میں سکول سے نکلی تو بہت خوش تھی۔ سکول سے واپسی پر میں ہمیشہ خوش ہوتی ہوں لیکن جمعے والے دن میری خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔ آج جمعہ تھا۔ آج میری خوشی دیدنی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلے دو دن میرے بابا گھر میں ہوتے ہیں۔ جب بابا گھر میں ہوتے ہیں تو ہم سب بہت خوش ہوتے ہیں۔ بابا ہمیں شہر لے جاتے ہیں جہاں ہم شاپنگ کرتے ہیں، ریستوران سے کھانا کھاتے ہیں، کبھی سینما میں فلم دیکھتے ہیں اور کبھی سرکس دکھانے لے جاتے ہیں، اس طرح وہ پورا دن سیروتفریح میں گزرتا ہے۔ اتوار والے دن بابا گھر میں رہ کر اپنے ماہی گیری کے آلات اور گھر کی چیزیں مرمت کرتے ہیں، باغبانی کرتے ہیں اور میرے اور ماں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ یوں یہ دو دن بہت مزے سے گزرتے ہیں۔ پیر سے جمعہ تک بابا علی الصبح اٹھ کر مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں جوہمارا بلکہ ہمارے پورے گاؤں کا پیشہ ہے۔ ہم جاپانی مچھلی بہت ذوق وشوق سے کھاتے ہیں۔ روز مرہ کے کھانوں میں مچھلی کا جتنا استعمال جاپان میں ہوتا ہے اتنا کسی اور ملک میں نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں یہ وافر دستیاب ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم جاپانی سرخ گوشت تیل اور مسالوں والے کھانوں کے بجائے صحت مند خوراک یعنی سبزی اور موٹاپے سے پاک مچھلیوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپا ن میں دل کے امراض کا تناسب دوسرے ملکوں سے بہت کم ہے۔
میرے بابا سمیت ہمارے گاؤں کے لوگ ماہی گیری سے اچھا خاصا کما لیتے ہیں اس لئے ہمارے گاؤں کے لوگ شہر کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔ وہ اس چھوٹے سے گاؤں میں ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرلیتے ہیں۔ یوں بھی یہ بہت خوبصورت گاؤں ہے۔ اس کے ایک طرف پہاڑ اوردوسری طرف سمندر ہے۔ پہاڑ کے دامن میں کھیتوں اور باغات میں پھل، پھول، تازہ سبزیاں اور دیگر کئی اجناس وافر پیدا ہوتی ہیں۔ یوں بھی ہم مرکزی شاہراہ سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں اس لئے گاؤں والوں کو یہاں ساری سہولتیں میسر ہیں۔
ہمارے ا سکول کے راستے میں پھولوں کے کھیت ہیں۔ میں نے ان کھیتوں سے مختلف رنگوں کے پھول چن کر ایک گلدستہ بنا لیا۔ یہ پھول میں نے ماما اور بابا کو دینے کے لیے چنے تھے۔ سرما کی اس شام سورج مغرب کی طرف جھکتا چلا جا رہا تھا۔ اس کی سنہری کرنیں پھولوں، پودوں اور درختوں پر چمک رہی تھیں۔ دور پہاڑ کی چوٹی پر جمی برف پر سورج کا عکس نظر آتا تھا۔ یہ سورج شائد میرے چہرے سے بھی منعکس ہو رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی یہ دنیا کتنی حسین ہے۔
جب میں اپنی گلی میں پہنچی تو مجھے لگا کہ وہاں عام حالات نہیں ہیں۔ ہمارے گھر کے سامنے کئی گاڑیاں کھڑی تھیں اور لوگ جمع تھے۔ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ بڑے کمرے میں کوئی شخص سر سے پیر تک ڈھکا ہو اسو رہا ہے۔ اس کے ارد گرد گاؤں کے لوگ بیٹھے ہیں۔ میں سر اسیمہ سی ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ یکا یک ماں نے مجھے پکڑ کر گلے لگا لیا۔ ماں رو رہی تھے اور کہہ رہی تھی، ”اینا تمہارا باپ مر گیا ہے۔ اس کی کشتی سمندر میں الٹ گئی تھی کافی تلاش کے بعد اس کی لاش ملی ہے۔‘‘
شروع میں تو مجھے سمجھ نہ آیا کہ ماں کیا کہہ رہی ہے۔ جب سمجھ آیا تو بے اختیار میری چیخ نکل گئی۔ میں اپنے بابا کی طرف لپکی تو ایک عورت میں مجھے تھام لیا، ”نہیں اینا تمہارے بابا کی لاش خراب ہو گئی ہے۔ تم ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکوگی۔“
میری آہ وبکا سن کر گاؤں کی عورتیں اور مرد بھی اشک بار ہو گئے۔ ماں نے مجھے گلے لگا لیا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
اس وقت میری عمر صرف چھ سال تھی۔ اس خوبصورت گھر میں ا تنے شفیق ماں باپ کے ساتھ گزرا ہوا وہ وقت میری زندگی کا حسین ترین وقت تھا۔ ہمارے گاؤں کے قریب واقع پہاڑ پر، ہمارے گاؤں میں اور ہمارے قریبی سمندر میں سال کے چھ ماہ برف جمی رہتی ہے۔ یہ چھ ماہ یہاں کے باسیوں کے لیے قدرے مشکل وقت ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں زندگی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن اس موسم کا اپنا مزہ بھی ہے برف باری کے دوران لوگ گھروں، کلبوں، کمیونٹی سنٹروں اور شراب خانوں میں دبکے بیٹھے رہتے ہیں انہیں باہر کی فکر نہیں ہوتی جبکہ گرمیوں کے چھ ماہ کام کاج اور تعمیر وترقی میں گزرتے ہیں۔
میری ماں اور بابا کا بچپن بھی اسی گاؤں میں گزرا تھا۔ یہیں پلے بڑھے، جوان ہوئے، شادی ہوئی اور اسی گھر میں زندگی کے آٹھ خوبصورت سال بسر کئے۔ میری ماں اور بابا دونو ں بہت خوبصورت تھے۔ میری ماں تیس برس کی تھی لیکن اس کا نرم ونازک دلکش بدن اور حسین چہرہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب کر رہ جاتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ گاؤں کا سب سے خوبصورت جوڑا ہے۔ قدرت نے ان دونوں کو حسن اور صحت کے ساتھ ساتھ محبت بھرا دل بھی عنایت کیا تھا۔ دونوں کی محبت مثالی تھی۔ میرے بابا بغیرکسی ضرورت کے گھر سے باہر نہیں جاتے تھے نہ کلب نہ شراب خانہ اور نہ کمیونٹی سنٹر۔ کام سے واپس آنے کے بعد ان کا سارا وقت میرے اور ماں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ہمارا گھر خوشیوں اور محبتوں کا گہوارا تھا لیکن موت کے ظالم پنجے نے میرے شفیق باپ کو چھین لیا تھا۔ میری ماں بیوہ اور میں یتیم ہو گئی۔ بابا کے بغیر یہ گھر سونا اور اداس ہو گیا۔ ماں کی آنکھوں میں اداسیوں نے گھر کر لیااور میرے چہرے سے مسکراہٹ چھن گئی۔
وقت کا دھارا بہتارہا۔ اسی طرح دو برس بیت گئے اچانک ہماری زندگی میں ایک اور تلاطم آیا۔ گرمیوں کی اتوار کی صبح تھی۔ میری ماں نے مجھے نہلا دھلا کر نیا لباس پہنایا۔ وہ خود بھی بہت دنوں کے بعد سج سنور کر اس طرح تیار ہوئی جس طرح بابا کی زندگی میں ہوتی تھی۔ ماں مجھے لے کر چرچ گئی جہاں جانجی نامی ہمارے گاؤں کے ایک مچھیرے سے اس کی شادی ہو رہی تھی۔ میں حیران تھی کیونکہ ماں نے اس بارے میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی حالانکہ وہ مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی۔ میں اس کی اکیلے پن کی مشکلات کو سمجھتی تھی لیکن میرا اس طرف کبھی خیال ہی نہیں گیا تھا کہ میری ماں دوسری شادی بھی کر سکتی ہے۔
بہرحال جانجی میرا سوتیلا باپ بن کر ہمارے گھر آ گیا۔ مجھے یہ شخص بالکل پسند نہیں آیا۔ اس میں میرے بابا والی کوئی بات نہیں تھی۔ نہ اس نے مجھے کبھی باپ کی شفقت کی نظروں سے دیکھا نہ میں نے اس کے قریب ہونے کی کوشش کی۔ ہمارے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ برقرار رہا۔ زیست کے تلخ تجربوں نے مجھے قبل از وقت سمجھ دار کر دیا تھا۔ میں نے یہ حقیقت جان اور سمجھ لی تھی کہ میرا باپ اور گزرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا۔ میں بابا کی محبت اور ان سے ملنے والی خوشیوں کو فراموش نہیں کر پائی تھی لیکن یہ غم برداشت کرنے کی عادت ڈال لی تھی۔ بابا کی جدائی کا اثر مجھ سے زیادہ ماں پر ہوا تھا۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ماں کا دل غم کی دھار سے لہو لہو ہو چکا تھا۔ وہ مجھے تسلیاں دیتی تھی تو اس کی اپنی آنکھوں میں اشکجھلملانے لگتے تھے۔ وہ مجھے خوش کرنے اور خوش رکھنے کے لیے ہر جتن کرتی تھی لیکن اس کی اپنی مسکراہٹ کہیں کھو گئی تھی۔
دوسری شادی کے بعد ماں زیادہ رنجیدہ رہنے لگی۔ دراصل ماں نے یہ شادی گاؤں والوں اور برادری کے کہنے پر کی تھی۔ وہ ابھی جوان تھی حسین تھی۔ گاؤں کے لوگ چاہتے تھے کہ وہ ساری زندگی بیوگی میں نہ گزارے بلکہ دوسری شادی کر لے۔ ماں نے بھی سوچا کہ ایک مرد کے گھر میں آ جانے سے اسے شائد سہارا مل جائے اور مجھے باپ کی کمی کم ستائے۔ لیکن جانجی نہ اچھا باپ ثابت ہوا نہ اچھا شوہر۔ وہ شراب اور جوئے کی لت میں مبتلا تھا۔ جو کچھ کماتا تھا سب انہی عاداتِ بد کی نذر کردیتاتھا۔ جاپان میں شراب عام ہے سبھی پیتے ہیں۔ لیکن جانجی جیسے لوگ اس میں اتنے غرق ہو جاتے ہیں کہ کسی اور کام کے قابل نہیں رہتے اور جوا تو گھر کے گھر تباہ کر دیتا ہے۔ جواری اور نشئی اپنا خیال نہیں رکھ سکتے دوسروں کا کیا رکھیں گے۔
میں جانتی تھی کہ ماں خوش نہیں ہے لیکن اس کے اندر دکھوں کا اتنا بوجھ جمع ہو گیا ہے ا س کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ دوسری شادی نے ماں کی زندگی میں مزید تلخیاں گھول دیں تھیں۔ وہ نازک بدن اور نازک خیال اور کومل جذبوں سے معمور عورت تھی۔ حالات کے تھپیڑوں نے اس کے نرم ونازک دل پر اتنے گہرے زخم لگائے جن کی وہ تاب نہ لا سکی۔
صبح کا وقت تھا میں سوئی ہوئی تھی کہ شور کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ جاگی تو دیکھا کہ ہمارے گھر میں پولیس اور دوسرے لوگ جمع ہیں۔ کسی نے بتایا تمہاری ماں نے خودکشی کر لی ہے۔ ماں نے اسی سمندر میں کود کر خودکشی کی تھی جس نے میرے باپ کی جان لی تھی۔ یوں میرا باپ اور میری ماں دونوں اس سمندری کی نذر ہوگئے اور مجھے اس بھری دنیا میں تنہا چھوڑ گئے۔ ماں کی موت کا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ میں گم سم ہو گئی۔ باپ کی موت کے بعد ماں نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا تھا لیکن اب میرے لئے کوئی سہارا باقی نہیں بچا تھا۔ روتی تھی تو کوئی دلاسا دینے والا نہیں تھا۔ بھوکی اور پیاسی رہتی تو کوئی پیار سے کھانا کھلانے والا نہیں تھا۔ چند دن تک محلے والوں نے میرا خیال رکھا اور پھر ایک سرکاری یتیم خانے کے حوالے کر دیا۔ یہ یتیم خانہ ہمارے گاؤں سے بہت دور ٹوکیوشہر میں تھا۔
یہاں سے میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ یہ ایک الگ دنیا تھی۔ یہاں ہمیں تمام سہولتیں حاصل تھیں۔ کھانا پینا لباس رہائش اور پڑھائی سب کچھ میسر تھا۔ کمی تھی تو والدین کے پیار کی، ان کی خصوصی توجہ کی، گھر کی خوشیوں کی، آزاد اور بے فکر زندگی کی۔ مجھے اپنا گھر اور اپنے ماں باپ بہت یاد آتے تھے۔ اپنے گاؤں اور اپنے بچپن کے دوستوں کی یاد بھی بہت ستاتی تھی۔ یہاں سب اجنبی تھے۔ کوئی دوست نہیں تھا کوئی اپنا نہیں تھا۔ اب یہ کمی ہمیشہ میرے ساتھ رہنے والی تھی۔ وقت مرہم ہے میرے زخم دھیرے دھیرے بھرتے چلے گئے اور میں یتیم خانے کی زندگی کی عادی ہو گئی۔ یتیم خانے میں تمام سہولتوں کے باجود عملے کا انداز بہت میکانکی اور مشینی تھا۔ ان کے چہرے مسکراہٹ سے عاری اور سپاٹ ہوتے۔ وہ بچوں کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں تھے اور ان کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے حالانکہ یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ کاش ایسے لوگ احساسِ فرض کے ساتھ محبت اور شفقت کے جذبوں سے بھی مالا مال ہوں تو کئی معصوم دلوں کی تسکین کا باعث بن سکتے ہیں۔ میں ان میں اپنے ماں اور باپ کی جھلک ڈھونڈتی لیکن ایسے لوگ بہت کم تھے۔ یتیم خانے کے موجودہ ماحول میں بچے بہت زودرنج، تنہا اور حساس ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف انہیں اکیلے زند گی گزارنے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے ہمت اور طاقت بھی آ جاتی ہے۔ میری شخصیت میں بھی تبدیلیاں آتی گئیں رفتہ رفتہ میں نے اپنے ساتھ جینا سیکھ لیا۔ میں نے اپنے اندر ایک انجمن سجالی تھی۔
یتیم خانے میں رہ کر میں نے آئی ٹی میں ڈگری حاصل کی۔ اس وقت تک میں اٹھارہ برس کی ہو چکی تھی۔ نوکری ملتے ہی میں نے فلیٹ کرایہ پر حاصل کیا اور یتیم خانے کو خداحافظ کہہ دیا۔ حالانکہ میں اس زندگی کی عادت ہو گئی تھی۔ یتیم خانے سے نکل کر تنہا رہنے کا تجربہ بھی منفرد اور جدا تھا لیکن میں نے زندگی میں اتنے مدوجزر دیکھے تھے کہ اب کچھ بھی نیا نہیں لگتا تھا۔ سال میں کم از کم ایک مرتبہ میں اپنے گاؤں ضرور جاتی تھی۔ ماں اور بابا کی قبر پر حاضری دیتی، اپنے گھر میں کچھ وقت گزارتی، کبھی کبھی اس چٹان پر جا کر کھڑی ہو جاتی جس سے کود کر میری ماں نے اپنی جان دی تھی۔ اس چٹان پر کھڑی ہو کر میں سمندرکی بپھری لہروں کو دیکھتی پھر ماں کے دل میں غم کی موجوں کو محسوس کرتی تو دکھ کی ایک لہر میرے دل ودماغ میں چھا جاتی۔ میں سوچتی تھی کہ ماں کتنی دکھی ہو گی جب اس نے اپنی جان ان لہروں کے حوالے کی تھی۔ اسے میرا بھی خیال ہو گا کہ میں اس دنیا میں تنہا رہ جاؤں گی پھر بھی اس نے موت کو ترجیح دی تھی۔ اس چٹان پر کھڑے ہو کر چند ایک بار میں نے بھی سوچا کہ ماں اور بابا کی طرح خود کو اس سمندر کی لہروں کے حوالے کر دوں۔ یہخیال آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، میں سر جھٹکتی اور زورسے کہتی، ”نہیں نہیں میں خودکشی نہیں کروں گی۔“
جاپان میں خودکشی عام ہے۔ خودکشی یہاں جرم نہیں ہے اور نہ ہی اسے برا فعل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خودکشی بہادری اور دلیری کا کام سمجھا جاتا ہے۔ جو جتنا اذیت ناک طریقے سے اپنی جان لیتا ہے وہ اتنا ہی بہادر سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال تیس پینتیس ہزار جاپانی اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں نوجوان، ادھیڑ عمر، بوڑھے مرد اور عورتیں سبھی شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک وزیر نے اپنے دفتر میں خودکشی کر لی تھی۔ ہمارا ملک جاپان ترقی یافتہ اور فلاحی ملک ہے۔ شہریوں کو تمام بنیادی زندگی کی سہولتیں میسر ہیں۔ صحت وصفائی کا اتنا اچھا نظام موجود ہے کہ جاپانیوں کی اوسط عمر بلند ترین سطح پر قائم ہے۔ دوسری طرف یہاں کی مشینی زندگی، شب وروز کی مصروفیت، کام کا دباؤ، گھریلو زندگی کا فقدان، تنہائی، دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ اور بے حسی نے لوگوں کو اس زندگی سے بے زار کر دیا ہے۔ آج انسان فطرت اور اس کے طور طریقوں سے دور ہو کر ایک مشینی پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس مشین پر دباؤ جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ خودکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ مختلف انداز میں اپنی جان دے دیتے ہیں۔ بعض زہر پی لیتے ہیں کئی تیز دھار آلات سے اور کئی بلند مقامات سے چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ جاپان کے چند ایک مقامات خودکشی کرنے کے لیے بہت مشہور ہیں۔
میری سپاٹ زندگی میں تازہ ہوا کا جھونکا اس وقت آیا جب میری زندگی میں نوری آیا۔ نوری اور میں ایک ہی دفتر میں ملازم تھے۔ ہم آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔ ہماری محبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن ہم نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد نوری میری فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔ یہ میری زندگی کا نیا اور خوشگوار دور تھا۔ بہت عرصے بعد میری زندگی میں خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔ ماں باپ کی جدائی کے بعد پہلی بار سکون اور مسرت کے لمحات میسر آئے تھے۔ میں نوری کو پا کر بہت خوش تھی وہ بھی مجھے دل وجان سے چاہتا تھا۔ اس وقت ہماری خوشیاں دوبالا ہو گئیں جب ہمارے گلشن میں ایک ننھی پری نے جنم لیا۔ اس ننھی پری میں ہم دونوں کی جان تھی۔ وہ اتنی حسین اتنی پیاری تھی کہ ہم دونوں اس پر جان چھڑکتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد میں نے نوکری چھوڑ دی۔ گھر رہ کر بیٹی اور گھر کا خیال رکھتی۔ نوری کا انتظار کرتی اور ان دونوں کے ساتھ زندگی کے خوبصورت لمحات بتاتی۔ کتنے حسین دن تھے وہ بھی۔ لیکن یہ گنے چنے تھے کیونکہ میری زندگی میں خوشیاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتیں۔
ایک دفعہ پھر طوفان آیا اور میرا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ میرا محبوب شوہر، میری معصوم بیٹی، میری زندگی کی تمام خوشیاں اس طوفان کی نذر ہو گئیں۔ ایک دفعہ پھر میں تنہا رہ گئی۔ یہ 2011کا سونامی تھا جس نے دوسرے بہت سے جاپانیوں کی طرح میرا گھر بھی اجاڑ دیا۔ دونوں باپ بیٹی سکول سے گھر آ رہے تھے کہ سونامی کی لپیٹ میں آ گئے۔ میں ان دونوں کا انتظار کرتی رہی اور وہ مجھے چھوڑ کر اتنا دُور چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ یہ انتطاراب کبھی ختم نہیں ہوگا۔
میری زندگی میں ایک دفعہ پھر غموں کا اندھیرا چھا گیا۔ والدین کی جدائی کے بعد محبوب شوہر اور جان سے پیاری بیٹی کی المناک موت نے میرا دل صدمے سے چور کر دیا۔ یہ اتنا شدید صدمہ تھا اتنا گہرا دکھ تھا کہ میں اسے برداشت نہ کر سکی اور ماں کی طرح موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہو گئی۔
سونامی گزرے کئی دن گزر چکے تھے پورے جاپان میں عموماً اورسمندر کے قریبی علاقوں میں خصوصاً تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ عمارتیں زمین بوس اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں تھیں۔ نظام زندگی درہم برہم ہو گیا تھا۔ جس عمارت میں ہمارا گھرتھا اس کے نچلے حصے میں بھی پانی بھر گیا تھا لیکن پانچویں منزل پر واقع ہمارا فلیٹ محفوظ رہا۔
ٹھیک دو ہفتے بعد میں نے اپنی گاڑی نکالی اور ٹوٹی پھوٹی تباہ حال سڑکوں پر ڈرائیو کرتی ہوئی اپنی گاؤں کی طرف چل پڑی۔ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گزری ہوئی زندگی کے لمحات میرے ذہن کے پردے پر فلم کی طرح چلرہے تھے۔ بچپن کا زمانہ یاد آیا جب مجھے ماں اور بابا کا پیار حاصل تھا اور ہمارا گھر جنت کے باغ کی طرح مہکتا رہتا تھا۔ وہ چھ سال میرے بچپن کا حاصل تھے۔ پھر بابا اور ماں کی موت یاد آئی۔ پھر سکول، یتیم خانہ اور اپنے دفتر کے لوگ یاد آئے۔۔۔ نوری سے ملاقات اور اس کی محبت یاد آئی تو اشک رواں ہو گئے۔ بیٹی کا تصور ذہن میں آیا تو ایسا لگا دل پر آری سی چل گئی ہو۔ اپنے محبوب شوہر اور بیٹی کے ساتھ گزرے چار برس میری جوانی کا حاصل تھے۔ کبھی خوشیوں بھرے مناظر اور کبھی ان خوشیوں کو نگل جانے والے طوفان میرے ذہن میں آندھیوں کی طرح چل رہے تھے۔ ماضی تو ماضی تھا اچھا یا برا، جیسا تیسا گزر گیا لیکن میرا مستقبل تاریکیوں، دکھوں، غموں اور جدائی کے صدموں سے عبارت تھا۔ کہیں بھی روشنی کی کرن نہیں تھی۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ ان دکھوں سے نجات کا ایک ہی راستہ تھااور وہ تھی موت۔ میں اسی موت کی آغوش میں پناہ لینے جا رہی تھی۔
اپنے گاؤں کے قریب چٹان کے پاس میں نے گاڑی روکی تو سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپ گیا تھا اور سمندر کے اوپر سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ اس سرخی میں مجھے ماں اور بابا کے چہرے نظر آئے۔ وہ مسکرا کر اور باہیں پھیلا کرمیرا استقبال کرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ بہت جلد میں ان کے پاس پہنچنے والی تھی۔ چٹان کے ارد گرد کوئی ذی نفس دکھائی نہیں دیا جو میرے لئے خوش آئند بات تھی۔ میں آہستہ آہستہ اوپر چڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ اس کنارے پر جا کھڑی ہوئی جو سمندر کے اوپر جھکا ہوا ہے۔ نیچے سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرا کر جھاگ اُڑا رہی تھیں میں نے آنکھیں بند کر لیں اور چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہو گئی۔ اچانک ایک تیز آواز آئی ”ماں‘‘ میں اسے لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ یہ میری بیٹی کی آواز تھی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں حیران تھی کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے۔ یہ آواز اتنی واضح تھی کہ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا کہ یہ میری بیٹی کی آواز ہے۔ مجھے یوں لگا کہ میری بیٹی مجھے پکار رہی ہے۔ میں بے قرارہو گئی۔ بہت زیادہ بے قرار۔ میں دوڑ پڑی۔ دوڑتی ہوئی گاڑی میں جا بیٹھی، گاڑی اسٹارٹ کی اور گھما کر واپس ٹوکیو کی طرف چل پڑی۔ میرے اندر کے سونامی کا رُخ مڑ چکاتھا۔ دو گھنٹے بعد میں اس یتیم خانے میں بیٹھی ایک فارم بھر رہی تھی جس میں پل کر میں جوان ہوئی تھی۔ میں نے اپنی بقیہ زندگی اس یتیم خانے میں پلنے والے بچوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.