سے سب سے آخر میں جائے گا، تم اس کے ساتھ جانا۔ مائرہ اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے اس کے سرہانے اس کے قریب بیٹھ گئی۔ دونوں سرگوشیوں میں چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگے۔ محمد، آج اس لمحے تمام دنوں سے بہت بہتر محسوس کر رہا تھا۔

    لندن اور امریکا کے ڈاکٹروں نے محمد کی زندگی کے آخری دنوں کی کچھ نشانیاں اور مختلف کیفیات مائرہ اور فاطمہ کو بتا دی تھیں۔ یہ سب نشانیاں اور کیفیات واقعاتی صورت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔ ڈاکٹروں کی بتائی تاریخوں کے عین مطابق ایک دن صبح کے وقت ہاسپٹل میں ہی اس کی طبیعت خراب ہو گئی، خون کی قے ہوئی۔ سب لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پھر طبیعت سنبھل گئی۔ وقفوں وقفوں سے لوگ ہسپتال سے واپس آ گئے کہ اب طبیعت بحال ہے۔ شام کو بھی ٹھیک تھا۔ مائرہ اور بچیاں بھی رات گئے گھر آ گئیں۔ محمد کے پاس اس کے دو کزن تھے ایک نرس بھی تھی۔ یہ لوگ ساری رات جاگے۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بنا کسی آہٹ کے محمد رات کے کس پہر چپ چاپ کمرے سے نکل گیا جیسے وہ شکر دوپہروں میں کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے نکل جاتا تھا۔

    برسوں پہلے جاتی بہار، اس ماہ کے شروع ہفتہ میں محمد کی برات اتری تھی۔ اسی ہفتے میں وہ پیدا ہوا۔ آج بھی اسی جاتی بہار کا دن ہے۔ زین تین سال کا ہو گیا ہے۔ مائرہ نے اسے نرسری میں داخل کروا دیا ہے۔ وہ ابھی ابھی سکول سے آیا ہے۔ماں نے اسے کھانا کھلایا ہے اور اب وہ دادی کے پلنگ پر چڑھ کر کدکڑے لگانے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن دادی نے دھیرج سے اس کا بازو پکڑ کر پلنگ پر لٹا دیا ہے۔ لیٹنے کے ساتھ ہی اس نے ’’توتیا! من موتیا!‘‘ والی بانی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وہ کروٹ کے بل لیٹ گیا ہے اور اپنے منے سے بازو سے دادی کو کلاوے میں لینے کی کوشش میں ہے۔ دادی نے حسب معمول بانی شروع کر دی ہے:

    توتیا! من موتیا!

    میں آکھدی، میں ویکھدی

    تو ایس گلی نہ جا

    ایس گلی دے جٹ برے

    لیندے پھاہیاں پا

    توتا جواب میں توتی کو تسلی دیتا ہے:

    توتیے! من موتیے

    میں جیوندا، میں جاگدا

    میں امرت ڈالی بیٹھا

    جوار میوہ کھاتا

    توں چل گھر، میں آتا

    توں چل گھر، میں آتا

    جب شمع نے ’’توتیے من موتیے‘‘ کہا تو زین نے حسب معمول دادی کو ٹوکا اور کہا ’’دادی، توتیے من موتیے‘‘ نہیں کہتے، ماما کہتے ہیں۔ ‘‘اب اگلا بند زین روز مرہ کی طرح خود بول رہا تھا:‘‘

    ماما! میں جیوندا

    میں جاگدا

    میں امرت ڈالی بیٹھا

    جوار میوہ کھاتا

    توں چل گھر، میں آتا

    توں چل گھر، میں آتا

    شام کا کچا کچا اندھیرا اور چپ، مائرہ کو گہری کھائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ سہ پہر ہوتے ہی وہ شام کے سہم میں ڈوب جاتی ہے۔ صبح سے اب تک کے سب دھندے نبٹا کر مائرہ بڑی بیٹی کا انتظار کر رہی تھی کہ جو ابھی بینک سے واپس نہیں آئی تھی۔ تھوڑے سے کھسکے پردے سے روشنی کی ایک باریک سی کرن، زین اور اس کی دادی کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ مائرہ نے آہستگی سے پردہ برابر کیا۔ زین دادی کے گلے میں بانہیں ڈالے گہری نیند سو رہا تھا۔ مائرہ پلنگ کے قریب سے گزری تو اسے بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ اس نے جھک کے ساس کو دیکھا وہ نیند میں بڑبڑا رہی تھیں:

    میں جیوندا

    میں جاگدا

    میں امرت ڈالی بیٹھا

    جوار میوہ کھاتا

    توں چل گھر، میں آتا

    توں چل گھر، میں آتا شمع کی بڑبڑاہٹ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی لیکن مائرہ سمجھ گئی ’’ماما! توں چل گھر، میں آتا۔‘‘

    مائرہ صحن سے نکل کر پچھلے لان میں آ گئی۔ خالی ذہن سے الگنی پر سے کپڑے اتارنے لگی اور اسی خالی ذہن سے ’’توں چل گھر میں آتا، توں چل گھر میں آتا۔‘‘ بولتی گئی۔ اس کی موٹی موٹی آنکھوں سے اتنے ہی موٹے آنسو رواں تھے۔ وہ الگنی سے کپڑے اتارتی جا رہی تھی اور ان دو جملوں کو ایسے دہرا رہی تھی جیسے وہ زندگی کا پہاڑا یاد کر رہی ہو جو کہ پلوں، پہروں، گھنٹوں اور پھر آنے والے وقتوں میں برسوں پر پھیلا ہوا تھا۔ وہ یہ جملے ایسے مکینیکل طریقے سے بول رہی تھی جیسے وہ کپڑوں کی گنتی کر رہی ہو۔ ماشا گھر میں داخل ہو چکی تھی اور تھوڑے قدموں کے فاصلے پر کھڑی ماں کو بغور دیکھ رہی تھی۔ ماشا نے پیچھے سے چپکے سے آکر ماں کو دونوں کندھوں سے آہستہ سے پکڑا۔ اس کا چہرہ اپنی جانب موڑا اور اس کی آنکھوں میں دور تک دیکھتے ہوئے بولی:

    میں جیوندا

    میں جاگدا

    اس کی محمد جیسی چندھی چندھی گہری آنکھوں میں نمی تھی۔ اس نے اپنے مضبوط بازو کے کلاوے سے اپنی ماں کے وجود کو اپنے ساتھ لگایا اور کچن میں داخل ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے